قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

سرقت اور اس کی سزا کی کيفيت
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقطَْعُوا اٴَیدِْیَہُمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِن اللهِ ) وَاللهُ عَزِیزٌ حَکِيمٌ # فَمَن تَابَ مِن بَعدِْ ظُلمِْہِ وَاٴَصلَْحَ فَإِنَّ اللهَ یَتُوبُ عَلَيہِْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ > ( ١ چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاته کاٹ دو کہ یہ ان کے ليے بدلہ اور خدا کی طرف سے ایک سزا ہے اور خدا صاحب عزت بهی ہے اور صاحب حکمت بهی ہے۔
پهر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ الله بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
مذکورہ آیات کریمہ اس بات سے قطع نظر کہ دین مقدس اسلام کی اہم ترین سياست ميں سے ہے جہانِ ہستی ميں عام امن و امان ایجاد کرنے کا باعث ہے اور معاشرتی عدالت کے محقق ہونے کی بهی مزید اسلامی اقتصاد کی محکم ترین اساس بهی ہے کہ جس کی طرف اشارہ کيا جائے گا۔
سورئہ مبارکہ نور کی دوسری آیت ميں زنِ زانيہ کی حد کو زانی مرد پر مقدم رکها اپنے اس قول سے <الزَّانِيَةُ وَالزَّانِی فَاجلِْدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنہُْمَا مِائَةَ جَلدَْةٍ > ( ٢) زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤ۔ ليکن اس آیت ميں چور مرد کو چور عورت پر مقدم رکها شاید یہ اس جہت سے ہو کہ چوری ميں محرّک اصلی مرد لوگ ہوا کرتے ہيں اور زنا کے ارتکاب ميں اکثراً لا اُبالی عورتوں کی شہوات کی قوت اصلی محرّک ہوا کرتی ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقطَْعُوا اٴَیدِْیَہُمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِن الله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ٣٨ ۔ ٣٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ نور، آیت ٢۔ (
چور مرد اور چور عورت دونوں کے ہاته کاٹ دو کہ یہ ان کے ليے بدلہ اور خدا کی طرف سے ایک سزا ہے۔
راغب اصفہانی المفرادت ميں کہتے ہيں: “نکال” حيوان کا قيد کرنا ہے جس کا معنی لگام دینا ہے یہ اس بات کا کنایہ ہے کہ حيوان کا دوسروں پر تجاوز کرنے سے منع کرنا اور آیہٴ کریمہ ميں گناہ کو ترک کرنا اور اس سے روک تهام کے ليے استعمال ہوا ہے اور بعد ميں ہر اس مقام ميں استعمال ہونے لگا جہاں کسی بهی کام کے انحراف کو روکا جائے۔ پهر خداوند تبارک و تعالیٰ آیت کے آخر ميں اس توہم کو دور کرنے کے ليے کہ مذکورہ سزا عادلانہ نہيں ہے فرماتا ہے: الله تبارک و تعالیٰ قدرت والا بهی ہے اور صاحب اقتدار بهی کوئی دليل نہيں ہے کہ وہ کسی سے خواہ مخواہ انتقام لے اور حکيم بهی ہے اس اعتبار سے کسی کو بغير حساب سزا نہيں دیتا۔ <و اللّٰہ عزیز حکيم>۔
قابل ذکر ہے کہ مندرجہ ذیل نکات مورد توجہ قرار پائيں۔ ١۔ چوری کا ثبوت ٢۔ سزا کی شرطيں ٣۔ ہاته کاڻنے کے موارد ۴۔ ہاته کاڻنے کی کيفيت اور اس کی حدود ۵ ۔ سزا ساقط ہونے ميں توبہ کی قدرت۔

”چوری کس طریقے سے ثابت ہوتی ہے“
١۔ خود چور کا دو مرتبہ اعتراف و اقرار کرنے سے۔
٢۔ اعتراف کرنے والا بالغ و عاقل اور آزاد ہونا چاہيے، بچے مجنون اور غلام کے اقرار کا کوئی اعتبار نہيں ہے۔
٣۔ دو شاہد عادل کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے ایک مرد دو عورتيں اور صرف متعدد عورتوں سے ثابت نہيں ہوتی۔
”سزا کے شرائط اور چور کے ہاته کاڻنے کے مقامات“
اور اسی (Godown) ١۔ یہ کہ مال ایک محفوظ مکان ميں ہو جيسے گهر، دکان، انبار جيسے دوسرے مقامات صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغير اندر جاکر ایسا فعل انجام دے۔
٢۔ یہ کہ مال لوگوں کی ملکيت ہو۔
٣۔ یہ کہ مال چور اور دوسرے شخص کے درميان مشترک نہ ہو۔
۴۔ شبہ والا مقام نہ ہو یعنی اگر یہ وہم و گمان ہو کہ فلاں مال اس کی ملکيت کا ہے اور اسے لے لے اور بعد ميں معلوم ہو کہ دوسرے افراد کی ملکيت ہے ایسی صورت ميں اس پر حد جاری نہيں کی جائے گی۔
۵۔ یہ کہ چور صاحبِ مال کا باپ نہ ہو۔
۶۔ مخفی طور پر اور اپنے اختيار سے چوری کی ہو۔ ) ۴دینار ہو۔ ( ١ / ٧۔ یہ کہ چوری کيا ہوا مال کم ازکم ربع ١ ہمارے فقہاء کے نزدیک مشہور و معروف یہ ہے کہ چوری کی ہوئی چيزوں کی قيمت ۴ (مثقال شرعی) ہے سونے کے ڈهلے ہوئے سکہ تک پہنچ جائے / اپنے حد نصاب جو ربع دینار ١ ان تمام شرائط کے ساته جس کی تفصيلات فقہی کتابوں ميں مندرج ہے چور پر حد جاری کرنے کا حکم شامل ہے۔
٨۔ قحط سالی ميں لوگ بهوکے ہوں اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو، ایسا نہ ہو، لہٰذا وہ تنگ دستی جو شرعی اضطرار کی حد تک ہو حد جاری نہيں ہوگی اور اسی طرح اگر چوری ثابت ہونے سے پہلے حاکم شرع (مجتہد جامع الشرائط) کے پاس چور توبہ کرے وہ بهی اختيار سے توبہ کرے تو ایسی صورت ميں بهی حد جاری نہيں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ دینار سے مراد ایک مثقال شرعی طلائے مسکوک (سونے کے سکے) اور شرعی مثقال ( ۴ معمولی مثقال کے برابر ہے۔ / ١٨ چنے یعنی ٣


”ہاته کاڻنے کی کيفيت اور اس کے حدود“
فقہائے اماميہ کے درميان اہل بيت عصمت طہارت سے منقولہ روایات سے استفادہ کرتے ہوئے مشہور و معروف یہ ہے کہ صرف چار انگشت داہنے ہاته سے کاڻی جائے گی اس سے زیادہ نہيں اگرچہ اہل سنت کے فقہاء اس سے زیادہ کے قائل ہيں ليکن مذکورہ حد سے زیادہ پر ) کوئی دليل موجود نہيں ہے۔ ( ١
نمونہ کے طور پر اس چور کی حد جاری ہونے کا واقعہ کہ جس کا معتصم خليفہٴ عباسی کے پاس اس نے اعتراف کيا تها او ر اپنی تطہير کا طالب تها تمام اہل سنت کے فقہاء نيز حضرت امام محمد تقی - حاضر ہوئے موجودہ علماء ميں سے ہر ایک نے اپنی اپنی نوعيت کا فتویٰ دیا اور اظہار نظر کيا، معتصم نے ان کے جوابات پر اکتفا نہيں کی کمال احترام کے ساته حضرت امام محمد تقی - سے تقاضا کيا تاکہ آپ حکم کو بيان فرمائيں۔
اب واقعہ کی تفصيل جو شيخ بزرگوار علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے بحار الانوار ميں تفسير عياشی سے نقل کی ہے آپ کے گوش گزار کرتے ہيں:
۴٨۵ ۔عن زُرقان صاحبُ ابْن ابی داوُد وَصدیقہُ بشدَّةٍ قالَ رَجَعَ ابنُ ابی داوٴد ذاتَ یومٍ مِنْ عِند المعتصمَ وَهُوَ مغْتمٌ فَقُلْتُ لہُ فی ذٰلکَ فَقالَ وردت اليوم انّی قدمت منْذ عِشرینَ سَنَةٍ قالَ قلت لَہُ وَلم ذٰاکَ قالَ لِمٰا کانَ منْ هذاَ الاسْوَدِ ابی جعفَر محمّد بن علی بن مُوسیٰ اليوْمَ بَيْنَ یَدَیْ امير الموٴمنينَ ، قالَ قُلتُْ لَہُ وَکَيفَْ کانَ لٰذِکَ قالَ انَّ سارقاً اقرَّ عَل یٰ نفسِہِ بالسِّرقَةِ وَسَئَل الخليفَةَ تَطهيرہُ باقامَةِ الحّدِ عَلَيہِْ فَجَمعَ ل لٰ ذِکَ الفَقهاءَ فی مجَلسہ وَقَد احضرَ محمّد بن عَلی عليہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب خلاف ، شيخ طوسی عليہ الرحمہ، ص ۴۶٩ ۔ (
السلام فسالناً عَنِ القطْع فی ایِّ مَوْضِعٍ یَجب انَّ یُقْطَعُ فَجَعَ قال فَقلتُ مِنَ الکُرسُوعِ ، قالَ وَمَا الحجّة فی ذٰلک ؟ قلت لاٴنَّ اليدَ هی الاصٰابْع والکفّ الیٰ الکُرسُوعِ لقولِ اللّٰہ عليہ السلام فی التيمم فامسحُوا بوجوهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ ، واتفَقَ مَعی ذٰلِک قوْم ، وَقالَ آخرُون بَلْ یَجب القَطْعُ مِنَ المرفقَ قالَ وَما الدَّليل علیٰ ذٰلک ؟ قالوا لاَنَّ اللّٰہ قال وایدیکُمْ اِلیٰ المرافقِ فی الغَسْل دَلَّ ذلکَ عَلیٰ انَّ حدَّ اليد هو المرفقُ قالَ فالتفت الی محمّد بنْ عَلی عليہ السلام قالَ اما تقول فی هذا یا اٴبا جعفَر ؟ فَقالَ عليہ السلام قَد تکَلَم القومْ فيہ یا اٴمير الموٴمنينَ قال دَعْنی ممّا تُکلّموابہ ایّ شیءٍ عِنْدکَ ؟ قالَ اعْفنی عَن هذا یا اَمير قال اقْسَمْت عليکَ بِاللّٰہ لمّا اخبرْت بما عِنْدک فيہ ؟ فقالَ اَمٰا اذا قَسَمْتَ عَلَیَّ بِاللّٰہِ انّی اقُولُ انّهمُ اٴخطوا فيہِ السنّةً ، قال الْقَطْعُ یَجب اٴنْ یکونَ مِنْ مَفْصِل اصولِ الاصابِعِ فيترک الکفْ، قال وَمَا الحجّة ذٰلکَ ؟ قالَ قوْلُ رَسُولِ اللّٰہ (ص) السّجُودُ علیٰ سبعة اعضاء الوَجہُ وَاليَدَینَ وَالرکبتيْنُ وَالرّجلينْ فاِذا قطْعَتْ یَدہُ مِنَ الکُرسُوعِ او المرفِق لم یبق لَہُ یدٌ یسجد عليها وقال اللّٰہ تبارکَ وتعالیٰ <وانَّ المسَاجِدَ للّٰہ > یعنی بہ بهٰذہ الاعْضاءِ السَّبْعة الَّتی یَسجُدُ عَلَيهٰا فلا یدْعُوا مَعَ اللّٰہ احداً مٰا کٰانَ للّٰہ لمْ یَقْطَعْ قالَ فاعجَبَ المعتصَمْ ذٰلک اَمَر بقطعْ ید السَّارِقِ منْ مفْصل الاصٰابِعِ دونَ الکفِّ قال ابن ابی داود قامت قيامتی وتمنيت انی لم السحيا قال زرقان قال ابن ابی داود صرت الیٰ المعتصم بعد ثالثة فقلت انی نصيحة اميرا علی واحبة واناکلمة بما اعلم انی ادخل بہ النار قال وما هو قلت اذا جمع امير فی مجلسہ فقهاء وعية وعلمائهم لامر واقع من امور الذین فساٴلهم عن الحکم فيہ فاخبروہ بما عندهم من الحکم فی ذلک وقد حضر مجلسہ اہل بيتہ وقوادہ و وزرائہ وکتّابہ وقد تسامع الناس بذلک من وراء بابهئم یترک اقاویلهم کلہ لقول رجل یقول شطر هذہ ؟ بامامتہ ویدّعون انہ اولیٰ منہ بمقامہ ثم یحکم بحکمہ دون حکم الفقہاء ؟ قال فتغير لونہ وانتبہ لما نبهتہ لہ قال جزاک اللّٰہ عن نصيحتک خيراً قال فامر العموم الرابع فلاناً من کتاب وزرائہ بان یدعوہ الیٰ منزلہ فدعاہ فاٴبیٰ ان یجبيبہ وقال قد علمت انی لا احضر مجالسکم فقال انی انما ادعوک الیٰ الطعام واحب ان تطاٴ ثيابی وتدخل منزلی فاتبرک بذلک فقد احب فلان بن فلان من وزراء الخليفة لقائک فصار اليہ فلما طعم منها احس السمّ فدعا بدایتہ فساٴلہ ربّ المنزل ان یقيم قال خروجی من دارک خير لک فلم یزل یومہ ) ذلک فی حلقہ حتی قبض - صلوات اللّٰہ وسلامہ عليہ - ۔ ( ١
علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے بحار الانوار ميں تفسير عياشی سے نقل کيا ہے کہ زرقان جو ابن ابو داؤد کا مصاحب اور اس کا بڑا گہرا دوست تها اس کا بيان ہے کہ: ایک دن ابن ابی داؤد معتصم کے پاس آیا وہ بہت محزون و مغموم تها ميں نے دریافت کيا، بات کيا ہے؟ اس نے جواب دیا: آج تو ميرے دل ميں یہ بات آئی کہ کاش ميں آج سے بيس سال پہلے ہی مر گيا ہوتا۔ ميں نے دریافت کيا کيوں؟ اس نے کہا: آج امير کے سامنے اس کالے چہرے والے ابو جعفر محمد ابن علی ابن موسیٰ (امام محمد تقی -) نے مجهے بہت ذليل کيا۔ ميں نے کہا: بات کيا ہوئی؟ اس نے کہا: ایک چور نے اپنی چوری کا اقرار کرليا اور امير سے درخواست کی کہ اس پر حد جاری کرکے اس کی تطہير کردی جائے تو اس کے ليے دربار ميں تمام فقہاء جمع کيے گئے جس ميں ابو جعفر محمد ابن علی تقی جواد - بهی آئے۔ امير نے ہم لوگوں سے دریافت کيا کہ اس چور کا ہاته کہاں سے کاڻا جائے؟ ميں نے کہا: کلائی سے، امير نے ہم لوگوں سے اُس کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣١٩ ۔بحار الانوار، ج ٧۶ ، ص ١٩١ ، باب مولا محمد ابن علی الجواد -۔ (
دليل دریافت کی؟ميں نے کہا: اس ليے کہ یہ (ہاته) کا اطلاق انگليوں اور ہتهيلی پر کلائی تک ہوتا ہے اس ليے کہ الله تعالیٰ تيمم کے متعلق فرماتا ہے: فامسحوا بوجوهکم و ایدیکم (اپنے ہاتهوں اور چہروں کو مسح کرو) اور تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں اس سے مراد کلائی ہے۔ دوسرے فقہا نے کہا: نہيں بلکہ اس کے ہاته کہنی سے کاڻنا واجب ہے۔ امير نے دریافت کيا اس کی تمہارے پاس کيا دليل ہے؟ لوگوں نے کہا: دليل یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے وضو کے متعلق ارشاد فرمایا ہے: و ایدیکم الی المرافق یعنی وضو ميں ہاته کہنی تک دهوؤ یہ اس امر کی دليل ہے کہ اس (ہاته) کی حد کہنی تک ہے۔
راوی کا بيان ہے کہ: اس کے بعد معتصم حضرت محمد ابن علی تقی - کی طرف متوجہ ہوا اور بولا: اے ابو جعفر! تم اس مسئلہ ميں کيا کہتے ہو؟ آپ نے فرمایا: اے امير! فقہائے امت اپنی اپنی رائے کا اظہار تو کرہی چکے ہيں لہٰذا مجهے چهوڑ دیں ان لوگوں کی گفتگو کے بعد ميری رائے کی کيا ضرورت ہے؟ معتصم نے کہا: نہيں بتاؤ کہ تمہاری کيا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: اے امير! مجهے معاف رکهيں تو بہتر ہے، معتصم نے کہا: نہيں تم کو خدا کی قسم! یہ بتاؤ کہ آخر تمہاری رائے کيا ہے؟ آپ نے فرمایا: خير جب تم نے الله کی قسم دے دی تو اب سنو کہ ان سب نے غلطی کی اور سنت کے خلاف فتویٰ دیا اس ليے کہ صرف انگليوں کی جڑ سے قطع کرنا واجب ہے ہتهيلی چهوڑ دی جائے گی۔ معتصم نے کہا: اس امر پر کيا دليل ہے؟ آپ نے فرمایا: اس امر پر بہ قول پيغمبر (ص) دليل یہ ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: سجدہ سات اعضاء سے ہوتا ہے، پيشانی ، دونوں ہاته، دونوں گهڻے، اور دونوں پاؤں کے سرے۔ اب اگر ہاته کو کلائی سے کاٹ دیا گيا یا کہنی سے قطع کردیا گيا تو وہ ہاته ہی باقی نہ رہے گا جس سے سجدہ ہوسکے اور الله تعالیٰ فرماتا ہے:< ان المساجد للّٰہ> سجدے کی جگہيں الله کے ليے ہيں۔ اور اس سے مراد یہی سات اعضاء ہيں جس سے سجدہ کيا جاتا ہے لہٰذا ان ساتوں اعضا کے ساته الله کے سجدے ميں کسی اور کو شریک نہ قرار دو، لہٰذا جو چيز الله کے ليے ہے وہ نہيں قطع کی جائے گی۔
راوی کا بيان ہے: یہ حکم سن کر معتصم ششدر و حيران رہ گيا اور اس نے ہاته کو کلائی سے نہيں بلکہ انگليوں کی جڑ سے کاڻنے کا حکم دیا۔ ابن ابی داؤد کا بيان ہے کہ یہ دیکه کر تو مجه پر قيامت ڻوٹ پڑی اور دل ميں کہا: کاش ميں اس سے پہلے ہی مرچکا ہوتا (اور یہ ذلت نہ دیکهنی پڑتی) زرقان کا بيان ہے کہ: پهر مجهے ابن ابی داؤد نے بتایا کہ اس کے بعد ميں تيسرے دن معتصم کے پاس گيا اور عرض کيا: اے امير! آپ کو ایک نصيحت کرنی مجه پر واجب ہے اور ميں جانتا ہوں جو کچه ميں کہوں گا اس کے نتيجے ميں، ميں جہنم ميں جاؤں گا۔ معتصم نے دریافت کيا وہ کيا بات ہے؟ ميں نے عرض کيا: جب امير المومنين کسی دینی مسئلہ کے متعلق اپنے دربار ميں علماء و فقہائے امت کو جمع فرماتے اور فتویٰ دریافت کرتے ہيں اور وہ لوگ اپنا فتویٰ دے دیتے ہيں اور دربار ميں امير المومنين کا خاندان، امير المومنين کے سردارانِ لشکر امير المومنين کے وزراء امير المومنين کے کاتبين سب موجود رہتے ہيں اور پشتِ در سے وہ لوگ یہ تمام باتيں سن ليتے ہيں۔ پهر امير المومنين ان تمام علماء و فقہاء کے قول کو ترک کرکے ایک ایسے شخص کے قول کو اختيار کرتے ہيں کہ اس امت کے بہت سے افراد اس کی امامت کے قائل ہيں اور اس امر کے مدعی ہيں کہ امير المومنين سے زیادہ اس خلافت کا مستحق یہ شخص ہے پهر اس کے باوجود امير المومنين تمام فقہاء کے فتووں کو چهوڑ کر اس شخص کے فتویٰ پر عمل کرتے ہيں؟ راوی کا بيان ہے: یہ سن کر معتصم کے چہرے کا رنگ بدل گيا اور جس چيز کی طرف ميں نے اسے متنبہ کيا تها وہ متوجہ ہوگيا اور کہا: تم نے بڑی اچهی نصيحت کی الله تمہيں جزائے خير دے گا۔
اس کے بعد معتصم نے چوتهے دن اپنے کاتبوں اور وزیروں ميں سے فلاں شخص کو حکم دیا کہ تم ابوجعفر محمد تقی کی اپنے گهر دعوت دے دو اس نے دعوت دی تو آپ نے اس کے قبول کرنے سے انکار فرمایا اور کہا: تمہيں معلوم ہے کہ ميں تم لوگوں کی مجلسوں ميں شریک نہيں ہوتا اس نے کہا: ہمارے یہاں کوئی نشست یا مجلس وغيرہ نہيں ہے ہم نے تو آپ کو کهانے کی دعوت دی ہے۔ اگر آپ زحمت فرما کر ہمارے گهر قدم رنجہ فرمائيں گے تو آپ کا آنا ہمارے ليے باعث خير و برکت ہوگا۔ خليفہ کے فلاں فلاں وزیر بهی آپ سے ملنا چاہتے ہيں۔ الغرض آپ تشریف لے گئے جب آپ نے کهانا نوش فرمایا تو فوراً محسوس کرليا کہ اس ميں زہر ملا ہوا ہے آپ نے حکم دیا کہ ميری سواری لائی جائے۔ صاحب خانہ نے کہا: ابهی جلدی کيا ہے؟ تهوڑی دیر اور قيام کریں۔ آپ نے فرمایاکہ: تمہارے گهر سے ميرا چلا جانا ہی تمہارے ليے بہتر ہے۔ اس کے بعد ایک دن اور ایک رات آپ کو اس کی شدید تکليف رہی اور اسی تکليف ميں آپ نے انتقال فرمایا۔
”سزا ساقط ہونے ميں توبہ کی قدرت“ الله تعالیٰ کا قول ہے: فَمَن اٰتبَ مِن بَعدِ ظلمِْہِ وَ اصلَْحَ فَانَّ اللہَّٰ یتُوبُ عَلَيہِ انَّ اللہّٰ غَفُورُ رحيمُ <
پهر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ الله بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
آیہٴ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ توبہ اور اس کے نتيجے ميں عذاب کا ساقط ہونا از باب تفضل ہے اور الٰہی رحمتِ واسعہ کی بنياد پر ہے البتہ چور کو اپنے گناہ امام معصوم یا مجتہد جامع الشرائط جو یدطولی کے حامل ہوں ان کے پاس لے جانے سے پہلے اپنے اختيار سے بغير کسی چيزو خوف کے توبہ کرے اور چوری کيا ہوا مال اس کے مالک کو واپس کرے تاکہ ہاته کاڻنے کا حکم اس سے ساقط ہوجائے۔
۴٨۶ ۔ “وفی صحيح عبد اللّٰہ بن سنان عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام : “قالَ اِ اٰ ذ جٰاءَ ) السّارِقُ مِن قَبلِ نَفسْہ تائِباً اِلَی اللہّٰ وَرَدّ سرقتَہُ عَل یٰ صٰاحِبها ف لاٰ قَطعَْ عَلَيہ ” ( ١ روایت صحيح ميں عبد الله ابن سنان سے مروی ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: جب کبهی چور اپنے اختيار سے آئے اورتوبہ کرے نيز چوری کيا ہوا مال اس کے مالک کو واپس کردے تو اس پر حد جاری نہيں ہوگی اور اس کا ہاته بهی نہيں کاڻا جائے گا۔ ۴٨٧ ۔ “وفی الموثق عن اسحاق بن عمّار عن جعفرعن ابيہ عليہماالسلام “ اِنَّ عَليّاً عليہ السلام کاَن یقُولُ لاقَطعَْ عَل یٰ احد تَخَوَّفَ مِن ضَرُبٍ وَلا قَيدٍْ وَلا سِجنٍْ وَلا تَضعْيفٍ اِلا اَن یَعترَفَ فَاِن ) اعتَرَف قُطِعَ وَاِن لَم یَعتَرف سَقَطَ عَنہُْ لِمَکانِ التخویْف ” ( ٢
موثق روایت ميں اسحاق ابن عمار سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق - نے اپنے پدر گرامی امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت علی - فرمایا کرتے تهے: جو شخص ضرب، زندان، ہتهکڑی اور آزار و اذیت کے خوف سے اعتراف کرے تو اس کا ہاته نہيں کاڻا جائے گا مگر یہ کہ خود اپنے اختيار سے اعتراف کرے اور اگر خود اقرار کيا تو قطع کریں گے اور اگر اعتراف نہيں کيا تو ہاته قطع کرنے کا حکم اسے ڈرانے کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا۔
۴٨٨ ۔ “ وفی الموثق عن سدیر قال قال اٴبو جعفر عليہ السلام “ حَدٌّ یُقامُ فی الاَرْضِ ازْکیٰ ) “ایَ انْمیٰ” فيها مِن مَطَرِ اربَْعينَ لَيلَْةٍ وَایّامَها ” ( ٣
موثق روایت ميں سدیر سے مروی ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: وہ حد جو روئے زمين پر جاری ہو اس کے فوائد مسلسل چاليس شب و روز کی بارش برسنے سے زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٧۔ ص ٢٢٠ ۔ (
٢(۔ تہذیب الاحکام، ج ١٠ ، ص ١٢٨ ۔ روضة المتقين، ج ١٠ ، ص ٢٣۶ ۔ (
٣(۔ تہذیب الاحکام، ج ١٠ ، ص ١٢٨ ۔ روضة المتقين، ج ١٠ ، ص ۴۔ (
