١٠ ۔ ہمراہی
١٠ ۔ القرآن مع الائمّة عليہم السلام والحجّة مع القرآن
قرآن ائمہ کے ساته اور امام زمانہ - قرآن کے ساته ہيں، وہ ہمراہ ہم گام اور ایک ہی
سمت ميں ہيں، ان ميں کسی کی مخالفت کرنا دوسرے کی مخالفت ہے۔ لہٰذا ہمارا درود و
سلام ہو اس یکتا و یگانہ آسمانی کتاب پر جو تحریف نہيں ہوئی اور تمام کتابوں ميں خاتم الکتاب
کی حيثيت رکهتی ہے۔
اور ہمارا نامحدود سلام اور بے شمار درود ہو اس آفتاب فلک عظمت و جلالت قطب گردون
سيارہٴ نبوت پر جس سے عالم انسانيت محروم ہے جس پر کمال و حقيقت کا دار ومدار ہے
(یعنی حضرت محمد مصطفی کی ذات پاک پر) بے انتہا درود و سلام ہو فلک امامت کے پاک
سورج اور آسمان ولایت کے ماہتاب مجسم پيکر پر اور ان کے گيارہ عزیز فرزند پر جو زمانے کے
درخشاں ستارے ہيں اور چمکتے سورج پروردگار کی ضياء پاشی کررہے ہيں وہ عظيم ہستياں
کہ جنہيں خدائے بزرگ و برتر نے قرآن کے ساته اور قرآن کو ان کے ہمراہ قرار دیا ہے اور ایک
لمحہ کے ليے بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ قيامت کے دن اس سرور
دوعالم کے پاس پہنچيں گے اور الله تبارک و تعالیٰ نے رسول کریم جو رؤوف و رحيم بهی ہيں ان
کو حکم دیا ہے کہ لوگوں کی سعادت اور رہنمائی کے ليے ان دونوں کو اپنا خليفہ و جانشين قرار
دیں تاکہ لوگ ان سے متمسک ہوکر دنيا و آخرت کی سعادت حاصل کریں۔
زمانے کے تحولات، تاریخ اور تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ ہر دور اور زمانے کے ہر حصہ
ميں دین و ایمان کے رہ زنوں اور چوروں کا وجود پایا جاتا رہا ہے جو متدیّن افراد کے اعتقادات ميں
اپنے تمام ممکنہ ذرائع سے شک و شبہ ایجاد کرتے رہے تاکہ ضعيف الاعتقاد مومنين کو اپنے
دام فریب ميں گرفتار کریں اور انہيں وحشت زدہ اور حيران و سرگردان بنادیں۔
پيغمبر اکرم (ص) نے اپنی مبارک عمر کے آخری لمحات ميں پروردگار کے حکم سے
امت کے امورِ زندگی کی حفاظت کے ليے اور راہ سعادت کو دوام بخشنے کی خاطر تاکہ ان کے
بعد وہ لوگ بشریت کے درندوں اور چوروں کی گرفت ميں نہ آئيں ان دو بہت سنگين اور عظيم
امانت کو امت کے درميان قرار دیا اور ان سے متمسک رہنے کے ليے بہت زیادہ تاکيد کرکے ان
دونوں کو ضلالت و گمراہی سے محفوظ رہنے کا عامل اور معيار قرار دیا جو حدیث ثقلين کے نام
سے مشہور و معروف اور متفق بين الفریقين ہے شيعہ و سنی دونوں کے یہاں معتبر ہے۔ اسے
شيعہ اور سنی حضرات کے علماء ، اکابر اور مفسرین نے اپنی متعدد اور معتبر کتابوں ميں تواتر
کے ساته نقل کيا ہے۔ یہ بات بهی قابل ذکر ہے کہ جادّہ مستقيم سے منحرف ہونا اور رہ زنوں
اور چوروں کے دام فریب ميں گرفتار ہونا شبہات ميں پڑنا ہے جو قرآن اور اہل بيت سے عدم
تمسک اور ان کی طرف رجوع نہ کرنے کا نتيجہ ہے لہٰذا ہم چند مقام کی طرف تبرکاً اشارہ کر
رہے ہيں۔
٣٠٩ ۔ “وفی السفينة نقل عن معانی الاٴخبار فی معنی العترة عن الصادق عن آبائہ عليہم
السلام قال سئل امير الموٴمنين عليہ السلام عن معنی قول رسول اللّٰہ (ص) انّی مخلف فيکم
الثقلين کتاب اللّٰہ عترتی ومن العترة؟ فقال انا والحسن والحسين والائمّة التسعة من ولد
الحسين تاسعهم مهدیهم وقائمهم لا یفارقون کتاب اللّٰہ ولا یفارقهم حتّیٰ یردا علی رسول اللّٰہ
) (ص) حوضہ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ معانی الاخبار، ص ٩٠ ۔ مستدرک سفينة البحار، ج ٧، ص ٧٧ ۔ (
سفينة البحار ميں معانی الاخبار سے عترت کے معنی ميں امام جعفر صادق - سے
منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: حضرت امير المومنين - سے رسول الله کے اس کلام کے بارے
ميں دریافت کيا گيا کہ ميں تمہارے درميان دو عمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑ رہا ہوں ایک کتاب خدا
