|
١٨ ۔ ميثاق الٰہی
) ٣۶۵ ۔ “عن الصادق عليہ السلام القرآن عهد اللّٰہ الی خلقہ ” ( ١
امام جعفر صادق - فرماتے ہيں: “قرآن الله تعالیٰ کے بندوں کی بہ نسبت اس کا عہد و
پيمان ہے“
”کذلک الحجة وآبائہ الطيبين الطاہرین عليہم السلام“
جس طرح قرآن کریم عہد الٰہی ہے امام زمانہ - بهی عہد و پيمان الٰہی ہيں۔
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: <اٴَوَکُلَّمَا عَاہَدُوا عَہدًْا نَبَذَہُ فَرِیقٌ مِنہُْم بَل اٴَکثَْرُہُم لاَیُؤمِْنُونَ
وَلَمَّا جَائَہُم رَسُولٌ مِن عِندِْ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُم نَبَذَ فَرِیقٌ مِن الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ نَبَذَ فَرِیقٌ مِن ) الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ کِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُہُورِہِم کَاٴَنَّہُم لاَیَعلَْمُونَ> ( ٢
) آیا اس طرح نہيں ہے کہ) ان کا حال یہ ہے کہ جب بهی انہوں نے کوئی عہد کيا تو ایک
فریق نے ضرور توڑ دیا بلکہ ان کی اکثریت (توریت کے مضامين کی بہ نسبت) بے ایمان ہی ہے۔
اور جب ان کے پاس خدا کی طرف سے سابق کی کتابوں کی تصدیق کرنے والا رسول
(محمد) آیا تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٩ ۔ (
١٠١ ۔ ، ٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٠٠ (
اہل کتاب کی ایک جماعت نے کتاب خدا (قرآن یا توریت) کو پس پشت ڈال دیا جيسے وہ اسے
جانتے ہی نہ ہوں۔
٣۶۶ ۔ “وفی تفسير الصافی قال: قٰال الصادق عليہ السلام وَلَمٰا جَآءَ هُمْ جاء اليَهُودُ وَمَنْ
یَليهم مِنَ النَّواصِبٍ کتابٌ مِن عِندِْ اللہِّٰ القُرآنُ مُشتَْمِلاً عَلی وَصفِْ مُحَمَدٍ وَعَلَیٍ وَایجاب وَ یٰ لاَتِهما
) ووَ لاٰیة اَولِْيائه مٰا وَعَدَاوةِ اَعدْائهما ” ( ١
یعنی جس وقت یہود اور ناصبيوں وغيرہ کی طرف ایک کتاب (قرآن) الله تعالیٰ کی طرف
سے آئی جو پيغمبر اکرم حضرت محمد (ص) ، علی - اور ان کی ولایت کے وجوب نيز ان کے
اولياء کی ولایت کے واجب ہونے اور ان کے دشمنوں سے عداوت پر مشتمل تهی۔ليکن ان ميں
سے بعض نے صرف توریت پر اکتفا کيا اور تمام انبياء کی کتابوں کو (وراء ظہورهم) پس پشت ڈال
دیا اس کے مطالب پر حضرت محمد کی نبوت اور علی کی ولایت و وصایت سے حسد کی بنا پر
عمل نہيں کيا اور ان کا انکار کردیا جو کچه ان کے فضائل و کمالات سے اطلاع ہوئی اور ان کی
حقانيت کے علم ہونے کے باوجود ایسا کام کيا کہ گویا وہ نہيں جانتے تهے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَالَّذِی اٴَوحَْينَْا إِلَيکَْ مِن الکِْتَابِ ہُوَ الحَْقُّ مُصَدِّقًا لِمَا بَينَْ یَدَیہِْ إِنَّ اللهَ
بِعِبَادِہِ لَخَبِيرٌ بَصِيرٌ # ثُمَّ اٴَورَْثنَْا الکِْتَابَ الَّذِینَ اصطَْفَينَْا مِن عِبَادِنَا فَمِنہُْم ظَالِمٌ لِنَفسِْہِ وَمِنہُْم مُقتَْصِدٌ
) وَمِنہُْم سَابِقٌ بِالخَْيرَْاتِ بِإِذنِْ اللهِ ذَلِکَ ہُوَ الفَْضلُْ الکَْبِير> ( ٢
) اور جس کتاب کی وحی ہم نے آپ کی طرف کی ہے وہ برحق ہے اور اپنے پہلے والی
کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور بے شک الله اپنے بندوں کے حالات سے باخبر اور خوب
دیکهنے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ١٧ ۔ بحار الانوار، ج ٩، ص ٣٣٠ ۔ (
٣٢ ۔ ، ٢(۔ سورئہ فاطر، آیت ٣١ (
پهر ہم نے اس کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہيں اپنے بندوں ميں سے چن ليا کہ
ان ميں سے بعض اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہيں اور بعض اعتدال پسند ہيں اور بعض خدا کی
اجازت سے نيکيوں کی طرف سبقت کرنے والے ہيں اور درحقيقت یہی بہت بڑا فضل و شرف ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول <وَالَّذِی اٴَوحَْينَْا إِلَيکَْ مِن الکِْتَابِ ہُوَ الحَْقُّ > ( ١) ضمير فصل ہے اور
(هو الحق) ميں الف و الم تاکيد کے ليے ذکر ہوا ہے یعنی وہ کتاب برحق ہے جس ميں کبهی
بهی باطل کا شائبہ نہيں پایا جاتا۔
اور آیت <ثُمَّ اٴَورَْثنَْا الکِْتَابَ الَّذِینَ اصطَْفَينَْا > ميں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے جيسا کہ
سياق اور صدر روایت سے معلوم ہوتا ہے اس کے علاوہ گزشتہ آیت <وَالَّذِی اٴَوحَْينَْا إِلَيکَْ مِن الکِْتَابِ > قرآن کے بارے ميں صراحت رکهتی ہے اور لام عہد کے ليے آیا ہے۔
بلکہ <اصطَْفَينَْا مِن عِبَادِنَا > سے مراد منتخب بندے کون ہيں اختلاف پایا جاتا ہے۔
کہا گيا ہے: مراد انبياء ہيں، بعض نے کہا ہے: بنی اسرائيل ہيں جو آیت <إِنَّ اللهَ اصطَْفَی
آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبرَْاہِيمَ وَآلَ عِمرَْانَ عَلَی العَْالَمِينَ > ( ٢) ( الله نے آدم، نوح، اور آل ابراہيم اور آل
عمران کو منتخب کيا ہے) ميں داخل ہيں اور اسی طرح کہا گيا ہے: مراد امت محمد (ص) ميں
سے وہ افراد ہيں جو اپنے پيغمبر کے قرآن کے وارث ہيں۔
حضرات صادقين عليہما السلام سے کثرت سے روایات وارد ہوئی ہيں کہ اس سے مراد
نبی اکرم کی ذریت ہے جو اولاد فاطمہ # ميں سے ہے اور وہ آیت <إِنَّ اللهَ اصطَْفَی آدَمَ وَنُوحًا
وَآلَ إِبرَْاہِيمَ > ( ٣) ميں شامل ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٣٢ ۔ ، ١(۔ سورئہ فاطر، آیت ٣١ (
٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ۔ (
٣(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٣٣ ۔ (
٣۶٧ ۔ “ وَفی الکافی باسنادہ عن احمد بن عمرقال: سَاٴَلْتُ اَبا الحَسَنِ الرِضاٰ عليہ السلام
عَن قَولِْ اللہِّٰ عزوَجَل < ثُمَّ اَوَرثَْنَا الکِ اٰتبِ الذین اصطفي اٰن مِن عِ اٰبدِنا > قال: فقال: ولدِ اٰفطِمَةَ عليہ
السلام وَالسٰابق بالخيرات الاِمٰامُ وَالمُقْتَصَدُ العارف بالاٴمام وَالظٰالِمُ لِنَفْسِہِ الذی لاٰ یَعْرِفُ الامامَ ”
)١)
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته احمد ابن عمر سے نقل کيا ہے
کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام ابو الحسن الرضا - سے دریافت کيا کہ اس آیہٴ کریمہ “پهر ہم
نے اپنی کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جنہيں ہم نے چن ليا ہے” کا معنی کيا ہے اور وہ کون
افراد ہيں؟ فرمایا: اولاد فاطمہ # ہے اور سابق بالخيرات امام ہے، مقتصد عارف و عالم امام ہے
اور اپنے نفس کی بہ نسبت ظالم وہ شخص ہے جو امام کی معرفت نہ رکهے۔
٣۶٨ ۔ “ومن کتاب سعد السعود لابن طاووس فی حدیث لاٴبی اسحاق السبيعی عن الباقر
عليہ السلام فی الآیة قال: هیَ لَنٰا خٰاصَةٌ یٰا اَبٰاٴ اِسْحٰاق اٴمَا السٰابِقُ بِالخَيراتِ فَعَلِی بن ابی
طالِب عليہ السلام وَالحَسَنِ وَالحُسَينِْ وَالشَهيد مِناٰ وَاَمَا المُقتْصِدُ فَ صٰائِمٌ بالنهار وَ اٰقئِمٌ بِالليلِ وَاَ اٰ م
) الظالِم لِنَفسِْہِ فَفيہ اٰ م فی الناسِ وَهُوَ مَغفُْورُلَہُ ” ( ٢
سيد ابن طاؤوس عليہ الرحمہ نے کتاب سعد السعود ميں ایک حدیث ابو اسحاق سبيعی
سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر - سے یوں نقل کيا ہے کہ فرمایا: اے ابو اسحاق ! آیہٴ
کریمہ ہم سے مخصوص ہے ليکن سابق بالخيرات علی ابن ابی طالب، حسن، حسين اور ہم
ميں کا شہيد ہے ليکن مقتصد وہ شخص ہے جو دن ميں روزہ رکهتا ہو اور راتوں کو قيام ميں بسر
کرتا ہو ليکن اپنے نفس کے ليے ظالم وہ شخص ہے جو لوگوں
ميں سے ليکن وہ بخشا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١۵ ۔ (
٢(۔ سعد السعود، ص ١٠٧ ۔ (
٣۶٩ ۔ “ وَفی الدر المنثور اخرج الفاریابی وجمع کثير عن ابی الدرداء ، سَمِعتُ رَسُولَ اللّٰہِ
(ص) یَقُولُ قال اللّٰہِ تعالیٰ <ثُمَّ اٴَورَْثنَْا الکِْتَابَ الَّذِینَ اصطَْفَينَْا مِن عِبَادِنَا فَمِنہُْم ظَالِمٌ لِنَفسِْہِ وَمِنہُْم
مُقتَْصِدٌ وَمِنہُْم سَابِقٌ بِالخَْيرَْاتِ بِإِذنِْ اللهِ> ( ١) فَاٴَمَا الَذیْنَ سَبَقُوا فَاوُلئِکَ یَدخُْلُونَ الجَنَة بِغَيرْ
ح سٰابٍ ، وَاَ اٰ م الَذینَ اقتَْصَدُوا فَاولئِکَ الَذینَ یُ حٰاسَبُونَ حِ سٰاباً یَسيراً ، وَاَ اٰ م الَذینَ ظَلمُوا انفسهم
فاولئک یُحْسَبُونَ فی طول المحشَرِ ثُمَ هم الذین یَلقٰاهُم اللّٰہِ بِرَحَمة فَهُم الذین یقولون : اَلحَمد
للّٰہِ الذی اَذهَبَ عَنَّا الحَزَنَ اِنَّ رَبَنّٰا لَغَفُورٌ شَکُورٌ الذی اَحلَّنا دارَ المقامة مِنْ فَضلِہِ لاٰ یمسّنٰا فيها
) نَصبٌ ولا یمسّنا فيهاٴ لُغُوبٌ ” ( ٢
در منثور ميں سيوطی نے اپنے اسناد کے ساته ابو درداء سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان
ہے: ميں نے رسول الله (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا : الله تعالیٰ فرماتا ہے: “پهر ہم نے اہل
کتاب کا وارث ان افراد کو قرار دیا جنہيں اپنے بندوں ميں سے چن ليا کہ ان ميں سے بعض اپنے
نفس پر ظلم کرنے والے ہيں اور بعض اعتدال پسند ہيں اور بعض خدا کی اجازت سے نيکيوں کی
طرف سبقت کرنے والے ہيں”۔
لہٰذا جو لوگ خيرات ميں پيش قدم ہوئے وہ لوگ جنت ميں بغير حساب و کتا ب کے داخل
ہوں گے ليکن جو لوگ اعتدال پسند ہيں وہ افراد وہ ہيں کہ جن کا حساب و کتاب ہوگا البتہ آسان
حساب ہوگا یعنی ان کا حساب بہ آسانی انجام پذیر ہوگا۔ ليکن جن لوگوں نے اپنے نفسوں پر
ظلم کيا ہے ان کا حساب طولانی ہوگا ليکن پهر ان لوگوں کے بهی رحمتِ خداوندی شامل حال
ہوگی لہٰذا وہ لوگ ہيں جو کہيں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فاطر، آیت ٣٢ ۔ (
٢(۔ الدر المنثور، ج ۵، ص ٢۵١ ۔ (
کہ: خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے رنج و غم کو دور کردیا اور بے شک ہمارا پروردگار بہت
زیادہ بخشنے والا اور قدر دان ہے اس نے ہميں اپنے فضل و کرم سے ایسے رہنے کی جگہ پر
وارد کيا ہے جہاں نہ کوئی تهکن ہميں چهو سکتی ہے (معيشت طلب کرنے کی جہت سے) اور
نہ کوئی تکليف ہم تک پہنچ سکتی ہے۔
وَ قال اللّٰہ تعالی:<کَذَلِکَ نَقُصُّ عَلَيکَْ مِن اٴَنبَْاءِ مَا قَد سَبَقَ وَقَد آتَينَْاکَ مِن لَدُنَّا ذِکرًْا # مَن ) اٴَعرَْضَ عَنہُْ فَإِنَّہُ یَحمِْلُ یَومَْ القِْيَامَةِ وِزرًْا # خَالِدِینَ فِيہِ وَسَاءَ لَہُم یَومَْ القِْيَامَةِ حِملْاً > ( ١
ہم اسی طرح گزشتہ دور کے واقعات آپ سے بيان کرتے ہيں اور ہم نے اپنی بارگاہ سے
آپ کو قرآن بهی عطا کردیا ہے جو اس سے اعراض کرے گا وہ قيامت کے دن اس انکار کا بوجه
اڻهائے گا اور پهر اسی حال ميں رہے گا اور قيامت کے دن یہ بہت بڑا بوجه ہوگا۔
مولف کہتے ہيں: قرآن کریم کے اسمائے گرامی ميں سے ایک اسم ذکر بهی ہے
جيسے الله تعالیٰ کا قول <إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ > ( ٢) (ہم نے ہی اس قرآن کو نازل
کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں) قرآن مجيد پيغمبر اکرم (ص) کے ليے
جاویدانی معجزہ ہونے کے ساته ساته الله تعالیٰ کی امانت اور اہل بيت عصمت و طہارت کے
ساته عہد و پيمان بهی ہے جيسا کہ حدیث ثقلين ميں ذکر ہوگا، بندگانِ الٰہی کے درميان اس
کی حفاظت و پاسبانی کی ذمہ داری آیہٴ کریمہ کی صراحت کے ساته خود خدائے سبحان نے
اپنے ذمہ لی ہے اور اس کے مضمون اور تمام پہلوؤوں پر عمل کرنا یہ اپنے بندوں کی ذمہ داری
قرار دی اور اس کی رعایت و حفاظت اور احترام و اکرام اس کے مضمون اور تمام پہلوؤں پر عمل
کرنا یہ اپنے تمام بندوں پر لازم و واجب جانا ہے۔ اور اس کے حکم سے سرکشی کرنے والوں اور
اعتراض کرنے والوں کے ليے سنگين مواخذہ قرار دیا ہے مزید اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١٠١ ۔ ،١٠٠ ، ١(۔ سورئہ طہٰ، آیت ٩٩ (
٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٩۔ (
سلسلہ ميں دائمی طور پر ڈرایا ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَإِذ اٴَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ لَتُبَيِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَتَکتُْمُونَہُ
) فَنَبَذُوہُ وَرَاءَ ظُہُورِہِم وَاشتَْرَواْ بِہِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَبِئسَْ مَا یَشتَْرُونَ > ( ١
اس موقع کو یاد کرو جب خدا نے جن کو کتاب دی ان سے عہد ليا کہ اسے لوگوں کے
ليے بيان کریں گے (جو محمد کی شان ميں ہے) اور اسے نہيں چهپائيں گے ليکن انہوں نے اس
عہد کو پس پشت ڈال دیا اور تهوڑی قيمت پر بيچ دیا تو یہ بہت برا سودا کيا ہے (یا فروخت کيا
ہے(
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَإِذ اٴَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيتُْکُم مِن کِتَابٍ وَحِکمَْةٍ ثُمَّ جَائَکُم رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَکُم لَتُؤمِْنُنَّ بِہِ وَلَتَنصُْرُنَّہُ قَالَ اٴَاٴَقرَْرتُْم وَاٴَخَذتُْم عَلَی ذَلِکُم إِصرِْی قَالُوا اٴَقرَْرنَْا
) قَالَ فَاشہَْدُوا وَاٴَنَا مَعَکُم مِن الشَّاہِدِینَ # فَمَن تَوَلَّی بَعدَْ ذَلِکَ فَاٴُولَْئِکَ ہُم الفَْاسِقُونَ > ( ٢
)اور اس وقت کو یاد کرو) جب خدا نے تمام انبياء (اور ان کے فرماں برداروں) سے عہد ليا
کہ ہم تم کو جو کتاب و حکمت (علم) دے رہے ہيں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمہاری
کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی مدد کرنا اور پهر
پوچها کيا تم نے ان باتوں کا اقرار کرليا اور ہمارے عہد کو قبول کرليا تو سب نے کہا کہ بے شک
ہم نے اقرار کرليا۔ ارشاد ہوا کہ اب تم سب گواہ بهی رہنا اور ميں بهی تمہارے ساته گواہوں ميں
ہوں اس کے بعد جو (پيغمبر کے گرویدہ ہونے اور ان کی مدد کرنے سے) انحراف کرے گا وہ
فاسقين کی منزل ميں ہوگا۔
ميثاق کی اصل مادہ وثوق سے ہے یعنی ایسی شے ہے جو اعتماد و اطمينان نفس کا
باعث ہوتی ہے اور اکثر و بيشتر تاکيدی عہد و پيمان کے مقام پر استعمال ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٨٧ ۔ (
٨٢ ۔ ، ٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٨١ (
آیہٴ کریمہ سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ گزشتہ پيغمبروں اور ان کی پيروی کرنے والوں نے
خدا سے عہد و پيمان کيا تها کہ ان کے بعد جو پيغمبر آئيں گے ان پر ایمان لائيں گے اور ان کے
اہداف کی ترقی ميں بهی ان کی نصرت و مدد کریں گے اور یہ معلوم ہے کہ پيغمبروں سے عہد
وپيمان لينے سے فطری طور پر ان کی پيروی کرنے والوں سے بهی وہی عہد و پيمان ہے لہٰذا
اس بنا پر اگر کوئی پيغمبر (ص) آئے کہ جس کی دعوت ان کی دعوت سے بهی ہم آہنگ ہو اور
ان کی حقانيت ثابت ہوجائے تو ان کی ذات پر بهی ایمان لانا چاہيے اور ان کی مدد کرنی چاہيے۔
الله تعالیٰ نے اس موضوع کی تاکيد کے ليے ان سے اعتراف و اقرار ليا۔
الله تعالیٰ کے اس قول سے <ء اقررتم و اخذتم علی ذلک اصري> ( ١) کيا اس عہد و
پيمان کا اقرار کيا اور ميرے وعدہ کو قبول کيا اور اس سلسلہ ميں اپنے تابعين سے بهی عہد و
پيمان ليا؟ جواب دیا: ہاں ہم نے اعتراف کيا، پهر اس موضوع کی اہميت کے پيش نظر شاہد بهی
بنایا اور فرمایا:لہٰذا تم گواہ رہو ميں بهی تمہارے ساته گواہوں ميں سے ہوں۔
٣٧٠ ۔فی المجمع : عن امير الموٴمنين عليہ السلام اِنَ اللّٰہ اَخَذَ الميثٰاقَ عَلَی الْاَنْبِيآء قَبْلَ
) نَبِيِّ اٰن اَن یخبروا اُمَمَهُم بِمَبعَثِہِ وَنَعتِْہِ وَیُبَشِّرهُم بِہِ وَیَاٴمُرهُم بِتَصدْیقِہِ( ٢
مجمع البيان ميں حضرت امير المومنين - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ یقينا الله تعالیٰ نے
ہمارے پيغمبر (ص) سے پہلے والے تمام انبياء سے عہد و پيمان ليا کہ تمام امت والوں کو ان
کے مبعوث ہونے کی خبر دیں اور ان کے اوصاف کو بيان فرمائيں اور ان کی آمد کی بشارت دیں
اور سب کو حکم دیں کہ ان کی تصدیق کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ “اصر” ایسا تاکيدی عہد و پيمان ہے کہ جسے توڑنا سنگين کيفر کردار کا موجب ہوتا ہے۔ (
٢(۔ مجمع البيان، ج ٢، ص ٣٣۴ ۔ (
٣٧١ ۔ “وفی الدر المنثور اخر ج ابن جریر عَنْ عَلِیِ بْنِ اَبی طاٰلِبٍ رضی اللّٰہ عنہ
مُحَمَّدٍ لَئِن بعَثَ وَهُوَ )عليہ السلام) قَالَ لَم یَبعَْثِ اللہُّٰ نَبِيّاً آدَمَ فَمَن بَعدَْہُ اِلاَّ اَخَذ عَلَيہِْ العَْهدَْ فی
حَیٌ لَيُومَنُنَّ بِہِ وَلَيَنصُْرَنَّہُ وَیَاٴمُرَہُ فَيَاخُذَ العَْهدْ عَ لٰی قَومِْہِ ثُم تَ لاٰ <وَاِذ اَخَذَاللہُّٰ م ثٰياقَ النَبِيّينَ لَ مٰا
) اَتَيتُْکُم مِن کِتابَ وَحِکمَْةٍ> الآیة ” ( ١
سيوطی نے در منثور ميں ابن جریر سے انہوں نے علی ابن ابی طالب - سے نقل کيا ہے
کہ حضرت نے فرمایا: الله تعالیٰ نے حضرت آدم - اور جو انبيا ان کے بعد تشریف لائيں گے انہيں
مبعوث نہيں فرمایا مگر یہ کہ حضرت آدم - اور ان کے بعد ميں آنے والے انبياء سے محمد (ص)
کے حق ميں عہد و پيمان ليا کہ جب وہ مبعو ث ہوں گے اور جب تک وہ بہ قيد حيات رہيں گے تو
حتمی اور یقينی طور پر ان پر ایمان لائيں ان کی مدد کریں اور انہيں بهی حکم دیں کہ اپنی قوم
والوں سے عہد و پيمان ليں پهر مذکورہ آیت <وَاِذ اَخَذَاللہُّٰ م ثٰياقَ النَبِيّينَ لَ مٰا اَتَيتُْکُم مِن کِتابَ
وَحِکمَْةٍ> کی تلاوت فرمائی۔
٣٧٢ ۔ “ وفی مجمع والجوامع عن الصادق عليہ السلام فی آیة معنا ہ واذ اخذ اللّٰہ ميثاق
امم النبيين کل امةٍ بتصدیق نبيها والعمل بما جاء هم بہ فما وفوا وترکوا کثيراً من شرایعهم وحرّفوا
) کثيراً ” ( ٢
مجمع اور جوامع ميں امام جعفر صادق - سے اس آیت کے معنی ميں نقل ہوا ہے کہ
حضرت - نے فرمایا: جس وقت خدا نے تمام پيغمبروں کی امتوں ميں سے ہر امت سے یہ عہد
و پيمان ليا کہ وہ اپنے پيغمبر کی تصدیق کرے اور جو کچه وہ لے کر آئے وہی اس پر عمل کرے
ليکن اس عہد و پيمان کو وفا نہيں کيا اور بہت سے لوگوں نے اپنی شریعتوں کو ترک کردیا اور
بہت سی تحریف انجام دی۔
٣٧٣ ۔ “وفی المجمع ایضاً عَنْ اَمير الموٴمنين عليہ السلام فی قول اللّٰہ <اٴَاٴَقرَْرتُْم وَاٴَخَذتُْم > اٰقلَ اَٴَاٴَقرَْرتُْم وَاَخَذتُْم العَْهدَْ بِ لٰ ذِکَ عَ لٰی اُمَمِکُم وَقالُوا اَیْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ در منثور، ج ٢، ص ٣٣۵ ۔ (
٢(۔ مجمع البيان، ج ٢، ص ٣٣۴ ۔ تفسير صافی، ج ١، ص ٣۵١ ۔ تفسير جوامع الجامع، ج ١، ص ٣٠۴ ۔ (
اٰقلَ الاَنبْ اٰيٓ وَاُمَمُهُم : اٴَقرَْر اْٰن بِ مٰا اَمَرتَْ اٰن بالاقَ اٰررِ بِہِ اٰقلَ اللہُّٰ فَاشَْهُدوا بِ اٰ ذلِکَ عَ لٰی اُمَمِکُم وَاَنَا مَعَکُم مِنَ
) ینَ عَلَيکُْم وَعَل یٰ اُمَمِکُم ” ( ١ الشٰاهِد
نيز مجمع ميں حضرت امير المومنين - نے آیہٴ کریمہ <اٴَاٴَقرَْرتُْم وَاٴَخَذتُْم > کے معنی ميں
فرمایا: کيا تم لوگوں نے اقرار کيا اور اس بات کا عہد و پيمان کيا کہ اپنی امتوں کو بهی یہ ابلاغ
کرو گے یہ انبيا اور ان کی امتوں نے کہا: ہاں ہم نے ان چيزوں کا اقرار و اعتراف کيا کہ جس کا
ہميں حکم دیا ہے، خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: لہٰذا اس بات کے اپنی امتوں کے گواہ رہو ميں
بهی تمہارے ساته تمہارے ليے تمہاری امت کے ليے گواہوں ميں سے ہوں۔
٣٧۴ ۔ “ وفی الدر المنثور : اخرج ابن جریر عَنْ عَلِیِ بْنِ اَبی طٰالِب عليہ السلام فی قَوْلِہِ
< اٰقلَ فاَشهَْدوا> یَقُول فاَشهَْدُوا عَ لٰی اُمَمِکُم بِ لٰ ذِکَ وَاناَ مَعَکُم مِن الشاٰهِّدینَ عَلَيکُْم وَ عَلَيهِْم فَمَن الُکُفْرِ ” یعِ الاُمَمِ فَاُ لٰوِئکَ الْ اٰ فسِقُونَ هُمُ ال اٰ عصُونَ فی تَولّ یٰ عَنکَْ اٰی مُحَمَّدُ بَعدَْ هٰذَا العَْهدِْ مِن جَم
)٢)
سيوطی نے اپنی کتاب تفسير در منثور ميں ابن جریر سے انہوں نے حضرت علی ابن
ابی طالب - سے نقل کيا ہے کہ حضرت “قال فاشهدوا” ( ١) کے بارے ميں فرماتے ہيں: لہٰذا اپنی
امت والوں پر گواہ رہو یا یہ کہ وہ لوگ بهی حضرت محمد (ص) پر ایمان لائيں اور ان کی نصرت و
مدد کریں ميں بهی تمہارے ساته تمہارے ليے اور تمہاری امت کے ليے گواہوں ميں سے ہوں
لہٰذا اے محمد! جو شخص تمام امتوں سے تاکيدی عہد و پيمان کے بعد تم سے اعراض اور
روگردانی اختيار کرے گا تو یہ گروہ فرمانِ الٰہی سے سر پيچی کرنے والوں ميں سے ہے اور وہی
لوگ کفران نعمت ميں نافرمان ہيں۔
من جملہ وہ روایات جو اس بات پر دلالت کرتی ہيں کہ الله تعالیٰ نے قرآن کریم اور اس
کے امور و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ٢، ص ٣٣۵ ۔ (
٢(۔ در منثور، ج ٢، ص ۴٨ ۔ (
احکام اور اس کے مضمون پر عمل کرنے کا اپنے بندوں سے عہد و پيمان ليا ان ميں سے ایک
صدیقہٴ کبریٰ حضرت فاطمہ زہرا # کا وہ عہد آفرین خطبہ ہے جو فدک کے مسئلہ ميں ارشاد
فرمایا: اس کی طرف اشارہ کيا جا رہا ہے۔
یکُم عَهدٌْ قَدَّمَہُ اِلَيکُْم وَبَقَيةٌْ اِستَْخلَْفَ هٰا عَلَيکُْم کِ اٰتبَ ٣٧۵ ۔ “وقالت عليها السلام : لِلہِّٰ ف
اللہِّٰ الناٰطِّقِ وَالقُْرآنُ الصاٰدِّقِ وَالنُّورُ الساٰطّعِ وَالضِّ اٰيء الّلامِعِ تَُبَيِّنَةٌ بَ صٰائِرُہُ مُنکَْشِفَةٌ سَ اٰریرُہُ مُنجَْلِيَةٌ
ظَواهِرُہُ مُنطَْبِتَةٌ بِہِ اَش اٰيعُہُ اٰقئِدٌ الَیِ الرِض اْٰونِ اَت اْٰبعَہُ مُوٴذِ اِلَی النَ جٰاةِ اسَّم اٰ عُہُ الی ان قالت وَکَيفْ
بِکُم وَاَنّ یٰ تُوفکُونَ وَکِ اٰتب اللہّٰ بَينِْ اَظهَْرکُْم امُورُہُ ظٰاہِرةٌ وَاَح اْٰ کمُہُ اٰزہِرَةٌ وَاَع لْاٰمُہُ اٰبهِرَةٌ وَزَ اٰوجُرُہ یٰ لاِحَةٌ
وَاَ اٰومِرُہُ اٰوضِحَةٌ وَقَد خَلقْتُمُوہ وَ اٰرء ظُهُورِکُم اَرغبَْةَ عَنہُْ تُریدُونَ اَم بِغَيرِْہ تَحکُْمُونَْ بِئسَ لِلظّالِمينَ بَدَلاً
) اٰ لآخِرَةِ مِنَ ال خْٰاسِرینَْ ” ( ١ وَمَن یَبتَْغِ غَيرَْ الاسلامِ دیناً فَلَن یُقبَْلَ مِنہُْ وَهُوَ فی
حضرت فاطمہ زہرا # نے فرمایا: تمہارے درميان خدا کے ليے ایک عہد و پيمان بهی تم
سے باقاعدہ ليا جاچکا ہے وہ ذخيرہ جسے رسول (ص) نے محفوظ کر رکها تها اسی کو آپ نے
اپنا جانشين بنایا پهر ہمارے پاس الله کی کتاب بهی تو ہے الله کی بولتی ہوئی کتاب قرآن،
سچائيوں کی زبان نورِ فروزاں جو تمام کائنات کے ليے پرتو درخشاں ہے جس کا ہر مطلب واضح و
آشکار اور ہر دليل نمایاں و روشن ہے تمام اسرار و رموز ظاہر و عياں ہيں۔ اس کی ظاہری عبارت
سامنے کی باتوں کی طرح روشن جو اجالا پهيلاتی ہيں اس کے شيعہ اس کی وجہ سے خوش
حال ہيں اس کی پيروی بہشت کا راستہ دکهاتی ہے ، کتاب کا سننا بهی نجات کا ذریعہ ہے
یہاں تک کہ فرماتی ہيں: تمہارا کيا حال ہوگا (تم نے یہ سوچا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ١، ص ١٣۴ ۔ (
کيسے؟) تم کہاں جا رہے ہو اور کہاں پناہ حاصل کرو گے؟ حالانکہ خدا کی کتاب (قرآن مجيد)
تمہارے درميان موجود ہے۔ اور اس کی تمام باتيں بہت نمایاں اور واضح ہيں اور اس کے احکام
خوبصورت اور نورانی ہيں اس کی نشانياں ضيا بار اور اس کے امر و نہی کے سارے قاعدے واضح
و روشن ہيں پهر بهی تم نے اس آئينِ زندگی کو پسِ پشت ڈال دیا اچها تم نے قرآن سے منہ
پهير دیا ہے یا اب اس کے بغير ہی فيصلے کرو گے؟ ظالموں نے قرآن کے بدلے جو روش اپنائی
ہے وہ بد ترین روش ہے۔ اور جو اسلام کے سوا کسی اور نظام کو اپنائے گا وہ ہرگز قابل قبول نہ
