قرآن مجيد کے نزول کی کيفيت
قرآن ایک مرتبہ شب قدر ميں مجموعی طور پر منظم شکل ميں نازل ہوا اور دوسری
مرتبہ تيئيس سال ميں تدریجی طور پر لوگوں تک پہنچایا گيا۔
قرآن مجيد کے تمام آسمانی کتابوں پر من جملہ نمایاں امتيازات ميں سے ایک یہ ہے کہ
وہ صرف ایک مرتبہ مجموعی طور پر منظم شک ميں گزشتہ انبياء پر نازل ہوتی تهيں اور عام
لوگوں کے اختيار ميں قرار پاتی تهيں۔ ليکن قرآن مجيد ایک مرتبہ مجموعی، مرتب اور کامل طور
پر بين الدفتين شب قدر ميں لوح محفوظ سے بيت المعمور کی طرف جو چوتهے آسمان ميں ہے
یا بيت العزت جو دنيا کے آسمان ميں ہے نازل ہوا ہے جيسا کہ قرآن مجيد فرماتا ہے: <انا انزلناہ
فی ليلة القدر> (بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا ہے) ظاہرا بيت المعمور یا بيت
العزت وغيرہ ميں نازل ہوتا ليکن حقيقت ميں رسول خدا (ص) کے ہر دل عزیز مبارک قلب پر نازل
ہوا جيسا کہ سورئہ بقرہ سورئہ نمبر ٢ کی انيسویں آیت ميں فرماتا ہے: <فانّہ نزّلہ علی قلبک
باذن اللّٰہ> (یقينا اسے الله کی اجازت سے آپ کے قلب پر نازل کيا) سورہ شعراء، سورہ نمبر ٢۶
کی ایک سو چورانویں آیت ميں فرماتا ہے: <نزل بہ الروح الامين علی قلبک> (اسے جبرئيل امين
آپ کے قلب پر لے کر نازل ہوئے)۔
لہٰذا حضرت رسول خدا (ص) چاليس سال کی مدت ميں قرآن مجيد کے دستورات پر
عمل کرتے رہے ليکن اسے ابلاغ کرنے پر مامور نہيں ہوئے تهے مگر جب مبعوث بہ رسالت اور
اسے ابلاغ پر مامور ہوئے تو تيئيس سال کی مدت ميں پارہ پارہ اور آیت آیت کی شکل ميں
حالات کے تقاضے کے مطابق پيغمبر خاتم (ص) کے قلب پر نازل اور آنحضرت (ص) کی زبان
مبارک پر جاری ہوا۔
٢۶٠ ۔ جيسا کہ کتاب کافی اور عظيم تفسيروں نے مفضل ابن عمر کی حدیث کو نقل کيا
ہے کہ جب برحق امام ناطق، اسرار حقائق کو کشف کرنے والے حضرت جعفر ابن محمد الصادق
- نے قرآن مجيد کی چند آیات کی تلاوت فرمائی جيسے آیہٴ کریمہ <شَہرُْ رَمَضَانَ الَّذِی اٴُنزِلَ فِيہِ
الْقُرْآنُ > ( ١) (وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا ہے) <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا
مُنذِرِینَ > ( ٢) ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات ميں نازل کيا ہے۔ <وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَولْاَنُزِّلَ
) عَلَيہِْ القُْرآْنُ جُملَْةً وَاحِدَةً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلنَْاہُ تَرتِْيلًا > ( ٣
اور یہ کافر بهی کہتے ہيں کہ آخر ان پر یہ قرآن ایک دفعہ کامل کيوں نازل ہوگيا۔ ہم اسی
طرح تدریجاً نازل کرتے ہيں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کرسکيں اور ہم نے اسے ڻهہر ڻهہر کر
نازل کيا ہے۔
مفضل ابن عمر نے عرض کيا: یہ آیات تنزیل قرآن ميں ہيں “فکيف ظهر الوحی” پس
کيسے وحی بيس سال کی مدت ميں ظاہر ہوئی؟ تو حضرت - نے فرمایا: “یا مفضل اعطاہ اللّٰہ
القرآن فی شهر رمضان وکان لا یبلغہ الا فی وقت استحقاق الخطاب ولا یوٴدّیہ الّا فی وقت امر
ونهی فهبط جبرئيل بالوحی فتبلغ ما یوٴمر بہ قولہ تعالیٰ لا تحرّک بہ لسانک لتعجل بہ انتهی“
اے مفصل! الله تعالیٰ نے قرآن پيغمبر (ص) کو ماہ رمضان ميں عطا فرمایا اور آنحضرت نے
لوگوں کو وہ قرآن ابلاغ نہيں فرمایا مگر خطاب کے استحقاق کے موقع پر (یعنی جب مقتضی
موجود تها)اور اسے ادا نہيں کيا مگر اس وقت جب آنحضرت (ص) کو وحی ہوتی تهی تو اس
وقت اس شے کو ابلاغ فرماتے تهے جس کے ليے انہيں مامور کيا گيا تها جيسا کہ الله تعالیٰ
فرماتا ہے: آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے ميں عجلت سے کام نہ ليا کریں
اس بات کی یہ آیہٴ کریمہ تائيد کرتی ہے کہ جس ميں الله تعالیٰ فرماتا ہے : <وَلاَتَعجَْل بِالقُْرآْنِ
) مِن قَبلِْ اٴَن یُقضَْی إِلَيکَْ وَحيُْہُ > ( ۴
اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے ميں عجلت سے کام نہ ليا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٨۵ ۔ )
٢(۔ سورئہ دخان، آیت ٢۔ (
٣(۔ سورئہ فرقان، آیت ٣۴ ۔ )
۴(۔ سورئہ طہ ، آیت ١١٣ ۔ (
٧۔ وسيع عبادت
٧۔ القرآن : النظر اليہ واستماعہ وکتابة وقرائة کلّها مستحبّ وعبادة
قرآن مجيد کی طرف نگاہ کرنا، سننا ، لکهنا اور اس کا پڑهنا مستحب اور عبادت ہے۔
اسی طرح معصوم کے چہرے پر نظر کرنا، انتظار ، ان کا ذکر کرنا ان کے فضائل مناقب کا لکهنا اور
سننا بهی مستحب اور عبادت ہے۔
”والحجّة - صلوات اللّٰہ عليہ - وعلیٰ آبائہ واجدادہ الطّيبين الطّاہرین - صلوات اللّٰہ عليہم
اجمعين - النّظر والی وجوههم وانتظار فرجهم وذکر منا قبهم وفضائلهم وکتابتها واستماعها کلّها
مستحب وعبادة“
حضرت حجّت - اور ان کے آباء واجداد طيبين و طاہرین عليہم الصلاة و السلام اجمعين