اور دوسری ميری عترت ، عترت کا معنی کيا ہے؟ فرمایا: ميں، حسن، حسين اور اولاد حسين
ميں سے نو ائمہ کہ ان ميں سے نواں ان کا مہدی اور ان کا قائم مراد ہے نہ وہ کتاب خدا سے
جدا ہوں گے اور نہ ہی کتاب خدا ان سے جدا ہوگی یہاں تک کہ حوض کوثر پر رسول الله (ص)
کے پاس وارد ہوں گے۔
٣١٠ ۔ “وقال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - انّی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعترتی ما ان
تمسّکتم بهما لن تضلّوا ابداً الخ ” نيز آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمایا: ميں تمہارے درميان دو
عظيم گراں قدر چيزیں چهوڑ کر جارہا ہوں ایک الله کی کتاب اور دوسری ميری عترت ہے جب تک
ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔
اس مبارک حدیث کو علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے اخبار ثقلين کے باب ميں سو
حدیث سے زائد شيعوں کی معتبر کتابوں اور اہل سنت کی صحاح ستہ اور ان کی دوسری
) کتابوں سے نقل کيا ہے۔ ( ١
٣١١ ۔ رسول خدا (ص) نے جاہلوں اور غافلوں کے مجمع کثير ميں آواز دی : “ یا ایّها
) النّاس انّی ترکت فيکم ما ان اخذ تم بہ لن تضلّوا کتاب اللّٰہ وعترتی اهل بيتی ” ( ٢
اے لوگو! ميں نے تمہارے درميان دو امانت چهوڑی ہے (قرآن اور ميرے اہل بيت ) اگر تم
لوگ ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔
٣١٢ ۔ وقال (ص) ، انّی ترکت فيکم ما ان تمسّکتم بہ لن تضلّوا بعدی کتاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٩۵ ۔ (
٢(۔ ترمذی اور نسائی نے جابر سے اس حدیث کو نقل کيا ہے ، متقی ہندی نے کنز العمال جزء (
اول ، ص ۴۴ ، باب الاعتصام بالکتاب و السنة کی ابتدا ميں ان دونوں کو نقل کيا ہے۔
اللّٰہ حبل ممدود من السّماء الی الارض وعترتی اهل بيتی ولن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض
فانظروا کيف تخلفونی فيهم
پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ميں نے تمہارے درميان دو امانت چهوڑی ہے، اگر ان سے
متمسک رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ قرآن جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی
رسی ہے اور ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں
گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے لہٰذا غور وفکر کرو کہ ان دوستوں کے
ساته کيا سلوک اختيار کرتے ہو۔
٣١٣ ۔ “ وقال (ص) انّی تارک فيکم خليفتين : کتاب اللّٰہ حبل ممدود ما بين السّماء والارض
) اٴو ما بين السّماء الی الاٴرض وعترتی اهل بيتی وانّهما لن یفترقا حتیٰ یردا علیّ الحوض ” ( ١
پيغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمایا: ميں تمہارے درميان دو جانشين
(خليفہ) بطور امانت چهوڑ رہا ہوں ایک الله کی کتاب (قرآن) جو آسمان سے لے کر زمين تک
کهنچی ہوئی ہے اور ایک ميری عترت (جو ميرے اہل بيت ہيں) اور یہ دونوں کبهی بهی ایک
دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ قيامت کے دن ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں
گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امام احمد ابن حنبل نے اس کو زید ابن ثابت سے دو صحيح طرق سے نقل کيا ہے ان ميں (
سے ایک کو ص ١٨٣ کے آغاز ميں اور دوسرے کو ص ١٨٩ کے آخر ميں کتاب مسند کے پانچویں
جز ميں تحریر کيا ہے اور اسے طبری نے زید ابن ثابت سے بهی نقل کيا ہے اور وہ حدیث کنز
العمال کے شمارہ حدیث ٨٧٣ جزء اول، ص ۴۴ ميں موجود ہے۔
١١ ۔ کامل اور جامع ایمان کا اعتراف
١١ ۔ القرآن من اقرّبہ اقر بجميع الکتب المنزّلة ومن لم یقرّبہ لم ینفعہ الا قرار بغيرہ من
الکتب
القائم عليہ السلام من اقرّبہ بجميع الائمّة ومن لم یقرّبہ لم ینفعہ الاٴقرار بغيرہ من الائمّة
