٢٣ ۔ جنت کا حکم اور جہنم سے منع کرنا
٢٣ ۔ القُرآنُ زاجِرٌ وَامِرٌ یَاٴ مُرُ الجنَّةِ وَیَزجُرُ عَنِ النّارِ ۔
قرآن منع کرنے والا ہے اور حکم کرنے والا ہے۔
وَکَذلِکَ الحجَّة القائِم عليہ السلام یاٴمُرُ بِالجَنَّةِ وَیَزجُرُ عَنِ النّارِ؛ امام زمانہ - بهی جنت کا
حکم کرنے والے اور جہنم سے روکنے والے ہيں۔
قال اللّٰہ تعالیٰ:<إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ
) الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًْا کَبِيرًا > ( ١
الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت و رہنمائی کرتا ہے
جو بالکل سيدها اور زیادہ محکم ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نيک اعمال
بجالاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر ہے۔
۴۵۴ ۔ تفسير صافی ميں نقل ہوا: “ای یهدی لِلطَّریقَہِ الَّتی هِیَ اقوَمُ الطُّرُقِ وَاَشَدّ
) اِستقامَةً”۔ ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
٢(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ۶٧٢ ۔ (
یعنی قرآن اس راستے کی طرف دعوت ہدایت دیتا ہے جو بالکل سيدها اور زیادہ محکم
ہے۔
۴۵۵ ۔عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام : یَهدی اِلی الاٴِمام
امام جعفر صادق - فرماتے ہيں: قرآن کریم امام - کی طرف ہدایت و رہنمائی کرتا ہے۔
۴۵۶ ۔ وَعَنِ الباقِر عليہ السلام یَهدی اِلَی الوِلایَةِ ( ١) اور امام محمد باقر - فرماتے ہيں:
قرآن مجيد (ائمہٴ اطہار) کی ولایت و محبت کی طرف ہدایت و رہنمائی کرتا ہے۔
۴۵٧ ۔ “و فی المعانی عن الصادق عليہ السلام عن ابيہ عن جدّہ السّجاد عليہ السلام :
الاِمامُ لا یَکُونُ اِلاَّ مَعصُوماً وَلَيستِ العِصَمة فی ظاہِرِ الخلقَہِ فَيُعرفَ بِها وَلِذلِکَ لا یَکُونُ اِلاَّ منصُوصاً ،
فَقيل ما مَعنَی المعصُومُ قالَ هَو المُعتَصم بِحبلِ اللّٰہِ وَحَبل اللّٰہِ هُوَ القُرآن والقرآنُ یهدی لِلامامِ
وَذٰلکَ قولہ تعالیٰ <انَّ هذا القرآنُ یَهدی لِلتی هیَ اقومُ >( ٢) الآیة۔
لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت
ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا وجود خارجی پایا جاتا ہے اور خلقت انسانی کے ظاہر سے
نمایاں ہو اور وہ پہچانی جائے۔ لہٰذا الله تعالیٰ کی طرف سے اسے معين اور منصوص ہونا
چاہيے”۔
کہا گيا: اے رسول خدا (ص) معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا
ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو
بالکل سيدها ہے “
۴۵٨ ۔ “ وفی التفسير العياشی عن الفضيل بن یسار عَن اَبی جَعفرٍ عليہ السلام قالَ
) یهدی اِلیَ الوِلایَةِ وَفی بَعضِ روایاتٍ اُخَر یَهدی الَی الاٴمامِ ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
٢(۔ معانی الاخبار، ص ١٣٢ ۔ (
٣(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢٨٣ ۔ (
تفسير عياشی ميں فضيل ابن یسار سے منقول ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا:
قرآن ولایت و حجيت (ائمہٴ اطہار) کی طرف ہدایت و رہنمائی کرتا ہے۔
۴۵٩ ۔دوسری روایات ميں ذکر ہوا کہ امام معصوم - کی طرف رہبری کرتا ہے۔
قال الله تعالیٰ:<وَسَارِعُوا إِلَی مَغفِْرَةٍ مِن رَبِّکُم وَجَنَّةٍ عَرضُْہَا السَّمَاوَاتُ وَالاْٴَرضُْ اٴُعِدَّت ) لِلمُْتَّقِينَ> ( ١
اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت زمين و
آسمان کے برابر ہے اور اسے صاحبانِ تقویٰ کے ليے مہيا کيا گيا ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: < ادخُْلُوا الجَْنَّةَ اٴَنتُْم وَاٴَزوَْاجُکُم تُحبَْرُونَ > ( ٢
