٢٢ ۔ عمومی ہدایت
٢٢ ۔ القرآنُ ہُدیِ للنّاسِ
و الحجةَ القائِم عليہ السلام ہُدیً لِلنّاسِ
قرآن لوگوں کے ليے ہدایت ہے اور حجّت قائم - بهی لوگوں کے ليے مایہٴ ہدایت ہيں۔
قال الله تبارک و تعالیٰ: الم ۔ ذَلِکَ الکِْتَابُ لاَرَیبَْ فِيہِ ہُدًی لِلمُْتَّقِينَ
الم یہ وہ کتاب ہے جس ميں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے۔
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: “الم” قرآن کے حروف مقطعات ميں سے ہے۔ جس کے
تفاسير ميں مختلف معانی اور بہت سی تعریفيں کی گئی ہيں مجمع البيان وغيرہ ميں دس
سے زائد اقوال نقل کيے گئے ہيں۔
تفسير صافی ميں فيض کاشانی نے معانی الاخبار سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق
- نے فرمایا: <الٓمٓ >هو حرف من حروف اسم اللّٰہ الاعظم المقطع فی القرآن الّذی یوٴلفہ النبی او
) الامام عليہم السلام فاذا دعابہ اجيب۔( ١
امام جعفر صادق - نے فرمایا: <الم> الله کے اسم اعظم کے حروف ميں سے ایک حرف
ہے جو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ٩٠ ۔ تفسير الميزان، ج ١٨ ، ص ١۶ ۔ (
قرآن ميں حرف مقطع ہے جس کی پيغمبر اکرم (ص) یا ائمہٴ ہدی عليہم السلام اجمعين جمع
آوری کرتے ہيں اگر ان اسماء کے ذریعے خدا کو پکاریں تو الله تعالیٰ مستجاب فرماتا ہے۔
اس وجہ سے کہا گيا : حروف مقطعات خدا اور اس کے رسول کے درميان اسرار و رموز
ہيں کہ اس کے مقصود و مراد سے رسول خدا اور راسخين فی العلم کے علاوہ کوئی شخص
آگاہ نہيں ہے۔
اور کہا گيا ہے: یہ تکراری حروف جو ٢٩ سورے ميں کے آغاز ميں جس ميں سے بعض
ایک حرف سے جيسے (ص) ، (ق)، (ن) اور بعض دو حروف سے جيسے (طہ)، (طس)، (یٰس)،
(حم) اور بعض تين حرف سے جيسے (الم) ، (الر)، (طسم) اور بعض چار حروف سے جيسے
(المر)، (المص) اور بعض پانچ حرف سے جيسے (کهيعص)، (حمعسق) اگر ان کے تکراری حروف
کو حذف کردیں تو چودہ حرف باقی رہتا ہے وہ یہ ہيں (ص ر ا ط ع ل ی ح ق ن م س ک ہ) کہ اگر
ان سے جملہ بنایا جائے تو وہ“ صراط علی حق نمسکہ”یا “ علی صراطہ حق نمسک” بنتا ہے۔
جسے ایک قسم کا خود قرآن کے ليے اعجاز شمار کيا جاتا ہے۔
اور کہا گيا ہے: “ علمَ معناہ عِند اللہِّٰ وَ رَسُولِہ ومستَودعی عِلمِہِ وَامنآئِہِ عَل یٰ وحيہِ ،
وَلاعَزو فی ان یکُونَ فی القُرآنِ ما هُوَ مُحاوَرَةٌ بِاسرارٍ خاصةٍ مع الرسُولِ وَامَناءِ الوَحیِ ” ان کے
حقيقی معنی خدا اور اس کے رسول (ص) نيز جن کے پاس علم خدا ودیعت کيا گيا ہے اور
وحی الٰہی کے امين ہيں موجود ہے اور کوئی مانع نہيں ہے کہ قرآن ميں ایسی چيزیں موجود
ہوں جو رسول خدا (ص) اور امنائے وحی کے درميان خاص اسرار ہوں۔
قولہ تعالیٰ: < ذَلِکَ الکِْتَابُ لاَرَیبَْ فِيہِ ہُدًی لِلمُْتَّقِين
)ذلک) دور کی طرف اشارہ ہے جس سے مراد کتاب قرآن مجيد ہے اور لفظ ذلک سے
اشارہ اس کی شان و منزلت کی رفعت کی بنا پر ہے جيسا کہ عرب ميں یہ قرآن اسی کتاب
سے متعارف ہے کہ تمہيں گزشتہ کتابوںميں ، ميں نے وعدہ کيا تها اس ميں شک و شبہ نہيں
کرنا چاہيے کوئی مشکوک شے یا کسی کو اس ميں شک ميں مبتلا نہ کيا جائے بلکہ وہ محض
ہدایت ہے موجودہ ہدایت جو حقيقت دین اور شریعت حق اور متقين کے ليے ایمان کے ارکان
ميں سے ہے ایسے پرہيز گاروں کے ليے کہ جن کا تقویٰ ہميشہ خدا کے ليے ہے اور حقيقی
طور پر اس کی پيروی کرتے ہيں اور اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے منکرات سے اجتناب
کرتے ہيں آداب الٰہيہ سے آراستہ اور اس کے معارف سے ہدایت و رشد تک رسائی حاصل کرتے
ہيں۔
الله تعالیٰ کے اس قول ميں “ہدی للمتقين” متقين سے مراد وہ مومنين ہيں اور تقویٰ
مومنين کے طبقات سے ایک خاص طبقہ کے اوصاف ميں سے ہے یعنی مراتب ایمان ميں سے
ایک مرتبہ نہيں ہے تاکہ اس کے مقدمات ميں سے ایک مقدمہ ہو جيسے احسان، اخبات،
خلوص بلکہ تقویٰ ایک ایسی صفت ہے جو تمام مراتب ایمان کا مجموعہ ہے جب وہ جامہٴ تقوی
سے آراستہ ہوجائے، اس دليل سے کہ الله تعالیٰ نے مومنين کے گروہوں ميں سے کسی
مخصوص گروہ کو ان کے درجات و طبقات کے اختلاف کے اعتبار سے توصيف نہيں فرمائی بلکہ
الله تعالیٰ جو کچه تقریباً بيس آیت کے ضمن ميں مومنين ، کفار اور منافقين کی حالت کو بيان
فرما رہا ہے تقویٰ کو پانچ صفت ميں مقرر فرمایا اور وہ غيب پر ایمان ، نماز قائم کرنا، راہ خدا ميں
جو کچه انہيں عطا کيا ہے خرچ کرنا اور ان تمام انبياء پر نازل کی ہوئی چيزوں پر ایمان اور آخرت
کا یقين رکهنا ہے انہيں اوصاف سے ان کی توصيف فرمائی کہ یہ سب الله تعالیٰ کی طرف سے
) لباس ہدایت سے آراستہ ہيں۔ ( ١
مفسرین نے ذکر کيا ہے: جو شخص خدا سے ہدایت کا طلب گار ہے اسے اس کے پاس
مفقود ہونی چاہيے (کيوں کہ ہدایت یافتہ انسان کے ليے ہدایت تحصيل حاصل ہے جو محال ہے)
لہٰذا توحيد پرست مسلمان اپنی نماز ميں ہدایت طلب کرے (اهدنا الصراط المستقيم) ہميں
سيدهے
راستہ کی ہدایت فرماتا رہ۔ اس کا چند طریقوں سے جواب دیا گيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الميزان سے اقتباس، ج ١، ص ۴١ ۔ (
١۔ یہ کہ ہدایت سے مراد اس کا استمرار و دوام ہے اس کے بعد کہ الله تعالیٰ نے
نمازگزاروں پر احسان کيا ہے اور اس کی ایمان کی طرف ہدایت کی ہے کہ وہ الله تعالیٰ سے
اس نعمت کی استمرار و ثبات کے ليے سوال کرتا ہے کہ کبهی ایسا نہ ہو کہ کہيں ثبات قدم
کے بعد اس کے قدم ميں لغزش پيدا ہو۔
٢۔ ثواب مراد ہے یعنی مجهے ثواب کی جہت سے جنت کے راستے کی طرف ہدایت