جس شخص نے قرآن کا اقرار کيا اس نے خدا کی جانب سے نازل شدہ تمام کتابوں کا
اقرار کيا ہے اور جو شخص قرآن کا اعتراف و اقرار نہيں کرتا اور تمام نازل شدہ کتابوں کا اقرار کرتا
ہے تو وہ اسے کوئی فائدہ نہيں بخشے گا۔
اسی طرح حجة ابن الحسن قائم آل محمد ہيں جو شخص ہمارے ساته ہے ان کی
خلافت و امامت کا اعتقاد و اعتراف کرتا ہے تو وہ تمام ائمہٴ اطہار کا اعتقاد و اقرا رکرتا ہے اور
جو شخص ان کی امامت کا اعتقاد و اعتراف نہ کرے اگرچہ وہ ان کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرا ر
کرے تو وہ اسے کوئی فائدہ نہيں بخشے گا اور وہ خسارہ ميں ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَإِذ اٴَخَذَ اللهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيتُْکُم مِن کِتَابٍ وَحِکمَْةٍ ثُمَّ جَائَکُم رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَکُم لَتُؤمِْنُنَّ بِہِ وَلَتَنصُْرُنَّہُ قَالَ اٴَاٴَقرَْرتُْم وَاٴَخَذتُْم عَلَی ذَلِکُم إِصرِْی قَالُوا اٴَقرَْرنَْا
) قَالَ فَاشہَْدُوا وَاٴَنَا مَعَکُم مِن الشَّاہِدِینَ > ( ١
اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے تمام انبياء سے عہد ليا کہ تم کو جو کتاب و حکمت
دے رہے ہيں اس کے بعد جب وہ رسول آجائے جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے تو تم
سب اس پر ایمان لے آنا اور اس کی ضرور مدد کرنا۔ اور پهر پوچها: کيا تم نے ان باتوں کا اقرار
کرليا اور ہمارے عہد کو قبول کرليا تو سب نے کہا کہ : بے شک ہم نے اقرار کرليا ، ارشاد ہوا کہ
اب تم سب گواہ بهی رہنا اور ميں بهی تمہارے ساته گواہوں ميں ہوں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اٴُنزِلَ إِلَيہِْ مِن رَبِّہِ وَالمُْؤمِْنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلاَئِکَتِہِ
) وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لانُفَرِّقُ بَينَْ اٴَحَدٍ مِن رُسُلِہِ وَقَالُوا سَمِعنَْا وَاٴَطَعنَْا غُفرَْانَکَ رَبَّنَا وَإِلَيکَْ المَْصِيرُ > ( ٢
رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکهتا ہے جو اس کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور سب
مومنين بهی الله اور ملائکہ اور مرسلين پر ایمان رکهتے ہيں ان (مومنين) کا کہنا ہے کہ ہم
رسولوں کے درميان تفریق نہيں کرتے ہم نے پيغام الٰہی کو سنا اور اس کی اطاعت کی۔
پروردگار اب تيری مغفرت درکار ہے اور تيری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے۔
یہ دونوں آیہٴ کریمہ اس بات کو بيان کر رہی ہے کہ تمام انبياء و اوصياء اور تمام مومنين
کتاب (قرآن) و حکمت جو پيغمبر اسلام (ص) پر الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اگر لوگوں
نے اس کا اقرار کيا اور ایمان لائے اور اس کی نصرت و مدد سے دریغ نہيں کيا تو تمام نازل کی
ہوئی کتابوں پر ایمان لائے ہيں۔
٣١۴ ۔‘ ‘وفی غيبة النعمانی باسنادہ عن ابی حمزة الثمالی قال کنت عند ابی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٨١ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٨۵ ۔ (
جعفر محمّد الباقر عليہ السلام ذات یوم فلمّا تفرّق من کان عندہ قال لی یا ابا حمزة من المحتوم
الّذی لاتبدیل لہ عند اللّٰہ قيام قائمنا فمن شک اقول لقی اللّٰہ وهو کافر لہ جاحد ثمّ قال بابی
وامّی المسمّیٰ باسمی والمکنّی بکنتی السّابع من بعدی باٴبی من یملاٴ الارض عدلاً وقسطاً
کما ملئت ظلماً و جوراً ثمّ قال یا ابا حمزة من ادرکہ فلم یسلّم لہ فما سلّم لمحمد و علی
) عليہما السلام وقد حرّم اللّٰہ عليہ الجنّة وما واہ النار وبئس مثوی الظّالمين ” ( ١
نعمانی نے اپنی کتاب غيبت ميں اپنی سند کے ساته ابو حمزہٴ ثمالی سے نقل کيا ہے
