٨۔ درجات تک پرواز
٨۔ القرآن قرائة لکلّ حرف ماٴة درجة
و الاٴئمّة - صلوات اللّٰہ عليہم اجمعين - زیارتهم لکلّ خطوة حجة وعمرة بل حجتان وعمرتان
جس طرح کہ خداوند متعال قرآن مجيد کے ہر حرف کی قرائت کے ليے سو درجہ عطا
فرماتا ہے ائمہٴ معصومين کی زیارت کی راہ ميں جو قدم اڻهایا جاتا ہے ہر قدم پر ایک حج اور
ایک عمرہ کا بلکہ دو حج اور دو عمرہ کا ثواب عنایت فرماتا ہے۔
٢٨۶ ۔ ليکن آیات: الله تعالیٰ کا قول ہے : <یَااٴَیُّہَا المُْزَّمِّلُ # قُم اللَّيلَْ إِلاَّ قَلِيلاً # نِصفَْہُ اٴَو ) انقُْص مِنہُْ قَلِيلاً # اٴَو زِد عَلَيہِْ وَرَتِّلِ القُْرآْنَ تَرتِْيلاً > ( ١
اے ميری چادر لپيڻنے والے، رات کو اڻهو مگر ذرا کم ، آدهی رات یا اس سے بهی کچه
کم کردو یا کچه زیادہ کردو اور قرآن کو ڻهہر ڻهہر کر باقاعدہ پڑهو۔
) او ر الله تعالیٰ کا یہ قول: <فَاقرَْئُوا مَا تَيَسَّرَ مِن القُْرآْنِ> ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔ ، ١(۔ سورئہ مزمل، آیت ١ (
٢(۔ سورئہ مزمل، آیت ٢٠ ۔ (
اب جس قدر قرآن ممکن ہو اتنا پڑهو۔ اور اس کے علاوہ دوسری آیات بهی۔
٢٨٧ ۔ “ واماالاٴخبار ففی جامع الاخبار للصدوق عليہ الرحمة عن النّبی الاٴکرم (ص) قال
(ص): القرآن ماٴدبة اللّٰہ فتعلموا ماٴدبة ما استطعتم انّ هذا القرآن هو حبل اللّٰہ وهو المنذر المبين
والشفاء النّافع فاٴقرٴوہ فانّ اللّٰہ عزّوجلّ یاٴجرکم علیٰ تلاوتہ بکلّ حرف عشر حسنات امٰا انّی لا
) اقول <الٓم > حرف واحد ولٰکن الف ولام وميم ثلثون حسنة ” ( ١
جامع الاخبار ميں منقول ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: قرآن مجيد مرکز اور تربيت و
ادب الٰہی سکهانے کا وسيلہ ہے جتنا تعليم حاصل کرنے کا امکان اور قدرت رکهتے ہو یاد کرو
کيوں کہ یہ قرآن ریسمان الٰہی ہے اور وہی واضح و آشکار طور پر ڈرانے والا اور پُر منفعت (بغير
ضرر و نقصان کے) شفا ہے لہٰذا اسے پڑهو اس ليے کہ یقينا الله تعالیٰ اس کے ایک حرف کی
تلاوت پر تمہيں دس نيکيوں کا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ ليکن یہ بهی جان لو کہ یہ نہيں کہتا
کہ (الم) ایک حرف ہے ليکن صرف الف دس نيکی، لام دس نيکی اور ميم دس نيکی ہے کہ
مجموعی طور پر (الم) کے ذریعہ تيس نيکی عطا فرمائے گا۔
٢٨٨ ۔ “وفی المجمع عنہ (ص) : افضل العبادة قرائة القرآن ” ( ٢) آنحضرت سے مجمع
البيان ميں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: بہترین عبادت قرائت قرآن ہے۔
٢٨٩ ۔ “وفيہ عنہ (ص) قال انّ هذا القرآن ماٴدبة اللّٰہ تعالیٰ فتعلّموا من ماٴدبتہ ما ستطعتم
انّ هذا القرآن حبل اللّٰہ هو النّور المبين والشّفآء النّافع عصمة لمن تمسّک بہ ، و نجاة لمن تبعہ
لا یعوّج فيقوّم ، ولا یزیغ فسيتعتب ، ولا تنقضی عجآئبہ ، ولا یخلق علیٰ کثرة الرّد ، فاتلوہ فان اللّٰہ
یاٴجرکم علیٰ تلاوتہ بکلّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ۴، ص ٨٢۶ ۔ امالی سيد مرتضیٰ، ج ٢، ص ٢٧ ۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ١٩ ۔ (
٢(۔ مجمع البيان، ج ١، ص ۴۴ ۔ (
حرف عشر حسنات ، اما انّی لا اقول <الٓم > عشر ولکن اقول الف عشر ولام عشر وميم عشر ”
) ١)
اسی کتاب ميں منقول ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یقينا یہ قرآن، الله تعالیٰ کا
ادب و تربيت کے ليے مصدر و منشا اور وسيلہ ہے لہٰذا جتنا آداب حاصل کرنا ممکن ہو اسے یاد
کرو یہ قرآن رسی ہے واضح و روشن نور اور پُر منفعت شفا دینے والا ہے اور اپنے متمسکين کی
حفاظت کرنے والا ہے نيز اس کی پيروی کرنے والوں کے ليے باعث نجات ہے، کبهی بهی اس
ميں کجی نہيں ہوگی کہ اسے سيدها کيا جائے نہ ہی خود منحرف ہوگا نہ کسی دوسرے کو
منحرف کرے گا تاکہ اس کے انحراف کی تلافی کی جائے اس کے عجائب وغرائب ختم ہونے
والے نہيں ہيں اس کا زیادہ مرور اور مطالعہ اس کے کہنہ پن یا ختم ہونے کا سبب نہيں بنتا لہٰذا
اسے بہت زیادہ پڑهو کيوں کہ الله تعالیٰ اس کے ایک حرف کی تلاوت پر تمہيں دس نيکيوں کا
اجر و ثواب عطا فرمائے گا ليکن یہ بهی جان لو کہ ميں یہ نہيں کہتا کہ (الم ) ایک حرف ہے ليکن
صرف الف دس نيکی، لام دس نيکی اور ميم دس نيکی ہے کہ مجموعی طور پر (الم) کے ذریعہ
تيس نيکی عطا فرمائے گا۔
٢٩٠ ۔ “وفی الکافی عن موليٰنا الصادق عليہ السلام : ما من عبد من شيعتنا یتلوا القرآن
فی صلوتہ قائماً الا ولہ بکلّ حرف ماٴة حسنة ، ولاقرء فی صلاتہ جالساً الاّ ولہ بکلّ حرف خمسون
) حسنة ولا فی غير صلوٰاتہ الّا ولہ بکلّ حرف عشر حسنات ” ( ٢
