قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

۵۔ دائمی حيات
۵۔ “ القرآن حیٌّ لا یموت والحجّة حیٌّ لایموت الیٰ یوم القيٰمة“
قرآن مجيد زندہ و پائندہ ہے اور کبهی بهی فنا پذیر نہيں ہوگا حجّت الٰہی امام زمانہ - بهی زندہ و پائندہ ہيں جب تک خدا چاہے۔
٢۴٣ ۔ “روی العيّاشی باسنادہ عن ابی جعفر عليہ السلام فی قولہ تعالیٰ <لکلّ قوم هاد>انّہ قال: (علی) الهادی ومنّا الهادی ، فقلت فانت جعلت فداک الهادی قال صدقت انّ القرآن حیٌّ لا یموت والآیة حيّة لا تموت فلو کانت الآیة اذا نزلت فی الاٴقوام وماتوا مات الآیة لمات القرآن ، ) ولکن هی جاریة فی الباقين کما جرت فی الماضين ” ( ١
عياشی نے اپنی تفسير ميں اپنی سند کے ساته امام محمد باقر - سے آیہٴ کریمہ <وَ لِکُلّ قومٍ هادٍ> (اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی ہوتا ہے) کی تفسير ميں نقل کيا ہے کہ حضرت نے فرمایا: علی - ہدایت کرنے والے ہيں اور وہ ہم ميں سے ہادی ہيں۔ ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان! آپ بهی ہادی ہيں؟ فرمایا: تم نے سچ کہا یقينا قرآن زندہ ہے اور اسے موت نہيں آئے گی یہاں تک کہ اس کی آیت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ٢، ص ٢٠٣ ۔ (
بهی زندہ ٴ جاوید ہے، اگر ایک آیت اقوام و ملل کے حق ميں نازل ہوئی ہو اور ان کی وفات اور مرنے کے بعداگر آیت کو موت آجاتی تو یقينا قرآن بهی فنا ہوجاتا ليکن وہ آیت دوسروں کے حق ميں جاری و ساری ہوتی ہے جس طرح دوسروں کے حق ميں جاری و ساری تهی۔
٢۴۴ ۔ “وعن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام : انّ القرآن حیٌّ لم یمت وانّہ یجری کما یجری الليل ) والنهار ، وکما یجری الشّمس القمر ، ویجری علیٰ آخرنا کما یجری علیٰ اوّلنا” ( ١ امام جعفر صادق - سے روایت کی گئی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: قرآن زندہ ہے اور اسے موت نہيں آتی ہے اور وہ جاری و ساری ہے جس طرح کہ شب و روز جاری و ساری ہيں اور اسی طرح کہ جيسے آفتاب و ماہتاب سير اور حرکت کرتے ہيں قرآن بهی اس طرح ہمارے آخر پر جاری ہے جس طرح ہمارے اول پر جاری ہے۔
٢۴۵ ۔ “ ولو انّ الآیة اذا نزلت فی قوم ثمّ مات اولئٓک مات الآیة لمابقی من القرآن شی ولٰکنّ القرآن یجری اوّلہ علیٰ آخرہ ما دامت السّموات والاٴرض ، ولکلّ قوم آیة یتلوها هم منها من ) خير و شرٍّ” ( ٢
تفسير قمی ميں ذکر ہوا ہے: اگر ایک آیت کسی قوم کے درميان نازل ہوئی ہو اور ایک مدت کے بعد اس قوم کے افراد مرجائيں تو ان کے مرنے کے بعد آیت کو بهی موت آجائے اور وہ ختم ہوجائے تو پهر قرآن ميں سے کوئی چيز باقی نہيں رہے گی ليکن قرآن کی اول سے لے کر آخر تک سير اور حرکت دائمی ہے جب تک تمام آسمان اور زمين جاری و ساری ہيں اور ہر ایک قوم و ملت کے ليے آیت ہے کہ جس کی وہ لوگ تلاوت کرتے ہيں وہ لوگ اسی آیت سے یا خير ميں سے یا شر ميں ہيں۔ یعنی ہر بات اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣۵ ، ص ۴٠۴ ۔ (
٢(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ٢١ ۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ١٠ ۔ (