اب تم سب اپنی بيویوں سميت اعزاز و احترام کے ساته جنت ميں داخل ہوجاؤ۔
) >وَتِلکَْ الجَْنَّةُ الَّتِی اٴُورِثتُْمُوہَا بِمَا کُنتُم تَعمَْلُونَ > ( ٣
اور یہی وہ جنت ہے جس کا تمہيں ان اعمال کی جزا کی بنا پر وارث بنایا گيا ہے جو تم
ہميشہ انجام دیا کرتے تهے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <مَثَلُ الجَْنَّةِ الَّتِی وُعِدَ المُْتَّقُونَ فِيہَا اٴَنہَْارٌ مِن مَاءٍ غَيرِْ آسِنٍ وَاٴَنہَْارٌ
مِن لَبَنٍ لَم یَتَغَيَّر طَعمُْہُ وَاٴَنہَْارٌ مِن خَمرٍْ لَذَّةٍ لِلشَّارِبِينَ وَاٴَنہَْارٌ مِن عَسَلٍ مُصَفی وَلَہُم فِيہَا مِن کُلِّ
) الثَّمَرَاتِ وَمَغفِْرَةٌ مِن رَبِّہِم کَمَن ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ اٴَمعَْائَہُم > ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٣٣ ۔ (
٢(۔ سورئہ زخرف، آیت ٧٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ زخرف، آیت ٧٢ ۔ (
۴(۔ سورئہ محمد، آیت ١۵ ۔ (
اس جنت کی صفت جس کا صاحبان تقویٰ سے وعدہ کيا گيا ہے یہ ہے کہ اس ميں
ایسے پانی کی نہریں ہيں جس ميں کسی طرح کی بو نہيں ہے اور کچه نہریں دوده کی بهی
ہيں جن کا مزہ بدلتا ہی نہيں ہے اور کچه نہریں شراب کی بهی ہيں جن ميں پينے والے کے
ليے لذت ہے اور کچه نہریں صاف و شفاف شہد کی ہيں اور ان کے ليے ہر طرح کے ميوے بهی
ہيں اور پروردگار کی طرف سے مغفرت بهی ہے تو کيا یہ متقی افراد ان کے جيسے ہوسکتے
ہيں جو ہميشہ جہنم ميں رہنے والے ہيں اور جنہيں گرما گرم پانی پلایا جائے گا جس سے آنتيں
ڻکڑے ڻکڑے ہوجائيں گی۔
مولف کہتے ہيں: جس طرح قرآن جنت کی طرف جانے کا حکم اور آتشِ جہنم سے منع
کرتا ہے اسی طرح ائمہٴ اطہار تمام بندگانِ خدا کو بالخصوص اپنے شيعوں کو جنت کی طرف
دعوت دیتے ہيں اور آتشِ جہنم سے منع فرماتے ہيں۔
۴۶٠ ۔ “وفی سفينة البحار نقلاً عن کتاب فضائل الشيعة عًنَ الصْادَقَ عليہ السلام انہُ قال
) عَتِہِ دیارِکِم لکِم جًنًْةٌ وًقبورُکُم لَکُم جَنةٌ للجنَّةَ خُلقتم وَاَلَی الجَنَّةَِ تصيرونَ ” ( ١ لَشی
سفينة البحار ميں کتاب فضائل الشيعہ سے امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ حضرت
- نے فرمایا: اپنے شيعوں کو مخاطب کرکے فرمایا: تمہارے شہر تمہارے ليے جنت ہيں اور
تمہاری قبریں تمہاری جنت ہيں اور جنت کے ليے تم خلق کيے گئے ہو اور جنت ميں جاؤ گے۔
۴۶١ ۔ “ وفی بشارة المصفطی لشيعة المرتضی: باسنادہ عن محمّد بن الصامت الجعفیٰ
قال کُنا عِندَ ابی عَبدِ اللہِّٰ عليہ السلام جَماعةٌ مِنَ البَصِریيَن فَحَدثَهُم بِحدَیثِ اَبيہِ عَن جابِرِ بنِْ عَبدِ
اللّٰہ رَحمةُ اللّٰہ فی الحَجِّ اِملاءً عَليهم فَلَّما قاموُا قالَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار، ج ١، ص ١٣۴ ۔ (
ابُو عبدِ اللّٰہِ عليہ السلام اِنَّ النَّاسَ اخَذُ وایميناً وَشِمالاً اونَّکُم لَزِمتُم صاحِبکُم فالی اینَ ترَوُنَ
) یردُبِکُمْ اِلَی الجَنَّةِ وَاللّٰہِ اِلی الجَنَّةِ واللّٰہِ اِلَی الجَنَّةِ وَاللّٰہِ ” ( ١
صاحب کتاب بشارة المصطفیٰ نے اپنے اسناد کے ساته محمد ابن صامت جعفی سے
نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے : ہم لوگ امام جعفر صادق - کی خدمت ميں تهے اور اہل بصرہ
کی ایک جماعت بهی حاضر تهی حضرت ان لوگوں کے ليے اپنے پدرِ بزرگوار امام محمد باقر -
کی جابر ابن عبد الله انصاری رحمة الله عليہ سے حج ميں لکهوائی گئی احادیث بيان فرما رہے