اصول کافی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو ہمارے
شيعوں ميں سے کوئی ایک بندہ جو قرآن مجيد کی ایک آیت کهڑے ہوکر نماز ميں پڑهتا ہے تو
اس کے ليے ہر حرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ١، ص ۴۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ٢، ص ۶١١ ۔ (
کے بدلے سو نيکيوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر بيڻه کر اپنی نماز ميں پڑهے تو ہر حرف کے
عوض اسے پچاس نيکيوں کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر نماز کے علاوہ عادی طور پر اس کی تلاوت
کرے تو ہر حرف کے بدلے الله تعالیٰ دس نيکيوں کا ثواب عطا فرماتا ہے۔
٩۔ تمام حقائق کا بيان کرنے والا
٩۔ القرآن فيہ تبيان کل شیء والحجّة عندہ علم ما کان ومایکون وما هو کائن الیٰ یوم
القيٰمة
جس طرح قرآن کریم نے کائنات کے تمام حقائق کو بيان فرمایا ہے امام زمانہ - تمام
کائنات کے حقائق کو جاننے والے ہيں۔
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: <وَنَزَّلنَْا عَلَيکَْ الکِْتَابَ تِبيَْانًا لِکُلِّ شَیءٍْ وَہُدًی وَرَحمَْةً وَبُشرَْی
) لِلمُْسلِْمِينَ> ( ١
اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جس ميں ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب
اطاعت گزاروں کے ليے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
) الله تعالیٰ کا یہ قول: < وَمَا مِن غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٢
اور آسمان و زمين ميں کوئی پوشيدہ چيز ایسی نہيں ہے جس کا ذکر کتاب مبين ميں نہ
ہو۔
اور الله تعالیٰ کا یہ قول : وَمَا مِن دَابَّةٍ فِی الاْٴَرضِْ وَلاَطَائِرٍ یَطِيرُ بِجَنَاحَيہِْ إِلاَّ اٴُمَمٌ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ٨٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ نمل، آیت ٧۵ ۔ (
) اٴَمثَْالُکُم مَا فَرَّطنَْا فِی الکِْتَابِ مِن شَیءٍْ> ( ١
اور زمين ميں کوئی بهی رینگنے والا یا دونوں پروں سے پرواز کرنے والا طائر ایسا نہيں
ہے۔جو اپنی جگہ پر تمہاری طرح کی جماعت نہ رکهتا ہو۔ ہم نے کتاب ميں کسی شے کے بيان
ميں کوئی کمی نہيں کی ہے۔
اور الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَعِندَْہُ مَفَاتِحُ الغَْيبِْ لاَیَعلَْمُہَا إِلاَّ ہُوَ وَیَعلَْمُ مَا فِی البَْرِّ وَالبَْحرِْ وَمَا
) تَسقُْطُ مِن وَرَقَةٍ إِلاَّ یَعلَْمُہَا وَلاَحَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ الاْٴَرضِْ وَلاَرَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٢
اور اس کے پاس غيبت کے خزانے ہيں جنہيں اس کے علاوہ کوئی نہيں جانتا ہے اور وہ
خشک و تر سب کا جاننے والا ہے کوئی پتہ بهی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے زمين کی
تاریکيوں ميں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ ہو۔
) اور خدائے عزیز کا یہ قول: <وَکُلَّ شَیءٍْ اٴحصَْينَْاہُ فِی إِمَامٍ مُبِينٍ> ( ٣
اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام ميں جمع کر دیا ہے۔
اس بنا پر کہ امام سے مراد اس آیت ميں کتاب ہو۔
٢٩١ ۔ “ واما الاخبار : ففی الکافی عن الصادق عليہ السلام : انّ اللّٰہ انزل فی القرآن تبيان
کل شیء حتّیٰ واللّٰہ ما ترک شيئاً یحتاج اليہ العباد حتیٰ لا یستطيع عبد ان یقول لوکان هذا انزل
) فی القرآن الا وقد انزلہ اللّٰہ فيہ ” ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیت ٣٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ یسين، آیت، ١٢ ۔ (
۴(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۵٩ ۔ (
اصول کافی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: الله تعالیٰ نے
قرآن ميں ہر شے کو بيان فرمایا ہے یہاں تک کہ خدا کی قسم ! جس چيز کے اس کے بندے
محتاج تهے ان ميں سے ایک کو بهی نہ ترک کيا یہاں تک کہ کسی شخص کے پاس یہ کہنے
کی طاقت نہيں پائی جاتی کہ یہ فلاں چيز بهی (جو اس کے ذہن ميں آتی ہے) قرآن ميں نازل
کی جاتی آگاہ ہوجاؤ کہ الله تعالیٰ نے قرآن ميں اس کو نازل کيا ہے۔
٢٩٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عمر بن قيس عن ابی جعفر عليہ السلام قال سمعتہ یقول : ان
اللّٰہ تبارک وتعالیٰ لم یدع شيئاً یحتاج اليہ الاٴمّة الّا نزلہ فی کتابہ وبيّنہ لرسولہ (ص) وجعل لکلّ
) شیء حدّاً وجعل عليہ دليلاً یدلّ عليہ وجعل علی من تعدّی ذلک الحدّ حدّاً ” ( ١
نيز اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ عمر ابن
