قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

١٩ ۔ طہارت
١٩ ۔ “القرآن منع اللّٰہ تعالیٰ عنہ مس الایادی النجسة وکذلک الحجة - صلوات اللّٰہ عليہ“-
قرآن کے خط اور معصومين کے مقدس نام کو بغير طہارت کے مس کرنا حرام ہے لہٰذا خداوند تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: قرآن مجيد کو پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ کسی کو مس نہيں کرنا چاہيے اسی طرح امام مہدی - کے مقدس نام کو بغير وضو کے ہاته نہيں لگانا چاہيے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّہُ لَقُرآْنٌ کَرِیمٌ # فِی کِتَابٍ مَکنُْونٍ # لایَمَسُّہُ إِلاَّ المُْطَہَّرُونَ # تَنزِیلٌ ) مِن رَبِّ العَْالَمِينَ > ( ١
بے شک یہ بڑا محترم قرآن ہے جسے ایک پوشيدہ کتاب ميں رکها گيا ہے اسے پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ کوئی چهو بهی نہيں سکتا ہے یہ رب العالمين کی طرف سے نازل کيا گيا ہے۔
مذکورہ مبارک آیات سورئہ مبارکہ “الواقعہ” کی آیات ہيں جن کی اساس اس سورہ مبارکہ ميں قيامت عظمیٰ کے اوصاف کا بيان لوگوں کے حشر و نشر کی کيفيت اعمال کی سزا و جزا اور کائنات کے حالات کی تبدیلی لوگوں کا سابقين اصحاب یمين (داہنے طرف والے) اور اصحاب شمال (بائيں طرف والے) ميں تقيسم ہونا نيز ان کے انجام کار پر رکهی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ واقعہ، آیت ٧٧ ۔ ٨٠ ۔ (
اصحاب شمال جو وحدانيت خدا کے سلسلہ ميں در اصل ربوبيت و الوہيت ميں اسی طرح حشر ونشر سزا و جزا کا انکار کرنے والے تهے، قرآن مجيد کے انکار کرنے کے طریقہ سے جو نبی اکرم (ص) پر نازل ہوا جس ميں توحيد کی خبریں سزا جزا اور اس سے مربوط تمام جہات ذکر ہوئے ہيں۔ لہٰذا الله تبارک و تعالیٰ نے سب سے پہلے وحدانيت کا اثبات، قيامت حشر و نشر اور سزا و جزا کا اپنی آیات کے شواہد کے ساته ذکر کيا ہے جيسے الله تعالیٰ کا یہ قول <نحن خلقناکم فلو لا تصدّقون (الی قولہ) نحن جعلناها تذکرةً و متاعاً للمقوین> (ہم نے تم کو پيدا کيا ہے تو دوبارہ پيدا کرنے کی تصدیق کيوں نہيں کرتے یہاں تک کہ فرمایا: ہم نے اسے یاد دہانی کا ذریعہ اور مسافروں کے ليے نفع کا سامان قرار دیا ہے)کہ اس کی تفصيل اور آیات کی تفسير سورئہ واقعہ ميں مذکور ہے بيان فرمایا:
دوسرے یہ کہ قرآن کریم کی واقعيت اور حقانيت اور جو کچه اس ميں ہے محفوظ و مکتوب ہے وہ پروردگار کی طرف سے نازل کيا گيا ہے۔ الله تعالیٰ کا یہ قول (انّہ لقرآن کریم) گزشتہ قسم کا جواب ہے الله تعالیٰ کے اس قول ميں <فلا اقسم بمواقع النجوم و انّہ لقسمٌ لو تعلمون عظيم> (اور ميں تو تاروں کے منزل کی قسم کها کر کہتا ہوں اور تم جانتے ہو کہ وہ قسم بہت بڑی قسم ہے) گزشتہ سياق کے قرینے ) سے ضمير قرآن کی طرف پلڻتی ہے۔ ( ١
قرآن، کریم ہے کيوں کہ اس کے تمام صفات پسندیدہ ہيں، کریم اس لحاظ سے ہے کہ تمام لحاظ سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے اس اعتبار سے کہ تمام اصول و معارف اور دنيا و آخرت کی سعادت اس ميں موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ علامہ طباطائی کی تفسير الميزان سے اقتباس۔ (
کریم ہے: یعنی کثير النفع ہے کيوں کہ اہم علوم کے اصول اور معاش و معاد کی اصلاح پر ) مشتمل ہے ( ١
الله تعالیٰ کا یہ قول <فی کتاب مکنون> قرآن کی دوسری تعریف ہے یعنی کرامت کے علاوہ ایسی کتاب ہے جو تغيّر و تبدّل سے مصون و محفوظ ہے جيسا کہ <ن و القلم> کی آیت ميں ذکر ہوا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے سورئہ “البروج” ميں بهی فرمایا: <بل هو قرآن مجيد فی لوح محفوظ> ( ٢) یقينا یہ بزرگ و برتر قرآن ہے جو لوح محفوظ ميں محفوظ کيا گيا ہے۔ الله تعالیٰ کا یہ قول <لا یمسہ الا المطهرون> یعنی لوح سے باخبر نہيں ہوںگے مگر وہی افراد جو جسمانی کدورتوں سے پاک و پاکيزہ ہيں یا مس نہيں کرے یا قرآن کو ہاته نہيں لگائے گا مگر وہ جو تمام حدث سے پاک ہوں گے اس صورت ميں نفی کا معنی نہی ہوگا یا یہ کہ آیت کتاب مکنون کی صفت بيان کر رہی ہے یعنی یہ کتاب مکنون کہ جس ميں قرآن ہے اسے سوائے پاک افراد کے مس نہيں کرنا چاہيے۔
٣٩٨ ۔ “وفی التہذیب عن الکاظم عليہ السلام : لاٰ تَمَسُّہُ عَل یٰ غَيرِْ طُهرٍْ وَ لاٰ جُنُبَا وَ لاٰ تَمَسَّ ) خيطة( ٣) وَ لاٰ تُعَلِّقُہُ اِنَّ اللہّٰ تَعال یٰ یَقُولُ لاٰ یَمَسَّہُ اِلاَّالمُْطَهَّرُونَ ” ( ۴ تہذیب الاحکام ميں حضرت امام موسی کاظم - نے فرمایا: قرآن کو بغير طہارت کے مس نہيں کرنا چاہيے اسی طرح مجنب کو اس کے خطوط پر ہاته نہيں لگانا چاہيے نہ ہی اسے بغير طہارت کے گردن ميں آویزاں کرنا چاہيے کيوں کہ الله تعالیٰ نے پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ مس کرنے سے منع کيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير صافی، ج ۵، ص ١٢٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ بروج، آیت ٢٣ ۔ (
٣(۔ احتمال پایا جاتا ہے کہ بجائے خيطة کے خطّہ اور تصحيف و ردّ و بدل طباعت یا کاتب کی ( کتابت ميں ہوئی ہو۔
۴(۔ التہذیب، ج ١، ص ١٢٧ ۔ (
٣٩٩ ۔ “ وفی الدر المنثور اخرج ابن مردویہ بسند رواہ عن ابن عبّاس عَنِ النَّبِیَ صَلَّی اللّٰہ صُحُفٍ مُطَهَّرةٍ لاٰ یَمَسُّہُ اِلاَّ عَلَيہِْ وَآلِہ ، اِنَّہُ لَقُرآنٌ کَریمٍ فی کِتابٍ مَکنُْونٍ اٰقلَ عِندَْ اللہِّٰ فی المُْطَهَّرُونَ اٰقلَ المُْقَرَّبُونَ“
سيوطی نے در منثور ميں ابن عباس سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: بے شک یہ بڑا محترم قرآن ہے جسے ایک پوشيدہ کتاب ميں رکها گيا ہے یعنی الله تبارک و تعالیٰ کے پاس پاکيزہ صحيفوں ميں محفوظ ہے جسے پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ مس نہيں کرسکتے یعنی مقرّب افراد کے علاوہ۔
۴٠٠ ۔ “وفی الاحتجاج للطبرسی (رہ) فی روایة ابی ذر الغفاری قٰالَ لَمّٰا تُوُفیَّ رَسُولُ نَ وَالاْٴن صْٰارَ وَعَرَضَہُ اللہِّٰ صَلّی اللہّٰ عَلَيہِْ وآلہ جَمَعَ عَلِیٌّ عليہ السلام القُْرآنَ وَ جٰآءَ بِہِ اِلَی المُ هٰاجِری اَوَّلِ صَفحَْةٍ عَلَيهِْم لِ مٰا قَد اَو صْٰاہُ بِ لٰ ذِکَ رَسُولُ اللہِّٰ صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وآلہ فَلَماٰ فَتَحَہُ اَبُو بَکرُْ خَرَجَ فی فَتَحَ هٰا فَ ضٰائحُ القْوم فَوَثَبَ عُمَرو اٰقلَ اٰی عَلِیُّ اُرُددُْةُ فَلا حٰاجَةَ لَ اٰن فيہِ ، فَاٴَخَذَہُ عليہ السلام وَانصَْرفَ ، ثُمَّ اَحضَْرُوا زَیدَْ بنَْ اٰثبِتٍ وَ اٰ کنَ اٰقرِیاً لِلقُْرآنِ فَ اٰ قلَ لَہُ عُمَرُ اِنَّ عَلِيّاً جٰآءَ اٰن بِالقُْرآنَ وَفيہِ فَ ضٰائحُ حَةٌ وَهَ تٰکَ لِلمُْهاجِرینَ المُْ هٰاجِرینَ وَالاْٴن صْٰارِ وَقَد رَاٴَی اْٰن اَن نُوٴَلِّف القُْرآنِ وَتَسقُْطَ مِنہُْ اٰ م اٰ کنَ فيہِ فَضی وَالاْٴَن صْٰارِ فَاَ جٰابَہُ زَیدٌْ اِل یٰ لٰذِکَ ثُمَّ اٰقلَ فاِن اَنَا فَرَغتُْ مِنَ القُْرآنِ عَل یٰ اٰ م سَاٴَلتُْم وَاَظهَْرَ عَلِیٌ عليہ اَلَّفَہُ اٴَلَيسَْ قَد بَطَلَ کُلَّ اٰ م عَمِلتُْم ؟ اٰقلَ عُمَر فَ مٰا الحْيلَةُ ؟ اٰقلَ زَیدٌْ اَنتُْم اَعلَْمُ السلام الْقُرآنَ الَّذی قَتلِْہِ عَل یٰ یَدِ خٰالِدِ بنِْ لَہُ دُونَْ اَن نَفتُْلَةُ وَ نَستَْریحَ مِنہُْ فَدَبَّرَ فی لَةَ فَ اٰ قلَ عُمَرُ اٰ م حی بِالحْی دِ فَلَم یَقدِْر عَ لٰی لٰذِکَ الْوَلی