فرما۔
٣۔ ہدایت کی زیادتی کا ارادہ کيا گيا ہے چوں کہ ہدایت ميں کمی و زیادتی کی صلاحيت
موجود ہے لہٰذا جو شخص اس کے ایک مرتبہ کا حامل ہے اس کے ليے جائز ہے کہ اس سے
زیادہ کامل ہدایت کا خدا سے مطالبہ کرے۔
مولف کہتے ہيں: یہ تمام وجہيں امتحانات ميں سے ہيں جو ظاہری آیہٴ کریمہ کے تقاضے
کے برخلاف ہيں۔
صحيح یہ ہے کہ یوں کہا جائے: وہ ہدایت جسے مسلمان اپنی نماز ميں خدا سے طلب
کرتا ہے وہ وہی ہدایت ہے جو ابهی حاصل نہيں ہوئی ہے اور صرف اپنے پروردگار سے تفضل و
لامتناہی رحمت کے عنوان سے حاصل کرے۔
واضح عبار ت ميں کہا جائے : الله تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی دو قسميں ہيں: ہدایت
عامہ اور ہدایت خاصہ اور ہدایت عامہ کبهی تکوینی ہوتی ہے اور کبهی تشریعی۔
ليکن ہدایت عامہ تکوینی یہ ہے کہ: الله تعالیٰ نے اسے ہر موجود کی طبيعت و فطرت
ميں ودیعت فرمایا ہے خواہ وہ جمادات ہوں یا نباتات یا حيوانات ميں سے ہوں۔ لہٰذا وہ اپنی فطری
خواہش سے یا اپنے اختيار سے اپنے کمال کی طرف گامزن ہيں۔ اور الله تعالیٰ وہ ہے کہ طلب
کمال کی طاقت اس ميں ودیعت فرمائی، کياتم مشاہدہ نہيں کرتے کہ نبات کےسے اپنے رشدو
نمو کی طرف ہدایت پاتی ہے اور ایسی جہت کی طرف جاتی ہے کہ اس کی سير اور رشد ميں
کوئی مانع نہيں ہوتا یا جيسے حيوان کو ہدایت جو دوست اور دشمن کی شناخت جو اسے اس
بات کی تميز دیتا ہے کہ اسے کون اذیت دیتا ہے اور کون اذیت نہيں دیتا اور کس طرح چوہا بلّی
سے فرار کرتا ہے اور گوسفند سے فرار نہيں کرتا؟
اور کس طرح چيونڻی اور شہد کی مکهی کو گهر بنانے اور جمعيت تشکيل دینے کی
ہدایت کی جاتی ہے (اس پيچيدگی اور تعجب انگيز قسم سے) اور کس طرح نومولود بچہ کو اس
کی ولادت کی ابتدا ميں ماں کی چهاتی کی طرف ہدایت ہوتی ہے کہ وہ اس کے دوده سے
استفادہ کرتا ہے؟ < قَالَ رَبُّنَا الَّذِی اٴَعطَْی کُلَّ شَیءٍْ خَلقَْہُ ثُمَّ ہَدَی> ( ١) موسی نے کہا کہ ہمارا
رب وہ ہے جس نے ہر شے کو اس کی مناسب خلقت عطاکی ہے اور پهر ہدایت بهی دی ہے۔
ليکن ہدایت عامہ تشریعہ: ایسی ہدایت ہے جسے خداوند تبارک و تعالیٰ نے تمام افراد
بشر کی، انبياء کو مبعوث کرکے اور آسمانی کتابيں (قرآن وغيرہ) نازل کرکے ہدایت کی ہے اور
تمام انسانوں کو عقل عطا کرکے حق و باطل کے درميان امتياز پيدا کرنے کے ليے حجّت تمام
کی ہے۔
پهر انبياء کو بهيجا تاکہ ان کے ليے اس (قرآن) کی تلاوت کرے اور شریعتوں کے احکام کو
ان کے ليے بيان فرمائيں ان کی رسالت کو روشن معجزہ اور غالب برہان کے ساته متصل کيا تاکہ
وہ ان کی سچائی اور صحيح ہونے کی دليل قرار پائے۔
لہٰذا بعض لوگوں نے قبول کيا تو ہدایت یافتہ ہوگئے اور بعض نے قبول نہيں کيا تو وہ
) ضلالت و گمراہی ميں پڑ گئے <إِنَّا ہَدَینَْاہُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاکِرًا وَإِمَّا کَفُورًا > ( ٢
یقينا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران
نعمت کرنے والا ہوجائے۔
ليکن ہدایت خاصہ: وہ ایسی تکوینی ہدایت اور ربانی عنایت ہے کہ خداوند متعال نے اپنے
بعض
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ طہ، آیت ۵٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ انسان، آیت ٣۔ (
بندوں کو اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق مخصوص کيا ہے، لہٰذا اس کے ليے جو کچه اپنے
کمال کی ہدایت تک رسائی کے ليے لازم ہے فراہم کرتا ہے اور وہ اپنے مقصود تک پہنچتا ہے اور
اگر تائيد الٰہی شامل نہ ہو تو ضلالت و گمراہی ميں پڑ جاتا ہے۔
اس قسم کی ہدایت کی طرف بہت سی آیاتِ کریمہ ميں اشارہ کيا گيا ہے۔
) > فَرِیقًا ہَدَی وَفَرِیقًا حَقَّ عَلَيہِْم الضَّلَالَةُ > ( ١
اس نے ایک گروہ کو ہدایت دی ہے اور ایک پر گمراہی مسلط ہوگئی ہے۔
) >قُل فَلِلّہِ الحُْجَّةُ البَْالِغَةُ فَلَو شَاءَ لَہَدَاکُم اٴَجمَْعِينَ > ( ٢
کہہ دیجيے کہ الله کے پاس منزل تک پہچانے والی دليليں ہيں وہ اگر چاہتا تو جبراً تم
سب کو ہدایت دے دیتا۔
) >إِنَّ اللهَ لاَیَہدِْی القَْومَْ الظَّالِمِينَ > ( ٣
یقينا خداوند متعال ظالم قوم کو ہدایت نہيں دیتا ہے۔
) >وَاللهُ یَہدِْی مَن یَشَاءُ إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ > ( ۴
اور خداوند متعال جس کو چاہتا ہے صراطِ مستقيم کی ہدایت دے دیتا ہے۔
) >إِنَّکَ لاَتَہدِْی مَن اٴَحبَْبتَْ وَلَکِنَّ اللهَ یَہدِْی مَن یَشَاءُ > ( ۵
پيغمبر بے شک آپ جسے چاہيں اسے ہدایت نہيں دے سکتے ہيں بلکہ الله جسے چاہتا
ہے ہدایت دے دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ٣٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ١۴٩ ۔ (
٣(۔ سورہٴ انعام، آیت ١۴۴ ۔ (
۴(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢١٢ ۔ (
۵(۔ سورئہ قصص، آیت ۵۶ ۔ (
اور دوسری آیات ميں جو ان کی ہدایت سے مخصوص ہے اور خدائے تبارک و تعالیٰ کی
خاص عنایت مخصوص گروہ کے ليے ہے نہ یہ کہ اس سے تمام افراد کے ليے استفادہ ہوتا ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان اس اعتراف کے بعد کہ خداوند متعال نے احسان کيا ہے ہدایتِ عامہ
تکوینيہ و تشریعيہ کا الله سے سوال کرتا ہے تاکہ اسے ہدایت خاصہ تکوینيہ سے جو اس سے
مخصوص ہے اسے اپنے ہر ایک بندے کو کہ جس سے اس کا ارادہ و مشيت متعلق ہو ہدایت
) کرے۔ ( ١
الله تعالیٰ کا یہ قول: <إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ
) الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًْا کَبِيرًا > ( ٢
بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے اور ان صاحبان ایمان
کو بشارت دیتا ہے جو نيک اعمال بجالاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر ہے۔
۴۴۴ ۔ “ وفی الکافی عن ابی عمرو الزبيری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: ای یدعوا”
)٣)
کافی ميں امام جعفر صادق - نے فرمایا: (یهدی) یعنی ایسے راستے کی دعوت کرتا
ہے جو زیادہ استوار اور پا برجا ہے۔
۴۴۵ ۔ “وفی تفسير العياشی عن فضيل بن یسار عن ابی جعفر عليہ السلام قال یَهدی
) الیِ الوِلایَةِ ” ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مذکورہ مطالب تفسير (البيان حضرت آیت الله العظمیٰ السيد الخوئی رحمة الله عليہ) سے (
منقول ہيں۔
٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
۴(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢٨٢ ۔ (
تفسير عياشی ميں فضيل ابن یسار سے منقول ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا:
قرآن ولایت کبریٰ (اہل بيت ) کی طرف ہدایت کرتا ہے۔
۴۴۶ ۔ وفی تفسير الصافی نقلا عن المعانی عن الصادق عن اٴبيہ عن جدہ السجاد عليہ
السلام اَلاِمامُ مِنّا لایکُون اِلاَّ معصُوماً وَلَيستِ العِصمةُ فی ظاہِرِ الخلقَةِ فَيعرَفُ بِها وَلذِلکَ لا یَکُونُ اِلاَّ
منصُوصاً فَقيل ما مَعنی المَعصُومُ قالَ هُوَ المُعتصِمُ بحبلِ اللّٰہِ وَحَبلُ اللّٰہ هُو القُرآنُ والقرآنُ یَهدی
) الی الامامِ وَذلِکَ قول اللّٰہ عزّوجلّ <اِنَّ هذا القْرآنَ یهدی للتی هِیَ اقومَ> ( ١
لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت
ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا وجود خارجی پایا جاتا ہے اور خلقت انسانی کے ظاہر سے
نمایاں ہو اور وہ پہچانی جائے۔ لہٰذا الله تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔
کہا گيا: اے رسول خدا (ص) ! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا
ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو
بالکل سيدها ہے۔
مولف کہتے ہيں: اس آیہٴ کریمہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن اورائمہ ایک دوسرے کے
لازم و ملزوم ہيں دوسری تعبير ميں “القُرآنُ مَعَ الائِمة والائمةُ مَعَ القُرآنَ ” (قرآن ائمہ کے ساته
ہے اور ائمہ قرآن کے ساته ہيں)۔
۴۴٧ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن الفضيل قالَ سَاٴلُ اَبا عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام عَن قَولِ اللّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ <وِلَکُلِّ قَومٍْ ہادٍ> فقال عليہ السلام کُل اِمامٍ هادٍ لِلقَرآنِ الَّذی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ٣۶۵ ۔ معانی الاخبار، ص ١٣٢ ۔ (
) هُوَ فيهم” ( ١
کلينی نے کافی ميں بطور مسند فضيل سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ ميں
نے امام جعفر صادق - سے الله تعالیٰ کے اس قول کے متعلق (ہر گروہ کے ليے ایک ہادی و
رہبر ہے) دریافت کيا تو فرمایا: ہر امام اپنے زمانے کے لوگوں کے ليے ہادی اور رہبر ہے (اپنے
زمانے کے دوران لوگوں کا رہبر اور رہنما ہے)۔
۴۴٨ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن برید العجلی عَن اَبی جَعفَرٍ عليہ السلام فی قُولِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ
<اِنَّما اَنتَْ مُنذْرٌ وَلِکُلِ قَومٍ هادٍ> فَقالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) المُنذِرُ وَلِکُلِّ زَمانٍ مِنّا هادٍ یَهدیهِم اِل یٰ ما
) جآءَ بِہِ نَبیُّ اللہِّٰ (ص) ثُمَ الهُداةُ مِن بَعدِہِ عَلِیٌّ ثُم الاَصيآءِ واحِداً بَعد واحِدٍ ” ( ٢
اسی کتاب ميں بطور مسند برید عجلی سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے:ميں نے خدائے
عزوجل کے اس کلام “یقينا آپ ڈرانے والے ہيں اور ہر گروہ کے ليے ایک رہنما ہے” کے متعلق
دریافت کيا تو فرمایا: رسول خدا (ص) ڈرانے والے ہيں اور ہر زمانے ميں ایک ہادی ہوتا ہے جو
لوگوں کو ان چيزوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جسے پيغمبر (ص) خدا کی طرف سے لے کر آئے
پيغمبر اکرم (ص) کے بعد پہلے ہادی و رہبر حضرت علی - ہيں اور ان کے بعد اوصياء ميں ایک
کے بعد دوسرے وصی ہيں (صالح بعد صالح) (نيک فرد کے بعد نيک فرد)۔
۴۴٩ ” وفيہ باسنادہ عن بی بصير قالَ قُلْتُ لاَ بی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام <اِنَّما اَنتَْ مُنذِْرٌ
وَلِکُلّ قَومٍ هادٍ> فَقالَ عليہ السلام رَسُولُ اللّٰہِ (ص) المُنْذِرُ وَعَلِیٌّ الهادی یا اَبا مُحَمَّدٍ هَل مِن هادٍ
اليَومَ؟ قُلتُ بَلی جعلتُ فِداکَ ما زالَ مِنکُم هادٍ بَعد هادٍ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ١٩١ ۔ (
٢(۔ الکافی، ج ١، ص ١٩١ ۔ (
حَت یٰ دُفِعت اِليکَ فَقالَ رَحِمکَ اللہّٰ یا اَبا مُحَمَّدٍ لو کانَت اِذا نَزَلَت آیةٌ عل یٰ رَجُلٍ ثُمَّ ماتَ ذلِکَ الرَّجُلُ
) ماتَتِ الایة ماتَ الکِتابُ وَلکِنَّہُ حَیٌّ یجری فيمن بَقی کَما جَریٰ فيمن مَضیٰ ” ( ١
ابو بصير سے روایت ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے آیہٴ کریمہ “یقينا آپ منذر
ہيں اور قوم کے ليے ایک ہادی ہے” کے متعلق دریافت کيا: فرمایا: رسول الله (ص) منذر ہيں اور