تهے جب وہ لوگ اڻه کر چلے گئے تو امام جعفر صادق - نے فرمایا: یقينا لوگوں نے دائيں اور
بائيں کو لے ليا (بعض اِس طرف بعض اُس طرف مائل ہوگئے) ليکن تم لوگوں کو (اپنے صاحب اور
آقا کے دامن سے وابستگی اختيار کی تمہيں معلوم ہے کہ وہ تمہيں کہاں لے جائيں گے؟)
جنت کی طرف لے جائيں گے خدا کی قسم! جنت کی طرف ، خدا کی قسم جنت کی طرف
قسم بہ خدا۔
۴۶٢ ۔ زیارت جامعہ ميں ہم پڑهتے ہيں: “ فَالرّاغِبُ عَنکُم مارِقٌ وَاللَّازِمٌ لکُم لاحِقٌ وَالمُقَصِّرُ
فی حَقِّکُم زاهِقٌ“
لہٰذا جو آپ سے کنارہ کش ہوا وہ دین سے خارج ہے اور جو آپ سے وابستہ ہوا وہ حق
سے وابستہ ہے آپ کے حق ميں کوتاہی کرنے والا ہلاک ہوگيا۔ دوسری جگہ دوسری تعبير ذکر
) ہوئی ہے۔ ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بشارة المصطفیٰ، ص ١۵٠ ۔ (
٢(۔ “ المتقدم لهم مارق و المتاٴخر عنهم زاهق و اللازم لهم لاحق“ (
جوان پر مقدم ہونا چاہتا ہے وہ دین سے خارج ہوا اور ان سے جدا رہنے والا ہے نيست و
نابود ہوا اور جو اِن کے ساته رہا وہ ان سے ملحق ہوا۔
۴۶٣ ۔ “عن یحيی بن مساور عَن بَشيرِ النّبالِ وَکانَ یُبری النّبلَ قَد اِشَتریتُ بَعيراً نضواً فقالَ
لی قومٌ یَحمِْلُکَ وَقالَ قومٌ لا یحلُکَ فَرَکِبتٌ وَمَشيتٌ حَتّ یٰ وَصَلت
المَدینةَ وَقَد تَشَقَّقَ وَجهی وَیَدایَ وَرجلایَ فَاتيتَ بابَ اَبی جَعفر عليہ السلام فَقُلتُ یا غُلامِ
اِستَْاٴذُن لی عَليہِ قالَ فَسِمَعَ صَوتی فَقالَ اُدخُْل یا بَشيرُ مَرحَباً ما هذا الَّذی اَری بِکَ فَقُلتُ جُعِلتُ
فَداکَ اِشَتَریتُ بَعيراً نضواً فَرَکِبتُ وَ مَشيتُ فَشَقَّقَ وَجهی وَیَدایَ وَرِجلایَ قالَ فَما دَعاکَ ال یٰ لٰذِکَ
؟ قالَ قُلتُ حُبّکُم وَاللّٰہِ جُعِلتُ فِداکَ قالَ اذا کانَ یَومُ القِيٰمةِ فَزعَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) وَفزعُنا اِلیٰ
رَسُول اللّٰہِ (ص) وفزِعتُم الينا فَال یٰ این تَرَونَ نَذهَبُ بِکُم اِل یٰ الجَنَّةِ رَبَّ الکَعبةِ اِلَی الجَنةَ رَبُّ
) الکَعبةِ ”’ ( ١
یحيیٰ ابن مساور سے بشير نبال نے اس حالت ميں کہا کہ جب وہ تير صحيح کر رہا تها:
ميں نے ایک نحيف و لاغر اونٹ خریدا تو کچه لوگوں نے مجه سے کہا: کہ وہ تمہيں گهر تک
پہنچا دیا کرے گا اور بعض افراد نے کہا: نہيں پہنچا سکے گا پهر ميں تهوڑی دور تک سوار ہوا اور
کبهی پا پيادہ چلتا تها یہاں تک کہ ميں مدینے ميں اس حالت ميں پہنچا کہ ميرے ہاته پير اور
ميرا چہرہ گرمی کی شدت اور گرد و غبار کی کثرت سے پهٹ گيا تها پهر ميں حضرت ابو جعفر
امام محمد باقر - کے بيت الشرف ميں حاضر ہوا اور کہا: اے غلام! ميرے ليے حضرت سے
ملاقات کے ليے اجازت لے لوں اس کا بيان ہے کہ: انہوں نے ميری آواز سن کر فرمایا: اے بشير!
خوش آمدید اندر آجاؤ یہ تم نے اپنی کيسی حالت بنا رکهی ہے جس کا ميں مشاہدہ کر رہا
ہوں؟ عرض کيا: ميں آپ پر قربان ہوجاؤں ميں نے ایک نحيف و ناتواں اونٹ خریدا کبهی سوار تو
کبهی پاپيادہ یہاںتک آیا لہٰذا ميرا چہرہ اور ميرے ہاته پاؤں پهٹ گئے ہيں حضرت نے فرمایا:
تمہيں اس کام کا داعی و انگيزہ کيا تها؟ ميں نے عرض کيا: خدا کی قسم! ميں آپ کی محبت
کے قربان ، فرمایا: جب قيامت کا دن ہوگا تو رسول الله (ص) خدائے عزوجل کی بارگاہ ميں پناہ
گزیں ہوں گے اور ہم لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۶۵ ، ص ١٣٢ ۔ بشارة المصطفیٰ، ص ١۴۴ ۔ (
بهی رسول الله (ص) کے پاس پناہ حاصل کریں گے اور تم شيعہ افراد بهی ہمارے پاس پناہ
گزیں ہوگے تم جانتے ہو ہم تمہيں کہاں لے جائيں گے؟ جنت ميں رب کعبہ کی قسم! جنت کی
طرف لے جائيں گے رب کعبہ کی قسم !