اٰ م بَينَْهُم فَلَمَّا استَْخلَْفَ عُمَرُ سُئِلَ عَلِيّاً عَليہ السلام اَن یَدفَْعَ اِلَيهِْم القُْرآْنَ فَيحَْرِّفُوہُ فی بَکرٍْ حَتّ یٰ نَجتَْمع عَلَيہِْ ، کُنتَْ قَد جِئتَْ بِہِ اِل یٰ اَبی فَ اٰ قلَ اٰی اَ اٰب الحَْسَن اَن جِئتَ بِالقُْرآْنِ الَّذی فَ اٰ قلَ عَلَيہِْ السلام هَي هْٰاتَ لَيسَْ اِلی لٰذِکَ سَبيلَ اِنَّ مٰا جِئتُْ بِہِ عل یٰ اَبی بَکرَْ لِتَقُوم اَلحُْجَّةُ عَلَيکُْم لاٰ یَمَسُّہُ عِندْی وَ لاٰ تَقُولُوا یَومَْ القِْ يٰمَةِ اِناٰ کُناٰ عَن هٰ اٰ ذ غٰافِلينَ اَو تَقُولُوا اٰ م جِئتَْ اٰن بِہِ اِنَّ القُْرآْنَ الَّذی اٰقلَ عُمَرُ فَهل لاِظ هْٰارِہِ وَقتٌ مَعلُْومٌ فَ اٰ قلَ عَلَيہ السَّ لاٰم نَعَم اِ اٰ ذ ، اِلاَّ المُْطَهَّرُونَ وَالاَْوصِْ اٰيءُ مِن وُلُدی ) السُّنَّہُ صَلَوٰات اللّٰہ عَلَيْہِ ” ( ١ یُظهِْرُہُ وَیَحمِْلُ الناٰسُّ عَلَيہِْ فَتُجرْی اٰقمَ ال اْٰ قئِمُ مِن وُلدِْی
علامہ طبرسی عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب احتجاج ميں ابوذر کی روایت ميں نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: جب حضرت رسول خدا (ص) کی رحلت ہوئی تو حضرت علی - نے قرآن جمع کيا اور مہاجرین و انصار کے پاس لائے انہيں دکهایا کيوں کہ رسول خدا (ص) نے اسی طرح وضاحت فرمائی تهی۔ جب ابوبکر نے اسے کهولا تو اس ميں قوم کی رسوائياں برآمد ہوئيں تو عمر نے اپنی جگہ سے کهڑے ہوکر کہا: اے علی ! اس قرآن کو واپس لے جائيے ہميں اس کی ضرورت نہيں ہے لہٰذا حضرت علی - اسے اڻها کر واپس لے گئے۔
پهر زید ابن ثابت جو قاری قرآن تهے انہيں حاضر کيا عمر نے کہا: یقينا حضرت علی - ہمارے پاس قرآن لے کر آئے کہ جس ميں مہاجرین و انصار کی رسوائياں موجود تهيں، ہماری رائے اورتدبير یہ ہوئی کہ ہم خود قرآن تاليف کریں اور اس ميں جو مہاجرین و انصار کی ہتک حرمت اور رسوائياں ہوئی تهيں اسے حذف کردیں، چنانچہ زید ابن ثابت نے مثبت جواب دیتے ہوئے کہا: اب اگر ميں تمہاری رائے کے مطابق قرآن جمع کرکے فارغ ہوجاؤں اور جو قرآن علی - نے جمع کيا تها اسے ظاہر کردیں تو کيا تمہاری تمام دسيسہ کاریاں اور کارستانياں خراب نہيں ہوجائيں گی؟ عمر نے کہا: تو پهر چارئہ کار کيا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ١، ص ٢٢٧ ۔ (
ہے ؟ کہا: تم اس کی تدبير کے بارے ميں بہتر جانتے ہو؟ پهر عمر نے کہا: اس کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہيں کہ انہيں قتل کردیں اور ان کی طرف سے سکون حاصل کریں اس تدبير کے بعد مزید غور وفکر کرکے یہ مصمم ارادہ کيا کہ خالد ابن وليد کے بدست انہيں قتل کرایا جائے مگر کامياب نہيں ہوا کيوں کہ وہ اس جرم ميں ملوّث ہونے سے زیادہ عاجز تها کيوں کہ اس کا واقعہ مشہور ہے۔ جب عمر خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت علی - سے درخواست کی کہ انہيں وہی قرآن عطا کریں تاکہ وہ اپنے درميان مہاجرین و انصار کے متعلق جو مذکورہ مطالب ہيں اس ميں تحریف اور ردّ و بدل سے کام ليں بلکہ اسے حذف کردیں۔
لہٰذا کہا کہ: اے ابو الحسن! آپ وہ قرآن ہمارے ليے لے کر آئيں جو ابوبکر کے پاس لے گئے تهے تاکہ ہم لوگ اس پر عمل کریں تو حضرت - نے فرمایا: هيهات! ایسا امر ممکن نہيں ہے اس کا کوئی راستہ نہيں ہے در حقيقت ابوبکر کے سامنے اتمام حجّت کے ليے لایا تها کہ کل روز قيامت یہ نہ کہيں کہ ہم تو اس سے غافل تهے یا نہ کہيں کہ ہمارے سامنے پيش نہيں کيا تها تاکہ ہم اس پر عمل کرتے یقينا وہ قرآن جو ميرے پاس موجود ہے سوائے پاک و پاکيزہ افراد اور ميری اولاد ميں سے جو اوصياء ہيں مس نہيں کرسکتے، عمر نے کہا: کيا اس کے اظہار کے لےے وقت معلوم ہے؟فرمایا: ہاں جس وقت ميری اولاد ميں سے قائم قيام کرے گا تو وہ اس (قرآن) کو ظاہر کرے گا اور لوگوں کو اس کی طرف برانگيختہ کرے گا اور پهر سنت پيغمبر (ص) کو جاری کرے گا۔ انشاء الله تعالی۔
قرآن مجيد خداوند سبحان کے نزدیک عزیز ہے کوئی بهی باطل اس ميں داخل نہيں ہوسکتا۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکرِْ لَمَّا جَائَہُم وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ لاَیَاٴتِْيہِ البَْاطِلُ مِن ) بَينِْ یَدَیہِْ وَلاَمِن خَلفِْہِ تَنزِیلٌ مِن حَکِيمٍ حَمِيدٍ> ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فصلت، آیت ۴٢ ۔ (
بے شک جتنا لوگوں نے قرآن کے آنے کے بعد اس کا انکار کردیا ان کا انجام برا ہے اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس کے سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل آ بهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
ہِ اٰقلَ ذَکَرَ عَن اَبی ۴٠١ ۔ “وفی العيون اَلْبَيْہَقَی عَنْ الصَّوْلی عَنْ مُحَمدِ بْنُ مُوسیَ الرّٰازی ہِ وَالآیَةُ المُْعجِْزَةُ فی الاِ اٰ ممُ عَلِی بنِْ مُوسیَ الرِّ ضٰا عَلَيہِ السّلام یَومْاً اَلقُْرآنَ فَعَظَّمَ الحُْجَّةَ فی اِلَی الجَْنَّةِ ن وَعُرْوَتُہُ الْوُثْ قٰی وَطَریقَتُہُ الْمُثْ لٰی المُوٴَدّی نَظْمِہِ فَقٰالَ هُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتی مِنَ النار لَم یَخلُْقَ من الاَزمَنِة ( فی الازمنة) وَ لاٰ بَعَثُ عَلَی الاَْلسِْنَةِ لِاَنَّہُ لَم یَجعَْل لِزَمانٍ وَالْمُنْجی ہِ ال اْٰبطِلُ مِن بَينِْ یَدَیہِْ وَ لاٰ مِن لُ الْبُرْهٰانِ وَحُجَّةً عَلیٰ کُلِّ انْسٰان لاٰ یَاٴتی دُون زمان بَل جَعَلَ دَلی ) مٍ حَميدٍ ” ( ١ لٌ مِنْ حَکی خَلفِْہِ تَنزْی
عيون اخبار الرضا ميں صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته محمد ابن موسی رازی سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ایک دن حضرت امام علی رضا - نے قرآن مجيد کا ذکر فرمایا پهر اس ميں جو حجّت ہے اسے بہت عظيم شمار کيا پهر فرمایا: قرآن خدا کی ریسمان محکم ہے۔ اور اس کا دستہ استوار اور دین کے ليے معتبر ہے اس کی راہ صحيح راہ ہے کہ (اپنے احکام پر عمل کرنے والوں کو) بہشت کی طرف لے جاتا ہے اور آتش جہنم سے نجات عطا کرتا ہے مرور زمانہ کی وجہ سے وہ فرسودہ نہيں ہوتا، اپنے قارئين کو خستہ نہيں کرتا اس ميں سلاست اور فصاحت و بلاغت ہے کيوں کہ قرآن کسی ایک مخصوص زمانے کے ليے قرار نہيں دیا گيا ہے بلکہ قرآن ہر انسان کے لےے رہنما حجّت اور برہان قرار دیا گيا ہے اس کے سامنے پيچهے یا کسی طرف سے باطل آ بهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون اخبار الرضا، ج ١، ص ١٣٨ ۔ بحار الانوار، ج ١٧ ، ص ٢١١ ، ج ٨٩ ، ص ١۴ ۔ (
ہِ عليہما السلام : اِنَّ رَجُلاً سَئَلَ اَ اٰب مِ بنِْ العَْباٰسِّ عَنِ الرِّ ضٰا عَن اَبی ۴٠٢ ۔ “عَنْ اِبْرٰاہی عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام مٰابٰال الْقُرْآن لاٰ یَزْدٰادُ عَلَی النَّشْرِ وَالدَّرْسِ اِلاَّغضَاٰضَةً قٰالَ عليہ السلام لِاَنَّ دٌ وَ عِندَْ کُلّ زَ اٰ منٍ جَدی اللہّٰ تَ اٰبرَکَ وَتَعال یٰ لَم یَجعَْلُہُ لِزَ اٰ منٍ دُونَ زَ اٰ منٍ وَ لاٰناسٍ دُونَ اٰنسٍ فَهُوَ فی ) کُلِّ قَومٍْ غَضٌّ اِل ییَومِْ القِ يٰمَةِ ” ( ١
