٢۶ ۔ آسمانی پيشوا
٢۶ ۔ القُرآنُ مَن جَعَلَہ اماَمہ قادَہ اِلَی الجَنَّةِ وَمَن جَعَلَہُ خَلفَہُ ساقہُ اِلی النّار
وکذلک الحجَّة القائم مَن جَعَلَہ اماَمہ قادةُ الَی الجَنَّةِ وَمَن جَعَلَہ خَلفَہُ ساَقہُ ال یٰ النّار
قرآن مجيد کو جو شخص اپنا امام و پيشوا قرار دے گا وہ جنت کی طرف لے جائے گا اور
جو شخص اسے پس پشت ڈال دے گا وہ اسے آتش جہنم کی طرف لے جائے گا بس اسی
طرح حضرت حجّت قائم آل محمد (عليہم السلام اجمعين) ہيں اگر انہيں اپنا امام اور پيشوا قرار
دیا ان کے حکم کی اطاعت کی تو وہ اسے جنت کی طرف لے جائيں گے ورنہ اس کو آتشِ
جہنم کی طرف لے جائيں گے۔
۵۴٠ ۔ “وفی تفسير العياشی : عن جعفر بن محمّد عن ابيہ عن آبائہ عليہم السلام قالَ
رَسُولُ اللّٰہ (ص) اَیُّهَا النّاسُ انَّکُم فی زَمانِ هُدنةٍ وانتُم عَلیٰ ظَهِر السَّفَرِ وَالسَّيرُ بکُم سَریعٌ فَقَد
رایتُم اللَّيلَ وَالنَّهارَ وَالشَمسَ وَالقَمَرَ یُبليانِ کُلّ جَدیدٍ وَیقربانِ کُلَّ بَعيدٍ وَیاٴتيانِ کُلَّ مَوعُودٍ فَاَعدّوُا
الجهازَ لبُعدِ المفاز فَقام المِقدادُ فَقالَ یا رَسُولَ اللہِّٰ ما دارُ الهُدنةِ قالَ دارُ بَلیٍ وَانقِطاعٍ فَاِذا التَبَست
عَلَيکُمُ الفِتن کَقِطَعِ اللَّيلِ المُظلِم فَعَلَيکُم بِالقُرآنِ فاَنَّها شافعٌ مُشَفَّعٌ وَما حِلٌ مُصَدَّقٌ من جَعَلَہُ
امامَہُ قادَہَ اِلَی الجَنَّةِ وَمَن جَعَلَہُ خَلفَہُ اِلَی النّارِ وَهُوَ الدليلُ یَدُلَّ عَل یٰ خَيرِ سَبيلٍ وَهُوَ کِتابٌ فيہِ
تَفصيلٌ وَبيانٌ وَ تَحصيلٌ وَهُوَ الفَصلُ لَيسَ بالهزل وَلَہُ ظَهر وبطَنٌ فَظاهِرُہ حِکمةٌ وَباطِنُہُ عِلمٌ ظاہِرُہُ
انيقٌ وَباطِنُہُ عَميقٌ لہ تخوّمٌ وَعَلَیٰ تخومةِ تخومٌ لا تحصی عَجائِبُہُ ولاتبلیٰ غَرائِبُہُ فيہ مَصابيحُ
) الهُدی وَمَنارُ الحِکمةَ وَدَليلٌ عَلَی المعروفِ لَمن عَرَفَہ ” ( ١
عياشی نے اپنی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے آبائے طاہرین سے
روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: تم ہدنہ (صلح و مصالحت) کے گهر ميں ہو تم سفر
ميں ہو (ایسی سواری جو بہت تيز رفتار ہے) اور نہایت تيزی سے سفر کر رہے ہو یقينا تم نے
دیکها کہ رات اور دن (طلوع و غروب) سورج اور چاند ہر نئی چيز کو کہن بنا رہے ہيں اور ہر بعيد کو
قریب کرتے جا رہے ہيں اور وعدہ کيے ہوئے کو لا رہے ہيں لہٰذا راستہ دور ہے اور اپنی کوششوں
سے خود کو آمادہ رکهو تاکہ مفاز جو فلاح و نجات کی جگہ ہے پہنچ جاؤ۔ اس وقت مقداد نے
کهڑے ہوکر عرض کيا: یا رسول الله! وہ کيا ہے؟ فرمایا: وہ امتحان (و آزمائش) کا گهر ہے اور اسی
طرح کی لذتوں سے قطع کرنے کا مقام ہے لہٰذا جب بهی فتنے تمہارے اوپر مشتبہ ہوجائيں اور
تاریک رات کی طرح چها جائيں تو تم قرآن کی طرف رجوع کرو اس سے متمسک رہو کيونکہ وہ
شفاعت کرنے والا بهی ہے اور شفاعت کو قبول کرنے والا بهی اور جو خدا کی طرف سے آیا ہے
اس کی تصدیق کرنے والا جس نے اُسے آگے رکها وہ جنت کی طرف لے گيا اور جس نے اسے
پيچهے ڈالا اور اس کا احترام ملحوظ خاطر نہيں رکها تووہ اسے دوزخ کی طرف کهينچ لے گيا
(روایت مفصل ہے) یہاں تک کہ فرمایا: قرآن مجيد کے عجائب و غرائب شمار ميں نہيں آتے اس
کی حد شمار سے باہر اور اس کے غرائب ہميشہ جدید اور تازہ ہيں ، بوسيدہ و کہنہ نہيں ہوتے
وہ ہدایت کے چراغ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٢۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ١٧ ۔ (
ہيں اور حکمت کے منارے ہيں اور جس نے اس کی حقيقت اور با ارزش مطالب کو پہچان ليا وہ
اس کے ليے تمام نيکيوں کے ليے دليل و راہ گشا ہوگيا۔
حدیث کے چند نکات کی طرف کہ جن کی یاد آوری ضروری ہے اشارہ کيا جا رہا ہے۔
١۔ زمانہٴ هدنہ سے مراد ایسا زمانہ ہے کہ ایک انسان تمام جہات سے امتحان و آزمائش
ميں تها اور اس کی دست رسی ائمہ تک نہ تهی۔
٢۔ “ظہر سفر” پروردگار کی طرف حرکت کرنے کی طرف اشارہ ہے اور خدا کی ملاقات
کی طرف رغبت رکهنا ہے جيسے الله تعالیٰ کا یہ قول <یا ایها الانسان انک کادح الیٰ ربک کدحاً
فَمُلٰاقيہ> (اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے تو ایک دن اس کا
سامنا کرے گا)۔ انسان جس دن سے اس وسيع دنيا ميں قدم رکهتا ہے ہر روز سو ميں سے ایک
حصہ دنيا سے دور اور آخرت سے نزدیک ہوتا ہے شب و روز کی گردش آفتاب و ماہتاب کا طلوع و
غروب ہونا نئی چيزوں کو کہنہ اور دور کی چيزوں کو نزدیک کرتا ہے۔
۵۴١ ۔ حدیث ميں وارد ہوا ہے: “ما اسرع الساعات فی اليوم واسرع الایام فی الشهر
