|
٢٧ ۔ خستگی ناپذیر
٢٧ ۔ القُرآنُ ناطِقٌ لا یَعی لِسانُہُ کذلک الحجة القائم عليہ السلام
قرآن ایسا گفتگو کرنے والے ہے کہ اس کی زبان خستہ نہيں ہوتی۔ قائم آل محمد بهی
اسی طرح ہيں۔ منجملہ آیات ميں سے اس کی یہ آیت <الم # ذَلِکَ الکِْتَابُ لاَرَیبَْ فِيہِ ہُدًی
) لِلمُْتَّقِينَ> ( ١
الم، یہ وہ کتاب ہے جس ميں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے متقين کے ليے
ہدایت ہے۔
حروف مقطعات جو بعض قرآنی سوروں کی ابتدا ميں ذکر ہوئے ہيں وہ قرآن کریم کی
منجملہ خصوصيات ميں سے ایک ہے جو اس آسمانی کتاب کے علاوہ نہيں مل سکتی۔
مفسرین نے اس کے معانی ميں اختلاف کيا ہے، شيخ بزرگوار علامہ طبرسی عليہ الرحمہ نے
مجمع البيان ميں اسی آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں گيارہ اقوال ذکر کيے ہيں اس کی طرف اشارہ
کرنا اگرچہ مختصر طور پر ہی کيوں نہ ہو فائدے سے خالی نہيں ہے۔
١۔ یہ کہ وہ (حروف مقطعات) متشابهات قرآن ہيں، اس کے علم کو خداوند عالم نے اپنی
ذات سے مخصوص کيا ہے اور اس خدائے سبحان کے علاوہ اس کی تاویل اور باطن کا علم
کسی فرد بشر کو نہيں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢۔ ، ١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١ (
٢۔ وہ سب کا سب اسی سورہ کا نام ہے جو اس کی ابتدا ميں واقع ہوا ہے۔
٣۔ وہ تمام قرآن کے اسمائے گرامی ہيں۔
۴۔ اسمائے الٰہی کے ليے دليل و رہنما ہے جيسے (الم) اس کا معنی یہ ہے (ان الله اعلم
) یعنی ميں خدا جاننے والا ہوں “المر” یعنی “انا اعلم و اری” ميں خدا جاننے اور دیکهنے والا
ہوں۔ “المص” یعنی “انا الله اعلم و افضل” ميں خدا جاننے والا اور افضل ہوں۔ اسی طرح بقيہ تمام
سوروں کے حروف مقطعات ہيں۔
۵۔ اسمائے الٰہی ہيں جب کبهی حروف مقطعات کی تاليف و جمع آوری کرنا ممکن ہو تو
اسم اعظم الٰہی کی راہ تک رسائی بهی ممکن ہوتی ہے۔
۶۔ یہ وہ قسميں ہيں کہ خداوند تبارک و تعالیٰ ان حروف کے ذریعہ قسم کهاتا ہے کہ
قرآن کلام الٰہی ہے اور وہ شریعت ہيں کيوں کہ آسمانی نازل شدہ کتابوں کے تمام مبانی و
اصول اور اسمائے حسنائے الٰہيہ اور صفات الٰہيہ او ر لغات کے اصول اپنے تمام اختلافات کے
ساته اس ميں موجود ہيں۔
٧۔ نعماتِ الٰہيہ کی طرف اشارہ ہے اور بلاؤں اقوام و ملل کی مدتوں بلاؤں ان کی عمروں
نيز اموات کی طرف بهی ۔
٨۔ ان سے مراد اس امت کی بقا کی طرف اشارہ ہے حساب جمل (ابجد) کی دلالت کی
بنا پر۔
٩۔ مراد حروف معجم ہيں۔
١٠ ۔ کفار کو خاموش کرانے کے ليے ہےں کيوں کہ مشرکين اپنے درميان یہ نصيحت کرتے
تهے کہ قرآن سماعت نہ کریں اور بے ہودہ گفتگو ميں مصروف رہيں، جيسا کہ قرآن مجيد خود
اپنے اس قول سے اس بات کی حکایت کرتا ہے:لاتَسمَْعُوا لِہَذَا القُْرآْنِ وَالغَْواْ فِيہِ لَعَلَّکُم تَغلِْبُونَ
)١) <
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فصلت، آیت ٢۶ ۔ (
”اس قرآن کو ہرگز مت سنو اور اس کی تلاوت کے وقت ہنگامہ کرو شاید اسی طرح ان پر
غالب آجاؤ۔ کبهی سيڻی بجاتے تهے اور کبهی تالياں اور کبهی مغالطہ دیتے تهے تاکہ شاید
پيغمبر اسلام کو اس کی تلاوت ميں مغالطہ ميں ڈال دیں الله تعالیٰ نے ان حروف کو نازل فرمایا،
جب کبهی (یہ حروف مقطعات) سنتے تهے تو ان کے ليے یہ عجيب و غریب معلوم ہوتا تها اور
اسے سنتے تهے اس ميں غور وفکر کرتے تهے اور اپنے ذاتی معاملات اور حالات کو ترک کر
دیتے تهے لہٰذا قرآن ان کی سماعتوں پر نفوذ کر جا تا تها۔
١١ ۔ حروف تہجی کے تعداد کی طرح ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ وہی قرآن ہے کہ
تم اس کا جواب لانے سے قاصر ہو وہ انہيں حروف مقطعات کی جنس سے تشکيل پایا ہے کہ
تم اپنے خطبوں اور اپنے کلام ميں گفتگو کے وقت استعمال کرتے ہو، لہٰذا اگر ان پر قدرت نہيں
رکهتے تو پهر یہ جان لو اور تسليم کرلو کہ یہ الله تعالیٰ کی جانب سے ہے۔
ان کے علاوہ اور بهی دوسرے معانی ذکر ہوئے ہيں قارئين کرام معتبر تفسيروں کی طرف
رجوع کریں۔ ان مجموعی حروف سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ خدائے سبحان اور رسول اسلام
(ص) کے درميان مخفی اسرار و رموز ہيں کہ جہاں تک ہمارے عام افہام و ادراک کا طائرِ فکر پرواز
نہيں کرسکتا مگر صرف اس حد تک واقف ہوسکتے ہيں کہ ان کے اور ان کے اندر موجودہ
) مضامين ميں ایک خاص ارتباط پایا جاتا ہے۔ ( ١
۵۵١ ۔ اہل سنت و الجماعت نے اميرالمومنين علی - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے
فرمایا: “لِکُلّ کِتابٍ صَفوةٌ وَصفوةُ هذا الکِتابِ حُرُوفُ التَہجَّی“
ہر کتاب کے ليے ایک منتخب موجود ہے اور اس کتاب (قرآن) کا منتخب، حروف تہجی ہيں۔
کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الميزان، ج ١٨ ، ص ۶۔ (
کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔
”قيلَ انَّ اللّٰہ وَعَدَ نَبَيّہ ان یُنْزِلَ عَلَيْہِ کِتاباً لا یمحُوہُ المآءِ ولا یخلَق عَليک کَثَرة الردِّ فَلما
انزَلَ القْرآن قالَ هذا القْرآن ذلِکَ الکِتابُ الَّذی وَعَدنک ( ١) قيل معناہ هذَا القُرآنِ ذلِکَ الکِتابُ الذَّی
وَعَدمکَ بِہِ فی الکتُبِ السّالِفَة ( ٢) و فی تفسير الامام : یعنی القرآن الّذی افتح بالٓم ”۔
کہا گيا ہے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نبی سے وعدہ کيا کہ ان پر ایک کتاب نازل کرے کہ
جسے پانی نہ مڻا سکے اور کثرت تردید کی بنا پر وہ کہنہ نہ ہوسکے، لہٰذا جب قرآن نازل کيا تو
کہا : یہ قرآن وہی کتاب ہے کہ جس کا تم سے وعدہ کيا تها اور کہا گيا ہے کہ اس کا معنی یہ
ہے کہ یہ قرآن وہ کتاب ہے جس کا گزشتہ کتابوں ميں تم سے وعدہ کيا تها۔ اور اما م کی ایک
تفسير ميں کہا گيا ہے: یعنی وہ قرآن جو الم کے ذریعہ شروع کيا گيا۔
)هدی للمتقين) : اصل تقویٰ کيا ہے اور متقين کون افراد ہيں۔
۵۵٢ ۔ “روی عن النبی (ص) انّہ قال معنی التّقویٰ فی قولہ تع الیٰ اِنّ اللّٰہ یاٴمرکُم
بِالعَدل والاِحسانِ“ <
قيل : متقی الذی اتَّقی ماحَرمَ عَلَيہِ وَفَعَلَ ما اوجَبَ عَليہِ وقيل : هُوَ الَّذی یتقَیِ صالحٍ
اعمالِہِ عَذابَ اللہِّٰ
حضرت رسول اکرم (ص) سے مروی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: معنی کے لحاظ
سے تمام تقویٰ اس آیت ميں جمع ہوگيا ہے یہ کہ الله تعالیٰ تمہيں عدل و احسان کا حکم دیتا
ہے “ متقی وہ شخص ہے جو خود کو محرمات الٰہيہ سے محفوظ رکهے اور واجبات کو بجالائے۔
اور یہ بهی کہا گيا ہے: متقی وہ شخص ہے جو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع ميں فراء اور ابو علی جبائی سے منقول ہے۔ (
٢(۔ مجمع ميں مبرد سے منقول ہے۔ (
اپنے اعمال صالحہ کے ذریعے عذاب الٰہی سے نجات بخشے۔
۵۵٣ ۔ “ روی عَنِ النَّبیِ (ص) اِنَّہ قالَ اِنَّما قال سُمِّیَ المتَقُونَ الترکِهِم مالا باسَ بِہِ حَذَراً
للوقُوعِ فيما بِہِ بَاٴسٌ ، وَقالَ بعضَهم التقویٰ ان لا یراکَ اللّٰہ حَيث نَهاکَ وَلا یفقُدَکَ حيث امَرَکَ ”
)١)
پيغمبر اکرم (ص) سے مروی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: متقی کو متقی اس ليے
کہتے ہيں کہ وہ ان چيزوں کو انجام دینا ترک کرتا ہے جواسلام کی نظر ميں منع نہ کی گئی ہوں
تاکہ کبهی ایسا نہ ہو کہ ان چيزوں ميں گرفتار ہو کہ جس کا بجالانا اسلام کی نظر ميں جائز
نہيں ہے۔
اور بعض افراد نے تقویٰ کا معنی یوں کيا ہے: “الله تمہيں اس مقام پر دیکهے جہاں تمہيں
بر محل رہنے کا حکم دیا ہے اور تمہيں اس مقام پر نہ دیکهے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔
”هُوَ ذلِکَ الکِتابِ الَّذی اخبَرَت بِہِ موسیٰ وَمن بعدہ مِنَ الاٴنبياء وَهُم اخبَروا بنی اسرائيلَ
انی ساٴنزلِہ عَليک یا محمّد (ص) لاریب فيہ هدی للمتقين“
یہ وہی کتاب ہے کہ جس کی موسی کو خبر دی گئی اور ان کے بعد آنے والے انبياء کو
اور ان لوگوں نے بنی اسرائيل کو خبر دی کہ یقينا ميں اسے آپ پر اے محمد نازل کروں گا اس
ميں کوئی شک نہيں ہے یہ صاحبان تقویٰ کے ليے ہدایت ہے۔
اور سوروں کے آغاز ميں حواميم اور طواسين وغيرہ سے کتاب کی طرف اشارہ کيا گيا
ہے جو قرآن کریم ہے۔
جيسے سورئہ مومن ميں : <حٓم # تَنزیلُ الکِتاب مِنَ اللّٰہِ العزیزِ الحکيمِ> حم یہ خدائے
عزیز و عليم کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ جيسے سورئہ فصلت ميں : حٓم # تَنزیلٌ
مِنَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، طبرسی، ج ١، ص ٣٧ ۔ (
الرحمٰنِ الرَّحيم# کِتابٌ فصّلت آیاتہ قرآناً عَرَبياً یقومٍ یعلموُنَ> حم یہ خدائے رحمن و رحيم کی
تنزیل ہے اس کتاب کی آیتيں تفصيل کے ساته بيان کی گئی ہے عربی زبان کا قرآن ہے اس قوم
کے ليے جو سمجهنے والی ہو۔ سورئہ دخان ميں: <حٓم # وَ الکِتابِ المبينِ اِنا انزَلناہُ في لَيلَةٍ
مُبارَکَةٍ اِنا کُنّا مُنذِرینَ> حم روشن کتاب کی قسم ہم نے قرآن کو ایک مبارک رات ميں نازل کيا
ہے ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تهے۔
اسی طرح طواسين کی مثاليں جيسے سورئہ نمل ميں: طٓس # تِلکَ آیاتُ القرآنِ وَ
کِتابٍ مُبينٍ
طس یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتيں ہيں۔ سورئہ قصص ميں طٓسمٓ # تِلک آیاتُ
الکِتابِ المُبينِ
طسم یہ کتاب مبين کی آیتيں ہيں۔
قولہ تعالیٰ: ذلِکَ الکِتابُ لا ریبَ فيہ هُدیِ للمتقين
یعنی یہ کتاب جو قرآن کریم ہے کبهی بهی اس ميں شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے
یہ صاحبان تقویٰ اور پرہيز گار لوگوں کے ليے مجسم ہدایت ہے۔ متقين سے ہدایت مخصوص ہونے
کی علت یہ ہے کہ اگرچہ قرآن تمام لوگوں کی ہدایت کرنے والا ہے مگر چونکہ متقين ہی قرآن
سے فائدہ اڻهاتے ہيں اور اس کی ہدایت سے ہدایت یافتہ ہوتے ہيں۔
قابل ذکر یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے بعد والی آیت ميں متقين کے اوصاف کو تفصيل کے
ساته بيان فرما دیا ہے <الَّذِینَ یُؤمِْنُونَ بِالغَْيبِْ وَیُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقنَْاہُم یُنفِقُونَ # وَالَّذِینَ
) یُؤمِْنُونَ بِمَا اٴُنزِْلَ إِلَيکَْ وَمَا اٴُنزِْلَ مِن قَبلِْکَ وَبِالآْخِرَةِ ہُم یُوقِنُونَ > ( ١
اسی کے ذیل ميں الله تعالیٰ کا یہ قول بهی ہے۔ <إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ >
)٢)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ ، ١(۔ سورئہ بقرہ،آیت ٣ (
٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
جو غيب پر ایمان رکهتے ہيں پابندی سے پورے اہتمام کے ساته نماز ادا کرتے ہيں اور جو
کچه ہم نے رزق دیا ہے اس ميں سے ہماری راہ ميں خرچ بهی کرتے ہيں ۔ وہ ان تمام باتوں پر
بهی ایمان رکهتے ہيں جنہيں (اے رسول !) ہم نے آپ پر نازل کيا ہے اور جو آپ سے پہلے نازل
کی گئی ہيں اور آخرت پر بهی یقين رکهتے ہيں۔
بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو تمام ملتوں کی بہ نسبت بالکل
سيدها ہے۔
۵۵۴ ۔ “ وفی الکافی عن الصادق عليہ السلام ای یدعو وعنہ عليہ السلام یهدی الیٰ
) الامام ” ( ١
کافی ميں امام جعفر صادق - فرماتے ہيں: “یهدی” بمعنی “یدعوا” ہے یعنی قرآن امام
- کی طرف دعوتِ ہدایت دیتا ہے۔
) ”وعن الباقر عليہ السلام یهدی الیٰ الولایة ” ( ٢
امام محمد باقر - فرماتے ہيں: (قرآن) ولایت کی طرف دعوت دیتا ہے۔
۵۵۵ ۔ “وفی المعانی عن الصادق عليہ السلام وعن ابيہ عن جدّہ السّجاد عليہ السلام :
الامِامُ مِنّا لا یکُونَ اِلَّا مَعصُوماً وَلَيْسَت العِصمَةُ فی ظاہِرِ الخِلقةَ فيُعرَفَ بِها وَلذلک لا یکُون الاَّ
منصُوصاً فَقيلَ ما مَعنی المعصُومِ قالَ هُوَ المعتصِمُ بحبلِ اللّٰہ وَحَبلُ اللّٰہ هَوَ القُرآن والقرآنُ یهدیّ
الَی الامِامِ وَذلِکَ قولُ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ <اِنَّ هذا القْرآن یَهدی للَّتی هِیَ اَقومُ > ” ( ٣) امام صادق -
نے معانی الاخبار ميں اپنے پدر بزرگوار اور اپنے جدِّ امجد امام سجاد سے روایت کی ہے کہ
حضرت نے فرمایا: لوگوں کا امام اور سرپرست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
٣(۔ الميزان سے اقتباس، ج ١٣ ، ص ۴٨ ۔ (
ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا
وجود خارجی پایا جاتا ہے اور خلقت انسانی کے ظاہر سے وہ نمایاں اور پہچانی جائے۔ لہٰذا الله
تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔
کہا گيا: اے رسول خدا (ص)! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا
ہے اور اس آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو
بالکل سيدها ہے “
الله تعالیٰ نے فرمایا: <فَاٴَقِم وَجہَْکَ لِلدِّینِ حَنِيفًا فِطرَْةَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَيہَْا لاتَبدِْیلَ
) لِخَلقِْ اللهِ ذَلِکَ الدِّینُ القَْيِّمُ > ( ١
آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکهيں اور باطل سے کنارہ کش رہيں کہ یہ دین وہ فطرت
الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پيدا کيا ہے اور خلقت الٰہی ميں کوئی تبدیلی نہيں
ہوسکتی ہے یقينا یہی سيدها اور مستحکم دین ہے۔
یہ تمام دعوت دین حنيف و قيم کی طرف صرف اس ليے ہے کہ یہ دین ان چيزوں کا حافظ
و نگہبان ہے جس ميں لوگوں کے ليے دنيا و آخرت کی بهلائی پائی جاتی ہے۔ اور ان کے حالات
) معاش و معاد کی اصلاح کا سرپرست ہے۔ ( ٢
اسی کے ذیل ميں الله تعالیٰ کا یہ قول ہے: <وَعِندَْہُ مَفَاتِحُ الغَْيبِْ لاَیَعلَْمُہَا إِلاَّ ہُوَ (الیٰ
) قولہ) وَلارَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٣
اور اس خدائے تبارک و تعالیٰ کے پاس غيب کے خزانے ہيں جنہيں اس کے علاوہ کوئی
نہيں جانتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ روم، آیت ٣٠ ۔ (
٢(۔ الميزان سے اقتباس، ج ١٣ ، ص ۴٨ ۔ (
٣(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے کوئی پتہ بهی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے۔
زمين کی تاریکيوں ميں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر
محفوظ نہ ہو۔
قرآن مجيد یا امام مبين کی جو تفسير کی گئی ہے وہ حضرت امير المومنين علی ابن
ابی طالب - کا مقدس وجود ہے۔