کے چہرے پر نظر کرنا اور ان کے ظہور کا انتظار کرنا ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کرنا اس کا
لکهنا اور سننا سب کچه مستحب اور عبادت ہے۔
٢۶١ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن بشربن غالب الاٴسدی عن الحسين بن علیّ عليہ
السلام قال: من قراٴ آیة من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ فی صلاتہ قائماً یکتب لہ بکلّ حرف ماٴة حسنة فاذا
قراٴها فی غير صلاة کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف عشر حسنات ، وان استمع القرآن کتب اللّٰہ لہ بکلّ
حرف حسنة ، ان ختم القرآن ليلاً صلّت عليہ الملائکة حتیٰ یصبح ، وان ختمہ نهاراً صلّت عليہ
الحفظة حتیٰ یمسی وکانت لہ دعوة مجابة وکان خيراً لہ مما بين السّمآء الی الاٴرض قلت: هذا
لمن قراٴ القرآن فمن لم یقراٴ ؟ قال: یا اخا بنی اسد انّ اللّٰہ جواد ماجد کریم اذا قراٴ ما معہ اعطاہ
) اللّٰہ ذٰلِک ” ( ١
کتاب کافی ميں کلينی نے بشير ابن غالب اسدی سے انہوں نے سيد الشہداء
حسين ابن علی - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو شخص کتاب الله کی ایک
آیت کهڑے ہوکر پڑهے اس کے ليے ہر حرف کے بدلے سو نيکياں (اس کے نامہٴ اعمال ميں)
لکهی جائيں گی اور جب نماز کے علاوہ پڑهے تو الله اس کے ليے ہر حرف کے بدلے دس نيکياں
تحریر کرے گا اور جو قرآن کو سنے تو الله تعالیٰ ہرحرف کے بدلے دس نيکياں لکهے گا اگر رات کو
ختم قرآن کرے گا تو ملائکہ اس پر صبح تک درود بهيجيں گے اور اگر دن ميں ختم کرے گا تو شام
تک فرشتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی دعا قبول ہوگی (یہی قرائت قرآن یا دعا
مقبول ہوگی) وہی اس کے ليے زمين سے آسمان تک جو کچه ہے بہتر ہے، ميں نے عرض کيا:
قرآن پڑهنے والے کے ليے اتنا ثواب ہے اور نہ پڑهنے والے کے ليے کيا ہے؟ (یعنی جسے معلوم
نہ ہو اور صرف مختصر قرآن حفظ ہو) فرمایا: اے بهائی بنی اسد! الله تعالیٰ صاحب جود و کرم ہے
اگر کوئی اتنا پڑهے جتنا اس کو یاد ہے الله اس کو بهی اپنے کرم سے اتنا ہی ثواب عطا فرمائے
گا۔
٢۶٢ ۔ “ وفيہ بالاسناد عن محمّد بن بشير عن علیّ بن الحسين عليہما السلام قال وقد
روی هذا الحدیث عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال : من استمع حرفاً من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ من
غير قرائة کتب اللّٰہ لہ حسنة ومحی عنہ سيّئة ورفع لہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶١١ ۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ٢٠١ ۔ (
درجة من قراٴ نظراً من غير صوت کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف حسنة ومحا عنہ عشر سيّئة ورفع لہ
عشر درجة ومن تعلّم منہ حرفاً ظاہراً کتب اللّٰہ لہ عشر حسنات ومحی عنہ عشر سيئات ورفع
لہ عشر درجات قال: لا اقول بکل آیة ولکن بکلّ حرف: باء او تاء او شبههما قال: ومن قراٴ حرفاً
ظاہراً وهو جالس فی صلاتہ کتب اللّٰہ لہ بہ خمسين حسنة ومحا عنہ خمسين سيئة ورفع لہ
خمسين درجة ومن قراٴ حرفاً وهو قائم فی صلاتہ کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف ماٴة حسنة ومحی عنہ
ماٴة سيئة و رفع لہ ماٴة درجة ومن ختمہ کانت لہ دعوة مستجابة موٴخّرة او معجّلة قال: قلت :
) جعلت فداک ختمہ کلہ ؟ قال ختمہ کلّہ ” ( ١
نيز اس کتاب ميں کليني نے محمد ابن بشير سے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ
حضرت امام سجاد - نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو
کتاب کے ایک حرف کو بغير قرائت کيے کان لگا کر سنے تو الله اس کے نام ایک نيکی تحریر کرتا
ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جو بغير آواز سے پڑهے صرف (قرآن
کے نقوش پر) نگاہ کرے تو الله ہر حرف کے بدلے ایک نيکی لکهتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے
اور ایک درجہ بلند کرتا ہے جو شخص کسی کو قرآن کا ایک حرف پڑهائے تو الله اس کے نام پر
دس نيکياں تحریر کرتا ہے اور دس درجہ بلند کرتا ہے پهر فرمایا: تمہيں یہ نہيں کہتا کہ ہر آیت
کے بدلے ميں (اس فضيلت کو اسے عطا کرے گا) بلکہ ہر حرف ب یا ت کے بدلے ميں اور یہ
بهی فرمایا: جو شخص ایک حرف کو بيڻه کر نماز ميں پرهے تو الله اس کے ليے پچاس حسنہ
لکهتا ہے ، پچاس گناہ محو کرتا ہے اور سو درجہ بلند کرتا ہے اور جو ایک حرف کهڑے ہو کر نماز
ميں پڑهے تو الله تعالیٰ ہر حرف کے بدلے سو حسنہ تحریر کرتا ہے ، سو گناہ مڻا دیتا ہے اور
سو درجہ بلند کرتا ہے اور جو قرآن ختم کرے تو اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶١٣ ۔ تفسير صافی، ج ١، ص ۶٩ ۔ (
کے ليے جلد یا تاخير سے اس کی دعائيں (مصلحت کے باعث) مقبول ہوتی ہيں۔ راوی کا بيان
