٢۴ ۔ ناموس الٰہی
٢۴ ۔ الْقُرآنُ هُوَ النَّامُوسُ الاِلٓهی الّذی تَکَفَّل لِلْنّاسِ بِاصْلاحِ الدّینِ وَالدُّنْيا ؛
وَالْحُجَّةُ الْقٰائِمُ الْمُهْدی عَجّل اللّٰہ تعالیٰ فَرَجہ الشَّرِیفِ کذلِک
یقيناقرآن مجيد ناموس الٰہی ہے جو لوگوں کے دین و دنيا کی اصلاح کرنے کی کفالت
کرتا ہے اور اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم قائم آل محمد اور ان کے اجداد پاک لوگوں کی
اصلاح کے ليے ناموس الٰہی ہيں۔
”ناموس” اصل ميں بمعنی: احکام الٰہی اور شریعت کے ہيں هو الشرع الذی شرعہ اللّٰہ
وہ شریعت و قانون جسے الله نے بنایا۔ صاحب راز جو باطنی کام سے آگاہ ہے، وہ شخص جو آپ
کے باطنی کام سے بالخصوص جو دوسروں سے پوشيدہ رکها ہے واقف ہے، قاعدہ ، عظيم حکم
اور شریعت کيوں کہ لغت ميں حکماً ناموس کا معنی تدبير و سياست ہے اور صاحب راز خير ہے۔
)١)
اس بنا پر قرآن مجيد ناموس الٰہی ہے کيوں کہ بہت سے مختلف النوع احکام و شرائع
کے پہلوؤں پر مشتمل ہے جيسے اسلامی قوانين، اقتصادی، اجتماعی، سياسی اور اخلاقيات
وغيرہ سے متعلق مسائل متعدد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ دهخدا عليہ الرحمہ نے اپنے لغت نامہ ميں حرف “نون” ميں ناموس کے مادہ ميں لغت کی (
بہت سی کتابوں ميں مختلف معانی کی جمع آوری کی ہے۔ قارئين کرام وہاں رجوع کریں، یہاں
یہ مذکورہ موارد جو ہماری بحث سے مربوط تهے اسے ہم نے ذکر کيا ہے۔
آیات کے اندر مندرج ہيں۔ اب ہم ان ميں سے بعض کی طرف اشارہ کریں گے اوراسے آپ کے
گوش گزار کریں گے:
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّ اللهَ یَاٴمُْرُ بِالعَْدلِْ وَالإِحسَْانِ وَإِیتَاءِ ذِی القُْربَْی وَیَنہَْی عَن ) الفَْحشَْاءِ وَالمُْنکَرِ وَالبَْغیِْ یَعِظُکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ > ( ١
بے شک الله عدل ، احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائيگی کا حکم دیتا ہے اور
بدکاری، ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصيحت حاصل کرلو۔
انسانی اجتماع کی اساس کيا ہے؟
آیہٴ کریمہ احکام کے چه حصوں “عدل و احسان، ایتاء ذی القربیٰ، نہی عن المنکر اور
ستم کاری”پر مشتمل ہے۔ ابتدائی تين حصے ترتيب وار پُر اہميت ترین خير و خوبياں ہيں کہ
سماجِ بشریت کی اساس اس پر استوار اور پایدار ہے۔ بالخصوص عدل جو من جملہ الٰہی اسماء
الحسنی اور پروردگار کے فعل کی ایک صفت ہے، اہميت کے لحاظ سے وہ حدیث کفایت کرے
گی جو رسول خدا (ص) سے نقل ہوئی ہے “و بعد لہ قامت السموات و الارض” ( ٢) عدالتِ
پروردگار کے باعث تمام آسمان اور زمين اور جو کچه اس ميں موجود ہے پایدار ہيں۔
یہ خود ایک تنبيہ اور تذکر ہے اس بات کے ليے کہ جب کبهی ان چار ارکان ميں سے
کوئی رکن اس سے کم یا زائد ہوگا تو حکمت کائنات کے تقاضے کے مطابق اپنے اس وسعت
انتظام کے باوجود خراب ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ٩٠ ۔ (
٢(۔ تفسير صافی، ج ۵، ص ١٠٧ ۔ (
ارباب لغت و ادب نے عدل کے معنا کے متعلق مفصل بحث کی ہے اور دادِ سخن حاصل
کيا ہے۔
ليکن مختصر ترین اور جامع ترین معنی یہ ہے کہ کہتے ہيں: “عدل کی حقيقت تمام امور
کے درميان مساوات کے ساته اسے قائم کرنا ہے اس طرح سے کہ جس شخص یا شے کے
ليے جو مناسب ہے اس کا حصہ عطا کيا جائے اسے عطا کریں تاکہ ان ميں سے ہر ایک اپنے
موقع و محل پر قرار پائے اور مساوی ہو”۔
مثلاً اعتقاد ميں عدل یہ ہے کہ جو کچه حق و حقيقت ہے اس پر کما حقہ ایمان لایا
جائے۔ عدل فعلِ انسانی ميں یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کی بہ نسبت اپنے ایسے افعال انجام دے
کہ جس ميں اس کی سعادت و نيک بختی پائی جاتی ہے اور ان چيزوں سے پرہيز کرے کہ
ہوائے نفس کی پيروی کرنے کے نتيجے ميں اس کی اس ميں شقاوت و بدبختی پائی جاتی
ہے۔
عدل معاشرے اور لوگوں کے درميان یہ ہے کہ ہر شخص یا ہر شے کو اس کے استحقاقی
مقام پر قرار دیا جائے خواہ وہ عقلی نقطہٴ نظر سے ہو یا شرعی و عرفی حيثيت سے۔ اس
معنی ميں کہ محسن اور نيک کام کرنے والے کے حق ميں اس کے احسان اور نيکی کی وجہ
سے جزا دی جائے اور بدکار کو اس کی بدی کے مقابل ميں اسے کيفر کردار تک پہنچایا جائے،
اور مظلوم کی بہ نسبت ظالم سے اس کے حق لينے ميں قانون نافذ کرتے وقت کسی امتياز یا
استثناء کے قائل ہوئے بغير منصفانہ طور پر فيصلہ کرے۔
بہرحال عدل اگرچہ دو حصوں ميں تقسيم ہوتا ہے عدلِ انسانی خود اس کے نفس کی
بہ نسبت اور عدل دوسرے کی بہ نسبت دوسری تعبير ميں : عدل انفرادی اور عدل اجتماعی
بہر صورت لفظ عدل کا اطلا ق ہوتا ہے ليکن ظاہر سياق یہ ہے کہ آیت ميںعدل سے مراد
اجتماعی عدل ہے یعنی ان ميں سے ہر ایک کے افراد کے ساته ایسا معاملہ ہونا چاہيے کہ
جيسا وہ استحقاق رکهتے ہيں انہيں اس کی لياقت کے لحاظ سے مناسب مقام عطا کيا جائے۔
کيوں کہ تمام اجتماع کے افراد کی خير و صلاح اس ميں ہے جو اسلام اپنی مصلحانہ
تعليمات ميں چاہتا ہے۔ انسان اگرچہ خود اجتماع کی ایک فرد ہے ليکن ہر شخص کی سعادت
اس بات پر موقوف ہے کہ اجتماعی ماحول اور فضا خير و صلاح کی حامل ہو جس ميں وہ زندگی
بسر کر رہا ہے۔ کتنا سخت مرحلہ ہے انفرادی کاميابی اور سلامتی کا اس بارے ميں اجتماع کہ
) جہاں اسے ہر طرف سے شقاوت اور برائيوں نے اپنے احاطے ميں لے ليا ہو۔ ( ١
قولہ تعالیٰ: <وِ الاِح سْٰانِ>: قال الراغب: “الاٴحسان علی وجهين: احدهما: الانعام علیٰ
الغير یقال احسن الیٰ فلان و الثانی: احسان في فعلہ و ذلک اذا علم علماً حسنا او عمل عملاً
حسناً“
۴۶٧ ۔ “وعلیٰ هذا قول امير الموٴمنين عليہ السلام : اَلنَّاسْ اَبْنآءُ مٰا یُحسِنُونَ ای منسوبون
الیٰ ما یعلمون وما یعملونہ من الافعال الحسنة قال اللّٰہ تعالیٰ : اَلَّذی اٴَحسَْنَ کُلَّ شَیءٍ خَلَقَہُ
)٢) ” <
راغب اصفہانی کہتے ہيں: احسان کی دو قسميں ہيں: ١) دوسروں پر انعام و احسان
کرنا (دوسری تعبير ميں یہ دوسرے پر تفضّل و برتری ہے اور شاید آیت ميں بهی یہی مراد ہو نہ
یہ کہ کام کو نيک طور پر انجام دینا)۔
٢ (عمل ميں احسان (یعنی اگر کوئی شے حاصل کرے کوئی علم تعليم دے تو اچهی
شے حاصل کرے پُر فائدہ علم تعليم دے، یا ایسا کام انجام دینا ہے جو نيک عمل اور دل چسپ
ہو اسے انجام دے کہ حضرت امير المومنين - کے قول کا مقصود یہی معنی ہے۔
لوگ اس شے کی اولاد ہيں جو بہتر ہے یعنی ہر شخص کا انتساب اور اُس کی ارزش
اس کے علم و عمل کی بہ نسبت ہوا کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الميزان سے تلخيص ، ج ١٢ ، ص ٢۵۴ ۔ (
٢(۔ مفرادت راغب ، ص ٢١٩ ۔ تاج العروس، ج ٩، ص ١٧۶ ۔ (
قابل ذکر یہ ہے کہ احسان کے کمال کا مرتبہ غير سے وابستہ ہے جو جزا یا باہمی لين
دین کے انتظار کے بغير یا یہ کہ جس پر خود احسان کيا ہے اس سے زیادہ توقع رکهے بلکہ قصد
قربت اور مفت ميں انجام دے اور یہ ارادہ کرے کہ ایک ایسے انسان کی نجات چاہتا ہے جو فقر و
فاقے اور ذلت ميں گرفتار ہے تاکہ اس کے آثار و فوائد جو اس پر مترتب ہوتے ہيں وہ حاصل