گفتگو غيب کی ہے۔غيب کيا ہے؟ کيا علم غيب مطلقاً ذات اقدس الٰہی ميں منحصر ہے؟
”قال الراغب فی المفردات : “ الغيب مصدر غابت الشمس وغيرها اذ استرت عن العين
یقال غاب عنی کذا ” ( ١) الغيبت ، غابت الشمس کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چيز کے
نگاہوں سے اوجهل ہوجانے کے ہيں۔ چنانچہ محاورہ ہے۔ غاب عنی کذا فلاں شے ميری نگاہ
سے اوجهل ہوگئی۔ یعنی جب آفتاب کا ہالہ ہماری ظاہری اور مادی آنکهوں سے پوشيدہ ہوگيا تو
غيبت ہوجاتی ہے یعنی آفتاب یا دوسری چيزیں ہم سے غائب ہوجاتی ہيں بعد ميں یہ لفظ ہر
اس شے کے ليے استعمال ہونے لگا جو حواس ظاہری سے غائب ہے اور جو کچه انسانی علم و
دانش سے مخفی ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَمَا مِن غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٢
اور آسمان و زمين ميں کوئی پوشيدہ چيز ایسی نہيں ہے جس کا ذکر کتاب مبين ميں نہ
ہو۔ (وہ لوح محفوظ ميں تحریر ہے)۔
کبهی غيب اور غائب شے پر اطلاق ہوتا ہے البتہ لوگوں کی بہ نسبت نہ خدا کے ليے۔
کيوں کہ الله تعالیٰ کی ذات سے کوئی شے مخفی و پوشيدہ نہيں ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: یَعلَْمُ مَا یَلِجُ فِی الاْٴَرضِْ وَمَا یَخرُْجُ مِنہَْا وَمَا یَنزِلُ مِن السَّمَاءِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مفردات راغب، ص ٣۶۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ نمل،آیت ٧۵ ۔ (
وَمَا یَعرُْجُ فِيہَا وَہُوَ الرَّحِيمُ الغَْفُورُ # وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لا تَاٴتِْينَا السَّاعَةُ قُل بَلَی وَرَبِّی لَتَاٴتِْيَنَّکُم عَالِمِ
الغَْيبِْ لا یَعزُْبُ عَنہُْ مِثقَْالُ ذَرَّةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَلا فِی الاْٴَرضِْ وَلاَاٴَصغَْرُ مِن ذَلِکَ وَلاَاٴَکبَْرُ إِلاَّ فِی کِتَابٍ
) مُبِينٍ > ( ١
خداوند متعال جانتا ہے کہ زمين ميں کيا چيز داخل ہوتی ہے اور کيا چيز اس سے نکلتی
ہے اور کيا چيز آسمان سے نازل ہوتی ہے اور کيا اس ميں بلند ہوتی ہے اور وہ مہربان اور
بخشنے والا ہے۔ اور کفار کہتے ہيں کہ قيامت آنے والی نہيں ہے تو آپ کہہ دیجيے کہ ميرے
پروردگار کی قسم! وہ ضرور آئے گی وہ عالم الغيب ہے اس کے علم سے آسمان و زمين کا
کوئی ذرہ دور نہيں ہے اور نہ اس سے چهوڻااور نہ بڑا بلکہ سب کچه اس کی روشن کتاب ميں
محفوظ ہے (وہ لوح محفوظ ميں تحریر ہے)۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <عالِمُ الغَيب وَ الشّهادةِ العَزیز الحَکيمُ> وہ عالم الغيب و الشہادت
ہے غالب اور حکيم ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلِلَّہِ غَيبُْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَإِلَيہِْ یُرجَْعُ الاْٴَمرُْ کُلُّہُ فَاعبُْدہُْ وَتَوَکَّل ) عَلَيہِْ وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعمَْلُونَ > ( ٢
اور صرف الله ہی کے ليے آسمان اور زمين کا کل غيب ہے اور اسی کی طرف تمام امور
کی بازگشت ہے لہٰذا آپ اس کی عبادت کریں اور اسی پر اعتماد کریں کہ آپ کا رب لوگوں کے
اعمال سے غافل نہيں ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلِلَّہِ غَيبُْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَمَا اٴَمرُْ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمحِْ البَْصَرِ اٴَو ہُوَ
) اٴَقرَْبُ إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیءٍْ قَدِیرٌ > ( ٣
آسمان و زمين کا سارا غيب صرف الله ہی کے ليے ہے اور قيامت کا حکم تو صرف ایک
پلک جهپکنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ سبا، آیت ٢،٣ ۔ (
٢(۔ سورئہ ہود، آیت ١٢٣ ۔ (
٣(۔ سورئہ نحل، آیت ٧٧ ۔ (
کے برابریا اس سے بهی قریب تر ہے اور یقينا الله ہر شے پر قدرت رکهتا ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول : < قُل اللهُ اٴَعلَْمُ بِمَا لَبِثُوا لَہُ غَيبُْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ اٴَبصِْر بِہِ
) وَاٴَسمِْع مَا لَہُم مِن دُونِہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَیُشرِْکُ فِی حُکمِْہِ اٴَحَدًا > ( ١
آپ کہہ دیجيے کہ الله ان کی مدت قيام سے زیادہ باخبر ہے اسی کے ليے آسمان و
زمين کا سارا غيب ہے اور اس کی سماعت و بصارت کا کيا کہنا ان لوگوں کے ليے اس کے علاوہ
کوئی سرپرست نہيں ہے اور نہ وہ کسی کو اپنے حکم ميں شریک کرتا ہے۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <فَقُل إِنَّمَا الغَْيبُْ لِلَّہِ فَانتَْظِرُوا إِنِّی مَعَکُم مِن المُْنتَْظِرِینَ > ( ٢
آپ کہہ دیجيے کہ تمام غيب کا اختيار پروردگار کو ہے اور تم انتظار کرو اور ميں بهی