ہے: ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر فدا ہوں مکمل قرآن ختم کرے؟ فرمایا: ہاں مکمل قرآن ختم
کرے۔
٢۶٣ ۔ “وفيہ بالاٴسناد عن اسحاق بن عمّار عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: قلت لہ :
جعلت فداک انّی احفظ القرآن علی ظهر قلبی فاقراہ علیٰ ظهر قلبی افضل اوانظر فی المصحف ؟
قال فقال لی بل اقراٴہ وانظر فی المصحف فهو افضل ، اما علمت انّ النظر فی المصحف عبادة ”
) ١)
نيز اسی کتاب ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته اسحاق ابن عمار سے نقل کيا
ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت - سے عرض کيا:
ميں آپ پر قربان جاؤں ميں قرآن کا حافظ ہوں ( ميں حفظ کے ساته قرآن پڑه سکتا ہوں) کيا حفظ
سے پڑهوں یہ بہتر ہے یا قرآن کو دیکه کر؟ حضرت نے فرمایا: قرآن دیکه کر پڑهنا افضل ہے کيا
تمہيں نہيں معلوم کہ قرآن پر نظر کرنا عبادت ہے۔
٢۶۴ ۔ “وفيہ عن الحسن بن راشد عن جدّہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قرائة القرآن
) فی المصحف تخفّف العذاب عن الوالدین ولو کانا کافرین ” ( ٢
اسی کتاب ميں حسن ابن راشد سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے جد سے انہوں نے
امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: قرآن کو دیکه کر پڑهنا والدین
کے عذاب ميں تخفيف کا باعث ہے اگر وہ کافر ہی کيوں نہ ہوں۔
٢۶۵ ۔ “وفی روایة عن یعقوب بن یزید رفعہ الی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال من قراٴ
القرآن فی المصحف متّع ببصرہ وخفّف عن والدیہ وان کانا کافرین وفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢١۴ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶١٣ ۔ (
) روایة وان کانا مشرکين ” ( ١
یعقوب ابن یزید نے مرفوعاً امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا:
جو شخص قرآن کو دیکه کر پڑهے اس کی آنکهوں کو فائدہ پہنچے گا اور اس کے والدین پر عذاب
کی تخفيف ہوگی اگرچہ وہ کافر ہی ہوں۔
مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف اور آپ کے آباء و
اجداد طاہرین ائمہٴ اطہار کی طرف نگاہ کرنا ان کی قبروں کی زیارت کرنا ان کے فضائل و مناقب
اور مصائب ذکر کرنا خواہ لکهنے سے یا سننے سے مربوط ہو نيز ان کے ظہور کا انتظار کرنا
عبادت او مستحب ہے مزید ثواب اور حقائق وغيرہ کشف کرنے ميں بہت سے آثار و برکات پائے
جاتے ہيں۔
٢۶۶ ۔ “وفی فرحة الغری : فی حدیث عن النّبی (ص) انّہ قال لعلی عليہ السلام ومن زار
قبورکم عدل ثواب ذلک سبعين حجّة بعد حجة الاسلام وخرج من ذنوبہ حتّیٰ یرجع من زیارتکم
کيوم ولدة امّہ فابشروبشّر اوليائک ومحبيّک من النّعيم قرة العين بما لا عين راٴت ولا اذن سمعت
ولا خطر علیٰ قلب بشر ولٰکن حثالة من النّاس یعيّرون زوّار قبورکم کما تعيّر الزّانية بزنائها اولئک
) شرار امّتی لا امالهم اللّٰہ شفاعتی ولا یردون حوضی ” ( ٢
کتاب فرحة الغری ميں سيد ابن طاؤوس رضوان الله عليہ نے پيغمبر اکرم (ص) کی ایک
حدیث کے ضمن ميں نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے حضرت علی - سے فرمایا: جو شخص
آپ کی قبروں کی زیارت کرے تو اس کا ثواب حجة الاسلام کے بعد ستّر حج کے ثواب کے برابر
ہے اور وہ اپنے گناہوں سے بری ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آپ کی زیارت سے واپس ہوتا ہے تو اس
دن کی طرح ہوجاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
٢(۔ فرحة الغری، ص ١٠۵ ۔ بحار الانوار، ج ٩٧ ، ص ١٢١ ۔ (
کہ جس دن وہ شکم مادر سے پيدا ہوا ہو لہٰذا تمہيں بشارت ہو اور اپنے دوستوں اور چاہنے والوں
کو نعمتوں (لامتناہی نعمتوں) کی بشارت دو اور ایسی آنکهوں کی روشنی کی کہ جسے نہ
کسی آنکه نے دیکها اور نہ ہی کسی کان نے سنا ، نہ ہی کسی قلب بشر ميں خطور کيا ہو۔
ليکن بہت سے پست نظر افراد آپ کی قبروں کے زائرین کو یوں طعنہ دیتے ہيں جيسے بدکار
عورت کو اسے اس کی بدکاری کی بنا پر طعنہ دیا جاتا ہے، وہ لوگ ميری امت کے شریر ترین
لوگ ہيں نہ انہيں ميری شفاعت نصيب ہوگی اور نہ ہی ميرے حوض کوثر پر وارد ہوں گے (یعنی
الله تعالیٰ انہيں ميری شفاعت سے محروم رکهے گا(
مولف کہتے ہيں: پيغمبر اکرم (ص) کی زیارت کے بارے ميں ائمہٴ اطہار ميں ہر ایک سے
بہت فضيلت اور نامحدود ثواب معادن وحی و تنزیل سے نقل ہوا ہے کہ اختصار کے ساته ہم چند
مقام کی طرف اشارہ کرتے ہيں قارئين کرام مفصل کتابوں جيسے بحار الانوار علامہ مجلسی ،
کامل الزیارات علامہ ابن قولویہ اور وسائل الشيعہ شيخ حر عاملی کی طرف رجوع کریں۔
٢۶٧ ۔ “وفی علل الشرایع للصدوق عن الصادق عليہ السلام اذا حجّ احدکم فليختم