اسی کتاب ميں ابراہيم ابن عباس سے انہوں نے حضرت امام رضا - سے انہوں نے اپنے والد گرامی سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق - سے دریافت کيا:کيوں قرآن کی جتنا زیادہ نشرو اشاعت کرتے ہيں اور اس کی تدریس کرتے ہيں اس کی شادابی اور تازگی ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے (اس سے احساس خستگی نفرت اور دوری نہيں پيدا ہوتی) تو امام - نے فرمایا: چونکہ الله تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجيد کو کسی ایک ہی زمانہ سے مخصوص نہيں کيا ہے اور اسی طرح صرف خاص لوگوں کے ليے نہيں نازل فرمایا بلکہ ہر زمانے ميں اور ہر قوم کے نزدیک صبح قيامت تک ہر دل عزیز اور شادابی و تازگی کے ساته ہے۔
۴٠٣ ۔ “وفی العياشی : عَن یُوسُفُ بنِْ عَبدِْ الرَّح مْٰن رَفَعَہُ اِل یٰ الحَْرثِْ الاَعوَْرِ اٰقلَ: دَخَلتُْ نَ اِنّٰا اِذٰا کُنّٰا رَ الُمُوٴمِنی طاٰلِبٍ عليہ السلام فَقُلْتُ یٰا اَمی نَ عَلیّ بنِْ اَبی عَلی اَميرِ المُوٴمِنی تَسُرُّبِہِ دینُ اٰن وَاِ اٰ ذ خَرَج اْٰن من عِندِکَ سَمِع اْٰن اَش اْٰيءً مُختَْلِفَةً مَغمُْوسة لاٰ نَدرْی عِندَْکَ سَمِعنَْا الَّذی اٰ مهِیَ اٰقلَ اَوقَْد فَعَلُو هٰا اٰقلَ قُلتُْ نَعَم ، اٰقلَ سَمِعتُْ رَسُولَ اللہِّٰ صَلَّی اللہّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ یَقُولُ اَ اٰتنی اُمَّتِکَ فِتنَْةً قُلتُْ فَمَا المَْخرَْجُ مِن هْٰا فَ اٰ قلَ کِ اٰتبَ اللہِّٰ جَبْرَئيلُ عليہ السلام فَقٰالَ یٰا مُحَمَّد سَيَکُونُ فی ہِ بَ اٰينُ اٰ م قَبلِْکُم من خبر وَخَبَرِ اٰ م بَعدُْکمُْ وَ حُکمِْ ماٰبََينَْکُم وُهَوَ الوَْصلُْ لَيسَْ بِالهَْزلْ مَن وَلاہَ فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی شيخ طوسی ، ص ۵٨٠ ۔ (
نِ غَيرِْہِ اَصَلَّہُ اللہُّٰ وَهُوَ حَبلُْ اللہِّٰ المَْتی مِن جَباٰرٍّ فَعَمِلَ بِغَيرِْہِ قَصَمَہُ اللہُّٰ وَمَن التَمَسَ الهُْد یٰ فی قُہُ الاَهْوٰاءُ وَلاٰتُلْبِسُہ الَاْلسنَةُ وَلاٰ یَخْلُوا عَنْ الرَّدِّ م لاٰ تُزی وَهُوَ الذِّکرْ الْحَکيم وَهُوَ الصِّرٰاطُ السُمْتَقی لَم تَکنہ الجِْنُّ اِ اٰ ذ سَمِعَہ اَن اٰقلُوا اِناٰ سَمِع اْٰن عَ جٰائِبُہُ وَ لاٰ یَشبَْعُ مِنهْا العُْلَ مٰاءَ هُوَ الَّذی وَ لاٰ یَنقَْضی اِلَی الرُّشدِْ ، مَن اٰقلَ بِہِ صَدَّقَ وَمَن عَمِلَ بِہِ اٴجِرَ وَمَن اِعتَْصَمَ بِہِ هُدِیَ عَ لٰی قُرآْناً عَجَبَاً یَهدْی ہِ ال اْٰبطِلُ بَينَْ یَدَیہِْ وَمِن خَلفِْہِ تَنزْیلٌ مِن حَکيمٍ مٍ هُوَ الْکِتٰابُ الْعَزیزِ الَّذی لاٰ یَاٴْتی صِ اٰرطٍ مُستَْقی ) حَميدٍ ” ( ١
عياشی نے اپنی تفسير ميں یوسف ابن عبد الرحمن سے مرفوعاً نقل کيا ہے کہ حارث اعور کا بيان ہے : ميں نے حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کی خدمت اقدس ميں پہنچ کر عرض کيا: یا امير المومنين! ہم جب آپ کی خدمت ميں ہوتے ہيں تو ایسی چيزیں ہمارے گوش گزار ہوتی ہيں جو ہمارے دین ميں مسرت کا باعث ہوتی ہيں اور جب آپ کے پاس سے خارج ہوجاتے ہيں تو ایسی مختلف اور نامعلوم چيزیں سنتے ہيں کہ اس کا ہميں علم بهی نہيں ہوتا کہ وہ کيا ہيں؟ فرمایا: کيا جو کچه سنا ہے اس پر عمل کيا ہے؟ ميں نے عرض کيا: ہاں، فرمایا: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : جبرئيل ميرے پاس آئے اور عرض کيا: یا محمد ! عنقریب آپ کی امت ميں فتنہ و فساد برپا ہوگا ميں نے عرض کيا: اس سے راہ فرار کيسے ممکن ہے ؟ تو فرمایا: کتاب خدا ميں تم سے پہلے والوں کی خبر بيان ہوئی ہے اور جو کچه تمہارے بعد واقع ہوگا اور وہ حکم جو تمہارے درميان واقع ہوگا قرآن حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے وہ لغو اور مزاحيہ کلام نہيں ہے جو شخص جباروں اور ظالموں ميں سے اس کے درميان رہتے ہوئے اس سے روگردانی کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو الله تعالیٰ اس کی کمر توڑ دے گا اور جو شخص اس کے غير سے ہدایت کا خواہاں ہو خدا اسے گمراہ کردے گا اور وہ الله کی محکم رسی ہے اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣۔ تفسير صافی، ج ١، ص ١۶ ۔ (
وہی ذکر حکيم اور صراطِ مستقيم ہے اسے خواہشات نفسانی زینت نہيں دے سکتی اسے زبانيں اور مختلف بيانات اشتباہ و خلل ميں نہيں ڈال سکتے اور تردید سے بهی خالی نہيں ہوسکتا اس کے عجائب تمام ہونے والے نہيں ہيں علماء (اس کے مفاہيم عاليہ سے) سير نہيں ہوتے وہ وہی الله کا کلام ہے کہ جب جنّات نے اسے سنا تو مخفی نہيں کرسکے اور کہا: ہم نے ایک بڑا عجيب قرآن سنا ہے جو نيکی کی طرف ہدایت کرتا ہے جو شخص اس ميں غور وفکر کرے گا اس کی تصدیق کرے گا اور جو شخص اس پر عمل کرے گا ثواب پائے گا جو شخص اس سے متمسک ہوگا راہ راست کی طرف ہدایت پائے گا وہ وہی کتاب عزیز ہے کہ جس کے سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل آ بهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
لَ لِرَسُولِ اللہِّٰ صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وآلہ اِنّ اُمَّتُکَ ۴٠۴ ۔ “ومِنہ عَنِ الحَْسَنِ بنِْ عَلیٍ اٰقلَ قی ہِ البْاطِلُ مِن بَينِْ یَدیہِ لاٰیَاٴتی سَيُفتَْتُن فَسُئِلَ فَما المَْخرَْجُ مِن تِلکَْ فَ اٰ قلَ کِتابَ اللہِّٰ العَْزیزِ الَّذی غَيرِْہِ اَضَلَّہُ اللہُّٰ وَمَن وَلی هٰذَا دٍ مَن اِبتَْغ يٰ ہ العِْلمَْ فی م حَمی لٌ مِنْ حَکی وَمِن خَلفِْہِ تَنزِْی مِ نِ وَالصِّرٰاطِ الْمُسْتَقی م وَالنُّورُ المُبی الاْٴَمرِْ مِن جَباٰرٍّ فَعَمِلَ بِغَيرِْہِ قَصَمَہُ اللہُّٰ وَهُوَ الذِّکرُْ الحَْکی ہِ خَبَر اٰ م قَبلْکُم وَنَبَاٴَ اٰ م بَعدْکُم وَحُکمُْ اٰ م بَينَْکُم وَهُوَ الفَْصلُْ لَيسَْ بِالهَْزلِْ وَهُوَ الَّذی سَمِعَہُ الجِْنُّ فی فَلَم تَ اٰنهٰانِ اٰقلُوا اِناٰ سَمِع اْٰن قُرآْناً عَجَباً یَهدْی الیَ الرُّشدِْ فَامَناٰ بِہِ وَ لاٰ یَخلُْقُ عَل یٰ طُولِ الرَّدِ وَ لاٰ ) عِبَرُہُ وَلاٰ تُفْنیٰ عَجٰائِبُہُ ” ( ١ یَنقَْضی
اسی کتاب ميں حسن ابن علی کا بيان ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) سے عرض کيا گيا: عنقریب آپ کی امت فتنوں ميں گِهر جائے گی لہٰذا آنحضرت (ص) سے دریافت کيا: ان فتنوں سے فرار کا راستہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ۔ ص ٢٧ ۔ (
کيا ہے؟ فرمایا: وہ وہی کتاب عزیز ہے کہ جس کے سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل آ بهی نہيں سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے جو شخص اس کے علاوہ علم کی تلاش کرے گا خدا اسے گمراہ کرے گا اور جو شخص ظالموں اور جباروں ميں سے اس امر کو اپنے ذمہ لے گا اور اس کے علاوہ وہ عمل کرے تو الله تعالیٰ ا س کی کمر توڑ دے گا اور وہ ذکر حکيم ہے اور آشکارا نور ہے صراط مستقيم ہے اس ميں گزشتہ لوگوں کی خبریں ہيں جو تم سے پہلے تهے اور آئندہ آنے والے افراد کی بهی خبریں ہيں جو تمہارے بعد آئيں گے اور جو کچه تمہارے درميان واقع ہوگا اس کا حکم موجود ہے وہ حق و باطل کے درميان فيصلہ کرنے والی ہے یہ مزاق، لغو اور بے ہودہ کلام نہيں ہے ایسا کلام ہے کہ جسے جنات نے سن کر کہا: ہم نے ایک بڑا عجيب قرآن سنا ہے جو نيکی کی ہدایت کرتا ہے تو ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہيں زمانے کا طولانی ہونا اسے کہنہ نہيں کرے گا اس کی عبرتيں ختم نہيں ہوں گی اور اس کے عجائب فنا پذیر نہيں ہوں گے۔