تمہارے ساته انتظار کرنے والوں ميں ہوں۔
مذکورہ آیات وغيرہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ علم غيب ذاتِ اقدس الٰہی سے مخصوص
ہے۔
ليکن سورئہ جن کی آیت نمبر ٢٧ سے یوں استفادہ ہوتا ہے۔
) >وَمَا کَانَ اللهُ لِيُطلِْعَکُم عَلَی الغَْيبِْ وَلَکِنَّ اللهَ یَجتَْبِی مِن رُسُلِہِ مَن یَشَاءُ > ( ٣
اور وہ تم کو غيب پر مطلع نہيں کرنا چاہتا ہاں اپنے نمائندوں ميں سے کچه لوگوں کو اس
کام کے ليے منتخب کر ليتا ہے۔
چنانچہ باب “بدا” ميں کہا گيا ہے ، وہ علم جس ميں بدا حاصل ہوجاتا ہے وہ ذاتِ پروردگار
متعال سے مخصوص ہے اور کوئی بهی شخص اس سے واقف نہيں ہے۔ جو کچه ہماری فکر
قاصر ميں خطور کيا ایک مثال کے ضمن ميں آپ کے ليے بيان کر رہے ہيں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ کہف، آیت ٢۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ یونس، آیت ٢٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٧٩ ۔ (
مثلاً: خداوند متعال ایک بندے کی عمر پچاس سال معين و مقدر فرماتا ہے اور انبياء و
ائمہ کے ذریعے بيان فرماتا ہے کہ جب کبهی کوئی شخص صلہ رحم انجام دے تو اس کی عمر
ميں اضافہ ہوتا ہے۔
اور وہ شخص صلہٴ رحم انجام دیتا ہے اور اس کی عمر ساڻه سال تک مزید بڑه جاتی
ہے۔ لہٰذا ہم یہاں کہيں گے کہ: خداوند متعال پيغمبر یا امام کو اطلاع دیتا ہے کہ اس شخص کی
عمر پچاس سال ہے، ليکن چوں کہ وہ شخص صلہٴ رحم کرتا ہے اور اس کی عمر ميں اضافہ
ہوجاتا ہے، کوئی بهی شخص سوائے اس کی ذات کے اس کا علم نہيں رکهتا۔ اس بنا پر وہ
مسائل جن ميں “بدا” واقع نہيں ہوتا اور کوئی تغير نہيں پيدا ہوتا اس کا علم معصومين کے
اختيار ميں قرار دیتا ہے۔
علامہ مجلسی عليہ الرحمہ بهی علم ائمہ کے متعلق قائل ہيں: “وہ علم جو ائمہ
کے ليے وسيع یا کم ہوتا ہے وہ ان مسائل اور ان امور کے علاوہ ہيں کہ جس کے متعلق لوگ
امام سے دریافت کرتے ہيں۔ کيوں کہ امام - دینی احکام اور لوگوں کی ضروریات زندگی سے
مربوط سوالات کو ہميشہ جانتے ہيں۔ چنانچہ اس سلسلے ميں مخصوص روایت بهی موجود ہے۔
یہ ممکن نہيں ہے کہ امام - سے ایک مسئلہ دریافت کریں اور وہ کہے کہ ميں نہيں جانتا۔ اس
بنا پر امام - کے علم سے مراد لوگوں کی ضروریات زندگی کے علاوہ ہے۔ اور وہ علوم اسرار و
رموز ميں سے ہيں ہم اس سے واقفيت نہيں رکهتے۔ اور یہی علوم (اسرار) ہيں جو روزانہ شب و
روز اور شبہائے قدر اور جمعہ ميں امام کے ليے حاصل ہوتے ہيں۔
۵۵۶ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن معمر بن خَلادٍ قالَ سَاٴلَ اَبا الحَسنَ عليہ السلام رَجُلٌ
مِن اهل فارسٍ فقالَ لَہُ تعلمون الغيبَ ؟ فَقالَ قالَ اَبو جعفر عليہ السلام یُبسَطُ لَنا العِلمُ فَلا تعلَم
ویقبض عَنا فَلا نَعلَْم وقالَ سِرّاللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ اسرَّہُ اِل یٰ جبرئيلَ عليہ السلام وَاَسرَّہُ جَبرئيلُ اِل یٰ
) محمَّدٍ (ص) وَاسَرَّہُ محمدٌ اِلیٰ مَن شاء اللّٰہَ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، باب نادر فيہ ذکر الغيب ، ص ٢۵۶ ، حدیث ١۔ (
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته معمر ابن خلاد سے نقل کيا ہے
کہ ان کا بيان ہے : امام علی رضا - سے ایک اہل فارس نے دریافت کيا کہ کيا آپ علم غيب
جانتے ہيں؟ فرمایا کہ امام محمد باقر نے فرمایا ہے کہ : جب علم الٰہی ہمارے ليے کشادہ ہوتا
ہے (الہام یا فرشتہ کی خبر وغيرہ سے) تو ہم جانتے ہيں اور جب ایسا نہيں ہوتا تو ہم نہيں
جانتے یہ علم تو الله تعالیٰ نے ایک راز کے طور پر رکها ہے جسے اس نے جبرئيل - کو سونپا
اور جبرئيل - نے محمد (ص) کو بطور راز سپرد کيا اور انہوں نے جس کو چاہا سپرد کيا۔
چنانچہ باب بدا ميں کہا گيا ہے کہ وہ علم جس ميں بدا حاصل ہوتا ہے وہ ذات الٰہی سے
مخصوص ہے کسی شخص کو بهی اس کا علم نہيں ہے۔ جو کچه ہماری فکر قاصر ميں خطور
کيا ایک مثال کے ضمن ميں بيان کر رہے ہيں: صرف خدا اور اس کے تمام حجج عالم ہيں جو کچه
کہتے ہيں مثلاً الله تعالیٰ ایک بندے کی عمر پچاس سال معين و مقدر فرماتا ہے اور انبياء و ائمہ
کے ذریعے بيان فرماتا ہے کہ جب کبهی کوئی شخص صلہٴ رحم انجام دے تو اس کی عمر ميں
اضافہ ہوتا ہے اور وہ بندہ صلہٴ رحم انجام دیتا ہے اور اس کی عمر ساڻه سال تک مزید بڑه جاتی
ہے۔ ہم یہاں کہيں گے کہ: اگر خدا چاہے تو پيغمبر اور امام کو باخبر کرے کہ اس بندے کی عمر
پچاس سال معين و مقدر تهی ليکن اس امر کی بہ نسبت یہ معلوم ہونا کہ بندہ صلہٴ رحم انجام
دے گا اور اس کی عمر ساڻه سال تک مزید بڑه جائے گی صرف ذات احدیث سے مخصوص ہے
اور دوسرا شخص اس سے آگاہ نہيں ہے۔