کہ ان کا بيان ہے : ایک دن ميں ابو جعفر حضرت امام محمد باقر - کی خدمت اقدس ميں
موجود تها جب سب لوگ چلے گئے تو آپ نے مجه سے فرمایا:اے ابو حمزہ! وہ حتمی و یقينی
امور کہ جن کو الله تعالیٰ نے حتمی اور یقينی کہا ہے جو کبهی بهی قابل تغير و تبدیل نہيں ہے
ان ميں سے ایک ہمارے قائم (مہدی آل محمد ) کا قيام بهی ہے جو شخص ميرے اس قول ميں
شک و شبہ کرے گا تو وہ جب مرے گا تو کافر اور منکر خدا ہوکر مرے گا،پهر فرمایا: ميرے باپ اور
ماں فدا ہوں اس پر جس کا نام ميرا ہوگا اور جس کی کنيت ميری کنيت ہوگی ميرے بعد وہ
ساتواں ہوگا اور وہی زمين کو عدل و انصاف سے اس طرح بهر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور
سے بهری ہوئی ہوگی۔ اے ابو حمزہ! جو شخص اس کو پائے اور اسے بهی اسی طرح تسليم
کرے جس طرح اس نے محمد و علی کو تسليم کيا ہے اس پر جنت واجب ہے اور جو نہيں
تسليم کرے گا یعنی اسلام نہيں قبول کرے گا اس پر یقينا جنت حرام ہے اس کی پناہ گاہ جہنم
ہے اور ظالموں کی سب سے بری بازگشت کی جگہ ہے۔
٣١۵ ۔ “وفی کمال الدّین وتمام النعمة للصدوق ( عليہ الرحمة ) باسنادہ عن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ٨۶ ۔ (
عبد اللّٰہ بن یعفور قال قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام من اقرّ بالاٴئمة من آبائی وولدی وجحد
المهدیّ من ولدی کان کمن اقرّ بجميع الانبيآء وجحد محمّداً صلّی اللّٰہ عليہ وآلہ نبوّتہ ، فقلت یا
سيّدی ومن المهدی من ولدک ؟ قال الخامس من ولد السّابع یغيب عنکم شخصہ ولا یحلّ لکم
) تسميتہ ” ( ١
علامہٴ جليل القدر شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے کمال الدین و تمام النعمة ميں اپنی سند
کے ساته عبد الله ابن یعفور سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا:
جس شخص نے ميرے آبائے کرام اور ميری اولاد ميں سے تمام ائمہٴ کا اقرار کيا مگری
ميری اولاد ميں سے جو مہدی ہوں گے ان کا انکار کيا تو وہ ایسا ہی ہے جيسے کسی نے تمام
انبياء کا اقرار کيا ليکن حضرت محمد کی نبوت سے انکار کردیا۔ تو ميں نے عرض کيا: اے ميرے
آقا و مولا! آپ کی اولاد ميں سے مہدی - کون ہوگا؟ فرمایا: ساتویں امام کا پانچواں فرزند جن
کے ليے جسمانی غيبت ہوگی اور ان کا نام لينا تمہارے ليے جائز نہيں ہوگا۔
٣١۶ ۔ “ وفی السّفينة نقلاً عن الخصال عن علیّ بن ابی طالب عليہ السلام قال سمعت
رسول اللّٰہ (ص) یقول انّ امة موسیٰ عليہ السلام افترقت بعدہ علیٰ احدیٰ وسبعين فرقة ،
فرقة ممنها ناجية وسبعون فی النّار ، وافترقت امّة عيسیٰ عليہ السلام بعدہ علیٰ اثنتين و
سبعين فرقة ، فرقة منها ناجية واحدی وسبعون فی النّار و انّ امّتی ستفترق بعدی علی ثلثةٍ و
) سبعين فرقة ، فرقة ناجية واثنتان و سبعون فی النّار ” ( ٢
شيخ عباس قمی نے سفينة البحار ميں خصال صدوق عليہ الرحمہ سے تحریر کيا ہے کہ
انہوں نے علی ابن ابی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣٣٢ ۔ کشف الغمہ، ج ٣، ص ٢٣٠ ۔ (
٢(۔ خصال، ص ۵٨۵ ۔ بحار الانوار، ج ٢٨ ، ص ٣۴ ۔ مستدرک سفينة البحار، ج ٨، ص ١٩٠ ۔ (
طالب - سے نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا
ہے کہ : حضرت موسیٰ - کی امت ان کے بعد اکهتر فرقوں ميں تقسيم ہوئی ان ميں سے ایک
فرقہ نجات پانے والا ہے اور ستّرفرقے جہنمی تهے حضرت عيسیٰ کے بعد ان کی امت بہتّر
فرقوں ميں بٹ گئی ان ميں سے صرف ایک فرقہ نجات پانے والا ہے اور اکهتر فرقے جہنمی تهے
اور یقينا عنقریب ميری امت تہتّر فرقوں ميں تقسيم ہو جائے گی ان ميں سے صرف ایک فرقہ
نجات یافتہ ہوگا اور بہتّر فرقے جہنمی ہوں گے۔
٣١٧ ۔ “وفی کتاب سليم بن قيس الکوفی عن ابان بن ابی عيّاش قال قال سليم و سمعت
علیّ بن ابی طالب عليہ السلام یقول انّ الامّة ستفترق علی ثلاث وسبعين فرقة ، اثنتان