ہوگا۔ نيز جو یہ کرے گا وہ آخرت ميں برا گهاڻا اڻهائے گا۔
٣٧۶ ۔ “ وفی خطبة لاٴمير المومنين عليہ السلام فی ذکر القرآن:
قال عليہ السلام : فَالقُرآنُ آمِر اٰزجِرٌ وَ صٰامِتٌ اٰنطِق حُجَّةُ اللہِّٰ عَ لٰی خَلقِْہِ اَخَذَ عَلَيهِْم ینَْہُ وَ قَبضَْ نَبِيَّہُ صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہ وَفَرَغَ ی اٰثقَهُم وَارتَهَنَ عَلَيہِْ اَنفُْسَهُم اَتَمِّ نُورہُ وَاَکمَْلَ بِہِ د م
ال یٰ الخَْلقِْ مِن اَح اْٰ کمِ الهُْد یٰ بِہِ فَعَظِمُو مِنہُْ سُب حْٰانَہُ اٰ م عَظَّمَ مِن نَفسِْہِ فَاِنَّہُ لَم یُخفِْ اَنّکُم شَئيا
ینِہ وَلَم یَترُْک شَيئْاً رَضيَہُ اَوکَْرِهَہُ اِلاَّ وَجَعَلَ لَہُ عَلَماً بادِیاً وَآیَةً مُحکَْمَةً تَزجُْرُ عَنہُْ اَو تَدعُْو اِلَيہِْ مِن د
) ی مٰا بَقِیَ اٰوحِدٌ ” ( ١ یما بَقِیَ اٰوحِدٌ وَسَخَتَہُ ف فَرِ ضٰاہُ ف
حضرت امام علی - فرماتے ہيں: قرآن امر کرنے والا بهی ہے اور روکنے والا بهی ، وہ
خاموش بهی ہے اور گویا بهی۔ وہ مخلوقات پر پروردگار کی حجّت ہے جس کا لوگوں سے عہد ليا
گيا ہے ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنادیا گيا ہے۔ مالک نے اس کے نور کو تمام بنایا ہے اور اس
کے ذریعہ دین کو کامل قرار دیا ہے۔ اپنے پيغمبر (ص) کو اس وقت اپنے پاس بلایا ہے جب وہ
اس کے احکام کے ذریعے لوگوں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٨٣ ۔ (
ہدایت دے چکے تهے۔
لہٰذا پروردگار متعال کی عظمت کا اعتراف اس طرح کرو جس طرح اس نے اپنی عظمت کا
اعلان کيا ہے کہ اس نے دین کی کسی بات کو مخفی نہيں رکها ہے اور کوئی ایسی پسندیدہ
یا ناپسندیدہ بات نہيں چهوڑی ہے جس کے ليے واضح نشانِ ہدایت نہ بنا دیا ہو یا کوئی محکم
آیت نہ نازل کردی ہو جس کے ذریعے روکا جائے یا دعوت دی جائے۔ اس کی رضا اور ناراضگی
مستقبل ميں بهی ویسی ہی رہے گی جس طرح وقتِ نزول تهی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ حدیث ثقلين بهی ایک زندہ اور معتبر سند ہے کہ الله تعالیٰ نے
دونوں (کتاب اور عترت اہل بيت عصمت و طہارت ) کو امانت کے طور پر لوگوں کے درميان چهوڑا
اور ان سب سے ایسی عمدہ اور عظيم امانت کی حفاظت کے ليے عہد و پيمان ليا اور تاکيد
فرمائی کہ یہ دونوں امانت ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ ہيں اور بعد ميں ایک دوسرے سے
جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ قيامت کے دن پيغمبر اکرم (ص) کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں
گی۔
یہ حدیث مبارک فریقين (شيعہ و سنی) کے موثق راویوں سے معتبر کتابوں ميں متعدد
طرق سے مختلف الفاظ کے ساته تحریر کی گئی ہے۔
مولف نے اس کتاب کے اختصار کے پيش نظر مناسب سمجها کہ ایک صحيح ماخذ پر
اکتفا کریں جو دار التقریب بين المذاہب الاربعہ قاہرہ ميں “حدیث ثقلين” کے عنوان سے ٢۵
شعبان ١٣٧٠ ء ہجری قمری ميں علامہٴ فاضل شيخ محمد قوام الدین قمی و شنوی نے تدوین و
تاليف کی ہے اب ہم اس مبارک حدیث کے متن کو قارئين کرام کے سامنے پيش کر رہے ہيں۔
٣٧٧ ۔ “قالَ صَلَواتُ اللہِّٰ عَلَيہ وآلہ وَسَلَّم : اَیُّهَا النّٰاسُ اِنَّمٰا انا بشرٌ اَو شکُ ، اَوْ یُوشکُ ،
رَسولُ رَبّی ، فَاُجيبَ ، فَاجَيبُہ ، اَو کَانّیِ قَد اَواِنّی لَاظُنُّ اَن اُدعْ یٰ فَاُجيبَ ، اَو اَن تَاتينْی ، اَو یَاتی
دُعيتَ فَاجَبتُ ، واَنّی اَو اَنا تارکٌ ، اَو تَرکت ، اَو قَدْ تَرکتُ ، اَو خَلفْتُ ، اَو مُخلفٌ فيکُم ، الثَقَليْن ، اَو
ثَقَلَيْن ، اَو اٴمَرَیْن ، اَوْ الثَقَلَيْن خَليفَتيْن ، اَوْاِثْنين ، اَو مٰا انْ تَمسکتُم بہ ، اَو مٰا اِن اَخَذتُم بہ ، اَومٰا
اِنْ اِعتَصَمْتُمْ بہ ، لَنْ تضلّوا بعدی ، اَو لَنْ تَضلّوا ابداً ، اَو لَنْ تضلّوا ، اَنْ اِتّبِعتُمُوهُمٰا ، اَو وانّکم لَنْ
ہ الهُدیٰ والنُور ، اَو الصِدقْ ، اَو تضلّوا بَعدهُما ، وَهُمٰا کِتابُ اللّٰہِ ، حَبلٌ مَمدودٌ ، اَو کتابُ اللّٰہ فی
وَقرابَتی اَو اَهلُ بَيتی اَوْ وعِترَتی ، اَو وعِترَتی وهُم اَهلُ بيتی ، کِتابِ رَبّی وعِترتی اَهلُ بَيتی
اَهلُ بيتی ، اَونَسَبی ، واِنّها لَن یَفْتَرقٰا، اَو لَنْ یَفترقٰا ، اَو لَنْ لاٰ یفتَرقٰا ، اَو اَنّها لَقرینانُ لَنْ یَفترقٰا
فيهما ، اَو حَتیٰ یَردٰا عَلَیّ الحوضِ ، فَانظُروا اَو فَاتقُواللّٰہ ، وانظُروا کَيفَ تَخلفُونی ، اَوُ تحفظونی
فيهمٰا ، اَو بِمَ اَوبمٰا ، اَو مٰاذٰا ، اَو مٰا تَخلفُونی فيهمٰا ، اَو اَن اللطيفُ الخبير فانصرُوا کَيفَ تُلحقوا بی
اِنّٰهما لَنْ یَفترقٰا حَتیٰ یَلقيانیٰ ، سَالتُ ذٰالکَ رَبّی فاَعطٰانی ، ی ، اَو انبَانی اَو نَبان ، اَخبَرنی
فَلاٰ تَبِعُوهُم فَتُهلکوا ، وَلاٰ تُعَلِّمُوهُم فَانَّهُم اَعلم مِنکُم ، او فَاستَمسکوابهٰا ولاٰ تضلّْوا ، اواَنهُما لَنْ
اَن یَودَهُ مٰا عَلیَ الحَوضَ ، اَو ساَلتُہ فوَعدُنی ینقَضِ اٰي حَت یٰ یَر اٰ د عَلیَّ الحَوضِ ، اَو سَالتهُ مٰا رَبّی
ذٰالک لَهُما ، وَالحَوض عَرْضُہ مٰابَين بُصریٰ الیٰ صنَعٰا ، فيہ مِنْ الآنيَة عَددَ الکَواکب ، اَوْ اَنّ اللَطيفُ
الخَبيرُ عَهدَ اِلیَّ اِنهُما لَنْ یَفترقٰا حَتیٰ یَردٰا عَلیَّ الحوض کهاتين واشار بالسبابتين اَوْ انی فرطکم
عَن ثِقلْی نَ تُلقونی وانّکم تبعی وتوشکون ان تردوا علی الحوض ، واَسئلکُم ، اَوْ سٰائِلکُم ، حی
نَ ترُدونَ عَل یٰ عَن الثَقَلَينْ ، کَيفَ خَلفتُمونی فيه مٰا ، اَو وَاَن اللہَّٰ سٰائلی ، اَو اَنّی سٰائلکم حی
وَسٰائلُکُم فمٰاذا اَنتُم قٰائِلَون ، اَواَنّی لکُم فرُط ولَکم وَاردُونَ عَلیَ الحَوضَ فَانْظُرُوا کَيْفَ تُخْلِفُونی
لَ اَوْ قُلنٰا ، ومٰا الثقلان ؟ قال صَلَّی اللّٰہ عَليہِ وَآلہ وَسلّم : کِتابَ اللّٰہِ طرفہ بيدِ اللّٰہِ فِی الثَقَلَينْ قی
، وطَرفَہ بایدیکم او قٰالَ الاَکبر او الثَّقل الاَکبر اَوْ الاَکْبر مِنْهُمٰا اَوْ اَوّلهما اَوْ اَحدهما کتابِ اللّٰہَ ،
فَمَن اِستَقبَْل قِبلَتی، وَاَجابَ دَعوَتی ، فَليستوص ، والاَصْغَرَ ، او الثِقل الاصغر ، اَوْ والآخر عِترتی
اَحدُه مٰا اَعظَم مِنَ ، اَو حَسبُْکُم کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَعِترتی مِن بهمٰا خيراً او اُوصيکُمْ بِکتٰابِ اللّٰہِ وعِترَتی
اَوْ اَن اللّٰہ سٰائِلکُم کَيفَ ، الاٰخَر ، اَوقٰالْ اِنّی سَائلُکم عَن اثنينِ : عَن القرآنِ وَعَن عِترتی
کُم مٰا اِنْ تَمَسَّکتُم بہ لَنْ تضلّوا اَوْ مٰا انْ کِتٰابِہ وَاَهْلِ بيتی ، اَوْ اِنّی تٰارکٌ فی فی خَلَّفتمُونی
اَخَذْتُم لَنْ تَضلّوا بَعدی ، اَمرین اَحَدهُمٰا اَکْبَر من الآخر، سبَبُ مُوصولٌ من السَماءِ اِلی الاَرضِ ، اَوْ
اَو قَدْ تَرَکت فيکُم مٰا لَمْ تضلّوا عَبدہ اَوْ انّی قَدْ کتابَ اللّٰہ وعترتی انّی تٰارکٌ فيکُمُ الثَقَلَيْن خَلفی
ترکت فيکُم الثَقَلَيْن : الثَقَلُ الاَکبَر والثَقَلُ الاَصغَْر ، وَاَمّا الثَقلُ الاَکبَر فَبيد اللہِّٰ طَرفہ والطَرفُ ا لاٰخر
کم ، وَهُو کتٰابُ اللّٰہ ، اِنْ تَمَسَّکْتُم بہ لَن تضلّوا وَلَنْ تضلوا ابداً او فاسْتَمْسکُوا فلاٰ تضلّوا ولا باَیدی
اَهلُ بَيتی ، اَو اَ لاٰ وَعِترَْتی تبدّلوا اوفتمسکوا بہ لَن تزالوا ولَنْ تضلّوا ، واَمَّا الثَقَلُ الاَصغرِ فَعِترَتی
اٰقلاٰ مَرَّةً ، اَو مَرَّتَينِ ، اَو ثَ لاٰثَ مَرّاتٍ ، اَو اِنَّ اللہَّٰ عَزّوَجلّ و اُوحَی اَهلَ بَيتی ، اَوْ اَذْکرکم اللّٰہُ فی
نَجوتم ، وَانْ تَرکتُموہُ هَلَکتُم ، اِنَّ اَهلَ بَيتی و اِلیّ اِنّی مَقبوضٌ ، اَقولُ لَکُم قولاً ان عَملتُم بہ
اِنْ تَمسَکْتُم ، عِترَتی هُم خٰاصَتی وَ حٰامتی ، واِنّکُم مَسئولُونَ عَن الثقَلَينِ :کِ اٰتبَ اللہِّٰ وعِترْتی
کُم کِتٰابَ اللّٰہِ بِهمٰا لَنْ تُضِلّوا ، اَو اَنّکُم لَنْ تَضِلّوا انْ اِتَّبَعتُم و استَمْسَکْتُمْ بِهِمٰا ، اَوْ انّی تٰارکٌ فی
کم اَحدهُما ، واَکْبَر مِنْ الآخرِ ، اَوْاِنّی تٰارِکٌ فی ، واَهلُ بَيتی ، فَهُما خَليفَ اٰتنِ بَعدی وَعِترْتی
الثَقَلَينَ : کَ لاٰمُ اللہِّٰ وَ عِترَْتی ، اَلا وفَتَمَسکُوا بِه مٰا، فَاَنّهما حَبلان یٰ لاَنقَْط اٰ عنِ اِل یٰ یوم الق يٰمة
وَقَد قَدمتُ اِلَيکُْم الَقولُ و اٰقلَ “ اَیّها النّاس ، یُوشکُ اَن اَقبض قبضاً سریعاً فَيَنطلقُ بی
عزَوجَلّ وَعِترَْتی اَهلُ بَيتی ، ثُمَّ اَخَذَ بِيَد عَلیٍ کُم کِتابٌ ربّی مَعذرةً اِليکم، اَلاٰ اِنی مُخلفٌ فی
فَقٰال هٰذا عَلیٌّ مَعَ القُرآنِ ، والقُرآنٌ مَعَ عَلیٍّ لاٰ یفترقان حَتی یَردا عَلیّ الحَوضْ فاَساَلَهُما عَما
) خَلفتَ فيه مٰا ” ( ١
جن تمام طریقوں سے یہ حدیث وارد ہوئی ہے ان کے ترجمے کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
اے لوگو! یقينا ميں بشر ہوں۔ خدائے بزرگ کا پيغام مجهے پہنچا ہے ميں بہت جلد اس
دنيا سے تمہارے درميان سے جانے والا ہوں اس ليے ميں دو سنگين و گراں بہا چيزیں اپنے
بجائے تمہارے درميان چهوڑ رہا ہوں۔ یہ وہ چيزیں ہيں کہ تم ان کی پيروی کرو اور ہميشہ ان پر
عمل کرو تو ميرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور ہميشہ ذلت و خواری سے محفوظ رہو گے۔
ان دو ميں سے ہر ایک دوسرے سے بزرگ تر اور گراں تر ہے۔ وہ دو چيزیں کتابِ خدا اور
ميری عترت اور ميری اہل بيت ہيں۔ ان ميں جو سنگين تر اور بزرگ ہے وہ کتاب پروردگار ہے جو
رہنمائی کا وسيلہ ، ہدایت کا نور ہے اور وہ عالم بالا سے زمين اور زمين والوں تک متصل ایک
رسّی ہے اس کا ایک سرا خدا کے ہاته ميں ہے اور دوسری سمت تمہاری طرف ہے۔ پس تم اس
سے متمسک رہنا اور اس کو متغير نہ کرنا تاکہ کبهی گمراہ نہ ہو۔ ليکن وہ دوسرا ثقل (گران بہا
چيز) جو اس سے چهوڻا ہے وہ ميری عترت اور ميرے اہل بيت ہيں، ميرے خویش ہيں۔ آگاہ رہو
متوجہ رہو ميری عترت کے بارے ميں۔ ميں اپنے اہل بيت کے بارے ميں اپنے اور تمہارے درميان
خدا کو واسطہ قرار دیتا ہوں۔ اس عبارت کو ایک مرتبہ اور بعض کہتے ہيں کہ: دوبار اور بعض کہتے
ہيں: تين دفعہ آں حضرت (ص) نے مکرر فرمایا۔ پس خدائے بزرگ سے ڈرتے رہو اور متوجہ رہو کہ
کس طرح ميرے اہل بيت کے ساته رویّہ اختيار کرتے ہو اور ميری سفارش کو ان کے بارے ميں
پایہٴ تکميل تک پہنچاتے ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ حدیث ثقلين، تاليف علامہ فاضل شيخ محمد ابن حجر عسقلانی قوام الدین۔ (
دانا و مہربان پروردگار نے ميری جانب وحی بهيجی ہے۔ اور مجهے آگاہ کيا ہے کہ یہ
دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک حوضِ کوثر پر جس کی وسعت بصریٰ اور
ضعاء کے درميانی فاصلے کے برابر ہے اور ان کے کنارے ستاروں کی تعداد کے برابر پيالے رکهے
ہوئے ہيں وارد نہ ہوجائيں۔ ميں نے اس سے طلب کيا ہے اور اس نے مجهے عطا کيا ہے کہ ان
دونوں کے درميان جدائی نہيں ہوگی جب تک وہ ميرے پاس حوض پر وارد نہ ہوجائيں۔ وہ اس
طرح باہم ملے ہوئے ہيں جس طرح دو انگلياں۔ تم بہت جلد ميرے پاس پہنچو گے اور تم سے ان
دو گراں قدر و سنگين چيزوں کے بارے ميں پوچها جائے گا کہ تم نے ان کے ساته ميری
جانشينی ميں کيا سلوک کيا۔ کسی نے عرض کيا کہ: یا رسول الله (ص)! وہ دو گراں بہا کون
ہيں تو حضور (ص) نے ارشاد فرمایا کہ: الله کی کتاب جو ثقل بزرگ ہے اور دوسرے ميری عترت
ميرے اہل بيت ہيں۔ پس جس نے ميرا سامنا کيا اور ميری دعوت کو اسلام کی بابت قبول کيا
اس کو چاہيے کہ وہ ان دونوں کے بارے ميں ميری سفارش کو خير و خوبی سے انجام دے۔