کرسکے۔
الله تعالیٰ کے اس قول <و ایتاءِ ذی القربی> ميں ذی القربیٰ سے مراد اقرباء کی جنس
مراد ہے نہ خاص فرد کيوں کہ لفظ قربیٰ عام ہے جس ميں ہر قسم کی قرابت خواہ نزدیک کی
ہو یا دور کی شامل ہے۔
الله تعالیٰ حکم فرماتا ہے تمام اقربا اور قوم کے حقوق عطا کرنے کا صلہٴ رحم کرنے سے
اور ان ميں عميق غور و فکر کرنے سے کہ جس ميں بہت سے آثار و فوائد پائے جاتے ہيں۔
۴۶٨ ۔ ائمہٴ معصومين سے تفسير ميں نقل ہوا ہے کہ ذی القربیٰ سے مراد نبی اکرم
(ص) کی قرابت ہے۔ کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَاعلَْمُوا اٴَنَّمَا غَنِمتُْم مِن شَیءٍْ فَاٴَنَّ لِلّہِ خُمُسَہُ
) وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی القُْربَْی وَاليَْتَامَی وَالمَْسَاکِينِ > ( ١
اور یہ جان لو کہ تمہيں جس چيز سے بهی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ الله ،
رسول، رسول کے قرابت دار، ایتام ، مساکين اور مسافران غربت زدہ کے ليے ہے۔
۴۶٩ ۔ حضرت امام محمد باقر - سے روایت ہوئی ہے کہ فرمایا: “نحن هم” یعنی ہم ذی
القربیٰ ہيں۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَیَنہَْی عَن الفَْحشَْاءِ وَالمُْنکَرِ وَالبَْغیِْ یَعِظُکُم لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ> ( ٢
) ”اَلفُْحش وَالفَْحشْآءُ وَالفْاحِشَةُ ما عَظُم قُبحُْہُ مِنَ الاَْفعال وَالاَْقوالِ ” ( ٣
راغب نے مفردات ميں ذکر کيا ہے: فحش، فحشاء اور فاحشہ تينوں بہت بڑی برائی اور
قباحت کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انفال ، آیت ۴١ ۔ (
٢(۔ سورئہ نحل، آیت ٩٠ ۔ (
٣(۔ مفردات راغب، ص ٢٧٣ ۔ (
ليے استعمال ہوتا ہے خواہ افعال و کردار ميں ہو یا گفتار و اقوال ميں کہ خداوند متعال نے اس
سے منع فرمایا ہے: إِنَّ اللّٰہَ لاٰ یَاٴْمُرُ بِالفَحْشٰاءِ< قُل إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الفَْوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنہَْا وَمَا بَطَنَ
) وَالإِْثمَْ وَالبَْغیَْ بِغَيرِْ الحَْقِّ > ( ١
کہہ دیجيے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بدکاریوں کو حرام کيا ہے خواہ وہ ظاہری ہوں یا
باطنی اور گناہ اور ناحق ظلم۔
”والمنکر” وہ اعمال جو لوگوں کے درميان غير معروف او ر متروک ہوں اس جہت سے کہ
وہ برے ہيں جيسے شرمگاہ وغيرہ کهولنا ہے۔
”و البغی” دراصل طلب کے معنی ميں ہے پهر وہ ناحق طلب ميں تجاوز کے طور پر
استعمال ہوا ہے۔ اب اس کی وجہ کيا ہے کہ الله تعالیٰ نے ان تين خصلت کو مجموعی طور پر
منع کيا ہے جب کہ ہر فعل منکر برا ہے ان کی برائيوں کی تفصيلات بہت زیادہ ہيں جو ان تينوں
عناوین ميں پائی جاتی ہيں کہ اگر کسی ایک انسانی معاشرے ميں وہ واقع ہو تو معاشرے کا
نظم درہم برہم ہوجائے گا جس کے نتيجے ميں لوگوں کی ہلاکت کا باعث بهی ہوگا۔
لہٰذا ان اوصاف کے صادر ہونے سے منع کيا گيا ہے کہ ان افعال کا واقع نہ ہونا بہت عظيم
عامل اور محرّک شمار ہوگا کہ معاشرے کے درميان مناسب ماحول بہترین فضاء باہمی صميميت
ایجاد ہو جو ہر قسم کی کدورت و نفرت سے دور ہے۔
پهر آیت کے آخر ميں بعنوان موعظہ جو مکارم اخلاق پر مشتمل ہے فرماتا ہے: شاید تم
نصيحت حاصل کرو اور فکر کرو درک کرو کہ الله تعالیٰ تمہيں اس کی طرف دعوت دیتا ہے کہ
جس ميں تمہاری حيات طيبہ اور سعادت پائی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ٣٣ ۔ (
”فرمودات الٰہی انسانوں کی دین و دنيا کی اصلاح کے ذمہ دار ہيں“
قرآن مجيد کی آیات کے دوسرے حصے بعض محرمات الٰہی پر مشتمل ہيں جو تمام الٰہی
شریعتوں ميں مشترک ہيں اور کسی ایک شریعت سے مخصوص نہيں ہيں، اب ہم مربوطہ آیات
آپ کے گوش گزار کرتے ہيں:
>قُل تَعَالَواْ اٴَتلُْ مَا حَرَّمَ رَبُّکُم عَلَيکُْم اٴَلاَّ تُشرِْکُوا بِہِ شَيئًْا وَبِالوَْالِدَینِْ إِحسَْانًا وَلاتَقتُْلُوا
اٴَولْاَدَکُم مِن إِملْاَقٍ نَحنُْ نَرزُْقُکُم وَإِیَّاہُم وَلاَتَقرَْبُوا الفَْوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنہَْا وَمَا بَطَنَ وَلاَتَقتُْلُوا النَّفسَْ
الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالحَْقِّ ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُم تَعقِْلُونَ # وَلاَتَقرَْبُوا مَالَ اليَْتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ
حَتَّی یَبلُْغَ اٴَشُدَّہُ وَاٴَوفُْوا الکَْيلَْ وَالمِْيزَانَ بِالقِْسطِْ لاَنُکَلِّفُ نَفسًْا إِلاَّ وُسعَْہَا وَإِذَا قُلتُْم فَاعدِْلُوا وَلَو کَانَ
ذَا قُربَْی وَبِعَہدِْ اللهِ اٴَوفُْوا ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ # وَاٴَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُستَْقِيمًا فَاتَّبِعُوہُ
) وَلاَتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِيلِہِ ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ > ( ١
کہہ دیجيے! کہ آؤ ہم تمہيں بتائيں کہ تمہارے پروردگار نے کيا کيا حرام کيا ہے خبردار
کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساته اچها برتاؤ کرنا، اپنی اولاد کو غربت کی بنا
پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہيں بهی رزق دے رہے ہيں اور انہيں بهی اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا
وہ ظاہر ہوں یا چهپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کردیا ہے قتل نہ کرنا
مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو یہ وہ باتيں ہيں جن کی خدا نے نصيحت کی ہے تاکہ تمہيں عقل
آجائے۔ اور خبردار مالِ یتيم کے قریب بهی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو یہاں
تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائيں اور ناپ تول ميں انصاف سے پورا پورا دینا ہم کسی
نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکليف نہيں دیتے ہيں اور جب بات کرو تو انصاف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیات ١۵١ ۔ ١۵٣ ۔ (
کے ساته چاہے اپنے اقربا ہی کے خلاف کيوں نہ ہو اور عہد خدا کو پورا کرو کہ اس کے پروردگار
نے تمہيں وصيت کی ہے شاید تم عبرت حاصل کرسکو۔ اور یہ ہمارا سيدها راستہ ہے اس کا
اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جاؤ کہ راہِ خد سے الگ ہوجاؤ گے اسی کی
پروردگار نے ہدایت دی ہے کہ اس طرح شاید متقی اور پرہيز گار بن جاؤ۔
تينوں آیات، قرآن کے محکمات ميں ہيں اور بعض احکام الٰہی پر مشتمل ہيں کہ ستّر ہزار
فرشتوں نے اس کی ہم راہی کی ہے اور کوئی شے اس کے احکام ميں سے منسوخ نہيں
ہوئی وہ قيامت تک باقی ہيں جيسا کہ بيان کيا جاچکا : مذکورہ آیاتِ کریمہ تقریباً دس محرماتِ
الٰہی کو بيان کر رہی تهيں جو تمام شریعتوں کے درميان عام تهے کسی خاص شریعت سے
مخصوص نہيں تهے ۔ اس بات کے شواہد و دلائل گزشتہ انبياء کے خطابات کے ضمن ميں الله
تعالیٰ نے ان کی امتوں کی فراموش شدہ تبليغات کے بارے ميںجيسے یہ کہ حضرت نوح -، ہود