) حجہ بزیارتنا فانّ ذلک من تمام الحجّ ” ( ١
شيخ صدوق رحمة الله عليہ نے کتاب علل الشرائع ميں امام جعفر صادق - سے روایت
کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب تم ميں سے کوئی شخص حج پر جائے تو اسے چاہيے کہ
اپنے حج کو ہماری زیارت پر ختم کرے کيوں کہ ہماری زیارت کے ليے آنا ہی حج کو حد کمال تک
پہنچاتا ہے۔
٢۶٨ ۔ “وفيہ عنہ عليہ السلام : قال قال الحسن بن علی عليہ السلام لرسول اللّٰہ یا ابتاہ
ما جزآء من زارک فقال رسول اللّٰہ (ص) یا بنیّ من زارنی حيّاً اوميّتاً او زار اباک او اخاک او زارک
) کان حقّاً علیّ ان ازورہ یوم القيٰمة فاخلّصہ من ذنوبہ ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ علل الشرایع، ج ٢، ص ۴۵٩ ۔ عيون الاخبار الرضا - ، ج ١، ص ٢٩٣ ۔ (
٢(۔ علل الشرایع، ج ٢، ص ۴۶٠ ۔ کامل الزیارات، ص ٩١ ۔ بحار الانوار، ج ٩۶ ، ص ٣٧٣ ۔ (
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب علل الشرائع ميں امام جعفر صادق - سے
روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امام حسن مجتبیٰ نے حضرت رسول خدا (ص) کی
خدمت ميں عرض کيا: اے ميرے پدر گرامی! جو آپ کی زیارت کرے اس کا کيا اجر و ثواب ہے؟
فرمایا: اے بيڻے! جو ميری زندگی ميں یا مرنے کے بعد ميری زیارت کرے یا تمہارے والد گرامی یا
تمہارے عزیز بهائی یا خود تمہاری زیارت کرے تو یہ ميرے ليے اس کے زائد حق ميں واجب ہے
کہ اس کی قيامت کے دن زیارت کروں اور اسے گناہوں کی قيد سے نجات اور چهڻکارا دلاؤں۔
٢۶٩ ۔ “وفی کامل الزیارة لابن قولویہ قدس سرہ: قال رسول اللّٰہ (ص) من زار قبری بعد
) موتی کان کمن هاجر الیّ فی حيٰوتی فان لم تستطيعوا فابعثوا الیّ بالسلام فانّہ یبلغنی ” ( ١
کامل الزیارات ميں ابن قولویہ رحمة الله عليہ نے رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ
آنحضرت نے فرمایا: جو شخص ميرے بعد ميری قبر کی زیارت کرے وہ اس شخص کی طرح ہے
جس نے تيری زندگی ميں ميری طرف ہجرت کی اگر تمہارے اس عمل کا امکان نہ پایا جاتا ہو تو
جہاں کہيں رہو مجهے سلام بهيجو وہ مجهے پہنچ جائے گا۔
٢٧٠ ۔ “ وفی فرحة الغری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال من زار امير الموٴمنين عليہ
السلام ما شياً کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حجة وعمرة فان رجع ماشياً کتب اللّٰہ بکلّ خطوة حجة
) وعمرة فان رجع ماشياً کتب اللّٰہ بکل خطوة حجتان وعمرتان” ( ٢
فرحة الغری ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو شخص
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کامل الزیارات، ص ۴٧ ۔ تہذیب الاحکام ، ج ۶، ص ٣۔ وسائل الشيعہ، ج ١۴ ، ص ٣٣٧ ۔ (
٢(۔ فرحة الغری، ص ١٠٣ ۔ مزار شيخ مفيد، ص ٣٠ ۔ بحار الانوار، ج ٩٧ ، ص ٢۶٠ ۔ (
حضرت امير
المومنين علی - کی پا پيادہ زیارت کرے تو الله تعالیٰ اس کے نامہٴ اعمال ميں ہر قدم پر ایک حج
اور ایک عمرہ کا ثواب لکهتا ہے اور اگر پا پيادہ واپس جائے تو ہر ایک قدم پر دو حج اور دو عمرہ کا
ثواب تحریر کرتا ہے۔
٢٧١ ۔ “ وعنہ عليہ السلام وقد ذکر امير الموٴمنين عليہ السلام فقال یابن مارد من زار
جدّی عارفاً بحقہ کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حجة مقبولة وعمرة مبرورة یابن مارد والله ما یطعم النار
قدماً تغبرت فی زیارة امير الموٴمنين عليہ السلام ماشياً کان او راکباً، یابن مارد اکتب هذا الحدیث
) بماء الذّهب ” ( ١
سيد جليل القدر جناب ابن طاووس رضوان الله تعالیٰ عليہ نے اپنی کتاب فرحة الغری ميں
امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ گویا ان کے جدّ بزرگوار کے بارے ميں گفتگو
ہوئی (ابن مارد کے ذریعہ یا کسی دوسرے کے ذریعہ) تو حضرت نے ابن مارد کو خطاب کرکے
فرمایا: اے فرزند مارد! جو شخص ميرے جد بزرگوار کی حقيقی معرفت کے ساته زیارت کرے (ان
کی ولایت و خلافت بلا فصل کا عقيدہ رکهتا ہو) تو خدائے عزوجل اس کے ہر ایک قدم پر قبول
شدہ حج اور عمرہ اس کے نامہٴ اعمال ميں تحریر کرتا ہے، اے فرزند مارد! خدا کی قسم ! آتش
جہنم اس قدم کو اپنی غذا نہيں بناتی جو حضرت امير المومنين - کی زیارت کی راہ ميں اڻهایا
جائے ، خواہ وہ پيادہ گيا ہو یا سواری کے ساته اے فرزند مارد! اس حدیث کو سونے کے پانی
سے تحریر کرو۔
مولف کہتے ہيں: کتنی زیادہ روایات حضرت سيد الشہداء حسين ابن علی عليہما السلام
کی زیارت کی فضيلت اور ثواب کے بارے ميں وارد ہوئی ہيں جو مستفيض بلکہ تواتر کی حد تک
پہنچی ہوئی ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فرحة الغریٰ، ص ١٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ١۴٧ ، ج ٩٧ ، ص ٢۶٠ ۔ (