قيس کا بيان ہے کہ ميں نے امام باقر - کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: خداوند تبارک و تعالیٰ
نے کسی ایسی چيز کو قرآن ميں ترک نہيں کيا ہے۔ امت جس کی ضرورت مند تهی اس کو
اپنی کتاب ميں نازل اور اسے اپنے رسول (ص) سے بيان فرمایا اور ہر شے کے ليے حدو مرز
قرار دی اور اس پر ایک دليل و رہنما بهی قائم کردیا جو امت کی اس کی رہبری کرے اور اس
شخص کے ليے حد (عذاب) بهی معين کردی جو اسی حد و مرز سے تجاوز کرے۔
٢٩٣ ۔ “وفيہ عن الصادق عليہ السلام : ما من امر یختلف فيہ اثنان الّا ولہ اصل فی کتاب
) اللّٰہ ولکن لا تبلغہ عقول الرّجال ” ( ٢
کافی ميں منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: کوئی امر ایسا نہيں ہے کہ جس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۵٩ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ۶٠ ۔ (
ميں دو شخص
اختلاف رکهتے ہو مگر یہ کہ وہ کتاب خدا ميں موجود ہے ليکن لوگوں کی عقليں ان تک نہيں
پہنچتيں۔
مولف کہتے ہيں: جيسا کہ گزشتہ آیات ميں صراحت سے ذکر ہوا ہے کہ قرآن مجيد ميں
ہر خشک و تر کا علم پایا جاتا ہے۔ اور ہر شے کی وضاحت موجود ہے البتہ اس کا علم اور
وضاحت ان لوگوں کے پاس ہے کہ جن کے گهر ميں قرآن نازل ہوا ہے اس سے مراد راسخون فی
العلم جو اہل بيت عصمت و طہارت ہيں کہ ہم ان ميں سے تبرکاً چند مورد کی طرف اشارہ کرتے
ہيں۔
٢٩۴ ۔ “ روی العياشی فی تفسيرہ عن موليٰنا الصادق عليہ السلام قال: نحن والله نعلم ما
فی السّموات وما فی الاٴرض وما فی الجنة وما فی النّار وما بين ذلک ثم قال: انّ ذلک فی کتاب
اللّٰہ ثمّ تلا هذہ الآیة ( ١) ونزّلنا عليک الکتاب تبياناً لکلّ شیء وهدی ورحمة وبشری للمسلمين
)“٢)
عياشی نے اپنی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت -
نے فرمایا: خدا کی قسم! ہميں ان چيزوں کا علم ہے جو آسمان و زمين ميں ہے جو کچه جنت و
جہنم ميں ہے اور جو کچه اس کے درميان ہے (ہم سب کچه جانتے ہيں) پهر فرمایا: یقينا یہ سب
کتاب الله ميں ہے پهر اس آیت کی تلاوت فرمائی: “اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جس ميں ہر
شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب اطاعت گزاروں کے ليے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
٢٩۵ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن سماعة بن مهران قال: قال ابوعبد اللّٰہ عليہ السلام ، ان
العزیز الجبّار انزل عليکم کتابہ وهو الصّادق البارّ ، فيہ خبرکم وخبر من قبلکم وخبر من بعدکم و
خبر السّمآء والاٴرض ولو اتاکم من یخبرکم عن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢۶۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ٣٨ ۔ (
) ذلک لتعجّبتم ” ( ١
کلينی نے کافی ميں اپنی سند کے ساته سماء ابن مہران سے نقل کيا ہے کہ امام
جعفر صادق - نے فرمایا: یقينا خدا ئے عزیز و جبار نے تم پر اپنی کتاب نازل کی اور وہ سچا اور
خير پسند (راست باز اور نيکو کار) ہے اور اس ميں تمہاری (سرگزشت اور تقدیر کے بارے ميں)
خبر دی گئی ہے اور تم سے پہلے والوں کے بارے ميں بهی اور تم سے بعد ميں آنے والوں کے
بارے ميں بهی خبر دی گئی ہے اور اگر کوئی تم سے ان حوادث کی خبریں آکر بيان کرتا تو تم
یقينا حيرت و تعجب کرتے۔
٢٩۶ ۔ وفيہ عنہ عليہ السلام : انّی لاٴ علم ما فی السّموات ومافی الاٴرض واعلم ما فی
الجنة وما فی النّار واعلم ماکان وما یکون ، ثمّ سکت هنيئة فراٴی انّ ذلک کبر علیٰ من سمعہ
منہ فقال عليہ السلام علمت ذلک من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ انّ اللّٰہ یقول <فيہ تبيان کلّ شیء >۔
نيز اسی کتب ميں منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: یقينا جو کچه زمين اور
آسمانوں ميں ہے اس کو جانتا ہوں اور اس کا بهی مجهے علم ہے جو جنت اور جو جہنم ميں ہے
اور جو کچه ہوچکا اور جو کچه ہونے والا ہے پهر کچه دیر خاموش تهے دیکها کہ یہ بات اس
شخص کو بری معلوم ہوئی جس نے حضرت سے یہ سنا (وہ تحمل نہيں کر پایا) لہٰذا حضرت نے
فرمایا: یہ جو کچه مطالب ميں نے تم سے بيان کيے ہيں اسے کتاب خدا (قرآن مجيد) سے ميں
نے جانا ہے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے: اس ميں ہر شے کا بيان موجود ہے۔
٢٩٧ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد الاعلی مولیٰ آل سام قال: سمعت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام
یقول واللّٰہ انی لاٴ علم کتاب اللّٰہ من اوّلہ الیٰ آخرہ کاٴنّہ فی کفّی فيہ خبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۵٩٩ ۔ (