ميں تم سے سفارش کرتا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت کے ليے یہ دونوں تمہارے ليے
کافی ہيں اس ليے ان دونوں سے متمسک رہنا کيونکہ یہ دونوں ہدایت کی رسی ہيں جو قيامت
تک قطع نہيں ہوں گی نيز حضور اکرم (ص) نے فرمایا: اے لوگو! مجهے اميد ہے کہ ميں بہت
جلد اس جہان سے رخصت ہونے والا ہوں لہٰذا بتحقيق ميری باتيں جو خدائے بزرگ کے نزدک
ميری ذمہ داری کو مکمل کریں گی ميں ان کو تمہارے درميان چهوڑ رہا ہوں اے لوگو! آگاہ ہوجاؤ
کہ ! ميں تمہارے درميان کتاب خدائے بزرگ اور اپنی عترت اہل بيت کو چهوڑ رہا ہوں اس گفتگو
کے بعد آپ نے علی - کے ہاته کو پکڑا اور فرمایا: یہ علی - ہے جو قرآن کے ساته ہے اور قرآن
علی - کے ساته ہے۔ یہ دونوں جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس وارد نہ
ہوجائيں پس تم ان دونوں سے جو دل چاہے پوچه لو جو کچه ميں نے ان کے درميان چهوڑا ہے۔
مولف کہتے ہيں: یہ مبارک حدیث متعدد طرق کے ساته شاید وہ ستّر سے زیادہ ہوں کہ
سب نے بالاتفاق لفظ کتاب و عترت یا صرف اہل بيت یا دونوں اہل بيت اور عترت کو نقل کيا ہے
اگرچہ تمام الفاظ کے نقل کرنے ميں اس کے سياق و سباق ميں اختلاف پایا جاتا ہے جيسا کہ
اشارہ کيا جاچکا ہے۔
٣٧٨ ۔ “قٰالَ اِبن حَجر العَسقلاٰنی “ثُم اعلم اِنّ الحَدیثُ التَمسُک بِ اٰ ذلکَ طُرقاً کَثيرةً ورَدتَ
آخَر اِنّہُ اٰقلَ بغَدیرِ عَن نيفُ وَعِشرینَ ص حٰابياً ، وفی بعض تِلکَ الطُرقَ اِنّہُ اٰقلَ لٰذِکَ بِعَرفَةَ ، وفی
آخر اِنّہُ قٰالَ بِالمدینةَ فِی مَرضہ ، وَقَدْ امتَلات الحُجرَة بِاصحٰابہِ ، وفی آخرَ اِنّہُ قٰالَ لَمٰا خُمٍ ، وَفی
تِلکَْ المَواطِن وَغَيرِْ هٰا اِذ لاٰ اٰ منعَ اِنّہُ کَرَّرَ عَليهِم فی قامَ خَطيباً بَعدَ اِنصْرافِہ مِن ال طٰائِفِ ، و اٰلتَنافی
) ، اِهتمٰاماً بِشاٴن الکتاب العزیز و العِترَة الطٰاہرة ” ( ١
ابن حجر عسقلانی حدیث ثقلين کے بارے ميں کہتے ہيں: اس حدیث کے کثرت طرق
پائے جاتے ہيں اور بيس سے زائد اصحاب نے اسے نقل کيا ہے۔ بعض نے اس حدیث کو روز عرفہ
کے واقعات ميں نقل کيا ہے ، بعض نے غدیر خم کے واقعات ميں اور بعض نے مدینہ ميں پيغمبر
(ص) کی حيات کے آخری ایّام کے وقت مرض الموت کے واقعات ميں کہ جب پيغمبر (ص) کے
اطراف ميں اصحاب آپ کے کمرے ميں جمع تهے نقل کيا ہے بعض نے اس حدیث کو پيغمبر
(ص) کے سفر سے واپسی کے موقع پر بيان کيا ہے۔
کہ ان کے نقل اقوال ميں کوئی تضاد نہيں پایا جاتا اس ليے کہ قرآن اور اہل بيت بہت با
ارزش ہيں اورپيغمبر (ص) نے بارہا تاکيد کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الصواعق المحرقہ، ص ٨٩ ۔ (
”وقالَ ایضاً “ولَهذا الحدیث طرق کثيرة عن بضع و عشرین صحابياً لا حاجة لنا بسطها ”
)١)
اسی طرح ابن حجر عسقلانی کہتے ہيں: اس حدیث کو بہت سے اصحاب نے بيان
کياہے کہ جس کی تفصيل ميں جانے کی چنداں ضرورت نہيں ہے۔
وَصية ٣٧٩ ۔ “الارشٰادِ لِلشيخِ المُفيدْ قُدّ س سِرِّہ عَنْ اَميرُ الموٴمنين عليہ السلام فی
لکميل بن زیاد یٰا کُميلُ نَحْنُ الثَقلُ الاَصغَر وَالقُرآنُ الثَقلُ الاَکْبر و قَدْ اَسْمَعَهُم رَسولُ اللّٰہِ صَلَی اللّٰہ
عَليہِ وَآلہ وقَد جَمعَهُم فَ اٰندی الصَلاَةِ جامعةِ یَومَ ک اٰ ذ وکذا فَلَم یَتَخَلُّفَ اَحدُ فَصعَد المنبرَ فَحَمدُْ اللہّٰ
واَثنْی عَلَيہِ وَ اٰقلَ مَ اٰ عشِرَ الناسِ اِنّی مُوٴدّعَن رَبّی عَزّوَجَلّ لاٰمُخبِْرٌ عَن نَفسْی فَمن صَدَّقنی فَقد صَدّقَ اللہِّٰ وَمَن صَدَّقَ اللہِّٰ اَثابَہ الجَنانِ وَمَن کَذَّبنْی کَذَّبَ اللہّٰ عَزَّوَجَلّ وَمَن کَذّبَہ اَعقبہ النيرْانِ ثُمّ
نادانی قَصعدت فاقامتی دونہ دراسی الی صدرہ والحسن والحسين عليہما السلام عن یمينہ
وشمالہ ثُمّ اٰقلَ مَ اٰ عشِرَ النّاسِ اَمرَنی جَبرئيلَ عَنِ اللہّٰ عَزَّوَجَلّ رَبّی وَرَبّکُم اِنّ اَعلِْمَکُم اَنّ القُرآنُ هُو
الثَقَلُ الاَکبَْرِ وَاَن وَصيّتی هٰذا واَبنائی وَمَن خَلفَْهُم مِن اَص بٰ لاِهم هُم الثَقَلُ الاصغَْرُ یُشهَدُ الثَقَل الاَکبَْر
بِالثَقَلِ الاَصغَْر وَیَشهَْدُ الثَقَل الاَصغَْر بِالثَقلِ الاَکبَر کُل اٰوحدٌ من هٰا ملازمٌ لِ صٰاحبہِ غَيرَْ مُفارِقٍ لہُ حَتّی
یَر اٰ د عَلَی اللہِّٰ فَيُحکَْم بَينهُما وبَين العِباد“
شيخ مفيد عليہ الرحمہ نے کتاب ارشاد ميں حضرت امير المومنين - سے کميل ابن زیاد
نخعی کی وصيت کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ فرمایا: اے کميل ! ہم ثقل اصغر ہيں اور قرآن ثقل
اکبر ہے اور اس معنی کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ صواعق محرقہ، ص ١٣۶ ۔ (
رسول اکرم (ص) نے تمام لوگوں کے گوش گزار کيا کہ جب ان سب کو جمع کيا تها تو فلاں فلاں
دن (روز غدیر) نماز جامعہ کے ليے آواز دی: اور سب حاضر ہوئے کسی ایک نے بهی خلاف ورزی
نہيں کی پهر آنحضرت (ص) منبر کے اوپر تشریف لے گئے حمد و ثنائے الٰہی بجالانے کے بعد
فرمایا: اے لوگو! جان لو کہ ! یہ خبر جو تمہيں ابلاغ کر رہا ہوں وہ خدائے عزوجل کی طرف سے
ہے وہ ميں اپنی جانب سے نہيں کہہ رہا ہوں لہٰذا جو بهی ميری تصدیق کرے اس نے خدائے
عزوجل کی تصدیق کی اور جو شخص خدا کی تصدیق کرے اس کا اجر و ثواب بہشت ہے اور جو
شخص ميری تکذیب کرے اس نے خدائے عزوجل کی تکذیب کی اور جو خدا کی تکذیب کرے
اس کا ڻهکانہ آتش جہنم ہے۔ پهر مجهے آواز دی لہٰذا ميں بالائے منبر گيا خود سے ایک زینہ
نيچے مجهے بڻهایا اس طریقے سے کہ ميرا سينہ آنحضرت (ص) کے سينہٴ مبارک کے برابر قرار
پایاامام حسن - اور امام حسين - آنحضرت (ص) کے داہنی اور بائيں سمت کهڑے ہوئے تهے۔
پهر فرمایا: اے لوگو! حضرت جبرئيل - ميرے اورتمہارے پروردگار کا حکم ميرے ليے لے کر آئے
تاکہ ميں تمہارے درميان اعلان کروں کہ یقينا قرآن ثقل اکبر ہے اور یہ ( علی ابن ابی طالب ) ميرا
وصی اور اس کے فرزند حسن و حسين اور جو اِن کی اصلاب سے آئيں گے وہ ثقل اصغر ہيں۔
ثقل اکبر ثقل اصغر کا گواہ او ر ثقل اصغر ثقل اکبر کا گواہ ہے ان ميں ہر ایک، ایک دوسرے
کے ہمراہ ہوں گے ہرگز ہرگز جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ خدائے سبحان کی بارگاہ ميں پہنچيں
گے لہٰذا خدا ان کے اور اپنے بندوں کے درميان (قيامت کے دن) حکم فرمائے گا (کہ ان دونوں
سنگين اور گراں بہا امانت کے ساته کيسا سلوک کيا اور کيسے اس کی حفاظت کی ہے)۔
ابن اثير ثقلين کی وجہ تسميہ ميں رقم طراز ہيں: کيوں کہ اس کا تحمل اور اس کے
مضمون پر عمل کرنا سنگين امر ہے لہٰذا ثقلين سے تعبير کيا گيا ہے اور ہر عمدہ اور با ارزش
شے کو تعظيم و تکریم کے باب سے ثقيل کہتے ہيں۔ اور کہا گيا ہے کہ ثقلين مادہٴ ثقل و تحریک
) سے ماخوذ ہے کہ جس کے معنی مسافر کے اسباب سفر کے ہيں۔ ( ١
طرائف ميں سيد ابن طاؤوس رحمة الله عليہ نے نقل کيا ہے کہ شيخ مفيد کی ایک کتاب
ہے جس کا نام (العمدہ) ہے اس کتاب ميں کہا ہے: آپ کے پيغمبر (ص) (امت) کی حدیث (انی
تارک فيکم الثقلين) سے (حضرت علی - کی ) امامت کے اثبات و صحت پر احتجاج کيا جاسکتا
ہے۔
٣٨٠ ۔ “وفی عيون اخبار الرضا عليہ السلام باسنادہ عن غياث بن ابراہيم عن الصادق عن
آبائہ عن الحسين بن علی عليہم السلام قال: سئل امير الموٴمنين عليہ السلام عن معنی قول
رسول اللّٰہ (ص) انّی مخلف فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ و عترتی من العترة فقال انا والحسن
والحسين والائمّة التسعة من ولد الحسين تاسِعُهم مَهدیُّهم وقٰائِمُهم لاٰ یُفارِقُون کِتٰابَ اللّٰہِ ولا
) یفارقهم حتی یردوا علی رسول اللّٰہ حوضہ ” ( ٢
عيون اخبارالرضا - ميں صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته غياث ابن ابراہيم
سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام سے انہوں نے حضرت حسين
ابن علی - سے نقل فرمایا ہے کہ: حضرت امير المومنين - سے “ميں تمہارے درميان دو عمدہ
اور گراں قدر چيزیں چهوڑ کر جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری ميری عترت” عترت کے بارے
ميں دریافت کيا کہ عترت سے مراد کون ہيں؟ فرمایا: عترت سے ، حسن ، حسين اور اولاد
حسين - ميں سے نو ائمہ مراد ہيں کہ ان ميں سے نواں مہدی اور ان کا قائم - ہوگا اور یہ
کتاب خدا سے جدا نہيں ہوںگے اور قرآن بهی ان سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ رسول خدا (ص)
کے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ النہایة ، ج ١، ص ٢١١ ۔ (
٢(۔ عيون اخبار الرضا - ج ٢، ص ۶٠ ۔ (
حَدیث الوِْ یٰ لاَةِ بِاس اْٰندِہِ عَن جٰابِرِ بنِْ ٣٨١ ۔ “رَوٰی الحافظ الکبير ابن عقدة فی
حَجَّةِ الوِْ اٰ دعِ فَلَماٰ رَجَعَ اِلَی الجُْحفَْةِ نَزَلَ ثُمَّ اٰقلَ: کُنّا مَعَ النَّبِی (ص) فی عَبْدِ اللّٰہِ الاٴنْصٰاری
مَسئولٌ وَاَنتُْم مَسئُْولُونَ فَما اَنتُْم اٰقئِلُونَ ؟ اٰقلُوا نَشهَْدُ اَنَّکَ خَطَبَ الناٰسَّ فَ اٰ قلَ : اَیُّهَا النّاسُ اِنّی
کُمُ الثَْقَلَينِْ لکُم فَرَطٌ وَاَنتُْم اٰورِدُونَ عَلَیَّ الحَوضَْ وَاِنّی مُخَلِّفٌ فی بَلَّغتَْ وَنَصَحتَْ وَاَدَّیتَْ ، اٰقلَ اِنّی
وَاِنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَ ، اَهلَْ بَيتْی اِن تَمَسَّکتُْم بِه مٰا لَن تَضِلّوا ” کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَعِترَْتی
اَولْ یٰ بِکُم مِن اَنفُْسِکُم ؟ اٰقلُوا بَل یٰ ، فَ اٰ قلَ اٰ خِذاً بِيَدِ عَلِیٍّ : مَنْ کُنْتُ ثُمَّ اٰقلَ اٴَلَستُْم تَعلْمُونَ اَنّی
) مَوْلٰاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلاٰہُ ثُمَّ قٰالَ اَللّٰهُمَّ واٰلِ مَنْ وٰالاٰہُ وَعٰادِ مَنْ عٰادٰاہُ ” ( ١
حافظ کبير ابن عقدہ نے حدیث ولایت ميں اپنے سلسلہ ٴ اسناد کے ساته روایت کی ہے
کہ جابر ابن عبد الله انصاری کا بيان ہے: ميں رسول الله (ص) کے آخری حج کے موقع پر آپ کے
ہمراہ تها۔ جب آپ جحفہ کے مقام پر پہنچے تو اتر پڑے لوگوں کے درميان خطبہ دیا اور ارشاد
فرمایا: اے لوگو! مجه سے سوال کياجائے گا اور تم سے باز پرس ہوگی ۔ تم کيا بات کہتے ہو؟
لوگوں نے عرض کيا: ہم گواہی دیتے ہيں کہ آپ نے تبليغ کی نصيحت کی اور مکمل طور پر ان
چيزوں کو ادا فرمایا (اور کچه فروگزار نہيں کيا) پهر آنحضرت (ص) نے فرمایا: “ميں تم سے پہلے
حوض پر موجود رہوں گا اور تم ميرے پاس حوض پر وارد ہو گے ميں تم ميں دو گراں قدر چيزیں
قائم مقام کے طور پر چهوڑے جارہا ہوں اگر ان کے دامن سے وابستہ رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ
نہ ہو گے (ایک ) خدا کی کتاب ہے (دوسری) ميری اولاد ہے جو ميرے اہل بيت ہيں یہ اس وقت
جدا نہيں ہوں گے جب تک کہ ميرے پاس حوض پر وارد ہوجائيں پهر فرمایا: کيا تم نہيں جانتے کہ
ميں تم سے تمہاری جانوں سے افضل ہوں” لوگوں نے عرض کيا: ہاں ایسا ہی ہے پهر علی - کا
ہاته پکڑے ہوئے فرمایا: جس کا ميں مولا ، سرپرست اور اولی بالنفس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الغدیر، ج ١، ص ٢١ ۔ حدیث ثقلين، نجم الدین عسکری، ص ٢۴ ۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٢۵ ۔ (
ہوں اس کے یہ علی مولا، سرپرست اور اولی بالنفس ہيں اے خدا! تو اس کو دوست رکه جو اس
کو دوست رکهے ، تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے۔
٣٨٢ ۔ “وَرَوَی الحافظ ابو بکر الهيثمی فی مجمع الزوائد : اٰقلَ : نَزَلَ رَسُولُ اللہّٰ صَلّی اللہُّٰ
لاٰ اَجِدُ عَلَيہِْ (والہ ) وَسَلّم الجُحفَةَ ثُمَّ اَقبَلَ عَلَی الناٰسِّ فَحَمِدَ اللہَّٰ وَاَثنْ یٰ عَلَيہِ ، ثُمَّ اٰقلَ: اِنی