) واسرع الشهور فی السنة السنين فی العمر ” ( ١
یعنی: دن کی ساعتيں، مہينہ کے دن، سال کے مہينے اور زندگی کے سال کس تيزی
سے گزر جاتے ہيں۔
الٰہی وعدے مرور زمانہ کے ساته یکے بعد دیگرے محقق ہوتے جائيں گے۔ یہ مقدمہ اس
بات کا موجب ہے کہ اس دور دراز کے سفر کے ليے آمادہ رہنا چاہيے جس کا بہترین زاد راہ قرآن
کے صریحی قول کے مطابق تقویٰ ہے الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيرَْ الزَّادِ التَّقوَْی >
٢)(اپنے ليے زاد راہ فراہم کرو کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٣۶٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٩٧ ۔ (
پيغمبر (ص) اور ائمہٴ اطہار کے نزدیک مقداد کی شخصيت
۵۴٢ ۔ “ وفی الاختصاص للمفيد : عَن صفوانِ بن مهرانِ الجمّال عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ
السلام قالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) اِنَّ اللّٰہ امَرَنی بَحُبِّ اربَعةَ قالوا مَن هُم یا رَسُولَ اللّٰہ (ص)؟
قال عَلیُ بن ابی طالِبٍ عليہ السلام ثُمَّ سَکَتَ ثُمَّ قالَ اِنَّ اللّٰہَ امَرَنی بحبِّ اربَعَةَ قالُوا مَن هُم یا
رَسُول اللّٰہِ ؟ قالَ عَلیُّ بن ابی طالِبٍ عليہ السلام ثُم سَکَتَ ثُمَّ قالَ اِنَّ اللّٰہ امَرَنی بحُبِّ اربعةَ قالُوا
وَمَن هُم یا رَسُولَ اللّٰہ (ص) قالَ عَلیُّ بن ابی طالِبٍ والمِقداد بن الاسودَ وَ ابوُذَر الغَفّاری
) وَسَلمانَ الفارسی ” ( ١
اختصاص ميں شيخ مفيد عليہ الرحمہ نے صفوان ابن مہران جمال سے انہوںنے امام
جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا کہ: رسول خدا (ص) نے فرمایا: الله
تعالیٰ نے مجهے چار افراد سے دوستی کا حکم دیا ہے، دریافت کيا گيا: یا رسول الله (ص)! وہ
کون افراد ہيں؟ فرمایا: علی ابن ابی طالب - پهر خاموش ہوگئے، پهر فرمایا: الله نے مجهے چار
افراد سے دوستی کا حکم دیا ہے، عرض کيا: یا رسول الله (ص)! وہ کون افراد ہيں؟ فرمایا: علی
ابن ابی طالب- پهر خاموش ہوگئے۔ پهر فرمایا: الله تعالیٰ نے مجهے چار افراد سے دوستی کا
حکم دیا ہے، عرض کيا: یا رسول الله (ص)! وہ کون افراد ہيں؟ فرمایا: علی ابن ابی طالب-،
مقداد ابن اسود، ابوذر غفاری اور سلمان فارسی۔
۵۴٣ ۔ “وفيہ عن النضر بن سوید عمن حدثہ من اصحابنا عَن ابی عَبد اللّٰہِ عليہ السلام قالَ
مابَقَی احَدٌ بَعد ما قُبِضَ رَسُولَ اللہِّٰ (ص) اِلاَّ وَقَد جالَ جولَةً اِلاَّ المِقدادُ فاَنَّ قَلبُہُ کانَ مِثلُ زبر
) الحدَیدِ ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص، ص ٩۔ (
١٢ ۔ ، ٢(۔ اختصاص، ص ١١ (
اسی کتاب ميں شيخ مفيد عليہ الرحمہ نے نضر ابن سوید سے وہ اپنے اصحاب حدیث
سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: رحلتِ پيغمبر اکرم
(ص) کے بعد کوئی شخص باقی نہيں رہا مگر یہ کہ ایک جولانيوں ميں آیا سوائے مقداد ابن
اسود کے چوں کہ ان کا قلب لوہے کے ڻکڑے کی طرح محکم اور ثابت تها انہوں نے کسی طرح
رغبت نہيں کی۔
۵۴۴ ۔ “ وفيہ عن ہاشم بن سالم : قالَ قالَ ابُو عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام انَّما منزِلةُ المِقدادُ
) فی هذِہِ الامَّةِ کَمَنِزلَةِ الف فی القرْآنِ لا یلزَق بِها شَیءٌ ” ( ١
اسی کتاب ميں ہشام ابن سالم کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: حقيقت
ميں اس امت ميں مقداد ابن اسود کا مقام و مرتبہ “الف” کی منزلت ميں ہے قرآن ميں کوئی
شے اس سے متصل نہيں ہوتی (یعنی الف تمام الف باء سے متصل ہوتا ہے ليکن الف سے ان
الف باء ميں سے کوئی متصل نہيں ہوتا)۔
۵۴۵ ۔ “ و فيہ عن عيسیٰ بن حمزة : قالَ قُلتُ لاَ بی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام الحَدیثُ الَّذی
جاءَ فی الاَربَعَةِ قالَ وَما هُوَ قُلتُ الاَربَعَةَ الَّتی اشتاقَت اليهِمُ الجَنَّة قالَ نعم منهمُ سَلمانُ و ابوذرَّ
والمِقدادُ وعمّار قُلتُ فایُّهُم افضَل قالَ سَلمانُ ثُمَّ اطرَقَ ثُمَ قالَ عَلِم سَلمانُ علماً لو عَلمِہ ابوذَر
) کَفَر ” ( ٢
اسی کتاب ميں عيسیٰ ابن حمزہ ناقل ہيں کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے عرض
کيا: وہ کون سی حدیث ہے جو چار افراد کے حق ميں وارد ہوئی ہے؟
فرمایا: وہ کون لوگ ہيں؟ ميں نے عرض کيا: وہ چار افراد ہيں کہ جن کی جنت مشتاق
ہے؟
فرمایا: ہاں ان ميں سے سلمان، ابوذر، مقداد اور عمار ہيں۔ ميں نے عرض کيا: ان ميں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٢ ۔ ، ١(۔ اختصاص، ص ١١ (
١٢ ۔ ، ٢(۔ اختصاص، ص ١١ (