-، صالح -، ابراہيم -، لوط -، شعيب-، موسی -، عيسی - وغيرہ سے وصيت کے عنوان سے
نقل کيے گئے ہيں ہم تلاش کریں۔
و قد قال الله تعالیٰ: <شَرَعَ لَکُم مِن الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحًا وَالَّذِی اٴَوحَْينَْا إِلَيکَْ وَمَا وَصَّينَْا
) بِہِ إِبرَْاہِيمَ وَمُوسَی وَعِيسَی اٴَن اٴَقِيمُوا الدِّینَ وَلاتَتَفَرَّقُوا فِيہِ > ( ١
اس نے تمہارے ليے دین ميں وہ راستہ مقرر کيا ہے جس کی نصيحت نوح کو کی ہے اور
جس کی وحی پيغمبر تمہاری طرف بهی کی ہے اور جس کی نصيحت ابراہيم، موسی اور
عيسی کو بهی کی ہے کہ دین کو قائم کرو اور اس ميں تفرقہ نہ پيدا ہونے پائے۔
اسی طرح مورد بحث آیات ميں جو محرمات کے اصول ہيں وصيت کے عنوان سے بيان
فرمایا جو کچه قابل دقّت اور غورو فکر ہے یہ کہ پہلی آیت ميں فرمایا: ذلکم وصّٰيکم بہ لعلکم
تعقلون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ شوریٰ، آیت ١٣ ۔ (
دوسری آیت ميں فرمایا:لعلکم تذکرون اور تيسری آیت ميں لعلکم تتقون فرمایا ہے۔
مولف کہتے ہيں: شاید یہ اس مقصد کے ليے ہو کہ ہر شے کے متعلق انسان کو چاہيے
کہ ابتداء ميں غوروفکر کرکے ادراک کرے پهر اس کے متعلق یاد آوری کرے اور یہ واضح ہے کہ
غور وفکر اور یاد آوری کا نتيجہ وہی تقویٰ و پرہيز گاری ہے کہ الله تعالیٰ نے دوسری آیت ميں
بيان فرمایا ہے۔ قولہ تعالیٰ: <قُل تَعَالَواْ اٴَتلُْ مَا حَرَّمَ رَبُّکُم عَلَيکُْم اٴَلاَّ تُشرِْکُوا بِہِ شَيئًْا وَبِالوَْالِدَینِْ
) إِحسَْانًا > ( ١
)اے پيغمبر!) کہہ دیجيے کہ آؤ ہم تمہيں بتائيں کہ تمہارے پروردگار نے کيا کيا حرام کيا
ہے خبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساته اچها برتاؤ کرنا۔
دس محرمات جو بعض نہی اور بعض امر کی صورت ميں بيان ہوئے ہيں جيسے الله تعالیٰ
کا یہ قول <و اذا قلتم فاعدلوا> (اپنی گفتار ميں عدالت سے کام لو)، <و بالوالدین احساناً>
(والدین کے ساته نيکی کرو)، <اوفوا الکيل و الميزان> (ناپ تول مکمل طور پر انجام دو(
ان سب احکام کی باز گشت بهی مفہوم کے لحاظ سے نہی کی طرف ہے۔
یعنی کم فروشی نہ کرو، جهوٹ نہ بولو اور ماں باپ کے ساته بدسلوکی نہ اختيار کرو۔
مولف کہتے ہيں: اگر آیاتِ مبارکہ کی جزئيات کو ہم بيان کریں تو وہ ہمارے ہدف سے دور
اور اس مختصر کتاب کے حدود سے خارج ہے کيوں کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ مر بوطہ آیات ميں
سے بعض اور وہ تمام جہات جو معاشرے کی دین و دنيا کی صلاح کے متکفل ہيں اشارہ کریں
اب ان بعض محرمات کو جو ان آیات ميں ذکر ہوئے اجمالی طور پر آپ قارئين کرام کی خدمت ميں
پيش کر رہے ہيں۔
شرک کا تمام محرمات پر مقدم ہونا اس کے عظيم فساد کی بنا پر ہے کہ خداوند متعال
نے اپنے اس قوم ميں اسے ظلم عظيم سے متعارف کرایا: إِنَّ اللهَ لاَیَغفِْرُ اٴَن یُشرَْکَ بِہِ وَیَغفِْرُ مَا
دُونَ ذَلِکَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ شوریٰ، آیت ١٣ ۔ (
) لِمَن یَشَاءُ > ( ١
الله اس بات کو معاف نہيں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے اور اس کے علاوہ
جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔ آخری جملہ انسان کے وجود ميں خوف و اميد کی روح پيدا کرتا
ہے۔
اپنے والدین کے ساته اچها برتاؤ کرو احسان و نيکی سے پيش آؤ کہيں ایسا نہ ہو کہ
عاقِ والدین کا شکار ہوجاؤ جو شرک کے بعد عظيم ترین گناہوں ميں سے ہے۔
قرآن مجيد کی متعدد آیات ميںوالدین کے ساته احسان کرنا توحيد کے ساته اور شرک
کی نفی کے ہمراہ قرار دیا گيا ہے جيسے الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَقَضَی رَبُّکَ اٴَلاَّ تَعبُْدُوا إِلاَّ إِیَّاہُ
) وَبِالوَْالِدَینِْ إِحسَْانًا > ( ٢
اور آپ کے پروردگار کا فيصلہ ہے کہ تم سب اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور
ماں باپ کے ساته اچها برتاؤ کرنا۔
اور الله تعالیٰ کا یہ قول : <وَإِذ قَالَ لُقمَْانُ لِابنِْہِ وَہُوَ یَعِظُہُ یَابُنَیَّ لاَتُشرِْک بِاللهِ إِنَّ الشِّرکَْ
) لَظُلمٌْ عَظِيمٌ # وَوَصَّينَْا الإِْنسَانَ بِوَالِدَیہِْ حَمَلَتہُْ > ( ٣
اور اس وقت کو یاد کرو جب لقمان نے اپنے فرزند کو نصيحت کرتے ہوئے کہا کہ بيڻا
خبردار! کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اور ہم نے انسان کو ماں باپ
کے بارے ميں نصيحت کی ہے کہ اس کی ماں نے دکه پر دکه سہہ کر اسے پيٹ ميں رکها ہے۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلا تَقتُْلُوا اٴَولْاَدَکُم مِن إِملْاَقٍ نَحنُْ نَرزُْقُکُم وَإِیَّاہُم > ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۴٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ٢٣ ۔ (
٣(۔ سورئہ لقمان، آیت ١۴ ۔ (
۴(۔ سورئہ انعام، آیت ١۵١ ۔ (
خدائے عزوجل فرماتا ہے: اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہيں بهی
رزق دے رہے ہيں اور انہيں بهی۔
قحط و خشک سالی زمانہٴ جاہليت ميں بہت زیادہ درپيش ہوتی تهی اس زمانے کے
عرب لوگ اس خوف سے کہ ان کی اولاد ذلت و ناداری کا شکار نہ ہو اپنی اولاد کو قتل کردیتے
تهے۔ رؤف و مہربان خداوند متعال منع فرماتا ہے کہ روزی کی وجہ سے اپنی نسل کو قتل نہ کرو
کيوں کہ جو خدا تمہيں رزق فراہم کر رہا ہے وہی تمہاری اولاد کا رزق بهی عطا کرنے والا ہے۔
اس قسم کے افکار خام خيالی کی فکریں تمام زمانے ميں ہرا نسانی معاشرے ميں
جاری و ساری رہے تو بهی یہ نہیِ الٰہی ان لوگوں کے شامل حال ہوگی۔ اس بات سے قطع نظر
کہ اس کے مفاسد جو رونما ہوں گے برخلاف پيغمبر اسلام (ص) کے اس قول کے جو آپ شادی
کے متعلق فرماتے ہيں :
۴٧٠ ۔ “تَناکحُوا تناسَلُوا تَکثْرُوا فاٴنّی اباهي بکُمْ الْاُمَمَ یَوم القِيٰمةِ وَلَو بالسّقْطِ” ( ١) یعنی
شادی کرو توليد نسل کرو تاکہ تمہاری تعداد ميں مزید اضافہ ہو کہ ميں قيامت کے دن سقط
شدہ جنين کے ذریعہ تمام امت والوں پر فخر و مباہات کروں گا۔ یعنی تمام پيغمبروں کی امت
کی تعداد ایک طرف اور پيغمبر اکرم (ص) کی امت مرحومہ ایک طرف، یہ ایک سقطِ جنين کے
اضافہ کی بنياد پر پيش قدم ہوگی۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلاتَقرَْبُوا الفَْوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنہَْا وَمَا بَطَنَ > ( ٢
اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہر ہوںيا چهپی ہوئی۔
فواحش فاحشہ کی جمع ہے جو گناہان کبيرہ زنا کو شامل کيے ہوئے ہے اور قرآن مجيد
ميں زنا، لواط اور قذف محصنات کو فواحش ميں شمار کيا گيا ہے یعنی پاک دامن عورتوں کی
طرف زنا کی نسبت دینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار،ج ۴۴ ، ص ١٧٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ١۵١ ۔ (
۴٧١ ۔ “فی الکافی والعياشی عن السجاد عليہ السلام :“ ما ظَهَرَ نکاحُ اِمرْاٴَةِ الاٴبَ وَ اٰ م
) بَطَنَ اَلز اْٰن ” ( ١
کافی اور عياشی ميں امام سجاد سے منقول ہے: ما ظہر سے مراد باپ کا نکاح کرنا ہے