لِنَبیٍ اِلا نِصفَْ عُمرِْ الّذی قَبلَْہُ وَانی اوشَْکُ اَن اُدعْ یٰ فَاَجَبتُْ فَ مٰا اَنتُْم اٰقئِلُونَ ؟ اٰقلُوا نَصَحتَْ اٰقلَ:
اَلَيسَْ تَشهَْدُونَ اَن لاٰ اِ ہٰلَ اِلاَّ اللہُّٰ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبدُْہُ وَ رَسُولُہ ، وَاَنَّ الجَْنَّةَ حَقٌ وَاَنَّ النّارَ حَقٌ اٰقلُوا
نَشهَْدُ ، اٰقلَ: فَرَفَعَ یَدَہُ فَوَضعَ هٰا عَل یٰ صَدرِْہِ ثُمَّ اٰقلَ: وَاٴَنَا اَشهُْدَ مَعَکُم ، ثُمَّ اٰقلَ: اٴَ تٰ لاَسمَْعُونَ ؟ اٰقلُوا
فَرَطٌ عَلَی الحَْوضِْ ، وَاَنتُْم اٰورِدُونَ عَلَیَّ الحَْوضَْ ، وَاِنَّ عَرضَْہُ اٰ مبَينَْ صَن اْٰ عء وَبُصرْ یٰ نَعَم قالَ: فَاِنّی
الثَّقَلَيْنِ ، فَنٰآدٰی مُنٰادٍ : وَمَا الثِق لْاٰنِ فی فيہِ اَق اٰ دحٌ عَدَدَ النُجُومِ مِن فِضَّةٍ فَانظُْروا کَيفَْ تُخَلِّفُونی
کُم فَتَمَسَّکُوا بِہِ لاٰ تَضِلّوا ، اٰی رَسُولَ اللہِّٰ ؟ اٰقلَ کِ اٰتبُ اللہِّٰ طَرَفَ بِيَدِ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ ، وَطَرَفٌ بِاَیدْی
اَنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَر اْٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ فَسَاٴلتُْ فَ الخَْبيرَ نَبَّاٴَنی وَاِنَّ اللَّطی رَتی اَلآخَرُ عَشی
ذٰلِکَ لَهُما رَبّی فلا تُقَدِّمُوهُما فَتَهْلِکُوا ، وَلاٰ تُقَصِّروا عَنْهُمٰا فَتَهْلِکُوا، وَلاٰ تُسَلِّمُوا هُما فَهُمْ اَعْلَمُ مِنْکُمْ
،ثُمَّ اَخَذَ بِيَدِ عَلِیٍ رَضِیَ اللہِّٰ عَنہُْ فَ اٰ قلَ مَن کُنتُْ اَولْ یٰ بِہِ مِن نَفسِْہِ فَعَلِیٌّ وَلِيُّہُ ، اَللّٰهُمَّ اٰولِ مَن اٰولاٰہُ
یہِ عَدَدُ الکَْ اٰوکِبِ مِن قِد حْٰانِ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ وَ اٰقلَ رَوایَةٍ اَخصَْرُ مِن هٰذِہِ : ف وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ، وَفی
في هٰا اَیضْاً اَلاکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ وَالاَصغَْرُ عِترَْتی ، وَفی رِ اٰویَةٍ لَماٰرَّجَعَ رَسُولُ اللہِّٰ صَلَّی اللہُّٰ عَلَيہِْ ( والہ )
تُ قَد دُعی رِ خُم اَمَرَ بہ دو حٰاتٍ فَقََمنَْ ، ثُمَّ اٰقمَ فَ اٰ قلَ: کَاٴَنّی وَسَلَّم مِن حَجّةُ الوِْ اٰ دعِ وَنَزَلَ غَدی
آخِرِہ فَقُلتُْ لِزَیدْ : اَنتَْ سَمِعتَْہُ مِن رَسُولِ اللہِّٰ صَلّی اللہُّٰ ( عَلَيہِْ وَآلِہِ ) وَسَلّم ؟ فَاَجَبتُْ ، وَ اٰقلَ فی
) الدَّو حْٰاتِ اَحَدٌ اِلا رَا ہٰٴُ بِعَينِْہِ وَسَمِعہُ بِاذنَْيہِ ’ ” ( ١ فَقٰالَ مٰا کٰانَ فی
حافظ ابوبکر ہيثمی نے مجمع الزوائد ميں روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: رسول خدا
(ص) نے جحفہ کے مقام پر نزول اجلال فرمایا اور پهر لوگوں کی طرف رخ کرکے الله تعالیٰ کی
حمد و ثناء بجالائے اور فرمایا: ہر نبی کو اپنے سے گزشتہ نبی کے مقابلہ ميں نصف زندگی عطا
ہوتی ہے یقينا عنقریب ميرا بلاوا آجائے اور ميں لبيک کہوں تو پهر تم کيا کہتے ہو؟ سب نے کہا:
آپ نے حق وعظ و نصيحت ادا کيا تو آنحضرت نے فرمایا: کيا تم لوگ اس بات کی گواہی نہيں
دیتے کہ اس خدا کے علاوہ کوئی اور معبود لائق عبادت نہيں اور محمد (ص) اس کے بندے اور
رسول (ص) ہيں۔ بہشت و دوزخ حق ہے؟ جواب دیا: ہم سب گواہی دیتے ہيں۔ راوی کا بيان ہے:
پهر آنحضرت (ص) نے اپنے ہاتهوں کو بلند کرکے اپنے سينے پر رکه کر فرمایا: ميں بهی تمہارے
ساته گواہی دیتا ہوں۔
پهر فرمایا: کيا تم لوگ نہيں سنتے؟ جواب دیا: ہاں، فرمایا: ميں تم سے پہلے حوض
(کوثر) پر موجود رہوں گا اور تم بهی ميرے حوض پر وارد ہوگے وہ حوض بُصریٰ سے لے کر صنعا
کے علاقے سے زیادہ چوڑا ہے اس ميں چاندی کے پيالوں کی تعداد آسمان کے ستاروں کے
برابر ہوگی لہٰذا غورو فکر کرو کہ تم ثقلين کے ساته کيسا سلوک کرتے ہو پهر منادی نے آواز
دی: اے رسول خدا (ص)! ثقلين کيا ہے؟ فرمایا: کتاب خدا (قرآن) اس کا ایک سرا خدائے عزوجل
کے قبضہٴ قدرت ميں ہے اور دوسرا سراتمہارے ہاته ميں ہے لہٰذا اس سے وابستہ رہو تاکہ گمراہ
نہ ہو اور دوسرا ميری عترت (اہل بيت ) ہيں اور خدائے لطيف و خبير نے مجهے خبر دی ہے کہ وہ
دونوں ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد
ہوں،لہٰذا س معنی ميں ،ميں نے تمہارے ليے خدا سے دعا کی ہے، لہٰذا ان سے آگے نہ بڑهنا
کہ کہيں ہلاک ہوجاؤ اور ان کے حق ميں کوتاہی نہ کرنا جب بهی ہلاکت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع الزوائد، ج ٩، ص ١۶٣ ۔ الغدیر، ج ١، ص ٣۴ ۔ (
ميں پڑجاؤگے۔ انہيں کسی شے کی تعليم نہ دینا کہ وہ تم سب سے زیادہ جاننے والے ہيں۔
پهر علی - کا ہاته پکڑے ہوئے فرمایا: جس کا ميں مولا اور اولی بالنفس ہوں اس کے یہ
علی مولا اور اولی بالنفس ہيں اے خدا! تو اس کودوست رکه جو اس کو دوست رکهے تو اس
سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے۔
دوسری روایت ميں جو اس سے زیادہ مختصر ہے وہاں ذکر ہوا ہے کہ سونے اور چاندی
کے پيالوں کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہوگی۔
نيز اسی حدیث ميں ذکر ہوا ہے کہ “اکبر، الله کی کتاب قرآن ہے اور اصغر ميری عترت
ہے”۔
٣٨٣ ۔ دوسری روایت ميں مذکور ہے کہ جب رسول خدا (ص) حجة الوداع سے واپس
ہورہے تهے تو مقام غدیر خم پر تشریف لائے اور حکم دیا کچه بڑی لکڑیاں جمع کی جائيں اور
اسے ایک دوسرے پر رکهيں پهر اس کے اوپر کهڑے ہوکر فرمایا: گویا حق تعالیٰ کی جانب سے
ميری دعوت آچکی ہے اور ميں نے اس کو قبول کيا ۔ دوسری روایت ميں راوی نے کہا: ميں نے
زید سے کہا: رسول خدا (ص) سے سناجو کچه ارشاد فرمایا پهر کہا: دوحات (غدیر خم) ميں
کوئی بهی شخص باقی نہيں رہا مگر یہ کہ اس نے اپنی آنکهوں سے انہيں دیکها اور اپنے کانوں
سے ان کی باتيں سنيں۔
اسی جيسی اور بہت سی روایات تدوین شدہ کتابوں ميں جيسے الغدیر اور عبقات
الانوار وغيرہ ميں حدیث ثقلين ،غدیر خم کے واقعات اور بندگان الٰہی سے اس پر عمل کرنے کے
بارے ميں عہد و ميثاق وغيرہ لينے کے متعلق ذکر کی گئی ہيں۔ ہم نے اسی مقدار پر اکتفا کيا
قارئين محترم کو مفصل کتابوں کی طرف ہم رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہيں اور عہد و پيمان
کی اہميت اور اس پر عمل کرنے کے بارے ميں اپنے موضوع کے اس حصہ کو یہيں ختم کرتے
ہيں نيز خداوند منان سے تمام الٰہی عہد و پيمان پر عمل کرنے کی توفيق کے درخواست گزار
ہيں۔
من جملہ آیات ميں سے یہ ہيں:
الله تعالیٰ کا قول: <إِنَّ الَّذِینَ یُبَایِعُونَکَ إِنَّمَا یُبَایِعُونَ اللهَ یَدُ اللهِ فَوقَْ اٴَیدِْیہِم فَمَن نَکَثَ فَإِنَّمَا
) یَنکُْثُ عَلَی نَفسِْہِ وَمَن اٴَوفَْی بِمَا عَاہَدَ عَلَيہُْ اللهَ فَسَيُؤتِْيہِ اٴَجرًْا عَظِيمًا> ( ١
بے شک جو لوگ آپ کی بيعت کرتے ہيں وہ درحقيقت الله کی بيعت کرتے ہيں اور ان کے
ہاتهوں کے اوپر الله ہی کا ہاته ہے (خدا کی قدرت ان کی طاقت سے بالا تر ہے) اب اس کے بعد
جو بيعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کرتا ہے اور جو عہد الٰہی کو پورا کرتا ہے خدا
عنقریب اس کو اجر عظيم عطا کرے گا۔
خدائے سبحان نے اس آیت کریمہ ميں عہد و پيمان کے وفا کرنے کو عظمت ومنزلت کے
ساته یاد فرمایا ہے اور عہد شکنی کے کيفر کردار کو عہد شکن افراد کی گردن پر ڈال دیا ہے۔
انہيں ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول ہے : <مِن المُْؤمِْنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللهَ عَلَيہِْ
فَمِنہُْم مَن قَضَی نَحبَْہُ( ٢) وَمِنہُْم مَن یَنتَْظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبدِْیلًا # لِيَجزِْیَ اللهُ الصَّادِقِينَ بِصِدقِْہِم وَیُعَذِّبَ
) المُْنَافِقِينَ إِن شَاءَ اٴَو یَتُوبَ عَلَيہِْم > ( ٣
بعض مومنين ميں ایسے بهی مرد ميدان ہيںجنہوں نے الله سے کيے ہوئے وعدہ کو سچ
کر دکهایا ہے ان ميں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہيں اور بعض اپنے وقت (شہادت) کا انتظار کر
رہے ہيں اور ان لوگوں نے اپنی بات (عہد و پيمان) ميں کوئی تبدیلی نہيں پيدا کی ہے تاکہ خدا
صادقين کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقين کو چاہے تو ان پر عذب نازل کرے یا ان کی توبہ
قبول کرلے کہ الله یقينا بہت بخشنے والا اورمہربان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فتح، آیت ١٠ ۔ (
٢(۔ قال الراغب: راغب کہتے ہيں: نحب اس نذر کو کہتے ہيں جس کو وفا کرنا واجب ہوتا ہے کہا (
جاتا ہے کہ قضی فلان نحبہ فلاں نے اپنی نذرپوری کی یعنی اپنی نذر کو وفا کيا، نحب موت کے
معنی ميں بهی ذکر ہوا ہے قضی نحبہ ان کی موت واقع ہوئی۔ الخ۔
٢۴ ۔ ، ٣(۔ سورئہ احزاب، آیت ٢٣ (
٣٨۴ ۔ “عن الباقر عليہ السلام فی قولہ تعالیٰ : مِنَ المُْوٴمِنينَ رِ جٰالٌ صَدَقُوا اٰ م عٰاهَدُوا اللہّٰ
عَلَيہِْ ( ای لا یَفِرّوا اَبَداً ) فَمِنهُْم مَن قَض یٰ نَحبَْہُ ( ای اَجَلَہُ وَهُوَ حَمزة وجعفر بن ابی طالب )
) وَمِنهُْم مَن یَنتَْظِرُ ( اَجَلَہُ یعنی عَلِيّاً عليہ السلام ” ( ١
جيسا کہ تفسير قمی ميں وارد ہوا ہے مذکورہ آیہٴ کریمہ جناب حمزہ ، جعفر ابن ابی
طالب ، علی ابن ابی طالب- اور ان کے چچا کے بيڻے عبيدہ کی شان ميں نازل ہوئی ہے کہ
حمزہ - شہيد ہوئے اور حضرت علی - شہادت کا انتظار فرما رہے تهے۔
٣٨۵ ۔ “وَفی تَفسير الصافی نقلا عن الخصال عنہ عن امير الموٴمنين عليہ السلام فی
حَدیثٍ لَہُ مَعَ یَهُودِی اٰقلَ وَلَقَد کُنتُْ عٰاهَدتُْ اللہّٰ تَعال یٰ وَرَسُولَہُ اٴَنَا وَعَمّی حَمزَْةُ وَاٴَخی جَعفَْر وَابنُْ
اَصْحٰابی عَمّی عُبَيدَْةُ عَل یٰ اَمرْ وَفَي اْٰن بِہِ للہِّٰ تَعال یٰ وَلِرَسُولِہِ صَلّی اللہّٰ عَلَيہِْ وَآلہ فَتَقَدَّمَنی
) وَتَخَلَّفْتُ بَعْدَهُمْ لَمّٰا اَرٰادَ اللّٰہُ تَعالیٰ فَاٴَنْزَلَ اللّٰہ تَعالیٰ فينٰا <مِن الُمُوٴمِنينَ رِ جٰالٌ> ” ( ٢
صاحب تفسير قمی نے کتاب خصال شيخ صدوق سے نقل کيا ہے کہ امير المومنين
حضرت علی - نے اپنی ایک حدیث ميں یہودی سے فرمایا: ميں اور ميرے چچا حمزہ اور ميرے
چچا کے فرزند جعفر نے خداوند متعال اور پيغمبر اکرم (ص) سے عہد و پيمان کيا تها، اور اسے
ہم نے وفا کيا تو الله تعالیٰ نے ہمارے حق ميں یہ آیت <من المومنين رجال> نازل فرمائی۔
٣٨۶ ۔ “وفی المجمع : عن علی عليہ السلام فينا نزلت <رجال> اٰقلَ فَاٴَنَا وَاللہِّٰ المُْنتََْظِرُو ما
) بدلت تبدیلاً ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ١٨٩ ۔ (
٢(۔ تفسير صافی، ج ۴، ص ١٨٠ ، خصال، ص ٣٧۶ ۔ (
٣(۔ المجمع البيان، ج ١٠ ، ص ۵٨ ۔تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ٢٩۵ ۔ دعائم الاسلام، ج ٢، ص ٣۵۴ ۔ (
مجمع البيان ميں حضرت علی - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: یہ مذکورہ آیت
ہماری شان ميں نازل ہوئی خدا کی قسم! ميں منتظر ہوں اور سرنوشت (شہادت) ميں کوئی
تغيّر و تبدل نہيں پایا جاتا ہے۔
٣٨٧ ۔ انہيں ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول بهی ہے: إِنَّ اللهَ اشتَْرَی مِن المُْؤمِْنِينَ
اٴَنفُسَہُم وَاٴَموَْالَہُم بِاٴَنَّ لَہُم الجَْنَّةَ (اِلی قولہ) وَمَن اٴَوفَْی بِعَہدِْہِ مِن اللهِ فَاستَْبشِْرُوا بِبَيعِْکُم الَّذِی
بَایَعتُْم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الفَْوزُْ العَْظِيمُ
بے شک الله نے صاحبان ایمان سے ان کی جان و مال کو جنت کے عوض خرید ليا ہے کہ