سے افضل
کون ہے؟ فرمایا: سلمان، پهر مختصر تامل کے بعد فرمایا: سلمان ایسے علم کے حامل ہيں کہ
اگر ابوذر کو اس کا علم ہوجائے تو وہ یقينا ان کی تکفير کرتے۔
۵۴۶ ۔ “ وفيہ عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص)
لِسَلمانَ یا سَلمانُ لَو عُرِضَ عِلمُکَ عَلَی المقدادِ لکَفَرَ یا مِقدادُ لَو عُرِضَ صَبرُ کَ عَل یٰ سَلمانَ لکَفَرَ
)١) ”
اسی کتاب ميں ابو بصير نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے
فرمایا: رسول اکرم (ص) نے سلمان سے فرمایا: اے سلمان! اگر تمہاری معلومات مقداد کے
سامنے پيش کی جائيں تو یقينا وہ کافر و منکر ہوجائيں گے اور اے مقداد! اگر تمہارا صبر سلمان
کے سامنے پيش کيا جائے تو یقينا وہ کافر و منکر ہو جائيں گے۔
یہ حضرت مقداد کی شخصيت کا ایک شمہ تها کہ جنہوں نے اپنی جگہ بلند ہوکر عرض
کيا تها: یا رسول الله ! دار هدنہ کيا ہے؟
آنحضرت (ص) نے جواب ميں فرمایا: بلا و آزمائش اور انقطاع کا گهر ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یوم تبلی السرائر> ( ٢) جس دن اندرونی تمام راز فاش ہوں گے۔
یہ آیہٴ کریمہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ انسان اپنی دو خلقت کی طرف توجہ
کرے کہ کياتها اور کہاں سے آیا ہے اور کون لایا ہے اور کہاں جائے گا کيا خدائے عليم و قدیر کے
علاوہ کوئی اور ہے جو مرنے کے بعد بهی اس کے واپس لانے پر قادر ہے۔
جس دن انسانوں کے مخفی اعمال آشکار ہوں گے تو وہ مشاہدہ کرے گا کہ پروردگار
متعال کے علاوہ انسان کے ليے کوئی طاقت اور ناصر و یاور نہيں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
٢(۔ سورئہ طارق، آیت ٩۔ (
الله تعالیٰ نے فرمایا: <ہُنَالِکَ تَبلُْو کُلُّ نَفسٍْ مَا اٴَسلَْفَت وَرُدُّوا إِلَی اللهِ مَولَْاہُم الحَْقِّ وَضَلَّ
) عَنہُْم مَا کَانُوا یَفتَْرُونَ > ( ١
اس وقت ہر شخص اپنے گزشتہ اعمال کا امتحان کرے گا اور سب مولائے برحق خداوند
متعال کی بارگاہ ميں پلڻا دیے جائيں گے اور جو کچه افترا کر رہے تهے وہ سب بهڻک کر گم ہو
جائے گا۔
>تبلوا>: بلا سے اختيار و امتحان کے معنی ميں ہے، ایک شے کا دوسری شے سے
مخلوط ہونا ہے۔
وہاں اختيار و امتحان کا موقف ہے۔ ہر وہ شخص جس نے جو کچه پہلے سے ارسال کيا
ہے آزمائش کرے اور خدا کی طرف پلڻائے جائيں جو ان لوگوں کا حقيقی مولا و سرپرست ہے اور
ان مشرکين کی دائمی کذب پردازیوں سے دور ہو جائيں۔
امتحان کے موقع پر حقائقِ اعمال منکشف ہوجاتے ہيں اور ہر شخص واضح طور پر
مشاہدہ کرتا ہے نہ بيان و ذکر کے ذریعہ، اور جب ہر شے کی حقيقت و واقعيت عينی طور پر
مشاہدہ کرليتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ حقيقی مولا اور سرپرست وہی خدائے سبحان ہے، اور
تمام اوہام باطل منہدم ہو جاتے ہيں اور کاذب و باطل دعائيں بهی ضائع ہو جاتی ہيں۔
)هنا لک) اس موقف کی طرف اشارہ ہے جو اسی سورہ کی آیت نمبر ٢٨ ميں ہم پرهتے
ہيں: <وَیَومَْ نَحشُْرُہُم جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشرَْکُوا مَکَانَکُم اٴَنتُْم وَشُرَکَاؤُکُم فَزَیَّلنَْا بَينَْہُم وَقَالَ
) شُرَکَاؤُہُم مَا کُنتُْم إِیَّانَا تَعبُْدُونَ > ( ٢
جس دن ہم سب کو اکڻها جمع کریں گے اور اس کے بعد شرک کرنے والوں سے کہيں
گے کہ تم اور تمہارے شرکاء سب اپنی اپنی جگہ ڻہرو اور پهر ہم ان کے درميان جدائی ڈال دیں
گے اور ان کے شرکاء کہيں گے کہ تم ہماری عبادت تو نہيں کرتے تهے۔ اور کافروں سے دریافت
کریں کہ کيوں بتوں کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ٣٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ یونس، آیت ٢٨ ۔ (
پرستش کرتے تهے؟ کہيں گے کہ وہ لوگ مجهے اپنی عبادت کا حکم دیتے تهے الله تعالیٰ نے
بتوں کو قوت گویائی عطا کی اور ان کے الله تعالیٰ نے فرمایا: <ہَذَا مِن فَضلِْ رَبِّی لِيَبلُْوَنِی اٴَاٴَشکُْرُ
اٴَم اٴَکفُْرُ وَمَن شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشکُْرُ لِنَفسِْہِ وَمَن کَفَرَ فَإِنَّ رَبِّی غَنِیٌّ کَرِیمٌ > ( ١) شریکوں (یعنی بتوں)
نے کہا: تم ہماری عبادت نہيں کرتے تهے بلکہ اپنی خواہشات کی عبادت کرتے تهے، (هنالک(
اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہ علم تها اس نے کہا کہ ميں اتنی
جلدی لے آؤں گا کہ آپ کی پلک بهی نہ جهپکنے پائے اس کے بعد سليمان نے تخت کو اپنے
سامنے حاضر دیکها تو کہنے لگے: یہ ميرے پروردگار کا فضل و کرم ہے وہ ميرا امتحان لينا چاہتا
