٢۵ ۔ ظہور حق
٢۵ ۔ بِالقُرآنِ الاٴصلی تُبْلَی السَّرائِر
وَبِظُهُور الحُجةُ صَلَوات اللہّٰ عَلَيہِ تُبلیَ السَّرائِر
اصلی قرآن کے ذریعہ جو حضرت بقية الله الاعظم - کے پاس ہے کہ حضرت کے ظہور اور
تشریف لانے کے وقت وہ سب کچه ظاہر ہوگا جو دلوں ميں مخفی و پوشيدہ ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <یوم تبلی السرائر> ( ١
جس دن اندرونی راز فاش ہوں گے۔
۵١۴ ۔ “ وَفی الاحتجاج : فی روایة ابی ذرّ الغفاری رضوان اللّٰہ تعالیٰ اِنَّہُ قالَ لَمّا تَوُفّی
رَسُولُ اللّٰہِ (ص) جَمَعَ عَلِیٌّ عليہ السلام القُرآنَ وَجآءَ بِہِ اِلیَ المُهاجِرینَ وَالاٴنصارِ وَعَرَضہُ عَلَيهم
لِما قد اوصاہُ بِذلِکَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) فَلمّا فَتَحَہُ ابُو بَکَر خَرَجَ فی اوَّلِ صَفَحةٍ فَتَحَها فَضائح القوم
فَوَثَبَ عُمَرُ وقالَ یاعَلِیُّ اُردُْو فَلا حاجَةَ لَنا فيہِ فَاَخَذَہُ عليہ السلام وانصَرَفَ ،ثُمّ احضَروا زید بن
ثابِتٍ وَکانَ قارِیاً لِلقُرآنِ فَقال لَہُ عُمَرُ اِنَّ عَلِيّاً جآء نا بِالقرآنِ فَضائح المُهاجِرینَ والاٴنصارِ وَقد راٴَینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ طارق، آیت ٩۔ (
اَن نوٴلّفَ القُرآنَ وَنُسقِْطَ مِنہُ ما کانَ اِنّہُ فَضيَحةٌ وَهَتکٌ لِلمُهاجِرینَ وَالاٴَنصارِ فَاَجابَہُ زیَدٌ اِل یٰ لٰذکَ ثُمَّ
قالَ فَاِن اَنَا فَرَغتُ مِنَ القُرآنِ عَل یٰ ما سَاٴلتُم وَاَظهَْرَ عَلِیٌ عليہ السلام القُرآنَ الذی اٴَلَّفَہُ اَلَيسَْ قَد
بَطَلَ کُلَّ ما عَمِلتُم؟ قالَ عُمَرُ فَما الحيلَةُ ؟ قالَ زَیْدٌ انتُمْ اعَلَمُ بِالحيلة فَقالَ عُمَرُ ما حيلَتُہُ دُونَ انا
نَقتُْلَہُ وَ نَستَریح مِنہُ فَدَبَّر فَی قَتلِہِ عَل یٰ یَدِخالِدِ بن الوليد فَلم یقدر عَلی ذلِکَ فَلَّما استَخلَفَ عُمَرُ
سَئَلَ عَليّاً عليہ السلام اَن یَدفَعَ الَيهِْم القُرآنَ فََتُحَرِّفُوہُ فيما بَينَْهُم فَقال یا اَبَا الحَسَنِ اِن جِئتَ
بِالقُرآنِ الَّذی کُنتَ قَد جِئتَ بِہِ ال یٰ اَبی بَکرَ حَتّ یٰ نجتَمعَ عَلَيہِ ، فَقالَ عليہ السلام هيهاتَ لَيسَ
اِل یٰ ذلِکَ سَبيلٌ، اِنَّما جِئتُْ بِہِ اِل یٰ اَبی بَکرُ لِتَقُومَ الحُجَّة عَلَيکُم وَلا تَقُولُوا یَوم القِ يٰمَةِ انَّا کُنّا عَن
هذا غافِلينَ او تَقُولُوا ما جئتَنا بِہِ انَّی القُرآنَ الَّذی لا یمسّہ الا المطهَرونَ وَالاوصِياءُ من وُلدی ، قالَ
عُمَر فَهَل لاِظهارِہِ وَقتٌ مَعلومٌ؟ فَقالَ عليہ السلام نعم اِذا قام القائِم مِن وُلدی یُظهِْرُہُ وَیَحمِْل
) النّاسَ عَلَيہِ فَتُجریِ السّنَةُ صَلوات اللہّٰ عَلَيہ ” ( ١
علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے کتاب احتجاج سے ابوذر غفاری کی روایت کے مطابق
نقل کيا ہے کہ ابوذر کا بيان ہے: جب حضرت رسول خدا (ص) کی رحلت ہوئی تو حضرت علی -
نے قرآن جمع کيا اور مہاجرین و انصار کے پاس لائے انہيں دکهایا کيوں کہ رسول خدا (ص) نے
اسی طرح وضاحت فرمائی تهی۔ جب ابوبکر نے اسے کهولا تو اس ميں قوم کی رسوائياں برآمد
ہوئيں تو عمر نے اپنی جگہ سے کهڑے ہوکر کہا: اے علی ! اس قرآن کو واپس لے جائيے ہميں
اس کی ضرورت نہيں ہے لہٰذا حضرت علی - اسے اڻها کر واپس لے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ١، ص ٢٢٨ ۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ۴٢ ۔ (
پهر زید ابن ثابت جو قاری قرآن تهے انہيں حاضر کيا عمر نے کہا: یقينا حضرت علی -
ہمارے پاس قرآن لے کر آئے کہ جس ميں مہاجرین و انصار کی رسوائياں موجود تهيں، ہماری
رائے اورتدبير یہ ہوئی کہ ہم خود قرآن تاليف کریں اور اس ميں جو مہاجرین و انصار کی ہتک
حرمت اور رسوائياں ہوئی تهيں اسے حذف کردیں، چنانچہ زید ابن ثابت نے مثبت جواب دیتے
ہوئے کہا: اب اگر ميں تمہاری رائے کے مطابق قرآن جمع کرکے فارغ ہوجاؤں اور جو قرآن علی -
نے جمع کيا تها اسے ظاہر کردیں تو کيا تمہاری تمام دسيسہ کاریاں اور کارستانياں خراب نہيں
ہوجائيں گی؟ عمر نے کہا: تو پهر چارئہ کار کيا ہے ؟ کہا: تم اس کی تدبير کے بارے ميں بہتر
جانتے ہو؟ پهر عمر نے کہا: اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہيں کہ انہيں قتل کردیں اور ان کی
طرف سے سکون حاصل کریں اس تدبير کے بعد مزید غور وفکر کرکے یہ مصمم ارادہ کيا کہ خالد
ابن وليد کے بدست انہيں قتل کرایا جائے مگر کامياب نہيں ہوا کيوں کہ وہ اس جرم ميں ملوّث
) ہونے سے زیادہ عاجز تها کيوں کہ اس کا واقعہ مشہور ہے۔ ( ١
جب عمر خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت علی - سے درخواست کی کہ انہيں وہی
قرآن عطا کریں تاکہ وہ اپنے درميان مہاجرین و انصار کے متعلق جو مطالب مذکورہ ہيں اس ميں
تحریف و تبدیل سے کام ليں بلکہ اسے حذف کردیں۔ لہٰذا کہا کہ: اے ابو الحسن! آپ وہ قرآن