یہ لوگ راہِ خدا ميں (براہ راست) جہاد کرتے ہيں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہيں اور پهر خود بهی
قتل ہو جاتے ہيں یہ وعدہٴ برحق توریت، انجيل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے
عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب لوگ اپنی اس تجارت پر خوشياں مناؤ جو تم نے خدا سے
کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کاميابی ہے۔
انہيں ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول بهی ہے: <یَابَنِی إِسرَْائِيلَ اذکُْرُوا نِعمَْتِی الَّتِی
) اٴَنعَْمتُْ عَلَيکُْم وَاٴَوفُْوا بِعَہدِْی اٴُوفِ بِعَہدِْکُم وَإِیَّایَ فَارہَْبُونِ> ( ١
اے بنی اسرائيل! ہماری نعمتوں کو یاد کرو جو ہم نے تم پر نازل کی ہيں اور ہمارے عہد و
پيمان کو پورا کرو (جو ہم نے اپنے پيغمبروں کی شان ميں تم سے کيے ہيں) ہم تمہارے عہد کو
پورا کریں گے اور ہم سے ڈرتے رہو۔
٣٨٨ ۔ “وفی تَفْسير العياشی : اِنَّہُ سُئِلَ عَن هٰذِہِ آیَة فَ اٰ قلَ: اَوفُْوا بِوِ یٰ لاَةِ عَلِیّ فَرضْاً مِنَ اللہِّٰ
) اُوفِ لَکُمْ بِالجنّةُ ” ( ٢
تفسير عياشی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت سے اس آیت کریمہ
کے بارے ميں دریافت کيا گيا تو فرمایا: ولایت علی - کے بارے ميں وفا کرو جو الله کی طرف
سے واجب ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ۴٠ ۔ (
٢(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ۴٢ ۔ (
تاکہ ميں تمہاری بہشت کے وعدہ کو وفا کروں۔
٣٨٩ ۔ “ وفی تفسير القمی : عن جميل عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قٰالَ لَہُ رَجُلٌ جُعِلْتُ
اَستَْجِب لَکُم >وَاِنّا نَدْعُوا فَلاٰ یُسْتَجٰابُ لَنٰا، قٰالَ لِاٴنَّکُمْ لاٰ تَفُونُ اللّٰہِ فِ اٰ دکَ اِنَّ اللہَّٰ یَقُولُ <اُدْعُونی
) اُوفِ بِعَهدِْکُم > وَاللّٰہ لَوْ وَفَيْتُمْ للّٰہِ لَوَ فی اللّٰہُ لکُمْ ” ( ١ بِعَهدِْہِ وَاِنَّ اللہَّٰ یَقُولُ اَوفُْوا بِعَهدْی
تفسير قمی ميں جميل سے منقول ہے کہ ایک شخص حضرت امام جعفر صادق - کی
خدمت اقدس ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں الله تعالیٰ فرماتا ہے: مجهے
پکارو تاکہ ميں تمہاری دعا کو قبول کروں اور ہم دعا کرتے ہيں ليکن مستجاب نہيں ہوتی؟ فرمایا:
کيوں کہ تم اپنے عہد و پيمان کو وفا نہيں کرتے یقينا الله تعالیٰ فرماتا ہے: تم مجهے سے کيے
ہوئے عہد و پيمان کو پورا کرو یقينا خدائے سبحان بهی تمہارے وعدے کو پورا کرے گا۔
مولف کہتے ہيں: خداوند تبارک و تعالیٰ نے بعض آیات ميں عہد شکن افراد کی ملامت
کی ہے اور اس کا عذاب بهی بہت شدید بيان فرمایا ہے۔
انہيں ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول بهی ہے: <الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَہدَْ اللهِ مِن بَعدِْ مِيثَاقِہِ
وَیَقطَْعُونَ مَا اٴَمَرَ اللهُ بِہِ اٴَن یُوصَلَ وَیُفسِْدُونَ فِی الاْٴَرضِْ اٴُولَْئِکَ ہُم الخَْاسِرُونَ> ( ٢) جو خدا کے
ساته مضبوط عہد کرنے کے بعد بهی اسے توڑ دیتے ہيں اور جسے خدا نے جوڑنے کا حکم دیا
ہے اسے کاٹ دیتے ہيں اور زمين پر فساد برپا کرتے ہيں یہی وہ لوگ ہيں جو حقيقتاً خسارہ
والے ہيں۔
انہيں ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول بهی ہے: <الَّذِینَ عَاہَدتَْ مِنہُْم ثُمَّ یَنقُضُونَ عَہدَْہُم فِی
) کُلِّ مَرَّةٍ وَہُم لاَیَتَّقُونَ > ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ۴۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٧ ۔ ) ٣(۔ سورئہ انفال، آیت ۵۶ ۔ (
جن سے آپ نے عہد ليا اور اس کے بعد وہ ہر مرتبہ اپنے عہد کو توڑ دیتے ہيں اور خدا کا
خوف نہيں کرتے۔
انہيں ميں سے الله تعالیٰ کا یہ قول بهی ہے: <وَإِن نَکَثُوا اٴَیمَْانَہُم مِن بَعدِْ عَہدِْہِم وَطَعَنُوا
) فِی دِینِکُم فَقَاتِلُوا اٴَئِمَّةَ الکُْفرِْ إِنَّہُم لاَاٴَیمَْانَ لَہُم لَعَلَّہُم یَنتَہُونَ > ( ١
اور اگر یہ عہد کے بعد بهی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور دین ميں طعنہ زنی کریں تو کفر
کے سربراہوں سے کهل کر جہاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہيں ہے شاید اسی
طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائيں۔
”الامامة عهد من اللٰہّ تعالیٰ” : امامت پروردگار متعال کی طرف سے ایک عہد و پيمان ہے
لہٰذا خداوند متعال فرماتا ہے: لا ینال عہدی الظالمين ( ٢) ميرا یہ عہدہ (امامت) ظالمين تک نہيں
جائے گا۔
آیت کا یہ حصہ حضرت ابراہيم - کی دعا کے جواب ميں ہے کہ انہوں نے کہا: < وَإِذ ابتَْلَی
إِبرَْاہِيمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَاٴَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَہدِْی
الظَّالِمِينَ> ( ٣) اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہيم کا امتحان ليا اور
انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہيں اور انہوں نے
عرض کی کہ ميری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدہٴ امامت ظالمين تک نہيں جائے گا۔
مَ عَبدْاً قَبلَْ اٴن ٣٩٠ ۔ “ فی الکافی عن الصادق عليہ السلام : اِنَّ اللہَّٰ عَزَّوَجَلَّ اِتَّخَذَ اِب اْٰرہی
لاً یَتَخِذَہُ نَبِيّاً ، وَاِنَّ اللہَّٰ اِتَّخَذَہُ نَبيّاً قَبلَْ اَن یَتَّخِذَہُ رَسُولاً ، وَاِنَّ اللہّٰ اِتَّخَذَہُ رَسُولاً قَبلَْ اَن یَتَّخَذَہُ خَلی
لاً قَبلَْ اَن یَتَّخَذہُ اِ اٰ مماً فَلَمَّا جَمَعَ لَہُ وَاِنَّ اللہّٰ اِتَّخَذَہُ خَلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ توبہ، آیت ١٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٢۴ ۔ (
٣(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٢۴ ۔ (
مَ عليہ الاٴَشْيٰاء قٰالَ: <إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا> اٰقلَ عليہ السلام فَمِن عَظِمِ هٰا فی عَينِْ اِب اْٰرہی
) ہُ اِمٰامُ التَّقی” ( ١ السلام قٰالَ < وَمِن ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَہدِْی الظَّالِمِينَ> اٰقلَ: لایَکُونُ السَّفی
حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: الله تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہيم کو نبی سے
پہلے عبد بنایا پهر نبی قرار دیا اس کے بعد رسول اس کے بعد خليل اور خليل بنانے کے بعد
امام بنایا لہٰذا جب یہ تمام فضائل (عبودیت، نبوت، رسالت، خلّت اور امامت) جمع ہوگئے تو الله
تعالیٰ نے فرمایا: “یقينا ميں تم کو لوگوں کا امام بنانے والا ہوں” امام جعفر صادق - نے فرمایا:
چونکہ حضرت ابراہيم - کو نصب امامت کی عظمت مدّنظر تهی لہٰذا عرض کيا : (خدایا!) اورميری
اولاد سے بهی؟ فرمایا: ميرے عہدِ امامت کو ظالم نہيں پاسکيں گے۔ فرمایا: بے وقوف انسان
متقی اور پرہيز گارانسان کا امام نہيں ہوسکتا۔
٣٩١ ۔ “ وعن الشيخ المفيد عَنْ دَرَسْت وَهِشٰام عَنْهُم عليہم السلام قٰالَ: قَد اٰ کنَ
مُ عليہ السلام نَبِيّاً وَلَيسَْ بِاِ اٰ ممٍ حَتّ یٰ اٰقلَ اللہُّٰ تَ اٰبرَکَ وَ تَعال یٰ <إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا اِبْرٰاہی
فقال اللّٰہ تبارک تعالی)لاَیَنَالُ عَہدِْی الظَّالِمِينَ>، مَن عَبَدَ صَنَماً اَو وَثناً اَو مِ اٰثلاً لاٰ ) اٰقلَ وَمِن ذُرِیتَّی
) یکُونُ اِمٰاماً ” ( ٢
علامہ شيخ مفيد رحمة الله عليہ نے درست اور انہوں نے ہشام سے روایت نقل کی ہے
کہ فرمایا: حضرت ابراہيم - نبی تهے ليکن امام نہيں تهے یہاں تک کہ خدائے تبارک و تعالیٰ نے
فرمایا: ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہيں انہوں نے عرض کيا کہ اے الله تعالیٰ! ميری
ذریت و نسل؟ (دعائے ابراہيم کے جواب ميں ) فرمایا: (امامت ميرا عہد ہے) ميرا عہد ظالموں تک
نہيں پہنچے گا، جو شخص بهی بندہٴ صنم (بت) اور بت پرست یا صورت و مثال کی عبادت کرے
وہ امام نہيں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ١، ص ١٧۵ ۔ (
٢(۔ اختصاص شيخ مفيد عليہ الرحمہ، ص ٢٣ ۔ (
٣٩٢ ۔ “وفی امالی الشيخ الطوسی مسندا و عن مناقب ابن المغازلی مرفوعا عن ابن
مَ عليہ السلام مَن سَجَدَ مسعود عَنِ النّبیِ صَلی اللّٰہ عليہ وآلِہ فی الآیة عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ لِابْرٰاہی
لاٰ اَجعَْلُہُ ا اٰ مماً اٰقلَ عليہ السلام وَانتَْهَتِ الدَّعوَْةُ اِلَیَّ وَالِ یٰ اَخی عَلِیّ لَم یَسجُْد اَحَدُ اٰن لصنَمٍ دُونی
) لِصَنَمَ قَطُّ ” ( ١
شيخ جليل القدر علامہ طوسی نے امالی ميں اپنی سند کے ساته اور مناقب ابن
مغازلی سے بغير مسند کے ابن مسعود سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ
آنحضرت (ص) سے حضرت ابراہيم - کے متعلق اس قول خدا کے بارے ميں کہ جس شخص نے
ميرے علاوہ صنم (بت) کو سجدہ کيا ميں اسے امام و پيشوا قرار نہيں دوں گا نقل ہوا ہے کہ
رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت ابراہيم کی دعاء ميرے اور ميرے بهائی علی - کے بهی
شامل حال ہے اور ہم ميں سے کسی ایک نے بهی ہرگز بت کو سجدہ نہيں کيا ہے۔
٣٩٣ ۔ “وَفی الدر المنثور : اخرج عبد بن حميد بن عمران بن حصين سَمِعْتُ النَّبی یَقُولُ : لاٰ
) مَعصِْيَةِ اللہِّٰ” ( ٢ طٰاعَةَ لِمَخلُْوق فی
سيوطی نے در منثور ميں عمران بن حصين سے نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے
پيغمبر اکرم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: کبهی بهی خدا کی معصيت و نافرمانی کی صورت ميں
مخلوق کی اطاعت و بندگی محقق نہيں ہوتی۔
٣٩۴ ۔ “روی اِنَّ اللّٰہ تعالیٰ لاٰ یَقْبَلُ اِلاَّ الْعَمَلِ الصّٰالحِ وَلاٰ یَقْبَلُ اللّٰہُ اِلاَّ الْوَفٰاءِ بِالشُرُوطِ وَالعُهُودِ
) قٰالَ اللّٰہ تَعالیٰ <وَالَّذِینَْ هُم لِاٴَ اٰ م اٰنتِهِم وَعَهدِْهِم اٰرعُونَ> ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی شيخ طوسی، ص ٣٧٩ ۔ (
٢(۔ در منثور، ج ١، ص ١١٨ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ١٨٢ ۔ (
روایت نقل ہوئی ہے کہ الله تعالیٰ سوائے عمل صالح کے قبول نہيں کرے گا اور خدائے
متعال سوائے عہد و پيمان اور شرطوں کو پورا کرنے کی صورت ميں قبول نہيں کرے گا خدائے
بزرگ و برتر سورہ مومنون ميں فرماتا ہے: (اور جو مومنين اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا لحاظ
رکهنے والے ہيں)۔
بِجَميعِ شَرایِعَ ٣٩۵ ۔ “عن ابی مالک قٰالَ قُلْتُ لِعَلِیٍّ بْنِ الْحُسَيْنِ عليهما السلام : اَخبِْرنْی
) الدّینِ اٰقلَ: قَولُْ الحَْقُّ وَالحُکمِْ بِالعَْدلِْ وَالوَْ اٰفءِ بِالعَْهدِْ ” ( ١
ابو مالک کا بيان ہے: حضرت علی ابن الحسين زین العابدین سے ميں نے عرض کيا:
مجهے تمام شرائع دین کے بارے ميں خبر دیں تو فرمایا: حق و حقيقت کی بات کرنا عدل کے
ساته حکم دینا اور عہدو پيمان کا وفا کرنا ہے۔
٣٩۶ ۔ “وَفی نوادر الراوندی : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ عليہ وآلہ لاٰ دِینَ لِمَنْ لاٰ عَهْدَ لَہ“ُ
نوادر راوندی ميں منقول ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو شخص اپنے عہد
و پيمان کو پورا نہيں کرتا وہ دین دار نہيں ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَاٴَوفُْوا بِالعَْہدِْ إِنَّ العَْہدَْ کَانَ مَسئُْولًا > ( ٢
اپنے عہدوں کو پورا کرنا کيوں کہ (قيامت کے دن) عہد کے بارے ميں سوال کيا جائے گا
(کہ کيوں وعدہ وفا نہيں کيا)۔