ہے کہ ميں شکریہ ادا کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں۔ اور جو شکریہ ادا کرے گا وہ اپنے فائدہ
کے ليے کرے گا اورجو کفرانِ نعمت کرے گا اس کی طرف سے ميرا پروردگار بے نياز اور کریم ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَقَطَّعنَْاہُم فِی الاْٴَرضِْ اٴُمَمًا مِنہُْم الصَّالِحُونَ وَمِنہُْم دُونَ ذَلِکَ
) وَبَلَونَْاہُم بِالحَْسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ لَعَلَّہُم یَرجِْعُونَ > ( ٢
اور ہم نے بنی اسرائيل کو مختلف ڻکڑوں ميں تقسيم کردیا بعض نيک کردار تهے اور بعض
اس کے خلاف اور ہم نے انہيں آرام اور سختی کے ذریعہ آزمایا کہ شاید راستہ پر آجائيں۔
آیہٴ کریمہ یہودیوں کے متفرق اور پراکندہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے اس لحاظ
سے گزشتہ آیت سے یہ آیہٴ کریمہ ارتباط رکهتی ہے گزشتہ آیت ميں ہم پڑهتے ہيں: <وَإِذ تَاٴَذَّنَ
رَبُّکَ لَيَبعَْثَنَّ عَلَيہِْم إِلَی یَومِْ القِْيَامَةِ مَن یَسُومُہُم سُوءَ العَْذَابِ إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ العِْقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ
) رَحِيمٌ__________> ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نمل، آیت ۴٠ ۔ (
١۶٨ ۔ ، ٢(۔ سورئہ اعراف، آیت ١۶٧ (
٣(۔ سورئہ اعراف، آیت ١۶۶ ۔ (
خداوند متعال فرماتا ہے: “اور اس وقت کو یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے علی الاعلان
کہہ دیا کہ قيامت تک ان پر ایسے افراد مسلط کيے جائيں گے جو انہيں بد ترین سختيوں ميں
مبتلا کریں گے کہ تمہارا پروردگار جلدی عذاب کرنے والا بهی ہے اور بہت زیادہ بخشنے والا
مہربان بهی ہے۔
اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ باغی اور سرکش گروہ کبهی بهی مکمل سکون کا
مشاہدہ نہيں کرسکتا اگرچہ وہ اپنے ليے حکومت کی بهی تاسيس کرے پهر بهی وہ ہميشہ
دباؤ ميں رہے گا مگر یہ کہ سنجيدگی کے ساته اپنی روش کو بدل دے اور ظلم و فساد سے
دست بردار ہوجائے۔ لہٰذا آیت کے ذیل ميں فرماتا ہے: <إِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیعُ العِْقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ>
تمہارا پروردگار جلدی عذاب کرنے والا بهی ہے اور بہت زیادہ بخشنے والا مہربان بهی ہے۔
یہ جملہ بخوبی نشان دہی کرتا ہے کہ الله تعالیٰ نے بازگشت کی راہ تمام لوگوں کے
ليے وا کی ہے وہ خواہ تمام (برے افعال) انجام دے چکے ہوں۔
اور مورد بحث آیت <و قطعناهم في الارض> نے خصوصی طور پر کائنات ميں یہودیوں کے
متفرق اور پراکندہ ہونے کی طرف اشارہ کيا ہے الله فرماتا ہے: ہم نے بنی اسرائيل کو مختلف
ڻکڑوں ميں تقسيم کردیا بعض نيک کردار تهے صرف فرمان حق اور پيغمبر اسلام (ص) کی دعوت
سن کر ایمان لائے اور بعض دوسرے ایسے نہ تهے اور اپنی مادی زندگی کی ضروریات پوری
کرنے کے ليے کسی کام کو فروگزار نہيں کيا۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَلَنَبلُْوَنَّکُم حَتَّی نَعلَْمَ المُْجَاہِدِینَ مِنکُْم وَالصَّابِرِینَ وَنَبلُْوَ اٴَخبَْارَکُم >
)١)
اور ہم یقينا تم سب کا امتحان ليں گے تاکہ یہ دیکهيں کہ تم ميںجہاد کرنے والے اور صبر
کرنے والے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ محمد، آیت ٣١ ۔ (
کون لوگ ہيں اور اس طرح تمہارے حالات کو باقاعدہ جانچ ليں۔
”البلاء و الابتلاء” بہ معنی “الامتحان و الاختبار” ہے آیہٴ کریمہ مومنين کے ليے قتال کی
کتابت کی علت بيان کر رہی ہے اور وہ ایک امتحان الٰہی ہے تاکہ مجاہدین کا امتياز راہِ خدا ميں
اور تکاليف الٰہيہ کے مشتاق صابرین کا بهی رتبہ دوسروں کی بہ نسبت واضح ہو جائے۔
اور جملہٴ <وَنَبلُْوَ اٴَخبَْارَکُم > سے مراد ان کے اعمال کی خبریں ہيں جو ان سے انجام
پذیر ہوتا ہے اور امتحان و آزمائش سے انسان کے اعمال صالحہ اور اعمال سيئہ کے مشخص
ہونے کے ليے بهی جس طرح صالح نفوس امتياز حاصل کرتے ہيں اور یہ انہيں معلوم ہوتا ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَلاَتَلبِْسُوا الحَْقَّ بِالبَْاطِلِ وَتَکتُْمُوا الحَْقَّ وَاٴَنتُْم تَعلَْمُونَ > ( ١
حق کو باطل کے ساته مخلوط نہ کرو اور جان بوجه کر حق کی پردہ پوشی نہ کرو (کہ یہ
محمد (ص) وہی پيغمبر ہے جس کا وعدہ کيا گيا تها)۔
حق وہی ثابت حقيقت و واقعيت ہے اور خود بخود عقلوں سے پوشيدہ نہيں رہتا ليکن
چوں کہ جب باطل کے ساته مخلوط ہوجاتا ہے تو اسے مخفی کيا جاسکتا ہے اور عام لوگوں کی