ہمارے ليے لے کر آئيں جو ابوبکر کے پاس لے گئے تهے تاکہ ہم لوگ اس پر عمل کریں تو حضرت
- نے فرمایا: هيهات! ایسا امر ممکن نہيں ہے اس کا کوئی راستہ نہيں ہے در حقيقت ابوبکر کے
سامنے اتمام حجّت کے ليے لایا تها کہ کل روز قيامت یہ نہ کہيں کہ ہم تو اس سے غافل تهے
یا نہ کہيں کہ ہمارے سامنے پيش نہيں کيا تها تاکہ ہم اس پر عمل کرتے یقينا وہ قرآن جو ميرے
پاس موجود ہے سوائے پاک و پاکيزہ افراد اور ميری اولاد ميں سے جو اوصياء ہيں مس نہيں
کرسکتے، عمر نے کہا: کيا اس کے اظہار کے ليے وقت معلوم ہے؟فرمایا: ہاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بعد والے صفحات ميں آپ ملاحظہ کرسکتے ہيں۔ (
جس وقت ميری اولاد ميں سے قائم قيام کرے گا تو وہ اس (قرآن) کو ظاہر کرے گا اور لوگوں کو
اس کی طرف برانگيختہ کرے گا اور پهر سنت پيغمبر (ص) کو جاری کرے گا انشاء الله تعالی۔
”وَفيہ اِنَّ ابا بکَر وعُمَرَ بَعَثا اِل یٰ خالِدِ بن الوَليدِ فَواعَداہُ وَفارَقاہُ عَل یٰ قَتِل عَلِیٍ عليہ السلام
وَضَمِنَ ذلِکَ لَهُما فَسَمِعَت ذلِکَ الخَبر اسماء بِنتِ عُمَيسٍ امراٴةُ اَبَی بَکر فی خِدرِها ، فَاَرسَلَت
خادِمَةً لَها وَقالَت تَرَدَّدی فی دارِ عَلِیٍ عليہ السلام وقُولی اِنَّ المَلاء یاٴتَمِرُونَ بِکَ ليقتُلُوکَ ، فَفعَلَتِ
الجارِیَةُ وَسَمِعَها عَلِیٌ عليہ السلام فَقالَ رَجَها اللہّٰ قُولیَ لِمَولاتِکِ فَمَن یقتُلُ النّاکِثينَ وَالمارقينَ
وَالقاسِطينَ وَوَقَعَتِ المواعِدةُ لِصَلوةِ الفجرِ اِذ کانَ اخفی واختُيرَت لِلسّدفةِ وَالشّبهَةِ فَانَّهُم کانُوا
بِالصَّلوة حَتیٰ لا تُعرِفُ المراٴةُ مِنَ الرَّجُلِ ولَکنَّ اللّٰہ بالغ امرِہِ ، وکانَ ابُو بَکر قالَ لخالِدِ بن الوَليدِ اِذا
انصَرَفتَ مِن صَلوةِ الفَجر فاضِرب عنُقَ عَلیٍ عليہ السلام فَصلّی اِل یٰ جَنبہِ لاَ جلِ لٰذکَ وَابُوبَکرُ فی
الصلوة یفکّرِ فی العَاقبِ فَنَدمَ فَجَلَسَ فی صَلواتِہِ حَت یٰ کادَتِ الشَمسُ تَطلَعُ یَتعقَبُ الآراء وَ یخافُ
الفِتنَة وَلا یاٴمَن عَل یٰ نَفسِہِ فَقال قَبل اَن یُسَلَّمَ فی صَلوتِہِ یا خالِد لا تفعَل ما امَرتُکَ بِہِ ثَلاثا“ً
۵١۵ ۔ “ وفی روایة اخری لا یفعَلَنَّ خالِد ما امَرتُہُ ، فَالتفَتَ عَلِیٌّ عليہ السلام فَاِذاً خالِدُ
مُشتَمِلٌ عَلَی السَّيفِ اِلی جانِبہ فَقالَ یا خالِدُ ما الَّذی امَرکَ بِہِ ؟ قالَ بِقَتلِکَ یا امير الموٴمنينَ قالَ
اوکُنتَ فاعِلاً ؟ فَقال اِی وَاللّٰہِ لو لا انَّہُ نَها نی لَوَ ضَعتہُ فی اکثرِکَ شَعراً فَقالَ لَہُ عَلیٌ عليہ السلام
کَذِبتَ لاامَّ لَکَ مَن یَفعلُہُ اضيقُ حلقة استٍ مِنکَ اَما وَاَّلذی فَلَقَ الحَبَّةَ وَبَری ء النَّسَمَةَ لَو لا
) ماسَبَق بِہِ القَضاءُ الَعَلِمُتَ ایُّ الفریقَينِ شَعرٌ مَکانا واضعَفُ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ١، ص ١١٨ ۔ بحار الانوار، ج ٢٩ ، ص ١٣٧ ۔ (
اسی کتاب ميں مذکور ہے کہ ابوبکر اور عمر دونوں خالد ابن وليد کے پاس گئے اور اسے
جهوڻے وعدوں کے ساته فریب دیا اور ایک دوسرے سے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے عليحدہ
ہوئے کہ علی - کو قتل کردیں، خالد نے ان کو ضمانت دی پهر جيسے ہی یہ خبر اسماء بنت
عميس جو ابوبکر کی زوجہ تهيں کو موصول ہوئی اپنی خادمہ کو حضرت علی کے گهر بهيج کر
کہا کہ: جاؤ انہيں باخبر کردو کہ لوگ آپ کے قتل کی سازش کر رہے ہيں چنانچہ خادمہ نے اپنے
اس وظيفے کو انجام دیا جب حضرت علی - نے اس واقعہ کو سنا تو فرمایا: (خدا اس پر رحمت
نازل کرے) اپنی شہزادی سے جاکر کہنا (اگر وہ مجهے قتل کردیں) کون ہے جو ناکثين و مارقين
و قاسطين (اہل صفين و جمل و نہروان) کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچائے۔ ان کا وعدہ صبح کے
وقت تها، تاکہ مرد و زن ميں تميز نہ ہو سکے ليکن خداوند متعال تو اپنا کام بر وقت کر کے رہتا
ہے۔
ابوبکر نے خالد سے کہا: جب تم نماز صبح سے فارغ ہو تو علی - کی گردن اڑا دو، لہٰذا
خالد نے علی - کے پاس اپنی نماز پڑهی تاکہ اپنا وعدہ پورا کر سکے ابوبکر نماز ميں اپنے
انجام کار کی فکر ميں پڑ گئے اور شرمندہ ہو کر نماز کی حالت ميں آفتاب طلوع ہونے کے نزدیک
بيڻهے رہے،لوگوں کے نظریات کی تلاش ميں حيران و سرگردان فتنے سے ہراساں اور اپنے خيال
اور ہواس کهو بيڻهے تهے لہٰذا سلام نماز ختم کرنے سے پہلے کہا: اے خالد! جس کام کے
ليے تمہيں مامور کيا گيا تها اسے انجام نہ دو اپنے اس جملہ کی تين مرتبہ تکرار کی۔
دوسری روایت ميں ذکر ہوا ہے: خالد کو اس چيز کا اقدام نہيں کرنا چاہيے جس کام کے
ليے اسے مامور کيا گيا ہے۔ لہٰذا حضرت علی - متوجہ ہوئے دیکها کہ خالد شمشير کهينچ کر ان
کے پاس کهڑا ہے، فرمایا: اے خالد! تمہيں اس کام کا کس نے حکم دیا ہے؟ کہا: آپ کے قتل کا
اے امير المومنين !