) السّمآء وخبر الاٴرض وخبر ماکان وخبر ماهو کائن قال اللّٰہ عزوجلّ : فيہ تبيان کل شیء ” ( ١
نيز اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الاعلی مدنی آل
سام سے نقل کيا ہے ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق - کو یوں فرماتے ہوئے سنا
ہے کہ: خدا کی قسم!یقينا ميں خدا کی کتاب کو اول سے آخر تک ایسے جانتا ہوں گویا وہ
ميرے (دستِ قدرت) اختيار ميں ہو جس ميں زمين و آسمان کی خبر موجود ہے اور اس کی بهی
جو کچه ہوچکا یا ہونے والا ہے الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اس ميں ہر شے کو بيان کردیا گيا ہے۔
ائمہٴ ہدی جو معادن وحی و تنزیل ہيں اور کتاب خدا ميں راسخون فی العلم کے عنوان
سے متعارف ہوئے ہيں قرآن مجيد ان کے گهر ميں نازل ہوا ہے کہ ایسے نفوس قدسيہ کے ليے
سزاوار ہے کہ تمام علوم اسرار قرآن اور ما کان و ما یکون کی خبروں سے آگاہ ہوں۔
٢٩٨ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن برید بن معاویة عن احدهما عليہما السلام فی قول اللّٰہ
عزّوجلّ <وما یعلم تاٴ ویلہ الا اللّٰہ والرّاسخون فی العلم >فرسول اللّٰہ (ص) افضل الراٴاسخين فی
العلم قد علّمہ اللّٰہ عزّوجلّ جميع ما انزل عليہ من التنزیل والتّاٴویل وما کان اللّٰہ لينزل عليہ شيئاً
لم یعلّمہ تاٴویلہ و اوصيآئہ من بعدہ یعلمونہ کلّہ ، والذین لا یعلمون تاٴویلہ اذا قال العالم فيهم
بعلم فاجابهم اللّٰہ بقولہ <یقولون آمنا بہ کلٌّ من عند ربّنا> والقرآن خاصٌّ و عامٌّ ومحکم و متشابہ
) وناسخ ومنسوخ ، فالرّاسخون فی العلم یعلمونہ ” ( ٢
کلينی نے کافی ميں اپنی سند کے ساته برید ابن معاویہ سے نقل کيا ہے کہ انہوں
نے امام محمد باقر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ٢٢٩ ۔ (
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٣ ۔ (
یا امام جعفر صادق - سے اس آیہٴ کریمہ <وما یعلم تاویلہ> کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ
حضرت نے فرمایا: رسول خدا (ص) راسخون فی العلم ميں افضل ہيں خدائے عزوجل نے ان کو
ان تمام چيزوں کا علم عطا کيا تها جو ان پر تنزیل و تاویل (آیات) کے عنوان سے نازل کی تهيں
اور الله تعالیٰ نے آنحضرت پر کوئی شے ایسی نازل نہيں کی جس کی تاویل اور اس کے باطن
سے انہيں آگاہ نہ کيا ہو اور آنحضرت کے بعد ان کے اوصياء ان تمام تاویلات کے جاننے والے ہيں
وہ لوگ جو متشابهات کی تاویل نہيں جانتے جب عالم آل محمد (معصوم ) ان کی وضاحت کرتا
ہے (الله تعالیٰ نے ان کے حق ميں فرمایا ہے) تو وہ سب کہتے ہيں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ
سب ہمارے رب کی طرف سے ہے قرآن کے علوم بہت زیادہ ہيں من جملہ ان ميںسے خاص و
عام محکم و متشابہ ( ١) اور ناسخ و منسوخ ہے اور راسخون فی العلم ان سب کا علم رکهتے
ہيں۔
٢٩٩ ۔ “وفيہ بالاسناد عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: نحن الرّاسخون فی
) العلم ونحن نعلم تاٴویلہ ” ( ٢
نيز اسی کتاب ميں ابو بصير سے منقول ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: راسخون
فی العلم ہم ہيں اور ہم ان کی تاویل جانتے ہيں۔
٣٠٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد الرحمن بن کثير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال:
) الرّاسخون فی العلم امير الموٴمنين عليہ السلام والائمّة من بعدی عليهم السّلام ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ محکمات قرآن سے مراد وہ آیات ہيں کہ جن کے معانی عربی زبان جاننے والوں کو معلوم (
ہےں اور اس سے ایک معنی سے زیادہ مراد نہيں ہے جيسے “ان اللّٰہ ليس بظلّام للعبيد” (اور
خدا اپنے بندوں پر ظلم نہيں کرتا ہے) متشابہ وہ ہے کہ جس کے معانی متعدد و مختلف ہيں اور
اس کے متکلم کا مقصود و مطلوب سمجهنے کے ليے متکلم ہی کی طرف سے تفسير اور
وضاحت کی ضرورت درکار ہوتی ہے مختلف معانی کی تفصيل معتبر تفسيروں ميں ذکر ہوئی ہے
جيسے <ان اللّٰہ علی العرش استوی> (بے شک الله عرش پر اختيار و اقتدار رکهنے والا ہے(
٢(۔ کافی، ج ١، ص ٢١٣ ۔ (
٣(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
نيز اسی کتاب ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الرحمن ابن کثير
سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: راسخون فی العلم حضرت
امير المومنين اور ان کے بعد تمام ائمہٴ ہدی عليہم السلام ہيں۔
٣٠١ ۔ “ وفی الاٴختصاص للمفيد ( رضوان اللّٰہ تعالیٰ) باسنادہ عن الاصبغ بن نباتہ عن امير