نظروں سے پوشيدہ اور ذہنوں کو اس سے منحرف کيا جا سکتا ہے۔
) ۵۴٧ ۔ “وقولہ (ص) فاذا التبست عليکم الفتن فعليکم بالقرآن ” ( ٢
حضرت محمد مصطفی (ص) فرماتے ہيں: جب کبهی تم فتنوں ميں گهر جاؤ تو قرآن کی
طرف رجوع کرو۔ کلمہٴ: التبست، مادہٴ لبس سے ہے جس کا معنی مخلوط، اشتباط ، اختلاط،
شبہ و اشکال اور غير واضح ہونا ہے یقال “ليس عليہ الامر ای خلطہ وعلہ مشتبهاً بغيرہ“
والفتن : قال الراغب فی المفردات : “اصل الفَتن ادخال الذهب النار لتظهر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ۴٢ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ۵٩٨ ۔ (
) جودتہ من ردائہ ”( ١
کلمہ فتن کے متعلق راغب اصفہانی نے مفردات ميں کہا:
اصل فتن کا معنی یہ ہے کہ سونے کو آگ ميں ڈاليں تاکہ ان ميں سے خوب و بد جدا
ہوجائے۔
( فتنہ کے ليے اور بهی دوسرے مختلف معانی ذکر کيے ہيں جيسے: <ذوقوا فتنتکم> ( ٢
کہ اب اپنا عذاب چکهو۔
>الا فی الفتنة سقطوا> ( ٣) آگاہ ہوجاؤ کہ یہ واقعاً فتنہ ميں گر چکے ہيں۔
کبهی اختبار و امتحان کے مواقع کے ليے ذکر ہوا ہے <وَاعلَْمُوا اٴَنَّمَا اٴَموَْالُکُم وَاٴَولْادُکُم ( فِتنَْةٌ > ( ۴) اور جان لو کہ یہ تمہاری اولاد اور تمہارے اموال ایک آزمائش ہيں <و فتنّاک فتونا> ( ۵
اور تمہارا باقاعدہ امتحان لے ليا اور کبهی امتحان اور بلا دونوں ایک جگہ استعمال ہوتا ہے
جيسے <و نبلوکم > ( ۶) اور ہم تو اچهائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائيں گے۔
اور کبهی مکرو فریب کے معنی ميں بهی، جيسے: <وَاحذَْرہُْم اٴَن یَفتِْنُوکَ عَن بَعضِْ مَا
اٴَنزَلَ اللهُ إِلَيکَْ > ( ٧) اور اس بات سے بچتے رہيں کہ یہ بعض احکام الٰہی سے منحرف کردیں۔
اور کبهی ضلالت و گمراہی کے ليے بهی ذکر ہوا ہے جيسے: <انَّ الّذین فتنوا الموٴمنين مَا اٴَنْتُمْ
عَلَيہِْ بِفَاتِنِينَ > ( ٨) اور سب مل کر بهی اس کے خلاف کسی کو بہکا نہيں سکتے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مفردات راغب، ص ٢۴١ ۔ (
٢(۔ سورئہ الذاریات، آیت ١۴ ۔ (
٣(۔ سورئہ توبہ، آیت ۴٩ ۔ (
۴(۔ سورئہ انفال، آیت ٢٨ ۔ (
۵(۔ سورئہ طہ، آیت ۴٠ ۔ (
۶(۔ سورئہ انبياء، آیت ٣۵ ۔ (
٧(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۴٩ ۔ (
٨(۔ سورئہ صافات، آیت ١۶٢ ۔ (
یعنی جب کبهی اس قسم کے مختلف امتحانات ميں مبتلا ہو اور حيران و سرگردان ہوجاؤ
تو ہلاکتوں سے گریز اور راہ نجات صرف وہی الله کی عظيم کتاب قرآن مجيد ہے جو ہر درد کی دوا
اور ہر مرض کے ليے شفا بخش ہے۔
۵۴٨ ۔ “وفی نہج البلاغة قال امير الموٴمنين عليہ السلام : اِنَّما بَدءُ وُقُوعِ الفِتَنِ اهواءٌ تُتَّبعُ
وَاحکامٌ تُبتَدَعُ یخالِف فيها کِتابُ اللہِّٰ وَیَتَوَل یٰ عَلَيها رِجال رِجالاً عَل یٰ غَيرِْ دینِ اللہّٰ فَلَو اَنَّ الباطِلَ
خَلصُ مِن خِراج الحقِّ لم یخفَ عَلَی المُرتادینَ وَلَو اَنَّ الحَْقَّ خَلَص مِن لُبسِ الباطِلِ انقَطَعت عَنہُ
السنُ المعاندینَ وَلکِن یوٴخَذُ مِن هذا ضِغثٌ وَمِن هذا ضِغثُ فَيمزجَانِ فَهنُالِکَ یَستَولیِ الشيطانُ
) عَل یٰ اَوليائِہِ وَینحُو الَّذینَ سَبَقَت لَهُم مِنّا الحُسن یٰ ” ( ١
فتنوں کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کيا جاتا ہے اور ان جدید ترین
احکام سے ہوتی ہے جو گڑه ليے جاتے ہيں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہيں۔ اس ميں
کچه لوگ دوسرے لوگوں کے ساته ہوجاتے ہيں اور دین خدا سے الگ ہوجاتے ہيں کہ اگر باطل
حق کی آميزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق اور باطل
کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانيں نہ کهل سکتيں، ليکن ایک حصہ اس ميں سے
لے ليا جاتا ہے اور ایک اس ميں سے ، اور پهر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے پس ایسے ہی مواقع پر
شيطان اپنے ساتهيوں پر مسلط ہوجاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہيں جن کے
ليے پروردگار کی طرف سے نيکی پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔
حضرت امير المومنين اپنے اس گُہر بار کلام ميں فتنہ و فساد کے منشا کی نشان دہی
کرتے ہوئے فرماتے ہيں: فتنے کا منشا چند چيز ہيں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٨(۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۵٠ ۔ (
١۔ خواہشاتِ نفسانی کی پيروی کرنا ٢۔ وہ احکام جو خلافِ شرع ایجاد کيے جائيںاو ر
کتاب خدا ان کے مخالف ہو ٣۔ ان احکام کی پيروی کرنا جو دین الٰہی کے برخلاف وضع کيے گئے