وسبعون فرقةً فی النّار وفرقة فی الجنة وثلاث عشرة من الثلاث عشرة فرقة من الثلاث
والسبعين تنتحل محبتنا اهل البيت واحدة منها فی الجنّة و اثنتا عشرة فی النّار و اما الفرقة
الناجية المهدیة الموٴمنةُ المسلمة الموفقة المرشدة فهی الموٴمنة بی ، المسلّمة لاٴمری ،
المطيعة لی ، المتبرّئة من عدوّی ، المحبة لی ، المبغضة لعدی ، الّتی قد عرفت حقّی وامامتی
وفرض طاعتی من کتاب اللّٰہ وسنة نبيّہ ولم ترتد ولم تشک لما قد اقرّ اللّٰہ فی قلبها من معرفة
حقنا وعرّفها من فضلها والهمها واخذ بنواصيها فادخلها فی شيعتنا حتی اطماٴنت قلوبها
واستيقنت یقيناً لا یخالطہ شک انّی انا واوصيائی بعدی الی یوم القيٰمة هداة مهدیّون الذین قرَّبهم
اللّٰہ بنفسہ وبيّنہ فی آیات من کتاب اللّٰہ کثيرة وطهّرنا وعصمنا وجعلنا شهدآء علیٰ خلقہ وحجّتة
فی ارضہ وخزّانہ علی علمہ ومعادن حکمہ وتراجمةِ وحيہ وجعلنا مع القرآن والقرآن معنا لا نفارقہ
ولا یفارقنا حتّیٰ نرد علیٰ رسول اللّٰہ (ص) حوضہ ، کما قال - صلوات اللّٰہ وسلامہ عليہ - وتلک
الفرقة الواحدة من الثلاث والسبعين فرقة هی النّاجية من النّار ومن جميع الفتن والضّلالات
) والشُّبهات هم من اهل الجنة حقاً الحدیث ” ( ١
کتاب سليم ابن قيس کوفی ميں ابان ابن ابی عياش سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے:
سليم ناقل ہيں: ميں نے حضرت علی بن ابی طالب - کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: یقينا
عنقریب امت محمدی تہتّر فرقوں ميں تقسيم ہوجائے گی ان ميں سے صرف ایک فرقہ بہشت
ميں ہوگا اور بہتّر فرقے جہنمی ہوں گے اور تہتّر فرقوں ميں سے تيرہ فرقے ميری محبت کا
دعویٰ کریں گے اور خود کو ہم اہل بيت سے منسوب جانيں گے ليکن ان ميں سے ایک جنتی
ہوگا اور دوسرے بارہ فرقے جہنمی ہوں گے۔
ليکن وہ فرقہٴ ناجيہ جو ہدایت یافتہ با ایمان و اسلام ، کامياب اور رشد یافتہ ہو گا تو یہ وہ
افراد ہوں گے جو مجه پر ایمان لائے اور ميرے فرمان اور حکم کے فرماں بردار ميرے دشمنوں
سے بيزار اور دور ہيں۔
ميرے دوستوں کے دوست اور ميرے دشمنوں کے دشمن ہيں یہ وہ افراد ہوں گے جنہوں
نے ہمارے حق اور امامت کی معرفت حاصل کی اور ہماری اطاعت کو کتاب خدا اور سنت پيغمبر
سے پہچانا کوئی شک و شبہ (ان کے اعتقاد ميں نہيں پایا جاتا) کيوں کہ الله تعالیٰ نے ان کے
دلوں ميں اپنا نور اور ہماری کما حقہ معرفت کا بيج ڈالا اور انہيں فضيلت معرفت کو پہچنوایا اور
انہيں الہام کيا ان کی دست گيری کرکے انہيں شيعوں کے زمرے ميں داخل کيا یہاں تک کہ
انہيں اطمينان قلب نصيب ہوا اور انہوں نے ایسا یقين حاصل کيا کہ جس ميں شک و شبہ کا
شائبہ تک نہيں ہوسکتا اور وہ ميں ہوں (نبی اکرم کا وصی) یقينا ميں اور ميرے بعد ميرے اوصياء
صبح قيامت تک ہدایت شدہ اور ہایت یافتہ ہيں کہ جن (ہستيوں) کو الله تعالیٰ نے خود سے اپنے
رسول سے نزدیک قرار دیا اور انہيں قرآن مجيد کی بہت سی آیات ميں تمام قسم کی آلودگی
سے پاک و پاکيزہ معصوم قرار دیا اور ہميں اپنی مخلوق پر شہداء قرار دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ١۶٩ ۔ بحار الانوار، ج ٢٨ ، ص ١۴ ۔ (
روئے زمين پر اپنی حجّت، مخزن علم، معدن حکم اور اپنی وحی کے کی طرف رجوع کرنے والوں
کی جگہ قرار دی ہميں قرآن کے ساته اور قرآن کو ہمارے ساته قرار دیا کہ نہ ہم قرآن سے جدا
ہوں گے اور نہ ہی قرآن ہم سے عليحدہ ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثر پر رسول خدا (ص) کے
پاس وارد ہوں گے جيسا کہ خود آنحضرت (ص) نے فرمایا: “ لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ”
اور ان تہتّر فرقوں ميں سے صرف ایک آتش جہنم سے نجات یافتہ ہوگا اور تمام فتنوں ، گمراہيوں
