قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

١٣ ۔ مومنين کے ليے شفا
١٣ ۔ القُرآنُ شِفاءُ لِلْموٴمنينَ
وَالحُجَّة القائِمُ عليہ السلام شِفاءُ لِلْموٴمنين
قرآن اور امام زمانہ - کائنات کے تمام مومنين کے ہر قسم کے درد و الم کے ليے شفا ہيں۔
) قال اللّٰہ تعالیٰ <وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ > ( ١ خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبانِ ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے۔
٣٣۴ ۔ “وفی تفسير العياشی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام : انما الشفاءُ فی علم القرآن ) لقول اللّٰہ ماهو شفاء ورحمة للموٴمنين ” ( ٢
تفسير عياشی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: شفا صرف علم قرآن ميں ہے کيوں کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے جو صاحبانِ ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے۔
٣٢۵ ۔ “ وَفی تفسير الفرات : اِن القرْآنَ هُوَ الدَواءُ وَاِنَّ فيہِ شِفاءٌ مِن کُلِ داءٍ وَاِنَّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بنی اسرائيل، آیت ٨٢ ۔ (
٢(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٣١۵ ۔ (
مَن لَم یَستَْشفِْ بِہِ فَلا شِفاءُ اللہُّٰ وَمَن قَرَاٴ مِاةَ آیةٍ مِن ایّ آیة القُرآن شاءَ ثُمَ قالَ سَبعَْ مَراْتٍ یا اللہُّٰ فَلَوَ دَعا عَلَی الصَخرَْةِ لَقَلَعَها۔“
تفسير فرات ميں نقل ہوا ہے کہ : یقينا قرآن دوا ہے اور اس ميں تمام درد و الم کے ليے شفا ہے جو شخص قرآن کے ذریعے شفا نہ حاصل کرسکے تو خداوند متعال اسے شفا نہيں عطا کرے گا جو شخص قرآن کی آیات ميں سے سو آیتوں کی تلاوت کرے اور پهر سات مرتبہ یا الله کہے اس کے بعد اگر کسی بڑے پتهر پر پڑهے تو یقينا وہ اپنی جگہ سے اکهڑ جائے گا۔ ٣٢۶ ۔ “ وفی طب الائمة عن الصادق عليہ السلام : ما اَشتَْکی اَحدٌ مِنَ الموٴمِنينَ شِکایَةً
وَقَطُ وَقالَ باخلاصِ نيَّةٍ وَمَسَحَ موضعَ العِلَة <وَنُنَزِلُ مِنَ القرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحمَْةٌ للموٴمنينَ وَلا یَزیْدُ الظالِمينَ الا خَسارَاً > الا عُوفی مِنْ تِلْکَ عِلَّةٍ آیَّةُ عِلّةٍ کانت وَمِصْداقُ ذلکَ فی الآیةِ حَيْثُ ) یَقولُ :<شِفاءٌ وَرَحمَْةٌ للموٴمنينَ>” ( ١
طب الائمہ ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: مومنين ميں سے کسی ایک مومن نے بهی کسی قسم کی بهی کوئی شکایت نہيں کی اور خلوص نيت کے ساته درد کی جگہ اس آیت مبارکہ <وَنُنَزِّلُ مِنَ القرْآنِ ۔۔۔> کو مس کيا اور صحت و عافيت نہ حاصل کی ہو خواہ وہ کسی قسم کا درد رہا ہو وہ اسی آیت کا مصداق ہے جہاں ارشاد فرماتا ہے: “صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے”۔
مولف کہتے ہيں: قرآن کے معنی ميں روحوں کے ليے شفا ہے اور اس کے الفاظ ميں اجسام و ابدان کے ليے شفا ہے آیہٴ کریمہ <وَ رتّل القُرآْن تَرتْيلاً> ( ٢) کی تفسير ميں۔ ٣٢٧ ۔ “ وَفی ( مجمعِ ) فی مَعْنیٰ الْتَرْتيلَ عَنْ ابی بَصير عَن ابی عَبْدِ اللّٰہ عليہ السلام قٰالَ هُوَ اَن تَتَمَکثْ فيہِ وَتُحسِْنَ بِہِ صوتَکَ وَقيلَ حَفِظُ الوقوفِ وَاداء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ طب الائمہ، ص ٢٨ ۔ بحار الانوار، ج ٩٢ ، ص ۵۴ ، ص ١١٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ مزمل، آیت ۴۔ (
) الحُروفْ ” ( ١
مجمع البيان ميں ترتيل کے معنی ميں ابو بصير سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: ترتيل سے مراد یہ ہے کہ اس کی قرائت کے وقت ڻهہرو اور اپنی آواز کو اچهی طرح باہر نکالو۔ اور کہا گيا ہے کہ ترتيل یعنی وقف کے مقامات کی رعایت کرنا اور حروف کو بہترین طریقے سے ادا کرنا ہے۔
٣٢٨ ۔ “وَفی الدّرالمنثور اخرج العسکری فی المواعظ عن علی عليہ السلام انَّ رَسولَ اللّٰہِ (ص) سُئِلَ عَن قولِ اللہِّٰ <ورَتِّلِ القُرآنَ تَرتْيلاً > قالَ بَيِّنَہُ تَبييناً وَلا تَنثِْرہُْ نَثر الدَقَلَ وَلا تَهُزَّہُ هَزَّ ) الشِعرِْ قِفُوا عِندِْ عَجائبہِ وَحَرِّکوابِہِ القُلوبَ وَلا یَکُن هُمَّ احدکُم آخر السورَةِ ” ( ٢ سيوطی نے الدر المنثور ميں عسکری سے مواعظ ميں حضرت علی - سے نقل کيا ہے کہ فرمایا: رسول خدا (ص) سے الله کے قول <ورَتِّلِ القُرآنَ تَرتْيلاً > کے متعلق سوال کيا گيا،
فرمایا: آشکار کرنے کی طرح مکمل طور پر آشکار کرو اور اسے دقل خرما کی طرح پراگندہ نہ کرو بلکہ اس کے عجائب و غرائب ميں غور وفکر کرو اور ان کے ذریعے دل کو حرکت دو اور تمہاری کوشش یہ نہ ہو کہ جتنی جلدی ہو سکے سورے کو اختتام کی منزل پر پہنچاؤ۔
٣٢٩ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن سليمان عن صادق عن علی عليہ السلام بَيِّنَہُ تَبييناً وَلا تَهُزُّہ هَزَّ الشِعْرِ وَلا تَنْثُرہُ نَثْرَ الرَّمْلِ ، وَلکنْ اَفرِغُوا قُلوبَکُمْ القاسيةَ وَلا یَکُنْ هَمُّ احدکُمْ ) آخر السورَةِ ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير مجمع البيان، ج ١٠ ، ص ١۶٢ ۔ (
٢(۔ الدر المنثور، ج ۶، ص ٢٧ ۔ (
٣(۔ الکافی، ج ٢، ص ۶١۴ ، حدیث ١، باب ترتيل القرآن۔ (
کافی ميں عبد الله ابن سليمان امام جعفر صادق - سے اور انہوں نے حضرت علی - سے نقل کيا ہے کہ فرمایا: الفاظ کو واضح طریقے سے ادا کرو اور اشعار کی طرح نہ پڑهو اور رمل (ریت) کی طرح اسے ریخت و پاش (پراگندہ) نہ کرو بلکہ قرآن اس طرح پڑهو کہ تمہارے سخت دل نرم ہوجائيں اور تمہاری سعی و کوشش یہ نہ ہو کہ جتنی جلدی ہوسکے سورے کے آخر تک پہنچو۔
