قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٢٠ ۔ خدا کی حفاظت
) ٢٠ ۔ القرآن قال اللّٰہ تعالیٰ فی حقّہ :< إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ> ( ١ ”و کذلک الحجّة القائم عليہ السلام“
خداوند متعال نے قرآن صامت او قرآن ناطق کو انسانوں کی ہدایت کے ليے بهيجا اور صبح قيامت تک اس کی حفاظت فرمائے گا۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: < وَقَالُوا یَااٴَیُّہَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَيہِْ الذِّکرُْ إِنَّکَ لَمَجنُْونٌ # لَو مَا تَاٴتِْينَا بِالمَْلَائِکَةِ إِن کُنتَْ مِن الصَّادِقِينَ # مَا نُنَزِّلُ المَْلَائِکَةَ إِلاَّ بِالحَْقِّ وَمَا کَانُوا إِذًا مُنظَْرِینَ # إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا ) الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ > ( ٢
کفار نے (مذاق کی رو سے) کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے تو دیوانہ ہے اگر تو اپنے دعویٰ ميں سچا ہے تو فرشتوں کو (اپنی رسالت کی گواہی کے ليے) کيوں سامنے نہيں لاتا ہے حالانکہ ہم فرشتوں کو حق کے فيصلہ کے ساته ہی بهيجا کرتے ہيں (اگر ہم ان کی مرضی کے مطابق بهيجتے) اور اس کے بعد پهر کسی کو مہلت نہيں دی جاتی ہے ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی (ہم قسم کی کمی و زیادتی اور تغيير و تحریف سے) حفاظت کرنے والے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حجر، آیت ٩۔ (
٢(۔ سورئہ حجر، آیت ۶۔ ٩۔ (
آیت کا سياق، تنزیلِ ذکرجو قرآن ہے اس کے انحصار کی نشان دہی کر رہا ہے کہ اس کو نازل کرنے والی ذات خدائے تبارک و تعالیٰ ہے
اور اسی طرح اس کی تغيير و تحریف وغيرہ سے حفاظت بهی وہی کرتا ہے الله تعالیٰ کا یہ قول اس بات پر شاہد ہے <إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ > الفاظ ميں اتنی تمام تاکيد کے ساته کہ ہم ہی نے اس کو نازل کيا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری بهی ہمارے ذمہ ہے۔
کيوں کہ کفار بالخصوص کفار قریش جو زمانہ ٴ نزول قرآن کے ہم عصر تهے کہتے تهے: بے شک تم مجنون ہو اور کچه تم پر نازل ہوا ہے وہ جنوں کی طرف سے ہے لہٰذا وہ قابل اعتماد و اعتبار نہيں ہے۔
آیہٴ کریمہ در واقع یہ بيان کر رہی ہے کہ تم اس قرآن کو اپنی جانب سے نہيں لائے ہو تاکہ یہ لوگ تم کو عاجز بنادیں اور ان کے غضب اور دشمنی کو ختم کردیں، یہ قرآن پروردگار متعال کی طرف سے نازل ہوا ہے اور خود کو اس کی حفاظت کے ليے تکلف اور تکليف ميں نہ ڈالو، اور وہ ملائکہ اور فرشتوں کے پاس سے بهی نازل نہيں ہوا ہے تاکہ ان کی طرف سے نازل ہونے اور ان کی تصدیق کے محتاج رہو، بلکہ خود ہم نے تدریجی طور پر اس کو نازل کيا ہے اور ہم خود ہی اس کی حفاظت ميں مکمل عنایت رکهتے ہيں۔ کيوں کہ ذکر ہے زندہ ذکر ہے اور ہميشہ ضائع ہونے سے مصون و محفوظ ہے یا یہ کہ مکمل طور پر فراموش ہوجائے اور اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے، اور اسی طرح کمی و زیادتی سے محفوظ ہے کہ اس کو ذکر ہونے سے ختم کردے یا اس کی شکل ميں تغيير و تحریف واقع ہوجائے اس حيثيت سے کہ خدا کے ذکر ہونے کی صفت اور اس کے حقائق و معارف کے بيان کرنے ميں تغيير و تحریف واقع ہوجائے۔ ذکر کا اطلاق اور اسی طرح حفظ کا بهی اطلاق اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن خدائے بزرگ و برتر کی حفاظت کی وجہ سے ہر قسم کی کمی و زیادتی اور الفاظ ميں تبدیلی یا نحوی ترتيب ميں محفوظ ہے کہ وہ ذکریت (ذکر ہونے) کی صفت سے خارج ہو کر باطل ہوجائے ایسا ممکن نہيں ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکرِْ لَمَّا جَائَہُم وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ ( ۴١ ) لاَیَاٴتِْيہِ ) البَْاطِلُ مِن بَينِْ یَدَیہِْ وَلامِن خَلفِْہِ تَنزِیلٌ مِن حَکِيمٍ حَمِيدٍ > ( ١ بے شک جن لوگوں نے قرآن کے آنے کے بعد اس کا انکار کردیا ان کا انجام برا ہے اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس کے قریب سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل آ بهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔ الله تعالی کے اس قول <ان الذین کفروا بالذکر> ميں ذکر سے مراد قرآن ہے اور بعد والا جملہ (لمّا جاء هم) اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کفر اختيار کرنے والے عرب کے مشرکين خواہ قریش سے ہوں یا غير قریش سے وہ سب ہی قرآن کے ہم عصر تهے۔ الله کے اس قول <انہ لکتاب عزیز> ميں ضمير سے مراد بهی ذکر ہے جو قرآن ہے یعنی قرآن بے مثل و بے نظير ہے، یا یہ کہ بلند قوت و طاقت کا حامل ہے جو اس کے مغلوب ہونے سے مانع ہے کوئی بهی شے اس پر غلبہ پيدا کرنے کی طاقت نہيں رکهتی اور بعد والا جملہ <لا یاتيہ الباطل من بين یدیہ ولا من خلفہ> دوسرے معنی کی تائيد کرتا ہے۔ باطل سے مراد یہ ہے کہ کسی بهی صورت ميں باطل کا اس ميں داخل ہونا ممکن نہيں ہے اس طرح سے کہ اس کے تمام یا بعض اجزاء کو باطل کردے، اس کے حقيقی معارف کو غير حقيقی معارف اور احکام و شرائع اور اس کے ملحقات کو اخلاق وغيرہ سے لغو و باطل کردے کہ قابل عمل نہ رہ جائے۔
اس بنا پر جملہ (من بين یدیہ ولا من خلفہ) سے مراد دونوں زمانہ حال اور مستقبل ہے جو دونوں پر مشتمل ہے یعنی نازل ہونے کے زمانہ سے لے کر اس کے بعد قيامت تک تمام جہات سے مصون و محفوظ ہے نہ اس کے بيانات ميں تضاد ہے نہ اس کی خبروں ميں کذب پایا جاتا ہے نہ ہی اس کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴٢ ۔ ، ١(۔ سورئہ فصلت، آیات ۴١ (