۴۶۴ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن صفوان بن یحيی قالً قالً جًعفر بِن مُحمدٍ عليہ السلام : مِنَ
اعتَصَم بِاللہّٰ عَزَّوَجَلَّ هَد یٰ وَمَن تَوَکَّلَ عَلَی اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ کَف یٰ وَمَن قَنَعَ بِما رَزَقَہُ اللہّٰ عَزّوجل غَن یٰ
وَمَن اتَقی اللہَّٰ عَزَّوَجَلَ نج یٰ فاتقوا اللہّٰ عِباد اللہِّٰ ما استَطعتُم واطيعُوا اللہَّٰ وَسَلِّمُوا الاَمر لاٴهلِہِ
تُفلحوا واصبِرُوا فَاِنّ اللّٰہَ معَ الصَّابرینَ <ولا تکونُوا کالذین نَسُو اللّٰہ فاَنساهُم انفُسَهُم> لا یستَوی
اصحابُ النارِ اصحابُ الجَنَّة واصحابُ الجنّةِ هُم الفائِزُون وَهُم شيعة علیٍ عليہ السلام حَدثَنی
بِذلِکَ اَبی عَن اَبيہٍ امّ سَلَمة زوجَ النبی (ص) قالَت اقراٴنِی رَسُولُ اللّٰہِ (ص) لا یستَوی اصحابُ
النّارِ واصحابُ الجنَّةً اصحابُ الجَنة هُم الفائِزُونَ وَقالَ صَلَوٰات اللّٰہ عليہِ وَهُم شيعةُ عَلیٍ عليہ
) السلام ” ( ١
نيز اسی کتاب ميں اپنے اسناد کے ساته صفوان ابن یحيیٰ سے نقل کرتے ہيں کہ ان کا
بيان ہے کہ: امام صادق -نے فرمایا: جو شخص خدا سے متمسک ہوا وہ خدائے عزوجل کی
طرف ہدایت پاگيا اور جو شخص خدائے عزوجل پر توکل کرے تو خدا (اس کے تمام اہم امور ميں)
کفایت کرتا ہے اور جو شخص ان چيزوں پر قناعت کرے جو کچه خدا نے اسے بطور رزق، عطا
فرمایا ہے غنی ہوجاتا ہے۔ (دوسروں کا محتاج نہ ہو) اور جو متقی اور پرہيز گار انسان خدائے
عزوجل سے خوف زدہ ہو نجات پاتا ہے لہٰذا اے بندگانِ خدا تقویٰ اختيار کرو اور خدا سے ڈرو
جس قدر تمہاری قدرت و طاقت ميں ہو اور اطاعت الٰہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۶۶ ، ص ٣٩٩ ۔ (
انجام دو اور امر (خلافت و امامت) کو خاصانِ خدا کو تسليم کرو تاکہ کامياب رہو اور صبر کرو کيوں
کہ الله تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساته ہے اور اس شخص کی طرح نہ ہوجاؤ کہ جنہوں نے خدا
کو فراموش کردیا نتيجے ميں خدا بهی (کيفر کردار کے عنوان سے) اسے بهی فراموش کر دیتا
ہے اور کبهی بهی اہل جہنم اہل جنت کے مساوی نہيں ہوسکتے صرف اہل بہشت کامياب ہيں
اور وہ شيعيان علی - ہيں۔ اس حدیث کو ميرے والد ماجد امام باقر - نے اپنے پدر بزرگوار
حضرت امام سجاد زین العابدین - سے انہوں نے ام سلمہ زوجہٴ پيغمبر (ص) سے بيان کيا کہ
وہ ناقل ہيں: رسول خدا (ص) نے اس آیت کی ميرے ليے تلاوت فرمائی: <لا یستوی اصحاب
النار و اصحاب الجنة اصحاب الجنّة هم الفائزون> پهر فرمایا: شيعيان حضرت علی - اہل بہشت
ہيں۔
۴۶۵ ۔ “وفی نہج البلاغة:قال عليہ السلام: الاحُرٌّ یَدَعُ هذِہِ اللّماظَة لا هِلها انَّہُ لَيس
) لاٴَنفسِکُم ثَمنٌ الاَّ الجَنَّةُ فَلاتبيعُوها اِلاَّ بِها ” ( ١
نہج البلاغہ ميں مذکور ہے کہ حضرت علی - نے فرمایا:
کيا کوئی ایسا آزاد مرد ہے جو اس دنيا کے چبائے ہوئے لقمہ کو دوسروں کے ليے چهوڑ
دے؟ (حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - نے دنيا کی بے اعتباری اور اس کے ناچيز ہونے
کی تشبيہ ان ذرات سے بيان فرمائی ہے جو دانتوں کے درميان باقی رہ جاتے ہيں) یعنی تم اے
شيعو! یاد رکهو کہ تمہارے نفس کی قيمت جنت کے علاوہ کچه نہيں ہے لہٰذا اسے کسی
معمولی قيمت پر بيجنے کا ارادہ مت کرنا۔
و قال عليہ السلام: ما خير بخير بعدہ النّار وماشر بشر بعدہ الجنّة وکل نعيم دون الجنّة