۴٨٩ ۔ “ وفی القوی عن عبد الرحمن بن الحجاج عن ابراہيم عليہ السلام :“فی قول اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ <یُحيیِ الاَرضَْ بَعدَْ مَوتِْهَا > قال لَيسَ یُحييها بالمَطَر وَ کٰلِن یَبعَثُ اللہُّٰ رِ جٰالاً فيحيونَ العَدلَْ ) فَتُحیَْ الاَرضُْ لاِحيْاءِ العَدلْ وَلاِ قامَة الحَدِ فيہ انفَْعَ فی الاَرضِْ مِنَ المَطَرِ اَربَْعينَ صَ اٰبحاً” ( ١ قوی حدیث ميں عبد الرحمن ابن حجاج اور ابو اہراہيم سے مروی ہے کہ حضرت امام موسیٰ کاظم - نے آیہٴ کریمہ <یحيی الارض بعد موتها> (یعنی خدا زمين کو اس کی موت کے بعد زندہ کرے گا) کے معنی کے متعلق فرمایا: نہ یہ کہ بارش برسنے کی وجہ سے زندہ کرے گا ليکن الله تعالیٰ ایسے افراد کو بهيجے گا جو عدالت قائم کریں گے پهر زمين عدالت جاری کرنے کی وجہ سے زندہ ہوگی پهر فرمایا: وہ حد جو روئے زمين پر جاری ہو اس کا فائدہ مسلسل چاليس دن تک بارش برسنے سے زیادہ ہے۔
۴٩٠ ۔ “ وفی الموثق کالصحيح عن سماعة عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام “قالَ انَّ لِکُلِّ شَیءٍ حَداً وَمَن تَعدی لٰذِکَ الحَدَّ اٰ کنَ لَہُ حَدّ وَعَن رَسُولُ اللہّٰ (ص) قالَ ساعةٌ مِنْ امامٍ عادلٍ ) افضَْلُ مِن ع اٰبدة سَبعينَ سَنَةً وَحَدٌّ یُقامُ اللہّٰ فی الاٴرضْ افضَْلَ مِن مَطَرٍ اربَعينَ صَ اٰبحاً ” ( ٢ موثق حدیث ميں جو صحيح کی طرح ہے سماعہ سے مروی ہے کہ امام صادق - نے فرمایا: ہر شے کے ليے ایک حد و مرز ہے جس شخص نے اس سے تجاوز کيا اس پر حد لازم ہے اور حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: ایک گهنڻہ امام عادل کے پاس رہنا ستّر سال کی عبادت سے افضل ہے۔ اور وہ حد جو خدا کے ليے روئے زمين پر جاری کی جائے وہ چاليس دن کی بارش سے افضل اور زیادہ نفع بخش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ روضة المتقين، ج ١٠ ، ص ۵۔ (
٢(۔ روضة المتقين، ج ١٠ ، ص ۵۔ (
”اجرائے حدود کے مثبت آثار و فوائد، اسلامی اقتصادی اور سماجی نقطہٴ نظر سے“ ائمہٴ معصومين سے وارد شدہ آیات و روایت کی تعليمات حدود الٰہی ميں سے کسی حد کے جاری کرنے کے منافع اور فائدے لوگوں کے درميان اور انسانی معاشرے ميں خواہ مادی ہوں یا معنوی اس قدر اہميت کے حامل ہيں کہ بيان فرماتے ہيں کہ: اس کا نفع بارانِ رحمت جو چاليس شب و روز آسمان سے نازل ہو زیادہ ہے۔
ليکن اس کے معنوی فائدے: یہ بات کسی کے کچه کہے بغير واضح ہے کہ ایک نا شائستہ فعل کا رواج پایا جاتا جيسے زنا، لواط اور بهی تمام برائياں اور منکرات ایک معاشرے کے افراد کے درميان کس قدر اس معاشرے کی فضا اور ماحول کو آلودہ و فاسد کرتے ہيں اور اگر صالح مربوط قوتوں کے ذریعہ روک تهام نہ کی جائے تو اخلاقی فساد تمام معاشرے کے افراد ميں خودبخود رواج پيدا کرلے گا نتيجہ ميں ایسے معاشرے کا سقوط یقينی اور ارکان انسانيت منہدم ہو جائيں گے۔
اس قسم کی آلودگيوں کی اصلاح اور صفائی سوائے شارع مقدس کی طرف سے معينہ حدود کو جاری کرنے کے امکان پذیر نہيں ہے۔
ليکن اس کے مادی فائدے: واضح ہے اگر ایک سرقت کا عمل معاشرہ ميں عام طور پر رائج ہوجائے اس طرح سے کہ اس ميں نا امنی حاکم ہوجائے تو اس کی روک تهام یا لوگوں کے اموال، ناموس کے حریم سے دفاع کے لےے قانون کی تاسيس اور اس سے مربوط ادارے کی تشکيل جيسے پوليس چوکی ، شہرداری (بلدیہ، کارپوریشن) ، محکمہ اطلاعات وغيرہ کہ ان ميں سے ہر ایک کے ليے رؤسا اور کارندے مخصوص انتظاميہ ميں اس کے مربوط و سائل، ميز، کاغذ تمام ادارے کے لوگوں کی تنخواہيں ان تمام امور کی انجام دہی کے ليے ایک عظيم بجٹ درکار ہے۔
اس بنا پر اگر ایک چور کا ہاته ان شرائط کے ساته جو فقہی کتابوں ميں مذکور ہے قطع کریں اس طرح سے کہ لوگوں کے درميان مشہور و معروف ہوجائے تو طبيعی و فطری شے ہے کہ چور اور چوری مجموعی طور پر معاشرے سے رخت سفر بانده کر رخصت ہوجائے گی۔ نتيجہ ميں وہ اخراجات جو اس سے مربوط ادارے تشکيل دینے کے ليے ضروری تهے وہ کارخانے کی تاسيس اور سنگين اشياء و آلات کے اسباب وغيرہ ميں صرف ہوں تو اسلامی اقتصاد کو وسعت ملے گی، حکومت اور افراد کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوگی اور معاشرہ کا فقر و فاقہ خوشی اور خوشحالی ميں تبدیل ہوجائے گا اور دوسروں سے قرض لينے کی بهی حاجت درپيش نہيں ہوگی جو اغيار سے وابستگی کے ليے بہت اہم محرک ہے۔
نہ صرف یہ کہ ایک اسلامی غنی اقتصاد محقق ہوگا بلکہ ایک اجتماع سو فيصد اسلامی متدیّن اور صالح افراد جو صالح معاشرہ تشکيل دینے والے ہيں ان کی تربيت کرے گا۔ کبهی اسلام کے مخالفين یا خود مسلمان حضرات معلومات کی کمی کی بنا پر یہ نغمے سرائی کرتے ہوئے نظر آتے ہيں کہ ان کا ہاته ایک مختصر چيز کی وجہ سے نہيں کاڻنا چاہيے اور نہ ہی ان کا ہاته ناقص کرنا چاہيے بلکہ شارع کا مقصد اس کے دستِ نياز کو قطع کرنا ہے یعنی اگر ان افراد کی تمام ضروریات زندگی پوری کی جائيں جو ان امور کے مرتکب ہوتے ہيں تو پهر وہ ایسے افعال کی طرف تيزی سے قدم آگے نہيں بڑهائيں گے ورنہ اپنے بدن کا ایک حسّاس عضو کهونے کے علاوہ ایک عمر بهی اس معاشرے کے لوگوں ميں حقارت و شکستگی کے ساته بسر کرنا چاہيے۔
ليکن اس قسم کے افراد سطحی افکار کے نتيجے ميں نيز احکام اسلام سے ناواقفيت موضوع کے تمام جواب کی تحقيق کے بغير قضاوت کرتے ہيں حالانکہ وہ شرائط جو چور کے ہاته کاڻنے کے متعلق غنی اسلامی فقہ کی کتابوں ميں ذکر ہوئے ہيں سوائے خطرناک چوروں کے وہ بهی مختصر تعداد ميں قطع نہيں ہوں گے۔
قابل توجہ یہ ہے کہ یہ اسلامی حکم صدیوں سے جاری ہوتا رہا اور اس کی پناہ ميں صدر اسلام کے مسلمان لوگ امن و امان اور رفاہ عام ميں زندگی بسر کر رہے تهے بہت کم تعداد افراد ميں کہ ان کی تعداد چند افراد سے تجاوز نہيں کی یہ حکم چند صدیوں ميں جاری ہو۔ کيا چند خطا کار ہاته کا کاڻنا چند صدی کی امن و امان مختلف اقوام کے افراد کے ليے بہت معمولی قيمت ادا کرنے کے مترادف ہے؟
بعض افراد یہ اعتراض کرتے ہيں کہ اس حد کا ایک چور کے ليے جاری کرنا صرف ایک ربع دینار کی خاطر ان اسلامی احترام سے منافات رکهتا ہے جو اسلام ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کے ليے ہر طرح کے نقصان سے قائل ہوا ہے یہاں تک کہ ایک انسان کی چار انگشت کاڻنے کی دیت معمولی بے سودہ قيمت معين ہوئی ہے۔ بطور اتفاق یہی سوال بعض تواریخ سے سامنے آتا ہے جو مسلمان عالم بزرگوار حضرت آیت الله العظمیٰ سيد مرتضیٰ علم الہدیٰ عليہ الرحمہ سے تقریباً ایک ہزار سال قبل کياگيا تها۔ سوال کرنے والے نے اپنے سوال کے موضوع کو مندرجہ ذیل ایک شعر ميں بيان کيا ۔ ید خمس مئين عسجد ودیت ما بالها قطعت فی ربع دینار؟
یعنی وہ ہاته کہ جس کی دیت پانچ سو دینار ہے کيوں ایک ربع دینا کی خاطر قطع ہو؟ سيد بزرگوار نے اس کا جواب اپنے اس شعر ميں دیا۔ ) عز الامانة اغلاها و ارخصها ذل الخيانة فافهم حکمة الباری ( ١ یعنی اسی ہاته کی امانت کی عزت نے اسے گراں قيمت کردیا اور خيانت کی ذلت نے اس کی ارزش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ١٨ ، ص ۴٨۴ ۔ بحار الانوار، ج ١٠۴ ، ص ٩۔ (
) گهڻا دی لہٰذا حکمِ خدا کے فلسفہ کوسمجهو۔ ( ١ مولف حضرت امير المومنين کی پُر برکت خلافت کے زمانے کا دو واقعہ جو خود چور کے اعتراف سے ثابت ہوا اور حضرت روحی لہ الفداہ نے ان کے ہاته کاڻنے کا حکم دیا بطور نمونہ اشارہ کر رہے ہيں:
۴٩١ ۔ “وفی البحار نقلاًعن الروضة والفضائل : بِالاِسنادہِ یَرفَْعُہُ اِ لٰ ی الاَصبَْغ بنِْ نباتة اٴَنہُ اٰقل کُنْتُ جالساً عِند امير الموٴمنِينَ عَلیّ بْنُ ابی طالِبٍ عليہ السلام وَهُوَ یَقْضی بَينَ النَّاسِ اذْ جٰآءَ ہُ جَماعةٌ مَعَهُمْ اسْوَد مشّدُودْ لاکتفافِ فقالوا هذا سٰارِقٌ یا امير الموٴمنينَ فقالَ یا اسْوَد سَرقتَ ؟ قالَ نَعَمْ یا اميرَ الموٴْمنين عليہ السلام قال لَہْ ثَکلتکَ امْکَ ان قُلتها ثانيہ قَطَعْتُ یَدَکَ قالَ نَعَمْ یا مولای قال وَیلک انظْر مٰاذا تقولُ سَرَقْتَ ؟ قالَ نَعم یا موَلایَ فَعنْد ذٰلک قالَ عليہ السلام اِقْطَعُوا یَدَہ فَقَد وَجَبَ عَلَيہِْ القطعُْ قال فَقَطعَ یَمينہ فَاَخَذَها بِشِمالِہِ وَهیَ تَقطُْرُ دَماً فاَستَْقْبلہ رَجُلٌ یقالُ لَہ ابن الکَوا فَقالَ یا اسُودَ مَن قَطَعَ یَمينکَ قالَ قَطَعَ یَمينی سيد الوصَْيّينَ وقائدُ الغُر المحجلينَ وَاولْی النَّاسِ بالموٴمنينَ عَلیُّ بن ابی طالِبَ امامُ الهُدیٰ وَزَوْج فاطِمةَ الزَہراء ابنة محمّدٍ المصطفیٰ ابُو الحسَنَ المجتبیٰ وَاٴبُوالحُسينْ المرتضیٰ السَّابق الیٰ جنات النعيم مُصادمُ الاَبطالِ المنتَقم مِنَ الجهالُ مُعْطی الزکوٰةِ مَنبعَ الصِيانة مِنْ ہاشم القَمقُام ابْن عمّ الرسُول الهادی الیٰ الرَّشاد والناطق بالسّداد شُجاعٌ مَکی حجّاجٌ وَفیّ بَطينٌ انزَعٌ امينٌ مِنَ آل حم وَیٓس وطٰہ وَالمَيامين مُحلّیِ الحَرَمين وَمصلّی القِبلْتَين خاتِم الاٴوصياء وَوَصی صَفوة الاٴنبياءِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ البتہ دو مکمل ہاته کی دیت ہزار دینار ہے طبيعی امر ہے کہ ایک کی پانچ سو دینار ہوگی کہ ( وہی پانچ انگشت ہے اگر قطع ہو۔ ليکن شيعہ مذہب کی بنا پر چوری کے موقع پر صرف چار انگشت قطع ہوگی۔
القسوَرَةَ الهُمامِ و البَطَل الضِرْغام الموید بجبرائيل الاٴمين والمنصُور بميکائيل المُبين وَصی رَسُولَ رَبِّ العالَمينَ المطفی ميزان المومنين وخيرْ مَنْ نشاٴ مِنْ قریشْ اجمعينَ المحفوف بجند مِنَ