٣٣٠ ۔ “وَفی اصولِ کافی باسنادِہِ عَن عَلَی بن ابی حَمزَْةَ قالَ: قالَ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام اِنّ القُرآنَ لا یَقرْء هَذرَْمةً وَلکنَ یُرَتِّلُ تَرتْيلاً فَاذا مَرَرتَْ بآیَةٍ فيها ذِکرُْ الجَنَّة فَقِف عِندَْها ) وَاساٴلِ اللہّٰ عَزّوجلّ الجَنَّةَ وَاذا مَرَرتَْ بآیَةٍ فيها ذِکرُْ النار فَقِف عِندَْها وتعوذ باللہِّٰ مِنَ النارِ ” ( ١ اصول کافی ميں بطور مسند علی ابن حمزہ سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: قرآن کو سرعت سے نہيں پڑهنا چاہيے بلکہ ترتيل اور ڻهہر ڻهہر کر پڑها جائے اور جب ایسی آیت پڑهو جس ميں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہو تو رک جاؤ اور خدائے بزرگ و برتر سے جنت طلب کرو اور اگر جب ایسی آیت پڑهو جس ميں آتش جہنم کا ذکر ہو تو توقف کرو اور الله سے آتشِ جہنم سے پناہ طلب کرو۔
خداوند متعال نے قرآن مجيد کو شفا قرار دیا ہے، شفا مرض اور مرض کی حالت کے ليے ہے، آیہٴ کریمہ اس بات کی دليل ہے کہ قلوب کے مختلف حالات ہوا کرتے ہيں۔ اور ان کی بہ نسبت قرآن ان کے امراض کے ليے شفا بخش دوا ہے۔ انسان خلقت اصلی کے لحاظ سے صحت و سلامتی اور جسمانی و روحی استقامت کا حامل ہے جب تک اس کی جسمانی اور روحی صحت و سلامتی مختل نہ ہو اور اگر روحی خلل واقع ہو تو روحی امراض عارض ہوئے لہٰذا اس کا روحی علاج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الکافی، ج ٢، ص ۶١٧ ۔ (
ضروری ہے اسی طرح جسمانی خلل ہو تو جسمانی امراض درپيش ہوئے لہٰذا اس کا جسمانی علاج ضروری ہے۔
مختلف امراض کے علاج لے ليے خواہ وہ جسمانی ہوں یا روحی، قرآنی آیات اور سوروں ميں بہت سے خواص ذکر ہوئے ہيں کہ اس مختصر کتاب ميں اس کے ذکر کرنے کی گنجائش نہيں ہے، قارئين کرام س کے متعلق منابع و مصادر جيسے بحار الانوار وغيرہ کی طرف رجوع کریں۔
مولف کہتے ہيں: جس طرح عظيم الشان قرآن مجيد مختلف جسمانی و روحی امراض کے ليے شفا بخش ہے اسی طرح قائم آل محمد مہدی موعود عجل الله تعالیٰ فرجہ کا مقدس وجود بهی دشوار علاج والے امراض کے ليے شفا بخش ہے بلکہ جسمانی اور روحی لاعلاج امراض کے ليے بهی۔ تبرکاً ہم چند مورد کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔
١۔ محدث نوری طبرسی رحمة الله عليہ کتاب نجم الثاقب ميں تحریر کرتے ہيں آغا محمد مہدی شيرازی تاجر تهے جو بند کلومين چين کے ممالک ميں پيدا ہوئے وہيں پرورش پائی وہ ایسے شدید مرض ميں مبتلا ہوئے کہ جس کے نتيجے ميں قوت گویائی و سماعت جاتی رہی تقریباً تين سال تک اسی حالت ميں باقی رہے پهر شفا حاصل کرنے کی غرض سے ائمہٴ عراق کی زیارتوں کے ليے جاتے ہيں اور جمادی الاولیٰ ١٣٩٩ ئه ميں کاظمين وارد ہوئے اور وہاں اپنے رشتہ داروں ميں سے کسی ایک تاجر کے گهر قيام پذیر ہوئے وہاں بيس دن سکونت اختيار کی پهر ان کی سواری سامرہ کی طرف حرکت کے وقت چلی، اس کے رشتہ داروں نے اسے سواری پر سوار کيا اور اہل قافلہ جو اہل بغداد اور اہل کربلا تهے ان کے ہمراہ کيا اور گونگے ہونے کی وجہ اور پنے مقاصد و حوائج کے اظہار سے عاجزی کی بنا پر سامرہ کے مجاورین کو ایک خط تحریر کيا تاکہ وہ ان کی مدد کریں، وہاں پہنچنے کے بعد ١٠ جمادی الثانيہ بروز جمعہ ١٢٩٩ هء سرداب مقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے خدّام اور موثق افراد کا ایک گروہ ان کے ليے زیارت پڑه رہا تها یہاں تک کہ سرداب کے چبوترے پر گئے اور کنویں کے اوپر کچه دیر تک گریہ و زاری کرتے ہيں اور جملہ حاضرین و ناظرین سے اپنے ليے دعا اور شفا کی التماس کرتے ہيں گریہ وزاری بے قراری اور انابہ و توبہ کے بعد ان کی زبان حضرت کی طرف سے کهل گئی اور صاف صاف تيزی کے ساته فصيح عربی ميں گفتگو کر رہے تهے اور سنيچر کے دن ان کے دوستوں نے انہيں جناب آیت الله سرکار مرزا محمد حسين شيرازی عليہ الرحمہ و الرضوان کی مجلس درس ميں حاضر کيا اور ان کے سامنے تبرکاً مکمل صحت و حسن قرائت کے ساته سورئہ الحمد کی تلاوت کی تاکہ تمام حاضرین کو مکمل طور پر یقين ہو جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ دن بڑی مسرت اور خوشی کا رہا شب یکشنبہ ، دوشنبہ صحن مبارک ميں چراغانی ہوئی۔ اس واقعہ کے سلسلے ميں بہت سی نظميں عرب و عجم کے شعرا نے نظم کيں کہ ان ) ميں سے بعض رسالة جنت الماویٰ ميں موجود ہے۔ ( ١
٢۔ اسماعيل ہرقلی کی غيبت کبریٰ ميں ملاقات کا واقعہ مشہور ہے وہ حضرت کو پہچان ليتے ہيں اور اپنی بائيں طرف کے ران کے زخم سے امام زمانہ - کی برکت سے شفا حاصل کرتے ہيں کہ جس کے علاج سے تمام جرّاح اور ڈاکڻر مایوس تهے اس کی مفصل داستان کتاب نجم الثاقب ميں ہے کہ مولف حقير نے بہت ہی خلاصہ کے طور پر یوں نقل کيا ہے۔ اسماعيل ہرقلی کی بائيں ران ميں کوئی چيز پيدا ہوتی ہے جس کو توثہ کی بيماری کہتے ہيں جو بہت زیادہ درد اور تکليف دہ تهی تمام ڈاکڻروں اور جراحوں کے پاس گئے نتيجتاً یہی کہا کہ اس کا آپریشن کے علاوہ کوئی چارہٴ کار نہيں ہے اور وہ آپریشن بهی سو فيصد خطرناک ہے۔
اسماعيل مایوس ہوکر حلہ آئے اور سيد جليل القدر علی ابن طاوس کی خدمت ميں حاضر ہوکر یہ شکایت کی اور وہ ان کے ساته بغداد گئے اور سيد جليل القدر نے بغداد کے ڈاکڻروں کو بلایا اور سب نے وہی تشخيص دی اور وہ لوگ ان کے علاج سے مایوس ہوجاتے ہيں، اسماعيل سيد ابن طاوس سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نجم الثاقب، ۶٢٠ ، حکایت ٨٢ ۔ (