) محقور وکل بلاء دون النار عافية ۔ ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۵۶ ۔ (
٢(۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ٣٨٨ ۔ (
وہ بهلائی ، بهلائی نہيں ہے جس کا انجام جہنم ہو اور وہ برائی ، برائی نہيں ہے جس
کی عاقبت جنت ہو، جنت کے علاوہ ہر نعمت حقير ہے اور جہنم سے بچ جانے کے بعد ہر
مصيبت آتش دوزخ کے مقابل ميں عافيت و سلامتی ہے۔
مولف کہتے ہيں: قرآن مجيد پيغمبر اکرم (ص) کا جاودانی معجزہ اور پروردگار کی لوگوں
کے درميان صامت حجّت ہے۔ اس کے مفسر اور واضح بيان کرنے والے خود پيغمبر اکرم (ص) اور
آنحضرت کے اوصيائے کرام کہ قرآن ان کے گهر نازل ہوا (و اہل البيت ادریٰ بما فی البيت) گهر
والے گهر کی بات بہتر جانتے ہيں انہيں عظيم ہستيوں کی شان ميں ہے۔ اور حضرات صادقين
عليہما السلام کا یہ قول کہ قرآن امام اور ولایت کی طرف ہدایت و رہنمائی کرتا ہے کيوں کہ تمام
علوم اور مشکلات کا حل نيز منهيات اور قرآن کی واقعی تفسير ان کے اختيار ميں ہے اور یہی
افراد (من خوطب بہ) ہيں کہ جن سے خطاب کيا گيا ہے لہٰذا پيغمبر اکرم (ص) پر جب آیہٴ تبليغ
<یا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغ ما انزلَ اِليکَ مِن رَبِّکَ وَ اِن لَمْ تفعل فَما بلَّغتَ رِسالتکَ وَ اللّٰہ یعصمکَ مِنَ
النّاسِ> نازل ہوئی تو حجة الوداع سے واپسی کے موقع پر واقعہٴ غدیر خم کو پروردگار کے حکم
سے بجا لائے اور بہت عظيم واضح گراں قدر مطالب کا حامل خطبہ ارشاد فرمایا جو لوگوں کے
کثير مجمع ميں پڑها اور حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کو ولایت و خلافت اور
امامت کے ليے منصوب کيا ان حضرت کے فضائل و مناقب اور خصوصيات کو مکمل طور پر لوگوں
کے ليے بيان فرمایا۔
ضروری ہے کہ پہلے مختصر اور اجمالی طور پر غدیر خم کی جغرافيائی حيثيت بيان کی
جائے پهر واقعہٴ غدیر خم کے موضوع کی اہميت اور اس کے تشکيل پانے کی کيفيت آپ قارئين
کرام کی خدمت ميں پيش کریں۔
غدیر اور اس کی جغرافيائی حيثيت
مکہ اور مدینہ کے درميان پہاڑوں کے درميان مقام جحفہ فراز و نشيب کا حامل وسيع
پہاڑی علاقہ جس کا اختتام جنگل پر ہوتا ہے اور وہ جزیرة العرب کے مختلف ممالک کے چوراہے
کی حيثيت رکهتا ہے جسے کراع غدیر خم کہتے ہيں۔
”کراع” لغت ميں اس مقام کو کہتے ہيں جہاں پانی جاکر آخر ميں جمع ہوتا ہے۔
”غدیر” نہر کے معنی ميں ہے، سيلاب سے بعض محفوظ پانی کو کہا جاتا ہے۔
”خم” ایک گڑها ہے کہ جہاں پانی جمع ہوگيا ہو خواہ بڑا ہو یا چهوڻا۔
”جحفہ” جحفہ خشک سرزمين کو کہتے ہيں جو مکہ سے ۶۴ کيلوميڻر کے دریان مصر،
شام کے راستے ميں واقع ہے اور اکثر لوگوں کے ميقات کا مقام یہی دو علاقہ ہے اور حجّاج کے
قافلے والوں کے ليے ایک چوراہا ہے جو نجد، ریاض، کوفہ، عراق، شامات، فلسطين، یمن،
حضرموت اور ینبوع سے دریائے ميڈیڻرانہ خليج فارس اور دریائے ہند کے سواحل کے درميان واقع
ہے۔
ایسے ڈهالان ميں واقع ہے جو تمام قوم و قبيلے اور ہر ملت و جنس کا مرکز ہے وہاں
عظيم ترین اسلامی اجتماع تشکيل پایا کہ مختلف روایات کی بناپر ١٢٠ ہزار، ایک قول کی بنا پر
١۴٧ ہزار، ایک روایت کی بنا پر ١٨٠ ہزار بلکہ دو لاکه کی تعداد بهی نقل ہوئی ہے جو اس عظيم
اجتماع ميں حاضر تهے اور ابو ریحان بيرونی کی تحقيق کے مطابق ماہ ذی الحجہ کی ٢٨ تاریخ
جو اسفند مہينہ کی ٢٨ تاریخ کے مطابق تها جب کہ گرمی کا موسم تها ہوا ایسی گرم تهی کہ