وما بطن سے زنا مراد ہے۔
۴٧٢ ۔ امام محمد باقر - سے منقول ہے: “وفی عن الباقر عليہ السلام “ما ظَهَرَ هو الزِّنا
) وَ اٰ م بَطَنَ المُْخالَةُ ” ( ٢
یعنی ما ظہر سے مراد زنا ہے اور ما بطن سے مراد مخالہ ہے۔
یا ما ظہر سے مراد زنائے آشکار ہے اور (ما بطن) سے مراد “ اتّخاذُ الْاٴخذانِ وَالْاٴخِلَّاءِ
سِرّاً ” ( ٣) دوست بازی اور دوسرے اجنبی افراد کے ساته ایک دوسرے کو مصاحب اخذ کرنا ہے۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلاتَقتُْلُوا النَّفسَْ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالحَْقِّ > ( ۴
خدائے تباک و تعالیٰ نے نفس محترمہ کا قتل حرام قرار دیا ہے مگر یہ کہ تمہارا کوئی
حق ہو جيسے قصاص اور مرتد کا قتل تکراری زنائے محصنہ کے سنگسار کے موقع پر، قتل کا
ذکر اگرچہ فواحش ميں داخل تها کيوں کہ نفس محترمہ کی تعظيم و تجليل شامل تهی اسی
طرح اولاد کے قتل ميں فقر و ناداری کی بنا پر کہ زمانہٴ جاہليت کے عرب اس بری سنت کو اجرا
کرتے تهے اس خيال خام سے کہ فقر و فاقہ اس بات کا موجب ہے کہ اولاد کا قتل مباح قرار پائے
تاکہ اپنی عزت و آبرو محفوظ رکهيں۔ صرف جو قتل کرنا استثناء ہوا ہے وہ بعنوانِ قصاص یا شرعی
حدود ميں ہے کہ جن کے موارد اپنی جگہ ذکر ہوئے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ۵، ص ۵۶٧ ۔تہذیب الاحکام، ج ٧، ص ۴٧٢ ۔ (
٢(۔ نور الثقلين، ج ١، ص ٧٧٧ ۔ مجمع البيان، ج ۴، ص ۵٩٠ ۔ (
٣(۔ تفسير الميزان، ج ٧، ص ٢٠٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ انعام، آیت ١۵١ ۔ (
آیت ميں جن چيزوں کی حرمت تاکيداً ذکر ہوئی ہے وہ آپ کے ليے الٰہی نصيحتيں ہيں
تاکہ شایدآپ غور و فکر کریں۔
کيوں کہ جب برائياں پهيل جائيں گی تو اس کی قباحت کی شناخت بهی ختم ہوجائے
گی اور عادی چيزوں کا جز بن جائيں گی پهر ایسی صورت ميں وہ نسل کے خاتمہ کا باعث اور
خاندان کے درہم برہم ہونے کا موجب ہوجائيں گی۔
اسی طرح نفس محترمہ کا قتل اور برائيوں کی عام آزادی عمومی امن و امان کو مُختل
بنادے گی نتيجے ميں انسانی معاشرے کی بنياد منہدم اور اس کے ارکان متزلزل ہوجائيں گے۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلاتَقرَْبُوا مَالَ اليَْتِيمِ إِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ حَتَّی یَبلُْغَ اٴَشُدَّہُ> ( ١
اور خبر دار! مال یتيم کے قریب بهی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو یہاں
تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہنچ جائيں۔
آیہٴ کریمہ ميں محرمات الٰہيہ کے اصول ميں سے دوسرا حصہ بعنوان نصيحت ذکر ہوا ہے
اور وہ مالِ یتيم کے قریب جانا اور اس ميں تصرف کرنے کی حرمت ہے جو خود سے اور اپنے مال
سے دفاع کی طاقت نہيں رکهتا۔
یہ تصرف کی حرمت عموميت رکهتی ہے خواہ یہ کہ کهائے یا اپنے ذاتی منافع ميں
معاملات وغيرہ سے اسے استعمال کرے بالآخر کسی بهی قسم کا تصرف جائز نہيں ہے مگر
بہتر طریقہ سے کہ جسے شارع مقدس نے معين فرمایا اور یہ حکم مسلسل ہے یہاں تک کہ
وہ بلوغ اور رشد کی منزل تک پہنچ جائيں۔ “ اشدّہ” سے مراد وہی بلوغ اور رشد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام ، آیت ١۵٢ ۔ (
۴٧٣ ۔ “و فی الفقيہ والتہذیب عن الصادق عليہما السلام “اِنْقِطاعُ یُتمْ الْيَتيم
اَلاِحتِْلامُ وَهُوَ اَشُدَّہُ وَاِن اِحتَْلَمَ وَلَم یُونسَ مِنہُْ رُشدَْہُ وَکانَ سَفيهاً اٴوَ ضَعيفاً فَليُْمسک عَنہُْ وَلِيُّہُ
) مٰالَہ ” ( ١
من لا یحضرہ الفقيہ اور تہذیب ميں امام جعفر صادق - سے مروی ہے کہ یتيم کی
یتيمی کا سلسلہ منقطع ہونا وہی احتلام ہے اور وہ حالت رشد کا آغاز ہے اور اگر محتلم ہو اور
رشد کی علامتيں اس سے معلوم نہ ہوں یا احمق یا ضعيف ہو تو ولی کو چاہيے کہ اس کے مال
کی حفاظت کرے۔
۴٧۴ ۔ “ وفيها وفی الکافی عنہ عليہما السلام: “اِ اٰ ذ بَلَغَ اَشُّدُّہ ثَ لاٰثُ عَشَرَ سَنَةٍ وَدَخَلَ فی
الاَربَْعَ عَشَر وَجبَ عَلَيہِْ اٰ م وَجَبَ عَلَ یٰ المُْحّتَلِمِينَ اِحَتَلَمَ اَو لَم یَحتَلِم وَکُتِبَت عَلَيہِْ السَّي اٰئتِ وَکُتِبَت ) لَہُ الحَْسَ اٰنتِ وَ جٰازَ لہُ کُلُّ شیِ اِلاَّ اَن یَکونَ ضَعيفاً اَو سَفيهاً ” ( ٢
کافی ميں امام جعفر صادق - سے مروی ہے کہ جب کبهی (یتيم) مکمل تيرہ سال کا
ہوجاتا ہے اور چودہویں سال ميں داخل ہوتا ہے تو اس کے اوپر وہ چيزیں واجب ہوجاتی ہيں جو
احتلام ہونے والوں پر واجب ہوتی ہيں خواہ وہ محتلم ہو یا نہ ہو (اور اس کے نامہٴ اعمال ميں) جو
بهی ناشائستہ امور انجام دیا ہو تحریر کيا جاتا ہے اسی طرح نيک اعمال اور جو چيز اس کے
ليے جائز ہوتی ہے (مختلف تصرفات) وہ بهی تحریر کيا جاتا ہے مگر یہ کہ وہ ضعيف یا احمق ہو۔
خداوند متعال فرماتا ہے: < وَابتَْلُوا اليَْتَامَی حَتَّی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَإِن آنَستُْم مِنہُْم رُشدًْا
) فَادفَْعُوا إِلَيہِْم اٴَموَْالَہُم وَلا تَاٴکُْلُوہَا إِسرَْافًا وَبِدَارًا اٴَن یَکبَْرُوا > ( ٣
اور یتيموں کا امتحان لو اور جب وہ نکاح کے قابل ہوجائيں تو اگر ان ميں رشيد ہوجانے کا
احساس
کرو تو ان کے اموال ان کے حوالے کردو اور زیادتی کے ساته یا اس خوف سے کہ کہيں وہ بڑے
نہ ہوجائيں جلدی جلدی نہ کها جاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ من لا یحضرہ الفقيہ، ج ۴، ص ٢٢٠ ۔ تہذیب الاحکام، ج ٩، ص ١٨٣ ۔ (
٢(۔ تہذیب الاحکام، ج ٩، ص ١٨۴ ۔ کافی، ج ٧، ص ۶٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ۶۔ (
۴٧۵ ۔ “ وفی القمی عن الباقر عليہ السلام “قالَ مَنْ کانَ فی یدہِ مالُ اليتامیٰ فَلا یَجوز اٴنْ
یُعْطِيَہُ حتّی یبلغ النکاحَ فاذا احتَلَم وَجَب عَلَيہ الحدود واقامَة الفرائض ، وَلا یَکونُ مُضيّعاً ولا شاربُ
خمرٍ ولا زانياً فاٴذا انسَ مِنْہُ الرّشدَ دَفَعَ اليہ المالَ واشَهد عَلَيہ وَانْ کانوا لایعلمون انّہُ قَدْ بَلَغ فَانہ
یمتحن بِریح ابطہ اَوْ نَبِتً عانتہ فاذا کانَ ذٰلک فَقَدْ بَلَغَ فيدفعُ اليہ ما لہ اذا کان رشيداً ولا یجوّز انْ
) یحبس عَلَيہ مالَہ وَیعلّل انّہُ لَمْ یکبر ”( ١
وقولہ : <وَلا تاکلوها اسرافاً وبداراً > قالَ: فانَّ من کانَ فی یدَہ مالُ یتيم وهوُ غَنْیٌ فلا یحلّ
لَہُ اَن یاٴکُلَ مِن مالِ اليتيم وَمَن کانَ فقيراً قد حَبَسَ نَفسْہُ عَل یٰ مالہِ فلہ ان یاکُلَ بالمعرُوف
تفسير قمی ميں امام محمد باقر - سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت - نے فرمایا:
جس شخص کے ہاته ميں یتيم کا مال ہو خود اسے اس وقت تک دینا جائز نہيں ہے جب تک وہ
بالغ نہ ہو جب وہ محتلم ہو تو اس پر الٰہی حدود اور نما ز اور دوسرے فرائض عائد ہوتے ہيں،
ساته ہی ساته مال ضائع نہ کرے، شراب نہ پيے، زنا کار نہ ہو، جب ان ميں عقل و رشد ہونے کا
احساس کرو تو ان کے اموال ان کے سپرد کردو اور اس امر پر گواہ بناؤ اور اگر معلوم نہ ہوسکے
کہ بالغ ہوا یا نہيں تو اس کا امتحان اس کی بغل کی نيچے مخصوص بو کو احساس کرنے سے