ليکن ان امور کی بہ نسبت کہ جسے مقدر و معين اور امضا کيا ہے اور اس ميں بدا واقع
نہ ہو تبدیلی نہ ہو ان کے متعلق پيغمبر اور ائمہ کو اطلاع دی جاتی ہے جيسے بندے کی عمر
پچاس سال معين ہوئی اور اس نے صلہٴ رحم انجام نہيں دیا تو پچاس سال کی عمر ميں انتقال
کر جائے گا۔
اٰقل سَمِعتُْ حُمرانِ بنِْ اَعيُْن سَاٴلُ اَبا جعفَر رِ الصَيرَفی ۵۵٧ ۔ “وَفيہ بِاس اٰندِہِ عَن سُدی
عليہ السلام عَنْ قولِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ بَدیعُ السَمٰوٰاتِ وَالاٴَرْضِ قٰال اَبو جَعْفَر عليہ السلام اِنَّ اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ اِبتَْدَعَ الاش اٰيء کلها بعلمہ علی غير مثالٍ کانَ قبلہ فابتدع السَّ مٰواتِ وَالاٴَرضينَ وَلَم یَکن
قبلهُنَّ سَماواتٍ وَلا ارَضُونَ اَما تَسمَعِ لِقولِہ تعال یٰ <وَکانَ عَرشُہُ عَلَی المآءِ > فَقال لَہُ حُمرانُ
اٴَریتَ قولْہ جَلَّ ذِکرُہ <عالِمُ الغيبِ فَلا یظهِرُ عَل یٰ غيبِہ اَحَداً > فَقالَ ابو جَعفرٍ عليہ السلام <الِاَّ
مَن ارتض یٰ مِن رَسُولٍ > وَکانَ وَاللہِّٰ محمَّدٌ مِمَّن ارِتَضاہُ وَامّا قولہُ <عالِمُ الغَيبِ> فَانَّ اللّٰہ عَزوجلَّ
عالِمٌ بِما غابَ عَن خَلقِہِ فيما یُقَدِّرُ مِن شیءٍ وَیقضيہِ فی عِلمِہِ قَبلَ اَن یخلقُہُ وَقَبلَ ان یخلقَہُ وَقَبلَ
ان یفضِيَہُ اِلیٰ المَلائِکَةِ فَذالِکَ یا حُمران عِلمٌ موقوفٌ عِندہُ اليہِ فيہِ المشّئية فَيَقضِيہ اِذا ارادَ
ہ فَهُو العِلمُ الذی وَیَبدولہ فيہِ فَلا یمضيِہ فَامَّا العِلمُ الَّذی یُقدرّہُ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ فيقضيہ ویمضی
) انْتَهی اِلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) ثُمَّ الينٰا ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند سدیر صيرفی سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے
حمران ابن اعين کو امام محمد باقر - سے آیہٴ کریمہ <بدیع السموات و الارض> کے متعلق
دریافت کرتے ہوئے سنا تو حضرت نے فرمایا: الله تعالیٰ نے ہر شے کو اپنے علم سے ایجاد کيا
ہے بغير اس کے کہ کوئی مثال اس سے پہلے ہو اس نے تمام زمين و آسمان کو پيدا کيا جب کہ
اس سے پہلے زمين و آسمان نہ تهے کيا تم نے الله تعالیٰ کا یہ قول نہيں سنا کہ فرمایا: “اس
کا عرش پانی پر تها” لہٰذا اگر آسمان و زمين تهے تو خدا کا عرش اس پر برقرار ہوتا حمران نے
عرض کيا: مجهے اس آیت کے معنی بتائيے جو خدائے عزوجل کے قول کو نقل کر رہی ہے “عالم
الغيب خدا ہے اور کسی کو اپنے علم غيب سے آگاہ نہيں کرتا”۔
امام - نے فرمایا: آیت کے ذیل ميں مزید یہ بهی تو بيان فرمایا ہے: “مگر اپنے رسولوں
ميں سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص نادر فيہ ذکر الغيب، ص ٢۵۶ ، حدیث ٢۔ (
جس کو بهی چن ليا”۔ اور خدا کی قسم! محمد مصطفی (ص) ان لوگوں ميں سے ہيں جن کو
الله نے منتخب کيا ہے۔ ليکن یہ قول جو فرماتا ہے: “خدا غيب کو جانتا ہے” تو یقينا خدائے عزوجل
ہر اس شے کا عالم ہے جو اس کی مخلوق سے غائب ہے اس چيز کی بہ نسبت جو وہ اپنے
علم ميں مقدر فرماتا ہے اور حکم دیتا ہے قبل اس کے کہ اس کو خلق کرے اور قبل اس کے کہ
ملائکہ کو اس کا علم ہو۔ اے حمران! یہ علم اسی کے پاس محفوظ ہے جب اس کی مشيت
ہوتی ہے تو اس کو جاری و نافذ کرتا ہے (یعنی ملائکہ کو بتاتا ہے) اور کبهی اس کی بہ نسبت
بدا واقع ہوتا ہے اور اسے جاری و نافذ نہيں کرتا۔ ليکن وہ علم جسے خداوند متعال نے مقدر کيا
حکم و امضاء فرمایا وہ ایسا علم ہے کہ جسے سب سے پہلے پيغمبر (ص) کو عطا کرتا ہے پهر
ہم تک پہنچا دیتا ہے۔
۵۵٨ ۔ “وَفی البصائر باسنادہ عَن عُمَر بنِ حنظَلَة قالَ قُلتُ لاَبی جعفرٍ عليہ السلام اِنِّی
اظُنّ انَّی لی عِندکَ منَزلَةً قالَ اجَل قالَ قُلتُ فَانَّ لی اليکَ حاجَة قالَ وَماهَی قالَ قُلتُ تعلِّمنی
الاسِمَ الاٴعظَمِ قالَ وتطيقُةُ قُلتُ نَعَم قالَ فادخُلِ البَيتَ قالَ فَدَخَلِ البَيتَ فَوَضَعَ ابُو جَعفرٍ عليہ
السلام یَدَہُ عَلَی الاٴَرضِْ فاظلَم البَيتُ فَارعَدت فَرایصُ عُمَرٍ فَقالَ ما تقُولُ اُعَلِمَکَ فَقالَ لا قالَ فَرَفَعَ
) یَدَہُ فَرَجَعَ البَيتَ کَما کانَ ” ( ١
بصائر ميں بطور مسند عمر ابن حنظلہ سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے کہ: ميں نے
حضرت ابو جعفر امام محمد باقر - سے عرض کيا: ميں ایسا خيال کرتا ہوں کہ ميری آپ کے
نزدیک کوئی قدر و منزلت ہے۔ فرمایا: ہاں ميں نے عرض کيا: تو پهر ميری آپ سے ایک ضرورت
درپيش ہے۔ فرمایا: کيا ہے؟ ميں نے عرض کيا: ميں چاہتا ہوں کہ آپ مجهے اسم اعظم کی تعليم
دیں۔ فرمایا: اس کی طاقت کے حامل ہو؟ ميں نے عرض کيا: ہاں ، فرمایا: تو پهر گهر ميں داخل