عباؤوں کو پير ميں باندهتے تهے اور وسيع اور گرم تختوں کے اوپر بيڻهتے تهے۔
اس عظيم مجمع کی قيادت اور غدیر خم کے خطبہ کا جاری کرنا جو تمام جہات سے
خاص اہميت کا حامل ہے صرف حضرت ختمی مرتبت محمد ابن عبد الله (ص) کے ذمہ تها جو
آیہٴ کریمہ <یا ایُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغ ما انزلَ اِليکَ مِن رَبِّکَ > کے مصداق کے مطابق تها۔
خطبہ قرآن کی سيکڑوں آیات بلکہ قرآن کریم کی کلی روح پر مشتمل ہے اور کہا جاسکتا
ہے کہ یہ خطبہ اپنی ان تمام عظمت کے ساته جو مختلف لحاظ سے خطيب کی حيثيت سے
پيغمبر خاتم الانبياء، عقل کل، توحيد کے علم بردار اور منجیِ عالمِ بشریت ہيں اور اسی طرح
موضوع کے لحاظ سے اور اس شخص کا تعارف کرانے کے اعتبار سے کہ خطبہ کی بنياد اس
کے بارے ميں ہے بہت اہميت کا حامل ہے۔
اور یہ عظيم اہميت آیہ کے ان دو جملوں <وَ اِن لَم تفعل فَما بلَّغتَ رِسالتَہُ> اور جملہ < وَ
اللہّٰ یعصمکَ مِنَ النّاسِ> سے سمجهی جاسکتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اس عظيم اجتماع کے تشکيل پانے کی اہميت وہ بهی اس گرم آب وہوا
ميں اور پالان شتر کا منبر بنانا اور قافلے کے آگے بڑه جانے والے افراد کو واپس بلانا اور پيچهے
رہ جانے والے حاجيوں کے قافلے کو وہاں ملحق کرنا اور تمام خطبے کے مطالب کو بيان کرنا
صرف اور صرف امر الٰہی بجالانے کے ليے تها کہ آیہٴ کریمہ کا ابتدائی جملہ < بَلِّغ ما انزلَ اِليکَ>
دلالت کرتا ہے جو ایک بہت اہم موضوع کی اہميت اجاگر کرتا ہے کہ عدم ابلاغ کی صورت ميں
اسے نہ پہنچانے والا خدائی تہدید کا نشانہ قرار پائے گا۔
یعنی آنحضرت (ص) کی عمر بابرکت کے ۶٣ سال کہ جس ميں وظائف الٰہيہ اور ابلاغ
امور رسالت ميں مصروف تهے طاقت فرسا اذیتوں اور مشقتوں کو راہ خدا ميں تحمل کيا اس حد
تک کہ فرمایا: “ما اوذی نبی مثل ما اوذیت“
)جس نوعيت کی اذیت مجهے دی گئی کسی اور نبی کو نہيں دی گئی) اس عظيم
فرمانِ الٰہی کے مقابل ميں قرار پائے کہ اگر یہ پيغام نہ پہنچایا تو تم نے تبليغ رسالت کا کوئی
پيغام نہيں پہنچایا ہے۔
خطبے کی دوسری اہميت کا اندازہ وہی آیہٴ تبليغ کا دوسرا جملہ ہے <وَ اللّٰہ یعصمکَ
مِنَ النّاسِ> جو رسول خدا (ص) کی لوگوں کے مکر و فریب سے محفوظ رہنے پر مشتمل ہے۔
یہ بات ناگفتہ نہ رہ جائے : غدیر خم کے ایسے تاریخی پُر مسرت عظيم اجتماع کے موقع
پر جس ميں اصحاب و تابعين اور بہت سے رواة اورکاتبين حدیث اور غدیر خم سے مربوط کتابوں
کے مولفين موجود تهے کہ سيکڑوں جلد کتابيں مختلف عناوین سے “کتاب ولایت” فضائل علی
ابن ابی طالب -۔ الولایة، اور اسی طرح دوسرے عنوان سے کتابيں ترتيب دے کر ہمارے اور آئندہ
نسلوں کے اختيار ميں قرار دیا ہے خدا انہيں جزائے خير مرحمت فرمائے کہ اس مختصر کتاب
ميں ان کے اسمائے گرامی درج کرنے کی گنجائش نہيں ہے قارئين کرام عالی منابع جيسے
عبقات الانوار مير حامد حسين لکهنوی ، الغدیر علامہ امينی وغيرہ رضوان الله تعالیٰ عليہم کی
طرف رجوع کریں۔
مولف کہتے ہيں: اس اہم خطبہ ميں ہمارا مطمح نظر آیہٴ کریمہ <انَّ هذا القُرآن یهدی
لِلَّتی هَی اقومُ> ہے کہ جس کی تفسير امام اور ولایت کی گئی ہے اور رسول خدا (ص) نے
بهی مختلف مقامات پر حضرت علی ابن ابی طالب - کے فضائل و مناقب، امتيازات و خصوصيات
خطبہ کے دوران قسم کها کر فرمایا کہ قرآن کے منهيات اور ان کی تفسير کو جيسا بيان کرنے