عرض کرتے ہيں کہ اب جب ميں بغداد تک آہی گيا ہوں تو کيا بہتر ہے کہ زیارات عسکریين عليہما السلام سے مشرف ہو لوں اور پهر گهر واپس جاؤں، سيد جليل القدر نے بهی شرعی وظائف نماز وغيرہ ان کے ليے بيان کيے پهر وہ سامرہ کی طرف روانہ ہوجاتے ہيں جب وہ سامرا پہنچتے ہيں تو پہلے حرم مبارک عسکریين عليہما السلام ميں داخل ہوکر زیارت کرتے ہيں پهر سرداب مقدس کی زیارت سے مشرف ہوتے ہيں اور الله تعالیٰ سے فریاد و استغاثہ کر کے حضرت حجّت صاحب الامر - کو شفيع قرار دیتے ہيں اس رات کچه دیر تک وہاں قيام کرتے ہيں جمعرات کے دن تک وہيں رہتے ہيں اور اس دن دجلہ ميں جاکر غسل کرکے پاکيزہ لباس پہن کر اپنے ہمراہ جو لوڻا رکهے ہوئے تهے اسے بهر کر زیارت کے ليے واپس آتے ہيں یہاں تک کہ شہر سامرا کے حصار ميں پہنچتے ہيں تو کيا دیکهتے ہيں کہ چار افراد اپنی سواری پر حصار سے باہر آئے دو شخص ان ميں جوان اور ایک شخص نقاب دار ضعيف العمر اور ایک دوسرے شخص بہت زیادہ بہترین لباس صاحب فرجيہ (اس زمانے کا مخصوص شان دار لباس) پہنے ہوئے تهے۔
ضعيف العمر نقا ب دار شخص کے ہاته ميں نيزہ تها جسے وہ راستے کے داہنی طرف ليے کهڑے تهے اور وہ دونوں جوان بائيں طرف اور صاحب فرجيہ درميانِ راہ کهڑے تهے مجهے سلام کيا ميں نے سلام کا جواب دیا صاحب فرجيہ نے کہا: کل تم اپنے اہل و عيال کے پا س چلے جاؤ گے؟ ميں نے عرض کيا: ہاں، فرمایا: آگے آؤ تاکہ ميں دیکهوں تمہيں کس چيز سے تکليف ہو رہی ہے جب اس کے پاس گيا تو وہ صاحب فرجيہ اپنی سواری سے جهکے اور ميرے شانے کو پکڑ کر اپنا ہاته ميرے زخم پر رکها اور دبا کر نچوڑ دیا پهر اپنے گهوڑے پر بيڻهے پهر اس شخص نے کہا: اے اسماعيل! تم نے چهڻکارا پاليا ، ميں نے کہا: انشاء الله ہم سب کے ليے فلاح و نجات ہے، اس کے بعد اس ضعيف العمر نے کہا کہ یہ بزرگوار ہستی تمہارے امام زمانہ - ہيں پهر ميں ان کے پاس گيا اور ان کے پائے مبارک کا بوسہ دیا اور انہوں نے اپنے گهوڑے کو حرکت دی۔
وانفَعَنَا اللّٰہ وجميع الموٴمنين بوجودہ نفعاً تاماً؛الله تعالیٰ ان کے مبارک ظہور ميں تعجيل ) فرمائے اور ہميں اور تمام مومنين کو ان کے وجود ذی جود سے مکمل نفع پہنچائے۔ ( ١ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴١١ ، حکایت سوم۔ (


١۴ ۔ مخالفين کا انحطاط
١۴ ۔وَالقُرآن لا یَزیدُ الظالمينَ الا خَساراً وَظُغياناً وَکُفراً وَکذلِکَ الحُجَّةُ القائِم عليہ السلام
قرآن اور امام زمانہ - تمام انسانوں کے ليے سرمایہٴ ہدایت ہيں۔ ليکن اگر کوئی شخص ان سے روگردانی اختيار کرے اور ہدایت کا طالب نہ ہو تو وہ کفر وسرکشی اور شدید خسارے ميں مبتلا ہوگا۔
قالَ اللہّٰ تَبارَک وَ تَعال یٰ: <وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ وَلاَیَزِیدُ الظَّالِمِينَ ) إِلاَّ خَسَارًا > ( ١
خدائے تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبانِ ایمان کے ليے شفا اوررحمت ہے اور ظالمين کے ليے خسارہ ميں اضافہ کے علاوہ کچه نہ ہوگا۔
قالَ اللّٰہ تعالیٰ:<إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ ) الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًْا کَبِيرًا وَاٴَنَّ الَّذِینَ لاَیُؤمِْنُونَ بِالآْخِرَةِ اٴَعتَْدنَْا لَہُم عَذَابًا اٴَلِيمًا > ( ٢ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بنی اسرائيل ، آیت ٨٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ١٠ ۔ (
الله تعالیٰ نے فرمایا: بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نيک اعمال بجا لاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہيں رکهتے ان کے ليے ہم نے ایک دردناک عذاب مہيا کر رکها ہے۔ قالَ تعالیٰ:<ہُوَ الَّذِی جَعَلَکُم خَلَائِفَ فِی الاْٴَرضِْ فَمَن کَفَرَ فَعَلَيہِْ کُفرُْہُ وَلاَیَزِیدُ الکَْافِرِینَ کُفرُْہُم ) عِندَْ رَبِّہِم إِلاَّ مَقتًْا وَلاَیَزِیدُ الکَْافِرِینَ کُفرُْہُم إِلاَّ خَسَارًا> ( ١ الله تعالیٰ نے فرمایا: وہی وہ خدا ہے جس نے تم کو زمين ميں اگلوں کو جانشين بنایا ہے اب جو کفر کرے گا وہ اپنے کفر کا ذمہ دار ہوگا اور کفر پروردگار کی نظر ميں کافروں کے ليے سوائے غضب الٰہی اور خسارہ کے کسی شے ميں اضافہ نہيں کرسکتا ہے۔ ) قولہ تعالیٰ:<وَمَن یَتَّخِذ الشَّيطَْانَ وَلِيا مِن دُونِ اللهِ فَقَد خَسِرَ خُسرَْانًا مُبِينًا > ( ٢ اور جو خدا کو چهوڑ کر شيطان کو اپنا ولی اور سرپرست بنائے گا وہ کهلے ہوئے خسارہ ميں رہے گا۔ (کيوں کہ اپنی عمر کا سرمایہ ضایع کردیتا ہے اور اس سے بغير فائدہ کے باقی رہ جاتا ہے)۔
قولہ تعالیٰ:<وَاٴَن اٴَتلُْوَ القُْرآْنَ فَمَن اہتَْدَی فَإِنَّمَا یَہتَْدِی لِنَفسِْہِ وَمَن ضَلَّ فَقُل إِنَّمَا اٴَنَا مِن ) المُْنذِرِینَ > ( ٣ اور یہ کہ ميں قرآن کو پڑه کر سناؤں اب اس کے بعد جو ہدایت حاصل کرلے گا وہ اپنے فائدے کے ليے کرے گا اور جو بہک جائے گا اس سے کہہ دیجيے کہ ميں تو صرف ڈرانے والاہوں۔ مذکورہ آیات کے علاوہ بہت سی دوسری آیتيں قرآن مجيد ميں موجود ہيں جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہيں کہ قرآنی آیات اس کے باوجود کہ وہ ہر انسانی فرد کے ليے ہدایت گر اور رہ گشا ہيں ليکن ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فاطر، آیت ٣٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ١١٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ نمل، آیت ٩٢ ۔ (