علی ہادی ہيں اے ابو محمد! بتاؤ اس زمانہ ميں بهی کوئی ہادی ہے؟ ميں نے عرض کيا: ہاں
ميں آپ پر فدا ہوجاؤں آپ حضرات ميں سے ہر زمانے ميں ایک کے بعد دوسرا ہادی رہا ہے۔ فرمایا:
اے ابو محمد! الله تم پر رحمت نازل فرمائے اگر آیت کسی شخص کے ليے نازل ہوئی ہوتی اور وہ
مرجاتا تو یہ آیت بهی ختم ہوجاتی اور اس کا کوئی دوسرا مصداق نہ ہوتا کہ قرآن بهی مرگيا ہوتا
ليکن قرآن ہميشہ اس کے بعد زندہ رہنے والوں کے ليے زندہ ہے وہ ان لوگوں پر ان کے گزشتہ
لوگوں کی طرح منطبق ہوتا ہے۔
روایت عبد الرحيم قصير ميں بهی ذکر ہوا ہے کہ امام محمد باقر - سے خدائے تبارک و
تعالیٰ کے اس قول “یقينا آپ ڈرانے والے اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی ہے” متعلق سوال کيا گيا
تو فرمایا: رسول خدا (ص) ڈرانے والے ہيں علی ہادی ہيں۔ خدا کی قسم! مقام و منصب ہدایت
ہمارے گهرانے سے ختم نہيں ہوا اور اب تک ہمارے پاس روزِ قيامت تک موجود ہے۔
مولف کہتے ہيں: الله تبارک و تعالیٰ نے خلقت جن و انس کی علت غائی اپنی معرفت و
عبادت قرار دی ہے اپنے اس قول سے <وَمَا خَلَقتُْ الجِْنَّ وَالإِْنسَ إِلاَّ لِيَعبُْدُونِ > ( ٢) ای ليعرفون
اور ميں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبات کے ليے پيدا کيا ہے۔ یعنی وہ ہماری
معرفت حاصل کریں۔ معرفت سے تفسير کی ہے یعنی مجهے پہچانيں اور یہ فطری بات ہے کہ
عبادت شناخت کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ١٩١ ۔ (
٢(۔ سورئہ ذاریات، آیت ۵۶ ۔ (
فرع ہے جب تک معبود نہ پہچانا جائے عبادت کا کوئی معنی نہيں ہے اور اس مقدس ہدف کے
تحقق کے ليے تمام انبيائے عظام اور آسمانی کتابوں کو ارسال فرمایا تاکہ اپنے بندوں کو کفر و
شرک اور بت پرستی کے تاریک نشيب سے نجات عطا کرکے شاہراہِ ہدایت کی طرف پيش گام
کریں اور خدائے سبحان کی عبادت کی طرف دعوت و رہنمائی فرمائيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: < لَقَد اٴَرسَْلنَْا رُسُلَنَا بِالبَْيِّنَاتِ وَاٴَنزَْلنَْا مَعَہُم الکِْتَابَ وَالمِْيزَانَ لِيَقُومَ
) النَّاسُ بِالقِْسطِْ > الآیة( ١
بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساته بهيجا ہے اور ان کے ساته کتاب
اور ميزان کو نازل کيا ہے تاکہ لوگ انصاف کے ساته قيام کریں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <قُل ہَذِہِ سَبِيلِی اٴَدعُْو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِيرَةٍ اٴَنَا وَمَن اتَّبَعَنِی وَسُبحَْانَ
) اللهِ وَمَا اٴَنَا مِن المُْشرِْکِينَ > ( ٢
)اے محمد! ) آپ کہہ دیجيے کہ یہی ميرا راستہ ہے ميں بصيرت کے ساته خدا کی طرف
دعوت دیتا ہوں اور ميرے ساته ميرا اتباع کرنے والا بهی ہے اور خدا پاک و بے نياز ہے اور ميں
مشرکين ميں سے نہيں ہوں ۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَلَقَد اٴَرسَْلنَْا نُوحًا إِلَی قَومِْہِ إِنِّی لَکُم نَذِیرٌ مُبِينٌ # اٴَن لاتَعبُْدُوا إِلاَّ
) اللهَ إِنِّی اٴَخَافُ عَلَيکُْم عَذَابَ یَومٍْ اٴَلِيمٍ > ( ٣
اور ہم نے فوج کو ان کی قوم کی طرف اسی پيغام کے ساته بهيجا کہ ميں تمہارے ليے
کهلے ہوئے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ہوں اور یہ کہ خبردار تم الله کے علاوہ کسی کی عبادت
نہ کرنا کہ ميں تمہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حدید، آیت ٢۵ ۔ (
٢(۔ سورئہ یوسف، آیت ٨۔ (
٣(۔ سورہ ہود، آیت ٢۶ ۔ (
بارے ميں دردناک دن کے عذاب کا خوف رکهتا ہوں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَإِلَی عَادٍ اٴَخَاہُم ہُودًا قَالَ یَاقَومِْ اعبُْدُوا اللهَ مَا لَکُم مِن إِلَہٍ غَيرُْہُ >
) الآیة۔( ١
اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بهائی ہود کو بهيجا تو انہوں نے کہا: قوم والو الله کی
عبادت کرو اس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہيں ہے۔ (آخری آیت تک(
الله تعالیٰ نے فرمایا:<وَإِلَی ثَمُودَ اٴَخَاہُم صَالِحًا قَالَ یَاقَومِْ اعبُْدُوا اللهَ مَا لَکُم مِن إِلَہٍ غَيرُْہُ >
) الآیة ( ٢
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بهائی صالح کو بهيجا اور انہوں نے کہا کہ اے قوم!
الله کی عبادت کرو اس کے علاوہ کوئی خدا نہيں ہے۔
البتہ اس عظيم اور سنگين فریضہ کو تمام انبيائے عظام اور اوصيائے کرام نے بہ نحو
احسن و اکمل انجام دیا اور اس مقدس ہدف کی ارتقائی منزل کی راہ ميں مشقتيں اور ناقابل
تحمل اذیتيں برداشت کی ہيں۔ الله انہيں جزائے خير عطا فرمائے۔
اب چند نمونوں کی طرف بطور تبرک، حضرت خاتم الانبياء محمد ابن عبد الله (ص) کہ
آنحضرت کے غزوات کے موقعوں پر بے شمار کفار و مشرکين اور یہود اسلام سے مشرف ہوئے
اور پيغمبر (ص) کے مکارم اخلاق اور صاحبِ خلقِ عظيم کے معجزات کے اثر سے ایمان لائے
یہاں تک کہ شہادت کے فيض پر بهی فائز ہوئے، اشارہ کيا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ہود، آیت ۵٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ ہود، آیت ۶١ ۔ (
١۔ یہودی کا اسلام قبول کرنا
ایک حدیث ہے کہ جسے شيخ عظيم الشان فخر الشيعہ ابو عبد الله ابن محمد ابن محمد
ابن نعمان الملقب بہ شيخ مفيد رحمة الله عليہ اپنے اسناد کے ساته حضرت جعفر ابن محمد
سے وہ اپنے پدر بزرگوار وہ اپنے جدّ امجد حسين ابن علی ابن ابی طالب سے نقل کيا ہے کہ
حضرت نے پيغمبر اکرم (ص) کی خدمت ميں یہودی لوگوں کے واقعے کو نقل کيا ہے کہ جنہوں