مذکورہ آیات و روایات کے مطلب کا ماحصل یہ ہے کہ پاکيزہ اور مقرّب افراد کے علاوہ کہ جس سے مراد ائمہٴ اطہار ہيں ناپاک اورنجس ہاتهوں سے قرآن مجيد کو مس کرنے سے منع کيا گيا ہے اور باطل کسی بهی صورت ميں اس ميں داخل نہيں ہوسکتا۔
جس طرح قرآن مجيد ناپاک ہاتهوں کے مس کرنے سے مصون و محفوظ ہے اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم اور ان کے آباء و اجداد کرام کا مقدس وجود، نجس ہاتهوں اور ناپاک جڑوں کے نفوذ اور تمام آلودگيوں سے محفوظ ہے۔
۴٠۵ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن اَحمَْدِ بنِْ عَلی بنِْ مُحَمَّدِ بنِْ عَبدِْ اللہِّٰ بنِْ عُمَرِ بنِْ اَبی طٰالِبٍ عليہ السلام عَنْ اَبی عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام ، قٰالَ: اِنَّ اللہَّٰ اٰ کنَ اِذ لاٰ اٰ کنَ فَخَلَقَ ال اْٰ کنَ نَوَّرَت مِنہُْ الاْٴَن اْٰورَ وَهُوَ وَالمَْ اٰ کنَ وَخَلَقَ نُورَ الاَْن اْٰورَ الَّذی نَوّرَت مِنہُْ الاْٴَن اْٰورُ وَاَجرْ یٰ فيہِ مِن نُورِہِ الَّذی النّورِ الَّذی خَلَقَ مِنہُْ مُحَمّداً وَ عَلِياً فَلَم یَ اٰزلا نُورَینِْ اَوَّلَينِْ اِذ لاٰشَیء کُونَْ قَبلَْهُ مٰا فَلَم نَ اٰرلاٰ یَجرِْ اٰینِ عَبدِْ اللہِّٰ واَبی اَطهَْرِ طٰاہِرَینَْ فی الاَص لْاٰبِ الطاٰهِّرَةِ حَتّ یٰ افتَْرَ اٰق فی طٰاهِرَینِْ مُطَهَّرَینِْ فی ) طٰالِبٍ ” ( ١
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته احمد ابن علی ابن محمد ابن عبد الله ابن عمر ابن ابی طالب - سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: یقينا الله تعالیٰ تها جب کوئی نہ تها۔ خدا نے کون و مکان کو پيدا کيا اور نور الانوار کو خلق کيا جس سے تمام انوار نے روشنی حاصل کی اور اس ميں اپنے نور کو جگہ دی کہ جس سے تمام انوار کو ضياء دی (اور اس سے نشاٴة پائے) یہی وہ نور تها کہ جس سے محمد (ص) و علی - کو پيدا کيا یہی دو نسل نورِ اولين سے تهے اِن سے پہلے کوئی اور شے نہ تهی یہ طاہر و مطہر اصلاب طاہرہ کی طرف منتقل ہو رہے ہيں یہاںتک کہ دو پاک و پاکيزہ صلبوں یعنی صلب عبدالله (پيغمبر اکرم (ص) کے والد گرامی اور ابو طالب (حضرت علی - کے پدر بزرگوار) ميں منتقل ہوئے۔
۴٠۶ ۔ “ وفی مصباح الاٴنوار باسنادہ عَن اَنسِ عَنِ النَّبی صَلَّی اللہَّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ اٰقلَ: اِنَ اللہَّٰ وَخَلَقَ عَلِيّاً اٰفطِمَةَ وَالحَْسَنِ وَالحُْسَينِْ عليہم السلام قَبلَْ اَن یَخلُْقَ آدَمَ حينَ لاٰ سَ مٰاءٌ خَلَقَنی مَبنِْيّةٌ وَ لاٰ اَرضٌْ مَدحِْيَّةٌ وَ لاٰ ظُلمَْةَ وَ لاٰ نُورَ وَلاہ شَمسٌْ وَ لاٰ قَمَر وَ لاٰ جَنَةَ وَ لاٰ نَارَ فَ اٰ قلَ العَْ اٰبسُ : فَکَيفَْ کٰانَ بَدْوُ خَلْقِکُمْ یا رَسُولَ اللّٰہِ فَقٰالَ : اٰی عَم لَماٰ اَ اٰردَ اللہَّٰ اَن یَخلُْقَ اٰن تَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِن هْٰا نُوراً، وَخَلَقَ عَلِيّاً وَ اٰفطِمَةَ ثُمَّ تَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ اُخرْ یٰ فَخَلَقَ مِن هْٰا رُوحاً ، ثُمَّ خَلَطَ النُورَ بِالرُّوح فَخَلَقَنی نَ لاٰ تَسْبيحَ وَنُقَدِّسُہُ حينَ لاٰ تَقْدیسَ ، فَلَمّٰا اَرٰادَ اللّٰہ تعالی وَالحَْسَنِ وَالحُْسَينِْ ، فَکُناٰ نُسَبِّحُہُ حی مِنْ نُورِ اللّٰہِ ، وَنُوری وَنُوری ، فَخَلَقَ مِنہُْ العَْرشَ مِن نُوری اَن یشَْاٴءَ خَلقَْہُ فَتَقَ نُوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۴۴٢ ۔ (
عَلیٍّ وَخَلَقَ مِنہُْ المَلائِکَة وَالمَلائِکة مِن نُورہ عَلي وَنُورٌعَلي اَفضَْلُ مِنَ العَْرشِْ ، ثُمَّ فَتَقَ نُورَاَخی فَخَلَقَ مِنہُْ السَّ مٰ اٰوتِ وَالاَْرضَْ فَالسَّ مٰ اٰوتِ مِن نُورِ اللہّٰ وَ عَلي اَفضَْلُ مِن الملْائِکَةِ ثُمَّ فَتَقَ نُورَ ابنَْتی اٰفطِمَةُ اَفضَْلُ مِنَ السَّ مٰ اٰوت فاطِمَةُ مِن نُورُ اللہِّٰ وَابنَْتی اٰفطِمَةَ ونُورُ ابنَْتی وَالاَْرضِْ مِن نُورِ ابنَتی الحَْسَنِ وَخَلَقَ مِنہُْ الشَّمسِْ وَالقَْمَرِ، فالشَّمسُْ وَالقَْمَرُ مِن نُورُ وَلَدِی وَِالاَْرضِْ ثُمَّ فَتَقَ نُورٌ وَلَدی الحَْسَن عليہ السلام وَنُورُ الحَْسَنِ مِن نُور اللہِّٰ وَالحَْسَنُ اَفضَْلُ مِنَ الشَّمسِْ وَالقَْمَرِ ، ثُمَ فَتَقَ نُورَ نِ مِنْ نُورُ ن ، فَالْجَنَّةُ وَالْحُورَ العی وَلَدِیَ الحُْسَينِ عليہ السلام فَخَلَقَ مِنہُْ الجَْنَّةَ وَالحُْورَ العی وَلَدِیَ الحُْسَينُْ وَ نُورُ وَوَلَدِیَ الحُْسَينُْ مِن نورُ اللہِّٰ ، وَلَدِیَ الحُْسَينْ اَفضَْلُ مِنَ الجَْنَّةِ وَالحُْورَ العِْينِْ ) الخبر”( ١
صاحب مصباح الانوار نے اپنی سند کے ساته انس ابن مالک سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا : بحار الانوار ميں رسول اکرم (ص) سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: یقينا الله تعالیٰ نے مجهے خلق فرمایا اور علی، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام کو بهی خلق فرمایا قبل اس کے کہ آدم کو پيدا کرے، جس وقت نہ آسمان وجود ميں آیا تها اور نہ ہی زمين کا فرش بچهایا گيا تها نہ ہی نور و ظلمت ، آفتاب و ماہتاب اور جنت و جہنم کا وجود تها پهر عباس نے عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! آپ کی خلقت کے آغاز کی کيفيت کيا تهی؟ فرمایا: اے چچا! جس زمانے ميں خدائے بزرگ و برتر نے ہميں خلق کرنے کا ارادہ کيا تو ایک کلمہ کہا اور اس کلمے سے ایک نور خلق فرمایا پهر دوسرا کلمہ کہا اور اس سے ایک روح خلق کی پهر خود کو روح کے ساته مخلوط کيا پهر مجهے خلق کيا اور علی، فاطمہ اور حسن و حسين کو بهی خلق فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۵۴ ، ص ١٩٣ ۔ (
ہم وہ تهے کہ خدائے سبحان کی تسبيح و تقدیس کرتے تهے جب کوئی بهی تسبيح و تقدیس کرنے والا نہيں تها، جب خدائے بزرگ و برتر نے اپنی مخلوقات کو ایجاد و تخليق کا ارادہ کيا تو ميرے نور کو شگافتہ کيا اور عرش کو ميرے نور سے خلق فرمایا اور ميرا نور خدا کا نور ہے اور ميرا نور عرش سے افضل ہے، پهر ميرے بهائی علی کے نور کو شگافتہ کيا اور ان کے نور سے ملائکہ کو خلق فرمایا پهر ملائکہ کو علی کے نور سے اور علی کے نور کو خدا کے نور سے خلق کيا اور علی ملائکہ سے افضل ہيں اس نور کے بعد ميری بيڻی کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے آسمانوں اور زمين کو پيدا کيا پس تمام آسمان اور زمين ميری بيڻی فاطمہ کے نور سے خلق ہوئے اور ميری بيڻی فاطمہ کا نور خدا کا نور ہے اور ميری بيڻی فاطمہ آسمانوں اور زمين سے افضل ہے، پهر ميرے بيڻے حسن کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے آفتاب و ماہتاب کو خلق فرمایا اور سورج چاند کو ميرے بيڻے حسن کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے کا نور خدا کے نور سے ہے اور حسن آفتاب و ماہتاب سے افضل ہے، اس کے بعد ميرے بيڻے حسين کے نور کو شگافتہ فرمایا اور اس سے بہشت اور حور العين کے نور کو خلق کيا پهر بہشت اور حور العين کو ميرے بيڻے حسين کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے حسين کا نور خدائے سبحان کے نور سے ہے اور ميرا بيڻا حسين (عليہ و عليہم صلوات الله و سلامہ) بہشت اور حور العين سے افضل ہے۔