لوگوں کی بہ نسبت کہ جنہوں نے اپنی ذات پر ظلم و ستم کيا اور دریائے کفر و شرک ميں غوطہ زن رہے انہيں سوائے خسارے اور نقصان ميں اضافہ ہونے کے کچه اور حاصل نہ ہوگا۔ اسی طرح حضرت حجّت قائم آل محمد کے متعلق جب الله تعالیٰ کی مشيت و ارادہ ہوگا تو وہ قيام کریں گے اور اس تاریک کائنات کو نور ہدایت اور اپنے جمال انور سے منور فرمائيں گے اس وقت لوگ دو حالت سے خارج نہيں ہوں گے یا وہ ان کے مطيع و فرماں بردار ہوں گے یا مخالف ان کے احکام کے اطاعت گزاروں کو رحمت و نعمت اور ان کی مخالفت اور دشمنی کرنے والوں کو ذلت و عذاب حاصل ہوگا۔
٣٣١ ۔ “وفی غَيبَْتِِ النُعمانی : باسنْادِہِ عَن زَرارَةِ عَن ابی جَعفَْر عليہ السلام قالَ قُلتُ لَہُ صالحٌ مِنَ الصالِحينَ سَماہَ لِی اُریدُ القائِم عليہ السلام فَقالَ اِسمُہُ اسمی قُلتُ اٴیسِيرُ ہ بَسيرةِ مُحمّد (ص) قال : هَيهاتَ هَيهاتَ یا زُرارَةُ ما یَسيرُ بسيرَتِہِ قُلتُ جُعِلتُْ فَداکَ لِمَ قالَ اِن رَسُولَ اللّٰہ (ص) سارَ فی اُمتہِ باللّينِ کانَ یَتَالَفُ الناسَ وَالقائِمُ عليہ السلام یَسيرُ بالقَتلِ بِذکَ اُمِرَ فی ) الکِتابِ الذی مَعَہُ اَن یَسيرَ بالقَْتلِْ وَلا یَستَتيبَ اَحَداً وَیلٌْ لِمن ناواہُ ” ( ١ غيبت نعمانی ميں بطور مسند زرارہ سے انہوں نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ایک مرتبہ ميں نے حضرت سے عرض کيا: صالحين ميں سے ایک صالح شخص نے اس کا نام مجهے بتایا مجه سے خواہش ظاہر کی: (ميں حضرت قائم - کے حالات سے باخبر ہونا چاہتا ہوں) حضرت نے فرمایا: اس کا نام ميرا نام ہوگا ميں نے عرض کيا: کيا اُن حضرت کی سيرت بهی حضرت محمد (ص) کی سيرت ہوگی؟ امام محمد باقر - نے فرمایا: نہيں، افسوس ، افسوس بہت دور کی بات ہے اے زرارہ! وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ٢٣١ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٣۵٣ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ٣، ص ( ٣٠٣ ۔
آنحضرت (ص) کی سيرت پر عمل نہ کریں گے۔ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان یہ کيوں؟ آپ نے فرمایا: اس ليے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے اپنی امت کے ساته نرمی اور تاليف قلوب کا سلوک کيا ، ليکن حضرت حجّت - تو شمشير کے ساته سلوک کریں گے کيوں ان کے پاس جو کتاب ہے اس ميں ان کو اسی طرح حکم دیا گيا ہے اور کسی شخص سے اس کی توبہ قبول نہيں کریں گے ویل اور آتش جہنم ہے اس شخص کے ليے جو اِن سے نزاع اور دشمنی کرے۔
٣٣٢ ۔ “وَفيہِ باسنْادِہِ عَنِ الاصَبَغَ بن نُباتہ قالَ اَتَيتُ اَمير الموٴمنين عَليّاً عليہ السلام ذاتَ یَوم فَوَجَدتُہُ مِفکِّراً ینکُثُ فی الارض فقُلْتُ یا اميرَ الموٴمنين مالی اَراک مِفکَراً تنکُثُ فی الارض اٴرَغبةً مِنکَ فيها فَقالَ لا وَاللّٰہِ ما رَغِبْتُ فيها وَلا فی الدنيا ساعَةً قَطُ وَلکنَّ فِکری فی مَولُودٍ یَکُونُ مِن ظَهری ( مِن ظهر الحادی عَشرَ من وُلدی هُوَ المهدی الذی یَملا ها قسطا وَعَدلاً کما مُلئت ظُلماً وَجَوراً لَہُ حَيرةٌ وَ غَيبَةٌ یَضِلُ فيهما اَقوامٌ وَیَهتدی فيهما اخَرُونَ فَقُلْتُ یا امير الموٴمنين فکم تکونُ الحيَرةُ وَالغَيَبةُ فقالَ سبتُ مِنَ الدَّهرِ فقُلتُ اِنَّ هذا لکایِنٌ فَقالَ نَعمُ کما اَنَّہ مخلوقٌ قُلتُ اُدرکُ ذلکُ الزَمانِ قالَ اَنی لَکَ یا اَصبغُ بهذا الامر اوٴلئکَ خيارُ هذہ الامَّةِ معَ ابرارِ هذہِ العِترةِ فقُلتُ ) ماذا یَکونُ بَعدَ ذَلک قالَ ثُمَ یفعلُ اللّٰہ مایشآء فَاِنَّ لہُ ارادتٍ وَغایاتٍ وَنَهایاتٍ ” ( ١
اسی کتاب ميں بطور مسند اصبغ ابن نباتہ نے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ایک دن ميں حضرت امير المومنين علی - کی خدمت ميں حاضر ہوا تو دیکها کہ آپ کچه متفکر معلوم ہوتے ہيں اور زمين کرید رہے ہيں ميں نے عرض کيا: یا امير المومنين -! آج کيا بات ہے ميں آپ کو قدرے متفکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ۶١ ۔ کافی، ج ١، ص ٣٣٨ ۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٢٨٩ ۔ الاختصاص، ص ٢٠٩ ۔ ( غيبت شيخ طوسی، ص ١۶۵ ۔
محسوس کر رہا ہوں اور آپ زمين کرید رہے ہيں کيا آپ کو اس زمين کی خواہش ہے؟ تو فرمایا: نہيں، خدا کی قسم ! نہ مجهے اس زمين کی خواہش ہے اور نہ کبهی کسی دن مجهے دنيا کی خواہش رہی ہے بلکہ ميں تو بيڻها ہوا اس مولود کے متعلق غور وفکر کر رہا ہوں جو ميری نسل (گيارہویں پشت ميں) سے ہوگا، جو اِس زمين کو عدل و انصاف سے اس طرح بهر دے گا جس طرح یہ ظلم و ستم سے بهری ہوئی ہوگی مگر اس کے ليے غيبت و حيرت کا زمانہ بهی ہوگا جس ميں کچه قوميں گمراہ ہوجائيں گی اور کچه لوگ ہدایت پر قائم رہيں گے۔ تو ميں نے عرض کيا:کتنی مدت تک غيبت و حيرت کا زمانہ ہوگا؟ فرمایا: ایک عرصے تک ایسا رہے گا ميں نے عرض کيا:یا امير المومنين -! کيا واقعاً ایسا ہونے والا ہے؟
فرمایا: ہاں وہ اسی ليے خلق کيے گئے ہيں۔ ميں نے عرض کيا: کيا ميں بهی اس زمانے ميں رہوں گا؟ فرمایا: اے اصبغ ! تمہيں کہاں وہ زمانہ نصيب ہوگا (یعنی تم کہاں اور وہ زمانہ کہاں) وہ لوگ اس امت کے بہترین افراد ، ابرار اور سب سے زیادہ نيک لوگ اس عترت (عترت پيغمبر اکرم (ص)) کے ہيں۔ پهر ميں نے عرض کيا: اس کے بعد کيا ہوگا؟ فرمایا: پهر الله تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا اس ليے کہ ارادے اور مقاصد اسی کے ہيں اور انتہا تک پہنچانا اسی کا کام ہے۔