قوم کا اس آیت سے استفادہ کرنے پر موقوف اور وابستہ ہے یہ اگر اس طریقہ سے ہو جس طرح الله تعالیٰ نے اسے نازل کيا اور اس کے ارادہ کے مطابق عمل کيا تو وہ خير ميں ہيں اور اگر اپنی خواہشات نفسانی کے تحت تاویل و توجيہ کی اور اس پر عمل کيا تو وہ شر ميں ہيں۔ جيسا کہ اشارہ کيا جاچکا ہے کہ حضرت بقية الله الاعظم - صاحب العصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف بهی صبح قيامت تک زندہٴ جاوید ہيں جہاں تک الله تعالیٰ چاہے اپنی لازوال قدرت سے انہيں زندہ و باقی رکهے گا۔ آیات اور روایات اس معنی کی طرف صریحاً گویا ہيں اور ہم تيمناً و تبرکاً ان ميں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔
٢۴۶ ۔ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب ميں فرمایا: <وَإِذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَْلاَئِکَةِ إِنِّی ) جَاعِلٌ فِی الاْٴَرضِْ خَلِيفَةً > ( ١
خداوند سبحان مخلوقات کی خلقت شروع کرنے سے پہلے خليفہ معين کر رہا ہے، یہ خود مخلوقات کے درميان خليفہ کی موقعيت و اہميت کے ليے بہت ہی واضح و روشن دليل ہے۔ ،( ٢۴٧ ۔ امام جعفر صادق - نے بهی فرمایا: الحجة قبل الخلق ومع الخلق وبعد الخلق ( ٢ حجّت الٰہی کو (بدیہی طور پر چاہيے کہ) مخلوقات کی خلقت سے پہلے تخليق کے وقت اور مخلوقات کی خلقت کے بعد موجود ہونا چاہيے اس ليے کہ الله تعالیٰ حکيم ہے جب کبهی اپنی مخلوقات کو خليفہ اور اپنی حجّت سے پہلے خلق کرتا تو اسے مورد تلف قرار دیتا کہ یہ حکمت پروردگار کے تقاضے کے برخلاف ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول ہے: <اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ > ( ٣)کيا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کهلی دليل رکهتا ہے اور اس کے پيچهے اس کا گواہ بهی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٣٠ ۔ (
٢(۔ بصائر الدرجات، ص ۵٠٧ ۔ کافی، ج ١، ص ١٧٧ ۔ کمال الدین، ج ١، ص ۶، ص ٢٢١ ۔ ( ٣(۔ سورئہ ہود، آیت ١٧ ۔ (
٢۴٨ ۔ “ وفی کمال الدّین للصدوق عليہ الرحمة باسنادہ عن ابی بصير ، عن ابی جعفر عليہ السلام فی قول اللّٰہ عزّوجل <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ ) مِنْکُمْ> قال: الائمة من ولد علی وفاطمة عليہما السلام الیٰ ان تقوم السّاعة ” ( ١ شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے کمال الدین ميں ابو بصير سے انہوں نے امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے آیہٴ کریمہ <اطيعوا اللّٰہ و اطيعوا الرّسول> کے معنی ميں فرمایا: وہ ائمہٴ اطہار ہيں جو اولاد علی و فاطمہ سے (ابتدائے خلقت سے) قيام قيامت تک ہيں۔
٢۴٩ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن عبد الرّحمن بن سليمان عن ابيہ عن ابی جعفر عليہ السلام عن الحارث بن نوفل قال: قال علی عليہ السلام لرسول اللّٰہ (ص) یا رسول اللّٰہ اٴمنّا الهداة اٴم من غيرنا ؟ قال : بل منّا الهداة ( الی اللّٰہ ) الیٰ یوم القيٰمة ، بنا استنقذهم اللّٰہ عزّوجل من ضلالة الشّرک ، وبنا یستنقذهم من ضلالہ الفتنة ، وبنا یصبحون اخواناً بعد ضلالة الفتنة کما بنا اصبحوا ) اخواناً بعد ضلالة الشّرک وبنا یختم اللّٰہ کما بنا فتح اللّٰہ ” ( ١ اس کتاب ميں عبد الرحمن ابن سليمان سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے امام محمد باقر - سے انہوں نے حارث ابن نوفل سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: حضرت علی - نے حضرت رسول خدا سے عرض کيا: یا رسول الله! ہدایت کرنے والے ہم ميں سے ہيں یا ہمارے علاوہ دوسرے افراد ہيں؟ فرمایا: ہدایت کرنے والے ہم ميں سے ہيں ابتدائے خلقت سے لے کرروز قيامت تک ، ہمارے وسيلہ سے الله تعالیٰ لوگوں کو گمراہی و شرک سے نجات دے گا اور ہمارے ہی ذریعہ آزمائشوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٢٨٨ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٢٨٨ ۔ (
٢(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٣٠ ۔ (
ميں ضلالت کے بعد بهی، ہمارے ہی ذریعہ شرک و ضلالت کے بعد ایک دوسرے کے بهائی ہوئے اور ہمارے ہی وسيلہ سے الله تعالیٰ ختم کرے گا جس طرح ہمارے ہی وسيلہ سے آغاز کيا تها۔
٢۵٠ ۔ “عن عبد اللّٰہ بن سليمان العامری ، عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: ما زالت الارض الّا وللّٰہ تعالیٰ ذکرہ فيها حجّة یعرف الحلال والحرام یدعوا الی سبيل اللّٰہ جلّ وعزّ ولا ینقطع الحجّة من الاٴرض الا اربعين یوماً قبل یوم القيٰمة ، فاذا رفعت الحجة اغلق باب التوبة ولن ینفع نفساً ایمانها لم تکن آمنت من قبل ان ترفع الحجّة اولئک شرار من خلق اللّٰہ وهم الّذین تقوم ) عليہم القيامة ” ( ١
عبد الله ابن عامری نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جب تک زمين اپنی جگہ ثابت و برقرار رہے گی اس ميں الله تعالیٰ کے ليے ایک حجّت ہے جو حلال و حرام کو پہچانتا ہے اور لوگوں کو الله کی طرف اور خدا کے راستے کی سمت دعوت دیتا ہے اور زمين پر حجّت کا سلسلہ ختم نہيں ہوگا مگر قيامت واقع ہونے سے چاليس دن پہلے، اور جب زمينِ خدا سے حجّت اڻهالی جائے گی تو توبہ کے دروازے بند ہوجائيں گ اور اس ایمان لانے والے کے ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہيں ہوگا جو حجّت الٰہی کے دفع ہونے کے بعد ہو۔ وہ لوگ مخلوقات خدا کے اشرار افراد ہيں اور قيامت انہيں لوگوں کے ضرر ميں قائم ہوگی۔ ليکن وہ روایات جو دلالت کرتی ہيں کہ زمين بغير حجّت کے باقی نہيں رہے گی دلالتِ التزامی بلکہ تضمنی طورپر دلالت کرتی ہيں کہ وہ لوگ قيام قيامت تک باقی رہيں گے۔ ٢۵١ ۔ “وفی کمال الدین : باسنادہ عن ابی حمزة الثمالی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قلت لہ اتبقی الاٴرض بغير امام ؟ قال: لو بقيت الاٴرض بغير امام ساعة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ۵٠۴ ۔ دلائل الامامة، ص ۶٣۶ ۔ (
) لساخت ” ( ١
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب کمال الدین ميں ابو حمزہ ثمالی سے انہوں نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے باقی رہے گی؟ فرمایا: اگر زمين ایک ساعت بهی بغير امام کے ہو تو وہ اپنے اندر نگل لے گی۔ ٢۵٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابراہيم بن ابی محمود قال: قال الرّضا عليہ السلام : نحن حجج اللّٰہ فی خلقة وخلفائہ فی عبادہ ، وامنآوٴہ علیٰ سرّہ ، ونحن کلمة التقویٰ ، والعروة الوثقیٰ ، ونحن شهدآء اللّٰہ واعلامہ فی بریّتہ ، بنا یمسک اللّٰہ السّموات الاٴرض ان تزولا ، بنا ینزل الغيث وینشر الرّحمة ، ولا تخلو الاٴرض من قائم منّا ظاہر اوخاف ، لو خلت یوماً بغير حجة لما جت باهلها ) کما یموج البحر باٴهلہ ” ( ٢