السَّماءِ عَلی بْن ابی طالِبٍ اَمير الموٴمنين عليہ السلام عَلیٰ رَغْم اَنْفِ الراغبينَ وَمَولَی النّاس اجمعينَ فَعند ذَلِک قالَ لَہُ ابنْ الکواء وَیا اَسَودَ قَطَعَ یَمينَکَ وَانتَْ تُثنْی عَلَيہ هٰذا لثنَاء کُلَّہ ؟ قالَ وَمالی لا اثْنَی عَلَيہْ وَقَد خالَطَ حُبُّہُ لَحمی ودَمی وَاللّٰہ ما قطعَنی الاَّ بحَقّ اوَ حَبَہُ اللّٰہ عَلیَّ قالَ فَدَخَلْتُ عَلیٰ امير الموٴمنينَ عليہ السلام فَقُلت سيّدی راٴیتُ عجَبياٍ قال وَمٰاراٴیتَ ؟ قالَ صادَفتُ اسوَداً قطَعتْ یمينہ وَاَخَذَ هٰا بِشِمالِہِ وَهِیَ یَقطُْرُ دَماً فَقُلتُْ لَہُ یا اسوَْد مَن قَطَعَ یَمنيکَ ؟ قالَ سيّد الموٴمنينَ وَاَعدتُْ عَلَيہِْ فَقُلتُْ لَہُ ویحک قَطَعَ یَمينکَ وَاَنتَ تُثنْی عَلَيہِْ هذا الثّنَاء کُلہ فقالَ اٰ ملی لا اثنْی عَلَيہ وَقَدخْالَطَ حُبُّہ لَحمی وَدَمی وَاللہّٰ ما قطَعَنی اِلاَّ بحقٍ اوجبہ اللہّٰ عَلیَّ قال فالتَفَتَ امير الموٴمنين عليہ السلام الی ولَدہ الحسَنَ عليہ السلام وَقالَ قُمْ هات عَمَّکَ الاٴَسْوَدَ الی فخَرج الحَسَن عليہ السلام فی طَلَبہِ فَوَجدَہُ فی مَوضِعٍ یُقالُ لَہُ کنْدة وَاٴتَیٰ بہ اَمير المُوٴمنينَ عليہ السلام ثمَ قالَ لَہُ یا اَسوَْد قَطَعتُْ یَمينَکَ وَاَنتَْ تُثنْی عَلَیّ فَقالَ یا اَمير الموٴمنينَ وَما لی لا اثنْی عَلَيکَْ وَقد خالَطَ حُبُّک دَمی وَلَحمی وَاللہّٰ اٰ م قَطَعتَْ الا بِحَقٍّ کانَ عَلَیَّ ممّا منحی مِن عِقاب الآخِرةِ فقالَ عليہ السلام هٰات یَدَکَ فناوَلَہُ فاخَذَها وَوَضَعَها فی الموضِعِ الَّذی قَطعَت مِنہُ ثم غطاها بردائہ ثمّ فَقامَ وَصَلّی عليہ السلام وَ دَعٰا بِدُعٰاءٍ سَمْعنٰاہ تقُولْ فی آخِرِدْ عائِہِ آمينَ ثُمَّ شالَ الرداءَ وَقالَ اضبطی ایّتها العُرُوق کما کُنتُْ وَاتصِلی فَقام الاَسوَْد وَهُوَ تقوُلُ امَنتُْ بِاللہّٰ وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولہ وَبعلیٍ الَّذی رَدَّ الَيدَ الْقَطْعاءَ بَعْد تخِلْيَتِهٰا مِنْ الزَند ثُمّ انْکب عَلیٰ قَدَميہ وَقال بابی انْتَ واُمّی ) مٰاوارثٍ علْم النُّبوة ” ( ١
علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے کتاب روضة الفضائل سے مرفوع اسناد کے ساته روایت کی ہے کہ: اصبغ ابن نباتہ کا بيان ہے: ميں مسجد کوفہ ميں حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب - کے پاس بيڻها ہوا تها کہ آپ لوگوں کے درميان فيصلے کر رہے تهے ناگاہ کچه لوگ اسود نامی شخص کی مشکيں باندهے ہوئے آپ کے پاس لے آئے اور کہا: یا امير المومنين -! یہ چور ہے، حضرت - نے فرمایا: اسود! کيا تم نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: ہاں اے امير المومنين - ! ميں نے چوری کی۔ حضرت - نے فرمایا: تيری ماں تيرے غم ميں بيڻهے اگر تم نے دوسری مرتبہ اقرار کيا تو ميں تمہار اہاته کاٹ دوں گا۔ اس نے کہا: جی ہاں ميرے مولا! حضرت - نے فرمایا: تم پر افسوس، خوب غور وفکر کرکے بتا کيا تم نے چوری کی ہے؟ کہا: جی ہاں ميرے مولا! ميں نے چوری کی ہے اس کے دو مرتبہ خود اعتراف کرنے کے بعد حضرت - نے حکم دیا کہ اس کا ہاته کاٹ دیا جائے کيوں کہ اس کے ليے ہاته کاڻنا واجب ہوچکا ہے۔
اصبغ ناقل ہيں کہ: (حسب الامر) اس کا داہنا ہاته کاڻا گيا اس نے کڻی ہوئی ہتهيلی کو بائيں ہاته ميں پکڑا اور اس کڻے حصہ سے خون کے قطرات جاری تهے راستے ميں وہ ابن کوا نامی شخص سے روبرو ہوا اس نے کہا: اے اسود! یہ تمہارا ہاته کس نے کاڻا ہے؟ کہا: سيد المومنين، قائد الغر المجلين، خليفة الرسول باليقين، سيد الوصيين امير المومنين علی ابن ابی طالب - نے ميرا ہاته کاڻا ہے اور ميرے ہاته کو اس نے قطع کيا جو امام الہدیٰ ہے جو شوہر فاطمہ زہرا بنت محمد مصطفی (ص) ہے، جو حسن و حسين عليہما السلام کے والد ماجد ہيں، جو جنات النعيم کی طرف سبقت کرنے والا اور بہادروں کو بچهاڑنے والے، جاہلوں کو زیر کرنے والے، زکوٰة عطا کرنے والے، بنی ہاشم کا سرمایہٴ افتخار، رسول مقبول کا ابن عم اور ان کا ناصر و مددگار ، حق کا ہادی، صداقت کا بيان، مکی بہادر انزع البطين، آل حم و آل یسين کا سردار، حرمين کی عزت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الفضائل شاذان ابن جبرئيل قمی، ص ١٧٢ ۔ الروضة المعجزات و الفضائل، ص ١۶٠ ۔ (
دونوں قبلوں کا نمازی، خاتم الاوصياء، وصی سيد الانبياء، حيدر، منصور، ضرغام، جس کی جبرئيل - نے تائيد کی، جس کی ميکائيل نے نصرت کی، قریش ميں افضل ترین نشوونما پانے والی فرد ، آسمانی لشکروں کو خوف دلانے والے اور تمام لوگوں کے سيد و سردار علی ابن ابی طالب - ہيں۔
جب اسود نے حضرت علی - کی ان اوصاف کے ساته تعریف کی تو ابن کوا نے کہا: اے اسود! تجه پر صد حيف! اس نے تمہارا ہاته قطع کيا ہے اور تم اس کی یوں مدح و ثنا کر رہے ہو؟ کہا: ميں ان کی تعریف کيوں نہ کروں وہ تو ہے ہی لائقِ ستائش، ان کی محبت ميرے گوشت و خون ميں رچی بسی ہے اور اگر انہوں نے ميرا ہاته قطع کيا بهی ہے تو مجه پر خدا کی واجب کی ہوئی حد کی وجہ سے ہے۔ یہ سن کر ابن کوا امير المومنين - کے پاس آیا اور کہا: آپ نے اسود کا ہاته کاڻا ہے اور وہ آپ کی یوں مدح و ثنا کرنے ميں مصروف ہے جب ميں نے اس سے دریافت کيا کہ تيرا ہاته کس نے کاڻا ہے تو اس نے آپ کی خوب تعریف کی۔ ميں نے اس سے کہا: علی - نے تيرا ہاته کاڻا ہے ليکن تو پهر بهی ان کی تعریف کر رہا ہے؟ اسود نے مجه سے کہا: انہوںنے ميرا ہاته کاٹ کر مجه پر احسان کيا اور مجهے جہنم کی آگ سے محفوظ رکها ميں تو ہميشہ ان کی تعریف کرتا رہوں گا کيوں کہ ان کی محبت ميرے گوشت و خون ميں رچی بسی ہے۔ ابن کوا کا بيان یہ ہے: امير المومنين - نے اپنے فرزند ارجمند امام حسن - کی طرف رخ کرکے فرمایا: جاؤ اور چچا اسود کو بلا لاؤ، امام حسن - گئے تو اس وقت وہ محلہ کندہ ميں بيڻهے (حضرت کے فضائل بيان کرنے ميںمصروف ) ہيں آپ انہيں وہاں سے لے کر بابا کی خدمت ميں آئے حضرت - نے فرمایا: اے اسود! ميں نے تمہارا ہاته کاڻا ہے اور تم ميری تعریف کر ر ہے ہو؟ عرض کيا: اے امير المومنين - ! ميں کيونکر آپ کی مدح و ثناء نہ کروں جب کہ آپ کی محبت ميرے گوشت و خون ميں رچی بسی ہے اور یوں بهی آپ نے مجه پر شرعی حد نافذ کرکے مجهے جہنم کی آگ سے محفوظ کيا ہے۔
امير المومنين - نے فرمایا: اپنا کڻا ہوا ہاته ميرے سپرد کرو۔ آپ نے کڻا ہوا ہاته اپنے ہاته ميں ليا اور اسے اس کی کلائی سے جوڑ کر اس پر اپنی چادر ڈالی اور اپنی جگہ سے اڻه کر آپ نے نماز پڑهی اور دعا مانگی اور ہم نے دعا کے آخر ميں انہيں آمين کہتے ہوئے سنا۔ پهر آپ نے چادر ہڻائی اور فرمایا: اے رگہائے بریدہ! جيسے تم پہلے ایک دوسرے سے متصل تهيں اب بهی اسی طرح سے متصل ہوجاؤ، چنانچہ اسود کا ہاته از سر نو جڑ کر مکمل ہوگيا اور وہ اپنی جگہ سے بلند ہوکر یہ کہہ رہا تها: ميں الله اور محمد رسول الله اور اس علی - پر ایمان رکهتا ہوں جس نے ميرے دستِ بریدہ کو دوبارہ متصل کردیا پهر حضرت - کے قدموں پر اپنا سر رکه کر کہنے لگا: اے علم نبوت کے وارث! آپ پر ميرے ماں باپ نثار ہوں۔
۴٩٢ ۔ “وفيہ : قَض یٰ عليہ السلام فی رَجُل کندْیٍ امَرَ بِقطعِْ یَدہِ وَ لٰذِکَ اَنَّہُ سَرَقَ وَکانَ الرَّجُلُ مِن احسَْ النّاسِ وَجهْاً وَانظَْفُهُم ثَوبْاً فقالَ عَلیٌّ اَر یٰ مِن حُسنِ وَجهِْکَ وَنَظافَةِ ثوبُْکَ وَمکانِکَ مِنَ العَرَب تَفْعَلُ مِثْل هذا الفعْل فَنکَسَ الْکندی ثُمَّ قالَ اللّٰہ اللّٰہ فی امْری یا اَميرَ الموٴمنين فَلا لّی الکریم لا وَاللّٰہ ما سرَقْتُ شَيئاً قَط غَيْر هذہِ الدَّفْعة فَقالَ لَہْ وَیْحکَ قَدْ عَسی اللّٰہ انَّ اللّٰہ لع یوٴاخِذَکَ بِذَنبٍْ واحدٍ اذنَْبتَْہ انشاءَ فبکَیَ الکْندی فاٴطرْقَ امير الموٴمنين عليہ السلا م مَلِيّاً ثُمَّ رَفَعَ رَاٴسَہ وقالَ ما اَجِدُ یَسَعُنی اِلاَّ قطعُکَ فاقطَعُوا فَبکی الکنْدی وَتَعَّلَق بثَوبِہ وَقالَ اللّٰہ اللّٰہ فی عيال فَانَّکَ ان قَطَعتَْ یَدی هَلکتُْ وَهَلَکَ عَيالی وَانّی اعُول ثلاثَہَ عَشَرَ عيالاً مالَهُم غَيری فَاٴطرَقَ مَليّاً تنکْتُ الاٴَرضَ بِيدہ ثم قالَ ما اجد یَسَعنی الا قطْعُکَ اخْرجُوہُ فاقْطَعُوا یدَہُ فَلَمّا وَقعَتْ یَدَہُ المقطوعةِ بَينَْ یَدَی امير الموٴمنين عليہ السلام قالَ الکِندْی وَاللہّٰ لَقَد سَرَقتْ تِسعَْةَ و تِسعِْينَ مَرةً وَانَّ هٰذہِ تمامُ الماٴة کلّ ذلٰک یَستر اللّٰہ عَلیَّ قال فقال النّاس لہُ فما کانَ لَکَ فی طولِ هذہِ المدةَ زاجرٌ ؟ فَقالَ اميرُ الموٴمنينَ عليہ السلام لَقَدْ فَرجَ عَنّی قد کُنْت مغْموماً بمقاليّک الادَّلية وانَ اللّٰہ حَليمٌ کریمٌ لا یعجل عَليکَ انْ شاءَ فی اوَّلِ ذَنْبٍ فَوَثَبَ النّاس اِلیٰ امير الموٴمنين عليہ السلام فَقالوا ) وَفَّقَکَ اللہّٰ فَما ابقاکَ لَنَا فَنَحنُْ بِخيرْ وَنعمْة ” ( ١