ہوں۔ کيوں کہ احکام الٰہی مخترعين کی گمراہيوں سے مخلوط ہوگيا لہٰذا راہ حق اس کے اپنے
متلاشيوں کے ليے مسدود ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اگر باطل حق کی آميختگی سے خالص ہو تو وہ
اپنے متلاشيوں کے ليے پوشيدہ نہيں رہ سکتا اور اگر حق باطل کی آميختگی سے خالص ہو تو
دشمنوں کی زبان اس سے قاصر ہوجائے گی۔
ليکن کبهی ایسا بهی ہوتا ہے کہ حق و باطل باہم ایک دوسرے سے مشتبہ ہوتے ہيں
لوگ اس ميں فتنے ميں واقع ہوجاتے ہيں کہ اس کی علت یہ ہے کہ اکثر اوقات حق سے بعض
حصہ اور باطل سے بعض حصہ آپس ميں مخلوط کرليتے ہيں لہٰذا ایسے مقام پر شيطان اپنے
دوستوں پر غالب ہوتا ہے اور باطل کو ان کے ليے حق کی صورت ميں نشان دہی کرکے انہيں
گمراہ کرتا ہے۔ ليکن جن افراد کے ليے خداوند متعال کی خاص عنایت شامل حال ہوتی ہے وہ
شيطان کے مکرو فریب ميں نہيں آتے اگرچہ حق کو باطل کے ساته مخلوط بهی کيا ہو اس کو
پہچان کر نجات یافتہ بن کر کامياب ہوتے ہيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَہلَْ الکِْتَابِ لِمَ تَلبِْسُونَ الحَْقَّ بِالبَْاطِلِ وَتَکتُْمُونَ الحَْقَّ وَاٴَنتُْم ) تَعلَْمُونَ > ( ١
اے اہل کتاب ! کيوں حق کو باطل سے مشتبہ کرتے ہو اور جانتے ہوئے حق کی پردہ
پوشی کرتے ہو۔
گزشتہ آیت ميں <یَااٴَہلَْ الکِْتَابِ لِمَ تَکفُْرُونَ بِآیَاتِ اللهِ وَاٴَنتُْم تَشہَْدُونَ> ذکر ہوا تها لہٰذا
خداوند متعال نے اہل کتاب کو مورد خطاب قرار دیا اور فرماتا ہے: “کيوں یہ لوگ اپنی لجاجت اور
عناد سے دست بردار نہيں ہوتے جب کہ پيغمبر اسلام (ص) کی نشانياں توریت و انجيل ميں
پڑه چکے ہيں اور اس سے مکمل اطلاع و آگاہی رکهتے ہيں پهر بهی راہِ انکار اختيار کرتے ہيں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٧١ ۔ (
موجودہ بحث کی آیت ميں بهی اہل کتاب کو اطلاع اور نوڻس دی گئی ہے کہ حق و باطل
کو آپس ميںملاتے ہيں اور علم و آگاہی کے باوجود حقيقت کو مخفی کرتے ہيں اور وہ آیات جو
توریت و انجيل ميںپيغمبر اسلام (ص) کے تعارف کے متعلق اور ان کی علامتوں سے مربوط ہے
پوشيدہ کرتے ہيں۔
”لبس” لام پر زبر کے ساته: شبہ ميں ڈالنا ہے یعنی حق کو باطل کی صورت ميں ظاہر
کرنا ہے۔ اور حقيقت ميں پہلی آیت ميں ان لوگوں کا راہ حق سے علم و آگاہی کے باوجود
منحرف ہونے کی صورت ميں مواخذہ فرمائے گا۔ اور مذکورہ آیت ميں دوسروں کو منحرف کرنے
کے متعلق بيان کر رہا ہے کيوں کہ ان کا حق ، باطل کے ساته ملانے کا ہدف اس کے علاوہ کچه
اورنہيں ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَقَالُوا لَولْاَاٴُنزِلَ عَلَيہِْ مَلَکٌ وَلَو اٴَنزَلنَْا مَلَکًا لَقُضِیَ الاْٴَمرُْ ثُمَّ لاَیُنظَرُونَ
) # وَلَو جَعَلنَْاہُ مَلَکًا لَجَعَلنَْاہُ رَجُلًا وَلَلَبَسنَْا عَلَيہِْم مَا یَلبِْسُونَ > ( ١
اور یہ کہتے ہيں کہ ان پر ملک کيوں نہيں نازل ہوتا حالانکہ ہم ملک نازل کر دیتے تو کام کا
فيصلہ ہوجاتا اور پهر انہيں اس طرح کی مہلت نہ دی جاتی۔ اگرہم پيغمبر کو فرشتہ بهی بناتے
تو بهی مرد ہی بناتے اور وہی لباس پہناتے جو مرد پہنا کرتے ہيں۔
مشرکين پيغمبر اسلام (ص) کی دعوت قبول کرنے سے گریز کرنے کے ليے بہانے کی
تلاش ميں ہوا کرتے تهے۔ قرآن کی بعض آیات ميں ان کی طرف اشارہ کيا گيا ہے من جملہ مورد
بحث آیتوں ميں کہ وہ لوگ کہتے تهے: کيوں صرف پيغمبر (ص) اس عظيم کام کے ليے مامور
ہوئے؟ کيوں اس کام کی انجام دہی کے ليے بشر کی جنس کے علاوہ فرشتوں کی جنس ميں
سے کوئی دوسرا ان کی ہمراہی نہيں کرتا؟ کيا ممکن ہے کہ ایک انسان جو ہماری ہی جنس
سے ہے وہ تنہا بارِ رسالت کو اپنے دوش پر حمل کرے؟
یہ ایک قسم کا بہانہ تها جسے وہ لوگ اپنی دستاویز اور مسند قرار دیے تهے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ٨،٩ ۔ (
حالانکہ ان تمام آیات بينات اور آنحضرت (ص) کی رسالت و نبوت پر واضح دلائل کے ساته
بہانہ تلاش کرنے کا کوئی مقام و محل ہی باقی نہيں رہتا اس کے علاوہ قرآن مجيد نے بهی
اپنے دو مختصر جملوں ميں سے کہ ان ميں سے ہر ایک استدلالی پہلو کا حامل ہے اور ان کے
ليے جواب دہ بهی۔
الله تعالیٰ کے اس قول کے ذریعے وَلَو اٴَنزَلنَْا مَلَکًا لَقُضِیَ الاْٴَمرُْ ثُمَّ لا یُنظَرُونَ
اور جب ہم کبهی کوئی فرشتہ بهيجتے تو کام کا فيصلہ ہوجاتا ہے اور اگر پهر بهی
مخالفت کریں تو بهی انہيں مہلت نہيں دی جاتی اور سب ہلاک ہوجاتے۔
ممکن ہے یہ کہا جائے: کيوں فرشتے کی آمد اور ان کا پيغمبر (ص) کی ہمراہی کرنا