کا حق ہے علی اور ان کی اولاد طاہرین عليہم السلام کو ہے ان کے علاوہ کوئی بهی اس طرح
بيان اور وضاحت نہيں کرسکتا۔
اب خطبے کا بعض حصہ ہم تبرکاً ذکر کر رہے ہيں۔
۴۶۶ ۔ “مَعاشِرَ النّاسِ ما مِن عِلم الاَّ وَقَد احصاہُ اللّٰہُ فیَّ وَکُلُّ عِلم عُلّمتُہُ فَقَد احصَيُتُہ فی
عَلیٍ امامِ المُتَّقينَ ما مِن عِلم الاَّ وَقَد عَلَّمتُہُ عَليّاً وَهُوَ الامام المُبينُ الیٰ ان قال مَعاشِرَ النّاسِ
تَدَبَّرُوا القرْآنَ وَافهَمُوا آیاتِہِ وَانظُرُوا اِل یٰ محکَماتِہِ وَلا تَتَّبعوا مُتَشابِهَہُ فَوَاللہِّٰ لَن یُبينَ لکُم زَواجِرَہُ
وَليُوضِحَ لکُم تَفسيرَہُ اِلاَّ الَّذی انا اخِذٌ بيدِہِ وَمُصعِدُہُ لیَّ وَشائِلٌ بعَضُدِہِ وَمُعلِمُکُم انَّ مَن کُنتُ مَولاہُ
فَهذا عَلیٌّ مَولاہُ وَهُوَ عَلِیٌّ بن ابی طالِبٍ اخی وَوَصيّی وَمُوالاتُہُ مِنَ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ انزَلَها عَلَیَّ مَعاشِرَ
النّاسِ اِنَّ عليّاً والطَّيِبينَ مِن وُلدی هُمُ الثَقَل الاٴَصغرُ وَالقُرآنُ هُوَ الثَّقَلُ الاٴکْبَرُ فَکُلُّ واحِدٍ مُنبی ءٌ
عَن صاحِبِہ وموافِقٌ لَہُ لَن یفترِقا حَتّیٰ یَردا عَلَیَّ الحوض امنآءُ اللّٰہِ فی خلقِہِ وَحُکَّامُہُ فی ارضِہِ الا
وَقَد ادَّیتُ اَ لاٰ وَقَد بَلَّغتُ اَ لاٰ وَقَد اوضَحتُ اَ لاٰ وَانَّ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ قالَ وَاَنا قُلت عَنِ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ الا اِنَّہُ
لَيسَ اميرُ الموٴمنينَ غَير اخی هذا وَلا تحِلّ امرةُ الموٴُمِنين بَعدی لاحَدٍ غَيرہ ثُمَّ ضَرَبَ بيدَہِ اِلیٰ
عَضدِہِ فَرَفَعَہُ وَکان منذ اوّلَ ما صعَدَ رَسُولُ اللہِّٰ (ص) ساٴلَ عَلِيّاً حَتّ یٰ صارَت رِجلاہُ مَعَ رُکبَةِ رَسُولِ
اللّٰہِ (ص) ثُمَّ قالَ معاشِرَ النّاسِ هذا عَلیٌ اخی وَوَصّیِ وَواعی عِلمی وَخَليفَتی عَل یٰ اُمّتی
وَعَل یٰ تَفسيرِ کِتابِ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ والدّاعی اِليہِ والعامِلِ بِما یَرضاہُ المُحارِبِ لاٴعدائِہِ والمُوالی عَل یٰ
طاعتِہِ والنّاهی عَن مَعصيتِہِ خَليفةُ رَسُولِ اللہِّٰ وَامير الموٴمِنينَ وَالامامُ الهادی وَقاتِل النّاکِثينَ
وَالقاسِطينَ وَالمارقينَ باٴمِر اللّٰہِ اقُولُ ما یُبَدّلُ القولُ لدَیّ باَمرِ اللّٰہِ رَبّی اقُولُ اللّٰهُم وال مَن والاہُ
) وَعادِ مَن عاداہُ والعن مَن انکرُہ واغضَب عَلیٰ مَن حَجَدَ حَقَّہُ ” ( ١
آنحضرت (ص) کے کلمات کا مختصر ترجمہ اور وضاحت یہ ہے کہ: اے لوگو! کوئی علم
ایسانہيں ہے جس کا خداوند عالم نے مجه ميں احصاء نہ کردیا ہو اور جو علم خدا نے مجهے
عطا کيا وہ سب ميں نے علی - کے سپرد کردیا (پروردگار عالم نے تمام زندگی کے امور اور
عالم و آدم کی حيات کی مجهے تعليم دی اور ميرے ليے احصاء و شمار فرمایا اور وہ تمام علوم
ميں نے علی کے ليے احصاء و شمارکيے ميں نے انہيں تعليم دی وہ امام المتقين ہيں اور علم
الٰہی کا خزانہ ہيں کوئی ایسا علم نہيں ہے کہ علی - نہ جانتے ہوں اور ميں نے علی - کو
تعليم نہ دیا ہو وہ عظيم نمایاں مخلوق کا امام ہے) یہاںتک کہ فرماتے ہيں:
اے لوگو! قرآن مجيد ميں غور وفکر کرو، اس کی آیتوں کے معانی ميں تدبر کرو سمجهو،
اس کے محکمات ميں غور وفکر کرو اور متشابہات کی پيروی نہ کرو، کيونکہ خدا کی قسم! اس