٢٧٢ ۔ “ فی الامالی باسنادہ عن محمّد بن مسلم عن ابی جعفر عليہ السلام قال
مروا شيعتنا بزیارة الحسين بن علی عليہما السلام فانّ زیارتہ تدفع الهدم و الغرق والحرق
) واکل السّبع وزیارتہ مفترضة علی من اقرّ للحسين عليہما السلام بالامامة من اللّٰہ عزّوجلّ ” ( ١
امالی شيخ صدوق ميں بطور مسند محمد ابن مسلم نے امام محمد باقر - سے
روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ہمارے شيعوں کو حسين ابن علی عليہما السلام کی زیارت
کے ليے جانے کا حکم دو کيوں کہ ان کی زیارت (کی برکت) سے گهر ویران ہونے، غرق ہونے ،
جلنے اور درندوں کے پهاڑ کهانے کے خطرات سے محفوظ رہتا ہے اور الله تعالیٰ کی طرف سے
ہر اس شخص پر حضرت - کی زیارت فرض ہے جو اِن کی امامت (و خلافت) کا اعتراف کرچکے
ہيں۔
٢٧٣ ۔ “وقال الصادق عليہ السلام لاٴبان بن تغلب متیٰ عهدک بقبر الحسين عليہ السلام
قال مالی بہ عهد منذ حين قال سبحان ربیّ العظيم وبحمدہ وانت من روٴسائی الشيعة تترک
الحسين لا تزورہ من زار الحسين عليہ السلام کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حسنة ومحی عنہ بکلّ
) خطوة سيّئة وغفرہ ما تقدّم من ذنبہ وما تاٴخّر الخ ” ( ٢
حضرت امام صادق - آل محمد عليہم السلام نے ابان ابن تغلب سے فرمایا: تم کس
وقت امام حسين - کی قبر کی زیارت کے ليے گئے تهے؟ عرض کيا: ایک مدت ہوگئی ہے کہ
حضرت امام حسين - کی قبر کی زیارت کے ليے نہيں گيا ہوں (تو تعجب سے) فرمایا: “سبحان
ربی العظيم و بحمدہ” پاک و پاکيزہ ہے ميرا پروردگار اور اسی کی حمد وثناء ہے حالانکہ تم
ہمارے شيعوں کے بزرگوں ميں سے ہو اور امام حسين کی زیارت نہيں کرتے! (کيا تم نہيں
جانتے یا اس بات سے غافل ہو کہ) جو شخص امام حسين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی صدوق، ص ٢٠۶ ۔ من لا یحضرہ الفقيہ، ج ٢، ص ۵٨٣ ۔ (
٢(۔ کامل الزیارات ص، ٣٣١ ۔ بحار الانوار، ج ٩٨ ، ص ٧۔ (
کی زیارت کرے تو خداوند متعال اس کے نامہٴ اعمال ميں ہر قدم پر ایک نيکی تحریر کرے گا اور
ہر قدم پر ایک گناہ مڻا دے گا نيز اس کے گزشتہ اور آئندہ کے گناہ کو بخش دے گا۔ حدیث کے
آخر تک۔
٢٧۴ ۔ “وروی ابن قولویہ باسناد کثيرہ وغيرہ من المشایخ عن معاویة بن وهب
قال دخلت علیٰ ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام وهو فی مصلاہ فجسلت وحتّیٰ قضیٰ صلاتہ فسمعتہ
وهو یناجی ربّہ یقول یا من خصّنا بالکرامة ووعدنا الشّفاعة وحملنا الرّسالة وجعلنا ورثة الانبيآء
وختم بنا الامم السّالفة وخصنا بالوصيّة واعطانا علم مامضی وعلم ما بقی وجعل افئدة من النّاس
تهوی الينا اغفرلی ولاٴخوانی وزوّار قبر ابی الحسين بن علی عليہ السلام الذین انفقوا اموالهم
واشخصوا ابدانهم رغبة فی برّنا ورجآء لما عندک فی صلتنا الیٰ ان قال عليہ السلام فارحم تلک
الوجوہ التی غيرتها الشمس وارحم تلک الخدود التی تقلبت علیٰ قبر ابی عبد الله عليہ السلام
وارحم تلک الاعين التی جرت دموعها رحمة لنا وارحم تلک القلوب التی جزعت واحترقت لنا وارحم
تلک الصخة التی کانت لنا اللهم انّی استودعک تلک الاٴنفس وتلک الاٴبدان حتیٰ ترویهم من
) الحوض یوم العطش فما زال عليہ السلام یدعوا بهذا الدّعا وهو ساجد الخ” ( ١
ابن قولویہ نے ابن کثير سے اپنے اسنا دکے ساته اور ان کے علاوہ مشائخ (روایات) نے
معاویہ ابن وہب سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں حضرت امام جعفر صادق - کی خدمت
اقدس ميں اس وقت حاضر ہوا جب آپ اپنے مصلی پر بيڻهے ہوئے نماز ميں مشغول تهے تو ميں
بيڻها تاکہ حضرت اپنی نماز تمام کریں اور ميں نے اسی حالت ميں سنا کہ اپنے پروردگار سے
دعاء و مناجات کر رہے تهے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کامل الزیارات، ص ٢٢٩ ۔ کافی، ج ۴، ص ۵٨٢ ۔ ثواب الاعمال، ص ٩۵ ۔ بحار الانوار، ج ٩٨ ، ص ٨۔ (
اور فرماتے تهے: اے وہ (خدا) کہ جس نے ہم کو اپنی کرامت سے مخصوص کيا اور ہم سے
شفاعت کا وعدہ کيا اور ہميں رسالت انبياء کا ورثہ دار قرار دیا اور گزشتہ امتوں کو ہمارے ذریعہ
اختتام پذیر کيا اور وصایت (امامت و خلافت) کو ہم سے مخصوص کيا گزشتہ اور آئندہ کا ہميں
علم عطا فرمایا اور بعض لوگوں کے دلوں کو ہمارا عاشق و حامی قرا دیا اپنی بخشش و مغرفت
کو ميرے بهائيوں اور ميرے جد بزرگوار حسين بن علی عليہما السلام کے زائرین کے شامل حال
فرما۔
وہ لوگ جنہوں نے اپنے اموال کو خرچ کيا اپنی بدن کو غم و اندوہ اور خستگی ميں ڈالا
ہماری راہ ميں جو تيرے پاس اجر و ثواب کی (ہم سے نزدیک ہونے کے ليے) اميد پائی جاتی ہے
نيکی انجام دی ۔ اے خدا! پنی رحمت ان چہروں پر نازل فرما جو تيری زیارت کے راستے ميں
آفتاب کی گرمی سے تبدیل ہوگئے اے خد! ان رخساروں پر اپنی رحمت نازل فرما جو حضرت ابا