٣٣٣ ۔ “وَفی رَوضہ الکافی باسنادہ عَن مُعاویةِ بن عمارٍ عَنْ ابی عبدالله عليہ السلام قالَ اذا تَمَن یْٰ اَحَدُکُم القائِمَ عليہ السلام فَليَْتَمَنُّہُ فی عافيَةٍ فانّ اللہّٰ بَعثَ مُحَمَداً رَحمَةً وَیبعَثُ القائِمُ ) نِقمَْةً ای عَلَی الکافِرین ” ( ١
روضہٴ کافی ميں بطور مسند ایک حدیث معاویہ ابن عمار سے انہوںنے امام جعفر صادق - سے نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب کبهی تمہيں حضرت قائم - (کے دیدار)کی تمنا ہو تو خدا سے عافيت کے طلب گار رہو (کہو: ) کيوں کہ الله تعالیٰ نے محمد (ص) کو رحمت کے ساته مبعوث کيا اور قائم - کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ روضة الکافی، ص ٢٣٣ ، حدیث ٣٠۶ ۔ (
عذاب کے ساته مبعوث کرے گا (کيوں کہ انہيں ہر مجرم سے انتقام لينا ہے)۔
٣٣۴ ۔ “وَفيہ باسنادہ عَنْ سلام بن المستنيرِ قالَ سَمِعَتْ ابا جَعفَر عليہ السلام یُحدّثُ اذا قامَ القائِمُ عليہ السلام عَرَضَ الایمانَ عَلَی کُلِّ ناصِبٍ فان دَخَلَ فيہِ بِحَقيقةٍ والّاضَرَبَ عُنقَہُ اَو یُودی الجِزیَةَ کَما یُودیها اليومِ اهلِ الذِمَّةِ وَیشُدُّ عَلَی وَسَطِہِ الهَميْانَ وَیُخرُْجُهُم مِن الامصْارِ اِلی السّوادِ )١) ”
روضہٴ کافی ميں بطور مسند سلام ابن مستنير سے نقل ہوا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام محمد باقر کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب قائم - قيام کریں گے تو ہر ناصبی (دشمنان اہل بيت عصمت و طہارت) کے ليے ایمان پيش کریں گے اگر حقيقت ميں ایمان قبول دے گا (Tex) کيا (تو بہتر ہے) اور اگر ایمان قبول نہيں کيا تو اس کی گردن اڑا دیں گے یا وہ جزیہ جس طرح آج کل کے اہل ذمہ جزیہ ادا کرتے ہيں اور ہميانی (پيسوں کی تهيلی) ان کی گردن ميں بانده کر شہروں سے باہر نکاليں گے۔
بعض روایت ميں نقل ہوا ہے کہ جزیہ بهی ختم ہوجائے گا اور شاید یہ حدیث حضرت کے ابتدائی زمانے سے مربوط ہو ورنہ روایات کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں سے ایمان کے علاوہ کوئی دوسری چيز قابل قبول نہ ہوگی (یعنی یا ایمان یا قتل)۔ جيسا کہ روضہٴ کافی کے حاشيے ميں صاحب مراٴة العقول (علامہ مجلسي) نے بهی ذکر کيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ روضة الکافی، ص ٢٢٧ ، حدیث ٢٨٨ ۔ (


١۵ ۔ نجات
القرآنُ انزَلَہُ اللّٰہ لِيُخْرِجَهُمْ مِنَ الظُلماتِ اِلَی النورُ
وَالقائم عليہ السلام یُظهِرُہُ اللہّٰ لِيُخرِْجَهُم مِنَ الظُلماتِ اِلَی النور ظاہِراً وَباطِناً
خداوند متعال نے قرآن صامت اور قرآن ناطق کو، انسان کو تمام ظلمتوں سے نجات عطا کرنے کے ليے بهيجا ہے۔
>ہُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ عَلَی عَبدِْہِ آیَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخرِْجَکُم مِن الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ وَإِنَّ اللهَ بِکُم لَرَوٴُفٌ ) رَحِيمٌ > ( ١
وہی وہ ہے جو اپنے بندے پر کهلی ہوئی نشانياں نازل کرتا ہے تاکہ تمہيں تاریکيوں سے نور کی طرف نکال کر لے آئے اور الله تمہارے حال پر یقينا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ >وَإِنَّہُ لَتَنزِْیلُ رَبِّ العَْالَمِينَ # نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاْٴَمِينُ # عَلَی قَلبِْکَ لِتَکُونَ مِن المُْنذِرِینَ #) بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِينٍ > ( ٢) اور یہ قرآن رب العالمين کی طرف سے نازل ہونے والا ہے اسے جبرئيل امين لے کر نازل ہوئے ہيں یہ آپ کے قلب پر نازل ہوا ہے تاکہ آپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حدید، آیت ٩۔ (
٢(۔ سورئہ شعراء، آیت ١٩٢ ۔ ١٩۵ ۔ (
لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرائيں۔ >یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلنَْا مُصَدِّقًا لِمَا مَعَکُم مِن قَبلِْ اٴَن نَطمِْسَ وُجُوہًا فَنَرُدَّہَا ) عَلَی اٴَدبَْارِہَا فَنَرُدَّہَا عَلَی اٴَدبَْارِہَا اٴَو نَلعَْنَہُم کَمَا لَعَنَّا اٴَصحَْابَ السَّبتِْ وَکَانَ اٴَمرُْ اللهِ مَفعُْولًا > ( ١
اے وہ لوگ جنہيں کتاب (توریت) دی گئی ہے ہمارے نازل کيے ہوئے قرآن پر ایمان لے آؤ جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے قبل اس کے کہ ہم تمہارے چہروں کو بگاڑ کر پشت کی طرف پهير دیں (یعنی ان کی توجہ ہدایت سے پهير دیں) یا ان پر لعنت کریں جس طرح ہم نے اصحابِ سبت (جو مچهلی کے شکار ميں مشغول رہتے تهے) پر لعنت کی ہے اور الله کا حکم بہرحال نافذ ہے۔
اگر صاحبان توریت خدا کی طرف سے نازل شدہ قرآن پر ایمان لاتے تو راہِ ہدایت ان کے ليے کهل جاتی اور انہيں ظلمت سے نور کی طرف لے جاتی اور وہ لعنت الٰہی ميں بهی مبتلا نہ ہوتے جس طرح اصحاب سبت (سنيچر والوں) نے مکر و حيلہ کرکے حکم خدا سے سرکشی کی اور لعنت خداوندی ميں گرفتار ہوئے۔