کرو یا زیر ناف سخت بال اگنے سے کرو، جب بهی ان ميں سے کوئی ایک علامت محقق
ہوجائے کہ وہ حد بلوغ تک پہنچ گيا ہے اس کا مال اسے واپس دے دو اگر وہ عاقل و رشيد ہو۔
پهر
اس صورت ميں جائز نہيں ہے کہ مالِ یتيم کو اپنے پاس محفوظ رکهو اس بہانے سے کہ ابهی وہ
کبير السن نہيں ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ١٣١ ۔ (
بعد والی دوسری آیت “ولا تا کلوها” ميں یعنی: جس شخص کے ہاته ميں یتيم کا مال ہو
اور وہ خود غنی اور محتاج نہيں ہے تو ا س کے ليے مالِ یتيم کهانا اس سے استفادہ کرنا جائز
نہيں ہے اور اگر فقير ہے اور اپنے نفس کو اس کے مال سے محفوظ کيے ہو تو اسے یہ حق
حاصل ہے کہ بمقدار ضرورت کهالے۔
قولہ تعالیٰ : <و اوْفوا الکيل و الميزان بالقسط لا نکلّفُ نَفْساً الّا وُسْعَها>۔
”الميزان بالقسط” یعنی پيمانہ کی ناپ تول ميں عدل و مساوات کے ترازو کو مدّنظر قرار
دو بغير کسی کمی و زیادتی کے ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکليف نہيں دیتے ہيں۔
گویا یہ بات دفع دخل کے طور پر ہے یعنی وزن وغيرہ کرنے ميں انسان کے ليے حقيقی
اور واقعی عدالت انجام دینا ممکن نہيں ہے ناچار ہو کر تقریبی وزن وغيرہ اپنے امور ميں انجام
دیتا ہے۔
جواب ميں کہا گيا ہے: ہم کسی بهی نفسِ انسانی کو اس کی طاقت و قدرت سے
) زیادہ تکليف نہيں دیتے ( ١
الله تعالی کا یہ قول: <وَإِذَا قُلتُْم فَاعدِْلُوا وَلَو کَانَ ذَا قُربَْی وَبِعَہدِْ اللهِ اٴَوفُْوا ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ
) لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ > ( ٢
یعنی جب بات کرو تو انصاف کے ساته چاہے اپنے اقربا ہی کے خلاف کيوں نہ ہو اور عہد
خدا کو پورا کرو کہ اس کی پروردگار نے تمہيں وصيت کی ہے کہ شاید تم عبرت حاصل کرسکو۔
کہيں ایسا نہ ہو کہ قرابت و رشتہ داری کا لحاظ و مروت مدّنظر رکهو اور دوسرے کو جانی
اور مالی نقصان پہنچا دو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الميزان، ج ٧، ص ٣٩٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ١۵٢ ۔ (
وفی المجمع : “ وَهذا مِنَ الا وامر البَليغة التی تدخُلْ فيها مَعَ قلة حروفها الاقاریر
والشّهادات والوصایا والفتاوی والقضایا والاحکامُ والمذاهب والامر بالمعروف والنْهی عَنِ المنْکَر”
)١)
مجمع البيان ميں ہے کہ : یہ اوامر بليغہ ميں سے ہے اگرچہ اس کے حروف کم ہيں ليکن
اس کے مطالب و مضامين عالی ہيں جو تمام اقرار، شہادت، وصيت ، قتاویٰ، ابواب قضاوت اور امر
بالمعروف و نہی عن المنکر کے احکام پر مشتمل ہے کہ یہ سب کے سب مقولہٴ قول واقع ہوتے
ہيں لہٰذا عدالت کا لحاظ کيا جانا چاہيے اور الله تعالیٰ کا قول بهی ہے <و بعهد اللّٰہ اوفوا> عہد
الٰہی کو وفا کرو۔
قال الراغب: قال الراغب :“العہد” حفظ الشی ومراعاتہ حالاً بعد حالٍ : ( ٢) راغب کہتے
ہيں :
کسی شے کے عہد کو اس کی ہر حالت ميں حفاظت و رعایت کرنا ہے اس بنا پر تمام
احکام الٰہی اور تکاليف دینيہ کو شامل ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <اٴَوفُْوا بِالعَْہدِْ إِنَّ العَْہدَْ کَانَ مَسئُْولًا > ( ٣
اور اپنے عہدوں کو پورا کرنا کہ عہد کے بارے ميں سوال کيا جائے گا۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ > ( ۴) سب مذکور ہے اور تمہيں
نصيحت کرتا ہے شاید تم نصيحت حاصل کرو۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: وَاٴَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُستَْقِيمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلاتَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ۴، ص ١٩۴ ۔ (
٢(۔ مفردات راغب اصفہانی، ص ٣۵٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ اسراء، آیت ٣۴ ۔ (
۴(۔ سورئہ انعام ، آیت ١۵٢ ۔ (
) عَن سَبِيلِہِ > ( ١
اور یہ ہمارا سيدها راستہ ہے اس کا اتباع کرو اور دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جاؤ کہ
راہِ خدا سے الگ ہوجاؤ گے۔
آیہٴ کریمہ ميں شاید ان تمام چيزوں کی طرف اشارہ کيا گيا ہے جو اس سورئہ مبارکہ
ميں مذکور ہے وہ اثباتِ توحيد و نبوت اور شریعتوں کا بيان ہے۔ اور صراط مستقيم سے مراد: “و
ان هذا صراطی” کے ظاہر سياق سے صراط پيغمبر اکرم (ص) ہوں اس اعتبار سے کہ متکلم اور
ان سے مخاطب خود آنحضرت ہيں ورنہ صراط اس عظيم ہستی کے علاوہ تمام بندگان الٰہی کو
الله تعالیٰ نے انعام و اکرام سے نوازا انبياء، صدیقين، شہداء اور صالحين روزانہ کی نمازوں ميں
پڑهتے ہيں: ( ٢) < اہدِْنَا الصِّرَاطَ المُْستَْقِيمَ # صِرَاطَ الَّذِینَ اٴَنعَْمتَْ عَلَيہِْمْ
ہميں سيدهے راستے کی ہدایت فرماتا رہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے
نعمتيں نازل کی ہيں۔
۴٧۶ ۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں بهی ہم پڑهتے ہيں: “انْتُمُ الصِراطِ الاقومِ والسبيل الاعظم“
آپ ہی صراط مستقيم اور سبيل اعظم ہيں۔
۴٧٧ ۔ “وفی الاحتجاج عنہ - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ -: ومعاشر النّاسِ انَّ اللّٰہ قد امَرَنی
وَنهائی وقد امرْت عَلياً وَنهيْتہُ فَعلِمَ الامرْ والنّهی منْ ربْہ فاسمعوا لامرہ تسلموا واطيعُوہُ تَهتدوا
ونتهوا لنهيہ ترشدوا وَصيرُوا الی مرادِہِ لا تَتَفَرَّقَ بکم السّبلَ عَن سبيلہ ، معاشر النّاس اٴنا الصّراط
المستقيم الذّی امَرکُمْ باتباعِہِ ثمَ عَلیٌ مِنْ بَعدی ثمّ ولدْی مِنْ صُلْبِہِ ائمة یهدون بالحق وبِہِ
) یعْدلُون ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ١۵٣ ۔ (
٢(۔ تفسير الميزان، ج ٧، ص ۴٠١ ۔ (
٣(۔ احتجاج، ج ١، ص ٧٨ ۔ (
احتجاج ميں رسول اکرم (ص) سے منقول ہے: ایها الناس! یقينا الله تعالیٰ نے مجهے امر
و نہی فرمائی اور ميں نے علی کو امر و نہی کی پس انہوں نے اپنے رب کی طرف سے امر و
نہی کو جانا۔ لہٰذا اس کے حکم پر عمل کرو تاکہ صحيح و سالم رہو اور اس کی اطاعت کرو تاکہ
ہدایت یافتہ ہوجاؤ اور ان کی نہی کو بهی قبول کرو تاکہ تم رشد و ہدایت پاؤ اور علی - کے
مقصود و مطلوب تک پہنچ سکو اور تمہيں مختلف راستے راہ خدا (راہ علی) سے متفرق نہ
کرسکيں۔
اے لوگو! ميں وہ صراط مستقيم ہوں کہ جس کی فرماں برداری کا تمہيں حکم دیا گيا ہے
پهر ميرے بعد علی پهر اس کی صلب سے ميرے وہ فرزند جو امام ہوں گے وہ حق کی طرف
ہدایت کریں گے اور اس کے ذریعے عدالت قائم کریں گے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ الله تعالیٰ نے اس آیت ميں جو کچه گزشتہ آیات ميں ذکر فرمایا اس
کے کليات دین کو صراط مستقيم نام رکها کہ ہرگز اس کے راہرو افراد کی ہدایت ميں کوئی
اختلاف نہيں ہے وہ لوگ جب تک اس راہ ميں ہيں بغير اس کے کہ اس کے اجزاء اور راہرو افراد
ميں اختلاف ہو مقصد تک پہنچائے گا۔
پهر الله تعالیٰ نہی فرماتا ہے دوسری تمام راہوں پر چلنے سے کيوں کہ دوسری مختلف
راہوں کی حالتيں یہ ہيں کہ ان ميں تفرقہ و اختلاف پایا جاتا ہے اس جہت سے کہ وہ ہوائے نفس