حضرت نے فرمایا: کيا واقعاً مجهے قتل کرنا چاہتے تهے؟ کہا: خدا کی قسم! اگر مجهے
منع نہ کيا ہوتا تو یقينا اس شمشير کو آپ کے فرق مبارک پر چلاتا۔ حضرت - نے فرمایا: تم
) جهوٹ بولتے ہو لا ام لک( ١) یہ کام تمہارے بس کا نہيں ہے۔ ( ٢
جان لو کہ اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے کو شگافتہ کيا مخلوقات کو پيدا کيا! اگر
تم قضائے الٰہی کو سمجهتے ہوتے کہ ان دونوں فرقوں ميں سے کس کی حيثيت زیادہ ضعيف
اور کمتر ہے۔
۵١۶ ۔ “وفی روایہ اخریَ لاٴبی ذَرٍّ رَحِمَة اللّٰہ اِنَّ اميرالمُوٴمنينَ عليہ السلام اَخَذَ خالِداً
بِاصَبَعيہِ السَّبابةِ وَالوُسطی فی ذلِکَ الوَقتَ فَعَصَرُہ عَصراً فصاحَ خالِدٌ صَيحَْةً مُنکرَةً فَفَزِعَ النّاسُ
وَهمتهُم انفسُهُم وَاحدثَ خالِد بی ثِيابِہ وَجَعَلَ یَضرِْبُ برجَليہ وَلایَتَکَلَّم فَقالَ ابُو بکَر لِعُمَرَ هذِہِ
مَشوَرَتُک المنکُوسَةِ کانی کُنتُ انظُرُاِل یٰ هذا واحِمد اللہََّٰ عَل یٰ سَلامَتِنَا کُلَّما دَنی اَحَدٌ لِيَخلُْصَہُ مِن
یِدہِ الحظَةً تَنَخی عنَہُ رُعباً، فَبَعَثَ ابُوبَکر اِلیَ العبَّاسِ فجآءَ وَ تَشَفعَ اليہ وَاَقسَمَ عَلَيہِ فَقالَ بِحَقِّ
) هذا القبرُ من فيہِ وَبِحقِ وَلَدَیہِ وامُهما اِلاَّ تَرَکتَہُ فَفَعَلَ ذلِکَ وَقَبَّل العباس بَينَ عينيہِ”( ٣
ابوذر غفاری عليہ الرحمہ کی دوسری روایت ميں ذکر ہوا ہے کہ حضرت امير المومنين -
نے اس خالد کو اپنی درميانی دو انگليوں کے درميان پکڑ کر ایسا فشار دیا کہ خالد نے چيخ کر
انکار کا نعرہ بلند کيا، لوگ ڈر کر اپنی اپنی فکر ميں پڑ گئے اور خالد نے بهی خوف کی شدت
سے اپنے لباس کو کثيف کيا اور اپنے پاؤں کو زمين ميںمارنا شروع کيا اور اس ميں بات کرنے
کی طاقت باقی نہيں تهی۔
پهر ابوبکر نے عمر سے کہا: تم نے اپنے منحوس مشورے کا نتيجہ ملاحظہ کيا، گویا ميں
یہ منظر دیکه رہا تها اور خود سے کہہ رہا تها الحمد لله ميں سلامتی کے ساته علی - کے
ہاتهوں سے نجات پاگيا کيوں کہ جو شخص بهی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ یہ فقرہ ملامت کے وقت استعمال ہوتا ہے۔ (
٢(۔ خالد کی ناتوانی کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کام وہی انجام دے سکتا ہے کہ جس کی (
طاقت تم سے کہيں زیادہ ہو۔
٣(۔ احتجاج، ج ١، ص ١١٨ ۔ (
ان کے نزدیک جاتا تها تاکہ خالد کو علی - کے ہاتهوں سے نجات بخشے وہ اپنی ہی جان کے
خوف سے مزید دور ہو جاتا تها، پهر ابوبکر نے کسی شخص کو عباس کے پاس بهيجا چنانچہ وہ
آئے ، سفارش کی اور حضرت کو قسم دلا کر کہا: اس قبر کے حق کا واسطہ اور جو اس ميں
محو خواب ہے اور اس کے فرزندوں اور ماؤں کے حق کا واسطہ اسے رہا کریں حضرت نے قبول
کيا اور عباس نے حضرت علی - کی پيشانی کا بوسہ دیا۔
”حضرت بقية الله الاعظم کے ظہور کے ساته مخفی چيزیں آشکار ہوجائيں گی“
جيسا کی اصلی قرآن کے ساته بہت سی اشياء حجاب ميں مخفی رہ گئی ہيں وہ بهی
ظاہر ہوں گی اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم امام عصر عجل الله فرجہ الشریف کے تشریف
لانے پر جو کچه انسانوں کے ضميروں ميں موجود ہے وہ بهی منصہٴ شہود و ظہور پر آئے گا۔ اور
بہت سے وہ امور جو جہل و نادانی کی بنا پر انجام پذیر ہوئے ہيں اگرچہ ظاہری صورت ميں
حجّت شرعی بهی رکهتے ہوں وہ بهی ظاہر ہوں گے، کيوں کہ حضرت - کی حکومت بعض
انبيائے کرام کی حکومت کی طرح جيسے حضرت داؤد اور حضرت سليمان واقعِ امر کا حکم کرتے
تهے وہ بهی ویسا ہی حکم کریں گے اور انہيں گواہ اور حجّت و دليل طلب کرنے کی بهی
ضرورت نہيںہوگی۔
۵١٧ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عَنْ اَبی عُبيدہِ الحذّاء قالَ: کُنّا زَمانَ اَبی جَعفرٍ عليہ السلام
حينَ قُبِضَ نَتَردَدُ کالغَنِم لا راعَی لَها فَلَقينا سالِمَ بنَ اَبی حَفصَةَ فَقالَ لی : یا اَبا عُبَيدةَ مَن اِمامُکَ
؟ فَقُلتُ ائمِتَّی آل محمّدٍ فَقال هَلکتَ واهلَکتَ اَما سَمِعتُ اٴنَا وَاَنتَ اَبا جَعفَرٍ عليہ السلام یَقُولُ :
مَن ماتَ وَلَيسَ عَلَيہ اِمامٌ ماتَ ميتَةً جاهِلِيَّةً ؟فَقُلتُ بَلی لَعَمری ولَقَد کانَ قَبلَ ذلِکَ بِثَلاثٍ او نَحوِها
دَخَلتُ عَلیٰ ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فَرَزَقَ اللّٰہ المعرِفَةَ فَقُلت لاٴبی عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام اِنَّی
سالِماً قالَ لی کذا وَکَذا ، قالَ فَقالَ یا اَبا عُبَيدَْةَ اِنَّہُ لا یمُوت مِنَّا مَيّتٌ حَتّ یٰ یخُلَّفِ مِن بعدِہِ مَن
یعملِ بِمِثلِ عَمَلِہِ یَسيرُ بِسيرَتِہِ وَیدعُوا اِل یٰ ما دَعا اِلَيہِ یا اَبا عُبَيدَْةَ اِنَّہُ لَم یمَنعُ ما اُعطِْیَ داوُدَ اَن
اعطَی سُلَيمانَ ، ثُمَّ قالَ یا اَبا عُبَيْدَةَ اِذا قامَ قائِمُ آلِ محمَّدٍ عليہ السلام حَکَم بِحُکْمِ داوُدَ وَ
) سُلَيمانَ وَلا یَساٴَل بَيَّنةً ” ( ١
کافی ميں بطور مسند ابو عبيدہ خداء سے مروی ہے کہ اس کا بيان ہے :جب امام محمد
باقر - کا انتقال ہوا تو ميں موجود تها (ان کے جانشين کے معين ہونے کے ليے) ہم لوگ اس
طرح متردد تهے جيسے وہ بکری جس کا چرواہا نہ ہو اور ہم سے سالم ابن ابی حفصہ نے
ملاقات کی (جس نے بعد ميں زیدی مذہب اختيار کيا اور امام صادق - پر لعنت اور ان کی تکفير
کی) وہ مجه سے کہنے لگا: اب تمہارا امام کون ہے؟ ميں نے کہا: آل محمد کے ائمہ ہيں۔
اس نے کہا: تم خود بهی ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بهی ہلاک کيا۔ کيا تم نے نہيں سنا
کہ امام محمد باقر فرمایا کرتے تهے کہ : جو شخص ایسی حالت ميں مر گيا ہو کہ اس کا
کوئی امام نہ ہو تو وہ کفر کی موت مرا۔ ميں نے کہا: اپنی جان کی قسم! ضرور ایسا ہی ہے اور
اس سے پہلے بهی۔ وہ دو تين مرتبہ ایسا کہہ چکا تها ميں امام جعفر صادق - کی خدمت
ميں آیا اور عرض کيا: سالم ایسا ایسا کہتا ہے فرمایا: اے ابو عبيدہ! ہم ميں سے جو شخص
مرتا ہے تو ضرور اپنے بعد ایسے شخص کو چهوڑتا ہے جو اس کی طرح عمل کرنے والا ہو اور
اسی جيسی سيرت کا حامل ہو اسی کی طرح خدا کی طرف بلانے والا ہو۔ اے ابو عبيدہ! جو
داؤد کو خدا نے عطا کيا تها اس کے پانے ميں سليمان کے ليے کوئی چيز مانع نہيں ہوئی (لہٰذا
خدا نے جو فضيلت ميرے والدِ گرامی کو عطا کی مجهے بهی عطا فرمائے گا) پهر فرمایا: اے ابو