اور شبہات سے بهی نجات پاچکے ہيں حقيقت ميں وہی لوگ اہل بہشت ہيں۔ حدیث کے آخر
تک۔
اللهم اجعلنا وجميع الموٴمنين من الفرقة الناجية التی نوّر اللّٰہ قلوبهم بنور معرفة اوليائہ
ائمة الهدی واهل بيتهم واخذ بنواصيهم وادخلهم فی زمرة شيعة علی بن ابی طالب واولادہ
الطاہرین وحشرنا معهم فی الدنيا والآخرة انشاء اللّٰہ ۔
اے خدا! ہميں اور تمام مومنين کو فرقہٴ ناجيہ ميں قرار دے کہ جن کے قلوب کو اپنے
اولياء و ائمہٴ ہدی اور ان کے اہل بيت کے نور کی معرفت سے روشن و منور فرمایا اور ان کو
حضرت علی ابن ابی طالب اور ان کی اولاد طاہرین کے شيعوں کے زمرہ ميں داخل فرما اور ہميں
ان کے ساته دنيا و آخرت ميں محشور فرما۔ انشاء الله۔
١٢۔ الٰہی و آسمانی ہدیہ
١٢ ۔ القُرآنُ اَعطاہُ اللّٰہُ النّبیَ (ص) فی قِبالِ جَميعِ ما اَعطاہُ اَهْلَ الدُّنْيا ۔
قرآن کو الله تعالیٰ نے نبی اکرم (ص) کو ان تمام چيزوں کے مقابلے ميں عطا کيا جو
تمام اہل دنيا کو عطا کيا یعنی الله تعالیٰ نے اہل دنيا کو جو کچه مال و منال عطا کيا اور جن
چيزوں پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے وہ ایک طرف اور قرآن مجيد جو پيغمبر اکرم (ص) کو عطا
کيا گيا وہ ایک طرف، دنيا اور جو کچه اس ميں ہے اس گراں بہا گوہر کے مقابلے ميں کوئی ارزش
نہيں رکهتی۔
) قال الله تبارک و تعالیٰ: <وَلَقَد آتَينَْاکَ سَبعًْا مِن المَْثَانِی وَالقُْرآْنَ العَْظِيمَ> ( ١
الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اور ہم نے آپ کو سبع مثانی (سورئہ حمد) اور قرآن عظيم
عطا کيا ہے۔
٣١٨ ۔ “ وَفی التہذیب باسنادہ عن محمّد بن مسلم قالَ سَاٴلتُ اَبا عبد اللّٰہ عليہ السلام
عَنِ السَّبعِْ المَْثانی وَالقُْرآنِ العَْظيم هِیَ فاتِحَةُ الکِْتاب ؟ قالَ نَعَم قُلتُْ بِسم اللہّٰ الرَْحمنِ الرَْحيم ) مِنَ السَْبعِْ ؟ قالَ نَعَم هِیَ اَفضَْلُهُنَّ ” ( ٢
تہذیب ميں بطور مسند محمد ابن مسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ان کا بيان ہے:
ميں نے امام جعفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حجر، آیت ٨٧ ۔ (
٢(۔ تہذیب الاحکام، ج ٢، ص ٢٨٩ ۔ (
صادق - سے سبع مثانی اور قرآن عظيم جو فاتحة الکتاب (سورئہ حمد ) ہے اس کے متعلق
دریافت کيا؟ فرمایا: ہاں، ميں نے عرض کيا:“بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم ” بهی سبع (سات) ميں
سے ہے؟ فرمایا: ہاں وہ ان آیات ميں افضل ہے ۔ یہی معنی شيعہ روایت ميں حضرت امير
المومنين - اور اکثر ائمہٴ اہل بيت سے بيان کيا گيا ہے اور اہل سنت کی روایت ميں بهی
حضرت علی - اور بعض اصحاب جيسے عمر ابن خطاب ، عبد الله ابن مسعود، ابن عباس، ابی
) ابن کعب اور ابو ہریرہ وغيرہ سے نقل ہوا ہے۔( ١
مولف کہتے ہيں: مفسرین کے درميان مشہور ہے کہ سبع ثانی سورئہ فاتحة الکتاب ہے۔
٣١٩ ۔ “ وَعَن البحار : عن ابی جعفر عليہ السلام : قالَ نَحْنُ الْمَثانی اَلّتی اَعْطاها اللُّٰہ نَبيِّنا
وَنَحنُْ وَجہُ اللہِّٰ نَتَقَلّبُ فی الارضِْ بَينَْ اَظهَْرِکُم عَرَفنْا مَن عَرَفنْا وَجِهلَْنَا مَن جَهِلَنا مَن عَرَفنْا فَاٴمَامُہُ
) اليَقينُ وَمَن جَهِلَنا فَامَامُہُ السَّعيرُ” ( ٢
بحار الانوار ميں امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: ہم وہ مثانی
(دوبار نازل ہونے والی سورت حمد) ہيں جو الله نے اپنے نبی کو عطا کی اور ہم وجہ الله (یعنی
جن کی طرف توجہ کی جاتی ہے) ہيں ہم تمہارے روبرو روئے زمين پر آمد و رفت رکهتے ہيں جو
ہميں پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو ہم کونہيں جانتا نہيں جانتا اور جس نے ہماری معرفت
حاصل کرلی اس کے سامنے یقين کی منزل ہے اور جو شخص ہماری معرفت سے جاہل ہو اس
کے سامنے جہنم ہے۔