اور شيطانی راستے ہيں جو کبهی بهی صحيح ضابطہ نہيں رکهتے اس کے برخلاف الٰہی راستہ
) جو فطرت اور ایسی خلقت پر ہے کہ <لاتَبدِْیلَ لِخَلقِْ اللهِ ذَلِکَ الدِّینُ القَْيِّمُ > ( ١
خلقت الٰہی ميں کوئی تبدیلی نہيں ہوسکتی ہے یقينا یہی سيدها اور مستحکم دین
ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: ذلکم وصّيٰکم بہ لعلکم تتقون <
آیت کے اس حصہ ميں الله تعالیٰ تاکيداً حکم فرما رہا ہے کہ تقویٰ اختيار کرو اور اس بات
سے پرہيز
کرو کہ راہِ حق سے جدا ہوکر گمراہ ہوجاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ روم، آیت ٣٠ ۔ (
قرآن مجيد کی آیات ميں سے دو مورد (سورئہ نحل کی آیت نمبر ٩٠ ) اور سورئہ مبارکہ
١) جو احکام شرایع اور قوانينِ اسلامی کے اہم حصوں پر مشتمل ) ١۵٣ ،١۵٢ ، انعام کی ١۵١
ہيں اور ان ميں اخلاقيات و اجتماعيات وغيرہ کے مختلف پہلوؤں سے بحث ہوتی ہے تبرکاً اسے
نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہيں اور قصاص، حدود، دیات اور تعزیرات اسلامی کے متعلق جو آیات نازل
ہوئی ہيں قارئين ان کے اقتصادی اور سياسی پہلو کو اپنے مقام پر رجوع کریں ہم صرف یہاں چند
مورد کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہيں تاکہ ہم اس کتاب کے احاطہ سے خارج نہ ہوں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَيکُْم القِْصَاصُ فِی القَْتلَْی الحُْرُّ بِالحُْرِّ وَالعَْبدُْ
بِالعَْبدِْ وَالاْٴُنثَی بِالاْٴُنثَی فَمَن عُفِیَ لَہُ مِن اٴَخِيہِ شَیءٌْ فَاتِّبَاعٌ بِالمَْعرُْوفِ وَاٴَدَاءٌ إِلَيہِْ بِإِحسَْانٍ ذَلِکَ
تَخفِْيفٌ مِن رَبِّکُم وَرَحمَْةٌ فَمَن اعتَْدَی بَعدَْ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ اٴَلِيمٌ # وَلَکُم فِی القِْصَاصِ حَيَاةٌ یَااٴُولِْی
) الاْٴَلبَْابِ لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ > ( ٢
و قال اللّٰہ تعالیٰ : <وَکَتَبنَْا عَلَيہِْم فِيہَا اٴَنَّ النَّفسَْ بِالنَّفسِْ وَالعَْينَْ بِالعَْينِْ وَالاْٴَنفَ بِالاْٴَنفِ
) وَالاْٴُذُنَ بِالاْٴُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالجُْرُوحَ قِصَاصٌ> ( ٣
و قال اللّٰہ تعالیٰ : <مِن اٴَجلِْ ذَلِکَ کَتَبنَْا عَلَی بَنِی إِسرَْائِيلَ اٴَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفسًْا بِغَيرِْ نَفسٍْ
) اٴَو فَسَادٍ فِی الاْٴَرضِْ فَکَاٴَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا > ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مذکورہ آیات قرآن کے محکمات ميں سے ہيں اور ستّر ہزار فرشتوں کا نازل ہونا اور مشایعت (
کرنا ہميشہ پا برجا ہے اور کبهی بهی منسوخ نہيں ہوئی ہے نہ ہوگی۔
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٧٨ ۔ ١٧٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۴۵ ۔ (
۴(۔ سورئہ مائدہ، آیت ٣٢ ۔ (
ایمان والو! تمہارے اوپر مقتولين کے بارے ميں قصاص لکه دیا گيا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور
غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ۔ اب اگر اس مقتول کے وارث کی طرف سے
معافی مل جائے تو نيکی کا اتباع کرے اور احسان کے ساته اس کے حق کو ادا کرے۔ یہ پروردگار
کی طرف سے تمہارے حق ميں تخفيف اور رحمت ہے ليکن اب جو شخص زیادتی کرے گا اس
کے ليے دردناک عذاب بهی ہے۔ صاحبانِ عقل تمہارے ليے قصاص ميں زندگی ہے کہ شاید تم
اس طرح متقی بن جاؤ۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم نے توریت ميں یہ بهی لکه دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور
آنکه کا بدلہ آنکه اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا
بهی بدلہ ليا جائے گا۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اسی بنا پر ہم نے بنی اسرائيل پر لکه دیا کہ جو شخص کسی
نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمين ميں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کر ڈالے گا اس
نے گویا سارے انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دے دی اس نے گویا
سارے انسانوں کو زندگی دے دی۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: <کتب عليکم القصاص في القتلیٰ> قانون قصاص کی تاسيس اس
کی کيفيت اور اس کے بعض مصادیق کے بيان کی طرف اشارہ ہے۔ خداوند تبارک و تعالیٰ اپنی
رحمتِ واسعہ کے ذریعہ صاحب حق (خون کے وارث کی بہ نسبت معاف کرنے کا اختيار قرار دیا
ہے اور ہيجان انگيز لحن کے ساته (خون کے وارث) کو <فمن عفی من اخيہ> بهائی سے تعبير
فرمایا تاکہ مہربانی و محبت کا احساس اس ميں پيدا ہو اور معاف کرنے کو وہ انتقام پر ترجيح
دے اور قصاص کو دیہ ميں تبدیل کرے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول: < و لکم فی القصاص حيٰوة> ان تمام اختصار اور حروف کی کمی
کے باوجود الفاظ کی سلاست معنی کی وسعت و بلاغت دوسری آیات سے زیادہ ہے لہٰذا
علمائے علم فصاحت و بلاغت کو تعجب انگيز کردیا ہے اور اس قصاص کا دیہ ميں بدلنا وہی
پروردگار کی جانب سے تخفيف و رحمت ہے لہٰذا خون کا وارث معاف کرنے کے بعد قصاص کا
تقاضا نہيں کرسکتا کيوں کہ اس صورت ميں حد سے تجاوز کرنے والا جانا جائے گا اور درد ناک
عذاب ميں گرفتار ہوگا اور سورئہ مبارکہ مائدہ کی آیت نمبر ۴۵ قصاص کے بعض دوسرے مصادیق
کو مزید بيان کر رہی ہے اور وہ یہ کہ اعضاء کے قصاص کے علاوہ زخموں ميں بهی بدلہ اور
قصاص ہے۔
جن مقامات ميں قصاص لينا ممکن ہو جس طرح اور کيفيت ميں جراحت ہو مدّمقابل سے
قصاص ليا جائے گا اور اگر ممکن نہ ہو یعنی قابلِ قصاص نہ ہو تو ارش (تفاوت قيمت) اخذ کریں
گے جيسا کہ یہ بات فقہی کتابوں ميں تفصيلی طور پر بيان کی گئی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ
اعضاءِ انسانی اور ہر ایک نفس سے اسی جيسا قصاص ليا جائے گا۔
سورئہ مائدہ کی آیت نمبر ٣٢ ميں قانون قصاص کی تشریع کے متعلق دوسری علت
کی طرف اشارہ کيا ہے الله تعالیٰ فرماتا ہے: ہم نے فرزندانِ آدم کے درد ناک داستان کی وجہ
سے مقرر کيا کہ جب کسی انسان کو قتل کا ارتکاب کيے بغير اور روئے زمين پر فساد کے بغير
قتل کرے گویا تمام انسانوں کو قتل کيا اور اگر موت سے نجات دے گویا تمام انسانوں کو نجات
عطا کی ہے۔ ليکن یہ کہ ایک انسان کا قتل کيسے تمام انسانوں کے قتل کے مساوی ہے اسی
طرح ایک انسان کونجات دینا تمام افراد کو نجات دینے کے مساوی ہے؟ مفسرین نے بہت سے
جوابات دیے ہيں جو مجمع البيان، تبيان اور کنزالعرفان ميں مذکور ہيں ليکن یہ بات کہی
جاسکتی ہے کہ قرآن مجيد ایک اجتماعی اور تربيتی حقيقت کو مدنظر رکهتا ہے۔
کيوں کہ جو شخص ایک انسان کو بغير گناہ کے کسی علت اور سبب کے بغير قتل کرے
تو درحقيقت اس کے اندر ایسی آمادگی موجود ہے کہ ہر دوسرے بے گناہ انسان کو جو اس
مقتول کے ساته انسانی اور بے گناہ ہونے کے لحاظ سے برابر ہے اپنے حملہ کا ہدف قرار دے کر