الله تبارک و تعالیٰ نے پيغمبر اکرم (ص) کو زمانے کے ایک مخصوص وقت کے ليے مبعوث فرمایا کہ جب تمام دنيا ميں ہرج و مرج کفر و شرک و نفاق ہر جگہ سایہ فگن تها اور لکڑی پتهر اکثر لوگوں کے معبود بنے ہوئے تهے، مولا امير المومنين - نے بعثت کے بعض واقعات کو نہج البلاغہ ميں بيان فرمایا ہے جو اس تاریک دور کی عکاسی کرتا ہے ہم اسے یہاں بيان کرتے ہيں۔ ٣٣۵ ۔ “قال - سلام اللّٰہ عليہ - بَعثَہُ وَالناْسُ ضَلالٌ فی حَيرةٍ وَخابطُونَ فی فِتنَْةٍ قَد استهوتُهُم الاهواءُ وَاستزلَّتُهْم الکِبْریاء وَاسْتَخَفتهُمْ الجاهِليةُ الجُهَلاء ، حَياریٰ فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۴٧ ۔ (
زِلزالٍ مِنَ الامرِ وَبَلاءٍ مِنَ الجَهلِ فَبالغَ صَلّی اللہّٰ عليہ وآلہ فی النَّصيحَةِ وَمَضی عَلَی الطَّریقةِ وَدَعا ) اِلی الحکمةِ وَالموعِظَةِ الحَسَنَةِ ” ( ١
الله تعالیٰ نے پيغمبر اسلام (ص) کو اس وقت بهيجا جب لوگ گمراہی ميں متحير تهے اور فتنوں ميں ہاته پاؤں مار رہے تهے۔ خواہشات نے انہيں بہکا دیا تها اور غرور نے ذليل و خوار بنا دیا تها اور وہ غير یقينی حالات اور جہالت کی بلاؤں ميں حيران و سرگرداں تهے۔ آپ نے نصيحت کا حق ادا کردیا، سيدهے راستے پر چلے اور لوگوں کو حکمت اور موعظہٴ حسنہ کی طرف دعوت دی۔
بعض افراد جوان لڑکيوں کو زندہ درگور کرتے تهے، بعض اپنی ماں بہن کے ساته زنا اور بدکاریوں ميں مشغول تهے بعض صحراؤں اور جزیروں ميں درندوں کی طرح خوں ریزی ميں مصروف تهے اور حيوانات کے ساته زندگی گزار رہے تهے ایسے موقع پر خداوند متعال نے حضرت محمد مصطفی (ص) کو اپنی طرف انسان کو دعوت دینے کے ليے مامور فرمایا، پهر رسول خدا (ص) نے لوگوں کو وعظ و نصيحت کرنے ميں اپنی دیرینہ بليغ سعی و کوشش انجام دی اور بشر کی نجات کے ليے اقدام کيا انہيں حکمتوں اور اچهی نصيحتوں کی طرف دعوت دی اور ابهی زیادہ مدت نہيں گزری تهی کہ اس منجیِ عالمِ بشریت کے دستوراتِ عاليہ اور نورانی قوانين نے عرب کے مشرکين و مستکبرین کو فرماں بردار اور توحيد پرست بنادیا نيز ان تمام خدا کی معرفت نہ رکهنے والوں اور آتش کے قائلين، غارنشين قبيلے والوں اور یورپ کے وحشيوں کو حيوانات کے ساته زندگی بسر کرنے سے نجات دلائی ان کی عورتوں کی گردنوں سے اسيری کی زنجير نکالی، یہ نيک سيرت تمام انبياء و اوصياء ميں جاری و ساری ہے بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کہ جنہيں الله تعالیٰ نے ذخيرہ قرار دیا اور جس زمانہ ميں ظلم و جور فتنہ و فساد تمام دنيا پر چها جائے گا لوگ جہالت و ضلالت کی وادی ميں حيران و سرگرداں غوطہ زن ہوں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۴٩ ۔ (
جس طرح ایک ڈوبنے والا اپنی نجات کے ليے ہاته پاؤں چلا کر ہر ممکنہ وسائل اختيار کرتا ہے ان سے متمسک ہوگا۔
اس مقام پر بدیہی طور پر لوگوں کو ایک عالمی مصلح اور منجی کی ضرورت پيدا ہوتی ہے اور تمام قلوب پروردگار رب العالمين کی طرف متوجہ ہوکر دست نياز الله تبارک و تعالیٰ کی طرف پهيلا کر ظہور کی درخواست کر رہے ہوں گے اور جب مشيت و ارادہ الٰہی ہوگا تو حضرت کے ظہور کی اجازت ملے گی اور مہدی فاطمہ اطہر - کہ جس کے انتظار ميں کائنات خون جگر پی رہی ہے اور گریہ کناں ہے تشریف لائيں گے اور دنيا کو عدل و انصاف سے بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم وستم سے بهر چکی ہوگی۔
مِ بْنِ عَبْد اللّٰہ ٢٣۶ ۔ “ وفی کمال الدّین للصدوق عليہ الرحمة باسنادہ عَنْ عَبْدِ الْعَظی دی عَلَی بْنِ مُحْمّدٍ عليہ السلام فَلَمّا بَصربی قالَ لی : ی قالَ دَخلتُ عَلَی سی الحَْسَن اُریدُ اَن اَعرِْضَ عَلَيکَْ مَرحبابِکَ یا ابَاالقاسِم انتَْ وَليّنا حَقّاً قالَ: فَقُلْتُ لَہُ یا بنَ رَسول اللّٰہ اِنی فانّ کانَ مرضياً ثَبَّتُ عَلَيہِْ حَتّ یٰ القَْیِ اللہّٰ عَزّوَجلّ فَقالَ : هاتِ یا ابَا القاسِمْ ، فَقُلْتُ : اِنی دینی اقولُ اِنَ اللہّٰ تبارک وَتعال یٰ واحدٌ، ليسَ کَمِثلِْہِ شَیءٌ خارِجٌ عَنِ الحَدَّینِْ حدَّ الابطْالِ وَحدّ التَشبيہِ ، وَانہُ ليسَ بِجِسْمٍ وَلا صورةٍ وَلا عَرَضٍ و لا جَوہَرٍ ، بَلْ هُوَ مُجَسِمُ الاجْسامِ وَمُصَوّرَ الصُوَرِ ، وَخالِقُ الاعراضِ وَالجَواہِرِ ، وَرَبُّ کُلِ شیء وَمالِکُہُ وَجاعِلُہُ وَمُحَدِّثُہُ وَان مُحَمَدً (ص) عَبدُْہُ وَ رَسولہُ خاتِمُ النَبيينَ فلا نَبیَّ بَعدَْہُ اِلَی یَوِم الق يٰمَة ، وَان شَریعتہُ خاتِمَةُ الشرایِعِ فَلا شریعَة بَعدَها الی یَومَ القِيامَةَ
بْنُ ابی طالِبٍ ، ثُمّ الحَسَنِ ثُمّ وَاقول : اَنَّ الامامَ وَالخَليفَةَ وَوَلیَ الاميْرِ المُوٴمنين عَلی بن الحُسيَنِ ، ثُمَ مُحَمَدِ بنِْ عَلَیٍ ، ثُمَ جَعفَْرِ بنِْ مُحَمَدٍ ، ثُمَ مُوسَی بنِْ جَعفَْرٍ الحُسينِ ، ثُمّ عَلی ثُمَ عَلِی بنِْ مُوس یٰ ، ثُمَ مُحَمَدِ بنِْ عَلَیٍ ، ثُمَ اَنتَْ یا مَولایَ فقالَ عليہ السلام : وَمَن بَعدْی الحَسَنَ ابنی فکَيفَْ لِلنْاسِ بالخَْلَفِ مِن بَعدِْہِ ؟ قالَ: فَقُلتُْ وَکَيفَْ ذاکَ یا مَولایَ ؟ قالَ: لانّہُ لا یُریٰ ) شَخصُْہُ وَلا یَحِلُّ ذِکرُْہُ بِاسمِہِ حَت یٰ یَخرُْجُ فَيَملْاءَ الارضَْ قِسطْاً وَ عدَلاً کَ مٰا مُلِئَت جَوراً وَظُلمَْاً ” ( ١