٣٢٠ ۔ “فی الوسائل : سَبعُْ خِصالٍ اَعطَْی اللہّٰ نَبيَّہُ (ص) مِن بَينِْ النَبيِينَ وَهِیَ فاتِحَةُ
الکِتابِ وَ الاذانُ وَالاقامَةُ وَالجَماعَةُ فی المَسجِْد وَیَومُْ الجُْمَعَةُ وَالاجِهارُ فی ثَلاثِ صَلواتٍ وَالرَخصُْ
لامَتِہِ عِندَ المَرَضِ والسَّْفَرِ والصَلاة عَلَی الجنائِز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ علامہ طباطبائی نے بهی تفسير الميزان، ج ١٢ ، ص ٢٠٨ ميں ذکر کيا ہے۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ٢۴ ، ص ١١۴ ۔ (
) وَالشَْفاعَةُ لاصحْابِ الکبائِرِ مِن اُمَتِہِ ” ( ١
وسائل الشيعہ ميں منقول ہے کہ سات خصلتيں الله تعالیٰ نے تمام انبياء کے درميان
اپنے نبی اکرم کو عطا فرمائی ہيں اور وہ یہ ہےں: سورئہ حمد، اذان، اقامت، مسجد ميںنماز
جماعت ، روز جمعہ، تين نمازیں بلند آواز سے پڑهنا (نماز مغرب و عشاء کی ابتدائی دو رکعتيں
اور نماز صبح) حالت مرض، سفر ميں اپنی امت پر نماز پڑهنا نماز جنازہ پڑهنا اور اس کی امت
کے گناہان کبيرہ والے افراد کی شفاعت ميں رخصت عطا کی ہے۔
حضرت قائم آل محمد صلوات الله عليہ وآلہ کا مقدس وجود تمام قرآن مجيد کے علوم کا
حامل ہے اور تمام انبياء اور ائمہ ہدی کے علوم کے وارث ہيں اور جو کچه ہوچکا اور ہو رہا ہے
اور ہونے والا ہے اس کا بهی علم اس عظيم ہستی کے پاس ہے۔ ان کے علاوہ الٰہی وعدے جو
قرآن مجيد ميں مقدس دین اسلام کی تمام ادیان پر کاميابی کی بشارت دے رہے ہيں انہيں
حضرت کے قدرت مند ہاتهوں کی برکت سے محقق ہوں گے۔
کفر و شرک و نفاق کی جڑ اس امام منتطر - کی شمشير براں سے قطع ہوگی اور ہر
قسم کے ظلم و جور منکرات اور بے عدالتی اپنا رخت سفر بانده کر رخصت ہوجائے گی اور
عدالت و انصاف پسندی ان کی حيات طيبہ ميں اس کی قائم مقام ہوگی انشاء الله۔
قال تبارک و تعالیٰ: <ہُوَ الَّذِی اٴَرسَْلَ رَسُولَہُ بِالہُْدَی وَدِینِ الحَْقِّ لِيُظہِْرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَو ) کَرِہَ المُْشرِْکُونَ > ( ٢
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: وہ خدا وہ ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق
کے ساته بهيجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکين کو کتنا ہی ناگوار
کيوں نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ۵، ص ٢٧٧ ۔ بحار الانوار، ج ٨١ ، ص ١١۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ توبہ، آیت ٣٣ ، سورئہ صف، آیت ٩۔ (
) ٣٢١ ۔ “ وَفی تَفسْير القُمی اِنَّها نَزَلَت فی القائِمِ مِن آلِ مُحَمَد (ص)” ( ١
تفسير قمی ميں نقل ہوا ہے کہ یہ مذکورہ آیہٴ کریمہ قائم آل محمد کے حق ميں نازل
ہوئی ہے۔
٣٢٢ ۔ “وفی تفسير البرهان عن الصدوق عليہ الرحمة باسنادہ عَنْ ابی بَصيرْ قالَ: قالَ اَبُو
عَبدِ اللہّٰ عليہ السلام فی قَولِْہِ عَزَوَجَلّ <هُوَ الَّذی اَرسَْلَ رَسُولَہُ بِالهُْدی وَدینِ الحَْقّ > الآیَہَ وَاللّٰہُ
ما نَزَلَ تَاویلُها حَتّی یَخْرَجُ الْقائِمُ عليہ السلام ، فَاذا خَرَج القائمُ عليہ السلام لَمْ یَبقَ کافِرٌ بِاللّٰہِ وَلا
مُشرِْکٌ بِالامامِ الّاکَرِہَ خُروجَہُ حَتی لَو کانَ الکافِرُ فی بَطنِْ صَخرَْةٍ قالَت یا مُوٴمِن فی بَطنی کافِرٌ
) فَاکسِرنْی وَاقتُْلُہُ” ( ٢
تفسير برہان ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ سے بطور مسند ابو بصير سے منقول ہے کہ
ان کا بيان ہے: امام جعفر صادق - نے فرمایا: خدائے بزرگ و برتر کا قول جس ميں فرماتا ہے “وہ
وہی ہے کہ جس نے اپنے رسول محمد (ص) کو بهيجا ہدایت اور دین حق کے ساته” آیت کے
آخر تک: خدا کی قسم! ابهی اس کی تفسير اور تاویل نازل نہيںہوئی ہے اور نہ نازل ہوگی مگر
یہ کہ جب قائم آل محمد قيام و ظہور کریں گے تو ہر کافر اور مشرک کو آپ کا خروج و ظہور