اسے بهی قتل کی منزل تک پہنچا دے وہ اگرچہ ایک قاتل ہے ليکن اس کے شکار کانوالہ
دوسرے بے گناہ انسان بهی ہوسکتے ہيں۔
جہاں ایک انسانی فرد حقيت ميں ایسی ایک انسانيت کا حامل ہے جو تمام افراد ميں
موجود ہے لہٰذا فرد واحد اور زیادہ افراد ایک ہی رتبے ميں ہيں اس معنی کا لازمہ یہ ہے کہ ایک
نفس کا قتل بنی نوع انسان کے قتل کے مقام پر ہے اسی طرح ایک نفس کا زندہ کرنا تمام
لوگوں کے زندہ کرنے کی منزلت ميں ہے۔
بنی آدم اعضاء یکدیگرند کہ در آفرینش ز یک جوہرند
چہ عضوی بد رد آور د روزگار دگر عضوها را نماند قرار
اولاد آدم ایک دوسرے کے اعضاء ہيں ، چوں کہ خلقت ميں ایک جوہر سے وجود ميں آئے
ہيں۔
جب زمانہ کسی ایک عضو ميں درد کی شکایت پيدا کرتا ہے تو دوسرے اعضاء ميں بهی
بے قراری بڑه جاتی ہے۔
۴٧٨ ۔ “وفی الفقيہ والعياشی عن الصادق عليہ السلام : “وادٍ فی جَهنّم لو قتَلَ النّاس
) جميعاً کان فيہ ولو قتَلَ نفساً واحدةً کانَ فيہ ” ( ١
من لا یحضرہ الفقيہ اور تفسير عياشی ميں منقول ہے کہ امام جعفر صادق - فرماتے
ہيں: جہنم ميں ایک وادی ہے اگر کوئی شخص تمام لوگوں کو قتل کرے وہاں لے جاتے ہيں اور
اگر ایک شخص کو قتل کرے پهر بهی وہيں لے جاتے ہيں۔
۴٧٩ ۔ “ وفی الکافی عن الباقر عليہ السلام : “یُوضَع فی موضعٍ من جَهنم اليْہ ینتهی شدّہ
عذابِ اهْلها لو قتَلَ النّاس جميعاً کانَ انّما دَخَلَ ذلک المکانِ قُلتُ فاِنْ قتَل آخر ؟ قالَ یضاعَفُ عَلَيہ
)٢) ”
کافی ميں امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ حضرت فرماتے ہيں:قاتل کو جہنم کے
ایک مقام ميں رکهيں گے کہ اہل جہنم کے عذاب کی شدّت وہاں تک پہنچے گی کہ اگر تمام
لوگوں کو قتل کرے تو گویا اسی جگہ اسے داخل کيا ہے ميں نے عرض کيا: اگر کوئی شخص
دوسرے کو قتل کرے؟ فرمایا: اسے دو گنا عذاب دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ من لایحضرہ الفقيہ، ج ۴، ص ٩۴ ۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣١٣ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٧، ص ٢٧١ ۔ (
۴٨٠ ۔ “ وفيہ ایضا فی تفسير <من احياها > قال:“ مَن حرقٍ او غرقٍ قبل فَمَنْ اخرجَها مِن
) ضلالٍ الی هدیٍ قال ذاک تاٴویلها الاعظمَ ” ( ١
اسی کتاب ميں امام محمد باقر - سے جملہ “من احياها” کی تفسير ميں دریافت کيا
گيا: اگر جلنے یا غرق ہونے سے نجات عطا کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہے کہ جس نے
گمراہی سے ہدایت کی سمت پيش قدمی کی (کيا یہ بهی احياء ہے؟) فرمایا: یہ اس کی تاویل
اعظم ہے (آیت کا باطن ہے)۔
۴٨١ ۔ “وعن الصادقين عليہ السلام مَن اخرجَها مِن ضَلالٍ الی هدی فکاٴنَّما احياهٰا وَمَنْ
) اخرجَها مِن هدیً الیٰ ضلالٍ فَقَدْ قَتَلها ” ( ٢
حضرات صادقين عليہما السلام سے منقول ہے کہ جو شخص کسی انسان کو گمراہی
سے ہدایت کی طرف لے جائے گویا اس نے اسے زندہ کيا اور جو شخص کسی انسان کو ہدایت
سے گمراہی کی طرف لے جائے تو یقينا اس کا قتل کيا ہے۔
) ۴٨٢ ۔ “وعنہ عليہ السلام : “تاویلها الاعظم ان دعاها فاستجابت لہ ” ( ٣
انہيں حضرت سے نقل ہوا ہے کہ وہ فرماتے ہيں: تاویل اعظم یعنی حدیثِ مبارک کا
باطنی معنی یہ ہے کہ جو شخص کسی فرد یا افراد قوم کو کسی راستے کی طرف دعوت دے
مثلاً خواہ یہ کہ راہِ ہدایت، نيک بختی یا راہِ شيطانی، بدبختی ہو اور وہ بهی اس کی اس دعوت
کو قبول کرے تو اگر راہِ مستقيم اور سعات ہو تو اسے زندہ کيا اور اگر راہِ ضلالت و رسوائی ہو تو
٣۴ جو ، گویا اسے قتل کيا ہے۔ قرآن مجيد سے سورئہ مبارکہ مائدہ کی دو آیات کریمہ ٣٣
انسانی معاشرے کی اصلاح ان کے دین و دنيا کے لحاظ سے اور معاشرتی عدل و انصاف محقق
ہونے کے اعتبار سے بهی اقتصاد اور امن و امان اور جہانِ ہستی کے رفاہ عام کی جہت سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٧، ص ٢٧١ ۔ (
٢(۔ تفسير نور الثلقين، ج ١، ص ۶١٩ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ٢، ص ٢١١ ۔ (
ہے ہم صرف سياسی اور اقتصادی حيثيت سے بحث کرنے پر اکتفا کر رہے ہيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَہُ وَیَسعَْونَْ فِی الاْٴَرضِْ فَسَادًا اٴَن یُقَتَّلُوا اٴَو یُصَلَّبُوا اٴَو تُقَطَّعَ اٴَیدِْیہِم وَاٴَرجُْلُہُم مِن خِلاَفٍ اٴَو یُنفَواْ مِنَ الاْٴَرضِْ ذَلِکَ لَہُم خِزیٌْ فِی الدُّنيَا
وَلَہُم فِی الآْخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ # إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا مِن قَبلِْ اٴَن تَقدِْرُوا عَلَيہِْم فَاعلَْمُوا اٴَنَّ اللهَ غَفُورٌ
) رَحِيمٌ> ( ١
پس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمين ميں فساد کرنے والوں کی (جو لوگوں
کی جان و مال اور ناموس پر حملہ کرنے کی دہمکی دیتے ہيں) سزا یہی ہے کہ انہيں قتل کردیا
جائے یا سولی پر چڑها دیا جائے یا ان کے ہاته اور پير مختلف سمت سے قطع کردیے جائيں یا
انہيں ارضِ وطن سے نکال باہر کيا جائے۔ یہ ان کے ليے دنيا ميں رسوائی ہے اور ان کے ليے
آخرت ميں عذاب عظيم ہے۔
علاوہ ان لوگوں کے جو تمہارے قابو ميں آنے سے پہلے ہی توبہ کرليں تو سمجه لو کہ
خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
آیہٴ کریمہ کی شان نزول ميں عامہ و خاصہ سے روایات ائمہٴ ہدی سے صادر ہوئی
ہيںجو مستضعفين ہيں۔
۴٨٣ ۔وفی الکافی باسنادہ عن ابی صالح عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قَال: قَدِ مَ عَل یٰ
ضَبَّةَ مَرْضیٰ ، فَقٰالَ لَهُمْ رَسول اللّٰہ (ص) اقيموا رَسُولِ اللہِّٰ صَلی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ قَومٌْ مِن بَنی
عندی فاذا براٴتمُ بعثتکمْ فی سریة فقالوا اخرجنا من المدینة ، فبعث بهم الیٰ ابل الصّدقة یشربون
من ابوالها و یاٴکلُونَ منْ البانِها فلما براٴوا واشتدوا قتلوا ثلاثة مِمَّنْ کان فی الابِلِ فَلَبغَ رسُولُ اللّٰہ
صلَّی اللّٰہ عليہ آلہِ فَبعَث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ٣٣ ۔ ٣۴ ۔ (
اليهمْ عَليّاً واذا همُ فی وادٍ قدْ تحيرَّوا ليس یقدرونَ انْ یخرجوا منہ قریباً من ارض اليمن فاٴسرَهُمْ
وجآءَ بهِمْ الیٰ رَسْولِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عليہ وآلہ فنزلت الآیة <انَّما جزاء الذَّین یحاربون اللّٰہ ورسولہ
) هِم وَاَرجُْلِهِم مِن خلافٍ > ( ١ ویَسْعَوُن فی الارض فسادً اٴنْ یُقَتَّلُوا اَوْ یُصَلَّبُوا و تُقَطّعَ اَیَدی
کلينی عليہ الرحمہ اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته حضرت امام جعفر صادق - سے نقل
کرتے ہيں کہ حضرت نے فرمایا: ایک قوم بنی ضبہ سے مریض ہونے کی حالت ميں رسول اکرم
(ص) کی خدمت ميں حاضر ہوئی تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: کچه دن ميرے یہاں قيام کرو جب
تمہيں شفا مل جائے گی تو ميں تمہيں سریہ کے ليے بهيجوں گا۔ ان لوگوں نے عرض کيا: ہميں
مدینہ سے باہر لے چليں رسول اکرم (ص) نے ان کی شفا کے ليے حکم دیا کہ انہيں مدینہ