ہوجاؤ راوی کا بيان ہے: حضرت بهی داخل ہوئے پهر اپنا دستِ مبارک زمين کے اوپر رکها گهر
بالکل تاریک ہوگيا، (عمر ابن حنظلہ اس حالت کا مشاہدہ کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، نادر من الباب، ص ٢١٠ ، حدیث ١۔ (
ہی لرزہ بر اندام ہوگئے ان کی ہڈیاں اور اعضائے بدن لرزنے لگے پهر حضرت نے فرمایا: اب کيا
خيال ہے (تاب تحمل ہے) تمہيں (اسم اعظم) تعليم دوں؟ عرض کيا: نہيں، پهر حضرت - نے اپنا
دستِ مبارک اڻهایا اور زمين گزشتہ حالت ميں ہوگئی۔
۵۵٩ ۔ “عن جابر عن ابی جعفر عليہ السلام قالَ انَّ اسمَ اللّٰہِ الاعظَمَ علیٰ ثَلاثَةٍ وَ سَبعينَ
حَرفاً وَانَّما کانَ عِندَْ آصفَ مِن هٰا حَرفٌ واحِدٌ فَتکلَّم بِہِ فَخَسفَتَ بِالاٴرضِ ما بَينہُ وَبَينَ سَریرِ بلقيسَ
حَتّی تناوَلَ السریر بيدہِ ثُمَ عادتِ الاٴرضُ کَماکانَت اسرَع مِن طرفہِ العينِ ونحنُ عِندنا مِن الاسمِ
الاعظم اثنانِ وَسبعونَ حَرفا وَحَرفٌ واحِدٌ عِند اللہِّٰ تعال یٰ اِستاٴثر بِہِ فی علمِ الغَيبِ عِنَدہُ ولا حولَ
) وَلاَ قُوةَ اِلاَّ بِاللہِّٰ العَلیِ العَظيم ” ( ١
جابر سے منقول ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: اسم اعظم الٰہی کے ٧٣ حروف
ہيں آصف برخيا کے پاس صرف ایک حرف تها اسی سے انہوں نے کلام کيا پس ان کے اور تخت
بلقيس کے درميان سمٹ گئی یہاں تک کہ انہوں نے تخت کو اپنے ہاته سے اڻها ليا اور زمين
چشم زدن ميں جيسی تهی ویسی ہی ہوگئی اور ہمارے پاس اسم اعظم کے ٧٢ حروف ہيں
اور ایک حرف الله کے پاس ہے اسی سے وہ علم غيب ميں ممتاز ہوا اور کوئی قوت و طاقت نہيں
ہے سوائے عظيم المرتبت خدا کے۔
۵۶٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ہارُونَ بن الجهمِ عَن رَجُلٍ مِن اصحابِ ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام
لَم احفظِ اسمُہ قالَ سمعت اَبا عبد اللّٰہِ عليہ السلام یقُولُ اِنَّ عيسیٰ بنَ مَریمُ عليہ السلام
اُعطِْیَ حرفَينِ کانَ یعمل بِهما وَ اُعطِْیَ مُوس یٰ اربَعَةَ حرفٍ اُعطِْیَ ابراہيم ثمانيةَ احرفٍ وَاُعطِْیَ
نوحٌ خمسَة عَشَرَ حرفاً وَاُعطِْیَ آدَمَ خمسَةَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، باب اسم الله الاعظم، ص ٢٣٠ ، حدیث ١۔ (
وَعشِرینَ حرفاًوانَّ اللہّٰ تعال یٰ جَمَعَ ذلِکَ کُلّہُ لمحمّد (ص) وَانَّ اسمَ اللہِّٰ الاعظَْم ثلاثةََ وَسَبعُونَ
) حرفاً اعطی محمّداً (ص) اثنی و سبعينَ حرفاً وحجبَ عنہ حرف واحدةٌ ” ( ١
اسی کتاب کافی ميں بطور مسند ہارون ابن جہم سے منقول ہے وہ ایک ایسے شخص
سے جو امام جعفر صادق کے اصحاب ميں سے تهے نقل کرتے ہيں کہ ان کا نام یاد نہيں ہے
وہ کہتے ہيں کہ: ميں نے امام جعفر صادق - کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: عيسیٰ ابن مریم -
کے پاس دو حرف تهے انہی دو حرف سے وہ اعجاز دکهاتے تهے اور موسی کو صرف ۴ حرف
دیے گئے تهے اور ابراہيم - کو آڻه حرف اور نوح - کو پندرہ اور آدم - کو پچيس حرف دیا گيا تها
اور الله تعالیٰ نے ان تمام حروف کو حضرت محمد مصطفی (ص) کے ليے جمع کر دیا کہ اسم
اعظم الٰہی ٧٣ حرف ہيں ان ميں سے حضرت محمد (ص) کو ٧٢ حرف دیے گئے اور ایک حرف
ان سے پوشيدہ رکها گيا۔
۵۶١ ۔ “علی بن ممّد النوفلی عن ابی الحسن صاحب العسکری عليہ السلام قال سَمعتہُ
یَقُولَ اِسمَ اللہِّٰ الاعظَمِ ثلاثةَ وسبعُونَ حرفاً کانَ عَندَ آصفٍ حَرفٌ واحدٌ فَتَکَلَّمَ بِہِ فانخرقَت لَہُ الاٴرضُ
فيما بينہُ وَبينَ سَبا فتناولَ عَرشَ بلقيسٍ حتّیٰ صيَّرَةُ اِلٰی سُليمانَ ثُمَّ انبَسَطَتِ الاٴرضُ فی اقلَ
) مِن طَرفةِ عَين وَعِندَ ثامنہُ اثنانِ وَسبعُونَ حرفاً وَحَرفٌ عِند اللہّٰ مُستَاٴثِر بِہِ فی عِلمِ الغيبِ ” ( ٢
علی ابن نوفلی سے منقول ہے ان کا بيان ہے: امام حسن عسکری کے پدر بزگوار ابو
الحسن امام علی نقی کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اسم اعظم الٰہی ٧٣ حروف ہيں ان ميں سے
آصف کے پاس صرف ایک حرف تها جس سے انہوں نے کلام کيا زمين ان کے اور شہر صبا کے
درميان سمڻی اور انہوں نے تخت بلقيس کو اڻهاليا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، حدیث ٢۔ (
٢(۔ بصائر الدرجات، ج ١، ص ٢١١ ، حدیث ٣۔ (
اور حضرت سليمان - تک پہنچایا پهر زمين طرفةا لعين ميں سمٹ گئی اور ہمارے پاس اسم
اعظم کے ٧٢ حروف ہيں اور الله کے پاس ایک حرف ہے جس سے وہ عالم غيب ہے۔
۵۶٢ ۔ “فی بصائر الدرجات باسنادہ عن ابی عبد اللّٰہ البرقی یَرفعُہُ اِليک ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ
السلام قال اِنَّ اللہَّٰ عَزَّوَجَلَّ جَعَلَ اِسمَہُ الاٴعظَم عَل یٰ ثَلاثَةِ وسبعينَ حرفاً فَاعطی آدَمَ مِنها