الموٴمنين عليہ السلام قال: سمعتہ یقول انّ رسول اللّٰہ (ص) علّمنی الف باب من الحلال والحرام
ممّا کان وممّا هو کائن الیٰ یوم القيمة کلّ باب منها یفتح الف باب فذلک الف الف باب حتّیٰ علمت
) علم المنایا والبلایا و فصل الخطاب” ( ١
علامہٴ جليل القدر شيخ مفيد عليہ الرحمہ نے کتاب اختصاص ميں اپنی سند کے ساته
اصبغ ابن نباتہ سے نقل کيا ہے کہ انہوں نے مولا امير المومنين - سے روایت کی ہے کہ ميں
نے حضرت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ہر باب ميں سے ہزار باب کهلتے ہيں جو مجموعی
طور پر (مختلف علوم کے ایک ملين (دس لاکه) باب کهلتے ہيں یہاں تک کہ مجهے تمام منایا و
بلایا اور فصل الخطاب کا علم حاصل ہوا۔
حضرت رسول اکرم (ص) کا حلال وحرام کے ہزار باب تعليم دینے کے بارے ميں متعدد
روایات اسی باب کے عنوان سے ذکر ہوئی ہيں اور بعض دوسری روایت ميں ہزار حدیث یا ہزار
کلمہ اور بعض ميں ہزار حرف کہ ان ميں ہر ایک سے ایک ہزار حدیث اور ہزار کلمے اور ہزار حرف
کهلتے ہيں کہ جس کی تفصيلات بحار الانوار ميں اختصاص اور بصائر الدرجات سے نقل ہوئی ہے۔
٣٠٢ ۔ “ وفی الاختصاص باسنادہ عن الاصبغ بن نباتہ : قال :امرنا امير الموٴمنين عليہ
السلام بالمسير الی المدائن من الکوفة فسرنا یوم الاٴحد وتخلّف عمرو بن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص، ص ٢٨٣ ۔ (
) حریث فی سبعة نفر ( ١
فخرجوا الیٰ مکان بالحيرة یسمّی الخورنق فقالوا نتنزّہ فاذا کان یوم الاربعاء خرجنا فلحقنا
عليّاً عليہ السلام قبل ان یجمع ، فبيناهم یتغدّون اذ خرج عليهم ضبٌّ فصادرہ فاٴخذہ عمرو بن
حریث فنصب کفّہ فقال : بایعوا هذا امير الموٴمنين فبایعہ السّبعة وعمرو ثامنهم وارتحلوا ليلة
الاربعآء فقدموا المدائن یوم الجمعة وامير الموٴمنين عليہ السلام یخطب ولم یفارق بعضهم بعضاً ،
کانوا جميعاً حتیٰ نزلوا علیٰ باب المسجد فلمّا دخلونظر اليهم امير الموٴمنين عليہ السلام فقال:
ایها النّاس ان رسول اللّٰہ (ص) اسرّ الیّ الف حدیث فی کلّ حدیث الف باب لکلّ باب الف مفتاح
وانّی سمعت اللّٰہ یقول : <یوم ندعوا کلّ اناس بامامهم > وانّی اقسم لکم بالله ليبعثن یوم القيمة
ثمٰنية نفر بامامهم وهو ضب ولوشئت ان اسمّيهم فقلت ، قال: فلو راٴیت عمرو بن حریث سقط
) کما تسقط التعفة وجيباً ” ( ٢
اختصاص مفيد عليہ الرحمہ ميں منقول ہے کہ اصبغ ابن نباتہ کا بيان ہے کہ: حضرت امير
المومنين علی - نے ہميں حکم دیا کہ ہم کوفہ سے مدائن کی طرف حرکت کریں تو ہم لوگوں
نے اتوار کے دن وہاں سے حرکت کی عمرو ابن حریث نے سات دوسرے افراد کے ساته مخالفت
کی اور مقام حيرہ کی طرف گئے جسے خورنق کہا جاتا ہے تو وہاں پہنچ کر کہنے لگے کہ یہاں
آرام کریں پهر سير و سياحت کریں گے اور بده کے دن چليں گے اور حضرت علی - سے ملحق
ہوجائيں گے قبل اس کے کہ وہ لوگ وہاںجمع ہوں وہ لوگ اس اثنا ميں ناشتہ تناول کرنے ميں
مشغول تهے تو ایک سوسمار (گوہ) ظاہر ہوا اور اسے شکار کيا عمرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ راوندی نے اپنی کتاب خرائج ميں ان کے اسماء نقل کيے ہيں من جملہ ان ميں سے شبث (
ابن ربعی، اشعث ابن قيس اور جریر ابن عبد الله تهے۔
٢(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٢۶ ۔ اختصاص، ص ٢٨٣ ۔ (
ابن حریث نے اسے پکڑا اپنے ہاته سے اسے مار کر کہا: اس کی بيعت کرو کہ یہ امير المومنين
ہے تو ان سات لوگوں نے اس سوسمار کی بيعت کے ليے دست دراز کيا اور عمرو بهی ان ميں
سے آڻهواں شخص تها۔ شبِ بده وہاں سے سفر کيا اور جمعہ کے دن مدائن ميں اس وقت
داخل ہوئے جب (مولا) امير المومنين - خطبہ دینے ميں مشغول تهے ان ميں سے کوئی ایک
بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوا اور سب کے سب مسجد کے دروازہ کے پاس اترے اور جب
مسجد ميں وارد ہوئے تو حضرت امير المومنين نے ان لوگوں پر ایک نگاہ کی اور فرمایا: اے لوگو!
یقينا رسول خدا (ص) نے مجه سے ہزار مخفی حدیث بيان فرمائی کہ ہر حدیث ميں ہزار دروازے
اور ہر دروازے ميں علم کی ہزار کنجی ہے ميں نے باليقين سنا ہے کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: (ہم
قيامت کے دن ہر شخص کو اس کے امام وپيشوا کے ساته بلائيں گے) اور ميں تمہيں خدا کی
قسم کها کر کہتا ہوں کہ: یقينا آڻه لوگ قيامت کے دن محشور ہوں گے کہ جس کا امام و پيشوا
سوسمار (گوہ) ہے کہ جس کی ان لوگوں نے بيعت کی تهی اگر ميں چاہوں تو ميں تمہيں ان
لوگوں کا تعارف ان کے نام سے کراؤں ۔ راوی نے عرض کيا: اگر عمرو ابن حریث کو دیکهتے کہ وہ