سے باہر ایسے خوش گوار آب و ہوا والے صحرائی علاقے ميں لے جائيں کہ جہاں زکوٰة والے
اونڻوں کو چرانے کے ليے لے جاتے تهے وہاں کی آب وہوا سے فائدہ اڻهانے کے ساته ساته
اونڻوں کے پيشاب اور تازہ دوده سے بهی استفادہ کریں۔ ان لوگوں نے اس حکم پر عمل کياجب
مکمل شفا یاب اور طاقت ور ہوگئے تو تين مسلمان چوپانوں (گڈریوں) کو قتل کيا، یہ خبر جب
رسول اکرم (ص) کو موصول ہوئی تو حضرت علی - کو ان کی طرف بهيجا ناگاہ انہيں دیکها کہ
وہ سرزمين یمن کے نزدیک ایک صحرا ميں حيران و سرگردان ہيں اور وہاں سے باہر جانے کی
قدرت نہيں رکهتے حضرت علی - انہيں گرفتار کرکے رسول خدا (ص) کی خدمت ميں لائے تو
یہ آیت <انَّما جزاء الذَّین یحاربون اللّٰہ ورسولہ > نازل ہوئی۔
ليکن عامہ اور خاصہ کی دوسری روایات ميں جو اس آیت کی شان نزول ميں وارد ہوئی
ہيں آنحضرت نے حکم دیا کہ ان لوگوں نے جو برتاؤ ان چوپانوں کے ساته انجام دیا تها ان کے
ساته بهی کيفر کردار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٧، ص ٢۴۵ ۔ تہذیب الاحکام، ج ١٠ ، ص ١٣۴ ۔ (
کے عنوان سے وہی سلوک کيا جائے جو انهيں نے کيا یعنی ان کی آنکهوں کو اندها ان کے
دست و پا کو قطع کيا جائے اور انہيں قتل کيا جائے تاکہ دوسرے عبرت و نصيحت حاصل کریں
نيزاس قسم کے غير انسانی اعمال کا ارتکاب نہ کریں۔ آیہٴ کریمہ نازل ہوئی اور اسلامی قانون
کی ان کے ليے یوں وضاحت کی۔
یہ داستان صرف شيعہ کتابوں ميں نہيں بلکہ جوامع اہل سنت ميں من جملہ صحاح ستہ
وغيرہ ميں اس کی خصوصيات کے اختلاف کے ساته نقل ہوئی ہے مثلاً انہوں نے مسلمانوں کے
ساته جو سلوک کيا وہ یہ کہ قتل کيا غارت گری کی یہاں تک کہ ان کی آنکهوں کو باہر نکالنا ذکر
کيا ہے اگرچہ ائمہٴ اہل بيت سے منقولہ روایات ميں ان کی آنکهوں کو باہر نکالنے کا کوئی
اشارہ نہيں کيا گيا ہے مگر اہل سنت کی روایات ميں وہ موجود ہے۔
اس سلسلے ميں وہ روایت جو حضرت امام علی رضا - سے وار د ہوئی ہے اسے آپ
کے گوش گزار کر رہے ہيں۔
۴٨۴ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن عمرو بن عثمان بن عبيد اللّٰہ المدائنی عن ابی الحسن
الرضا عليہ السلام قال: “ سئلَ عنْ قوْل اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ <انَّما جزٰاءُ الَّذَینَ یُحاربُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ
وَیَسعَْوُن فی الاَرضِ ف سٰاداً اٴن یُقَتَّلُوا اَو یُصَلَّبُوا> فَما الَّذی اِذا فَعَلہ استَوجَبَ واحدةً مِن هذہ الاربَْعَ
، فَ اٰ قلَ:اذا حٰارِبَ اللہَّٰ ورَسُولَہُ وَسَعی فی الاَرضِ فَساداً فَقَتَلَ قتِْلَ بِہِ ، وَان قَتَلَ واخَذَ ال مٰالَ قتِْلَ
وَصُلبَ وان اٴَخَذَ المالَ وَلَم تقتل قُطِعَتَ یَدُہُ وَرَجلْہُ من خلافٍ ، وَان شَهَرَ السيفَ فَ حٰارَبَ اللہَّٰ وَ
رَسُولَہُ وَسَعی فی الاَْرضِ فَ سٰاداً وَلَم تقتُل وَلَم یاٴخَذُ المال نُفِیَ مِنَ الارض قُلْتُ کَيْفَ یُنْفی مِنْ
الارضِ وَما حدْ نَفْيہ قالَ ینفی مِنَ المِصر الَّذی فَعَلَ فيہ ما فَعَلَ الی مصرٍ غَيرِہ وَیَکْتُبُ اِلیٰ اَهْلِ
ذلِکَ الْمِصْر اَنَّہُ مَنْفِیٌ فَلاٰ یُجالسُوہُ ولا تُبٰایِعُوہ وَلاٰ تَنٰاکَحُوہْ وَلٰا تُشٰارِبُوہُ فنفعل ذلکَ بہِ سَنَةً فانْ
خَرَجَ مِن لٰذکَ المْصرْ ا لٰ ی غيرہ کُتِبَ اِلَيهِْم بِمِثلِْ لٰذِک حَتّ یٰ تَتُمَ السَّنَة ، قلت فانِ توجَّہ ال یٰ ارضْ
) الشّرکِ ليدْخلها: قالَ انْ توجَہَ الیٰ ارض الشّرک ليدخلها فقوتل اهلُها ” ( ١
کلينی عليہ الرحمہ نے کافی ميں اپنے اسناد کے ساته عمرو ابن عثمان ابن عبيد الله
المدائنی سے انہوں نے ابو الحسن علی رضا - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - سے آیہٴ کریمہ
<انَّما جزٰاءُ الَّذَینَ یُحاربُونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ> کے متعلق دریافت کيا گيا کہ وہ کون سا عمل ہے یا کون
شخص ہے کہ اگر اسے انجام دے تو ان چار حکم کا مستحق قرار پاتا ہے؟ فرمایا: اگر خدا اور اس
کے رسول کے ساته جنگ کے ليے قيام کرے اور روئے زمين پر فتنہ و فساد برپا کرے اور بے گناہ
انسان کو قتل کرے اس وجہ سے اسے قتل کریں گے۔ اگر کسی انسان کو بهی قتل کرے اور
مال کی چوری بهی تو اسے قتل بهی کریں گے اور صليب دی جائے گی، اور اگر اس کے مال کو
غارت کرے ليکن خود اسے قتل نہ کرے تو اس کے داہنے ہاته اور بائيں پير کو قطع کریں گے، اور
اگر صرف لوگوں کے سامنے اسلحہ باہر نکالے تو خدا اور اس کے رسول کے ساته جنگ کے ليے
وہ آمادہ ہوا اور اگر وہ فساد ميں مبتلا ہوا بغيراس کے کہ کوئی خون بہایا ہو یا چوری و غارت
گری کی ہو تو اسے جلاوطن کریں گے جس شہر ميں یہ عمل انجام دیا ہے اسے اس شہر
سے دوسرے شہر بدر کردیں گے اور وہاں کے باشندوں کے ليے ایک خط تحریر کریں گے کہ اس
ميں یہ تعارف کرایا گيا ہو کہ اس شخص کو اپنے شہر سے جلاوطن کيا گيا ہے، کہيں ایسا نہ ہو
کہ کوئی شخص اس کا ہم نشين ہو لوگ اس کے ساته معاملہ اور خرید و فروش انجام دیں اور
اگر نکاح کی درخواست کرے تو اسے اپنی بيڻی نہ دیں۔ اس کے ساته ایک دستر خوان پر بيڻه
کر کهانا نہ کهائيں (خلاصہ یہ کہ کسی فعل ميں اس کے ساته تعاون نہ کریں) یہ عمل ایک
سال تک جاری رکهيں اور اس حکم کو نافذ کریں گے، اگر اس شہر سے باہر گيا اور دوسرے
شہر ميں منتقل ہوا تو اس شہر کے باشندوں کو بهی نامہ تحریر کرکے اس کی شناخت کرائيں
یہ عمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٧، ص ٢۴٧ ۔ تہذیب الاحکام، ج ١٠ ، ص ١٣٣ ۔ (
وہاں بهی ایک سال تک مسلسل انجام دیں۔ ميں نے عرض کيا: اگر وہ مشرکين کی سرزمين
کی طرف چلا جائے تو؟ فرمایا: اگر اہل مشرک کی سرزمين پر جائے تو وہاں جائيں گے اور اس
شہر والوں سے جنگ کریں گے۔
ان مطالب کی تفصيلات تفاسير اور فقہ کی کتابوں نيز ائمہٴ اہل بيت سے وارد شدہ
روایت ميں مستفيض کی حد تک ہے۔ اور فریقين (شيعہ و سنی دونوں) سے نقل ہوئی ہيں
قارئين کرام مذکورہ منابع کی طرف رجوع کریں۔ اور قابل ذکر یہ ہے کہ یہ شدّت عمل فوق العادت
اسلام نے محاربين کے بارے ميں اختيار کيا ہے وہ بے گناہوں کے خون کی حفاطت کے ليے ہے
اور لا اُبالی اور طاقت ور افراد کے حملوں اور تجاوز کرنے سے روک تهام کے ليے ہے اسی طرح
بے گناہ انسان کی جان و مال اور لوگوں کی ناموس پر حملہ کرنے والے انسانوں کا قتل عام
کرنے والوں سے بهی ۔اور یہ سزا اور رسوائی صرف دنيا ميں ہے آخرت ميں بهی عذاب عظيم
) ميں گرفتار ہوں گے۔ ( ١
ليکن الله تبارک و تعالیٰ کی لامتناہی رافت و رحمت واجب قرار دیتی ہے کہ تمام بندوں
کی توبہ و بازگشت کی راہ، یہاں تک کہ ان خطرناک جرائم ميں مبتلا ہونے والوں کے ليے بند نہ
ہو اور اگر اصلاح کے راستے پر آجائيں تو تلافی اور تجدید نظر کی راہ ان لوگوں کے ليے کهلی
ہے، مگر جو افراد ان تک دست رسی سے پہلے توبہ کریں تو خداوند متعال کی بخشش ان کے
شامل حال ہوگی اور یہ جان ليں کہ الله تعالیٰ بخشنے والا اورمہربان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير نمونہ سے اقتباس، ج ۴، ص ٣۶١ ۔ (
|