عبيدہ! جب قائم آل محمد کا ظہور ہوگا تو وہ داؤد و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٣٩٧ ۔باب ان الائمہ اذا ظهر امرهم حکموا بحکم داؤد۔ (
سليمان عليہما السلام کی طرح بغير گواہ کے مقدمات کا فيصلہ کریں گے۔
مولف کہتے ہيں: حکم داؤد سے مراد پيغمبر و امام کا حکم دینا ہے اس علم و یقين کے
مطابق جو انہيں حاصل ہے اور طرفين کے حالات و قرائن اور ادلہ و شواہد کی طرف توجہ نہيں
فرمائيں گے کيوں کہ حضرت داؤد کی قضاوت اسی طرح ہوا کرتی تهی۔
یعنی اپنے علم کے مطابق جو حقيقی واقعے کے حامل ہوتے تهے حکم کرتے تهے۔
علامہ مجلسی عليہ الرحمہ کتاب مرآة العقول ( ١) ميں رقم طراز ہيں کہ: شيخ مفيد عليہ
الرحمہ نے کتاب المسائل ميں تحریر کيا ہے: امام اپنے علم و یقين کے مطابق حکم کرسکتا ہے
جيسا کہ ظاہری گواہوں کے مطابق حکم کرتا ہے اور جب بهی اسے معلوم ہوجائے کہ گواہوں
کی گواہی خلافِ واقع و حقيقت تهی تو ان کی گواہی کو رد کر دیتا ہے اور جو کچه خدا نے اسے
سمجهایا ہے اس کے مطابق حکم کرتا ہے اور ميرے عقيدے کے مطابق ممکن ہے کبهی باطن
اور حقيقت امر امام سے مخفی ہوجائے اور ظاہر کے مطابق حکم کر اگرچہ ایک واقع و حقيقت
کے برخلاف ہو کہ جسے خدا جانتا ہے اور ممکن ہے خدا امام کو آگاہ کرے اور سچے گواہ کو
جهوڻے گواہ سے اس کے ليے مشخص کرے اور اس طرح حقيقت حال امام سے پوشيدہ نہ رہے
یہ امور ان مصالح و الطاف الٰہی سے وابستہ ہيں کہ جس سے کوئی خدائے عزوجل کے علاوہ
واقف نہيں ہے۔ اور اماميہ گروہ کا یہاں تين قول پایا جاتا ہے۔
١۔ بعض قائل ہيں: ان کے فيصلے ہميشہ ظواہر کے مطابق ہيں اور کبهی بهی اپنے علم
کے مطابق حکم نہيں کرتے۔
٢۔ بعض قائل ہيں: ان کے فيصلے باطن و حقيقت کے مطابق ہيں نہ ظاہری امور کے
مطابق کہ جہاں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ مسئلہ اس کے برخلاف آشکار ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مرآة العقول، ج ١، ص ٢٩٧ ۔ (
٣۔ بعض افراد جيسے جو قول ميں نے اختيار کيا ہے قائل ہيں کہ امام کبهی ظاہر کے
مطابق اور کبهی باطن کے مطابق حکم کرتا ہے۔
ليکن اس بات کی روایات اور وہ عنوان جو کلينی عليہ الرحمہ نے اخذ کيا ہے اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ جب بهی مبسوط اليد ہوتے تقيہ کی حالت ميں نہيں ہوتے تهے تو باطن
) اور واقع کے مطابق قضاوت کرتے تهے۔ ( ١
۵١٨ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابان قالَ سَمِعتُ اَبا عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام یَقُولُ لا تَذهبُ الدُّنيا
حَتّیٰ یَخرجَ رَجُلٌ مِنّی یَحکُمُ بِحکُوُمَةِ آلِ داوُدَ وَلا یساٴلَ بَينَّةً یُعطی کُلَّ نَفسٍ حَقها ، وفی نسخة
) حکمها ” ( ٢
اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ اپنے اسناد کے ساته ابان سے نقل کرتے ہيں کہ ان
کا بيان ہے : ميں نے امام جعفر صادق - سے سنا کہ جب تک دنيا چلتی رہے گی ایک شخص
مجه سے اس کے خاتمہ سے پہلے ظاہر ہوگا جو آل داؤد کی طرف حکومت کرے گا اسے
مقدمات کے فيصلہ ميں گواہ کی ضرورت نہ ہوگی وہ ہر شخص کو اس کا حق عطا کرے گا۔ (ایک
نسخہ ميں ہے کہ ہر شخص کو اس کے حکم کے مطابق حکم دے گا(
۵١٩ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عمار الساباطی قالَ قُلتُ لِاَ بی عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام ، بِما
تحکُمُونَ اِذا حَکَمتُْم قالَ بِحُکمِ اللہِّٰ وَحُکمِْ داوُدَ فَاِذا وَرَدَ عَلَينا الَّشیءِ الَّذی لَيسَ عِندَنا تَلَقاٰ اّٰن بِہِ روحُ
) القدُسُ ” ( ٣
اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ اپنے اسناد کے ساته عمار ساباطی سے نقل کرتے
ہيں کہ ان کا بيان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الحاج سيد جواد مصطفوی صاحب کی مترجم کتاب کافی سے منقول ، ج ٢، ص ٢۴٨ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٣٩٨ ۔ (
٣(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
ہے : ميں نے امام جعفر صادق - سے عرض کيا کہ: جب آپ کسی قضيہ کا فيصلہ کرتے ہيں تو
کيسے کرتے ہيں؟ فرمایا: حکم خدا کے مطابق اسی طرح جيسے داؤد فيصلے کرتے تهے جب
کوئی ایسا معاملہ درپيش ہوتا ہے کہ جس کا ہميں علم نہ ہو تو روح القدس ہميں بتا دیتے ہيں۔
۵٢٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عمار الساباطیّ قالَ : قلُتُ لاٴبی عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام ما مَنِزلُة
الاٴَئمِةُ ؟ قالَ کَمنزِلةِ ذی القرنَينِ وَکمنزِلةِ یوشَع وَکمنزِلةِ آصفَ صاحِبِ سُليمانَ ، قالَ فبما تحکُمُونَ
) ؟ قالَ بِحکمِ اللّٰہِ وَحکُمِ آِل داوُدَ وَحُکم محمّدٍ (ص) وَیَتَلَقّانا بِہِ روحُ القدُسِ ” ( ١
اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ اپنے اسناد کے ساته عمار ساباطی سے نقل کرتے
ہيں کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - سے دریافت کيا کہ ائمہ کی منزلت کيا
ہے؟ فرمایا: وہی جو ذو القرنين کی ہے یا یوشع کی یا آصف وزیر سليمان کی۔ راوی نے کہا: آپ
قضا کا فيصلہ کيسے کرتے ہيں؟ فرمایا: جو حکم خدا ہوتا ہے اس کے مطابق اور آل داؤد کے
مطابق اور محمد مصطفی (ص) کے فيصلے کے مطابق اور اسے ہميں رو ح القدس بتاتے ہيں۔
۵٢١ ۔ “وفی البصائر : با سنادہ عن ابی عبيدہ عنہ ( الصادق ) عليہ السلام قالَ اِذا قامَ
) قائِمُ آلِ محمَّدٍ (ص) حَکَمَ بِحُکمِ داوُد وَسُليمانَ لا یسئَلُ الناسَ بيّنَةً”( ٢
صاحب بصائر نے اپنے اسناد کے ساته ابو عبيدہ سے روایت کی ہے کہ امام صادق -
نے فرمایا: جب قائم آل محمد کا ظہور ہوگا تو وہ داؤد و سليمان عليہما السلام کی طرح بغير
گواہ کے مقدمات کا فيصلہ کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، حدیث ۵۔ (
٢(۔ بصائر الدرجات، ص ٢٧٩ ۔ (
۵٢٢ ۔ “وفيہ عن جریز قال سَمِعَتُ اَبا عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام یَقُولُ لَن تَذهَبَ الدُّنيا حَتّیٰ
) یخرجُ رَجُلٌ مِنا اهلِ البَيتِ یَحکُمُ بِحُکْم داوُدَ وَلا یسئَل النَّاسَ بَيّنَةً ” ( ١
کتاب بصائر ميں جریز سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - کو