عبد الله الحسين - کی قبر پر رکهے گئے، اے خدا! ان آنکهوں پر اپنی رحمت نازل فرما کہ جن
کے اشک ہماری عطوفت و محبت ميں جاری ہوئے، اے خدا ! ان قلوب پر اپنی رحمت نازل فرما
کہ جنہوں نے ہمارے مصائب کی وجہ سے (ہماری مظلوميت کی بنا پر نالہ و فریادیں بلند کيں۔
اے خدا! ميں تيرے پاس ان نفوس او ر ابدان کو (کہ جنہوں نے ہماری زیارت کی بجا آوری کے
ليے خود کو زحمت ومشقت ميں ڈالا) بطورامانت چهوڑ رہا ہوں تاکہ تو پياس کے دن (قيامت)
انہيں حوض کوثر سے سيراب فرما۔ راوی کا بيان ہے: حضرت امام جعفر صادق - مسلسل
حضرت سيد الشہداء کے زائروں اور عاشقوں کے ليے سجدہ کی حالت ميں اس دعا کی تکرار
کر رہے تهے۔
”النظر الی وجہ علی عبادة ” چہرہٴ علی پر نظر کرناعبادت ہے
٢٧۵ ۔ “ وفی مستدرک الصحيحين روی بسندہ عن ابی سعيد الخدری عن عمران بن
) حصين قال: قال رسول اللّٰہ (ص) : النظر الیٰ علی عبادة ” ( ١
”قال الحاکم هذا حدیث صحيح الاٴسناد ، ثم قال ؟ و شواهدہ عن عبد اللّٰہ بن مسعود
صحيحة“
حاکم نے مستدرک صحيحين ميں اپنی سند کے ساته ابو سعيد خدری سے انہوں نے
عمران ابن حصين سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت علی - کے
چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ حاکم نے اس حدیث کے اسناد کے صحيح ہونے کی تائيد کی ہے،
پهر کہا: اس کے شواہد عبد الله ابن مسعود سے صحيح ہيں۔
مولف کہتے ہيں: اہل سنت کی معتبر کتابوں سے متعدد روایات ميں ذکر ہوا ہے کہ
حضرت علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے اب مولف اختصار کے ساته سند کو حذف کرکے
کتاب فضائل الخمسہ ( ٢) وغيرہ سے تبرکاً کتاب کے اس مختصر حصہ کو زینت بخش قرار دیتے
ہيں قارئين کرام تفصيل کے ليے گزشتہ حوالہ کی طرف رجوع کریں۔
٢٧۶ ۔ “وفی حلية الاولياء لابی نعيم : عن عایشہ قالت: قال رسول اللّٰہ (ص) النّظر الیٰ
) علی عبادة ” ( ٣
حافظ ابو نعيم نے حلية الاولياء ميں عائشہ سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ رسول
خدا (ص) نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مستدرک الصحيحين ، ج ٣، ص ١۴١ ۔ (
٢(۔ آیت الله الحاج سيد مرتضیٰ حسين فيروز آبادی رحمة الله عليہ۔ (
٣(۔ اس سلسلہ ميں رجوع کریں: الغدیر، ج ۴، ص ٢٨ ۔ (
فرمایا: حضرت علی - کی طرف دیکهنا عبادت ہے۔
٢٧٧ ۔ “تاریخ بغداد: عن ابی ہریرة قال: راٴیت معاذ بن جبل مدیم النّظر الیٰ علیّ بن ابی
طالب عليہ السلام فقلت : مالک تدیم النّظر الیٰ علیٍّ کانک لم ترہ؟ فقال: سمعت رسول اللّٰہ
) (ص) یقول : النظر وجہ علی عبادة ” ( ١
تاریخ بغداد ميں ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے معاذ ابن جبل کو
دیکها کہ مسلسل حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف نگاہ کر رہے ہيں تو ميں نے عرض کيا
کہ آپ کو کيا ہوگيا ہے کہ مسلسل حضرت علی - کی طرف دیکه رہے ہيں ایسا محسوس ہوتا
ہے کہ انہيں نہ دیکها ہو؟ کہا: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ کہتے سنا ہے: علی - کے چہرہ
پر نظر کرنا عبادت ہے۔
٢٧٨ ۔ “کنز العمال والمناوی فی فيض القدیر : قالا: النظر الیٰ وجہ علی عبادة قال المناوی
فی الشّرح : قال الزّمخشری عن ابن الاعرابی اذا برز ( یعنی علياً عليہ السلام ) قال النّاس: لا
الہ الاّ اللّٰہ ما اشرق هذا الفتی مااعلمہ ما اکرمہ ما احلمہ ما اشجعہ فکانت روٴیتہ تحمل علی
) النّطق بالعبادة فيالها من سعادة ” ( ٢
صاحب کنز العمال نے اپنی کتاب ميں اور مناوی نے فيض القدیر ميں دونوں نے کہا ہے
کہ: علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ مناوی نے شرح ميں نقل کيا ہے کہ:زمخشری نے
ابن اعرابی سے کہا: جس وقت علی - (سماج ميں ظاہر ہوں گے) تو لوگ تعجب سے کہيں گے
لا الہ الا الله کيا نورانيت کے حامل ہيں اس جواں کا علم و کرامت اور شجاعت قابل توصيف نہيں
لہٰذا ان کا دیدار لوگوں کو عبادت کے ليے برانگيختہ کرتا ہے اور وہ کہتے ہيں کہ علی - کے
چہرہٴ مبارک پر نظر کرنا عبادت ہے ان کی کيا خوش نصيبی ہے۔
٢٧٩ ۔ المحبّ الطبری فی الریاض النظرہ قال وعن معاذة الغفّاریّة قالت: کان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تاریخ بغدادی، ج ٢، ص ۴٩ ۔ (
٢(۔ نہایہ ابن اثير، ج ۵، ص ٧٧ ۔اختيارلمعرفة الرجال، ج ٢، ص ۶١٢ ۔ (
لی اٴنس بالنبی (ص) اخرج معہ فی الاسفار ، واٴقوم علی المرضیٰ ومداوی لجرحیٰ ، فدخلت
الیٰ رسول اللّٰہ (ص) فی بيت عایشة وعلی عليہ السلام خارج من عندہ فسمعتہ یقول : یا
عایشة ان هذا احب الرّجال الیّ واکرمهم علیّ فاعرفی لہ حقّہ ، واکرمی مثواہ، فلما ان جری
بينها وبين علی عليہ السلام بالبصرة ماجریٰ رجعت عایشة الیٰ المدینة فدخلت عليها فقلت لها:
یا امّ الموٴمنين کيف قلبک اليوم بعد ما سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول لک فيہ ما قال؟ قالت : یا
معاذة کيف یکون قلبی لرجل کان اذ دخل علیّ وابی عندنا لایملّ من النّظر اليہ ، فقلت لہ : یا ابة
انّک لتدیمنّ النظر الیٰ علی ، فقال: یا بنيّة سمعت رسول اللّٰہ یقول : النظر الی وجہ علی
عبادة۔
محب الدین طبری نے ریاض النضرہ ميں نقل کيا ہے کہ معاذہٴ غفاریہ نے کہا: مجهے نبی
اکرم (ص) سے انس و محبت تهی ميں ان کے ہمراہ ان کے سفر ميں جاتی تهی اور مریضوں
اور مجروحين کا مداوا و علاج کرتی تهی (ایک دن) ميں عائشہ کے گهر رسول خدا (ص) کی
خدمت ميں اس وقت حاضر ہوئی جب حضرت علی - رسول خدا (ص) کے پاس باہر آرہے تهے
پهر ميں نے سنا کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: اے عائشہ! یہ علی - ميرے نزدیک مردوں ميں
سب سے زیادہ محبوب ہيں اور وہ ميرے نزدیک زیادہ عزیز اور محترم ہيں لہٰذا ان کی معرفت
حاصل کرو اور ان کے حق کو پہچانو اور ان کی موقعيت و منصب کا اکرام و احترام کرو، جب
عائشہ اور حضرت علی - کے درميان بصرہ کا واقعہ رونما ہوا ( ١) اور عائشہ مدینہ واپس آئی تو
ميں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا: اے امّ المومنين! آج آپ کے دل کی کيا کيفيت ہے جب
کہ آپ کے ليے رسول خدا (ص) کو حضرت علی - کے حق ميں جو کچه کہنا تها کہہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ جنگ جمل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت عائشہ (ام المومنين) کے منصوبہ کے تحت (
عثمان کی خوں خواہی اور ان سے دفاع کے بارے ميں رونما ہوئی اور جو کچه کرنا تها کيا۔
چکے؟ جواب دیا: اے معاذہ! ميرے دل کی کيفيت اس شخص کے بارے ميں کيسی ہوگی کہ
جب وہ ميرے اور ميرے پدر گرامی کے پاس آتا تها تو ہم اس کو دیکهنے سے ملول اور رنجيدہ
خاطر نہيں ہوتے تهے، پهر ميں نے اپنے والد گرامی سے عرض کيا: اے بابا! آپ حضرت علی -
کی طرف مسلسل دقّت سے دیکه رہے ہيں اور نگاہ کرنے سے احساس خستگی نہيں کرتے؟
کہا: اے بيڻی! ميں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: علی کے (مبارک) چہرہ پر نگاہ
کرنا عبادت ہے۔
٢٨٠ ۔ “الریاض النضرة : عن عایشة قالت: راٴیت ابابکر یکثر النّظر الیٰ وجہ علیٍّ ، فقلت : یا
اٴبة راٴیتک تکثر النظر الیٰ وجہ علیٍّ ، فقال : یا بنيّة سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول النّظر الیٰ
) وجہ علی عبادة ” ( ١
ریاض النضرة ميں عائشہ سے منقول ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے ابوبکر کو حضرت
علی - کے چہرہ پر کثرت سے نظر کرتے ہوئے دیکها تو ميں نے عرض کيا: اے بابا جان! ميں نے
آپ کو علی کے چہرہ کی طرف بہت زیادہ نگاہ کرتا ہوا پایا؟ تو کہا: اے ميری بيڻی! ميں نے
رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔
٢٨١ ۔ “ وفيہ ایضاً : عن جابر قال: قال رسول اللّٰہ (ص) لعلی عليہ السلام عد عمران بن
الحصين فانّہ مریض ، فاتاہ وعندہ معاذ وابو ہریرة، فاقبل عمران یحدّ النظر الیٰ علیٍّ عليہ السلام ،
فقال لہ معاذ : لم تحدّ النّظر اليہ ؟ فقال : سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول النظر الی علی عبادة ،
) قال معاذ : وانا سمعتہ من رسول اللّٰہ قال ابو ہریرة : اوانا سمعتہ من رسول اللّٰہ (ص) ” ( ٢
نيز ریاض النضرة ميں جابر (انصاری) سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: رسول خدا (ص)
نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مناقب ابن مغازلی، ص ٢١٠ ۔ العمدہ، ص ٣۶٧ ۔ ذخائر العقبیٰ، ص ٩۵ ۔ بحار الانوار، ج ٣٨ ، ص (
٢٠٠ ۔
٢(۔ ذخائر العقبیٰ، ص ٩۵ ۔ ینابيع المودة، ج ٢، ص ١٨۵ ۔ (
حضرت علی - سے فرمایا کہ: عمران ابن حصين مریض ہےں لہٰذا ان کی عيادت کرو تو حضرت
علی - عيادت کے ليے اس وقت ان کے پاس گئے کہ جب معاذ اور ابوہریرہ بهی ان کے پاس
موجود تهے عمران پوری دقّت کے ساته حضرت علی - کی طرف دیکه رہے تهے تو معاذ بن
عمران سے عرض کيا: کيوں علی - کی طرف اس شدّت و حدّت کے ساته دیکه رہے ہيں؟ تو
جواب دیا: ميں نے رسول خدا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کی طرف دیکهنا عبادت ہے،
معاذ نے کہا: ميں نے رسول خدا (ص) سے یہ سنا ہے۔
اور ابو ہریرہ نے بهی کہا کہ: ميں نے بهی رسول خدا (ص) سے یہی بات سنی ہے۔
٢٨٢ ۔ بحار الانوار ميں : عمار، معاذ اور عائشہ کی روایت ميں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا
(ص) سے منقول ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف نظر کرنا عبادت ہے ان کا نام اور
فضائل ذکر کرنا بهی عبادت ہے اور کسی بندہ کا ایمان قابل قبول نہيں ہوتا مگر ان کی ولایت و