منکرین کی موت کا باعث ہوتا ہے؟ ہم کہيں گے: اس دليل کی بنا پر کہ جس کی طرف چند آیت
کے پہلے اشارہ کيا گيا ہے کہ اگر نبوت شہود و احساس کے پہلو کی حامل ہوجائے اور تمام
چيز کو آنکهوں سے دیکهے تو نتيجہ ميں ہر جہت سے ان لوگوں کے ليے حجّت تمام ہوجائے
گی اور اس سے بالاتر کوئی دليل بهی مقصود نہيں ہوگی لہٰذا اگر کوئی شخص اس حالت ميں
بهی مخالفت کرے تو طبيعی و فطری امر ہے کہ اس کی سزا یقينی ہوگی۔ ليکن الله تعالیٰ اپنے
بندوں پر الطاف و عنایات کی وجہ سے کہ ان کے ليے تجدید فکر کی ایک فرصت باقی رہے اور
اس کام کو انجام نہيں دیتا۔
دوسرا جواب: پيغمبر اکرم (ص) ان تمام عظمت و منزلت کے باوجود تمام لوگوں کی
تربيت کی ذمہ داری اور بار رسالت کو تحمل کيے ہوئے ہيں ضروری ہے کہ خود لوگوں کی جنس
سے ہوں ان کے ہم رنگ اور ہم صفات ہوں بلکہ تمام انسانی صفات اور غریزے ان ميں موجود
ہوں۔ کيونکہ فرشتے بشر کے ساته سنخيت نہ رکهنے کے علاوہ قابلِ دید نہيں ہے وہ انسان
کے ليے عملی سر مشق نہيں بن سکتا کيوں کہ نہ وہ ان کی ضرورتوں اور دردوں سے آگاہ ہے
اور نہ ہی اس کی خواہشات اور غرائز کی کيفيت سے آشنا ہے۔ اسی دليل کی وجہ سے اس
کی رہبری ایسے موجود کی بہ نسبت جو تمام جہت سے اس سے فرق رکهتا ہے مکمل طور پر
ناساز گار ہے لہٰذا قرآن مجيد کا قول ہے: وَ لَو جَعَل اْٰنہُ مَلکاً لَجَعَل اْٰنہُ رَجُلاً وَ لَلَبَس اْٰن عَلَيهِْم اٰ م
یَلبِْسُونَ<
اگر ہم پيغمبر (ص) کو فرشتہ بهی بناتے اور ان کی پيش کش کو قبول کرتے پهر بهی
ضروری تها کہ انسانی صفات ان ميں ایجاد کریں اور انہيں ایک مرد کی صورت و سيرت ميں قرار
دیں پهر بهی اس کے باوجود یہ کہتے کہ کيوں ایک انسان کو رہبری کے ليے مامور کيا اور
حقيقی چہرہ کو ہم سے مخفی رکها؟
۵۴٩ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن ہاشم بن الحکم عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام انَّہُ قالَ
لِلزندیقِ الَّذی سَاَلہُ مِنَ اَین اثبتَّ الاَنبيآءَ وَالرّسُلَ ؟ قالَ اِنّا لَمّا اثبتنا اَنَّ لَنا خالِقاً صانِعاً متعالياً عَنّا
وَعَن جَميعِ ماخَلَقَ وَکانَ ذَلِکَ الصّانعُ حَکيماً متعالِياً لَم یجزان یُشاهِدُہ خَلقُہُ وَلا یُلامِسُوُہ
فَيباشَرُهم وَیبابِشرُوہُ وَیحاجهم وَیحاجُوہُ ، ثَبَتَ انَّ لَہُ سُفَراءُ فی خَلقِہِ ، یُعترُونَ عَنہُ اِل یٰ خَلقِہِ
وَعِبادِہِ وَیَدولُّونَهُم عَ لٰی مَصالِحِهُم وَمَ اٰنفِعَهُم وَما بِہِ بَقائهُم وَفی ترکِہِ منافعهم ، فَثَبَتَ الآمِرُونَ
وَالنّاهُونَ عَنِ الحکَيم العَليمِ فی خَلقِہِ وَالمعبّرُونَ عَنہ جَلّ وعز ، هُم الاَنْبيآءُ عليہم السلام ،
وَصفوَتُہُ مِن خَلقِہِ ، حُکَماء مورَّبين بِالحِکمةِ ، مبعوثينَ بِها غيرُ مشارِکينَ لِلنّاس عَلی مشارِکتِهِم
لَهُم فی الخلقِ والترَکيب فی شَی ءٍ مِن احوالِهِم موٴیَّدینَ مِن عِندِ الحَکيمِ العَليمِ بِالحِکمة ، ثُمَّ
ثَبَتَ ذلِکَ فی کُلّ دَهرٍ وَزَمانٍ ممّا اتَت بِہِ الرُّسُل والاٴنبْيآءُ مِنَ الدَّلائِل وَالبَراهينِ لِکَيلا تخلُو ارضُ اللہِّٰ
) مِن حجةٍ یَکُونُ مَعہُ عَلَمٌ یدلٌّ عَل یٰ صِدقِ مقالتِہِ وَجَواز عَدالَة ” ( ١
کافی ميں ابو جعفر محمد ابن یعقوب کلينی عليہ الرحمہ کہتے ہيں کہ ہشام ابن الحکم
سے مروی ہے کہ : امام جعفر صادق - سے ایک زندیق (دہریہ) نے دریافت کيا کہ: انبياء و
مرسلين کے آنے کا راہِ ثبوت کيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢٣۶ ، باب اضطرار الی الحجة ۔ (
فرمایا: جب ہمارے ليے یہ ثابت ہوگيا ہے کہ ہمارا ایک خالق ہے جو صانعِ عالم ہے اور ہم
سے اور تمام مخلوق سے بلند و برتر ہے اور یہ صانعِ حکيم سب پر غالب ہے اور یہ بهی جان ليا
کہ مخلوق ميں سے کوئی اس کو دیکه نہيں سکتا اور نہ ہی اس کو چهو سکتا ہے اور نہ وہ
مخلوق سے ملتا ہے اور نہ مخلوق اس سے ملتی جلتی ہے تو ثابت ہوگيا کہ اس کے کچه
پيغمبر اس کے بندوں کی طرف آئےں تاکہ وہ اس کی باتيں بتائيں اور ان کے منافع اور مصالح کو
سمجهائيں اور ان چيزوں کو بتائيں جن کے بجالانے ميں ان کی بقا اور ترک ميں ان کی موت ہو
پس وہ ثابت ہوگئے کہ وہی لوگ خدا کی مخلوق کو امر و نہی کرنے والے اور اس کے احکام کو
بتانے والے انبياء ہيں جو اس کے برگزیدہ بندے صاحب حکمت اور ادب آموز ہيں اور راست گفتار
اور درست کردار والے ہيں ان کی خصوصيت ميں کوئی بهی ان کا شریک نہيں باوجودیکہ خلقت
کے لحاظ سے وہ لوگوں کے شریک ہيں اور وہ خدائے حکيم و عليم کی طرف سے مویّد بالحکمہ
ہيں۔
پهر یہ بهی ثابت ہے کہ زمانے کے ہر حصے ميں انبياء و مرسلين دلائل و براہين کے ساته