اسی کتاب ميں حضرت امير المومنين علی - نے مرد کندی کے حق ميں فيصلہ کيا کہ اس کا ہاته کاڻا جائے اور وہ بهی چوری کرنے کی وجہ سے تها حالانکہ وہ ایک شخص تها جو سب سے زیادہ خوبصورت پاک و پاکيزہ لباس ميں ملبوس تها حضرت - نے فرمایا: تم اتنے خوب صورت ہوتے ہوئے اور پاک و پاکيزہ لباس کے حامل ہو پهر تمہاری عرب لوگوں کے درميان ایک حيثيت ہے اور تم ایسا کام کر رہے ہو؟ کندی نے (شرمندگی سے) سر جهکاليا اور پهر عرض کيا: خدارا! خدارا! الله کے ليے ميرے کام ميں اے امير المومنين - تساہلی برتيں خدا کی قسم! صرف یہ پہلی مرتبہ ميں نے چوری کی ہے، حضرت - نے فرمایا: تم پر افسوس ممکن ہے خداوند علی و کریم اگر چاہے تو تم سے مواخذہ نہ کرے اس گناہ کی خاطر جو تم مرتکب ہوئے، پهر مردِ کندی گریہ کرنے لگا اور حضرت امير المومنين - نے سر نيچے کيا اور کچه دیر فکر کرنے کے بعد اپنے سرِ مبارک کو بلند کيا اور فرمایا: ميں نے تمہاری نجات کے ليے کوئی راستہ نہيں پيدا کيا مگر یہ کہ تمہارا ہاته کاڻنا ضروری ہے اس کا ہاته قطع کردو۔ کندی نے دوبارہ گریہ و زاری شروع کی اور حضرت کا دامن پکڑ کر عرض کيا: خدارا! خدارا! الله کے ليے ميرے اہل و عيال پر (رحم کریں) کيوں کہ اگر ميرا ہاته کاٹ دیا تو ميں اور ميرے اہل و عيال ہلاک ہوجائيں گے ميرے تيرہ اولاد ہيں ميرے علاوہ ان کا کوئی نان و نفقہ پورا کرنے والا نہيں ہے۔ پهر حضرت - نے سر جهکاليا اور زمين کو اپنے دستِ مبارک سے کریدنا شروع کيا پهر فرمایا: سوائے تمہارے ہاته کاڻنے کے کوئی چارہٴ کار مجهے دست یاب نہيں ہوا اس کا ہاته قطع کردو (حسب الامر کندی کا ہاته کاٹ دیا) جب جب اُس کا دست بریدہ مولا امير المومنين - کے سامنے رکها تو مرد کندی نے عرض کيا: خدا کی قسم! ميں ٩٩ مرتبہ چوری کی ہے اور یہ آخری چوری ملا کر سو چوریاں مکمل ہوئی ہيں ان سب کے باوجود الله تعالیٰ نے ميرے عيب کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۴٠ ۔ ص ٢٨۶ ۔ (
پردہ پوشی کی ہے، لوگوں نے اس شخص کی طرف اپنا چہرہ کرکے کہا: اتنی طولانی مدت تک تمہارے ليے کوئی روکنے والا نہيں تها (تنبيہ کرنے والا نہيں تها)؟ پهر حضرت امير المومنين - نے فرمایا: ميں تمہاری پہلی گفتگو سے (جو تم نے کہا تها کہ یہ ميری پہلی چوری ہے) بہت غمگين تها (ليکن تمہاری آخری گفتگو ) ميرے غم کو خوشی ميں تبدیل کرنے کا باعث ہوئی۔ البتہ خداوند حليم و کریم ہے گناہ کے پہلے مرحلے ميں سزا دینے ميں عجلت سے کام نہيں ليتا،لہٰذا لوگوں نے امير المومنين - کی طرف ہجوم کيا اور عرض کيا: الله تعالیٰ آپ کو کاميابی عطا کرے آپ کا مبارک وجود تو ہمارے ليے ہميشہ ہميشہ خير و نعمت رہا ہے۔ مولف کہتے ہيں: جس طرح قرآن مجيد ناموس الٰہی اور لوگوں کے دین و دنيا کی اصلاح کا متکفل (ذمہ دار) ہے۔
اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم حجّت قائم المہدی - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود تمام مخلوقات کے دین و دنيا کی اصلاح کا متکفل ہے۔ ”آیات ميں حجّت کا لازم ہونا“
) قال اللّٰہ تعالیٰ: < إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ > ( ١ الله تعالیٰ نے فرمایا: بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے اور مومنين کو بشارت دیتا ہے۔
۴٩٣ ۔ “ رواہ الکليني باسنادہ عن العلاء بن سيابہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قولہ تعالیٰ <ان هذا القرآن للتی هی اقوم > ، قال یهدی الیٰ الامام عليہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
) السلام ” ( ١
شيخ بزرگوار علامہ کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته علاء ابن سبابہ سے انہوں نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ الله تعالیٰ کے اس قول “کہ یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے” کے متعلق فرمایا: یعنی قرآن امام کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ قرآن مجيد ميں بہت زیادہ آیات بيّنات موجود ہيں جو امام کے وجود پر دلالت کرتی ہيں۔ جيسے کہ الله تعالیٰ کا یہ قول: <إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِيمُونَ ) الصَّلاةَ وَیُؤتُْونَ الزَّکَاةَ وَہُم رَاکِعُونَ > ( ٢
ایمان والو! بس تمہارا ولی الله ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت رکوع ميں زکوٰة دیتے ہيں۔ اور الله تعالیٰ کا یہ قول: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ ) مِنْکُمْ > ( ٣
ایمان والو! الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہيں ميں سے ہيں۔ پہلی آیت جسے فریقين (سنی و شيعہ) نے اپنی معتبر کتابوں ميں نقل کی ہے کہ یہ آیتِ مجيدہ حضرت امير المومنين کے حق ميں سائل کو انگوڻهی دینے کے واقعہ کے موقع پر نازل ہوئی جب حضرت حالتِ نماز ميں تهے۔
اور دوسری آیت ميں خدا اور رسول کی اطاعت کے حکم کے بعد اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
اولی الامر معادن وحی و تنزیل سے مری روایات کے نقطہٴ نظر سے ۴٩۴ ۔ “عن سليم بن قيس الهلالی عن امير الموٴمنين عليہ السلام انَّہُ سَاٴلَہ مٰا اٴدَنْی امٰا یَکُونُ بِہِ الرَّجُلُ ضالاً فقالَ لا یَعرِْفُ مَن امَرَ اللہّٰ بطاعَتِہِ وَفرض ولایَتِہِ وجُعِلَ حجتِہ فی ارضہِ وَشاهِدِہِ عَلیٰ خَلْقِہِ قالَ فَمَنْ همْ یا امير الموٴمنينَ قال الَّذین قرَنَهم اللّٰہ بنَفسہ ونبيہ فقالَ <یا ایّها الَّذینَ آمنوا اطيعوا اللّٰہ واطيعوا الرَّسُولَ واولی الاَمْرِ مِنْکُمْ > قالَ فَقَبَّلتُ رَاٴسہُ وَ قلتْ اَوضحَْت لی وَفَرجتَْ عَنّی وَاَذهَْبَ کلَّ شَیءٍ فی قَلبِْی “
سليم ابن قيس ہلالی نے امير المومنين - سے دریافت کيا کہ کم ترین شے کيا ہے جو انسان کو گمراہ کرتی ہے؟ فرمایا: یہ ہے کہ وہ انسان حجّت خدا کی محبت اور الله کے بندوں کے گواہ کی معرفت نہيں رکهتا کہ جس کی اطاعت اور ولایت کو اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔
ميں نے عرض کيا: اے امير المومنين! وہ کون افراد ہيں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا الله تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنے نبی کی ذات کے ساته ذکر کيااور فرمایا: ‘(اے ایمان والوں الله کی اطاعت کرو ، رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ميں سے ہيں”۔ راوی کا بيان ہے : ميں نے حضرت کے سر مبارک کا بوسہ دیا اور عرض کيا: ميرے ليے آپ ) نے مسئلہ واضح کردیا اور ميرے دل کے تمام ہمّ و غم کو ختم کردیا۔ ( ١ ۴٩۵ ۔ “ وفی کمال الدین للصدوق باسنادہ عن جابِرِ بن یزید الْجعْفی مالَ سِمِعْتُ جابِرِ مِن عبد اللہِّٰ الاٴنصاری یَقُولُ لمّا انَزَلَ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ عَل یٰ نَبيہ محمّدٍ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ١٧۴ ۔ (
>یا ایّها الَّذینَ آمنوا اطيعوا اللّٰہ واطيعوا الرَّسُولَ واولی الاَمْرِ مِنْکُمْ > قُلْتُ: یا رَسُول اللّٰہ عَرَفْنا اللّٰہَ وَرَسُوْلہُ فَمنْ اولْوا الاٴمرِ الَّذینَ قَرَنَ اللّٰہ طاعتهُمْ بِطاعَتِکَ ؟ فَقالَ عليہ السلام هُمْ خُلَفَائی یا جابرُ وَاٴَئمةَ المُسلْمِينَ مِن بَعدْیَ اوَّلُهُم عَلِی بنِْ ابی طالبٍ ثُمَّ الحسن وَالحُسَينُْ ،ثُمَ عَلی بُن الحُسَيْن المعْرُوفْ فی التّوراة الباقِر ، وَسَتدرکہُ یا جابِرُ فَاِذا لَقية فاقراہُ مّنی السَّلام ثم الصّادِقِ جعفر بن محمّد ثُمَّ عَلیّ بن موسیٰ ثُم محمد بن عَلٍّی ثُمَّ عَلی بْن محمدٍ ثم الحسَن بُن عَلیٍ
ثُمَّ سَميی وَ کنيتی حجة اللّٰہ فی اَرْضِہِ وَبقيّة فی عبادہ ابن الحسَنِ بْنَ عَلیّ ، ذاکَ الذی یَفتَحُ اللّٰہ تَعالی ذِکرہ عَلیٰ یَدَیْہ مشارِقَ الاٴرضِ وَمغارِبَها، ذلکَ الَذی یغيرْ عَنْ شيعتِہ اوْليائِہ غيْبةً لا یَثْبُتُ فيها عَلَی القَوْل بامٰامَتِہِ الاَّ مَنْ امتحَن اللّٰہ قَلْبہ للاٴیمان قالَ جٰابِر فَقُلْتُ لَہُ یا رَسُولَ اللّٰہ فَهَل یَقَعُ لشيعتہ الاِنتفاعُ بِہ فی غَيْبتہ ؟ فَقالَ عليہما السلام : ایَ والَّذی بَعَثنی بالنبُوة انَّهُمْ یَستَْضيئونَ بنورِہِ وَیَنتَْفِعُونَ بِولایَةِ فی غيبتہ کانتْفاع النّاس بالشمسْ وَاِن تجَللها سحاب یا جابرُ ) هذا من مَکْنُونِ سرّ اللّٰہ وَمَخْزونِ علم اللّٰہ فاکتمہ الاَّ عنْ اهْلِہِ ” ( ١
کمال الدین ميں عالم جليل القدر شيخ صدوق نے اپنے اسناد کے ساته جابر ابن یزید جعفی سے روایت نقل کی ہے کہ جب خداوند متعال نے اپنے پيغمبر حضرت محمد (ص) پر آیہٴ <یا ایّها الَّذینَ آمنوا اطيعوا اللّٰہ واطيعوا الرَّسُولَ واولی الاَمْرِ مِنْکُمْ > نازل فرمائی تو ميں نے عرض کيا: اے الله کے رسول (ص)! خدا اور اس کے رسول کی معرفت حاصل کرلی پس اولو الامر کون سے افراد ہيں کہ الله تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساته قرار دیا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٢۵٣ ۔ معجم احادیث الاما م المہدی -، ج ۵، ص ۶٩ ۔ (
”اے جابر ! وہ ميرے خلفاء و اوصياء اور مسلمانوں کے امام ہوں گے، ان ميں سے اول علی ابن ابی طالب ، پهر حسن، پهر حسين، پهر علی ابن الحسين، پهر محمد ابن علی کہ جن کا نام توریت ميں باقر مشہور ہے، اے جابر! تم عنقریب ان کو پاؤ گے جب تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد الصادق، پهر موسی ابن جعفر، پهر علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی، پهر علی ابن محمد، پهر حسن ابن علی ہوں گے، ان کے بعد ميرے ہم نام (محمد) اور ميری ہم کنيت حجّت خدا ، بقية الله روئے زمين ميں الله کے بندوں کے درميان حسن ابن علی عليہم السلام کے فرزند ہوں گے۔
وہ ایسی فرد ہيں کہ الله تبارک و تعالیٰ ان کے دست مبارک سے زمين کے تمام مشرق و مغرب کو کاميابی و کامرانی عطا فرمائے گا۔
وہ وہی بزرگوار ہيں جو اپنے شيعوں اور چاہنے والوں کی نظروں سے ایک عرصہ تک غائب ہوجائيں گے آپ کی امت ميں سے وہ لوگ اپنے امامت کے عقيدہ پر ثابت قدم رہيں گے کہ جس کے قلب کا امتحان الله تعالیٰ نے ایمان کے ساته لے ليا ہوگا۔