نے تقریباً ستائيس سوال مختلف موضوعات پر دریافت کيے اور ہر ایک کا مکمل جواب بهی
دریافت کيا نتيجہ ميں کلمہٴ شہادتين کا اقرار کيا اور اسلام سے مشرف ہوئے۔ چوں کہ ان تمام
افراد کے مفصل واقعے کو درج کرنا اس مختصر کتاب کی حد سے خارج ہے لہٰذا پہلے واقعہ کے
بعض حصہ کو بعنوان مقدمہ اور اس کے بعض آخری حصے سے جو کہ ہماری مورد بحث گفتگو
ہے نقل کر رہے ہيں اور ان کی تفصيلات کو آپ قارئين کرام کو کتاب اختصاص کی طرف رجوع
کرنے کی درخواست کرتے ہيں۔
۴۵٠ ۔قال جآءَ رَجُلٌ مِنَ اليهُودِ اِلیَ النَّبی (ص) فَقال یا مُحمَّد انتَ الَّذی تَزعَمُ اِنَّکَ رَسُول
اللہّٰ وَانَّہ یُوح یٰ اِلَيکَ کَما اوُحَی اِل یٰ مُوسی بن عُمران ؟ قالَ نَعَم اَنَا سَيِّدُ وُلِد آدَمَ وَلا فَخراَنَا خاتِم
نَ وَرَسُولُ رَبِّ العالَمينَ فَقالَ یا مُحَمَّد اِل یٰ العَرَبِ اُرسِلتَ اَم اِلَی العَجَمِ اَم النبيّين واِمامُ المُتَّقی
الينا ؟ قالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) انّی رَسُولُ اللہِّٰ اِلَی النّاسِ کافَةً
فَقالَ اِنّی اسئَلکَ عَن عَشرِ کَلماتٍ اعطاها اللہّٰ مُوس یٰ فی البُقعَةِ المُبارَکَةِ حَيتُ ناجاہُ لا
یعلمُها الانَبیٌّ مُرسَلٌ اٴومَلَک مُقرَّبٌ
) فَقالَ النَّبی (ص) سَل عَمّا بدَالَک ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص مفيد رحمة الله عليہ، ص ٣٣ (مسائل اليہودی( (
حضرت سيد الشہداء حسين ابن علی ابن ابی طالب - نے فرمایا: ایک یہودی شخص
پيغمبر اکرم (ص) کی خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: اے محمد (ص)! آپ کا خيال یہ ہے کہ
آپ الله کے رسول ہيں اور آپ پر وحی نازل ہوتی ہے جس طرح موسی ابن عمران پر وحی نازل
ہوا کرتی تهی؟ آنحضرت نے فرمایا: ہاں ميں اولادِ آدم کا مولا ہوں اور ميں اپنے خاتم النبين، امام
المتقين اور تمام عالمين کی طرف رب العالمين کا رسول ہونے پر فخر نہيں کرتا۔
پهر عرض کيا: اے محمد (ص)! کيا صرف عرب لوگوں کے ليے مبعوث ہوئے ہيں یا اہل
عجم کے ليے یا صرف ہمارے ليے؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا ميں الله کا رسول ہوں تمام
لوگوں کے ليے (خواہ سياہ و سفيد ہوں یا دوسری نسل سے ہوں) یہودی نے عرض کيا: ميرا آپ
سے سوال ان دس کلمات کے متعلق ہے کہ جسے الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ - کو بقعہٴ
مبارکہ ميں عطا فرمایا کہ جب الله تعالیٰ سے مناجات کی ان کلمات کو سوائے خدا کے
فرستادہ نبی یا ملکِ مقرب (بارگاہ الٰہی) کے کوئی نہيں جانتا۔
پهر پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: جو کچه تمہارے ليے سوال در پيش ہے دریافت کرو۔
مولف کہتے ہيں: یہودی شخص نے اپنے ایک ایک سوال کو حضرت رسول خدا (ص)
سے دریافت کيا اور ان کے جوابات کو سن کر کہتا تها: آپ نے سچ کہا اے محمد! یہاں تک کہ
دسویں سوال تک پہنچا تو عرض کيا: قالَ یا مُحَمَّدُ فَاٴخبِرنی عَنِ العاشِرِ تسعَةُ خِصالٍ اعطاکَ اللہُّٰ
مِن بَين النَبيَّينَ اَعط یٰ امتَکَ مِن بَينَ الامِّی
فَقٰالَ النَّبی (ص) : فاتِحَةَ الکتابَ وَالاذان والاقامة والجماعة فی مساجد المسلمين ویوم
الجمعة والاجهار فی ثلاث صلوات والرخصة لاٴُمَّتی عند الامر والسفر و بصلاة علی الجنائز
والشفاعة فی اصحاب الکبائر من اٴُمّتی
قال صَدَقتَ یا مُحَمَّدُ فَما ثوابُ مَن فاتِحَةَ الکِتابِ ؟
فَقالَ النَّبی (ص) : مَن قَرَاٴَ فاتِحَة الکِتابِ اعطاهُ اللہّٰ مِنَ الاٴجرِ بِعَدَدِ کلّ کُتُبٍ انزَلَ مِن
السَّمآء قَرَاٴها وَثوابها ؛ وَاَمَّا الاٴذانِ فَيحشَرء موٴذّنُ امتی مَعَ النَبييّنَ والصَّدیقينَ والشُهداءِ ؛ وَاَمَّا
الجماعَةُ فَانَّ صُفُوف امَّتی کصُفُوفُ المَلائِکةِ فی السَّمآءِ الرابِعَةِ وَالرکعة فی الجماعَةِ اربَعَ
وَعشرُونَ رَکعةً کُل رکَعَةٍ احَبُّ الیَ اللّٰہِ مِن عِبادَةِ اربَعينَ سنَةً خفف اللّٰہ عليہ اهوال یوم القيامہ
بعد مٰا یخطب الامام هی ساعةٌ یُرحَمُ التدفيہ المُوٴمنين والموٴمنات ؛ وَاَمّا یَوم الجُمُعَةِ فَهُوَ یَومٌ
جَمَعَ اللہّٰ فيها لِاٴَوّلينَ وَالاخَرینَ یومَ الحِسابِ ما مِن موٴمِنٍ مشَی بِقدَميہِ الی الجُمُعَةِ اِلاَّ وَامّا
الاٴجهارُ فَما مِن موٴمِنٍ یُغسِْلُ ميتاً اِلاَّ یَتَباعد عَنہُ لَهَبُ النّارِ ( ١) وَیُوَسَّعُ عَلَيہُ الصِّراطُ بِقَدرِ ما یَبلُغُ
الصَّوتُ وَیُعطی نوراً حَتّیٰ یُوا فی الجنةَ ؛ وَاَمّا الرخصَةُ فَانَّ اللّٰہ یُخففِّ اهوال القِيٰمَةِ عَلیٰ مَن رَخَصَ
مِنُ امَّتی کَما رَخَّصَ اللّٰہُ فی القُرآنِ ؛ وَامّا شَفاعتی فی اصحابِ الکَبائرِ مِن امَّتی ماخَلا الشِّرکِ
) والمَظالِمِ ”۔ ( ٢
کہا: اے محمد (ص)! سچ کہا: مجهے دسویں کلمہ کے متعلق خبر دیں جو نو خصلت
ہے اور خداوند متعال نے آپ کو تمام انبياء کے درميان او ر تمام امتوں کے درميان آپ کی امت کو
عطا فرمایا ہے؟
پيغمبر اکرم نے فرمایا:
١۔ فاتحة الکتاب (سورئہ حمد) ٢۔ اذان ٣۔ اقامہ ۴۔ مسلمانوں کی مسجدوں ميں نماز
جماعت ۵۔روز جمعہ ۶۔ تين نماز (صبح، مغرب، عشاء) بلند آواز سے پڑهنا ٧۔ ميری امت کے ليے
بيماریوں اور مسافرت کے موقعوں پر اسے رخصت (سہل) قرار دینا۔ ٨۔ جنازوں پر نماز پڑهنا۔ ٩۔
ميری امت کے گناہان کبيرہ کے مرتکب ہونے والوں کے حق ميں شفاعت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ و فی امالی الصدوق“” (
٢(۔ اختصاص مفيد، ص ٣۴ ۔ (