معارف و شرائع اور احکام ميں کوئی خلل واقع ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کی تغيير و تحریف پيدا ہوگی ایسا کيوں نہ ہو جب وہ ایک حکيم کی طرف سے کہ جس کے تمام افعال مستقل و محکم اور استوار ہيں نازل ہوئی ہو اور وہ اپنے تمام افعال ميں محبوب و پسندیدہ ہے۔ الله تعالیٰ کا قول ہے: <قُل لَئِن اجتَْمَعَتِ الإِْنسُ وَالجِْنُّ عَلَی اٴَن یَاٴتُْوا بِمِثلِْ ہَذَا القُْرآْنِ ) لاَیَاٴتُْونَ بِمِثلِْہِ وَلَو کَانَ بَعضُْہُم لِبَعضٍْ ظَہِيرًا > ( ١
)اے محمد!) آپ کہہ دیجيے کہ اگر انسان اورجنات سب اس بات پر متفق ہوجائيں کہ اس قرآن کا مثل لے آئيں تو بهی نہيں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کيوں نہ ہو جائيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اٴَفَلاَیَتَدَبَّرُونَ القُْرآْنَ وَلَو کَانَ مِن عِندِْ غَيرِْ اللهِ لَوَجَدُوا فِيہِ اختِْلافًا کَثِيرًا )٢)
خداوند متعال فرماتا ہے: کيا یہ لوگ (منافقين دقت اور تحقيق نہيں کرتے) قرآن ميں غور وفکر نہيں کرتے ہيں کہ اگر غير خدا کی طرف سے (مخلوق کا کلام ہوتا) تو اس ميں بڑا اختلاف ہوتا۔
)۴) ،( الله تعالیٰ کا یہ قول : <بَل ہُوَ قُرآْنٌ مَجِيدٌ # فِی لَوحٍْ مَحفُْوظٍ > ( ٣ خداوند متعال گزشتہ آیات ميں فرماتا ہے: کيا تمہارے پاس لشکروں کی خبر آئی ہے جو پيغمبروں کو آزار و اذیت دیتے تهے (یعنی فرعون اور اس کا گروہ) فرعون اور قوم ثمود کی خبر، مگر کفار تو صرف جهڻلانے ميں پڑے ہوئے ہيں اور الله ان کو پيچهے سے گهيرے ہوئے ہے۔یقينا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے جو لوح محفوظ ميں محفوظ کيا گيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ٨٢ ۔ (
٣(۔ سورئہ بروج، آیت ١٧ ۔ (
( ۴(۔ قولہ تعالیٰ <ہَل اٴَتَاکَ حَدِیثُ الجُْنُودِ ( ١٧ ) فِرعَْونَْ وَثَمُودَ ( ١٨ ) بَل الَّذِینَ کَفَرُوا فِی تَکذِْیبٍ ( ١٩ ( )> وَاللهُ مِن وَرَائِہِم مُحِيطٌ ( ٢٠ ) بَل ہُوَ قُرآْنٌ مَجِيدٌ ( ٢١ ) فِی لَوحٍْ مَحفُْوظٍ ( ٢٢
تمام افراد بشر جب اس وسيع و عریض روشن دنيا ميں قدم رکهتے ہيں تو کسی بهی قسم کا علم اور معرفت نہيں رکهتے اور جاہل محض اور فقط نادان تهے جس کی یہ آیہٴ کریمہ صراحت کر رہی ہے <وَاللهُ اٴَخرَْجَکُم مِن بُطُونِ اٴُمَّہَاتِکُم لاتَعلَْمُونَ شَيئًْا وَجَعَلَ لَکُم السَّمعَْ وَالاْٴَبصَْارَ ) وَالاْٴَفئِْدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُْرُونَ > ( ١

آیہٴ کریمہ ميں تمام نعمتوں سے قطع نظر خداوند متعال کی نعمات صرف خود انسان کے وجود ميں بہت زیادہ اور بے شمار ہيں ان ميں سے تين چيزوں کی یاد دہانی کی گئی (کہ وہ کان، آنکه اور دل ) ہے کيوں کہ انسان کی انسانيت سننے والے کان اور چشم حقيقت رکهنے کے ساته جو دل کی باتوں سے آگاہ ہو حقائق کو سننے والا ہو واقعيات کا مشاہدہ کرنے والا ہے اور دل و جان سے ان چيزوں کو درک کرنے والا ہو۔ تاکہ انسان کامل ہوجائے۔ اور ذیل کے جملہ ميں (لعلکم تشکرون) : اس ليے ہے کہ نعمات الٰہی ميں سے ہر نعمت کی شکر گزاری یہ ہے کہ اس نعمت کو اپنے مقام پر مصرف اور استفادہ کرنا چاہيے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَالَّذِینَ اجتَْنَبُوا الطَّاغُوتَ اٴَن یَعبُْدُوہَا وَاٴَنَابُوا إِلَی اللهِ لَہُم البُْشرَْی فَبَشِّر عِبَادِی # الَّذِینَ یَستَْمِعُونَ القَْولَْ فَيَتَّبِعُونَ اٴَحسَْنَہُ اٴُولَْئِکَ الَّذِینَ ہَدَاہُم اللهُ وَاٴُولَْئِکَ ہُم اٴُولُْوا ) الاْٴَلبَْابِ > ( ٢
اور جن لوگوں نے ظالموں سے عليحدگی اختيار کی ان کی عبادت کریں اور خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ان کے ليے ہماری طرف سے بشارت ہے لہٰذا پيغمبر آپ ميرے بندوں کو بشارت دے دیجيے جو باتوں کو سنتے ہيں اورجو بات اچهی ہوتی اس کا اتباع کرتے ہيں یہی وہ لوگ ہيں جنہيں خدا نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ٧٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ زمر، آیت ١٧ ۔ ١٨ ۔ (
ہدایت دی ہے اور وہ لوگ ہيں جو صاحبان عقل ہےں۔ اور ایک طرف انسان کی ہدایت و رہنمائی کے ليے انبياء کو بهيجا اور آسمانی کتابوں کو ان پر نازل کيا تاکہ انسان کو خدا شناسی اوریگانہ پرستی کی طرف لے جائيں۔ پيغمبروں ميں سے ہر ایک پيغمبر نے اپنے زمانے کی بہ نسبت ان لوگوں کی تعليم و تربيت کے ليے دستورات اور لائحہٴ عمل معين فرمایا اور انہوں نے بهی فرمان الٰہی کے مطابق اپنا وظيفہ انجام دیا اپنی امتوں کو معرفت الٰہی اور اس کی عبادت کی دعوت دی اور جس شخص نے خدا کی ان تين عظيم نعمت سے استفادہ کيا وہ سننے والا کان چشم بينا اور آگاہ دل کا حامل ہے نيز اگر اس نے پيغمبروں اور اپنے ائمہٴ کے فرمودات کو قبول کيا ان کی پيروی کی تو وہ دنيا و آخرت کی سعادت پر فائز ہوا ہے اور جن لوگوں نے ہویٰ و ہوس اور کفر و عناد و لجاجت کا راستہ اختيار کيا تو وہ لوگ ذلت و بدبختی کے گرداب ميں چلے گئے ہيں۔ جب مشيت و ارادہٴ خداوندی اس بات سے متعلق ہوا کہ مومنين پر احسان اور فضل و کرم کرے تو پيغمبر آخر الزمان حضرت خاتم الانبياء محمد بن عبد الله (ص) کو کہ جن کی مکتب وحی و توحيد ميں چاليس سال تربيت کی تهی خود آنحضرت (ص) کے قول کے مطابق ( ادّبنی ربّی اربعين سنتہ ثم بعثنی) ( ١) مبعوث فرمایا اور تعليم و تربيت کے خاص لائحہٴ عمل اور تزکيہٴ نفوس کے لےے کہ آیہٴ کریمہ <لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُْؤمِْنِينَ إِذ بَعَثَ فِيہِم رَسُولًا مِن اٴَنفُْسِہِم یَتلُْوا عَلَيہِْم آیَاتِہِ وَیُزَکِّيہِم وَیُعَلِّمُہُم الکِْتَابَ وَالحِْکمَْةَ وَإِن کَانُوا مِن قَبلُْ لَفِی ضَلاَلٍ مُبِينٍ > ( ٢) اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ پيغمبر (ص) نے فرمایا: “پروردگار نے ميری چاليس سال تربيت کی پهر مجهے مبعوث ( فرمایا”۔
٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١۶۴ ۔ (
یقينا خدا نے صاحبان ایمان پر احسان کيا ہے کہ ان کے درميان انہيں ميں سے ایک رسول بهيجا ہے جو ان پر آیات الہيہ کی تلاوت کرتا ہے انہيں کفر و شرک کی آلودگيوں سے پاکيزہ بناتا ہے اورکتاب و حکمت (دین اور احکام و معارف) کی تعليم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کهلی گمراہی ميں مبتلا تهے۔
بات پر مشتمل ہے مقرر فرمایا: ۴٢۶ ۔ پيغمبر اکرم (ص) نے اس گراں قدر ہدف تک پہنچنے کی راہ ميں کون سی ایسی زحمتيں، بلائيں اور مصيبتيں ہيں جسے تحمل نہ کيا ہو اور کون سے ایسے مظالم و اذیتيں ہيں جو اپنی امت سے نہ دیکها ہو اور فرمایا: “” (کسی نبی کو ایسی اذیت نہيں دی گئی جو مجهے اذیتيں دی گئيں)۔ کيوں کہ ذمہ داریوں کا بہت زیادہ بار سنگين ان کے دوش پر تها اور بہ حکم الٰہی (فاستقم کما امرت) (صبر و استقامت سے کام لو جيسا کہ تمہيں حکم دیا گيا ہے) نہایت صبر و تحمل اور استقامت سے کام ليا رسالت کے بار سنگين اور امانت الٰہی کو اپنے ہدف تک پہنچایا۔
اور اپنی مبارک زندگی کے آخری حصہ ميں اپنی عمدہ ترین ذمہ داری اپنا وصی و خليفہ و جانشين معين کرنے اور اس کی آسمانی کتاب قرآن مجيد کی حفاظت ميں انجام دی جو آپ کے ليے آپ کی زندگی کے آخری ایّام ميں اس دعوت الٰہی کو لبيک کہنے سے پہلے جو جبرئيل کے ذریعہ ابلاغ ہوئی تهی جب آخری مرتبہ بعنوان حجة الوادع زیارت خانہٴ خدا کے ليے تشریف لے گئے اور واپسی کے موقع پر عظيم پروردگار کے حکم <یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغ مَا اٴُنزِلَ إِلَيکَْ مِن رَبِّکَ وَإِن لَم تَفعَْل فَمَا بَلَّغتَْ رِسَالَتَہُ> ( ١) (اے پيغمبر ! آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کيا گيا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کيا تو گویا اس کے پيغام کو نہيں پہنچایا) سے جحفہ کے ایک مقام پر جو غدیر خم کے نام سے مشہور ہے جہاں تمام لوگوں اور مختلف ممالک کے راستے جدا ہوتے ہيں۔ وہاں تمام حجّاج اور لوگوں کو جمع کيا اور لوگوں کے مجمع کثير ميں جس کو اسّی ہزار سے لے کر دو لاکه تک مورخين نے تحریر کيا ہے حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کی خلافت و امامت کو اس کے تمام تشخصات کے ساته جس طرح غدیر خم کے مفصل خطبہ ميں مذکور ہے اعلان کيا اور فرمایا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۶٧ ۔ (
۴٢٧ ۔ “ مَن کُنتُْ مَولْاہُ فَ هٰذا عَلِیٌ مَولْاہُ اَللهُّٰمّ اٰولِ مَن اٰولاٰہُ وَ عٰادِ مَن عٰاداہُ وَانصُْر مَن نَصَرَہ وَاخذُْل مَن خَذَلَہُ “
جس جس کا ميںمولا، اولی بالتصرف اور سرپرست ہوں اس اس کا یہ علی مولا ہے اولی بالتصرف اور سرپرست ہے۔ خدایا! تو اسے دوست رکه جو اس کو دوست رکهے اور تو اسے دشمن رکه جو اس سے دشمنی رکهے تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرے تو اسے ذليل و خوار فرما جو اسے ذليل و خوار کرے۔