کی تنبيہات اور تفسير کو کوئی واضح و آشکار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣۵ ، ص ۴٢٨ ، ج ٣٧ ، ص ٢٠٨ ۔ (
نہيں کرسکے گا سوائے اس کے جس کا ميں (اس وقت) ہاته پکڑ کر اڻها رہا ہوں اور ان کے
بازوؤں کو تهام کر بلند کر رہا ہوں جو تمہيں علم سے مالا مال کرنے والے ہيں (کيوں کہ
متشابہات کا علم اور اس کے حقيقی مفاہيم ائمہٴ معصومين کے پاس ہيں جو راسخون فی
العلم ہيں)۔
من کنت مولاہ فهذا علی مولاہ یہ علی ابن ابی طالب ميرے بهائی اور وصی ہيں جن کی
ولایت کا (اعلان) خداوند عالم نے مجه پر فرض کيا ہے۔
اے لوگو! علی اور ان کی معصوم اولاد جو ميری بيڻی فاطمہ زہرا سے ہيں ثقل اصغر ہيں
اور تمہاری معنوی حيات کا مرکز ہيں اور قرآن ثقل اکبر ہے ان ميں سے ہر ایک دوسرے کی بابت
بتانے والے ہيں دونوں ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور دوست ہيں یہ دونوں قيامت ميں حوض کوثر
پر ميرے پاس پہنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے، یہی مخلوقات کے درميان الله
کے امانت دار ہيں وہ لوگ روئے زمين پر مخلوقات کے درميان معنوی حکام اور فرمان روا ہيں، وہی
لوگوں کی پناہ گاہ اور ملجا و ماویٰ ہيں پهر فرمایا: آگاہ رہو کہ ميں نے اپنا فرضِ رسالت ادا کردیا
الله کا دیا ہوا پيغام تم لوگوں تک پہنچا دیا۔ سب لوگوں کو سنا دیا اور ہر ایک کے ليے اسے واضح
و آشکار کردیا۔
اے لوگو! تم بهی گواہ رہنا کہ اس وحی تنزیل کو اس سرزمين ميں اس مجمع کے
سامنے جو سب کے سب خانہٴ خدا کی زیارت سے واپس ہوئے اور ان کے دل وفا و محبت سے
سرشار ہيں تمہيں پہنچا دیا آگاہ رہو اور گواہی دو کہ ميں نے مفصل طور پر واضح کرکے بيان
کردیا اور تم سب لوگوں کے گوش گزار کيا۔
اے لوگو! خداوند عالم نے مجه سے فرمایا اور ميں نے اس کی جانب سے تم لوگوں کو
بتا دیا کہ ميرے اس بهائی علی - کے علاوہ کوئی امير المومنين نہيں ہے اور نہ ان کے علاوہ
دوسروں کے ليے یہ منصب جائز ہے صرف علی امير المومنين ہيں۔
پهر حضرت علی - کے شانے کو اپنے دست مبارک سے پکڑ کر انہيں اڻهایا اور جب ابتدا
ميں رسول (پالان شتر کے ) منبرپر تشریف لے گئے تهے اس وقت بهی علی - کو اتنا اونچا
اڻهایاتها کہ آپ کے پاؤں حضور اکرم (ص) کے گهڻنوں کے برابر نظر آرہے تهے۔
پهر فرمایا: اے لوگو! یہ علی - ميرے بهائی، وصی، ميرے علم کا خزانہ، ميری امت کے
درميان ميرے خليفہ و جانشين کتاب خدا کی تفسير کرنے والے ہيں۔
ميرے بعد یہی وہ ہيں جو تمہيں قرآن کی طرف دعوت دیں گے اور قرآن کے عملی
ترجمان ہيں قرآن کی پسندیدہ چيزوں پر عمل کریں گے اور مرضی پروردگار کے مطابق اعمال
انجام دیں گے۔
وہ دشمنانِ دین خدا سے جنگ کرنے والے اور حق کے مدافع ہيں وہی لوگوں کو الله کی
دوستی کا حکم کریں گے اور معصيت الٰہی سے منع کریں گے وہ خليفہٴ خدا اور امير المومنين
ہيں وہ مخلوقات کے ہادی و رہنما ہيں، وہ ناکثين (بيعت توڑنے والوں) قاسطين (عدل سے
منحرف ہونے والوں) اور مارقين (دین سے خارج ہونے والوں) سے خدا کے حکم کے مطابق جنگ
کرنے والے ہيں۔ اے لوگو! یہ جو کچه ميںبيان کر رہا ہوں خدا کے حکم سے بيان کر رہا ہوں جس
ميں کوئی تبدیلی نہيں ہوسکتی۔
پهر رسول خدا (ص) نے اپنا سر بلند کيا اور دعا کی: اے پالنے والے !جو علی سے
محبت کرے تو اس سے محبت فرما، جو علی سے عداوت رکهے تو اسے اپنا دشمن قرار دے۔
اے پالنے والے جو علی کا انکار کریں ان پر لعنت فرما، جو ان کے حق کا انکار کرے اس پر غضب
فرما۔ آخری مبارک خطبہ تک۔
|