نيز اسی کتاب ميں ابراہيم ابن ابو محمود سے منقول ہے کہ حضرت امام رضا - نے فرمایا: ہم خدا کی مخلوق کے درميان حجج اور خلفاء ہيں اور اس کے بندوں کے درميان نمائندے ہيں اور اس کے راز کے امانت دار ہيں، ہم کلمہٴ تقویٰ ہيں اور (ایمان کا) محکم دستہ ہيں ہم الله کے شہداء اور اس کی مخلوق ميں نشانياں ہيں، ہمارے وسيلے سے الله تعالیٰ آسمانوں اور زمين کو زوال اور فنا پذیر ہونے سے محفوظ رکهتا ہے اور ہماری وجہ سے رحمت کی بارش نازل ہوتی ہے اور وہ ہر جگہ پہنچتی ہے اور روئے زمين ہمارے قائم (آل محمد (ص)) سے خالی نہيں ہوگی خواہ وہ ظاہر ہو یا مخفی اور پس پردہ ہو اگر زمين ایک دن بهی بغير حجّت کے باقی رہ جائے تو دریا کی موج کی طرح اپنے ساکنوں کو اپنی گرفت ميں لے لے گی اور غرق کردے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٠١ ۔ غيبت نعمانی، ص ١٣٨ ۔ غيبت طوسی، ص ٢٢٠ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٠٢ ۔ معجم احادیث الامام المہدی -، ج ۵، ص ( ٣۶۵ ۔
٢۵٣ ۔ بصائر الدرجات ميں ابو حمزہ ثمالی سے منقول ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: خدا کی قسم ! جس وقت حضرت آدم - کی روح قبض ہوئی، زمين کبهی خالی نہيں رہی، مگر یہ کہ اس ميں ایک امام موجود تها کہ جس کے ذریعہ لوگ خدا کی طرف ہدایت پاتے ہيں اور وہ روئے زمين ميں اپنی مخلوقات پر حجّت خدا ہے زمين کبهی بهی امام جو خدا کے بندوں پر حجّت الٰہی ہوتا ہے اس سے خالی نہيں رہتی۔
٢۵۴ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحسين بن ابی العلا قال: قلت لابی عبد اللّٰہ عليہ السلام اتترک الاٴرض بغير امام ؟ قال: لا فقلنالہ : تکون الارض وفيها امامان قال لا الّا امام صامت لا یتکلم ) ویتکلم الذی قبلہ ” ( ١
مزید اسی کتاب ميں حسين ابن ابو العلا سے منقول ہے ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق سے عرض کيا: کيا زمين بغير امام کے باقی رہ سکتی ہے؟ فرمایا: نہيں، ميں نے عرض کيا: کيا روئے زمين پر دو امام رہ سکتے ہيں؟ فرمایا: نہيں مگر یہ کہ ایک صامت ہو او ر امام کے عنوان سے گفتگو نہ کرے اور دوسرے کا تابع ہو اور وہ امام جو اس سے پہلے ہے بہ عنوان امام گفتگو کرے گا۔
٢۵۵ ۔ “وفيہ ایضاً باسنادہ عن یعقوب السراج قال قلت لابی عبد اللّٰہ عليہ السلام تخلو الارض من عالم منکم حیٌّ ظاہر تفرع اليہ النّاس فی حلالهم وحرامهم فقال: یا ابا یوسف لا انّ ذٰلک لبيّن فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ فقال : <یا ایّها الّذین آمنوا اصبروا وصابروا><عدوّکم ممّن یخالفکم ) > <ورابطوا> امامکم واتقوا اللّٰہ فيما یاٴمرکم وفرض عليکم ” ( ٢ نيز اسی کتاب ميں یعقوب ابن سراج سے منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق سے عرض کيا: کيا زمين قائم آل محمد سے خالی رہ سکتی ہے جو زندہ اور ظاہر ہو اور لوگ اپنے حلال و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ۵٠۶ ۔ (
٢(۔ مختصر بصائر الدرجات، ص ٨۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ۵١ ۔ (