کمال الدین ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته حضرت عبد العظيم ابن عبد الله الحسنی سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے : ميں حضرت امام علی نقی - کی خدمت ميں شرف یاب ہوا تو ان کی چشم مبارک ميرے اوپر پڑی تو فرمایا: مرحبا خوش آمدید اے ابو القاسم! تم یقينا ميرے حقيقی دوست ہو : ميں نے عرض کيا: اے فرزند رسول (ص)! ميں چاہتا ہوں کہ اپنا دین آپ کے سامنے پيش کروں اگر آپ راضی و خوشنود ہوں تو اس پر ثابت قدم رہوں یہاں تک کہ خدائے متعال سے ملاقات کروں ، حضرت نے فرمایا: اے ابو القاسم! کہو، تو ميں نے عرض کيا: ميں کہتا ہوں کہ خداوند متعال واحد ہے اپنا مثل و نظير نہيں رکهتا، دو حد سے خارج ہے ایک حدِ ابطال سے دوسرے حدِ تشبيہ سے یعنی نہ بارگاہ الٰہی ميں نہ کوئی تعطّل ہے اور نہ ہی تشبيہ کا گزر بسر ہے، یقينا وہ (کل یوم هو فی شان) یعنی ہر دن اس کی اپنی ایک شان ہے۔ اور خدائے سبحان نہ جسم ہے نہ ہی صورت اور عرض بهی نہيں ہے (کہ محل کا محتاج ہو) اور نہ ہی جوہر ہے۔ بلکہ وہ تمام اجسام کو جسم عطا کرنے والا ہے اور تمام صورتوں کو شکل و صورت بخشتا ہے، اور تمام اعراض و جواہر کا خالق ہے ہر شے کا تربيت کرنے والا ہے اور ہر شے کا مالک جعل اور ایجاد کرنے والا ہے۔ اور ميں اس بات کا قائل ہوں کہ حضرت محمد (ص) خدا کے بندے اور اس کے رسول ہيں اور خاتم الاوصياء ہيں ان کے بعد کوئی پيغمبر نہيں آئے گا اور ان کی شریعت کے علاوہ روز قيامت تک کوئی شریعت نہ ہوگی ، اور ميں اس بات کا معتقد و معترف ہوں کہ پيغمبر (ص) کے بعد امام و خليفہ اور ولی امير المومنين علی ابن ابی طالب - پهر امام حسن - پهر امام حسين - ان کے بعد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین صدوق، ج ٢، ص ٣٧٩ ۔ معجم احادیث امام مہدی - ، ج ۴، ص ٢١۶ ۔ (
امام علی ابن الحسين - پهر امام محمد بن علی -، پهر امام جعفر ابن محمد -، پهر امام موسی ابن جعفر -، پهر امام علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی - اور ان کے بعد آپ ميرے آقا و مولا ہيں۔
پهر امام علی نقی - نے فرمایا: ميرے بعد ميرے فرزند ارجمند امام حسن عسکری -۔ پهر لوگوں کا ان کے جانشين کے متعلق کيا حال ہوگا؟ کہا: ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا لوگوں کا کيا حال ہوگا؟ فرمایا: کيوں کہ ان کا وجود مشاہدہ ميں نہيں آئے گا اور ان کا نام ذکر کرنا جائز نہيں ہے یہاں تک کہ وہ ظہور کریں اور زمين کو عدل و انصاف سے بهر دیں جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہوچکی ہوگی۔
٣٣٧ ۔ “وفی غيبة النعمانی باسنادہ عن الفضيل بن یسارِ قالَ سَمِعْتُ ابا عَبْد اللّٰہِ عليہ السلام یَقولُ انَ قائِمنا اِذا قامَ اِستَْقبَْلَ مِن جهَتِہِ الناسِ اشَدَ مِماْ اَستَْقبَْلَہُ رَسولُ اللہِّٰ مِن جُهّالِ الجاهِليَةِ فَقُلتُْ وَکَيفَْ ذلکَ قالَ اِنَ رَسولَ اللہِّٰ (ص) اتَی الناسَ وَهُم یَعبْدونَ الحجارَةَ وَالصُخُورَ وَالعْيدانَ وَالمَْنحْوُتَةُ وَاِنَ قائِمِنٓا اِذا قامَ اَتَی الناسَ وَکُلُّهُم یَتاوَّلُ عَلَيہِْ کِتابَ اللہّٰ وَیَحتَْجَ عَلَيہِْ بِہِ ثُم قالَ اَ اٰ م وَاللہِّٰ لِيَدخُْلَنَّ عَلَيهِْم عَدلُْہُ اَ اٰ م وَاللہِّٰ لِيَدخُْلَنَّ عَلَيهِْم عَدلُْہُ جَوفَ بيوتِهِم کَما یَدخُْلُ الحَرُّ وَالبرد )١) ”
نعمانی نے غيبت ميں اپنی سند کے ساته فضيل ابن یسار سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو انہيں جاہلوں کی طرف سے اس سے بهی زیادہ شدید مزاحمتوں کا سابقہ ہوگا جن مزاحمتوں سے رسول الله (ص) کو دور جاہليت کے جاہلوں کے ہاتهوں سابقہ پڑا تها۔ پهر ميں نے عرض کيا: اس طرح کيسے ہوگا؟ آپ نے فرمایا: وہ اس طرح کہ جب رسول الله (ص) تشریف لائے تهے تو وہ لوگ پتهروں ، چڻانوں، کهجور کے اونچے اونچے درختوں اور لکڑی کے تراشے ہوئے بتوں کی پرستش وپوجا کيا کرتے تهے ليکن ہمارا قائم (اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١ (۔ غيبت نعمانی، ج ۵٣ ، ص ٣۶٢ ۔ معجم احادیث امام مہدی -، ج ٣، ص ۵٠١ ۔ (
وقت آئے گا اور ظہور کرے گا کہ جب تمام لوگ با علم و فہم اور بيدار ہوں گے) جب لوگ الله تعالیٰ کی کتاب سے غلط تاویليں اخذ کرکے آپ کے سامنے دليليں پيش کریں گے اور ان بزرگوار کے خلاف کہ جن کے گهر ميں قرآن نازل ہوا ہے اور وہ تمام علوم جو حضرت کے پاس ہيں لوگ احتجاج کریں گے۔ پهر آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! جان لو اور باخبر ہوجاؤ! ان لوگوں کے گهروں ميں امام قائم - اپنا عدل و انصاف اس انداز سے قائم کریں گے جس طرح ان کے گهروں ميں سردی اور گرمی داخل ہوکر اپنا اثر و نفوذ قائم کرليتی ہے۔
٣٣٨ ۔ “فی البحار باسناد عَن الی سعيد الخدری قالَ : رَسولُ اللّٰہِ (ص) اُبَشِّرُکُمْ عَلَی اِختِْلافٍ مِنَ الناسِ وَزَلازِلٍ فَيَملْا الاَْرضَْ قِسطْاً وَ عليہ السلام یُبْعَثُ فی اُمْتی بالْمَهْدی عَدلاً کَ مٰا مُلِئَت ظُلمَْاً وَ جَورَْاً یَرضَْ یٰ بہ ساکِنُ السَْماءُ یُقَسِّمُ المْالَ صِحاحاً ، قُل اْٰن وَ اٰ م الصِْ حٰاحُ ؟ اٰقلِ بِالسویَّةِ بَينَْ ال اٰنسِ فَيَملْاءُ اللہُّٰ قُلُوبَ اُمَّةِ مُحَمَدٍ (ص) غَنِیً وَیَسَعُهُم عَدلُْہُ حَ تٰی یَامُرُ مُ اٰندِیاً خُذْ فَيُنٰادی مَنْ لَہُ فی مالٍ حاجَةٌ فَلا یَقُومُ مِنَ الناسِ اِلَّا رَجُلٌ فَيُقولُ اٴنَا ، فَيَقُولُ لَہُ اُحْثُ یَعنی حَ تٰی اِذا جَعَلَہُ فی حِجرِہِ وَاَحرَْزَہُ فَيَقُولُ کُنتَْ اجشَْعُ اُمَةِ مُحَمَدٍ (ص) نَفسَْاً اَو عَجزُْ عَنی ما وَسِعَهُم ، قالَ فَيَزِدُہُ فَلا یَقبَلُ مِنہُْ فَيَقولُ لَہُ اِنا لا ناٴخُذُ شَيئاً اٴعطَْيناہُ ، قالَ فَيَکونُ ذلکَ سَبعَْ ) سِنينَ اوثَمانِ سِنينَ او تِسعَ سنينَ ثُمَ لاخَيرَْ فِی العيش بَعدَْہُ اَو قالَ لا خَيرَْ فِی الحَياةِ بَعدہ” ( ١ بحار الانوار ميں ابو سعيد خدری سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: ميں تم کو خوش خبری دیتا ہوں کہ مہدی اس وقت ظہور کریں گے جب لوگوں ميں تزلزل و اختلافات رونما ہوں گے ، تو اس وقت وہ زمين کو عدل و انصاف سے اسی طرح بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۵١ ، ص ٨١ ، ص ٩٢ ۔ معجم احادیث امام مہدی -، ج ١، ص ٩٢ ۔ (