۴٢٨ ۔ پهر قرآن اور اپنے اہل بيت کو لوگوں کے درميان بطور امانت رکها اور فرمایا: <اِنّی لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَر اٰ د علَی اَلحْوض من اَهلُْ بَيتْی ن ک اٰتبَ اللہِّٰ وَ عِترَْتی کُمُ الثقّلی تارِکٌ فی تَوَسَّلَ ( تَمَسَّکَ) بِهِ مٰا فَقَد نَج یٰ وَمَن تَخَلَّفَ عَنهُْ مٰا فَقَد هَلَکَ اٰ م اِن تَمسَّکتُْم بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا اَبَداً
> یقينا ميں تمہارے درميان دو عظيم چيزیں چهوڑ کر جارہا ہوں کتاب خدا (قرآن مجيد) اور عترت جو ميرے اہل بيت ہيں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض (کوثر) کے کنارے ميرے پاس وارد ہوں جس شخص نے ان دونوں سے وابستگی اور توسل اختيار کيا وہ یقينا نجات پاگيا اور جس شخص نے ان دونوں سے دوری اختيار کی وہ یقينا ہلاک ہوگيا جو شخص ان سے متمسک رہا ہرگز گمراہ نہ ہوگا۔
اس مبارک حدیث کو فریقين (شيعہ و سنی) نے اپنی معتبر کتابوں ميں جسے صحاح ستہ ، سنن، مسانيد ، تفاسير، تواریخ و سير اور لغت وغيرہ ميں ہر ایک نے متعدد طرق سے جو ستّر یا اس سے زائد ہيں نقل کيا ہے۔
جيسا کہ کتاب (حدیث ثقلين) جو دار التقریب بين المذاہب الاسلاميہ مطبوعہ قاہرہ نے منتشر کيا ہے سب کے سب اس بات پر متفق ہيں کہ لفظ کتاب و عترت یا اہل بيت یا دونوں ایک ساته اکثر طرق ميں حضرت نبی اکرم (ص) سے متعدد روایات ميں تواتر کی حد تک پہنچتے ہيں اسے نقل کيا ہے کہ ان سب کا ذکر کرنا اس مختصر کتاب کے دائرہ سے خارج ہے قارئين کرام عام کتابوں کے علاوہ طبقات الانوار علامہ مير حامد حسين الہندی اور کتاب الغدیر آیت الله علامہ امينی رحمة الله عليہم کی طرف رجوع کریں الله تعالیٰ انہيں اسلام اور صاحب ولایت عظمیٰ کی خدمت کے صلہ ميں بہترین جزا عطا فرمائے۔ حضرت بقية الله الاعظم کا ہر دل عزیز مقدس وجود جو قرآن مجيد کے ہم پلہ اور حبلين ميں سے ایک حبل ہے پيغمبر اکرم (ص) نے دونوں کو امت کے درميان بطور امانت چهوڑا اور فرمایا: “” یعنی کبهی بهی کسی وقت ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔
جس طرح قرآن مجيد کے متعلق الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے نازل کيا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں اسی طرح امام عصر عجل الله فرجہ الشریف اسی معيار کی بنا پر پروردگار کی عنایت اور حفظ و امان ميں ہيں تاکہ وہ دونوں شانہ بہ شانہ چل کر پيغمبر اکرم (ص) کے پاس حوض کوثر پر وار دہوں۔
لہٰذا بہت سی روایات ميں وارد ہوا ہے کہ زمين کبهی بهی حجّت خدا سے خالی نہيں رہے گی اور اگر حجّت خدا روئے زمين پر نہ ہو تو زمين اپنے ساکنين کونگل لے گی اور سب نيست و نابود ہوجائيں گے۔