جابر نے عرض کيا: اے رسول خدا! کيا حضرت کے شيعوں کو ان کی غيبت کے زمانہ ميں کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہاں “قسم ہے اس ذات کی جس نے مجهے نبوت (و رسالت) کے ساته مبعوث کيا! وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اسی طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح سورج بادل کو چهپاليتا ہے تو لوگ سورج کی روشنی سے فائدہ اڻهاتے ہيں۔
اے جابر! یہ بات الله تعالیٰ کے راز ميں پوشيدہ ہے، علم الٰہی کے خزانہ ميں مخفی ہے، لہٰذا (اس راز کو) اس کے اہل کے سوا اوروں سے پوشيدہ رکهو”۔
٣١ ۔ اہل سنت کے مشہور و معروف علماء ميں سے شيخ سليمان حنفی قندوزی نے اپنی کتاب ینابيع المودة ميں کتاب مناقب سے سليم ابن قيس هلالی سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن ایک شخص امير المومنين حضرت علی - کی خدمت بابرکت ميں حاضر ہوا اور دریافت کيا: وہ کون سے مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے؟ اور وہ کون سے مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ کافروں یا گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے؟ تو امام علی - نے فرمایا: جب تم نے سوال کر ہی ليا ہے تو جواب کو سنواور سمجهو : الله تعالیٰ کے اس قول <إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ > بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے ( ١) کے ذیل ميں روایت علاء ابن سيابہ ميں اشارہ کيا جا چکا ہے کہ قرآن امام کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
اور اس کا یہ قول (یهدی للتی هی اقوم) یعنی قرآن معرفتِ امام اور اس کی ولایت و اطاعت کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ قرآن معرفتِ امام کی ہدایت کرتا ہے اور امام بهی معرفتِ قرآن کی طرف ہدایت کرتا ہے کيوں کہ دونوں ہی محکم ریسمانِ الٰہی ہيں جو آپس ميں متصل ہيں جو ایک ) دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے صبح قيامت تک ایک دوسرے کے ليے لازم و ملزوم ہيں۔ ( ٢
۴٩۶ ۔ “وفی تفسير نور الثقلين عن الصادق عليہ السلام عن ابيہ عن جدہ السّجاد عليہ السلام :“الامٰامُ منّا لا یکُونُ الا مَعْصُوماً وَلَيستِ العِصْمَة فی ظاہِرِ الخلقةِ فَيُعْرَفُ بها وَلِذٰلکَ لا یَکُونُ الَّا مَنْصُوصاً فَقَيل ما مَعْنیٰ الْمَعْصُومُ قالَ هُوَ المُعْتَصِمُ بِحبْلِ اللّٰہ وَحَبلُ اللّٰہ هُوَ القرآنُ وَالقُرآنُ یهدی ) للامام وَذلِکَ قولْ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ <انّ هذا القرآنَ یَهْدی للتی هِیَ اقْومُ >” ( ٣
حویزی عليہ الرحمہ اپنی تفسير نور الثقلين ميں صادق آل محمد (ص) سے انہوں نے اپنے آباء واجداد کرام سے انہوں نے حضرت امام سجاد - سے نقل کيا ہے کہ آپ نے فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
٢(۔ تاویل الآیات، استر آبادی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ (
٣(۔ تفسير نور الثقلين، ج ١، ص ٣٧٧ ۔ (
لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا وجود خارجی پایا جاتا ہے اور خلقت انسانی کے ظاہر سے نمایاں ہو اور وہ پہچانی جائے۔ لہٰذا الله تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔ کہا گيا: اے رسول خدا (ص)! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے”۔
> ”انّ هذا القرآنَ یَهْدی للتی هِیَ اقْومُ> والمعصوم هو القرآن الناطق بوجود المقدس وسيرتہ تجسد القرآن والقرآن لا بدلہ من ترجمان وترجمانہ المعصوم عليہ السلام ومن اجلہ لا ) یفترقان وشهد ذلک حدیث الثقلين المفق عليہ عند الشيعة والسنة ” ( ١ او ر معصوم وہی قرآن ناطق کا مقدس وجودہے اور اس کی سيرت طبيہ ہے جو مجسمہٴ قرآن ہيں اور قرآن کے ليے ایک ترجمان کا ہونا ضرروی ہے اور اس کے ترجمان معصوم - ہيں اسی وجہ سے ایک دوسرے سے (ہرگز) جدا نہيں ہوں گے جس کے ليے حدیث ثقلين جو شيعہ اور سنی کے نزدیک متفق عليہ ہے گواہ ہے۔
مولف کہتے ہيں: امام - حجّت خدا اور روئے زمين پر اس کا نمائندہ ہے اور بہت سی متواتر احادیث ائمہٴ ہدی سے وارد ہوئی ہيں کہ زمين کبهی بهی حجّتِ خدا سے خالی نہيں ہوگی ورنہ زمين سب کو اپنے اندر کرلے گی۔ تبرکاً ان ميں سے ہم چند مورد کی طرف اشارہ کر رہے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عبقات الانوار کی حدیث ثقلين کی جلد کی طرف رجوع کریں۔ (
۴٩٧ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن اسحاق بن عمار عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام: “قالَ سَمِعتہ یَقُول انَّ الاَرضَ لا تخْلوا الا وفيهٰا اِمٰامٌ کيما اِنْ زادَ المُوٴمِنُونَ شَيئاً رَدّهُمْ وَانْ نَقَصوا شيْئاً ) اَئمَّة لَهُمْ ” ( ١
کافی ميں اسحاق ابن عمار نے امام صاق - سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت کو یہ فرماتے ہوئے سنا: یقينا زمين کبهی بهی حجّت خدا سے خالی نہيں رہتی اس ميں ایک امام ضرور رہتا ہے تاکہ مومنين اگر امر دین (اصول یا فروع دین) ميں کوئی زیادتی کردیں تو وہ تلافی کردے اور اگر کمی کردیں تو اس کو ان کے ليے تکميل کردے۔ ۴٩٨ ۔ “ وفيہ عن عبد اللّٰہ بن سلمان العامری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام “قالَ ما زالَتِ ) الاٴَرْض اِلا وَلِلّٰہ فيها الحجةْ یُعرَّفُ الحلالَ والحَرامَ وَیَدْعُوا النّاسَ اِلیٰ سَبيل اللّٰہِ ” ( ٢
اسی کتاب ميں عبد الله ابن سليمان عامری نے امام صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: زمين پر ہميشہ بہرحال کوئی نہ کوئی حجّت خدا ضرور رہتا ہے وہ لوگوں کو حلال و حرام کی معرفت کراتا ہے اور ان کو راہِ خدا کی طرف دعوت دیتا ہے۔
۴٩٩ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن سليم بن قيس الهلالی عَن امير الموٴمِنينَ عليہ السلام : “ قالَ انَّ اللہّٰ تَبارَکَ وَ تَعال یٰ طَهَر اٰن وَعَصَمنا وَجعَلنا شُهَداء عَل یٰ خَلقِہ وحُجَتَة فی ارضِْہ وَجعَلنَا مَعَ القرآنِ ) وَجَعَلَ القرآنَ مَعَنَا لا نُفارِقُة وَلا یفارقنا ” ( ٣
اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته سليم ابن قيس ہلالی سے انہوں نے امير المومنين - سے نقل کيا کہ حضرت - نے فرمایا: خدائے تبارک و تعالیٰ نے ہميں پاک و پاکيزہ کيا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢۵١ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٨ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ١٩١ ۔ بصائر الدرجات، ص ١٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢۶ ، ص ٢۵٠ ۔ (
اور معصوم قرار دیا ہے نيز اپنی مخلوق پر گواہ بنایا ہے زمين پر اپنی حجّت قرار دیا ہے قرآن کو ہمارے ساته اور ہم کو قرآن کے ہمراہ کيا ہے نہ ہم اس سے جدا ہوں گے نہ وہ ہم سے۔ ۵۵٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن برید العجلی عن ابی جعفر عليہ السلام :“ فی قَولْ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ <انّما اٴَنتَْ مُنذِْرٌ وَلِکُلِّ قَومٍْ هادٍ> فَقالَ رَسُول اللّٰہ صَلّی اللّٰہ عَلَيہ وآلہ الْمُنْذِرُ وَلِکُلِّ زَمانٍ مِنّا هادٍ ) یَهْدیهمْ اِلیٰ ماجٰآء بِہِ نَبیُ (ص) ثُمَّ الهُداةُ مِن بَعدِْہِ عَلیّ ثُمَّ الاَْوصْيآءُ وَاحِداً بَعدْ واحِدٍ ” ( ١
اس کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته برید عجلی سے انہوں نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - سے خدائے عزوجل کے اس قول “یقينا آپ ڈرانے والے ہيں اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی ہے” کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: رسول الله (ص) منذر (ڈرانے والے) ہيں اور ہر زمانے کے ليے ہم ميں سے ایک ہادی ہوتا ہے جو لوگوں کو ان چيزوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جو نبی (ص) لے کر آئے حضرت رسول خدا (ص) کے بعد مخلوقات کے ہادی علی - ہيں اور ان کے بعد اوصياء ميں ایک کے بعد دوسرا ہادی ہے۔ ۵٠١ ۔ “وفيہ با سنادہ عن ابی بصيرقال قُلْتُ لابی عَبْد اللّٰہ عليہ السلام <انّما اٴَنتَْ مُنذِْرٌ
وَلِکُلِّ قَومٍْ هادٍ>فقال رَسول اللّٰہ (ص) المُنْذر وَعَلِیٌ الهٰادی یا اٴبا محمّد هَلْ مِنْ هادٍ اليَوْم ؟ قُلْتُ بلی جُعلْتُ فداک مازال مِنْکُمْ هادٍ بَعْدَ هادٍ حتّیٰ دفِعَتْ اليْک ، فَقالَ رَحِمَکَ اللّٰہ یا اٴبا مُحمَّدٍ ، لَوْ کانَتْ اِذا نَزَلَتْ آیةً عَلیٰ رَجلٍ ثمّ مات ذٰلِکَ الرَّجُلُ ماتَتِ الآیةُ ماتَ الکِتابُ وَلٰکِنةَ حیٌّ یَجْری فيمَنْ ) بقی کما جری فيمْن مَضیٰ ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٢ ۔ بصائر الدرجات، ص ۴٩ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٢۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٢ ۔ (
اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے اسناد کے ساته ابو بصير سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے:ميں نے امام جعفر صادق - سے آیہٴ کریمہ (انما انت منذر و لکل قوم هاد) کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: رسول الله (ص) منذر ہيں اور علی - ہادی ہيں اے ابو محمد! کيا اس زمانہ ميں بهی کوئی ہادی ہے؟ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر فدا ہوں آپ کے اہل بيت ميں سے ہر زمانہ ميں ایک کے بعد دوسرا ہادی رہا ہے۔ فرمایا: اے ابو محمد! الله تم پر رحمت نازل کرے۔ اگر آیت کسی منزل پر نازل ہوئی ہو پهر یہ شخص مرجائے (اور اس کے بعد کوئی ہادی نہ ہو) تو یہ آیت (متشابہ) بهی مرجائے گی اور وہ کتاب بهی (کيوں کہ آیات متشابهات کی تاویل کرنے والا کوئی نہ ہوگا) ليکن وہ زندہ رہتا ہے اور وہ اپنا قائم مقام اسی طرح چهوڑتا ہے جس طرح اس سے پہلے نے چهوڑا تها۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <الَّذِینَ إِن مَکَّنَّاہُم فِی الاْٴَرضِْ اٴَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتُواْ الزَّکَاةَ وَاٴَمَرُوا ) بِالمَْعرُْوفِ وَنَہَواْ عَن المُْنکَْرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الاْٴُمُورِ > ( ١