سورئہ مائدہ کی ابتدا ميں بسم الله کے بعد پہلی آیت ميں ذکر ہوا ہے <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ
) آمَنُوا اٴَوفُْوا بِالعُْقُودِ > ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير نور الثقلين، ج ٣، ص ٧٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ بنی اسرائيل آیت ٣۴ ۔ (
٣(۔ سورئہ مائدہ، آیت ١۔ (
اے ایمان والو! اپنے عہد و پيمان اور معاملات کی پابندی کرو۔
صاحب تفسير قمی نے اپنی سند کے ساته ابو عمير سے انہوں نے ابو جعفر ثانی
حضرت امام محمد تقی - سے روایت نقل کی ہے کہ: “ اٰقلَ اِنَّ رَسُولَ اللہِّٰ صَلّی اللہُّٰ عَلَيہِْ وَآلِہِ
عَشرَْةَ مَ اٰوطِنَ، ثُمَّ اَنزَْلَ اللہُّٰ تَعال یٰ < اٰی اَیُّهَا الَّذینَ عَقَدَ عَلَيهِْم لِعَلِی عليہ السلام بِاالخِْ لاٰفِةِ فی
عُقِدَت عَلَيکُْم لِاَميرَ المُْوٴمِنينَ عليہ السلام ” حضرت رسول اکرم نے آمَنُوا او فوا بِالْعُقُودِ>الَّتی
مسلمانوں سے حضرت علی ابن ابی طالب - کی خلافت کے ليے دس مقامات پر عہد و پيمان
ليا پهر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ “اے ایمان والو! اپنے عہد و پيمان اور معاملات کی
پابندی کرو”۔ جو ہم نے تم سے امير المومنين - کی خلافت و امامت کے ليے کيے تهے (اور اس
کی خلاف ورزی نہ کرو)۔
اب مولف محترم تبرکاً اس فصل کی بحث کے خاتمہ ميں ان دو مقامات ميں سے چند
مقامات کو بہ عنوان حُسن ختام حضرت امير المومنين کی گُہر بار زبان مبارک سے آپ قارئين
کرام کی خدمت ميں قرار دے رہے ہيں۔
حضرت علی - کے فضائل و مناقب قابلِ شمار نہيں ہيں نہ ہی ان کو شمار کيا جاسکتا
ہے اور نہ ہی احصاء، علمائے اعلام نے اپنی متعدد کتابوں ميں تفصيل کے ساته ذکر کيا ہے
جيسے کتاب سليم ابن قيس ، بحار الانوار، الغدیر، عبقات اور احتجاج وغيرہ اگر ہم ان سب کے
مطالب کو نقل کرنا چاہيں تو ہم اپنی کتاب کی حد سے خارج ہوجائيں گے لہٰذا اس حدیث کے
مطابق جو آیہٴ کریمہ <اوفوا بالعقود> کے ذیل ميں حضرت امام محمد تقی - سے دس مقامات
کے سلسلہ ميں اشارہ کيا گيا اور خود حضرت نے معاویہ سے احتجاج کی صورت ميں ان ميں
سے سات مقامات کے ذریعے استدلال و احتجاج فرمایا جسے صاحب ناسخ التواریخ نے نقل کيا
ہے ہم اسے ذکر کر رہے ہيں۔ البتہ قاتل عثمان کے بارے ميں گفتگو اور دندان شکن جواب دینے
کے بعد حضرت علی نے فرمایا :
٣٩٧ ” ثُمَ قالَ مَعاشِر النّاسُ اِنّ مَناقِبی اَکثَْرُ مَن اَن تَحصْی وَبَعدَْ اٰ م اَنزَْلَ اللہّٰ فی کِ اٰتبہِ مِن ذلِکَ وَمٰا قٰالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) اِنّی سَاٴنَبّئکُم عَن خصالٍ سِبعة قالَها رَسول اللّٰہ (ص) اِکتفی بِها
عَن جميع مناقِبی“
پهر فرمایا: اے لوگو! ميرے فضائل و مناقب اس سلسلے ميں آیات الٰہی، کتاب خدا ميں
نازل ہونے کے بعد بے شمار ہيں جو کچه رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ یقينا ميں تمہيں عنقریب
سات خصلتوں کے متعلق خبر دوں گا اور وہی رسول خدا (ص) کی بتائی ہوئی سات خصلتيں
) ميرے تمام فضائل و مناقب کے ليے کافی ہيں ۔ <وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ اٴُولَْئِکَ المُْقَرَّبُونَ > ( ١
حضرت رسول خدا (ص) سے مذکورہ آیہٴ کریمہ کے متعلق دریافت کيا گيا تو آنحضرت
(ص) نے فرمایا: یہ آیت انبياء اور اوصيائے انبياء کے بارے ميں نازل ہوئی اور ميں افضل انبياء ہوں
اور ميرے وصی علی ابن ابی طالب افضل اوصياء ہيں۔ستّر افراد جو بدر کے سپاہی انصار اور بعض
مہاجرین سے پہلے موجود تهے، اور ابو الہيثم ابن التيهان، خالد ابن زید ابو ایوب انصاری بهی
انصار کے درميان اور عمار یاسر مہاجرین کے درميان تهے تو اڻه کهڑے ہوکر سب نے کہا: قد
سمعنا رسول قال ذلک یقينا یہ بات ہم نے رسول الله (ص) سے سنی ہے۔
هٰذِہِ الآیة <إِنَّمَا وَلِيُّکُم اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ پهر فرمایا: مَعٰاشِرَ النّٰاسِ اٴنْشُدُکُمُ اللّٰہ فی
) آمَنُوا الَّذِینَ یُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤتُْونَ الزَّکَاةَ وَہُم رَاکِعُونَ > ( ٢
اے لوگو! خداوند متعال کے اس قول کی قسم دے کر کہتا ہوں جو وہ فرماتا ہے: ایمان
والو! بس تمہارا ولی الله ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہيں اور
حالتِ رکوع ميں زکوٰة دیتے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ واقعہ، آیت ١٠ ۔ ١١ ۔ (
٢(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔ (
) نيز فرماتا ہے: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم>ْ ( ١
ایمان والو! الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہيں ميںسے
ہيں۔ نيز فرماتا ہے: <اٴَم حَسِبتُْم اٴَن تُترَْکُوا وَلَمَّا یَعلَْم اللهُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنکُْم وَلَم یَتَّخِذُوا مِن دُونِ
) اللهِ وَلاَرَسُولِہِ وَلاَالمُْؤمِْنِينَ وَلِيجَةً وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعمَْلُونَ > ( ٢
کيا تمہارا خيال ہے کہ تم کو اسی طرح چهوڑ دیا جائے گا جب کہ الله نے ابهی یہ بهی
نہيں دیکها ہے کہ تم ميں جہاد کرنے والے کون لوگ ہيں جنہوں نے خدا، رسول اور صاحبان
ایمان کو چهوڑ کر کسی کو دوست نہيں بنایا ہے اور الله تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے ۔
اس وقت لوگوں نے عرض کيا: یا رسول الله (ص) ! یہ فضل و شرف تمام مومنين کے
شاملِ حال ہے یا بعض سے مخصوص ہے ؟ پس خداوند عالم نے حضرت رسول اکرم (ص) کو
مامور فرمایا کہ انہيں آگاہ کریں اور انہيں مقام ولایت کی، نماز و روزہ اور حج و زکوٰة کی طرح
تعليم دیں، لہٰذا غدیر خم ميں حضرت بلال کو حکم دیا تاکہ لوگوں کو نماز جامعہ کی آواز دیں پهر
نماز ظہر ادا کی اور مجهے لوگوں کے ليے ولی منصوب فرمایا۔
نَ وانا اولی بهم من انفسهم من ”ثمّ اٰقلَ اٴَیُّهَا النّاسُ اِنَ اللہّٰ مَولْ یٰ وَاَنَا مَولْ یٰ المُوٴمِنی
کنت مولاہ فعلی مولاہ اللهم وال من والاہ وعاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ“
پهر فرمایا: اے لوگو! بے شک الله مولا و سرپرست ہے اور ميں مومنين کا مولا و
سرپرست ہوں نيز ميں ان کے نفسوں پر اولی بالتصرف ہوں جس جس کا ميںمولا ہوں اس اس
کے علی مولا ہيں خدایا! تو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ توبہ، آیت ١۶ ۔ (
اسے دوست رکه جو اس کو دوست رکهے اور تو اسے دشمن رکه جو اس سے دشمنی رکهے
تو اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرے تو اسے ذليل و خوار فرما جو اسے ذليل و خوار کرے۔
اس وقت سلمان نے کهڑے ہوکر عرض کيا: یا رسول الله (ص)! ولائے علی - کی کيفيت
اور اس کا ہندسہ کيا ہے؟ “ فَقال وِلائُہُ کَوِلایتی مَن کُنتُْ اولی بہِ مِن نَفسْہِ فَعَلیٌّ اولی بِہِ مِن نَفسِہِ“
جس طرح ميں لوگوں کے مال اور جان پر اولی بالتصرف ہوں علی بهی اولی بالتصر ف
ہيں اور الله تعالیٰ نے اِس آیہٴ کریمہ کو بهی اس دن نازل فرمایا: <اليَْومَْ اٴَکمَْلتُْ لَکُم دِینَکُم ) وَاٴَتمَْمتُْ عَلَيکُْم نِعمَْتِی وَرَضِيتُ لَکُم الإِْسلْاَمَ دِینًا > ( ١
آج ميں نے تمہارے ليے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور
تمہارے ليے دین اسلام کو پسندیدہ بنادیا ہے۔ سلمان نے عرض کيا: (پيغمبر (ص) کے بعد ولی
منصوب کرنے کے بعد) یا رسول الله (ص)! یہ آیات حضرت علی - سے مخصوص ہيں؟
اَوصْيائِہِ اِل یٰ یَومَْ القِْ يٰمَةِ ” علی اور صبح قيامت تک ہونے والے ميرے ”فَقالَ فيہ وَفی
اوصياء کے حق ميں ہے۔ سلمان نے عرض کيا: یا رسول الله (ص) ! تفصيل کے ساته بيان
فرمائيں تاکہ ہمارے اور دوسروں کے ليے یہ مسئلہ مزید واضح و روشن ہوجائے۔ “ فَقال علیٌ
ی وَوَلی کُلُّ مومِنٍ وَمومنةٍ بعدی وَاَحَدَ فَتی فی اُمت اخی وَوَزیری وَوَصيی وَصنوی وَوارثی وَخلی
عَشَرَ اماماً مِنْ وُلْدہ الحسن ثمّ الحُسينُ عليہما السلام ثُمّ تسعةٌ مِنْ وُلْدِ الحُسين واحِد بَعدَ
واحدٍ“
پهر رسول خدا (ص) نے تمام خصوصيات اور مشخصات کے ساته فرمایا: علی - ميرا
بهائی، وزیر،وصی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ٣۔ (
اور ميرا داماد ہے اور مےرے بعد تمام مومن و مومنہ کے نفس کا سرپرست اور اولی بالتصرف ہے
اور اس کی اولاد سے گيارہ امام حسن - و حسين - اور ان دونوں کے بعد نو اولاد حسين - ميں
سے یکے بعد دیگرے ميرے اوصياء ہيں قرآن ان کے ساته ہے وہ قرآن کے ساته ہيں یہاں تک کہ
حوض کوثر پر ميرا دیدار کریں۔
بدر کے بعض سپاہی کہ ابو الہيثم ابن التيهان، ابو ایوب انصاری ، عمار یاسر، خزیمہ ابن
ثابت جن کی شہرت ذو الشهادتين ہے من جملہ انہيں افراد ميں سے تهے کهڑے ہوکر کہا: ان
کلمات کو ہم نے بغير کسی ایک حرف کی کمی یا زیادتی کے رسول خدا سے سنا ہے اور
اسے ہم نے حفظ کرليا ہے اور بعض جماعت والوں نے کہا: ہم نے تمام کلام کو رسول خدا (ص)
سے سنا ہے ليکن حفظ نہيں کيا ہے اور ایک گروہ اہل بدر جو ستّر افراد تهے نے کہا: ہم نے سنا
تو ہے ليکن حفظ نہيں کيا ہے۔ امير المومنين علی - نے فرمایا: تم سب نے سچ کيا: تمام لوگ
احادیث حفظ کرنے ميں ایک ہی کيفيت کے حامل نہيں ہيں۔ اس وقت ابو الہيثم، ابو ایوب ، عمار
اور ذو الشهادتين نے کہا: ہم لوگ موجود تهے اور رسول اکرم (ص) سے سنا ہے اور حرف بہ
حرف حفظ کيا ہے کہ آنحضرت (ص) غدیر خم کے دن اپنے پاؤں پر کهڑے ہوئے اور حضرت علی -
کو اپنے پہلو پر قرار دے کر فرمایا:
فی فَتی کُم وَخَلی فی اَن اَنصِْبَ لَکُم اِ اٰ مماً یَکُونُ وَصّيی ”اَیُّهَا النّٰاسُ اِنَّ اللّٰہ اَمَرنی
کِ اٰتبِہِ وَ طٰاعَتِہِ وَآمَرَکُم فَرَض اللہُّٰ عَلَی المُوٴمِنينَ فی وَالَّذی اَهلِْ بَيتْی مِن بَعدْی وَفی اُمَّتی
، لاَبلُغَ هٰا اَو لَيُعَذِّبُنی ہِ بِوِلایَتِہِ فَ اٰرجَعتُْ رَبّی خَشيَْةُ طَعن اَهلِْ النِّفاقِ وَتَکذْیبِهِم فَاَوعَْدَنی فی
کِتٰابِہِ بالصلاة وقد بيّنتها لکم و فسّرتها والزکاة والصوم والحج فبيّنتها اَیُّهَا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہ اَمَرکُمْ فی
اُشْهِدُ کُمْ اَیُّهَا النّٰاسُ اِنَّهٰا خٰاصَّةٌ لِعَلی بْنِ اَبی وفسّرتها لکم وامرکم فی کتابہ بِالْوِلاٰیَةِ وَاِنّی
عَلیٌ اَوَّلَهُمْ ثُمَّ الْحَسَنُ ثُمَّ الْحُسَيْنُ ثُمَّ تِسْعَةٌ وَوَصيّی وَوُلدِْ اَخی طٰالِبٍ وَالاَْوصِْ اٰيءِ مِن وُلدْی
مِن وُلدِْ الحُْسَينِْ لاٰ یُ اٰ فرِقونَ الکِْ اٰتبَ حَتّ یٰ یَرِدُوا عَلَیَّ الحَْوضَْ اَیُّهَا الناٰسُّ اِنّی قَد اَعلَْمتُْکُم مَفزَعَکُم فَقَلّدُوہُ کُم بِمَنزِْلَتی ط لِٰابٍ وَهُوَ فی عَلِی بنُْ اَبی وَوَلِيُّکُم وَ هٰادِیُکُم وَهُوَ اَخی وَاِ اٰ ممَکُم بِعدْی
عِ اُمُورِکُم فَاِنَّ عِندَْہُ جَميعُ اٰ م عَلّمَنی اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ اَمَرَنی اللہّٰ اَن جَمی عُوہُ فی نکُم وَاَطی دی
اُعَلِّمَہُ ایاٰہُّ وَاعلِْمَکُم اَنَّہُ عِندَْہُ فاَسئَْلوہُ وَتَعلَّموا مِنہُْ وَمِن اَوصِْ اٰيئِہِ بَعدَْہُ وَ لاٰ تُعَلّموهُم وَ لاٰ تَتَقَدَّمُوهُم ) وَ لاٰ تَتَخَلَّفُوا عَنهُْم فَاِنَّهُم مَعَ الحَقِّ وَالحَْقُُّ مَعَهُم لاٰ یُ اٰزئِلُونَہُ وَ لاٰ یُ اٰزئِلُهُم ” ( ١
اے لوگو! یقينا الله تعالیٰ نے مجهے حکم دیا ہے تاکہ آپ کو امام اور رہنما منصوب کروں
اور یہ کہ ميرے بعد ميرے امور کو تم انجام دو گے اور ميرے وصی و خليفہ اور جانشين ہو اور جو
کچه خدائے بزرگ و برتر نے اپنی کتاب ميں تمام مومنين پر واجب و لازم جانا ہے اپنی اطاعت و