جَعفَْرِ ال اٰثنیِ عليہ ۴٠٧ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن محمد بن سنان قٰالَ کُنْتُ عِندَ اَبی السلام فَاٴَجرَیتُْ اختِْ لاٰفَ الشيعَةِ فَ اٰ قلَ اٰی مُحَمَّد اٴنَّ اللہّٰ تَ اٰبرَکَ وَتَعال یٰ لَم نَزَل مُتَفَرِداً بِوَح اْٰ دنِيّتِہِ ثُمَّ عَ الاَشّ اٰيء فَاٴَشهَْدَهُم خَلقَْ هٰا وَاَجرْیَ خَلَقَ مُحَمَّداً وَعَلِياً وَ اٰفطِمَةَ فَمَکثوا اَلفَْ دَهرٍْ ثُمَّ خَلَقَ جَمی طٰاعَتَهُم عَلَي هْٰا وَفَوضَ اُمُورَها اِلَيهِْم فَهُم یُحَلّونَ اٰ م یَ شٰاوٴُنَ وَیُحَرَّمُونَ اٰ م یَ شٰآوٴُنَ وَلَن یَشاوٴُ اِلاَّ اَن مَن تَقَدَّمَ هٰا حَرَقَ وَمَن تَخَلَّفَ عَن هْٰا یَشٰآءَ اللّٰہ تَبٰارک و تعالیٰ ثُمَّ قٰالَ یٰا مُحَمَّد هٰذِہِ الدَّیانَةُ الَّتی مَحَقَ وَ مَن لَزِمَ هٰا لِحَقَّ ) خُذ هْٰا اِلَيکَْ اٰی مُحَمَّدُ” ( ١
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته محمد ابن سنان سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں ابو جعفر ثانی امام محمد تقی - کی خدمت اقدس ميں تها اور آپ کے سامنے شيعوں کے اختلاف کا ذکر کيا۔ حضرت نے فرمایا: اے محمد! الله تعالیٰ ہميشہ سے اپنی وحدانيت ميں واحد و یکتا اور منحصر بفرد ہے لہٰذا محمد و علی اور فاطمہ کو پيدا کيا پهر انہوں نے اسی طرح ہزار زمانے تک زندگی بسر کی پهر تمام اشياء کو خلق فرمایا پهر ان لوگوں کو ان تمام اشياء کی خلقت پر گواہ بنایا ان لوگوں کو اپنی مخلوقات کا مشاہدہ کرایا اور ان کی اطاعت ان کے ليے نافذ کی اور ان کے معاملات کو ان کے سپرد کيا پس وہ جس چيز کو چاہتے ہيں حلال کرتے ہيں اور جسے چاہتے ہيں حرام کرتے ہيں اور وہ نہيں چاہتے مگر وہی جس کو الله چاہتا ہے۔ پهر فرمایا: اے محمد! یہ وہ دیانت الٰہيہ ہے کہ جو اس سے آگے بڑها اسلام سے خارج ہوا اور جو پيچهے رہے وہ ہلاک ہوجائے گا اور جو ان کے ہمراہ ثابت قدم رہا ان کے ساته رہے گا۔ لہٰذا اے محمد! تم یہی طریقہ اختيار کرو۔
مذکورہ آیات و روایات کے مطلب کا ماحصل یہ ہے کہ پاکيزہ اور مقرب افراد کے علاوہ کہ جس سے مراد ائمہٴ اطہار ہيں ناپاک اورنجس ہاتهوں سے قرآن مجيد کو مس کرنے سے منع کيا گيا ہے اور باطل کسی بهی صورت ميں اس ميں داخل نہيں ہوسکتا۔ جس طرح قرآن مجيد ناپاک ہاتهوں کے مس کرنے سے مصون و محفوظ ہے اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم اور ان کے آباء و اجداد کرام کا مقدس وجود نجس ہاتهوں اور ناپاک جڑوں کے نفوذ اور تمام آلودگيوں سے محفوظ ہے۔
لَوحٍْ مَحفُْوظٍ> (یقينا یہ بزرگ و برتر دٌ فی اور الله تعالیٰ کا یہ قول: بَلْ هُوَ قُرآنٌ مَجی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۴۴١ ۔ (
قرآن ہے جو لوح محفوظ ميں محفوظ کيا گيا ہے) ان لوگوں کے اس جيسے اصرار کا مقصد قرآن کی تکذیب ہے۔ ایسا نہيں ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہيں بلکہ قرآن ایسی کتاب ہے جو پڑهی گئی ہے، بہت عظيم ہے اپنے معانی ميں اور عزیز و گراں قدر ہے اپنے علوم و معارف ميں جو ایک لوح ميں کذب و باطل اور شيطانوں کے مس کرنے سے مصون و محفوظ ہے۔ لَوحٍْ مَحفُْوظٍ > دُ فی ۴٠٨ ۔ “و فی تفسير نور الثقلين : فی قول اللّٰہ بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجی لَ فَاِ اٰ ذ تَکَلَّمَ الرَّبُّ نِ اِس اْٰرفی نِ العَْرشِْ عَل یٰ جَبی اٰقلَ اللَّوحُْ المَْحفُْوظُ لَہُ طَرَ اٰفنِ طَرَفٌ عَلی یَمی اللَّوْحِ اِلیٰ اللَّوحِْ فَيُوحِی بِ مٰا فی لَ فَنَظَر فی نَ اِس اْٰرفی جَلَّ ذِکرُْہُ بِالوَْحیِْ ضُرِبَ اللَّوحُْ جَبی ) جِبْرَئيلَ عليہ السلام ” ( ١
تفسير نور الثقلين ميں آیہٴ مذکورہ کے ذیل ميں فرمایا: لوح محفوظ کے دو، سرے ہيں ایک سرا عرش کے داہنی طرف ہے جو اسرافيل کی جبين پر ہے جب الله تعالیٰ وحی کے ذریعے کلام کرتا ہے تو وہ لوح اسرافيل کی جبين پر لگتی ہے پهر لوح ميں دیکهتا ہے اس کے بعد جو کچه اس ميں ہوتا ہے جبرئيل کی طرف وحی کرتا ہے۔
۴٠٩ ۔ “ وفی الدر المنثور اَخرَْجَ اَبُو الشَّيخِْ وَابنُْ مَردَْویہْ عَن اِبنِْ عَبّاس اٰقلَ اٰقلَ رَسُولَ اللہُّٰ صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ خَلَقَ اللہُّٰ لَوحْاً مِن دُرَّةٍ بَي ضْٰآء دَفَ اٰتہُ مِن زَبَرجَْدٍ خَض آْٰرء کِ اٰتبُہُ مِن نُورٍ یلخَطُ اِلَيہِْ تُ وَیَخلُْقُ وَیَرزُقُ وَیُعِزُّ وَیُذِلُّ وَیَفعَْلُ اٰ میَ شٰآءُ ” وَیُمی کُلِّ یَومٍْ ثَ لاٰثُ مِاٴةَ وَسِتّينَ لَحظَْةً یُحيْی فی )٢)
سيوطی نے اپنی کتاب در منثور ميں ذکر کيا ہے کہ ابو الشيخ اور ابن مردویہ نے اس حدیث کو ابن عباس سے نقل کيا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: الله تعالیٰ نے لوح کو بہت سفيد و روشن موتی سے خلق کيا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير نور الثقلين، ج ۵، ص ۵۴٨ ۔ (
٢(۔ الدر المنثور، ج ۶، ص ٣٣۵ ۔ (
اس کا کنارہ سبز زبرجد سے بنا ہوا ہے اس کے نوشتہ جات نور سے لکهے گئے ہيں وہ اس کی طرف روزانہ تين سو ساڻه مرتبہ اپنی نگاہ قدرت سے نظر کرتا ہے زندہ کرتا ہے موت دیتا ہے خلق کرتا ہے روزی عطا کرتا ہے عزت بخشتا ہے اور ذليل کرتا ہے اور جو بهی امر اس کی مشيت سے متعلق ہوتا ہے انجام دیتا ہے۔
۴١٠ ۔ “وفی المجمع : وَ اٰقلُوا لاٰ یَجُوزَ لِلجْنُبِ وَال حْٰائِضِ وَالمُْحدِْثِ مَسُّ المُْصحَْفِ عَن مُحَمَّد بنِْ ) عَلِیِ ال اْٰبقِرِ عليہ السلام ” ( ١
مجمع البيان ميں امام محمد باقر - سے نقل ہوا ہے کہ حضرت نے فرمایا: مجنب، حائض اور محدث انسان کے ليے جائز نہيں ہے کہ وہ قرآن کو مس کرے۔ مولف کہتے ہيں: مذکورہ مطالب قرآن مجيد کی عظمت و منزلت کی نشان دہی کرتے ہيں کہ اسے ناپاک ہاتهوں کے مس ہونے سے مصون و محفوظ رہنا چاہيے اور اسی طرح حضرت بقية الله الاعظم کا مقدس وجود اور تمام ائمہٴ طاہرین کو بهی ہر قسم کے ناپاک اور آلودہ ہاتهوں کے مس کرنے سے محفوظ ہونا چاہيے کيوں کہ ان کی ذوات مقدسہ نور اور عظمت الٰہی کے نور سے متفرع ہوئی ہے جو سراپا نور ہيں۔
۴١١ ۔ “عن الکافی باسنادہ عن اَحمَْدِ بنِْ عَلی بنِْ مُحَمَّدِ بنِْ عَبدِْ اللہِّٰ بنِْ عُمَرِ بنِْ اَبی طٰالِبٍ عليہ السلام عَنْ اَبی عَبْدِ اللّٰہِ عليہ السلام ، قٰالَ: اِنَّ اللہَّٰ اٰ کنَ اِذ لاٰ اٰ کنَ فَخَلَقَ ال اْٰ کنَ نَوَّرَت مِنہُْ الاْٴَن اْٰورَ وَهُوَ وَالمَْ اٰ کنَ وَخَلَقَ نُورَ الاَْن اْٰورِ الَّذی نَوّرَت مِنہُْ الاْٴَن اْٰور وَاَجرْ یٰ فيہِ مِن نُورِہِ الَّذی النّورُ الَّذی خَلَقَ مِنہُْ مُحَمّداً وَ عَلِياً فَلَم یَ اٰزلا نُورَینِْ اَوَّلَينِْ اِذ لاٰشَیء کونَْ قَبلَْهُ مٰا فَلَم نَ اٰرلاٰ یَجرِْ اٰینِ طٰاهِرَینِْ مُطَهَّرَینِْ فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ٩، ص ٣٧٧ ۔ (