۴٢٩ ۔ “وفی الکافی بِاِس اْٰندِہِ عَنِ الوَْ شٰاء اٰقلَ: سَاٴَلْتُ اَبَا الْحَسَنِ الرِّضٰا عليہ السلام هَلْ اِنهّٰا لا تَبقْ یٰ اِلاَّ اَن یَسخَْطَ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ عَلَی تَبقَْی الاَْرضُْ بِغَيرْ ا اٰ ممٍ ؟ اٰقلَ: لا، قُلْتُ اِنّٰا نَروْی ) العِْ اٰبدِ؟ اٰقلَ: لا تَبقْ یٰ اِذاً لِ سٰاخَت ”( ١
کافی ميں صحيح مسند کے ساته وشا (کہ جن کا نام حسن ابن علی ہے) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے ابو الحسن امام رضا - سے دریافت کيا : کيا امام کے بغير زمين باقی رہے گی؟ فرمایا: نہيں ميں نے عرض کيا: ہم روایت کرتے ہيں کہ بغير امام کے نہ رہے گی مگر جب الله تعالیٰ اپنے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ١٧٩ ، حدیث ١٣ ۔ (
بندوں سے ناراض ہو۔ فرمایا: اس وقت یقينا وہ اضطراب ميں آجائے گی۔
۴٣٠ ۔ “ وفی بصائر الدرجات بِاس اْٰندِہِ عَن اَبی حَمزَْة الثِ مٰالی اٰقلَ: قُلْتُ لابی عبْدِ اللّٰہِ عليہ ) السلام تَبقْی الاَْرضُْ بِغيرِْ اِ اٰ ممٍ؟ اٰقلَ: لَوبَْقِيَتِ الاَْرضُْ بِغيرِْ اِ اٰ ممٍ لِ سٰاخَت”ْ ( ١
صاحب بصائر الدرجات نے اپنے سلسلہٴ سند کے ساته ابو حمزہ ثمالی سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے باقی رہتی ہے؟ فرمایا: زمين اگر بغير امام کے باقی رہے تو تباہ و برباد ہوجائے گی۔ جَعفَْرٍ عليہ السلام قال لَو اَنَّ الاِْ اٰ ممَ رُفعَ مِنَ الاَْرضِْ هَ اٰرسَہ عَن اَبی ۴٣١ ۔ “عَن اَبی ) سٰاَعَةً لَ سٰاخَتُ بِاَهلِْہِ کَ مٰا یَمُوجُ البَْحرُْ بِاَهلِْہِ ” ( ٢
ابو ہراسہ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: اگر ایک ساعت کے ليے بهی امام روئے زمين پر نہ ہو تو زمين اپنے اہل کے ساته اسی طرح حرکت ميں آئے گی جس طرح کشتی والوں کے ليے دریا ميں موج او شدید روانی پيدا ہوتی ہے۔ عَبْدِ اللّٰہِ عليہ عَنْ ابی ۴٣٢ ۔ “وفی الکافی بِاِس اْٰندِہِ عَن عَبدِْ اللہِّٰ بِن سُلَي مْٰانِ ال اْٰ عمِری السلام قٰالَ: مٰازاٴلَتِ الْاَرْضُ اِلاَّ وَللّٰہِ فيهٰا الحُجَةُ یُعَرِّفُ الْحَلالَ وَالحَرٰامَ وَیُدْعُو النّٰاسَ اِلیٰ سَبيل اللّٰہِ )٣) ”
کلينی نے کافی ميں اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته عبد الله ابن سليمان عامری سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب تک دنيا باقی ہے زمين ميں کوئی نہ کوئی حجّت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ۴٨٩ ، حدیث ٢۔ (
٢(۔ الکافی، ج ١، ص ١٧٩ ، حدیث ١٣ ۔ (
٣(۔ الکافی، ج ١، ص ١٧٨ ، حدیث ٣۔ (
خدا ضرور رہتا ہے وہ لوگوں کو حلال و حرام کی معرفت کراتا ہے اور ان کو خدا کے راستے (جو راہِ ہدایت ہے) کی طرف بلاتا ہے۔
عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام الْعُلا قٰالَ: قُلْتُ لِاٴ بی ۴٣٣ ۔ “وفيہ بِاِس اْٰندِہِ عَنِ الحُْسَينِْ بنِْ اَبی ) تکُونُ الْاَرْضُ لَيْسَ فيهٰا اِمٰامٌ ؟ قالَ: لا قُلْتُ : یَکُونُ اِ اٰ م اٰ منِ ؟ قالَ: لا اِلاّٰ وٰاحِدُهُمٰا صٰامِتٌ ” ( ١
نيز اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته حسين ابن العلاء سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - کی خدمت ميں عرض کيا: کيا ایسا ہوسکتا ہے کہ زمين پر کوئی حجّت خدا نہ ہو؟ فرمایا: نہيں، ميں نے عرض کيا: دو امام بهی ایک وقت ميں ہوسکتے ہيں؟ فرمایا: نہيں مگر یہ کہ ان ميں سے ایک صامت و ساکت ہو۔
عَلیِ بنِْ اٰرشِدٍ اٰقلَ: اٰقلَ اَبُو الحَْسَنِ ( ٢) عليہ السلام اِنَّ الْاَرْضُ لا ۴٣۴ ۔ “ وفيہ عَن اَبی ) تَخلوْمِن حُجَّةٍ وَاَنَا وَاللہِّٰ لٰذکَ الحُْجَةُ ”( ٣
نيز اسی کتاب ميں ابو راشد سے نقل کيا ہے کہ حضرت امام علی نقی - نے فرمایا: یقينا خدا نے کبهی بهی زمين کو اپنی حجّت سے خالی نہيں چهوڑا اور خدا کی قسم! ہم حجّتِ خدا ہيں۔
ر عن اَحَدِهمٰا عليہ السلام قٰالَ : اٰقلَ اِنَّ اللہَّٰ لَم یَدَعِ بَصی ۴٣۵ ۔ “ وفيہ باسنادہ عَنْ اَبی ) الاَْرضَْ بِغَيرِ عٰالِمٍ وَلَو لا لٰذِکَ لم یُعرْفِ الحقَّ مِن الباطِل ” ( ۴
کليني نے کافی ميں اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته ابو بصير سے امام محمد باقر یا امام جعفر صادق عليہما السلام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ١٧٨ ، حدیث ٣۔ (
٢(۔ ان سے مراد تيسرے ابو الحسن (یعنی امام علی نقی -) ہيں۔ (
٣(۔ الکافی، ص ١٧٨ ، حدیث ٩۔ (
۴(۔ الکافی، ج ١، ص ١٧٨ ۔ (
سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: یقينا خدائے عزوجل نے بغير عالم کے زمين کو نہيں چهوڑا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو حق باطل سے جدا نہ ہوتا۔
۴٣۶ ۔ “وفی بصائر الدرجات باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن سليمان العامری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال ما راٴیت الارض الا وللّٰہ الحجة یعرف الحلال والحرام ویدعوا الی سبيل اللّٰہ ولاینقطع الحجة من الارض الا اربعين یوماً قبل یوم القيٰمة فاذ رفعت الحجة اغلق باب التوبة ولا ینفع نفسا ایمانها لم تکن آمنت من قبل ان ترفع الحجة اولئک من خلق اللّٰہ وهم الذین عليہم ) تقوم القيٰمة ” ( ١
بصائر الدرجات ميں اس حدیث کی سند کے ساته عبد الله ابن سليمان عامری سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: ہميشہ زمين کے ليے حجّت خدا ہوا کرتا ہے تاکہ وہ حلال و حرام الٰہی کو بيان فرمائے اور لوگوں کی ہدایت کرے۔ مگر یہ کہ قيامت برپا ہونے کے چاليس دن پہلے حجّت خدا موجود نہيں ہوتا اور توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور اس سے پہلے ایمان لانا لازم و ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ۵٠٢ ۔ (