فرماں برداری کو ميری اطاعت و فرماں برداری کے ساته متصل کيا ہے اور تمہيں اس کی ولایت
کا حکم دیا ہے۔
اور ميں نے پروردگار کی طرف رجوع کيا اس خوف سے کہ اہل نفاق اور منافقين مجهے
طعنہ دیں اور ميری تکذیب کریں پهر مجهے اس نے تاکيد کی اور مجهے ڈرایا کہ ميں ضرور تبليغ
کروں اور اگر نہيں کروں تو مجه پر عذاب کرے گا۔ اے لوگو! الله تعالیٰ نے تمہيں اپنی کتاب ميں
نماز پڑهنے کا حکم دیا ہے اور اس کی کيفيت و شرائط کو تم سے بيان فرمایا، اور زکوٰة ، روزہ اور
حج کا حکم دیا تو اس کی شرائط اور خصوصيات کی تم سے وضاحت کی اور تمہيں ولایت
(علی) کا حکم دیا ميں بهی تم کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ ولایت مخصوص ہے اور اپنے
دست مبارک کو علی ابن ابی طالب - کے (شانہ) پر رکها اور اس کے بعد ان کے دونوں فرزند
(حسن - و حسين -) اور پهر ان کے ان کے اوصياء جو ان کی اولاد سے ہوں گے اور وہ قرآن سے
جدا نہيں ہوں گے اور قرآن بهی ان سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد
ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ٢٩٧ ، بحار الانوار، ج ٣٣ ، ص ١۴٧ ۔ (
اے لوگو ! یقينا ميں نے تم سے اپنے بعد تمہاری پناہ گاہ کو بيان کيا ہے اور تمہارے امام
ولی اور ہادی کو اور وہ ميرے بهائی علی ابن ابی طالب - ہيں اور وہ تمہارے درميان ميری ہی
طرح ہيں۔ لہٰذا اپنے دین کو ان سے یاد کرنا اور اپنے تمام کاموں ميں ان کی اطاعت کرنا کيونکہ
اس کے پاس وہ سب کچه ہے جو الله تعالیٰ نے مجهے اپنا علم و حکمت تعليم فرمائی، لہٰذا
اس سے سوال کرو اور اس سے یاد کرو اور اس کے بعد اس کے اوصياء سے یاد کرو اور انہيں
تعليم نہيں دینا اور نہ ہی ان سے آگے چلنا اور ان سے پيچهے بهی نہ رہنا کيونکہ وہ سب حق
کے ساته ہيں اور حق بهی ان کے ساته ہے نہ وہ لوگ حق سے کنارہ کش ہوں گے اور نہ ہی
حق ان سے جدا ہوگا۔
پهر حضرت علی - نے حاضرین کی جماعت کہ من جملہ ابو درداء اور ابو ہریرہ بهی اس
ميں موجود تهے ان سے فرمایا: اے لوگو! کيا تمہيں نہيں معلوم کہ جب یہ آیہٴ مبارکہ <إِنَّمَا یُرِیدُ
اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا > ( ١) نازل ہوئی تو رسول اکرم نے مجهے
فاطمہ، حسن اور حسين کو چادر کے نيچے جمع کرکے فرمایا:
”اللّٰهُمَّ هولاء احبّتی وعترتی وحامّتی واهل بيتی فاذهب عنهم الرجس فطهّرهم تطهيرا ”
اے خدا ! یہ ميرے محبوب ترین اہل بيت اور ميری اور ميرے اہل بيت کی حمایت کرنے والے ہيں
انہيں ہر قسم کی کثافت سے پاک و پاکيزہ رکه۔
ام سلمہ نے عرض کيا: یا رسول الله (ص) ميں بهی اس اجتماع ميں داخل ہوں؟ فرمایا:
تم خير پر ہو۔ ليکن یہ آیت صرف ميرے اور ميرے بهائی علی ابن ابی طالب ( -) اور ميرے دونوں
فرزند حسن و حسين اور ميرے فرزند حسين کی اولاد ميں سے نو افراد کے حق ميں نازل ہوئی
ہے اور انہيں سے مخصوص ہے اس جہت سے کوئی بهی شخص ہمارے ساته شریک نہيں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ احزاب، آیت ٣٣ ۔ (
تمام بدر والوں نے یک زبان ہوکر کہا: ہم سب نے اس حدیث کو ام سلمہ سے سنا اور
رسول خدا کی خدمت ميں جاکر دریافت کيا ہم لوگوں نے مشاہدہ کيا کہ نہ ایک کلمہ کم تها نہ
زیادہ۔
اس وقت علی - نے فرمایا: انشدکم اللّٰہ ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت
کرتا ہوں کہ کيا تمہيں معلوم ہے کہ جب یہ آیہٴ کریمہ <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ
الصَّادِقِينَ> ( ١) نازل ہوئی تو عرض کيا گيا: یا رسول خدا (ص)! یہ آیت تمام عام مومنين کو
شامل ہے یا خاص فرد کے ليے ہے؟ فرمایا: آیت کا منطوق و مضمون تمام مومنين کو شامل کيے
ہوئے ہے کيونکہ تمام لوگوں کو تقویٰ و پرہيزگاری کا حکم دیا گيا ہے ليکن صادقين سے علی ابن
ابی طالب ( -) اور ان کے بعد قيامت تک ہونے والے ميرے اوصياء مراد ہيں۔
پهر فرمایا: اے لوگو! مگر تم لوگ غزوئہ تبوک کے موقع پر موجود نہيں تهے کہ جب ميں
نے حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں عرض کيا: آپ مجهے کس وجہ سے مدینے ميں
اَوبِْکَ وَاَنتَْ مِنّی بِمَنزِْلَةِ رٰہُونَ مِن نَةَ لاٰ تَصلَْحُ اِلاَّ بی چهوڑ کر جارہے ہيں؟ “فَ اٰ قلَ اِنَّ المَْدی
مُوس یٰ اِلاَّ النَبُوَّةَ فَاِنَّہُ لاٰ نَبِی بَعدی“
پيغمبر (ص) نے فرمایا: مدینے کی حالت صرف ميری یا تمہاری وجہ سے صحيح رہ
سکتی ہے اور تمہيں مجه سے وہ منزلت حاصل ہے جو ہارون کو موسی سے تهی ليکن ميرے
بعد کوئی نبی نہيں ہوگا۔
مہاجر و انصار کی ایک جماعت اور بعض دوسرے افراد نے کهڑے ہوکر کہا: ہم موجود تهے
اور ہم لوگوں نے سنا پهر دوسری مرتبہ فرمایا: انشدکم اللّٰہ ميں تمہيں خدا کی قسم دے کر
دریافت کرتا ہوں کيا تمہيں معلوم ہے کہ سورئہ حج ميں یہ آیت نازل ہوئی <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا
ارکَْعُوا وَاسجُْدُوا وَاعبُْدُوا رَبَّکُم وَافعَْلُوا الخَْيرَْ لَعَلَّکُم تُفلِْحُونَ # وَجَاہِدُوا فِی اللهِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ توبہ، آیت ١١٩ ۔ (
اجتَْبَاکُم وَمَا جَعَلَ عَلَيکُْم فِی الدِّینِ مِن حَرَجٍ مِلَّةَ اٴَبِيکُم إِبرَْاہِيمَ ہُوَ سَمَّاکُم المُْسلِْمينَ مِن قَبلُْ وَفِی
ہَذَا لِيَکُونَ الرَّسُولُ شَہِيدًا عَلَيکُْم وَتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ فَاٴَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّکَاةَ وَاعتَْصِمُوا
) بِاللهِ ہُوَ مَولَْاکُم فَنِعمَْ المَْولَْی وَنِعمَْ النَّصِيرُ > ( ١
ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو او ر کارخير انجام دو کہ شاید
اسی طرح کامياب ہوجاؤ اور نجات حاصل کرو۔ اور الله کے بارے ميں اس طرح جہاد کرو جو جہاد
کرنے کا حق ہے کہ اس نے تمہيں منتخب کيا ہے اور دین ميں کوئی زحمت نہيں قرار دی ہے
یہی تمہارے بابا ابراہيم کا دین ہے اس نے تمہارا نام پہلے بهی اور اس قرآن ميں بهی مسلم اور
اطاعت گزار رکها ہے تاکہ رسول تمہارے اوپر گواہ رہے اور تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو لہٰذا
اب تم نماز قائم کرو زکوٰة ادا کرو اور الله سے باقاعدہ طور پر وابستہ ہوجاؤ کہ وہی تمہارا مولا ہے
اور وہی بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے۔
جس وقت ان مذکورہ آیات سے احتجاج فرمایا تو سلمان نے کهڑے ہوکر عرض کيا: یا
رسول الله ! وہ لوگ کون ہيں جن پر آپ گواہ اور وہ لوگوں پر گواہ ہيں؟
فرمایا: یہ مجموعی طور پر خاص تيرہ افراد ہيں اور وہ ميں اور ميرے بهائی علی اور ميرے
گيارہ فرزند ہيں سب نے کہا: ہم نے بعينہ انہيں جملوں کو سنا تها۔ پهر فرمایا:
انشدکم اللّٰہ: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا تمہيں نہيں
کُم اَیُّهَا قَد تَرَکتُْ فی معلوم کہ غدیر خم کے خطبے ميں رسول خدا (ص) نے فرمایا: “ اِنّی
الناٰسُّ اَمرَْینِْ لَن تَضِلُّوا اٰ م ان تَمَسَّکتُْم بِهِ مٰا کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَاَهلْ بَيتْی فَاِنَّہُ عَهدٌْ قَد عَهِدَ الَیَّ اللَّطيفُ
الخَْبيرُ اِنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضْ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حج، آیت ٧٧ ۔ ٧٨ ۔ (
یعنی: اے لوگو! ميں تمہارے درميان کتاب خدا اور اپنے اہل بيت کو (بطور امانت) چهوڑ رہا
ہوں اگر ان دونوں کے دامن سے وابستہ رہو گے تو کبهی بهی گمراہ نہ ہوگے کيوں کہ الله تعالیٰ
نے مجه سے عہد و پيمان کيا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ
ميرے پاس حوض کوثر پر پہنچيں۔ تمام لوگوں نے اس واقعے کے صحيح ہونے کی تصدیق کی اور
بعض افراد نے اس مجمع کے درميان کهڑے ہوکر کہا: ہم اس وقت موجود تهے جب رسول خدا
(ص) نے اس خطبے کو پڑها اس موقع پر عمر ابن الخطاب غضب ناک حالت ميں کهڑے ہوئے اور
کہا: یا رسول الله (ص)! کيا یہ فضل و شرف آپ کے تمام اہل بيت کے ليے ہے؟ فرمایا: وہ
مخصوص ميرے اوصياء کے ليے ہے جن ميں سے پہلا اور بہتر ميرا بهائی، وزیر، وارث اور ميری
امت کے درميان ميرا خليفہ اور ميرے بعد تمام مومنين کا ولی ہے اور وہ علی ابن ابی طالب -
ہے۔ اس کے بعد ميرا بيڻا حسن - ہے اور اس کے بعد اس کا وصی حسين- ہے پهر ميرے وصی
کا فرزند علی ابن الحسين - ہے جو ميرے بهائی علی کے ہم نام ہے اس کے بعد اس کا وصی
آئے گا جو ميرے ہم نام ہے (محمد ابن باقر -) پهر اس کے سات فرزند یکے بعد دیگرے (جعفر
ابن محمد، موسی ابن جعفر، علی ابن موسی، محمد ابن علی، علی ابن محمد، حسن ابن
علی والحجة ابن الحسن القائم المنتظر صلوات الله عليہم اجمعين) ہوں گے اور حوض (کوثر) کے
کنارے ميرے پاس وارد ہوں گے۔ یہ لوگ روئے زمين پر خدا کے گواہ ہيں اور تمام مخلوقات پر الله
کی حجّت ہيں ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ان کی معصيت و نافرمانی خدا کی معصيت و
نافرمانی ہے۔ بدر کے ستر سپاہی اور ایک جماعت کے کچه لوگوں نے کهڑے ہوکر اس جملے
کی گواہی دی۔
چوں کہ ابو درداء اور ابو ہریرہ نے اس واقعہ کو بيان کيا اور حاضرین کی جماعت کو مذکورہ
مطالب پر گواہ بنایا تو معاویہ نے (مذاق کی رو سے) کہا: خوش خبری لے کر آئے ہو اگر جو کچه
تم کہہ رہے ہو برحق ہے تو تمام مہاجرین و انصار علی، ان کے اہل بيت اور شيعوں کے علاوہ
ہلاکت ميں ہيں۔
مولف کہتے ہيں: معاویہ ملعون ان تمام موجودہ سند و مستند فضائل و مناقب کو سن کر
تحمل نہ کرسکا۔ اور قلم و کاغذ اڻهایا اور حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کی خدمت
ميں اس طرح (بغير عنوان) کا خط لکها:
”وَلَئن کانَ اٰ مقُلتَْ وَادَّعيتَْ واستَْشهَْدَت عَلَيہِْ اص حْٰابِک حقّاً لَقَد هَلَکَ ابو بکر و عمر وعثمان
عَتِکَ “ وجميع المُ هٰاجِرین والانصْار غَيرْکَ وَ غَيرِْ اَهلِْ بَيتِْکَ وَشی
اگر جو کچه آپ اور آپ کے اصحاب نے کہا سچ کہا ہے تو ابوبکر، عمر، عثمان اور تمام
مہاجرین و انصار آپ کے اہل بيت اور شيعوں کے علاوہ ہلاک ہوگئے ہيں۔
حضرت نے معاویہ لعنة الله عليہ کے جواب نامہ کو بہت مفصل تحریر کيا ہے اور مضامين
عاليہ سے پُر جو آپ کی حقانيت کی حکایت کرتا ہے ، جس ميں معاویہ اور اس کے بيڻے یزید
لعنة الله عليہ اور اس کے تمام کارندوں پر لعنت و ملامت کی تهی اور اس بات کا ذکر کيا کہ
پيغمبر (ص) نے یہ خبر دی تهی کہ آپ کی امت حضرت کی ریش مبارک کو ان کے سر کے
خون سے خضاب کرے گی اور معاویہ لعنة الله عليہ ان کے فرزند گرامی سبط اکبر امام حسن
مجتبیٰ - کو مسموم اور اس کا بيڻا یزید لعنة الله عليہ حضرت امام حسين - کو شہيد کرے گا
اور اسی طرح وہ تمام حوادث و واقعات جو اِن کے بعد رونما ہوں گے بيان فرمایا: اس کی تفصيل
صاحب ناسخ التواریخ نے ذکر کی ہے ہم اختصار کی بنا پر قارئين محترم کو وہاں رجوع کرنے کا
حوالہ دیتے ہيں۔
بہرحال جب حضرت کا خط ابو درداء اور ابوہریرہ نے معاویہ لعنة الله عليہ تک پہنچایا اور
اس کے مطالب سے باخبر ہوا تو معاویہ نے دیکها کہ اب مجال سخن باقی نہيں رہا اور اس کے
علاوہ اس کی زبان حضرت کا جواب دینے سے قاصر رہی۔ الله تعالیٰ نے اس کے دل کی مخفی
باتوں سے پردہ برداری کی یہاں تک کہ اس نے یہ حقيقی کلمات اپنی زبان سے جاری کيے
“هنيئالک یا ابا الحسن تملک الآخرة وهنيئاً لنا نملک الدنيا ” اے ابوالحسن! آپ کو آخرت کی
سلطنت و حکومت گوارا ا ور مبارک ہو اور ہميں دنيا کی سلطنت و حکومت گوارا اور مبارک ہو۔
|
|