آتے رہے تاکہ زمين کسی وقت حجّت خدا سے خالی نہ رہے اور ہر حجّت کے ساته علم ہوتا ہے
جو ان کے راست گفتار اور صاحب عدل و انصاف ہونے کی دليل ہوتا ہے۔
۵۵٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن منصور بن حازم قالَ: قُلتُ لا بی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام اِنَّ اللّٰہ
اجَلُّ وَ اکرَمُ مِن ان یُعرَفَ بِخلقِہِ بَلِ الخَلقُ یعرَفُونَ بِاللہِّٰ ، قالَ صَدَقتَ ، قُلتُ اِنَّ مَن عَرَفَ انَّ لَہُ رَبّاً
فَقد یيبَغنی لَہُ ان یَعرِفَ انَّ لِذلِکَ الرَّبَ رِضاً وسخطاً وَانَّہُ لایُعرَفُ رِضاہُ وسَخَطُہُ اِلاَّ بوَحُیٍ او رَسُول
فَمَن لَم یاٴتِہِ الوَحیُ فَقَد ینبغی لَہُ ان یَطلِب الرُّسُلَ فِاِذا لَقِيَهُم عَرَفَ انَّهمُ الحجَّةُ وَاَن لَهُمُ الطاعة
المُفتَْرَضَةَ وَقُلتُ لِلناسِ : تعلمُونَ انَّ رَسُولَ اللّٰہِ (ص) کانَ ہُوَ الحجَّةُ مِنَ اللّٰہِ عَلیٰ خَلقِہِ ؟ قالُوا
بَلیٰ قُلتُ فحينَ مَضیٰ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) مَن کانَ الحجةَ عَل یٰ خَلقِہِ ؟ فقالُوا: القُرآنُ فَنَظرتُ فی
القُرآنِ فَاِذا هُوَ یخاصِمُ بِہِ المُرجیءُ وَالقَدَریُّ والزِندیقُ الَّذی لایوٴمِنُ بِہِ حَتّ یٰ یَغلبِ الرجال بِخصومتِہِ
فَعَرَفتُ انَّ القُرآنَ لا یکُونُ حجَّةً اِلاَّبقيّمٍ ، فَما قالَ فيہ مِن شَیءٍ کانَ حَقّاً ، فَقُلت لَهُم مَن قيم
القُرآنِ فَقالُوا ابنُ مَسعُودٍ قَد کانَ یُعلمُ وَعُمَر یعلَمُ وَحذَیفةَ یعلَمُ ، قُلتُ کُلّہ ؟ قالُوا لا فَلَم اجِدُ احَداً
یُقالُ انَّہُ یَعرِفُ ذلِکَ کُلّہُ اِلاَّ عَليّاً عليہ السلام ، وَاِذا کانَ الشیءَ بَينَ القومِ فَقالَ هذا الادری وَقالَ
هذا لا اَدری وَقالَ هذا اٴَنَا اَدری فَاَشهدُ اَنَّ عَليّاً عليہ السلام کانَ قيمُ القُرآنِ وکانت طاعتُہُ مفتَرضَةً
) وکانَ الحُجَّة عَلَی النّاسِ بَعد رسُولِ اللّٰہِ (ص) وَانَّ مافی القُرآنِ فهو حَقٌ فَقالَ رَحمِک اللّٰہُ ” ( ١
منصور ابن حازم روایت کرتے ہيں کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے عرض کيا: یقينا
الله تعالیٰ بزرگ و برتر اور جليل القدر ہے اس بات سے کہ مخلوق کو اپنی معرفت کرائے (کيوں
کہ مخلوق کے صفات اس کی ذات ميں نہيں ہيں اور اس کی معرفت وہبی ہے وہ اپنی طرف
سے صرف پيغمبروں کی رہنمائی کرتا ہے) بلکہ مخلوق کو چاہيے کہ خود الله کے ذریعے الله کی
معرفت حاصل کرے یعنی ان صفات کے ذریعے جو خود اس نے اپنے ليے بيان کيے ہيں، فرمایا:
صحيح ہے ميں نے عرض کيا: جو شخص اتنی بات سمجه لے کہ اس کا کوئی رب ہے تو اس کو
چاہيے کہ یہ بهی جانے کہ اس کے ليے رضا اور غصہ بهی ہے لہٰذا اس کی رضامندی اور
ناراضگی کونہيں جانا جاسکتا مگر وحی کے ذریعہ یا رسول کے وسيلے سے۔ لہٰذا جس کے
پاس وحی نہيں آتی اسے چاہيے کہ رسولوں کو تلاش کرے اور جب مل جائے تو یہ جان لے کہ
یہ لوگ حجّتِ خدا ہيں ان کی اطاعت فرض ہے، ميں نے (اہل سنت کے) لوگوں سے دریافت کيا:
کيا تمہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١۶٨ ، باب اضطرار الی الحجة، حدیث ٢۔ (
معلوم ہے کہ مخلوقِ الٰہی کے درميان پيغمبر (ص) حجّت خدا تهے؟ کہا: ہاں، ميں نے کہا: جب
پيغمبر کا انتقال ہوگيا تو پهر مخلوقِ الٰہی کے درميان حجّتِ خدا کون ہے؟ کہا: قرآن، ميں نے
کہا: قرآن سے تو مرجئہ، قدریہ، مفوضہ اور وہ زندیق جو قرآن پر ایمان نہيں رکهتے اپنے عقيدہ و
مقصد کے مطابق دوسروں سے مباحثہ اور غلبہ پانے کے ليے دليل لاتے ہيں (اور قرآنی آیات کو
اپنی رائے اور سليقے سے اپنے اعتقاد کے مطابق تطبيق کرتے ہيں لہٰذا ميں نے جان ليا کہ
قرآن بغير وارث و سرپرست کے جو اس کی حقيقت و واقعيت کے مطابق تفسير کرے) حجّت
نہيں ہوگا اور وہ وارث و سرپرست قرآن کی بہ نسبت جو کہے گا وہ حق ہوگا،لہٰذا ميں نے ان
سے کہا: قرآن کا وارث اور سرپرست کون ہے؟ کہا: ابن مسعود وہ عالم قرآن ہيں، عمر بهی
جانتے ہيں، حذیفہ کو بهی علم ہے ميں نے کہا: کيا یہ تمام قرآن کے عالم ہيں؟ کہا: نہيں، ميں
نے کہا: پهر ميں کسی کو یہ کہتے کيوں نہيں پاتا کہ پورے قرآن کا علم رکهنے والا اور کوئی
نہيں، ميں تو ان (علی ابن ابی طالب -) کے علاوہ کسی ایک کو بهی ایسا نہيں جانتا۔ لہٰذا ميں
گواہی دیتا ہوں کہ علی عالم ، وارث اور محافظ قرآن ہيں اور ان کی اطاعت لازم ہے نيزوہ رسول
اکرم (ص) کے بعد لوگوں پر حجّت خدا ہيں اور وہ قرآن کی بہ نسبت جو کچه کہيں حق ہے۔ یہ
سن کر امام - نے فرمایا: الله تم پر رحم کرے۔
|