یہودی نے کہا: اے محمد (ص)! آپ نے سچ کہا جو شخص فاتحہ الکتاب (سورئہ حمد)
کو پڑهے تو اسے کيا ثواب ملے گا؟
رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو شخص سورئہ فاتحة الکتاب کو پڑهے خداوند متعال تمام
آسمانی نازل شدہ کتابوں کی تعداد کے پڑهنے کا ثواب حاصل ہونے والا اسے اجر عطا فرماتا
ہے، ليکن اذان کا ثواب ميری امت کے موذن افراد انبياء ، صدیقين اور شہداء کے ساته محشور
ہوں گے، ليکن جماعت کا ثواب یقينا ميری امت کی صفيں نماز جماعت ميں چوتهے آسمان ميں
فرشتوں کی صفوں کی مانند ہيں ایک رکعت جماعت کا ثواب چوبيس رکعت کے مساوی ہے اور
ہر رکعت خدا کے نزدیک چاليس سال کی عبادت سے زیادہ محبوب ہے، ليکن جمعہ کے دن کی
فضيلت وہ ایسا دن ہے کہ خداوند عالم نے اولين و آخرین (جن و انس) کو روز جزا جمع فرمایا،
کوئی مومن نہيں ہے جو اپنے قدموں سے نماز جمعہ کی طرف جاتا ہے مگر یہ کہ الله تعالیٰ
قيامت کی سختی اس کے ليے آسان کرتا ہے جب امام جمعہ خطبہ پڑه چکا ہو اور وہ وہی وقت
ہے کہ خداوند متعال اپنی رحمت کو تمام مومنين و مومنات کے شامل حال قرار دیتا ہے۔ ليکن
کوئی مومن نہيں ہے جو ایک ميت کو غسل دے مگر یہ کہ آتش جہنم اس سے دور ہوجاتی ہے
١) اور راہِ صراط اس کے ليے وسيع ہوجاتی ہے اس اندازہ کے مطابق کہ آواز پہنچ جائے اور ایک )
نور اسے عطا کيا جاتا ہے تاکہ اس کو جنت تک پہنچائے۔ ليکن رخصت پس خدا قيامت کی
سختی کو آسان کرتا ہے ميری امت کے اس شخص کے ليے کہ جسے رخصت دی ہو جيسا کہ
الله تعالیٰ نے قرآن ميں رخصت دی ہے، ليکن جنازوں پر نماز ہر وہ مومن جو جنازوں پر نماز پڑهے
تو وہ نماز اس کی شفاعت کرے گی اور اس کی شفاعت مقبول ہے۔
ليکن قيامت کے دن ميری شفاعت ان افراد کے حق ميں جو ميری امت کے افراد گناہان
کبيرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی صدوق کے نسخہ ميں ذکر ہوا ہے کہ جو شخص ميت کو غسل دیتا ہے جہاں تک (
غسل دینے والے کی آواز پہنچتی ہے آتش جہنم اس سے دور رہتی ہے۔
کے مرتکب ہوئے ہيں شامل حال ہوگی سوائے شرک اور مظالم کرنے والوں کے (ان کے شامل
حال نہ ہوگی)۔
”قال صَدَقتَ یا محمَّدُ، اشهُد ان لا اِلہَ اِلاَّ اللّٰہُ وحَدَہُ لا شریکَ لہُ واَنَّ مُحمداً عبدُہُ وَرَسُوُلہُ
وَانَّک خاتِم النَّبيّينَ وَاِمامُ المُتّقينَ وَرَسُولُ رَبِّ العالَمينَ
ثُمَّ اخرَجَ وَرَقاً ابيضَ مِن کُمِّہِ مَکتوبٌ عَلَيہِ جَميعَ ما قالَ النَّبی (ص) حَقَّاً ، فَقالَ یا رسُول
اللّٰہ والَّذیُ بعَثَکَ بالحِقِّ نَبيّاً ما ستنسختها اِلاَّ مِنَ الالواحِ الَّذی کَتَبَ اللّٰہُ لموسیٰ بنِ عِمرانَ فَقَد
قَرَاٴتُ فی التوراة مِاٴةَ الفِ آیةً فَما مِن آیةٍ قَرَاٴتُها اِلاَّ وَجَدُّکَ مَکُتوباً فيها قَد قَراٴتُ فی التوراة فَضَليکَ
حَتّیٰ شَکَکتُ فيها، یا محمُّد فَقَد کُنتُ امحی اِسمَکَ فی التوراةِ اربعينَ سَنَةٍ فکُلَّما مَحَوتُ وَجَدتُ
اِسمَکَ مَکتوباً فيها وَلَقد قَرَاٴتُ فی التَوراةِ هذِہِ المسائِلَ لا یخرجُها غَيرکَ وَانَّ ساعةً تَرُدُّ جوَابَ ہذِہِ
المَسائِلَ یَکُونُ جَبرَئيل عَن یَمينکِ وَميکائِيلُ عَن یَسارِک وَصلّی اللہّٰ علی محمدٍ وآلہ وسلّم کثيراً ”
)١)
یہودی شخص نے کہا: اے محمد (ص) ! آپ نے سچ کہا ميں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی
خدا نہيں ہے سوائے اس الله کے جو یکہ و تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہيں ہے اور یہ کہ محمد
اس کے بندے اور رسول ہيں اور آپ خاتم الانبياء ہيں امام المتقين اور تمام عالمين کے پروردگار
کے رسول ہيں۔
پهر ایک سفيد ورق اپنی آستين سے باہر نکالا کہ جس ميں وہ سب کچه تحریر تها جو
پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا حق ہے۔
پهر فرمایا: اے الله کے رسول (ص) ! اس خدا کی قسم! کہ جس نے آپ کو برحق نبی
بناکر مبعوث فرمایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص، ص ۴٠ ، مسائل یہودی۔ (
ميں نے اسے استنساخ (نسخہ برداری) نہيں کيا مگر ان الواح سے جسے الله تعالیٰ نے
موسی ابن عمران کے ليے تحریر کيا یقينا ميں نے توریت ميں ایک لاکه آیتيں پڑهی ہيں اور
کوئی آیت ميں نہيں پڑهتا تها مگر یہ کہ ميںآپ کا نام تحریر کيا ہوا مشاہدہ کرتا تها یقينا آپ کی
فضيلت کو توریت ميں اس قدر پڑها ہے کہ ميں اس ميں شک ميں پڑ گيا۔
اے محمد (ص)! حقيقت ميں چاليس سال آپ کا نام جو توریت ميں تحریر کيا ہوا تها
اسے مڻاتا تها ليکن جس وقت بهی اسے مڻاتا تها تو ميں یہ دیکهتا تها کہ آپ کا اسم گرامی
توریت ميں تحریر ہے یقينا ان مسائل کو ميں نے توریت ميں پڑها ہے اسے آپ کے علاوہ انہيں
کوئی دوسرا نہيں نکال سکتا جس وقت ان مسائل کے جوابات آپ بيان فرما رہے تهے جبرئيل آپ
کے داہنی طرف اور ميکائيل آپ کے بائيں طرف موجود تهے؟
حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: جبرئيل ميرے داہنی طرف اور ميکائيل ميرے بائيں
طرف موجود تهے۔ محمد و آل محمد عليہم السلام پر الله تعالیٰ کا درود و سلام ہو۔
٢۔ ہجرت کے تيسویں سال حویصہ کا اسلام قبول کرنا
۴۵١ ۔ حویصہ اور محيصہ جهودان ميں سے دو بهائی تهے، پہلے محيصہ نے ایمان قبول
کيا جس وقت کعب ابن اشرف قتل ہوا رسول خدا (ص) نے حکم دیا کہ جہاں بهی جهودان ملے
اسے قتل کردیں، محيصہ تيزی سے اس تاجر کے پاس گيا جو اس کا ہمسایہ تها اسے قتل
کردیا، حویصہ نے کہا: اے بهائی! تم نے کيا کيا، ہمارے گوشت و پوست کی نشوونما اس