اس طرح لرز کر گرا جيسے کهجور کی شاخ مضطرب ہوکر گر پڑتی ہے۔
مولف کہتے ہيں: وہ چار افراد یہ تهے شبث ابن ربعی، عمرو ابن حریث، اشعث بن قيس
اور جریر ابن عبدالله (خدا انہيں ذليل فرمائے)۔
٣٠٣ ۔ روایت ميں ذکر ہوا ہے: “ انّ شبث بن ربعی وعمرو بن حریث والاشعث بن قيس
) وجریر بن عبد اللّٰہ بایعوا ضبّاً فيبعثون یوم القيمة وامامهم الضبّ وهو یسوقهم الی النّار” ( ١
یعنی شبث ابن ربعی، عمرو ابن حریث، اشعث ابن قيس اور جریر ابن عبد الله نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار، ج ٢، ص ٧٠ ۔ (
حضرت
امير المومنين
علی - کی بيعت کرنے کے باجود سوسمار (گوہ) کی بيعت کی لہٰذا قيامت کے دن اس حالت
ميں انہيں محشور کيا جائے گا کہ چاروں افراد کا امام سوسمار ہوگا جو انہيں جہنم کی طرف
لے جائے گا۔
٣٠۴ ۔ “قال ابن ابی الحدید : وروی یحيی البرمکی عن الاعمش انّا جریراً و الاشعث خرجاً
الی الجبّان بالکوفة فمرّ بها ضبٌّ یعدو وَهما فی ذَمّ عَلیّ عليہ السلام فنادَیا یا اَبَا حسل هَلّم
نبایعک بالخلافة فبلغ علی عليہ السلام قولهما فقال انّهما یحشران یوم القيٰمة وامامهما ضبٌّ ”
)١)
ابن ابی الحدید شارح نہج البلاغہ کا بيان ہے: یحيیٰ برمکی نے اعمش سے روایت کی
ہے کہ جریر اور اشعث، جبان کی ملاقات کے ليے کوفہ نکلے تو ایک سوسمار (گوہ) تيزی سے
ان کے سامنے سے گزرا اور وہ لوگ حضرت علی - کی مذمت کر رہے تهے تو ان دونوں نے
اسے آواز دی: اے ابو حسل! تم آؤ کہ ہم تمہاری بيعت کریں یہاں تک کہ دونوں افراد کی یہ بات
حضرت علی - تک پہنچی تو حضرت - نے فرمایا: وہ لوگ قيامت کے دن اس حالت ميں محشور
کيے جائيں گے کہ وہ سوسمار کے امام ہوں گے۔
مولف کہتے ہيں: احادیث معتبرہ اور مسلمات حدیثوں ميں سے ہے کہ فرمایا :
) ٣٠۵ ۔ “ من احبّ حجراً حشرہ اللّٰہ معہ ” ( ٢
جو شخص کسی پتهر کو دوست رکهتا ہو وہ اس کے ساته محشور کيا جائے گا۔
ليکن شبث ابن ربعی، جنگ صفين ميں حضرت علی - کے اصحاب کے درميان موجود تها
معاویہ کے ساته بہت سے معاملات کے بعد نہروان کے خوارج سے ملحق ہوا داؤد اور اس کے
تين دوسرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ٧۵ ۔ تہذیب المقال، ج ٣، ص ٧٣ ۔ (
٢(۔ عيون اخبار الرضا -، ج ٣، ص ٢۶٩ ۔ امالی صدوق، ص ٢٧٨ ۔ روضة الواعظين، ص ۴١٧ ۔ وسائل (
الشيعہ، ج ١۴ ، ص ۵٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٧۴ ، ص ٢٨٢ ۔
دوستوں نے نہروان کے راستے ميں حضرت امير المومنين علی - کی خلاف ورزی کی اور
حضرت نے خبر دی کہ ان لوگوں کا ارادہ یہ ہے کہ لشکر حق کے اطراف سے لوگوں کو منتشر
کردیں ان لوگوں کا سوسمار (گوہ) کی بيعت کرنے کی بهی خبر دی اور فرمایا:
) ٣٠۶ ” :اما والله یاشبث ویابن حریث لتقاتلان اِبنی الحُسين عليہ السلام ” ( ١
حضرت امام علی - نے شبث ابن ربعی اور ابن حریث سے فرمایا: خدا کی قسم ! تم
دونوں ميرے بيڻے حسين کو شہيد کرو گے۔
ليکن عمرو ابن حریث: ایک منافق عثمانی شخص تهانيز کوفہ ميں ابن زیاد کا نمائندہ تها،
حضرت علی - کے بارے ميں بہت سی جسارتيں کيں اور ان کی طرف سحر، جادوگری اور کذب
کی نسبت دی ہے اب اس کے باطنی خباثت کے موضوع سے متعلق شيخ مفيد رحمة الله عليہ
کی کتاب اختصاص سے اشارہ کر رہے ہيں۔
٣٠٧ ۔ “فی الاختصاص باسنادہ عن الاصبغ بن نباتہ قال: کنّا وقوفاً علیٰ امير الموٴمنين
بالکوفة وهو یعطی العطآء فی المسجد از جآئت امراٴة فقالت : یا امير الموٴمنين اعطيت العطاء
جميع الاٴحياء ما خلا هذا الحیّ من مراد لم تعطهم شيئاً فقال : اسکتی یا جرئية، یا بذیہ ، یا
سلفع یا سلقلق یا من لا تحيض کما تحيض النّساء ، قال: فولّت فخرجت من المسجد فتبعها
عمرو بن حریث فقال لها: ایّتها المراٴة قد قال علیٌّ فيک ما قال اٴیصدّق عليک ؟ فقالت والله ما
کذب وانّ کل ما رمانی بی لفیّ ، واما اطّلع علیّ احد الاّ اللّٰہ الّذی خلقنی وامّی الّتی ولدتنی ،
فرجع عمرو بن حریث فقال : یا امير الموٴمنين تبعت المراٴة فساٴلتها عمّا رميتها بہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرائح، ج ١، ص ٢٢۶ ۔ مدینة المعاجز، ج ٣، ص ١٩٠ ۔ بحار الانوار، ج ٣٣ ، ص ٣٨۴ ۔ (
فی بدریها فاقرّت بذلک کلّہ ، فمن این علمت ذلک ؟ فقال انّ رسول اللّٰہ (ص) علّمنی الف باب
من الحلال والحرام یفتح کل باب الف باب حتّی علمت المنایا والوصایا وفصل الخطاب وحتیٰ علمت
) المذّکرات من النّساء والموٴنثّين من الرّجال ” ( ١
اصبغ ابن نباتہ کا بيان ہے: کوفہ ميں ہم حضرت علی - کی خدمت اقدس ميں کهڑے