یہی وہ لوگ ہيں جنہيں ہم نے زمين ميں اختيار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی، اور (اپنے مقام پر) زکوٰة ادا کی نيکيوں کا حکم دیا اور برائيوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختيار ميں ہے۔
تمام انسان اپنی زندگی کے ادوار ميں اگرچہ زمانے کے ایک مخصوص حصے ميں مادی اور معنوی امکانات و وسائل سے بہرہ مند ہوتے ہيں البتہ بعض افراد ان وسائل سے سوء استفادہ کرکے ہوس رانی اور بغاوت کی راہ اپنا کر لا ابالی پن کو اپنا شعار قرار دے کر ہر قسم کے فتنہ و فساد کو بهی اپنا ہدف قرار دیتے ہيں اور آیہٴ کریمہ <ان الانسان ليطغی ان راہ استغنی> (بے شک انسان سرکشی کرتا ہے کہ اپنے کو بے نياز خيال کرتا ہے) کے منطوق و مضمون کے مطابق مسلسل نواہی الہی کو پائمال کرکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حج، آیت ۴١ ۔ (
ظلم و ستم گری اور ہر قسم کے منکرات کو رواج دینے ميں کوئی جهجک محسوس نہيں کرتے۔ البتہ اس قسم کے افراد کا نقصان معاشرے کا خانہ خراب کرنے کے ليے سرطان اور جراثيم کے وائرس سے بهی زیادہ بدتر اور خاکستر کرنے والا ہے۔
بعض دوسرے لوگ ان لوگوں کے برخلاف جيسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: ہر قسم کے اسباب زندگی کو عطيہ الٰہی جان کر دل وجان سے اطاعتِ خدا ميں تن من دهن لگا کر مصروف رہتے ہيں اور احکامِ خداوندی کو انجام دینے کے ليے کمر ہمت بانده کر دنيا و آخرت کی سعادت حاصل کی ہے۔
۵٠٢ ۔ تفسير قمی ، مجمع البيان اور تاویل الآیات ميں امام محمد باقر - سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت- نے فرمایا: “نحن ہم واللّٰہ” ( ١) خدا کی قسم! اس آیات سے مراد ہم ہيں۔ ۵٠٣ ۔ “ وفی المناقب عن الکاظم عليہ السلام وجدّہ سيد الشهداء عليہم السلام “هذہ ) فينا اهل البيت ” ( ٢
صاحب مناقب نے امام موسیٰ کاظم - سے انہوں نے اپنے جدّ امجد سيد الشہداء سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: یہ آیت ہم اہل بيت کے بارے ميں نازل ہوئی ہے۔ ۵٠۴ ۔ “وفی البحار باسنادہ ابی الجارود عن ابی جعفر عليہ السلام فی قولہ عَزَّوَجَلَّ الذینَ ان مَکّناهُمْ فی الاَرضِ اقامُوا الصّلاة واتوا الزکاةَ وَامَرُوا باْلمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَللّٰہ عاقِبَةُ الاُمُورِ<
قالَ هَذہِ الآیة لآل مُحمدٍ عليهم السلام ؛ الْمَهْدی وَاَصْحابہُ یُمَلِکُهُمُ اللّٰہ مَشارِق الاٴَرْضِ وَمَ اٰ غرِبَها ویُطهرُ الدّینَ وَیميت اللہّٰ عزوجل بِہِ وباٴصحابِہِ البِدَعَ والبْاطل کمَا امَاتَ السّفَهَة الحقَ حَتیٰ لایریٰ اثر مِنَ الظلمِ ویاٴمرُونَ بالمعرُوفِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تاویل الآیات استرآبادی، ج ١، ص ٣٣۴ ۔ (
٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۴، ص ۴٧ ۔ بحار الانوار، ج ٢۴ ، ص ١۶۶ ۔ کنز الدقائق، ج ۶، ص ۵٢٨ ۔ (
) وَیَنهَْونَْ عَنِ المنْکَر وَللہّٰ عاقَبة الاُمُورِْ ” ( ١ علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے ابو الجارود سے روایت نقل کی ہے کہ امام محمدباقر - نے آیہٴ کریمہ <الذین ان مکناهم فی الارض> کے متعلق فرمایا: یہ آیت آل محمد کے ليے ہے۔ حضرت مہدی - اور ان کے اصحاب کو الله تعالیٰ (تمام دنيا ميں) مالک اور مسلط فرمائے گا زمين کے تمام مشرق و مغرب تک دین اسلام کو غالب کرے گا اور خدائے بزرگ و برتر ان کے بدست اور ان کے اصحاب کے ذریعے تمام بدعتوں اور باطل امور کو مڻادے گا جس طرح اہل باطل بے وقوف لوگوں نے حق کو مڻائے رکها تها، اور پهر ظلم کہيں نظر نہ آئے گا وہ لوگ نيکيوں کا حکم دیں گے اور برائيوں سے روکيں گے اور تمام امور کا سر انجام خدا ہی کے ليے ہے۔ مولف محترم کہتے ہيں: نماز پُر اہميت ترین فرائض الٰہی ميں سے ایک ہے دین کا ستون
ہے مومنين کی معراج اور خداوند متعال ( ٢) کا تقرب حاصل کرنے کے ليے مومنين کے ليے ) وسيلہ اور فحشاء و منکرات سے روکهنے والی ہے۔ ( ٣
۵٠۵ ۔ حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: “اوَّل ما یُحاسَبُ بِہِ العَبْد الصلاة فانْ قُبلتْ قبل ما سِواها انَّ الصلوٰة اذا ارتفعتْ فی وَقْتها رَجَعَتْ الیٰ صاحِبِها وَهِیَ بَيْضاءُ مُشْرِقَةٍ تَقُولُ حَفَظْتنی حَفَظَکَ اللّٰہ وَاذا ارتَفَعَتْ فی غيْرَ وقتِها بغيْر حُدُودها رَجَعت اليک صٰاحِبها وَهی سوْداء مُظْلِمةٍ تَقُولُ ) ضَيعَتنی ضَيعَکَ اللہُّٰ ” ( ۴
بندے سے سب سے پہلے جس چيز کا سوال کيا جائے گا وہ نماز ہے اگر یہ قبول ہوجائے گی تو بقيہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کنز الفوائد، ص ١٧۵ ۔ بحار الانوار، ج ٢۴ ، ص ١۶۵ ۔ (
٢(۔ (الصلاة قربان کل تقی) نماز ہر متقی انسان کے ليے تقرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ (
٣(۔ (ان الصلاة تنہی عن الفحشاء و المنکر) یقينا نماز برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے۔ (
۴(۔ کافی، ج ٣، ص ٢۶٨ ۔ (
اعمال بهی قبول ہوجائيں گے کيوں کہ وہ نماز جو اول وقت پڑهی جائے جب وہ عالم بالا کی طرف جائے گی تو وہ اپنے صاحب کے پاس سفيد اور نورانی حالت ميں واپس ہوکر کہے گی: تو نے مجهے محفوظ رکها خدا تمہاری بهی حفاظت فرمائے ، اور جو نماز خلافِ شرائط ہوگی اور بر وقت نہ پڑهی جائے گی وہ اپنے صاحب کے پاس سياہ رنگ ميں تاریکی سے لپڻی ہوئی آئے گی اور کہے گی: تو نے مجهے ضائع کيا الله تجهے بهی ضائع کرے۔
۵٠۶ ۔ “سئل معاویة بن وهب ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام عَنْ افْضَل ما یَتَقَربْ بِہِ العِبادْ الٰی رَبّهم فَقالَ ما اَعْلَم شيئاً بَعدَ الْمَعرِفَةِ اَفضَل مِن هذہ الصلاة الا تریٰ ان العَبدَ الصّالح عيسی بْنُ ) مَریمَ قالَ <وَاوصْانی بالصلاةِ> ” ( ١
معاویہ ابن وہب نے امام جعفر صادق - سے دریافت کيا کہ: بندوں کو اپنے رب سے زیادہ قریب کرنے والی اور خدا کے نزدیک زیادہ محبوب شے کيا ہے؟ فرمایا: خدا شناسی اور معرفت الٰہی کے بعد نماز ہے کيا تم نہيں جانتے کہ عبدِ صالح حضرت عيسیٰ - نے فرمایا ہے کہ: جب تک ميں زندہ ہوں الله نے مجهے نماز پڑهنے کا حکم دیا ہے۔
) ۵٠٧ ۔ “ وسئِل النبی (ص) عَن اَفضِْلَ الاٴعَمالِ قالَ الصَّلاة فی اوَّلِ وَقتْها ” ( ٢ رسول خدا (ص) سے دریافت کيا گيا کہ افضل اعمال کيا ہيں؟ فرمایا: اول وقت ميں نماز پڑهنا۔
۵٠٨ ۔ مولی الموحدین امير المومنين حضرت علی ابن ابی طالب - اپنی بابرکت عمر کے آخری لمحات ميں اپنی وصيتوں ميں نماز کی تاکيداً وصيت فرمائی اپنے اس قول سے (تهاهدوا امر الصلاة فانها عمود دینکم) امر نماز کے پابند اور محافظ رہو کيوں کہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
لہٰذا نماز قائم کرنے کی بہت زیادہ تاکيد ہوئی ہے اس طرح کہ اس کا ترک کرنے والا کافر شمار کيا گيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی ج ٣، ص ٢۴۶ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ، ج ١، ص ٢١٠ ۔ (
٢(۔ اسی مضمون جيسی حدیث عيون اخبار الرضا، ج ٢، ص ١٢٣ ، بحار الانوار، ج ٨٠ ، ص ١٣ ميں ( موجود ہے۔
”من ترک الصلاة عمدا فقد کفر ” جو شخص جان بوجه کر نماز کو ترک کرے یقينا اس نے کفر اختيار کيا۔
۵٠٩ ۔ “وعن الصادق عليہ السلام قالَ رَسُولْ اللّٰہ (ص) لَيسَْ منّی مَن استَخِف بالصَّلاة ) لایرد عَلَیَّ الحوضَ لا وَاللہّٰ” ( ١
امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: وہ شخص مجه سے نہيں ہے جو نماز کو سبک (خفيف) شمار کرے خدا کی قسم! وہ ميرے پاس حوض کوثر پر نہيں آسکتا۔
دوسری روایت ميں امام جعفر صادق - نے فرمایا: جو افراد نماز کو سبک شمار کرتے ہيں وہ ہماری شفاعت سے محروم رہيں گے۔
۵١٠ ۔ “ وفی ثواب الاعمال : عن ابی بصير قالَ “دَخَلْتُ عَلیٰ امَ حَميدةٍ اُعَزُّبها بابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فَبَکَتْ فَبَکَيْتُ لِبکائِها ثمَ قالتْ یا اٴبا مُحمّدٍ لوْ رَاٴَیْتَ اَبا عبد اللّٰہ عليہ السلام عِنْد المَوتِ لرَاٴیتَْ عَجباً فَتَحَ عينَيہْ ثُمَّ قالَ اجمْعوا الیَّ کُلَّ مَن بينی وَبَينہ قرابةٌ قالَت فَلَم نَترْک احداً الاَّ ) جَمعَناہُ قالت فَنَظَرَ اليهِم ثم قالَ ان شَفاعتنَا لا تَنال مستخّفاً بالصَّ وٰلةِ ” ( ٢
ابو بصير کا بيان ہے: ام حميدہ کی خدمت ميں حاضر ہوا تاکہ امام جعفر صادق - کی شہادت کی مناسبت سے تسليت و تعزیت پيش کروں پهر انہوں نے گریہ و زاری کيا ميں بهی ان کی گریہ و زاری کی وجہ سے رونے لگا پهر کہا: اے ابو محمد! (ابو بصير کی کنيت ہے) اگر موت کے وقت امام جعفر صادق - کو دیکهتے تو یقينا ایک عجيب شے کا مشاہدہ کرتے انہوں نے اپنی آنکهوں کو کهولا اور فرمایا: ميرے تمام اعزّہ و اقربا کو بلایا جائے ، ام حميدہ کا بيان ہے جو افراد تهے سب کو جمع کيا اور کسی ایک کو بهی بلانا نہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ علل الشرائع، ج ٢، ص ٣۵۶ ۔ تہذیب الاحکام، ج ٩، ص ١٠٧ ۔ (