شخص کے احسان سے ہوئی آج تمام جهودان ميں اس سے زیادہ بڑا اور کریم شخص کوئی نہ
تها۔ کہا: خاموش ہوجاؤ جس شخص نے جهودان کے قتل کا حکم دیا اگر حکم دے ، تم تو ميرے
بهائی ہو ميں تمہارا بهی سر تن سے جدا کردوں گا، حویصہ سمجه گيا کہ یہ بات سنجيدگی
سے کہہ رہا ہے خاموش ہوگيا اور تمام رات اس فکر ميں تها اور خود سے کہا: وہ دین جو بهائی
کے قتل کی تلخی کو شيریں کرے سوائے برحق ہونے کے کچه اور انہيں ہوسکتا دوسرے دن
) آنحضرت (ص) کے پاس آیا اور کلمہٴ شہادتين پڑه کر مسلمان ہوگيا۔ ( ١
3-دعثور کا اسلام قبول کرنا
۴۵٢ ۔ جس سال غزوہ غطفان کہ جسے غزوہ “ذی امر” بهی کہا گيا ہے یہ واقعہ رونما ہوا
بنی ثعلبہ اور محارب کا ایک گروہ ذی امر ميں جمع ہوا تاکہ مدینے کے اطراف حملہ آور ہوں مال
غنيمت حاصل کریں دعثور ابن حارث (ایک روایت کے مطابق غورت) جو اس قبيلہ کا سيد و سردار
تها۔ پيغمبر اسلام (ص) نے عثمان ابن عفان کو مدینے ميں چار سو پچاس افراد کے ساته اس
امر کے ليے منصوب کيا تاکہ تيزی کے ساته سرزمين “ذی امر” پر جائيں ایک جبار نامی شخص
کو لشکر والوں ميں سے گرفتار کيا اور رسول خدا کے پاس لائے آنحضرت (ص) نے دشمنوں
کی احوال پرسی کی کہا: یہ آپ کے خوف سے پہاڑوں کی چوڻيوں پر فرار اختيار کيے ہوئے تها
پيغمبر اکرم (ص) نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور وہ اسلام کے شرف سے مشرف ہوا۔
اس وقت بادل جمع ہوئے شدید بارش ہوئی جس کے نتيجے ميں لشکر والوں کے تمام
لباس بدن اور تمام چيزیں تر ہوگئيں، لوگ اطراف ميں منتشر ہوگئے اپنے سامان کی صفائی ميں
مصروف ہوگئے رسول خدا (ص) نے بهی اپنے لباس کو ایک درخت کی شاخوں پر آویزاں کيا تاکہ
خشک ہوجائے اور خود اس درخت کے سائے ميں آرام فرمایا۔
اس وقت دعثور اور اس کے دوست پہاڑ کے اوپر نظارہ کر رہے تهے دیکها کہ رسول خدا
(ص) لشکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ناسخ جلدا ول، حصہٴ دوم، ہجرت کے بعد والے واقعات ميں، ص ١٣٢ ۔ (
سے دور یکہ و تنہا ہيں شمشير کهينچ کو خود کو حضرت کے سرہانے پہنچایا اور کہا: “یا محمد
من یمنعک اليوم” اے محمد! آج آپ کو ميرے شر سے کون بچائے گا؟ رسول خدا (ص) نے
فرمایا: خداوند قادر و قاہر، ابهی آنحضرت (ص) کی گفتگو تمام نہ ہوئی تهی کہ جبرئيل نازل
ہوئے اور طمانچہ اس کے سينے پر مارا کہ اس کی تلوار اس کے ہاته سے گر گئی اوروہ پشت
کے بل گر پڑا اور اس وقت پيغمبر (ص) نے شمشير اڻهائی اور اس کے سر کی طرف کهڑے
ہوکر فرمایا: “من یمنعک منّی” تمہيں ميرے ہاته سے کون نجات دے گا؟ دعثور نے کہا: یا رسول
الله! مجهے کوئی نہيں نجات دے گا ميں نے یقين کرليا آپ خدا کے رسول ہيں “اشهد ان لا الہ
الا الله و ان محمد رسول الله ” خدا کی قسم! اب ميں آپ کے خلاف لوگوں کو نہيں بهڑکاؤں گا
اور ميں آپ کے برخلاف نہيں ہوں گا والله لاٴنت خير منّی، خدا کی قسم! آپ مجهے سے بہتر
ہيں۔ پهر آنحضرت (ص) نے اس کی شمشير واپس دی تاکہ اپنی قوم کی طرف واپس جائے۔
اس کے چاہنے والے منه بناکر کہنے لگے: کيوں محمد کے سراہنے سے واپس آئے اس
نے تمام واقعہ ان لوگوں کے ليے نقل کيا اور کہا: ميں نے یقين کرليا کہ محمد (ص) الله کے
رسول ہيں ميں نے ان کے راستے کو اپنا یا تم بهی ان کی شریعت اپنالو تاکہ کامياب ہوجاؤ۔ اس
طرح اپنے چاہنے والوں کو پيغمبر کی طرف دعوت دی اور الله تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا:
<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذکُْرُوا نِعمَْةَ اللهِ عَلَيکُْم إِذ ہَمَّ قَومٌْ اٴَن یَبسُْطُوا إِلَيکُْم اٴَیدِْیَہُم فَکَفَّ اٴَیدِْیَہُم عَنکُْم ) > الآیہ ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ١١ ۔ (
٢(۔ ناسخ، جلد اول، حصہٴ دوم، ہجرت کے بعد والے واقعات ميں، ص ١٣٠ ۔ (
۴۔ اولاد ہارون ميں سے ایک شخص کا ایمان قبول کرنا
ایک شخص حضرت موسی - کے وصی کے رشتہ داروں ميں سے حضرت امير المومنين
علی - کی برکت سے مسلمان ہوجاتا ہے۔
۴۵٣ ۔ “وفی باسنادہ عن ابی الطفيل قالَ : شَهِدتُ جَنازة ابی بَکرٍ یَومَ ماتَ وَشَهِدتُ عُمَرَ
حينَ بُویِعَ وَعَلیٌ جالِسٌ ناحِيَةً فَاَقبل غلامٌ یهوُدِیٌ جميلُ الوَجہِ بَهیّ عَلَيہِ ثيابٌ حِسانٌ وَهُوَ من وُلد
هارُونَ حَتّ یٰ قامَ عَل یٰ راٴسِ عُمَرُ فَقالَ: یا اميرَ الموٴمنينَ انتَ اعلَمُ هذِہِ الامَةِ بِکِتابِهِم وامرِ نَبيهِم ؟
قالَ فَطاٴطاٴ عُمَرُ راٴسَہُ فَقالَ: اِیّاکَ اعنی وَاَعادَ عَلَيہِ القَولَ فَقالَ لَہُ عُمَرُ لَم ذلک ؟ قالَ انّی جئتُْکَ
مُرتادً النِفسی شاکاً فی دینی ، فَقالَ دُونکَ هذ ا الشَّابَّ ، قالَ وَمَن هذا الشَّابُ ؟ قالَ هذا عَلیّ
بن ابی طالِبٍ ابن عَمِّ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) وَهذا ابُو الحَسَنِ والحُسَيْنِ ابنی رَسُولِ اللّٰہ (ص) وَهذا
زِوجِ فاطِمة بِنتِ رَسُول اللّٰہِ (ص) فاقبَلَ اليَهُودیٌّ عَل یٰ علِیٍّ عليہ السلام فَقالَ: اَکَذلَک انتَ ؟
قالَ نَعَم قالَ: اِنّی اُریدُ ان اساٴلَکَ عن ثلاثٍ وَ ثلاثٍ وَوَاحِدَةٍ، قالَ فَتَبَسَّمَ اميرُ الموٴمنينَ
عليہ السلام وَقالَ: فَانّی اسئَلُکَ بِالاِلِہ الَّذی تَعبدُہُ لَئِن اٴَنَا اجبتکَ فی کُلّ ماتُریدُ لَتَدَعنَّ دینَکَ
وَلَتَدخُلَنَّ فی دینی ؟ قالَ جٰائت الاَّ لِذاکَ قالَ فسَل ، قالَ: اٴخبِرنی عَن اوّلِ قَطرَة دَمٍ قَطَرتَ عَل یٰ
وَجہ الاٴرضِ ایُّ قَطرةٍ هِیَ ؟ وَاَوَّلُ عَينٍ فاصَت عَلیٰ وَجہِ الارضِ ای عَينٍ هِیَ ؟ وَاوَّلُ شَی ءٍ اٴهتزَّ