محبت کی وجہ سے اور ان کے دشمنوں سے برائت و بيزاری اختيار کرنے سے۔
٢٨٣ ۔ “وفيہ نقلاً عن بشارة المصطفیٰ لشيعة المرتضیٰ باسنادہ عن جابر بن عبد اللّٰہ
) قال: قال رسول اللّٰہ (ص) زیّنوا مجالسکم بذکر علیّ بن ابی طالب عليہ السلام ” ( ١
علامہ مجلسی نے بحار ميں بشارة المصطفیٰ سے اپنی سند کے ساته جابر ابن عبد
الله انصاری سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اپنی مجلسوں کو
علی ابن ابی طالب - کے ذکر سے زینت دو، یعنی حضرت علی - کے نام فضائل و مصائب اور ان
کی مظلوميت کو ذکر کرنا ہر حالت ميں مجالس کی زینت ہے۔
مولف کہتے ہيں: نہ صرف یہ کہ علی ابن ابی طالب - کا ذکر عبادت ہے بلکہ پيغمبر اکرم
محمد و آل محمد بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم حضرت حجة ابن الحسن العسکری عجل
الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ذکر جو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٨ ، ص ٧٨ ۔ (
اہل بيت عصمت و طہارت کے ہر دل عزیز پهول ہيں بالا ترین عبادت ہے۔
٢٨۴ ۔ “وفی البحا ر نقلًا عن روضة والفضایل بالاسناد یرفعہ عن ام الموٴمنين امّ سلمة
رضی اللّٰہ عنها انّها قالت سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول : ما قوم اجتمعوا یذکرون فضل علی بن
ابی طالب عليہ السلام الا هبطت عليهم ملائکة السماء حتیٰ تحفّ بهم فاذا تفرّقوا عرجت
الملائکة الیٰ السّماء فيقول لهم الملائکة انّا نشمّ من رایحتکم مالا نشمّة من الملائکة فلم نرا
رائحة اطيبت منها فيقولون کنّا عند قوم یذکرون محمّداً واهل بيتہ فعلق فينا من ریحهم فتعطّرنٰا
فيقولن اهبطوا بنا اليهم فيقولون تفرقوا ومضی کل واحد منهم الی منزلة فيقولون اهبطوا بنا حتیٰ
) نتعطر بذٰلک المکان ” ( ١
بحارميں روضہ اور فضائل سے اپنے اسناد کے ساته مرفوعاً ام المومنين حضرت ام سلمہ
سلام الله عليہا سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے
سنا ہے: کوئی بهی قوم آپس ميں جمع ہو اور حضرت علی ابن ابی طالب - کی فضيلت و منقبت
کا ذکر کرے تو ان کے پاس آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہيں یہاں تک کہ ان کے اطراف کو اپنے
احاطہ ميں لے ليتے ہيں اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہيں تو فرشتے آسمان کی طرف
جاتے ہيں اور وہاں کے موجودہ فرشتے ان سے عرض کرتے ہيں کہ :ہم آپ لوگوں سے ایسی
خوشبو محسوس کر رہے ہيں جو دوسرے ملائکہ ميں نہيں پائی جاتی اور ہم نے اتنی پاک و
پاکيزہ خوشبو اب تک نہيں دیکهی تهی تو فرشتے جواب دیں گے: ہم ایک قوم کے پاس تهے جو
محمد اور ان کے اہل بيت کے ذکر ميں مشغول تهی ہم ان کی خوشبو اور عطر سے معطّر ہوئے
ہيں تو وہ فرشتے کہيں گے: ہمارے ساته آؤ اور ان کے پاس چليں ، تو وہ کہيں گے : ہر ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٩ ، ص ١٩٩ ۔ (
دوسرے سے جدا ہوجائے او ر ان ميں سے ہر ایک جب اپنے گهر کی طرف واپس جائے گا تو اہل
خانہ اس سے کہيں گے: ميرے ساته چلو تاکہ ہم بهی اس جگہ کی خوشبو اور عطر سے معطّر
ہوجائيں۔
٢٨۵ ۔ موٴلف کہتے ہيں: ہم زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں بهی پڑهتے ہيں “ باٴبی انتم وامّی
ونفسی واهلی ذکرکم فی الذّاکرین واسمآئکم فی الاسمآء واجسادکم فی الاٴجساد وارواحکم
فی الاٴرواح وانفسکم فی النّفوس وآثارکم فی الآثار وقبورکم فی القبور فما احلی اسمآئکم
) واکرم انفسکم واعظم شاٴنکم الخ” ( ١
ميرے ماں باپ ، ميری جان و مال اور ميرے اہل سب آپ پر قربان ۔ آپ کا ذکر ذاکرین ميں
ہے۔ آپ کا نام ناموس ميں نمایاں ہے آپ کے اجساد، جسموں ميں، آپ کی روحيں، ارواح ميں،
آپ کے نفس، نفوس ميں۔ آپ کے آثار، آثار ميں ۔ آپ کی قبریں، قبروں ميں نمایاں ہيں کيا شيریں
آپ کے نام ہيں کيا کریم آپ کا نفس ہے اور کيا عظيم آپ کی شان ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ حضرت ائمہٴ اطہار کا مقدس وجود صفاتِ جميلہ اور انسانی
کمالات عاليہ اور خداوند سبحان کے منتخب افراد کے اوصاف کا حامل ہے اور ان کے فضائل و
مناقب بے شمار ہيں کيوں کہ وہ عظيم ہستياں خود جن کی تعبير ميں وہ کلمات الٰہی ہيں اور
کلمات الٰہی بهی جيسا کہ ذکر ہوا کہ تمام دریا اور سمندر کے پانی روشنائی اور دنيا بهر کے
درخت قلم بن جائيں اور تمام جس و انس لکهنے والے بن جائيں تو دریا اورسمندر خشک
ہوجائيں گے ليکن ان کے فضائل و مناقب ختم نہيں ہوں گے۔
کتاب فضل ترا آب بحر کافی نيست کہ تر کنی سر انگشت و صفحہ بشماری
آپ کے فضائل و مناقب کی کتاب لکهنے کے ليے سمندر کا پانی بهی ناکافی ہے ، تاکہ
تم سرِ انگشت کو تر کرو اور صفحات کو شمار کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مزار ابن مشہدی، ص ۵٣٠ ۔ (
|