تهے اور حضرت مسجد ميں لوگوں کو عطيے بخش رہے تهے تو ناگاہ ایک عورت آئی اور عرض
کيا: یا امير المومنين -! تمام حی (قبيلہ یا محلے) والوں کو عطا فرمایا سوائے ابن حی کے جو
مراد کے قبيلہ سے تها اسے کوئی شے مرحمت نہيں فرمائی تو حضرت نے فرمایا: خاموش
ہوجا اے جرئيہ بذیّہ! اے سلفعٴ سلقلق! اے وہ کہ جو خون حيض نہيں دیکهتی! جس طرح
دوسری عورتيں دیکهتی ہيں۔ راوی کا بيان ہے: وہ عورت فوراً مسجد سے باہر گئی اور عمرو ابن
حریث اس کے پيچهے گيا اور کہا: اے عورت ! حضرت علی - نے تمہارے حق ميں جو بات کہی
ہے کيا تم اس کی تصدیق کرتی ہو؟ جواب دیا: خدا کی قسم! اس نے ميری بہ نسبت کہا وہ
سچ کہا ہے وہ سب صفت ميرے اندر پائی جاتی ہے اور ميرے خدا کے علاوہ کہ جس نے
مجهے پيدا کيا اور ميرں ماں کہ جس نے مجهے جنا ہے کسی اور کو ان موضوعات کی اطلاع
نہيں ہے، عمرو ابن حریث واپس ہوا اور عرض کيا: یا امير المومنين - ! ميں اس عورت کے پيچهے
گيا اور ان اوصاف کے بارے ميں جو اس کی بدن سے متعلق آپ نے نسبت دی تهی دریافت کيا
اس نے سب کا اعتراف کيا، آپ کو ان باتوں کا علم کہاں سے حاصل ہوا؟ تو حضرت نے فرمایا:
رسول خدا (ص) نے مجهے حلال و حرام کے ہزار دروازوں کی تعليم دی کہ جن ميں ہر ایک
دروازہ سے دوسرے ہزار دروازے کهلتے ہيں یہاں تک کہ علم منایا وصایا اور فصل خطاب کا علم
مجهے حاصل ہوا نہ صرف یہ بلکہ وہ عورتيں جو مردوں جيسے اوصاف کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٨٠ ۔ الاختصاص، ص ٣٠۵ ۔ مستدرک الوسائل، ج ٣، ص ۴٠ ۔ (
حامل ہيں وہ مرد جو عورتوں جيسے صفات کے حامل ہيں سب کچه جانتا ہوں۔
٣٠٨ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحارث الاعور قال: کنت مع امير الموٴمنين عليہ السلام فی
مجلس القضاء اذا اقبلت امراٴة مستعدیة علیٰ زوجها فتکلّمت بحجّتها وتکلّم الزوج بحجّتہ فوجة
القضاء عليها ، فغضبت غضباً شدیداً ثمّ قالت واللّٰہ امير الموٴمنين لقد حکمت علیّ بالجور وما بهذا
امرک اللّٰہ ، فقال لها یا سلفع ، یا مهيع ، یا قردع بل حکمت عليک بالحقّ الّذی علمتہ، فلمّا
سمعت منہ الکلام ولّت هاربة فلم تردّ عليہ جواباً ، فاتبعها عمرو بن حریث فقال لها: والله یا امة
اللّٰہ لقد سمعت اليوم منک عجباً وسمعت امير الموٴمنين قال لک قولاً فقمت من عندہ هاربة
مولّية ما رددت عليہ جواباً ، فقالت : یا عبد اللّٰہ لقد اٴخبری باٴمر یطّلع عليہ احد الاّ اللّٰہ واٴنا ، وما
قمت من عندہ الاّ مخافة ان یخبرنی باعظم ممّا رمانی بی فصبری علیٰ واحدة کان اجمل من اٴن
اصبر علی واحدة بعد واحدة ، قال لها عمرو: فاٴخبرنی عافاک اللّٰہ ما الّذی قال لک ؟ قالت یا عبد
اللّٰہ اِنّی لا اقول ذٰلک لاٴنّہ قال ما فیّ وما اکرہ فانّہ قبيح ان یعلم الرّجال فی النّسآء من العيوب ،
فقال لها : واللّٰہ ما تعریفينی ولا عرفک ولعلّک لاترینی ولا اراک بعد یومی هذا، قال عمر ، فلمّا
راٴتنی قد الحمت عليها قالت : امّا قولہ : یا سلفع فواللّٰہ ما کذب علیّ انّی لا احيض من حيث
تحيض النّساء ، واما قولہ : یا مهيع فاٴنی والله صاحبة نساء وما انا بصاحبة رجال ، وامّا قولہ : یا
قردع فاٴنّی المخرّیة بيت زوجی وما ابقی عليہ فقال لها : ویحک وما علمہ بهذا ؟ اٴتراہ ساحراً او
کاهناً او محذوماً ؟ اخبرک بما فيک وهذا علم کثير فقالت لہ : بئس ما قلت یا عبد اللّٰہ انّہ ليس
بساحر ولا کاهن ولا محذوم ولکنّہ من اهل بيت النّبوة وهو وصیّ رسول اللّٰہ (ص) وارثہ وهو یخبر
الناس بما القاہ رسول اللّٰہ (ص) وعلّمہ لاٴنّہ حجة اللّٰہ علیٰ هذا الخلق بعد نبيّہ (ص) ، فاقبل
عمرو بن حریث الیٰ مجلسہ ، فقال لہ امير الموٴمنين : یا عمرو بما استحللت ان ترمينی بما
رميتنی بہ اٴما واللّٰہ لقد کانت المراٴة احسن قولًا فی منک ولا قفنّ انا وانت من اللّٰہ موقفاً فانظر
کيف تتخلص من اللّٰہ ، فقال : یا امير الموٴمنين : انا تائب الی اللّٰہ واليک ممّا کان فاغفرہ لی غفر
اللّٰہ لک فقال : لا والله لا اغفرلک هذا الذّنب ابداً حتّیٰ اقف انا وانت بين یدی من لا یظلمک شيئاً
)١) ”
حارث اعور کا بيان ہے: ميں حضرت امير المومنين - کی خدمت اقدس ميں مجلس
قضاوت ميں موجود تها تو ناگہاں ایک عورت اس حالت ميں داخل ہوئی کہ وہ اپنے شوہر کے ظلم
کی شکایت کر رہی تهی اس کے ظلم و ستم کی دليلوں اور کيفيت کو بيان کيا اور اس کے
شوہر نامدار نے بهی اپنی حجّت و دليل کو بيان کيا، فيصلہ کا رخ عورت کے ضرر ميں تمام ہوا تو
عورت بہت زیادہ غضب ناک ہوئی پهر کہا: خدا کی قسم! اے امير المومنين! آپ نے ميرے حق
ميں ایسا فيصلہ کيا ہے کہ الله تعالیٰ نے آپ کو کسی وقت بهی ایسا حکم نہيں فرمایا تو