بهری ہوئی ہوگی اور اہل آسمان وزمين سب کے سب ان سے خوش اور راضی ہوں گے، وہ مال کو صحاح (صحيح طور سے) کے ساته تقسيم کریں گے، ہم نے دریافت کيا: صحاح کا کيا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ لوگوں کے درميان مال کو بطور مساوی برابر برابر تقسيم کریں گے اور امتِ محمدیہ کے دلوں کو غنی بنادیں گے اور عدل و انصاف قائم کریں گے، یہاں تک کہ منادی کو حکم ہوگا کہ آواز دو، کيا کوئی ہے جس کو مال و دولت کی ضرورت ہو؟ تو اس ميں سے کوئی نہ اڻهے گا صرف ایک آدمی اڻهے گا اور کہے گا: ہاں ميں ہوں ، تو حکم ہوگا کہ خزانچی کو بلاؤ اور اس سے کہہ دو کہ (امام مہدی - نے حکم دیا ہے کہ اس کو کچه دے اور خزانچی جب اس کے دامن ميں سونے کی ڈلياں (ڻکڑے) لا کر ڈال دے گا تو وہ کہے گا کہ ميں امت محمدی (ص) ميں سب سے زیادہ لالچی اور سب سے زیادہ مفلس تها، مگر اب ميرا دل غنی ہے (مجهے ضرورت نہيں ہے) یہ کہہ کر واپس کرے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ ہم لوگ جو کچه کسی کو عطا کرتے ہيں وہ پهر واپس نہيں ليتے۔ پس اسی طرح مہدی - سات، آڻه یا نو سال تک زندہ رہيں گے اور اس کے بعد زندگی کا لطف ہی جاتا رہے گا۔ اس کے بعد حيات ميں کوئی مز ا نہ ) رہے گا۔ ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم صاحب الزمان - کی الٰہی حکومت و سلطنت کی (
مدت کے بارے ميں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے کسی مورخ نے بهی دو سال سے کم کی مدت تحریر نہيں کی ہے پانچ سال سات سال نو سال سے لے کر تين سو تيرہ سال اس ميں مزید نو سال کے اضافہ کے ساته درج کيا ہے اور بحار الانوار ج ۵٣ ، کی جدید طبع ميں منقول ہے کہ مفضل ابن عمر امام جعفر صادق سے امام مہدی - کی حکومت کی مدت کے بارے ميں دریافت کرتے ہيں تو امام جعفر صادق - کا اس کے متعلق جواب یہ تها اس کا خلاصہ یوں ہے کہ اس کی مدت خدا کو معلوم ہے اور وہ مشيت و ارادہٴ الٰہی کے تابع ہے جيسا کہ ہمارے عزیز القدر دوست محقق ارجمند جناب آقائے سيد محمود دہ سرخی اصفہانی نے اپنی کتاب (یاتی علی الناس زمان) ميں اکتيس اقوال شيعہ اور اہل سنت کی مختلف کتابوں سے نقل کيے ہيں قارئين صفحہ ۴٨١ سے ۴٨۴ تک رجوع کریں۔ معادن وحی و تنزیل سے حضراتِ معصومين کے تشریف لانے اور دابة الارض کے خروج سے متعلق وارد شدہ روایات کہ جن کی حضرت امير المومنين - کی ذات گرامی اور تمام ائمہٴ ہدی سے تفسير کی گئی ہے بہت زیادہ ہيں جو حضرت بقية الله الاعظم روحی لہ الفداء کے بعد سيکڑوں سال سلطنت و حکومت کریں گے کہ جس ميں حيات طيبہ اور عيش و آرام کی زندگی فراہم ہوگی۔
الله تعالیٰ ہميں اور تمام مشتاق مومنين کو وہ زندگی اور ان کے زمانہٴ حضور کو درک کرنے کی توفيق عطا فرمائے، امين۔
٣٣٩ ۔ “وَفِی ینابيع الْمُودةِ باسنادہ عَن سَلام بْنِ المستنير عن الباقر عليہ السلام فِی قولہ تعالیٰ وَاعلَموا انَ اللّٰہُ یحيی الارضَ بَعْدَ مَوتِها قالَ عليہ السلام یُحيها اللّٰہ بالقائِم عليہ السلام ) فَيَعدِلُ فيها فَيُحی الارضُ بالعَْدلِ بَعدِْ مَوتَها بالظُلم ” ( ١
ینابيع المودة ميںبطور مسند سلام ابن المستنير امام محمد باقر - سے روایت کرتے ہيں کہ حضرت نے فرمایا: آیت کی تفسير و تاویل یہ ہے کہ الله تعالیٰ زمين کو حضرت قائم کے ذریعے زندہ کرے گا پهر وہ عدالت کے ساته لوگوں سے سلوک کریں گے لہٰذا (زمين ظلم و ستم کی وجہ سے مرنے کے بعد عدل و انصاف کے ذریعہ زندہ ہوگی۔
٣۴٠ ۔ وَفِی الملاحم : باسنادہ ن ابی سعيد الخدری عن النبی (ص) قالَ: یَکونُ فِی المَهدیُ عليہ السلام یَملْاٴ هٰا قِسطاً وَ عَدلاً کَ مٰامُلِئَت ظُلماً وَ جَوراً تَمطُْرُ السّْمآءُ مَطَراً اُمَتی کَمَهدِْ آدَمَ عليہ السلام وَتَخرُْجُ الارضُ بَرَکَتَ هٰا وَ تَعيشُ اُمَّتی فِی زَمانِہِ عَيشْاً لَم تَعِشہُ قَبلَ ذلِکَ فِی زَمانٍ قَطُ۔
ملاحم ميں سيد ابن طاؤوس رحمة الله عليہ نے اپنی سند کے ساته ابو سعيد خدری سے انہوں نے رسول خدا (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ميری امت ميں مہدی ہوگا جو دنيا کو عدل و انصاف سے اسی طرح بهر دے گا جس طرح دنيا ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی اور آسمان سے اس طرح بارش ہوگی جس طرح حضرت آدم - کے زمانے ميں بارش ہوئی تهی اور زمين اپنی برکت کو خارج کردے گی ميری امت اس عظيم ہستی کے زمانے ميں ایسے عيش و آرام سے زندگی بسر کرے گی کہ اس سے پہلے کسی زمانے ميں بهی راحت و سکون کی زندگی بسر نہ کی ہوگی۔
مولف کہتے ہيں: بہت سی معتبر کتابوں ميں حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢۵٢ ۔معجم احادیث امام المہدی، ج ۵، ص ۴۴١ ۔ (
اوصاف و حالات کو تمام پہلوؤں خواہ علامات ظہور یا بعد از ظہور اور ان کی سيرت و رفتار کفار وغيرہ کے ساته عدل و انصاف کا پهيلانا ، اموال کی تقسيم اسی طرح حضرت کے خاص اصحاب اور تمام مومنين کے حالات ضبط تحریر ميں لائے جاچکے ہيں وہ بہت زیادہ ہيں۔کہ اس مختصر کتاب ميں ان سب کے ذکر کرنے کی گنجائس نہيں ہے لہٰذا انہيں چند مذکورہ روایت پر ہم نے اکتفا کيا ہے قارئين کرام تفصيلات کے ليے دوسری کتابوں کی طرف رجوع کریں۔