خَمسةَ وَ عِشرینَ حرفاً وَاعَطی نوحاً مِنها خَمسَةَ عَشَرَحرفاً واعطی مِنها ابراہيمَ ثَمانيَةَ اٴحرُفٍ
وَاَعطی مُوس یٰ مِنها اربَعَةَ اٴحرُفٍ وَاعطی عيس یٰ مِنها حرفَينَ وَکانَ یحيی بِهِما الموت یٰ وَیبریءِ
بِهِما الاکمَہ والابرصَ واعطیٰ محمّداً (ص) اثنينِ وسَبعينَ حَرفاً واحتجَبَ حَرفاً لئلا یَعلَمَ ما فی
) نفسِہِ وَیَعلمَ ما فی نَفسِہِ وَیَعلَم ما ( فی) نَفسِ العِبادِ ” ( ١
بصائر الدرجات ميں بطور مرفوع ابو عبد الله برقی سے روایت کی گئی ہے کہ وہ امام
جعفر صادق - سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت نے فرمایا: الله تعالیٰ نے اپنے اسم اعظم کے ٧٣
حروف قرار دیے حضرت آدم - کو پچيس حرف عطا فرمایا حضرت نوح - کو پندرہ حرف عنایت کيا
اور حضرت ابراہيم - کو آڻه حرف دیا گيا اور حضرت موسیٰ کو چار حرف عطا فرمایا اور حضرت
عيسیٰ - کو دو حرف اور حضرت عيسیٰ - انہی دو حرف سے مردوں کو زندہ کرتے تهے اور
اسی کے زریعے مبروص افراد کا علاج فرماتے تهے اور حضرت محمد مصطفی (ص) کو ٧٢ حرف
عطا فرمایا اور ایک حرف ان ميں سے ان سے مخفی رکها اور اپنی ذات سے مخصوص قرار دیا۔
ليکن امام - کا یہ قول جو فرمایا: قرآن ایک ایسا ناطق ہے کہ اس کی زبان خستگی
ناپذیر ہے کيوں کہ قرآن مجيد ایسی کتاب ہے جو آسمانی ہے اور عالمی کتاب ہے کسی ایک
مخصوص زمانے کے ليے نہيں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ج ١، ص ٢٠٨ ، حدیث ٣۔ (
یا کسی ایک ہی گروہ سے مخصوص نہيں ہے لہٰذا اس کا اعجاز یہ ہے کہ وہ نہ کہنہ ہوتی ہے
اور نہ ہی تمام ہوتی ہے اور جس قدر زیادہ پڑهی جائے یا دقّتِ نظر سے کام ليا جائے اس کے
فائدے زیادہ سے زیادہ اور اس کے آثار و نتائج مزید ظاہر ہوں گے۔
۵۶٣ ۔ “عَنِ الرِّضا عَن اَبيہِ عليہما السلام انَّہُ سئل ابو عبدِ اللّٰہ عليہ السلام ما بالُ القُرآنُ
لا یزاد عَلی النشرِ والدَّرسِ الاغضَاضة ؟ فَقال انَّ اللّٰہ تَبارَکَ وَ تعالیٰ لَم یجعلَہُ لِزمانٍ دُونَ زمانٍ وَلا
) لِناسٍ دُونَ ناسِ فَهو فی کلُ زَمانٍ جَدیدٍ وَعِند کُلِ قومٍ غَضٌ ال یٰ یَومِْ الق يٰمةٍ ” ( ١
حضرت امام رضا - نے اپنے بزرگوار (عليہما السلام) سے روایت کی ہے کہ
حضرت امام جعفر صادق - سے سوال کيا کہ کيوں قرآن کی جتنا زیادہ نشرو اشاعت کرتے ہيں
اور اس کی تدریس کرتے ہيں اس کی شادابی اور تازگی ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے (اس سے
احساس خستگی نفرت اور دوری نہيں پيدا ہوتی) تو امام - نے فرمایا: چونکہ الله تبارک و تعالیٰ
نے قرآن مجيد کو کسی ایک ہی زمانہ سے مخصوص نہيں کيا ہے اور اسی طرح صرف خاص
لوگوں کے ليے نہيں نازل فرمایا بلکہ ہر زمانے ميں اور ہر قوم کے نزدیک صبح قيامت تک ہر دل
عزیز اور شادابی و تازگی کے ساته ہے۔
۵۶۴ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَن محمَّد بن مُوسیٰ الرازی عن اَبيہِ قالَ ذَکَرَ الرِّضا عليہ السلام
یوماً القُرآنَ فعظَّم الحجَّة فيہ وَلایةَ العجزةَ فی نظمِہِ فَقالَ هُوَ حَبلُ اللّٰہِ المتينُ عروة الوُثقیٰ
وَطَریقتہُ المثل یٰ الموُدی اِلیَ الجنَّة وَالمنجی مِنَ النّار لا یخلقُ مِنَ الازمِنَة وَلایُغثُ عَلَی الاٴَلسِنَة
لانَّہُ لَم یعجل لِزمانٍ دُونَ زَمانٍ بَل جِعَلَ البرْهانِ وحجَّةً عَل یٰ کُل انسانٍ لا یاتيہِ الباطِلُ مِن بينِ یَدَیہِ
ولاٰمِن خلفِہِ تنزیلٌ مِن حکيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون اخبار الرضا، ج ١، ص ٩٣ ۔ امالی طوسی، ص ۵٨٠ ۔ بحار الانوار، ج ١٧ ، ص ٢١٣ ۔ (
) حَميدٍ ” ( ١
کتاب عيون الاخبار الرضا ميں محمد ابن موسی رازی نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی
ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت امام رضا - نے ایک دن قرآن مجيد کے بارے ميں گفتگو کی توفرمایا
اس ميں حجّت اور برہان بہت عظيم ہے ایک عاجز کردینے والی علامت اس کی نظم و ترتيب
ميں پائی جاتی ہے پهر فرمایا: قرآن الله تعالیٰ کی محکم رسی ہے اور اس خدا کا نہ ڻوڻنے والا
دستہ ہے اور اس (خدائے سبحان) کا بغير کجی کے سيدها راستہ ہے جو بہشت کی طرف لے
جاتا ہے اور آتش جہنم سے نجات عطا کرتا ہے، زمانے کی طولانی مدت اسے بوسيدہ نہيں
کرسکتی اور زبانوں پر سنگينی کا احساس نہيں ہونے دیتيں اس ليے کہ اسے کسی مخصوص
زمانے کے ليے نہيں قرار دیا گيا ہے بلکہ اسے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور رہ گشائی
کے ليے دليل و برہان قرار دیا گيا ہے۔ اس کے قریب سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل
آبهی نہيں سکتا ہے کيونکہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون اخبار الرضا، ج ١، ص ١٣٧ ۔ (
|
|