عَلیٰ وَجہِ الاَرضِ ایُّ شَی ء هُوَ؟ فاجَابَہُ اميرُ الموٴمنينَ عليہ السلام
فَقالَ لَہُ : اِخبِرنی عَنِ الثَلاثِ الاٴخَر، اخبرِنی عَن مُحَمَّدٍ (ص) کَم لَہُ مِن امامٍ عَدلٍْ وَفی
ایِ جَنَةٍ یکُونُ وَمَن ساکِتُہُ مَعَہُ فی جَنتِہِ ؟فَقالَ: یا هارُونی انَّ لمحمَّدٍ اثنیٰ عَشَرَ اماماً عدلاً ، لا
یضُرُّهم خذلانُ مَنْ خَذَلُهم وَلا یستَوحشُونَ بِخَلافِ مَن خالَفهُم ، وَانَّهُم فی الذین ارسَبُ مِنَ
الجبالِ الرَّواسی فی الارض ومسْکَنُ مُحَمَّدٍ فی جَنَّتہِ مَعَہُ اولئک الاِ نثاعَشَرَ الامامُ العَدلُ ، فَقالَ:
صَدَقتَ وَاللّٰہ الَّذی لا اِلہ الاَّ هُوَ انّی لاجِدُها فی کُتُبِ اٴبی ہارُونَ ، کَتَبَہُ بِيَدِہِ وَاٴملاہُ مُوسیٰ عمّی
عليہ السلام، ، قالَ : فَاخبرنی عَنِ الواحِدةَ اٴَخبرنی عَن وَصیّ مُحَمَّدَ (ص) کَم یَعيشُ مِن بعدِہِ؟
وَهَل یمُوتُ او یُقتلُ؟ قالَ: یا هارُونی ، یَعيشُ بَعدَہُ ثَلاثين سُنَّةٌ لایزیدُ یوماً ولاٰ ینقُص یَوماً ثُمَّ یُضرَبُ
ضَربةً هيهُنا یعنی عَلیٰ قَرنِہِ فتُخضَبُ هذِہِ مِن هذا قالَ: فَصاح الهارُونیُّ وَقَطَع کستيجتُہ وَهُوَ یَقُول
: اشهَدُ ان لا اِلَہَ اِلاَّ اللہُّٰ وَحدَہُ لاشَریکَ لَہُ وَاَشهَدُ انَّ مُحَمَّداً عبدُہُ وَرَسُولہُ وَاَنَّک وصيُہُ ، یَنبغَی ان
تَفُوقَ ولا تُفاقُ واَن تُعَظَمَ لا تُستَضعَف ، قالَ: ثُمَّ مَضی بِہِ عَلِیٌّ عليہ السلام اِل یٰ مَنزلہِ فَعَلَّمَ
) مَعالِم الدّین” ( ١
کلينی عليہ الرحمہ نے کافی ميں اپنے اسناد کے ساته ابو طفيل سے نقل کيا ہے کہ
اس کا بيان ہے: جس دن ابوبکر کا انتقال ہوا ميں اس کے جنازہ ميں موجود تها اور اس وقت بهی
جب عمر سے بيعت کی گئی کہ علی ابن ابی طالب - ایک گوشے ميں بيڻهے ہوئے تهے ایک
نہایت خوب صورت، عمدہ لباس پہنے ہوئے آیا جو اولاد ہارون (وصی موسی - سے تها) اور عمر
کے سرہانے کهڑے ہوکر کہا: اے امير المومنين! کيا آپ اس امت ميں سب سے زیادہ کتاب خدا
اور اس کے نبی کے امر کو جاننے والے ہيں؟ عمر نے اپنے سر کو جهکاليا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، کتاب الحجة، ج ١، ص ۵٢٩ ، حدیث ۵۔ (
یہودی نے کہا: ميری مراد آپ ہی سے ہے اور اپنے قول کی تکرار کی۔
عمر نے کہا: تم یہ سوال کيوں کر رہے ہو؟
یہودی نے کہا: ميں اس ليے آپ کے پاس آیا ہوں کہ مجهے اپنے دین ميں شک ہے۔
عمر نے اشارہ کيا کہ اس جوان کے دامن سے متمسک ہوجاؤ۔
یہودی نے کہا: یہ جوان کون ہے؟
عمر نے کہا: وہ علی ابن ابی طالب - ابن عم رسول خدا (ص) اور رسول خدا کے دونوں
بيڻوں حسن و حسين کے والد ماجد اور فاطمہ بنت رسول الله کے شوہر ہيں۔
یہودی حضرت علی - کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: کيا آپ ایسے ہی ہيں؟
فرمایا: ہاں۔
یہودی نے کہا: ميں آپ سے تين تين اور ایک سوال دریافت کرنا چاہتا ہوں
حضرت علی - نے مسکرا کر فرمایا: کيوں نہيں کہا سات مسئلے؟
یہودی نے کہا: ميں پہلے آپ سے تين سوال کروں گا اگر جواب دے دیا تو بعد ميں تين
اور کروں گا ورنہ سمجهوں گا کہ تم ميں کوئی عالم نہيں ہے۔
حضرت علی - نے فرمایا: ميں تم سے یہ دریافت کرتا ہوں کہ جس کی تم عبادت کرتے
ہو وہ کون ہے اگر ميں نے ہر سوال کا جواب دے دیا تو تمہيں اپنا دین ترک کرکے ميرے دین ميں
داخل ہونا پڑے گا۔
یہودی نے کہا: ميں تو صرف اسی ليے آیا ہوں۔
حضرت علی - نے فرمایا: اب دریافت کرو۔
یہودی نے کہا: سب سے پہلے روئے زمين پر جو قطرہٴ خون بہایا گيا وہ کون سا تها؟ اور
سب سے پہلے کون سا چشمہ روئے زمين پر بہا اور سب سے پہلے کون سی شے روئے
زمين پر حرکت ميں آئی؟
حضرت علی - نے ان سوالات کے جوابات دیے اور یہودی نے بقيہ تين دوسرے مسائل
دریافت کيے۔ محمد (ص) کے بعد کتنے امام عادل (بعنوان وصی و جانشين) ہوں گے اور محمد
(ص) کس جنت ميں ہوں گے اور ان کے ساته اس جنت ميں کون سکونت حاصل کرے گا۔
حضرت علی - نے فرمایا: اے ہارونی! محمد (ص) کے بارہ امام عادل ہوں گے جو شخص
انہيں چهوڑ دے تو ان کو کوئی ضرر نہيں ہوگا نہ وہ مخالفين کی مخالفت سے وحشت زدہ ہوں
گے وہ دینی امور ميں روئے زمين پر پہاڑوں سے زیادہ مستحکم ہوں گے محمد کا محل سکونت
خود ان کی جنت ہے ان کی ہمراہی ميں بارہ عادل امام ہوں گے۔
پهر یہودی نے کہا: آپ نے سچ کہا، قسم اس خدا کی ! جس کے سوا کوئی معبود نہيں
ميں نے یہی مضمون اپنے والد ہارون کی کتابوں ميں دیکها ہے جس کو انہوں نے اپنے ہاته سے
لکها ہے اور ميرے چچا موسی نے لکهوایا ہے۔ پهر کہا: مجهے بقيہ ایک مسئلہ بتائيے کہ محمد
کے وصی ان کے بعد کتنے دن زندہ رہيں گے اور کيا وہ خود (اپنی موت) مریں گے یا انہيں قتل
کریں گے؟
حضرت علی - نے فرمایا: اے ہارونی! وہ محمد (ص) کے بعد تيس سال زندہ رہيں گے
ایک دن کم نہ زیادہ پهر ان کے سر پر ضربت لگے گی ان کی داڑهی خون سے رنگين ہوگی۔
راوی کہتا ہے: یہ سن کر ہارونی نے فریاد کی اور اپنی کمر کا پڻکا کاٹ کر کہنے لگا:
ميں گواہی دیتا ہوں کہ الله وحدہ لاشریک ہے اور محمد اس کے بندے اور رسول ہيں اور آپ ان
کے وصی و برحق جانشين ہيں۔
آپ کے ليے سب پرفوقيت شائستہ معلوم ہوتی ہے اور آپ پر کسی کو فوقيت زیب نہيں
دیتی اور آپ صاحبِ عظمت ہيں اور ضعف کا اظہار کرنے والے نہيں۔
پهر حضرت علی - اس کو اپنے گهر لے گئے اور دینِ الٰہی کے احکام اسے تعليم دیے۔
ان پر اور ان کے اولاد طاہرین پر خدا کا دورد و سلام ہو۔
|