یہ فرماتے ہوئے سنا: دنيا کا اس وقت تک خاتمہ نہيںہوگا جب تک ایک شخص ہم اہل بيت سے
ظاہر ہوگا جو حضرت داؤد کی طرح فيصلہ کرے گا اور لوگوں سے گواہ نہيں طلب کرے گا۔
۵٢٣ ۔ “وفی غيبة النعمانی بِاِسنادِہِ عَن اَبی حَمزَةً الثمالِی قالَ سَمِعتُ اَبا جَعفرٍ محمَّدَ بنَ
عَلیٍ عليهما السلام یقُولُ لَو قَد خَرَجَ قائِمُ آلِ محمَّدٍ عليہ السلام لَنَصَرہُ اللّٰہ بالملائِکةِ المسوَّمينَ
والمردِفينَ وَالمنزلينَ والکروبينَ یَکُونُ جَبرَئيل امامَہُ وَميکائِيلُ عَن یَمينہ وَاِسرافيل عَن یسارِہِ
والرُّعبُ مَسيرُہُ امَامَہُ وَخَلفَہُ وَعَن یمينہِ وَعَن شِمالِہِ وَالملائِکَة المقرَبونَ حِذاہُ اوَّل مَن تبعہ محمَّدٌ
(ص) وَعَلیٌ عليہ السلام والثانی وَمَعَہُ سَيفٌ مخترِطٌ نَفتح اللّٰہ لَہُ الرّوم وَالقيَن وَالترکَ وَالدَّیلمَة
والسّند اوالهنَد وَکابُل شاہَ والخَزَرَ یا اَبا حَمزَةَ لایَقُومُ القائِم عليہ السلام اِلاَّ عَل یٰ خَوفٍ شَدیدٍ
وَزَلازِلَ وَفتنَةٍ وَبلاءٍ یُصيبُ النّاس وَطاعُونَ قَبلَ ذلِکَ وَسَيفٌ قاطعٌ بَينَ العَربِ واختِلافٍ شَدیدٍ بَينَ
النّاسِ وَتَشيّتٍ وَ تَشَتّتٍ فی دینهِم وَتَغيّرٍ مِن حالِهِم حَت یٰ یتمنَّی المنتهی الموتَ صَباحاً وَمساءً
من عظِم ما یر یٰ مِن کَلَبِ النّاسِ وَاکَلِ بعضهم بَعضاً وَخرُوجُ اِذا خَرَجَ عِند الاٴَیاسِ والقُنُوطِ فَياطوبی
لِمَن ادرَکَہُ وَکانَ مِن انصارِہِ، وَالوَیلُ کُلُّ الوَیلُ لِمَن خالَفَہَ وَخالَفَ امرَہُ وَکانَ مِن اعلامِہ ثُمَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، حدیث ۴۔ (
قالَ یَقوم باٴمِرٍ جَدیدٍ وَسُنةٍ جَدیدَةٍ وَقضاءٍ جَدید عَلَی العَرَبِ شَدیدٌ ليَسَ شَاٴنُہُ اِلاَّ القَتل وَلا
) یستَتُيب احدٌ وَلا تاٴخذہُ فی اللّٰہ لومة لائمٍ ” ( ١
نعمانی نے الغيبة ميں اپنے اسناد کے ساته ابو حمزہٴ ثمالی سے نقل کيا ہے کہ ان کا
بيان ہے: ميں نے امام محمد باقر - کو یہ کہتے سنا: اگر قائم آل محمد ظہور کریں تو یقينا
ملائکہ مسومين (نشانيوں والے فرشتے) مردفين (یعنی وہ فرشتے جو مومنين کی مشایعت
کرتے ہيں اور ان کی حفاظت کرتے ہيں) منزلين (یعنی بهيجے ہوئے)، کروبين (بڑے فرشتوں کو
کہتے ہيں کہ جن کے سردار جبرئيل - ہيں)( ٢) ان کی نصرت کریں گے، جبرئيل ان کے سامنے
اور ميکائيل داہنی طرف اسرافيل بائيں طرف ہوں گے اور رعب (خوف) چاروں طرف سے ہوگا اور
ملائکہ مقربين مقابل ميں ہوں گے اور سب سے پہلے جو اِن کی مشایعت کریں گے حضرت
محمد (ص) ہيں اور علی - دوسرے فرد ہوں گے ان کے ہمراہ شمشير برہنہ ہے الله تعالیٰ ان
کے ليے روم و دیلم سنده و ہند اور کابل شاہ و خزر کو فتح عنایت کرے گا اے ابو حمزہ! امام
قائم - اس وقت ظہور کریں گے جب لوگ شدید خوف زلزلوں ، فتنوں اور بلاؤں ميں مبتلا ہوں گے
اور آپ کے ظہور سے پہلے طاعون کی وبا پهيلے گی، اہل عرب کے درميان باہم شدید اختلاف
اور کشيدگی پيدا ہوگی برہنہ تلواریں چليں گی، دین ميں انتشار پيدا ہوگا اور ان کا ایسا برا حال
ہوگا کہ لوگ صبح و شام موت کی تمنا کریں گے اس ليے کہ دیکه رہے ہوں گے کہ ایک دوسرے
کو جانوروں کی طرح کهایا جا رہا ہے، ظلم ڈهایا جارہا ہے۔ آپ اس وقت خروج کریں گے جب
لوگوں پر مایوسی اور نا اُميدی چهائی ہوئی ہوگی۔
خوش نصيب ہے وہ شخص جس کو امام قائم - کا زمانہ مل جائے اور ان کے انصار ميں
شامل ہوجائے اور ویل و افسوس ہے اس شخص پر جو اِن کی مخالفت کرے ان کا حکم نہ مانے،
ان کے دشمنوں ميں شامل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ٢٣۵ ۔ (
٢(۔ پرانڻز کے درميان کی عبارت مجمع البحرین سے ماخوذ ہے۔ (
ہوجائے۔ پهر فرمایا: آپ ظہور کریں گے تو امر جدید و سنت جدیدہ، جدید فيصلہ کے ساته، جو اہل
عرب کے ليے گراں ہوگا، کيونکہ ان کا کام صرف قتل ہوگا، وہ کسی بهی ملامت کرنے والے کی
ملامت کی پروا نہيں کریں گے۔
نبی اکرم (ص) اور ائمہ کے سامنے اعمال کا پيش کرنا
۵٢۴ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قالَ تُعرَضُ
الاٴَعمال علی رَسُولِ اللّٰہِ (ص)اعمالُ العِباد کُلَّ صَباحٍ ابرارُها وَ فجّارُ ها فاحذَرُوها وَهُوَ قولُ اللّٰہِ
) تعالیٰ < اِعمَلُوا فَسَيری اللّٰہ عَملکُم ورسولُہُ > وسَکَتَ” ( ١
کلينی عليہ الرحمہ نے کافی ميں اپنے اسناد کے ساته ابو بصير سے نقل کيا ہے کہ
امام جعفر صادق - نے فرمایا: رسول خدا (ص) پر تمام لوگوں کے اعمال خواہ وہ نيک ہوں یا بد
ہر صبح کو پيش کيے جاتے ہيں لہٰذا تم اس سے ڈرتے رہو برے اعمال نہ کرو، الله تعالیٰ کے اس
قول پر عمل کرو کہ “الله تمہارے عمل کو دیکهتا ہے اور اس کا رسول ” اس کا معنی یہی ہے یہ
فرما کر خاموش ہو گئے۔
اس بات کو مدّ نظر رکهتے ہوئے کہ آیہٴ کریمہ ميں کلمہٴ (و رسولہ) کے بعد کلمہٴ (و
المومنون) ذکر ہوا ہے کہ جس سے مراد تفسير ميں ائمہ ہيں امام صادق - نے اس کلمہ کو یا
تقيةً یا مطلب واضح ہونے کی بنا پر بيان نہيں کيا اور ساکت رہے۔
۵٢۵ ۔ “وفيہ باسنادہ عن سماعة عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قالَ سَمِعتُہُ یَقوُلُ مالکُم
تَسووٴُنَ رَسُولَ اللہِّٰ (ص) فَقالَ رَجُلٌ کَيفَ نَسوٴوُہُ فَقالَ : اَما تَعلَمُونَ انَّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٩ ، حدیث ١۔ (
) اعمالکُم تُعرَْضُ عَلَيہِ فَاِذا رَای فيها مَعصَيةً سآءَ ہُ ذلِکَ فَلا تَسوُوُا رَسُولَ اللہِّٰ وَسَرُّوُہ ” ( ١
نيز کلينی عليہ الرحمہ نے کافی ميں اپنے اسناد کے ساته سماعہ سے نقل کيا ہے کہ
ان کا بيان ہے : ميں نے امام جعفر صادق - کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ: تم کو کيا ہوگيا ہے کہ
رسول خدا (ص) کو ناخوش اور آرزدہ کرتے ہو؟ ایک شخص نے کہا کہ: ہم کيسے ناخوش کرتے
ہيں؟ فرمایا: کيا تمہيں نہيں معلوم کہ حضور اکرم (ص) کے سامنے تمہارے اعمال پيش ہوتے
ہيں جب برے اعمال دیکهتے ہيں تو حضرت رنجيدہ ہوتے ہيں لہٰذا رسول خدا (ص) کو ناخوش نہ
کرو بلکہ انہيں خوش رکهو۔
۵٢۶ ۔ “وفی البصائر : باسنادہ عن محمد بن مسلم عن ابی جعفر عليہ السلام قالَ اَعمالَ
) العِبادِ تُعرَضُ عَل یٰ نبيکُم کُلّ عشيَّةٍ الخميس احَدکُم اَن تُعرضَ عَل یٰ نَبيّہِ العَمَلَ القَبيحِ ” ( ٢
بصائر ميں محمد ابن مسلم نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے
فرمایا: بندوں کے اعمال تمہارے پيغمبر کے سامنے ہر شب جمعہ پيش کيے جاتے ہيں لہٰذا تم
ميں سے ہر ایک کو شرم و حيا کرنی چاہيے کہ کہيں تمہارے برے اعمال پيغمبر (ص) کے
سامنے پيش کيے جائيں۔
’ ’وفيہ : باسنادہ عن عبد الرحمن بن کثير عن ابی عبدالله عليہ السلام قولہ تعالیٰ <قُل
اعمَلُوا فَسَيَرَی اللہُّٰ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ > قالَ هُمُ الاٴئمَّةُ تُعرَض عَلَيهم اعمالُ العِبادِ کُلَّ
) یومٍ اِل یٰ یومِ القِ يٰمَةِ ” ( ٣
اسی کتاب ميں عبد الرحمن ابن کثير ناقل ہيں کہ: امام جعفر صادق - نے خدائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٩ ، حدیث ٣۔ (
٢(۔ بصائر الدرجات، جزء ٩، ص ۴٢۶ ، حدیث ١۴ ۔ (
٣(۔ بصائر الدرجات، جزء ٩، ص ۴٢٧ ، حدیث ۴۔ (
عزوجل کے قول
)عمل کریں کہ خدا و رسول اور مومنين آپ کے عمل کو دیکه رہے ہيں ) کے متعلق فرمایا:
مومنين ائمہ ہيں کہ جن کے سامنے بندوں کے اعمال روزانہ صبح قيامت تک پيش کيے جائيں
گے۔
۵٢٧ ۔ “وفيہ ایضاً باسنادہ عن برید العجلی قال قلت لا بی جعفر عليہ السلا م <اعمَلُوا
فَسَيَرَی اللہُّٰ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ > قالَ ما مِن مُوٴمِنٍ یَمُوتُ وَلاکافِرٍ فَتُوضَع فی قَبرِہِ حَتّ یٰ
تَعرُضُ عَمَلُہُ عَل یٰ رَسُولِ اللہِّٰ (ص) وَعَلِیٌٍ عليہ السلام فَهَلُم جرّاً اِل یٰ آخرِ مَن فَرَضَ اللہُّٰ طاعَتَہُ
) عَلَی العِبادِ ” ( ١
اسی کتاب ميں برید عجلی کا بيان ہے: ميں نے امام محمد باقر - سے آیت کے متعلق
: (کام کرتے رہو کہ خدا و رسول اور مومنين تمہارے عمل و کردار کو دیکه رہے ہيں) عرض کيا تو
فرمایا: کوئی بهی مومن ، کافر انتقال نہيں کرتا پهر قبر ميں رکها جاتا ہے مگر یہ کہ اس کا عمل
رسول خدا (ص) اور علی - کے سامنے پيش کيا جاتا ہے یہاں تک کہ ان ميں یکے بعد دیگرے
آخری امام کے سامنے پيش کيا جاتا ہے کہ الله نے ان کی اطاعت تمام بندوں پر واجب قرار دی
ہے۔
۵٢٨ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عَن عَبدِ اللّٰہ بن اَبانَ الزَیّات وَکانَ مَکيناً عِندَ الرِّضا عليہ السلام
قالَ قُلتُ لِلرِّضا عليہ السلام ادعُ اللّٰہَ لی ولا هلِ بَيتی فَقالَ اَوَلَستُ افعَلُ وَاللّٰہِ انَّ اعمالَکُم لَتُعرضُ
عَلی فی کُلِّ یومٍ وَلَيلَةٍ قالَ فَاستعظمتُ ذلِکَ فَقالَ لی اما تَقَرء کِتابَ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ <قُل اعمَلُوا
) فَسَيَرَی اللہُّٰ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ >؟ قالَ هُوَ وَاللّٰہِ عَلیّ بن ابی طالِبٍ عليہ السلام ” ( ٢
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته عبدالله ابن ابان زیات سے روایت
نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: (حضرت امام رضا - کے نزدیک ان کا ایک مقام تها) ميں نے امام
رضا - سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، جزء ٩، ص ۴٢٩ ، حدیث ٨۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٩ ، حدیث ۴۔ (
عرض کيا: ميرے اور ميرے گهر والوں کے ليے دعا فرمائيں؟ فرمایا: کيا ميں دعا نہيں کرتا؟ خدا
کی قسم! تمہارے اعمال ہر شب و روز ميرے سامنے پيش کيے جاتے ہيں۔ عبد الله کا بيان ہے:
ميں نے اس کو امر عظيم سمجها تو حضرت - نے مجه سے فرمایا: کيا تم نے کتاب خدا ميں یہ
آیت نہيں پڑهی “عمل کرو پس تمہارے عمل و کردار کو الله دیکهتا ہے اس کا رسول اور مومنين”
پهر فرمایا: خدا کی قسم! اس مومن سے مراد علی ابن ابی طالب ہيں۔
۵٢٩ ۔ “ وفی البَصائِرِ بِاسنادِہِ عَن داوُدِ الرَّقی قالَ دَخَلتُ عَلی ابی عبدِ اللّٰہ عليہ السلام
فَقالَ لی یا داوُدُ اعمالُکُم عرضَت عَلَّی یَوم الخَميس فَرَایتُ لَکَ فيها شَيئاً فَرَّحَنی وَذلِکَ صِلتکَ
لابنِ عمَّکَ اَما اِنَّہ سَيمحَقُ اجَلُہُ وَلا ینقُصُ رِزقُکَ قالَ داوُد کانَ لی اِبنُ عَمٍّ ناصِبٍ کثيرِ العَيالِ
) محتاجٌ فَلمّا خَرَجتُ اِل یٰ مَکَّة اُمِرتُ لَہُ بصِلَةٍ فَلَمّا دَخَلَت عَل یٰ ابی عَبدِ اللہّٰ اخبَرَنی بهذا ” ( ١
بصائر ميں بطور مسند داؤد رقّی سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے کہ ميں امام جعفر
صادق - کی خدمت ميں شرف یاب ہوا تو انہوں نے مجه سے فرمایا: اے داؤد! تمہارے اعمال
بروز پنجشنبہ ميرے سامنے پيش کيے گئے تو ميں نے دیکها کہ تمہارے نفع کی چيز اس ميں
موجود ہے (یا تحریر کی ہوئی ہے) وہ ميرے ليے مایہٴ خوش حالی ثابت ہوا اوروہ تمہيں اپنے
چچا کے بيڻے سے صلہٴ رحم کرنا تها۔ جان لو عنقریب اس کی عمر ختم ہوجائے گی اور تمہاری
روزی ميں سے کوئی شے کم نہيں ہوگی۔ داؤد کا بيان ہے: ميرے ایک چچا کا فرزند ناصبی تها
جو کثير العيال اور ضرورت مند تها، جب ميں مکہ مکرمہ جانے کے ليے مامور ہوا تو ميں نے اس
کی مدد کی (یا حکم دیا کہ اس کی مدد کی جائے) جس وقت ميں امام جعفر صادق کی
خدمت ميں حاضر ہوا تو انہوں نے مجهے اس واقعہ سے باخبر کيا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، جزء ٩، ص ۴٢٩ ، حدیث ٣۔ (
ائمہ ، خدا کی مخلوق پر اس کے گواہ ہيں
۵٣٠ ۔ “ وفی البصائر : بِاسنادِہِ عَن محمّد بنِ مسلمٍ وَزُرارَةَ قالَ سَاٴلنا اٴبا عَبدِ اللہِّٰ عليہ
السلام عَنِ الاٴَعمال تُعْرَضُ عَلی رَسُولِ اللّٰہ (ص) قالَ مافيہِ شَکٌ ثُمَّ تَلاهذِہِ الآیةَ <قُل اعمَلُوا
) فَسَيَرَی اللہُّٰ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ > قالَ اِنَّ اللّٰہَ شُهدآء فی ارضِہِ ” ( ١
بصائر ميں بطور مسند محمد ابن مسلم اور زرارہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ ان کا بيان
ہے: ہم لوگوں نے امام جعفر صادق - سے سوال کيا کہ کيا لوگوں کے اعمال رسول خدا (ص)
کے سامنے پيش کيے جاتے ہيں؟ فرمایا: اس کام ميں کوئی شک و شبہ نہيں پایا جاتا پهر اس
آیت کی تلاوت فرمائی: (اے محمد (ص)! کہہ دیجيے تمام کام انجام دو عنقریب خداوند متعال
اور اس کا رسول تمہارے اعمال کو دیکهے گا اسی طرح مومنين بهی دیکهيں گے) پهر فرمایا:
یقينا الله تعالیٰ کے ليے روئے زمين پر گواہ افراد موجود ہيں۔
۵٣١ ۔ “ وفی الکافی : باِسنادِہِ عَن سَماعَة قالَ قالَ ابُو عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام فی قَولِ
اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ <فَکَيفَْ اِذا جِئنَْا مِن کُلَّ اُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَجِئنَْا بِکَ عَل یٰ هوُلآءِ شَہيداً > قالَ نَزَلَتَ فی امّةِ
) محمَّدٍ خاصَةً فی کُلِ قَرن مِنهُم اِمامٌ مِنّا شاهِدٌ عَلَيهِم وَمُحَمَّدٌ (ص) شاهِدٌ عَلَينا ” ( ٢
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته سماعہ سے نقل کيا ہے کہ ان
کا بيان ہے کہ : امام جعفر صادق - نے آیہٴ کریمہ (اس وقت تمہارا کيا حال ہوگا جب ہر امت
سے ایک گواہ کے ساته بلائيں گے اور اے رسول! تم کو ان سب پر گواہ بنائيں گے) کے متعلق
فرمایا: یہ آیت صرف امت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴٣٠ ، حدیث ۶۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٠ ، حدیث ١۔ (
محمدیہ کے بارے ميں نازل ہوئی ہے ان ميں سے ہر فرقہ اپنے امام کے ساته ہوگا جو ان کے
اعمال کے ليے حاضر و ناظر ہو گا ہم ان پر گواہ ہوں گے اور محمد (ص) ہمارے اعمال پر گواہ اور
حاضر و ناظر ہوں گے۔ (یعنی ان کی گفتار و کردار پر ناظر ہيں اورقيامت کے دن خدا کے حضور
گواہی دیں گے لہٰذا اس بات کا خيال رہے اور تقویٰ اختيار کرو کہ تمہارے گواہوں کی گواہی
مقبول اور وہ سب عادل ہيں)۔
۵٣٢ ۔ “وفيہ : بِاِسنادِہِ عَن بُریدِ العِجلی قالَ: قُلْتُ لاٴبی جَعفَرٍ عليہ السلام قَولِ اللّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ <وَکَذلِکَ جَعَلنْاکةم امّةً وَسَطاً لِتَکُونُوا شُهَداء عَلَ یٰ النّاسِ وَیکُونَ الرّسُولُ عَلَيکُم شَہيداً>
قالَ نَحنُ الاْٴُمّةُ الوَسَطِ وَنَحنُ شُهداءُ اللہّٰ تَبارکَ وَتَعال یٰ عَل یٰ خَلقِہِ وَحُجَةِ فی ارضِہِ قُلتُ: قولہُ
تَعال یٰ <یا ایُهَا الَّذینَ امنُوا ارکعُوا و اسجُدُوا و اعبُدُوا رَبَّکُم وَ افعلُوا الخير لَعَلَّکُم تفلِحُونَ> قالَ ایا نا
عَنی وَنَحنُْ المجتَبُونَ وَلَم یَجعَْلُ اللہُّٰ تَبارَکَ وَتعال یٰ فی الدّینِ مِن ضيقٍ فالخَرَج اشَدّ مِنَ الضّيقِ <
مِلَّةَ ابيکُم ابراہيمَ > اِیّا نا عَنی خاصَةً وَ “سَمّاکُمُ المُسلِمينَ ”اللّٰہ سَمَّانا المسلِمينَ مِن قَبلُ فی
الکُتبِ الَّتی مَضَيت وَفی هذا القُرآنِ <لِيکُونَ الرسوُلُ عَلَيکُم شَهيداً وَ تَکوُنوُا شَهداء عَلَی الناسِ>
فرَسُولُ اللّٰہِ (ص) الشَّهيدُ عَلَينا بِما بَلَّغ اْٰن عَنِ اللہِّٰ تَبارَکَ وَ تعال یٰ وَنَحنُْ الشّهداءُ عَلی الناسِ
) فَمَن صَدَّق یَومَ الق يٰمةَ صَدَّقناہُ وَمَن کَذَّبَ کذَّبناہُ ” ( ١
اسی کتاب ميں برید عجلی کا بيان ہے : ميں نے امام محمد باقر - سے دریافت کيا کہ
اس آیہٴ کریمہ (اور اسی طرح ہم نے تمہيں درميانی امت قرار دیا تاکہ لوگوں پر گواہ رہو اور
پيغمبر اکرم (ص) آپ پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١٩١ ، حدیث ۴۔ (
گواہ ہيں) کے متعلق آپ کی کيا رائے ہے؟ فرمایا: امتِ وسط ہم ہيں اور ہم الله کے گواہ ہيں اس
کی مخلوق پر اور ہم الله اس کی زمين ميں حجّت ہيں، ميں نے کہا: اس آیت سے کيا مراد ہے:
(اے ایمان لانے والو! رکوع کرو سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور نيکی کرو تاکہ تم فلاح
پاؤ، اور راہِ خدا ميں ڻوٹ کر جہاد کرو اس نے تم کو چن ليا ہے” فرمایا: اس سے مراد ہم ہيں کہ
ہم کو اس نے چنا ہے اور اس خدا نے فرمایا: دین ميں مسائل کے سمجهنے ميں کوئی اشکال
نہيں رکهتا پس مسائل ميں حرج ہونا دل تنگی سے زیادہ برا ہے اور “آپ کے باپ ابراہيم کی
ملت سے” صرف ہم مراد ہيں اور (تمہيں مسلمان نام رکها) خدا نے ہميں پہلے ہی سے
مسلمان نام رکها یعنی گزشتہ کتابوں ميں بهی اس نام سے موسوم کيا اور اس قرآن ميں بهی
ہے “تاکہ رسول (ص) ہم پر گواہ ہو اور ہم تم لوگوں پر” لہٰذا جس نے دنيا ميں ہماری تصدیق کی
ہم روز قيامت اس کی تصدیق کریں گے اور جس نے ہميں جهڻلایا ہم اسے جهڻلائيں گے۔
۵٣٣ ۔ “وفيہ بِاِسنادِہِ عَن سُلَيمِ بن قَيسِ الهلالی عَن اميرِ الموٴمنينَ عليہ السلام قالَ اِنَّ
اللہَّٰ تَبارَکَ وَتعال یٰ طهَّرنا وَعَصَمنا وَجَعَلَنا شُهدآء عَل یٰ خَلقِہِ وَحُجَّتَہَ فی ارضِہِ وَجَعَلَنا مَعَ القُرآنِ
) وَجَعَلَ القُرآنَ مَعَنا لا نُفارِقُہُ وَلا یُفارقُنا ” ( ١
اسی کتاب ميں سليم ابن قيس ہلالی نے حضرت امير المومنين - سے روایت کی ہے
آپ نے فرمایا: الله تبارک و تعالیٰ نے ہميں پاک و پاکيزہ بنایا اور ہميں مقام عصمت عنایت فرمایا
اور ہماری حفاظت کی ہميں اپنی مخلوق پر گواہ بنایا ہے، اور اپنی زمين پر اپنی حجّت قرار دیا
ہے اور قرآن کو ہمارے ساته کيا ہے اور ہم کو قرآن کے ساته ، نہ ہم اس سے جدا ہوں گے نہ وہ
ہم سے۔
)ہماری گفتار ہمارا کردار قرآن کے حقيقی معانی و مضامين پرمنطبق ہوتا ہے اور جدائی
ممکن ہی نہيں کيوں کہ ہم بهی قرآن سے تجاوز نہيں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ج ١، ص ١٩١ ، حدیث ۵۔ (
۵٣۴ ۔ “وفی البصائر بِاِسنادِہِ عَنْ محمّد بن مُسلم و زُرارَةَ قالَ سَاٴلنا اَبا عَبدِ اللّٰہِ عليہ
السلام عَن الاٴَعمالِ تُعرضُ عَلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) قالَ مافيہِ شَکٌّ ثُمَّ تَلاهذہِ الآیةَ <قُل اعمَلُوا
) فَسَيَرَی اللہُّٰ عَمَلَکُم وَرَسُولُہ وَالموٴمِنونَ > قالَ اِنَّ للّٰہِ شُهدآء فی ارضِہِ ” ( ١
بصائر ميں بطور مسند محمد ابن مسلم اور زرارہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ ان کا بيان
ہے: ہم لوگوں نے امام جعفر صادق - سے سوال کيا کہ کيا لوگوں کے اعمال رسول خدا (ص)
کے سامنے پيش کيے جاتے ہيں؟ فرمایا: اس کام ميں کوئی شک و شبہ نہيں پایا جاتا پهر اس
آیت کی تلاوت فرمائی: (اے محمد (ص)! کہہ دیجيے تمام کام انجام دو عنقریب خداوند متعال
اور اس کا رسول تمہارے اعمال کو دیکهے گا اسی طرح مومنين بهی دیکهيں گے) پهر فرمایا:
یقينا الله تعالیٰ کے ليے روئے زمين پر گواہ افراد موجود ہيں۔
چند دوسری روایت بهی اسی مضمون کی امام محمد باقر - سے نقل ہوچکی ہے۔
جس وقت حضرت قيام کریں گے لوگوں کو نئے سرے سے اسلام کی دعوت دیں گے۔
۵٣۵ ۔ کتاب وافی ميں امام جعفر صادق - سے روایت کی گئی ہے کہ جب قائم آل
محمد (ص) قيام کریں گے تو لوگوں کو نئے سرے سے اسلام کی دعوت دیں گے اور ان کے