طٰالِبٍ عليہ السلام ” عَبْدِ اللّٰہِ و اَبی اَطهَْرِ طٰاہِرَینَْ فی الاَص لْاٰبِ الطاٰهِّرَةِ حَتّ یٰ اَفتَرَ اٰق فی )١)
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الله ابن عمر ابن ابی طالب سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: یقينا الله تعالیٰ تها جب کوئی نہ تها۔ خدا نے کون و مکان کو پيدا کيا اور نور الانوار کو خلق کيا جس سے تمام انوار نے روشنی حاصل کی اور اس ميں اپنے نور کو جگہ دی کہ جس سے تمام انوار کو ضياء دی (اور اس سے نشاٴة پائے) یہی وہ نور تها کہ جس سے محمد (ص) و علی - کو پيدا کيا یہی دو نسل نورِ اولين سے تهے اِن سے پہلے کوئی اور شے نہ تهی یہ طاہر و مطہر اصلاب طاہرہ کی طرف منتقل ہو رہے ہيں یہاںتک کہ دو پاک و پاکيزہ صلبوں یعنی صلب عبدالله (پيغمبر اکرم (ص) کے والد گرامی اور ابو طالب (حضرت علی - کے پدر بزرگوار) ميں منتقل ہوئے۔ ۴١٢ ۔ “ عن مصباح الانوار باسنادہ عَنْ اَنسِ بن مالک عَنِ النَّبی صَلَّی اللّٰہَ عَلَيْہِ وَآلِہِ قٰالَ:
وَخَلَقَ عَلِيّاً اٰفطِمَةَ وَالحَْسَنِ وَالحُْسَينَْ عليہم السلام قَبلَْ اَن یَخلُْقَ آدَمَ حينَ لاٰ اِنَ اللہَّٰ خَلَقَنی سَ مٰاءٌ مَبنِْيّةٌ وَ لاٰ اَرضٌْ مَدحِْيَّةٌ وَ لاٰ ظُلمَْةٌ وَ لاٰ نُورٌ وَلاشَمسٌْ وَ لاٰ قَمَر وَ لاٰ جَنَة وَ لاٰ نَار فَ اٰ قلَ العَْ اٰبسُ : فَکَيفَْ اٰ کنَ بَدوُْ خَلقِْکُم یا رَسُولَ اللہِّٰ فَ اٰ قلَ : اٰی عَم لَماٰ اَ اٰردَ اللہَّٰ اَن یَخلُْقَ اٰن تَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِن هْٰا وَخَلَقَ عَلِيّاً وَ اٰفطِمَةَ نُوراً، ثُمَّ تَکَلَّمَ بِکَلِمَةٍ اُخرْ یٰ فَخَلَقَ مِن هْٰا روْحاً ، ثُمَّ خَلَطَ النُورَ بِالرُّوح فَخَلَقَنی نَ لاٰ تَسبْيحَ وَنُقَدِّسُ حينَ لاٰ تَقدْیسَ وَالحَْسَنِ وَالحُْسَينِْ ، فَکُناٰ نُسَبِّحُہُ حی ، فَخَلَقَ مِنہُْ العَْرشَ فَالعَرشُ مِن نُوری فَلَماٰ اَ اٰردَ اللہّٰ تعالی اَن یشَْاٴءَ خَلقَْہُ فَتَقَ نُوری عَلیٍّ فَخَلَقَ اَفضَْلُ مِنَ العَْرشِْ ، ثُمَّ فَتَقَ نُورَاَخی مِن نُورِ اللہِّٰ، وَنُوری وَنُوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۴٢٢ ۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ٢۴ ۔ (
مِنہُْ المَلائِکَة وَالمَلائِکة مِن نُور عَليٍ وَنُورٌعَلي مِن نُورِ اللہّٰ وَ عَلي اَفضَْلُ مِن الملْائِکَةِ ثُمَّ فَتَقَ نُورَ فاطِمَةُ اٰفطِمَةَ ونُورُ ابنَْتی فَخَلَقَ مِنہُْ السَّ مٰ اٰوتِ وَالاَْرضَْ فَالسَّ مٰ اٰوتِ وَالاَْرضِْ مِن نُورِ ابنَتی ابْنَتی اٰفطِمَةُ اَفضَْلُ مِنَ السَّ مٰ اٰوت وَالاَْرضِْ مِن نُور اللہِّٰ وَابنَْتی
الحَْسَنِ وَخَلَقَ مِنہُْ الشَّمسْ وَالقَْمَرِ، فالشَّمسُْ وَالقَْمَرُ مِن نُورُ وَلَدِیُ ثُمَّ فَتَقَ نُور وَلَدی الحَْسَن عليہ السلام وَنُورُ الحَْسَنِ مِن نُور اللہِّٰ وَالحَْسَنُ اَفضَْلُ مِنَ الشَّمسِْ وَالقَْمَرِ ، ثُمَ فَتَقَ نُورَ نِ مِنْ نُور ن ، فَالْجَنَّةُ وَالْحُورَ العی وَلَدِیَ الحُْسَينِ عليہ السلام فَخَلَقَ مِنہُْ الجَْنَّةَ وَالحُْورَ العی وَلَدِیَ الحُْسَينُْ وَ نُورُ وَلَدِیَ الحُْسَينُْ مِن نورُ اللہِّٰ ، وَلَدِیَ الحُْسَينْ اَفضَْلُ مِنَ الجَْنَّةِ وَالحُْورِ العْينِْ ” )١)
صاحب مصباح الانوار نے اپنی سند کے ساته انس ابن مالک سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا : یقينا الله تعالیٰ نے مجهے خلق فرمایا اور علی، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام کو بهی خلق فرمایا قبل اس کے کہ آدم کو پيدا کرے، جس وقت نہ آسمان وجود ميں آیا تها اور نہ ہی زمين کا فرش بچهایا گيا تها نہ ہی نور و ظلمت ، آفتاب و ماہتاب اور جنت و جہنم کا وجود تها پهر عباس نے عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! آپ کی خلقت کے آغاز کی کيفيت کيا تهی؟ فرمایا: اے چچا! جس زمانے ميں خدائے بزرگ و برتر نے ہميں خلق کرنے کا ارادہ کيا تو ایک کلمہ کہا اور اس کلمے سے ایک نور خلق فرمایا پهر دوسرا کلمہ کہا اور اس سے ایک روح خلق کی پهر خود کو روح کے ساته مخلوط کيا پهر مجهے خلق کيا اور علی، فاطمہ اور حسن و حسين کو بهی خلق فرمایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ١٠ ۔ (
ہم وہ تهے کہ خدائے سبحان کی تسبيح و تقدیس کرتے تهے جب کوئی بهی تسبيح و تقدیس کرنے والا نہيں تها، جب خدائے بزرگ و برتر نے اپنی مخلوقات کو ایجاد و تخليق کا ارادہ کيا تو ميرے نور کو شگافتہ کيا اور عرش کو ميرے نور سے خلق فرمایا اور ميرا نور خدا کا نور ہے اور ميرا نور عرش سے افضل ہے، پهر ميرے بهائی علی کے نور کو شگافتہ کيا اور ان کے نور سے ملائکہ کو خلق فرمایا پهر ملائکہ کو علی کے نور سے اور علی کے نور کو خدا کے نور سے خلق کيا اور علی ملائکہ سے افضل ہيں اس نور کے بعد ميری بيڻی کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے آسمانوں اور زمين کو پيدا کيا پس تمام آسمان اور زمين ميری بيڻی فاطمہ کے نور سے خلق ہوئے اور ميری بيڻی فاطمہ کا نور خدا کا نور ہے اور ميری بيڻی فاطمہ آسمانوں اور زمين سے افضل ہے، پهر ميرے بيڻے حسن کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے آفتاب و ماہتاب کو خلق فرمایا اور سورج چاند کو ميرے بيڻے حسن کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے کا نور خدا کے نور سے ہے اور حسن آفتاب و ماہتاب سے افضل ہے، اس کے بعد ميرے بيڻے حسين کے نور کو شگافتہ فرمایا اور اس سے بہشت اور حور العين کے نور کو خلق کيا پهر بہشت اور حور العين کو ميرے بيڻے حسين کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے حسين کا نور خدائے سبحان کے نور سے ہے اور ميرا بيڻا حسين (عليہ و عليہم صلوات الله و سلامہ) بہشت اور حور العين سے افضل ہے۔
خٰالِد الکٰابلی قٰالَ: سَاٴَلْتُ اَبٰا جَعْفرٍ عليہ السّلام ۴١٣ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عَنْ اَبی اَنزَْل اْٰن > فَ اٰ قلَ اٰی اَ اٰبخٰالِدٍ اَلنُورُ واللہِّٰ اَلاْٴَئمَْةَ عَن قَولِْ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ فاٰمَِنوا بِاللہِّٰ وَرَسُولِہِ وَالنُّورِ الَّذی مِنْ آلِ مُحَمَّدٍ عليہ السلام اِلیٰ یَوْمِ الْقِيٰمَةِ ، وَهُمْ وَاللّٰہِ الَّذی اَنْزَلَ وَهُمْ وَاللّٰہِ نُورُ اللّٰہِ فی السَّمٰوٰاتِ الْاٴَرْضِ وَاللّٰہِ یا اَبا خالدٍ لنَور الامام فی قُلوب الموٴمنين اَنوَر مِن الشّمس المُضيئة بالنهارِ وَفی وهم وَاللّٰہ یُنورونَ قُلوبَ الموٴمنين ، وَیَحجُبُ اللّٰہ عزّوجلّ نُورَهم عَمّن یَشآء فَتظلِمُ قُلوبُهُم وَاللّٰہ یا ابَا خالد لا یُحبّنا عَبدٌ وَ یَتولانا حَتّی یُطهِّر اللّٰہ قَلبَہ وَلا یُطهِّر اللّٰہ قَلب عَبدٍ حَتّی یُسَلّم لَنا وَ یَکون سِلماً لَنا فَاذا کانَ مسلماً لنا سلمہ اللّٰہ مِن شدید الحِسابِ وَآمَنَہ مِن فَز ع یَوم القيامَة الاکبر ” )١)