ناپسند و ناگوار ہوگا۔ اس ليے کہ کوئی کافر و مشرک پتهر کی چڻان ميں بهی گهس کر بيڻه
جائے تو چڻان خود آواز دے گی کہ اے مردِ مومن! ميرے بطن ميں کافر یا مشرک پوشيدہ بيڻها
ہوا ہے،لہٰذا، مجهے توڑ دو اور اس کو قتل کردو۔
٣٢٣ ۔ “وَفی الدر المُنْثور اخرج سعيد بن منصور وابن المنذر والبيہقی فی سننہ عن جابر
فی قولہ آیة <لِيُظهِْرَہُ عَلَی الدینِ کُلِّہِ >قالَ لا یَکونُ ذِلکَ حَتی لا یَبْقی یَهودیٌ وَلا نَصرانیٌ صاحِبُ
مِلَةٍ الاسلْامِ حتَی تاٴمَنُ نَشاْةُ الذِئبَ ، وَالبَْقَرَةُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ١۴ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ٣٢ ۔ (
٢(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۶٧٠ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ١۴۵ ۔ (
الاسَدَ وَالانسْانُ الحَيَةَ حَتی لا تَفرُْضُ فاٴرةٌ جِراباً وَ حَتی یَوضَعُ الجَزیَْةُ وَیُکسَْرُ الصَليبُ وَیُقتَْلُ الخِنزْیرُ
) وَ ذلکَ اذا نَزَلَ عيسی بنُ مَرْیَمَ عليہ السلام ” ( ١
سيوطی نے اپنی تفسير الدر المنثور ميں نقل کيا ہے کہ سعيد ابن منصور، ابن منذر اور
بيہقی اپنی سنن ميں جابر سے اس آیت <لِيُظهِْرَہُ عَلَی الدینِ کُلِّہِ > کے ذیل ميں نقل کيا ہے
یہ معنی یعنی دین اسلام کا تمام ادیان پر غالب ہونا محقق نہيں ہوگا جب تک کہ کوئی یہودی،
کوئی نصرانی، یا کوئی اور مذہب والا ایسا شخص باقی نہيں رہے گا جو دین اسلام ميں داخل
نہ ہوجائے بلکہ بهيڑ اور بهيڑیا، بيل اور شير انسان اور سانپ ایک دوسری کے ساته امن و سکون
سے زندگی بسر کریں گے یہاں تک کہ چوہا بهی چمڑے کے تهيلے ميں سوراخ نہيں کرے گا اور
بهی ختم ہوجائے گا، صليب توڑ دی جائے گی، تمام سور قتل کردی جائے گی اور یہ (Tex) جزیہ
سب کچه اس وقت محقق ہوگا جب عيسیٰ ابن مریم - نازل ہوں گے۔
مولف کہتے ہيں: حضرت عيسی - کا نزول حضرت قائم آل محمد کے بابرکت ظہور کی
طرف اشارہ کر رہا ہے کہ حضرت عيسی - نازل ہوکر حضرت قائم آل محمد کی اقتدا کرکے ان
کے پيچهے نماز پڑهيں گے انشاء الله تعالیٰ۔
خلاصہ یہ کہ زمين کا کفر و شرک سے پاک ہونا، ظلم و ستم اور ائمہٴ اطہار اور ان کے
اجداد طاہرین کے غصب شدہ حقوق کو مکمل طورپر اخذ کرنا، اور جو روئے زمين پر ناحق خون
بہائے گئے ہيں حق کا ظہور، حق و باطل کے درميان جدائی کافروں کا قتل یہاں تک کہ آپ کی
شمشير برّاں سے شيطان رجيم کا قتل حضرت کے مبارک ہاتهوں انجام پائے گا اور دنيا اور اس
کے درميان رہنے والوں ميں ایک تازہ روح پهونکی جائے گی۔ لوگوں کی عقليں اس عالمی مصلح
کے دستِ مبارک کی برکت سے کامل ہوجائےں گی اور ایک پاک و صاف فضا کائنات ميں ایجاد
ہوگی کہ گویا کائنات بہشت بریں ہوگئی ہے، اور قابل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدر المنثور، ج ٣، ص ٢٣١ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ١۴٩ ۔ (
توجہ یہ ہے کہ یہ قدرت اور عالمی قوت اس عظيم ہستی کے علاوہ کسی اور کو نہيں عطا کی
گئی ہے۔
اللهُمَّ عَجّل فَرَجَہُ وَسَهِّل مَخرَْجَہُ وَبَلِّغہُْ اَفضَْلَ ما امَّلَہُ وَاجعَْلنا مِن اَعوانِہ وَاَنصْارِہِ وَشيعتِہِ
وَالراضينَ بِفَعلِْہ وَمُمتثلينَ لا وامِرِہ وَالمُستَْشهِْدینَ بَينَْ یَدَیہِ بِمُحَمَدٍ وَآلہ الطَيِبينَ الطاہریين سَلامُ
اللہّٰ وَ صَلَواتُہُ عَلَيہِْمُ اَجمَْعينُ آمينَ ربَّ العالَمين ۔
خدایا! ان کے ظہور ميں تعجيل فرما ان کی گشائش کو آسان فرما اور ان کی بہترین آرزو
انہيں نصيب ہو اور ہميں ان کے اعوان و انصار اور ان کے شيعوں ميں قرار دے نيز ان لوگوں ميں
قرار دے جو ان کے فعل سے راضی رہنے والے اور ان کے فرامين کی اطاعت کرنے والے ہيں نيز
ان کے ساته درجہٴ شہادت پر فائز ہونے والوں ميں قرار دے۔
|