) ليے جو چيزیں کہنہ ہوگئی ہوں گی ان کی طرف ہدایت و رہنمائی فرمائيں گے۔ ( ٢
۵٣۶ ۔ اسی کتاب ميں امام جعفر صادق - نے فرمایا: قائم کو قائم اس ليے کہتے ہيں
چوں کہ وہ حق کے ساته قيام کریں گے۔
۵٣٧ ۔ نيز اسی کتاب ميں منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: قائم - کو مہدی
کہتے ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر ،جزء ٩، ص ۴٣٠ ، حدیث ۶۔ (
٢(۔ وافی، ج ٢، ص ١١٣ ۔ (
) چوں کہ وہ لوگوں کو ان کی غفلت شدہ چيزوں کی طرف رہنمائی کریں گے۔ ( ١
۵٣٨ ۔ کافی ميں امام حسن عسکری - سے مروی ہے کہ حضرت - نے راوی سے
فرمایا: قائم کے متعلق سوال کيا ہے وہ جب قيام کرے گا تو لوگوں کے درميان اپنے علم سے
) حکم کرے گا حضرت داؤد کے فيصلے کی طرح بينہ و گواہ نہيں طلب کرے گا۔ ( ٢
حضرت - کے زمانہٴ غيبت کبریٰ ميں اور اس کا عہد طولانی ہونے کی وجہ سے لوگوں
نے علاماتِ ظہور کا مشاہدہ کرکے جو متعدد کتابوں ميں مفصلاً ذکر ہوا ہے حضرت - کے ظہور
موفور السرور کے انتظار ميں سر راہ آنکهيں اس طرح بچهائی ہوئی ہيں جيسے وہ بغير چرواہے
اور بے سرپرست حيوانات کی طرح حيران و سرگردان ہيں۔ دوسری طرف سے مسلسل کئی
صدیاں گزر چکيں کہ اس کے ہر دور ميں ضروری طور پر دنيا کے عظيم افراد اور رہبر مختلف آراء و
نظریات کی طرف اپنی ملتوں کو رہنمائی کرکے بہ مصداق آیہٴ کریمہ <کل حزب بما لدیهم
فرحون> (ہر گروہ وہ جو کچه بهی اس کے پاس ہے اس پر خوش و مگن ہے) اپنے وجود کا اظہار
کيا اور لوگ بهی بہ اعتبار <الناس علی دین ملوکهم> (لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوا کرتے
ہيں) رشد و نمو پيدا کيے ہيں۔ یہ بات واضح ہے کہ ایسی صورت ميں معاشرہ ميں بآسانی ہرج و
مرج پيدا ہوگا،لوگوں کے اموال و نواميس یہاں تک ان کے نفوس بهی معرض خطر اور انحطاط کا
شکار ہوں گے۔ احکام اور حدود الٰہی ماحول اور فضا کی آلودگی کے تاٴثر سے تبدیل ہوجائيں
گے۔
جب مشيت الٰہی ہوگی اور اس کی لا متناہی دریائے رحمت ميں جوش پيدا ہوا تو اپنے
بندوں کو اپنی عنایت و رحمت سے سرفراز کرے گا اور حضرت مہدی آل محمد عجل الله فرجہ
کے مقدس وجود ذی جود کے ظہور کی اجازت مرحمت فرمائے گا اور حضرت تشریف لا کر
طبيعی طور پر <یملا الارض قسطا و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وافی ج، ج ٢، ص ١١٣ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ۵۴ ۔ (
عدلا> کی منطق کے مطابق معاشرے کی فضا اور ماحول کی اصلاح اور احکام و حدود الٰہی کا
احياء کریں گے انحرافی قوانين اور فاسد عقيدوں کو جو دنيا کے رہبروں کی زہر آلود پروپيگنڈوں
سے پهيلے ہيں اور ان کی تربيت سے متاثر ہوئے ہيں اور لوگوں نے اس راہ کو اپنا کر اپنے اصلی
اور فطری عقيدوں کو کهو دیا ہے ان کی بهی اصلاح فرما کر اصلی اسلام جو پيغمبر اکرم (ص)
الله تعالیٰ کی جانب سے لائے ہيں آشنا کرائے گا۔
ایسے مقام پر بسا اوقات بعض نادانياں اور غفلتيں یا ظاہری شرع پر اعتبارکرنے سے
ایسے افعال انجام پاتے ہيں کہ عدم اطلاع کی بنا پر در واقع خلافِ شریعت ہوتے ہيں اور جہاں
حضرت حجّت - کی سيرت و رفتار ان کے آبائے کرام کی سيرت طيبہ کے برخلاف ہوگی وہاں
حضرت داؤد - کی طرح واقعيات کا حکم دیں گے تو بهی یقينی صورت ميں حدود الٰہی ميں
بنيادی تبدیلی رونما ہوگی۔ اس وقت لوگ خيال کریں گے کہ یہ عظيم ہستی جدید اسلام لائی
ہے۔
یہ بات واضح کرنے کے ليے دو مورد کی طرف اشارہ کيا جا رہا ہے۔ مثلاً فرض کریں کہ
ایک شخص ان موازین اور رسومات کے مطابق جو شادی کے متعلق ہے ایک خاندان ميں شادی
کے ليے منگنی کرتا ہے بعد ميں طرفين کے توافق او رمراسم کے ساته شرعاً اور قانوناً شادی
بهی کر ليتا ہے اور صاحب اولاد بهی ہوجاتا ہے مگر اس بات سے وہ شخص جاہل اور غافل تها
کہ اس کی بيوی اس کی رضاعی بہن ہے۔
یا ایک شخص نے اپنی تمام رحمت کے ساته حلال طریقے سے ایک رقم جمع کی اور
شرعی معاملات کے موازین و قوانين کے ساته ایک جائداد خریدی اور اسے ہڑپ کرليا ہے جب
کہ حقيقت ميں وہ جائداد بچے کی تهی یا غصبی اور تجاوز کرکے حاصل کی تهی اسی طرح
کی اور بهی دوسری مثاليں موجود ہيں۔
جس وقت حضرت حجّت - روحی لہ الفداء ایسے موارد ميں فرمانِ الٰہی کے مطابق
واقعی حکم دیں گے اور کہيں گے کہ: اپنے اہل و عيال سے دست بردار ہوجاؤ وہ تم پر حرام ہے
کيوں کہ تمہاری رضاعی بہن ہے یا صاحبِ جائداد سے کہيں گے کہ یہ جائداد فلاں بچے کی ہے
یا فلاں شخص کی تهی کہ جسے غصب کرليا ہے اسے اس کے مالک کو واپس کرنا ضروری
ہے۔ تو لوگ یقينا یہی کہيں گے: وہ جدید اسلام لے کر آئے ہيں البتہ ميں نے ان دو مورد کو بطور
نمونہ ذکر کيا ہے۔ ممکن ہے کہ ان دو مورد کے علاوہ عدم اعتقاد کی بنا پر یا آیات و روایات سے
نا واقفيت کی وجہ سے جو آخری زمانے اور علاماتِ ظہور کی کيفيت و حالات کے متعلق بہت
سی معتبر کتابوں ميں مدوّن و مذکورہ ہے ، یا حضرت - کی کفار و مومنين کے ساته سيرت و
رفتار سے دوسرے مصادیق بهی معلوم ہو جائيں۔
ليکن جو لوگ حضرت بقية الله الاعظم کے اصل مقدس وجود کی بہ نسبت کامل ایمان اور
صحيح اعتقاد، غيبت، طول عمر، حضرت کا ظہور، حکومت کی کيفيت اور اصل عدالت کا احياء اور
اسے نافذ کرنے کی کافی اطلاع رکهتے ہيں اور روزانہ یا کم از کم کبهی کبهی دعائے عہد کو
پڑها ہے وہ صميم قلب اور تہ دل سے کہتے ہيں:
۵٣٩ ۔ “اللَّهم اجعلنی من اعوانہ وانصارہ والراضين بفضلہ والممتثلين باوامرہ والمحامين عنہ
والسابقين الی ارادتہ والمستشهدین بين یدیہ ” یعنی : خدایا! مجهے ان کے اعوان و انصار، جو
ان کے تمام افعال سے راضی و خوشنود رہنے والے ان کے اوامر کی تعميل کرنے والے، ان سے
دفاع کرنے والوں، ان کی حاجتوں کو پورا کرنے ميں تيزی سے کام کرنے والوں ، ان کے مقاصد
کی طرف سبقت کرنے والوں اور ان کے سامنے شہيد ہونے والوں ميں قرار دے۔
جب کبهی دعائے عہد کے مضامين بالخصوص یہ فقرات انسان کے گوش گزار ہوتے ہيں
تو یہ اميد ہوتی ہے حضرت حجّت - روحی لہ الفداء کے الطاف و عنایات سے بہرہ مند ہيں اور
ابدی سعادت نصيب ہو۔
اللهم وفّقنا وجميع المشتاقين بمحمد وآلہ الطّاہرین خدایا! ہميں اور تمام مشتاقين کو
محمد اور ان کی طيب و طاہر آل کے واسطے سے اس بات کی توفيق کرامت فرما۔
|