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته ابو خالد کابلی سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے :حضرت امام محمد باقر - سے ميں نے الله تعالیٰ کے اس قول کہ ایمان لے آؤ خدا اور اس کے رسول پر اور وہ نور جو ميںنے بهيجا ہے کی تفسير دریافت کی تو فرمایا: اے ابو خالد! خدا کی قسم ! صبح قيامت تک آل محمد صلوات الله عليہم اجمعين ميں سے ائمہ کا نور مراد ہے، خدا کی قسم! یہ وہی نور الٰہی ہيں جسے نازل کيا گيا ہے، خدا کی قسم! یہی لوگ آسمانوں اور زمين ميں الله کا نور ہيں، اے ابو خالد! خدا کی قسم! ائمہ قلوب مومنين کو منور کرتے رہتے ہيں اور الله تعالیٰ ان کے نور کو جس سے چاہتا ہے چهپاتا ہے تو ان کے قلوب تاریک ہو جاتے ہيں۔ خدا کی قسم! اے ابو خالد !ہم سے کوئی بندہ محبت نہيں کرتا اور نہ ہی ہماری پيروی کرتا ہے مگر یہ کہ الله تعالیٰ اس کے قلب کو پاک و پاکيزہ کرتا ہے اور کسی بندہ کا دل پاک نہيں کرتا جب تک کہ وہ ہم کو خالص طور پر تسليم نہ کرے ( ہم رنگ ہوجائے) اور جب وہ ہم سے صلح و مصالحت سے پيش آتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو قيامت کے دن سخت حساب اور عظيم خوف سے محفوظ رکهتا ہے۔
۴١۴ ۔ “ وفيہ عن علی بن ابراہيم باسنادہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قول اللّٰہ تعالیٰ < الَّذِینَ یَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِیَّ الاْٴُمِّیَّ الَّذِی یَجِدُونَہُ مَکتُْوبًا عِندَْہُم فِی التَّورَْاةِ وَالإِْنجِيلِ یَاٴمُْرُہُم بِالمَْعرُْوفِ وَیَنہَْاہُم عَن المُْنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُم الطَّيِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَيہِْم الخَْبَائِثَ وَیَضَعُ عَنہُْم إِصرَْہُم وَالاْٴَغلَْالَ الَّتِی کَانَت عَلَيہِْم فَالَّذِینَ آمَنُوا بِہِ وَعَزَّرُوہُ وَنَصَرُوہُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی اٴُنزِلَ مَعَہُ اٴُولَْئِکَ ہُم ) المُْفلِْحُونَ> ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ سورئہ تغابن، آیت ٨۔ (
٢(۔ سورئہ اعراف، آیت ١۵٧ ۔ (
) قال : النور فی هذا الموضع امير الموٴمنين والائمة عليہم السلام ” ( ١
اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته علی ابن ابراہيم سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے الله تعالیٰ کے اس قول وہ لوگ جنہوں نے رسول و نبی امی کا اتباع کيا جس کا ذکر انہوں نے توریت و انجيل ميں لکها ہوا پایا جو ان کو نيکيوں کا حکم دیتا ہے اور برائيوں اور منکرات سے روکتا ہے اور پاک چيزوں کو ان کے ليے حلال کرتا ہے اور ناپاک چيزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان سے احکام کے سنگين بوجه اور قيد و بند کو اڻها دیتا ہے پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کيا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتباع کيا جو اس کے ساته نازل ہوا ہے وہی درحقيقت فلاح یافتہ اور کامياب ہيں کے متعلق دریافت کيا تو فرمایا: یہاں نور سے مراد حضرت علی امير المومنين اور ائمہ ہيں۔
قرآن مجيد آخری آسمانی کتاب ہے کہ جسے الله تعالیٰ نے پيغمبر اکرم (ص) پر نازل فرمایا اور خود اس کی ضمانت لی اور اس کا بيمہ قرار دیا کہ وہ کبهی بهی تحریف یا ناپاک ہاتهوں سے مس نہيں ہوسکتا۔ اس ليے کہ قرآن پروردگار سبحان کی حجّت ، ثقل اکبر اور الله تعالیٰ کی مستحکم ریسمان ہے کہ جسے رسول اکرم نے اپنی امت کے درميان چهوڑ اہے۔ اسی طرح حضرت حجّت بقية الله الاعظم عجل الله فرجہ الشریف اور ان کے آباء و اجداد گرامی ثقل اصغر اور دوسری امانت ہيں کہ جنہيں پيغمبر اکرم (ص) نے اپنی امت کے درميان چهوڑا ہے اور بہت شدید سخن اور تاکيد کے ساته لوگوں کو وصيت کی ہے کہ ان دونوں امانت سے متمسک رہيں تاکہ ضلالت و گمراہی سے نجات حاصل کریں۔
جيسا کہ قرآن مجيد خدا ئے تبارک و تعالیٰ کی حفاظت وحراست ميں ہے جسے پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ دوسرے نہيں مس کرسکتے اسی طرح حضرت ولی امر صاحب العصر والزمان اور ان کے آباء و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ (
اجداد طاہرین سب کے سب معصوم اور اصلاب شامخہ اور ارحام مطہرہ سے منتقل ہوئے ہيں اور ان کا مقدس دامن تمام آلودگيوں سے پاک و پاکيزہ ہے۔
اس سلسلہ ميں ہم درج ذیل آیات گوش گزار کرتے ہيں۔ الله تعالیٰ کا قول ہے: <وَتَوَکَّل عَلَی العَْزِیزِ الرَّحِيمِ # الَّذِی یَرَاکَ حِينَ تَقُومُ # وَتَقَلُّبَکَ فِی ) السَّاجِدِینَ> ( ١
اور خدائے عزیز و مہربان پر بهروسہ کيجيے جو آپ کو اس وقت بهی دیکهتا ہے جب آپ قيام کرتے ہيں اور پهر سجدہ گزاروں کے درميان آپ کا اڻهنا بيڻهنا بهی دیکهتا ہے۔ اَص لْاٰب ۴١۵ ۔ “وفی قولہ تعالیٰ <وتقلبک فی الساجدین> قيل : معناہ وتَقَلُّبَکَ فی المُوَحِدینَ مِن نَبِیِّ اِلی نَبِیٍ حَتی اخَرجَکَ نَبِيّاً عن ابن عبّاس فی روایة عطاء وعکرمہ وَهُوَ المَْروْی اَص لْاٰبِ النَّبيّينَ نَبِی بعد نبی حَتّ یٰ اَخرَْجَہُ عَبدِْ اللہّٰ عَلَيہِْ مٰا السَّ لاٰم قَا لاٰ فی عَن اِبی جَعفَْرِ وَاَبی ) ہِ مِنْ نِکٰاحٍ غَيْر سِفٰاحٍ مِنْ لَدُنْ آدَمَ عليہ السلام ” ( ٢ مِن صُلبْ اَبی مذکورہ آیت کے بارہ ميں حضرات صادقين ( عليہما السلام) نے فرمایا: آپ کا نور انبياء کی صلبوں ميں حضرت آدم - سے حضرت خاتم (ص) تک جو سب کے سب خداپرست اور سجدہ گزاروں ميں سے تهے منتقل ہوتا رہا یکے بعد دیگرے یہاں تک کہ آپ کے پدر گرامی کی صلب سے وہ نور صحيح نکاح کے ذریعہ نکالا کہ جن سے انبياء اوصياء اور اولياء پيدا ہوں گے۔ ) قولہ تعالی<إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا> ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ شعراء، آیت ٢١٧ ۔ ٢١٩ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ٣۔ (
٣(۔ سورئہ احزاب، آیت ٣٣ ۔ (
بس الله کا ارادہ یہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکهے اور اس طرح پاک و پاکيزہ رکهے جو پاک و پاکيزہ رکهنے کا حق ہے۔
”انما” کلمہ حصر ہے یعنی الله تعالیٰ کا ارادہ اس کے علاوہ کچه نہيں ہے اس کا تکوینی (تخليقی) ارادہ یہ ہے کہ آپ کے خاندان نبوت سے نفس کی ناپاکی کو ختم کرے اور آپ کو ایسا پاک و پاکيزہ رکهے جو پاک و پاکيزہ رکهنے کا حق ہے۔ آیہٴ مبارکہ ميں درحقيقت دو قصر (حصر) موجود ہے ایک حصر رجس کو دور کرنے اور تطہير کا ہے اور دوسرا حصر رجس کو دور کرنے کا انحصار اہل بيت کی تطہير ميں پایا جاتا ہے۔ )١)
۴١۶ ۔ “وفی تفسير فرات : اَخرَْجَ اِبنُْ مَردَوَیہِْ عَن اُمَّ سَلَمَة اٰقلَت : نَزَلت هٰذِہِ الآیة فی البَْيتِ سَبعَْةٌ إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا> وَفی > بَيتی کائيلُ وَعِلیٌّ وَ اٰفطِمَةُ وَالحَْسَنَ وَالحُْسَينُْ وَاَنَا عَل یٰ اٰببِ البَْيتِْ قُلتُْ اٰی رَسُولَ اللہِّٰ جَبرَْئيلُ وَمی ) اٴلَستُْ مِن اَهلِْ البَْيتِْ ؟ اٰقلَ اِنَّکَ عَليہ خَيرٍْ اِنَّکَ مِن اَز اْٰوجِ النَّبِیِّ (ص) ” ( ٢
صاحب تفسير فرات نے ابن مرویہ سے انہوں نے ام سلمہ سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: آیت (تطہير) ميرے گهر ميںنازل ہوئی اور اس وقت ميرے گهر ميں سات افراد تشریف فرما تهے، جبرئيل ، ميکائيل، علی، فاطمہ، حسن و حسين اور ميں گهر کے دروازہ پر تهی تو ميں نے رسول خدا (ص) سے عرض کيا: ميں بهی اہل بيت ميں شامل ہوں؟ فرمایا: تم کار خير پر ہو اور ميری ازواج ميں سے ہو۔