٢(۔ ثواب الاعمال، ص ٢٢٨ ۔ المحاسن، ج ١، ص ٨٠ ۔ بحار الانوار، ج ۴٧ ، ص ٢۔ (
ترک کيا جب سب جمع ہوگئے تو امام نے سب کو ایک نظر دیکها اور فرمایا: ہم ائمہ کی شفاعت اس شخص کے شامل حال نہيں ہوگی جو نماز کو سبک (معمولی) سمجهے گا (یعنی جس وقت اسے موقع ملا جيسے چاہا پڑه ليا ورنہ بالکل نماز کو کوئی اہميت نہيں دیتا)۔ مولف کہتے ہيں: وہ نماز جو اتنی اہميت و فضيلت کی حامل ہے اور حضرت صادق آل محمد - کے بقول جس کے چار ہزار باب یا چار ہزار حدود ہيں اس چند حدیث ميں جو دریائے عظمتِ نماز کا ایک قطرہ ہے خلاصہ نہيں ہو سکتا۔ ہم بحث طولانی ہونے کے خوف سے اسی مقدار پر اکتفاء کر رہے ہيں۔
اس عبادی امر (نماز) کی اہميت و عظمت کے ليے یہی کافی ہے کہ تمام انبياء و اوصياء نے مکمل اہميت کے ساته اس عمل کو انجام دیا اسے قائم کيا اور تمام لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی۔
۵١١ ۔ زیارت حضرت رسول اکرم (ص) اور ائمہٴ اطہار کی زیارتوں کے فقرات ميں سب سے زیادہ یہ بات مشاہدہ ميں آتی ہے۔ ”اشهَد انَّکَ قَد بلّغتَ الرّسالة واقَمتَ الصّلوةُ وَاتَيتَ الزک وٰةَ وَاَمَرتَ بالمعروفِ وَنَهيتْ عَنِ المنکَرِ“
ميں گواہی دیتا ہوں کہ یقينا آپ نے تبليغ رسالت انجام دی اور نماز قائم کی زکوٰة ادا کی اور آپ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکر انجام دیا۔
۵١٢ ۔ حضرت امير المومنين - کی چهڻی زیارت ميں واردہوا ہے “وَعَلی الائمةِ الراّشِدین الذینَ امرُوا بالمعرُوفِ وَنهوا عَنِ المُنْکَرِ وفرضَوا عَلينا الصّلَواتِ وامروا بایتاء الزکاةِ” اور (سلام ہو) ائمہٴ راشدین پر جنہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کيا اور ہم پر نمازوں کو فرض قرار دیا اور زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیا۔ اور زیارت مبعث: “ اشهَد انَّکَ قَد اقمت الصلاةَ وَ اتَيتَ الزکاہَ وَ امرَتَ بالمعرْوفِ وَنَهَيتَ عَنِ المُنکَْرِ واتَبَعتَْ الرسُولَ وَتلوت الکِتابَ حق تلاوَتِہ“ ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم اور زکوٰة ادا کی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام دیا اور آپ نے رسول کی اطاعت کی اور کتاب الٰہی کی کماحقہ تلاوت کی۔ ۵١٣ ۔ ہم زیارت حضرت سيد الشہداء امام حسين - ميں پرهتے ہيں: “اشهَد انَّکَ قَد اقمتَ الصلٰوة واتيْتَ الزکاة وامرت بالمعروفْ وَنَهَيْتَ عَنِ المُنْکَرِ ( الیٰ قولہ) وَعَبَدتَ اللہّٰ مُخلصاً حت یٰ اتيکَ اليَقينِ “
)یہاں تک کہ فرمایا) اور آپ نے الله تعالیٰ کی مخلصانہ عبادت کی یہاں تک کہ آپ کو موت آگئی۔
اور اسی طرح زیارتِ نيمہٴ رجب، شبہای قدر ، روز عرفہ اور زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں ہے: “واقَمتُمُ الصَّ وٰلة وآتيتم الز اٰ کةَ وامَرتُم بِالمعروفِ وَنَهَيتُْم عَنِ المُنکَْرِ وَ جٰاهَدتُْم فی اللہّٰ حقَّ جِهادَہِ ” اور آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰة کو ادا کيا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کيا اور راہِ خدا ميں جہاد کيا جو حق جہاد ہے۔
ان عظيم ہستيوں (ائمہٴ اطہار ) کی تمام زیارتوں کے مجموعی جملوں ميں ہم یہ مشاہدہ کرتے اور اس حقيقت تک پہنچتے ہيں کہ یہی لوگ دین مبين کے محافظ اور نماز قائم کرنے والے ہيں اور لوگوں کو اس کو قائم کرنے کی جو امر بالمعروف کا مصداق ہے دعوت دیتے ہيں اور منکرات کہ ان ميں سے عظيم ترین اور واضح ترین نماز کا ترک کرنا ہے اور تمام برائيوں سے بهی روکتے ہيں۔
قابل ذکر ہے کہ مشہور و معروف دعائے ندبہ کہ جس کا اعياد متبرکہ عيد فطر، عيد قربان، عيد غدیر اور جمعہ کے دنوں ميں پڑهنا مستحب ہے اس کے مضمون ميں ایسے مطالب ہميں ملتے ہيں جو مجموعی طور پر انتظار کی بشارت اور دین و دنيا کی صلاح کی اميد دلاتے ہيں جو آیہٴ کریمہ <الّذین اِن مَکّنّاهُمْ في الاَرضْ اقامُوا الصلوة و اٰتُوا الزَکاةَ و اَمَروا بالمعروف و نَهُوا عِنَ المُنکَرِ> (یہی وہ لوگ ہيں جنہيں ہم نے زمين ميں اختيار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی نيکيوں کا حکم دیا اور برائيوں سے روکا) کے باطنی اور واقعی معنی کو روشن کرتے ہيں۔ جيسا کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: یہ آیت آل محمد کے حق ميں ہے۔ حضرت مہدی - اور ان کے اصحاب کو خداوند متعال نے تمام سرزمين مشرق و مغرب کا مالک (سلطان) قرار دیا مقدس دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب فرمایا اور خدا کے اختيار سے تمام اصحاب بدعت اور اہل باطل کو نابود اور ویران کرے گا اس طریقے سے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حقيقی معنی ميں محقق ہوگا اور غارت گری ظلم و ستم اور خون ریزیوں کا کوئی اثر مشاہدے ميں نہيں آئے گا۔ انشاء الله تعالیٰ۔
اب ہم دعائے ندبہ کے عين مطالب کو جو این این کے عنوان سے ذکر ہوا ہے نقل کر رہے ہيں۔
اَیْنَ بَقيّة اللّٰہ الّتی لا تخلُو من العِترَةِ الهٰادیةِ وہ بقية الله جس سے ہدایت کرنے والی عترت پيغمبر سے دنيا خالی نہيں ہوسکتی کہاں ہے۔
اٴَینَْ المُْعَدُّ لِقَطعِْ دابِرِ الظَّلَمَة
کہاں ہے وہ جسے سلسلہٴ ظلم کو قطع کرنے کے ليے مہيا کيا گيا ہے
اٴَینَْ المُْنتَْظَرُ لإِقَامَةِ الاْٴَمتِْ وَ العِْوَجِ
کہاں ہے وہ جس کا کجی اور انحراف کو درست کرنے کے لےے انتظار ہو رہا ہے
اٴَینَْ المُْرتَج یٰ لإِزَالَةِ الجَْورِ وَ العُْدوَْانِ
کہاں ہے وہ جس سے ظلم و تعدی کو زائل کرنے کی اميدیں وابستہ ہيں
اٴَینَْ المُْدَّخَرُ لِتَجدِْیدِ الفَْرَآئِضِ وَ السُّنَنِ
کہاں ہے وہ جسے فرائض و سنن کی تجدید کے ليے ذخيرہ کيا گيا ہے
اٴَینَْ المُْتَخَيَّرُ لإِعَادَةِ المِْلَّةِ و الشَّرِیعَةِ
کہاں ہے وہ جسے مذاہب اور شریعت کو دوبارہ منظر عام پر لانے کے ليے منتخب کيا گيا ہے
اٴَینَْ المُْوٴَمَّلُ لإِحيَْآءِ الکِْتَابِ وَ حُدُودِہِ
کہاں ہے وہ جس سے کتاب خدا اور اس کے حدود کی زندگی کی اميدیں وابستہ ہيں
اٴینَْ مُحيِْي مَعَالِمِ الدِّینِ وَ اٴَهلِْہِ
کہاں ہے دین اور اہل دین کے آثار کا زندہ کرنے والا
اٴَینَْ قَاصِمُ شَوکَْةِ المُْعتَْدیِنَ
کہاں ہے اہل ستم کی شوکت کی کمر توڑنے والا
اٴَینَْ هَادِمُ اٴَبنِْيَةِ الشِّرکِْ وَ النِّفَاقِ
کہاں ہے شرک و نفاق کی عمارت کو منہدم کرنے والا
اٴَینَْ مُبِيدُ اٴَهلَْ الفُْسُوقِ وَ العِْصيَْانِ وَ الطُّغيَْانِ
کہاں ہے فسق و معصيت اور سرکشی کرنے والوں کو تباہ کرنے والا
اٴَینَْ حَاصِدُ فُرُوعِ الغَْيِّ وَ الشِّقَاقِ
کہاں ہے گمراہی اور اختلاف کی شاخوں کو کاٹ دینے والا
اٴَینَْ طَامِسُ آثَارِ الزَّیغِْ وَ الاْٴَهوَْآءِ
کہاں ہے انحراف اور خواہشات کے آثار کو محو کر دینے والا
اٴَینَْ قَاطِعُ حَبَآئِلِ الکِْذبِْ وَ الافتِْرَآءِ
کہاں ہے کذب اور افتراء پردازیوں کی رسيوں کو کاٹ دینے والا
اٴَینَْ مُبِيد العُْتَاةِ وَ المَْرَدَةِ
کہاں ہے سرکشوں اور باغيوں کو ہلاک کرنے والا
اٴَینَْ مُستَْاٴصِْل اٴَهلِْ العِْنَادِ وَ التَّضلِْيلِ وَ الْإِلحَْادِ
کہاں ہے عناد والحا دو گمراہی کے ذمہ داروں کو جڑ سے اکهاڑ کر پهينکے والا
اٴَینَْ مُعِزُّ الاْٴَولِْيَآءِ وَ مُذِلُّ الاْٴَعدَْآءِ
کہاں ہے دوستوں کو عزت دینے والا اور دشمنوں کو ذليل کرنے والا کہاں ہے
اٴَینَْ جَامِعُ الکَْلِمَةِ عَلَی التَّقوَْی
کہاں ہے تمام کلمات کو تقویٰ پر جمع کرنے والا
اٴَیْنَ بَابُ اللّٰہِ الَّذِي مِنْہُ یُوٴْتیٰ
کہاں ہے وہ دروازہ فضل خدا جس سے اس کی بارگاہ ميں حاضر ہوا جاتا ہے
اٴَینَْ وَجہُْ اللہِّٰ الَّذِي إِلَيہِْ یَتَوَجَّہُ الاْٴَولِْيَآءُ
کہاں ہے وہ وجہ الله جس کی طرف اس کے دوست متوجہ ہوتے ہيں
اٴَینَْ السَّبَبُ المُْتَّصِلُ بَينَْ الاْٴَرضِْ وَ السَّمَآئِ
کہاں ہے وہ سلسلہ جو زمين و آسمان کا اتصال قائم کرنے والا ہے
اٴَینَْ صَاحِبَ یَومِْ الفَْتحِْ وَ نَاشِرُ رَایَةِ الهُْد یٰ
کہاں ہے وہ جو روز فتح کا مالک ہے اور پرچم ہدایت کا لہرانے والا ہے
اٴَینَْ مُوٴَلِّفُ شَملِْ الصَّلاَحِ وَ الرِّضَا
کہاں ہے وہ جو نيکی اور رضا کے منتشر اجزاء کو جمع کرنے والا ہے
اٴَینَْ الطَّالِبُ بِذُحُولِ الاْٴَنبِْيَآءِ
کہاں ہے انبياء اور اولاد انبياء کے خون ناحق کا بدلہ لينے والا
اٴَینَْ الطَّالِبُ بِدَمِ المَْقتُْولِ بِکَربَْلاَئِ
کہاں ہے شہيد کربلا کے خونِ ناحق کامطالبہ کرنے والا
اٴَینَْ المَْنصُورُ عَلَ یٰ مَنِ اعتَْدَ یٰ وَ افتَْر یٰ
کہاں ہے وہ جس کی ہر ظلم اور افتراء کرنے والے کے مقابلہ ميں مدد کی جانے والی ہے
اٴَینَْ المُْضطَْرُّ الَّذِي یُجَابُ إِذَا دَعَ یٰ
کہاں ہے وہ مضطر جس کی دعا مستجاب ہونے والی ہے؟
اٴَینَْ صَدرُْ الخَْلآئِقِ ذُو البِْرِّ وَ التَّقوَْ یٰ
کہاں ہے ساری مخلوقات کا سربراہ صاحب صلاح و تقوی؟
اٴَینَْ ابنُْ النَّبيِّْ المُْصطَْفَ یٰ، وَ ابنُْ عَلِيٍّ المُْرتَْض یٰ، وَابنُْ خَدِیجَةَ الغَْرَّآءِ، وَ ابنُْ فَاطِمَةُ الکُْبرْ یٰ
کہاں ہے رسول مصطفیٰ (ص) کا فرزند؟ اور علی مرتضیٰ کا دلبر کہاں ہے؟ اور خدیجہ
کا نور نظر اور فاطمہ کبریٰ کا لخت جگر کہاں ہے؟
بِاٴَبِي اٴَنتَْ وَ اٴُمِّي وَ نَفسِْي لَکَ الوِْقَآءُ وَ الحِْم یٰ، یَابنَْ السَّادَةِ المُْقَرَّبِينَ
تجه پر ميرے ماں باپ قربان اور ميرا نفس تيرے ليے سپر اور محافظ ہے اے مقرب سرداروں کے فرزند!۔