حضرت نے جواب ميں فرمایا: اے سلفع! اور اے مهيع! اور اے قردع! بلکہ ميں نے تمہارے ضرر
ميں حق اور علم کی رو سے حکم کيا کہ جس کو تم نے بهی سمجه ليا، جب اس عورت نے
حضرت کی اس بات کو سنا تو راہِ فرار کی طرف رخ کيا اور کوئی جواب نہيں دیا، عمرو ابن حریث
جو مجلس (مجلس قضا) ميں موجود تها اس کے پيچهے گيا اور کہا: اے کنيز خدا! خدا کی قسم
! ميں نے آج تم سے عجيب و غریب چيزیں سنی ہيں اور اسی طرح ایک بات حضرت امير
المومنين - نے تم سے کہی تو تم وہاں فوراً کهڑی ہوگئی ، راہ فرار اختيار کرلی اور ان کا کوئی
جواب نہيں دیا، کہا: اے خدا کے بندے! یقينا انہوں نے مجهے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ٣٠۵ ۔ بحار الانوار، ج ۴١ ، ص ٢٩١ ۔ مدینة العاجز، ج ٢، ص ٢١٠ ۔ (
ایسی شے کے بارے ميں خبر دی کہ جسے ميرے اور ميرے خدا کے علاوہ کوئی دوسرا
شخص نہيں جانتا تها، اور ميں ان کے پاس سے کهڑی نہيں ہوئی سوائے اس خوف سے کہ
ممکن ہے اس سے عظيم شے کے بارے ميں مجهے خبر دیں۔ لہٰذا ميں نے مناسب سمجها کہ
ایک ہی بات پر صبر کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک ایک بات جو ميرے بارے ميں ہے اسے
سنوں اور صبر کروں۔ عمرو نے اس سے کہا: خدا تمہيں عافيت عطا کرے انہوں نے تم سے کيا
کہا: کہا: اے خدا کے بندے!ميں بيان نہيں کرسکتی کيوں کہ جو کچه ميرے اندر موجود ہے انہوں
نے خبر دی اور مجهے یہ پسند نہيں ہے کہ ميں اس کا اظہار کروں اور اس کے علاوہ یہ بات
بہت بری ہے کہ عورتوں کے عيوب و نقائص سے مردوں کو اطلاع حاصل ہو، عمرو نے کہا: خدا
کی قسم! نہ تم مجهے پہچانتی ہو اور نہ ہی ميں تمہاری معرفت رکهتا ہوں، اور آج کے دن کے
علاوہ نہ تم مجهے دیکهو گی اور نہ ميں تمہارا دیدار کروں گا، عمرو کا بيان ہے: جب ميں نے
بہت اصرار کيا تو کہا: ليکن انہوںنے فرمایا: اے سلفع! خدائے بزرگ و برتر کی قسم! انہوں نے
ميری بہ نسبت جهوٹ نہيں کہا کيوں کہ ميں حائض عورتوں کی طرح خون حيض نہيں دیکهتی
اور جو انہوں نے فرمایا: اے مهيع! خدا کی قسم! نہ ميں صاحبِ عورت ہوں اور نہ ہی صاحب مرد
١) اور جو انہوں نے فرمایا: اے قردع! ميں خراب کار عورت ہوں اپنے شوہر کے گهر کو خراب )
کرتی ہوں اور اس کی کوئی چيز اس کے ليے باقی نہيں چهوڑتی۔ عمرو نے کہا: تمہيں ہلاکت ہو
اسے ان باتوں کا علم کہاں سے ہوا، ممکن ہے وہ ساحر اور جادوگری کرنے والا اور محذوم ہو
(اور تمہيں اس طریقہ سے خبر دی ہو) تو عورت نے اس سے کہا: اے بندہٴ خدا! تم نے کتنی
بری بات کی ہے وہ نہ ساحر ہے نہ جادوگر اور نہ ہی محذوم ہے ليکن وہ اہل بيت نبوت و رسالت
کا فرد ہے اور رسول خدا (ص) کا وصی اور ان کے علم کا وارث ہے وہ لوگوں کو ان چيزوں کی
خبر دیتا ہے کہ جن کی رسول خدا (ص) نے انہيں تعليم دی ہے کيوں کہ وہ نبی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اور شاید عورت سے تعبير کرنے کا مقصد یہ ہو کہ ميں صاحب عورت ہوں نہ صاحب مرد، (
ممکن ہے در واقع مرد تها اور اس کی بيوی تهی اگرچہ لوگوں کے درميان عورتوں کی طرح رفت
و آمد کرتا تها اور لوگ نہيں جانتے تهے۔
اکرم کے بعد مخلوقات پر خدا کی حجّت ہيں۔ عمرو ابن حریث نے ان باتوں کو سننے کے بعد
حضرت امير المومنين- کی مجلس قضاوت کی طرف رخ کيا تو حضرت نے فرمایا: اے عمروا! کس
معيار کی بنا پر تم نے ميری طرف ان باتوں کی نسبت دینا جائز جانا جو کچه تم نے نسبت دی
ہے جان لو کہ خدا کی قسم! اس عورت کی بات ميرے حق ميں تمہاری بات سے زیادہ اچهی
تهی، اور یقينا ہم اور تم محکمہٴ عدل الٰہی ميں کهڑے ہوں گے پهر دیکهنا کہ تم خود کو (عذاب
الٰہی سے) کيسے چهڻکارا دلاؤ گے۔ عمرو نے کہا: یا امير المومنين! ميں خدا سے توبہ کرتا ہوں
اور جو کچه ميں نے آپ کو کہا ہے مجهے معاف کردیں ، بخش دیں خدا آپ کو بهی معاف کرے
اور بخش دے۔ توحضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! ميں تمہارے ان گناہوں کو کبهی بهی نہيں
بخشوں گا یہاں تک کہ ميں اور تم اس کی بارگاہ ميں کهڑے ہو کہ جو کبهی بهی تمہارے اوپر
کسی طرح کا ظلم نہيں کرے گا۔
ليکن جریر ابن عبد الله: جریر اور اشعث دونوں ہی حضرت علی - کے دشمنوں ميں سے
تهے اور حضرت علی - نے جریر کا گهر ویران کردیا۔ معاویہ نے ان چار افراد (شبث ابن ربعی،
عمرو ابن حریث، اشعث ابن قيس اور جریر ابن عبد الله) سے وعدہ کيا کہ اگر حسن ابن علی
عليہما السلام کو قتل کردے تو ان ميں سے ہر ایک کو بيس ہزار درہم نقد اور شام کی چاندیوں
ميں سے کچه چاندی اور اپنی لڑکيوں ميں سے ایک لڑکی دے گا۔
|