۴١٧ ۔ “ اخرج ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی ابن مردویہ عَنْ اُمِّ سَلَمةَ زَوْجِ النَّبی (ص) اِنَّ رَسُولَ اللہِّٰ صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ وَسَلَّمَ اٰ کنَ بِبَيتِ هٰا عَل یٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الميزان، ج ١۶ ، ص ٣٢٨ ۔ (
٢(۔ تفسير فرات، ص ٣٣۶ ۔ (
مَ اٰنمَةٍ لَہُ عَلَيہِ کِ سٰاءُ خَيبَْریٍ فَ جٰائَت اٰفطِمَةُ سُرمَْةٍ في هٰا حرَیرْةَ فَ اٰ قلَ رَسُولُ اللہِّٰ صَلّی اللہُّٰ عَلَيہِْ زَوجَْکِ وَابنَيکِْ حَسَناً وَ حُسَينْاً فَدَعتُْهُم فَبَينَ مٰا هُم یَاٴکُْلُونَ اِذ نَزَلَت عَل یٰ رَسُولِ اللہِّٰ وَآلِہِ اُدعْی صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ وسلَّم <إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا >فَاَخَذَ النَّبیُّ صَلّ اللہّٰ عَليہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ بِفَضلِْہِ اِزارِہِ فَغَشاٰهُّم ا اٰیهٰا ثُمَ اَخرَْجَ یَدَہُ مِنَ الکِْ سٰاءِ وَاٴو اْٰ مٴَ بِ هٰا اِلَی فاَذهَْب عَنهُْمُ الرِّجسَْ وَطَهِّرهُْم تَطهيراً اٰقلَها وَخٰاصَّتی السَّماءِ ثُمَّ قٰالَ: اَللّٰهُمَّ هٰوٴُلاٰءِ اَهْلُ بَيتی ثَلاثٌ مَرّات
اٰقلَت اُمَّ سَلَمةَ : فَاَدخَْلتُْ رَاٴسیِ فیِ ستِر فَقُلتُْ اٰی رَسُولَ اللہِّٰ وَاَنَا مَعَکُم ؟ فَ اٰ قل اِنَّکِ اِل یٰ ) خَيرٌ مَرَّتَينِْ ” ( ١
اور اس کے علاوہ بهی دوسری روایات پائی جاتی ہيں کہ ہم نے تبرکاً اور اختصار اً انہيں دو روایت پر اکتفا کيا ہے۔
۴١٨ ۔ آیات کے علاوہ حضرات معصومين کی زیارتوں یا زیارت کے بعد کی دعاؤں ميں ان کی طہارت و پاکيزگی کی طرف اشارہ کيا گيا ہے کہ ہم اسے ذکر کر کے اپنی اس کتاب کو زینت بخشتے ہيں حضرت رسول اکرم (ص) کی زیارت کے بعد پڑهی جانے والی دعا ميں ذکر ہوا ہے: “ اَللهُّٰمَّ اجعَْل جَ اٰومِعَ صَل اٰوتِکَ وَ نَوامِی بَرَ اٰ کتِکَ وَ فَ اٰوضِلَ خَي اْٰرتِکَ الی قومہ اَوَّلِ النَّبيينَ بَحرِْ الفَْضيلَةِ وَالمَْنزِْلَةَ الجَليلَةِ الی قولہ وَاَودَْعتَْہ غُمسَْتَہُ فی اٰثقاً وَآخِرِهِم مَبعْثاً الَّذی می الاٴِصلْابَ ال طْٰاہِرَةِ وَ نَقَلتَْہُ مِن هْٰا اِلَی الاَر حْٰامِ المُْطَهَّرةَ لُطفْاً مِنکَْ لَہ وَتَحَنَنا مِنکَْ عَلَيہِْ اِذ وَکَّلتَْ لِصَونِْہِ وَحَ اٰرسَتِہِ وَحَفِظِہِ وَحِ اٰيطِتِہِ مِن قُدرَْتِکَ عَينْاً
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدر المنثور، ج ۵، ص ١٩٨ ۔ تفسير الميزان، ج ١۶ ، ص ٣١٧ ۔ (
عٰاصِمَةٍ حَجَبتَْ بِ هٰا عَنہُْ مَدانسَ العَْهرْ وَمَ اٰ عئِبَ السَّ اٰ فحِ حَتّ یٰ رَفَعتَْ بِہِ نَ اٰوظرَ العِْ اٰبدِ وَاَحيَْيتَ بِہِ مَيتَْ ) البِْ لاٰدِ بِاَن کَشَفتَْ عَن نُورِ وِ لاٰدَتِہِ ظَلَمَ الاٴس اْٰتٓرِ وَاَلبَْستَّ حَرَمَکَ بِہِ حُلَلَ الاٴَن اْٰور ” ( ١
زائرینِ کرام حضرت پيغمبر اکرم (ص) کے مرقد منور کی زیارت کے بعد یوں پڑهتے ہيں: خدایا! قرار دے اپنے تمام درود کو روز افزوں برکتوں کو اور اپنی بہترین نيکيوں کو اپنے سب سے پہلے نبی اور بعثت کے اعتبار سے سب سے آخری نبی جن کو تونے پاکيزہ صلب ميں ودیعت کيا ہے اور ان سے ارحام مطہرہ کی جانب منتقل کيا ہے اپنے لطف کے ذریعہ اور اپنی عنایت کے سبب سے جب تو نے موکل کيا ان کی حفاظت ، بچاؤ ، نگرانی اور نگہبانی کے ليے اپنی قدرت سے غيبی نگران کو جن کے ذریعہ ان سے تمام برائی اور بدکاری اور خرابيوں کی راہوں کو بند کردیا یہاں تک کہ تو نے ان کے ذریعے بندوں کی نگاہوں کو بلند کيا اور مردگانِ شہرو دیار کو زندہ کردیا تو نے ان کی ولادت کے نور سے پردوں کی تاریکی کو ختم کردیا او ر نور کے حلے حرم و ناموس الٰہی کو پہنا دیے۔
۴١٩ ۔ “ وَانَّکُم دَ عٰائِمُ الدّینِ وَاَر اْٰ کنُ الارضْ لَم تَزالُوا بِعَينِْ اللہِّٰ یَنسَْخَکُم مِن اَص لْاٰبِ کُلِّ مُطَهَّرٍ وَیَنقَْلُکُم مِن اَر حْٰامِ المُْطَهَّ اٰرتِ لَم تَدنسکم ال جْٰاهِلَيَةُ الجَْهَلاء وَلَم تُشرِْک فيکُم فَتِنُ الاٴَهوْاءِ طِبتُم ) وَطٰابَتْ منبتکُمْ ” ( ٢ حضرات ائمہٴ بقيع کی زیارت ميں ہم پڑهتے ہيں: اور آپ دین کے ستون اور زمين کے رکن ہيں آپ لوگوں کو برابر خدا کی عنایت نے پاک و پاکيزہ صلب و رحم سے دوسری پاک و پاکيزہ صلب و رحم تک منتقل کيا آپ کو جہلاء کی جاہليت نے گندا نہيں کيا اور خواہشات نفسانی کے فتنے آپ ميں شریک نہيں ہوسکتے آپ بهی پاک اور آپ کا منشاء وجود بهی پاک ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اقبال الاعمال، ج ٣، ص ١٢۶ ۔ مزار شہيد، ص ١۶ ۔ بحار الانوار، ج ٩٧ ، ص ١٨۵ ۔ (
٢(۔ مصباح المتهجد، ص ٧١۴ ۔ کامل الزیارات، ص ١١٩ ۔ (
۴٢٠ ۔ حضرت امير المومنين -کی چهڻی زیارت ميں ذکر ہوا ہے: “اَشهَْدُ اَنَّکَ طُهرٌْ طٰاهِرٌ مطهرٌ مِن طُهرٍْ طٰاہِرٌ مُطَهَّرٍ ” ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پاک و پاکيزہ مطہر ہيں اور پاک و پاکيزہ اور مطہر نسل سے ہيں۔
۴٢١ ۔ حضرت سيد الشہداء - روحی لہ الفداء کی زیارت وارثہ ميں ہم پڑهتے ہيں: “اَشهَدُ الاَ ص اْٰلبِ الشامخةِ وَالاٴَر حْٰامِ المُْطَهَّرة لَم تُنَجِّسکَْ ال جْٰاهِلِيَةُ بِاَن جْٰاسِ هٰا وَلمْ اَنَّکَ کُنتَْ نُوراً فی تُلبِْسکَْ مِن مُدلَْهِماٰتِّ ثِ اٰيبِ هٰا ” یہ عبارت زیارت عيد الفطر، عيد قربان اور زیارت اربعين ميں ہے۔ خدا ہميں اور آپ کو اس کے پڑهنے کی توفيق عطا فرمائے یعنی: ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور بلند مرتبہ صلبوں اور پاکيزہ رحموں ميں رہے جاہليت نے اپنی نجاستوں سے آپ کو نجس نہيں کيا اور جہالت کا لباس آپ نے نہيں پہنا۔
۴٢٢ ۔ اول رجب کی زیارت ميں یہ فقرہ موجود ہے : “ اَشْهَدُ اٴنَّکَ طُهْرٌ طٰاهِرٌ مُطَهَّر مِنْ طُهرٍ هٰا وَطهَرَ حَرَمُکَ”۔ طٰاہِرٍ مُطَّهرٍ طَهُرتَْ وَ طَهُرَ بِکَ البِْ لاٰدُ وَ طَهُرَت اَرضٌْ اَنتَْ فی ميں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پاک و پاکيزہ ہيں اور پاک و پاکيزہ خاندان سے ہيں آپ پاک ہيں اور آپ کی وجہ سے شہر پاک ہوگئے اور وہ زمين پاک ہوگئی جس ميں آپ تهے اور آپ کا حرمِ مبارک پاک و پاکيزہ ہے۔
۴٢٣ ۔ نيمہٴ رجب کی زیارت ميں ہم پڑهتے ہيں:اَلسَّ لاٰمُ عَلَيکُْم اٰی طٰاہِرینَ مِنَ الدَنس سلام ہو آپ پر اے ميرے مولا! جو تمام آلودگيوں سے پاک و پاکيزہ ہيں۔ ۴٢۴ ۔ زیارت جامعہٴ ائمة المومنين ميں ہم پڑهتے ہيں: عٰالِمٌ بِاَنَّ اللہَّٰ قَد طَهَّرکُم مِنَ الفَْ اٰوحِشَ اٰ م ظَهَرَ مِن هْٰا وَ اٰ م بَطَنَ وَمِن کُلِّ دَنيّةَ وَنَ جٰاسَةٍ وَدَنيَّةِ وَرَ جٰاسَة ميں یقين رکهتا ہوں کہ خدا نے آپ کو پاک رکها ہے تمام ظاہری اور باطنی خرابيوں سے اور ہر شک و شبہ، نجاست اور رجس سے۔
نَتَکُم وَاحِدَةٌ طٰابَت وَطَهُرتَْ بَعضُْ هٰا مِن بَعضٍْ خَلَقَکُم اللہُّٰ ۴٢۵ ۔ وَاَنَّ اَر اْٰوحَکُم وَنُورَکُم وَطی اَن اْٰوراً فَجَعَلَکُم بِعَرشِہِ مُحدِْقينَ
اور آپ کی روحيں اور آپ کے نور اور آپ کی طينت ایک ہے اور پاکيزگی اور طہارت ميں بعينہ ایک دوسرے کی طرح ہيں خدا نے آپ کو نور کی صورت ميں پيدا کيا پس آپ کو اطراف عرش ميں قرار دیا۔