حرام دریافت کرنے کے ليے اس کی طرف رجوع کریں؟ تو حضرت نے فرمایا: نہيں، اے ابو یوسف! کيوں کہ یہ معنی قرآن ميں واضح طور پر بيان ہوا ہے کہ: اے ایمان والو! دشمنوں اور مخالفين سے جو کچه تم تک پہنچے صبر کرو اور اپنے امام کے ساته رابطہ رکهے رہو اور جو کچه تمہيں حکم دے الله سے ڈرواور فرماں برداری کرو۔
٢۵۶ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن حمزة بن الطّيّار عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال لو بقی ) اثنان لکان احدهما الحجّة علی صاحبہ ” ( ١
کافی ميں کلينی نے حمزہ ابن طيار سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اگر روئے زمين پر مخلوقاتِ خدا ميں سے جب کبهی صرف دو افراد باقی رہيں تو ان ميں سے ایک دوسرے پر خدا کی حجّت ہوگا۔ ٢۵٧ ۔ “وفيہ باسنادہ عن الحسن بن موسیٰ الخشاب ، عن جعفر بن محمد عن کرام قال: قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام :لو کان النّاس رجلين لکان احدهما الاٴمام وقال: آخر من یموت الامام
) لئّلا یحتج احد علی اللّٰہ عزّوجلّ انہ ترکہ بغير حجّة اللّٰہ عليہ ” ( ٢
نيز اسی کتاب ميں حسن ابن موسی خشاب سے جعفر ابن محمد سے انہوں نے آبائے کرام سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: اگر تمام لوگوں ميں سے صرف دو افراد باقی ہوں تو ان ميں سے ایک امام ہوگا اور فرمایا: آخر ميں جس کا انتقال ہوگا وہ امام ہوگا تاکہ کسی بندہ کو خدائے بزرگ و برتر پر اعتراض اور احتجاج کی مجال باقی نہ رہے کہ الله تعالیٰ نے انہيں بغير حجّت کے کيوں چهوڑ دیا تها۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٨٠ ۔ (


۶۔ خاتم
۶۔ القرآن آخر کتب السّماویة : والحجّة خاتم الاوصيآء وآخر السّفرآء قرآن مجيد آسمانی کتابوں ميں سے آخری کتاب ہے اور حضرت حجّت - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف خاتم الاوصياء اور الٰہی پيغمبروں ميں سے آخری سفير ہيں۔ مسلمانوں کا عقيدہ یہ ہے کہ وہ آسمانی کتابيں جو الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے پيغمبروں پر نازل ہوئيں وہ ایک سو چودہ کتابيں ہيں۔
پچاس کتاب حضرت آدم اور شيث # پر، تيس کتاب حضرت نوح - پر، بيس کتاب حضرت ابراہيم خليل الله - پر اور دس کتاب بقيہ تمام انبياء پر۔
کتاب زبور حضرت داؤد - پر نازل ہوئی۔
کتاب توریت حضرت موسیٰ - پر نازل ہوئی۔
کتاب انجيل حضرت عيسیٰ ابن مریم - پر نازل ہوئی۔
) اور کتاب قرآن حضرت خاتم الانبياء حضرت محمد ابن عبد الله - پر نازل ہوئی۔ ( ١ ليکن نازل شدہ صحيفے مندرجہ ذیل ہيں: حضرت آدم - کے صحيفے ميں اکيس صحيفے، حضرت ابراہيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ لغت نامہ دهخدا، بہ نقل تاریخ بلعمی بہ نقل فرہنگ فارسی، ڈاکڻر محمد معين۔ (
کے صحيفے ميں دس صحيفے، حضرت شيث - کے صحيفے ميں انتيس صحيفے اور حضرت ) موسیٰ -کے صحيفے ميں دس صحيفے نازل ہوئے تهے۔ ( ١

حضرت موسیٰ - کی ولادت اور نزولِ توریت
تين ہزار آڻه سو بيس سال پہلے جو ایک ہزار آڻه سو سينتيس سال حضرت عيسیٰ - کی ولادت سے پہلے اور دو ہزار چار سو پينسڻه سال حضرت خاتم الانبياء - کی ہجرت سے پہلے وليد ابن مصعب (وہی مشہور فرعون) کی سلطنت و حکومت بلکہ خدا کے زمانہ ميں جو ایران کے قدرت مند بادشاہ ضحاک تازی کا ہم عصر تها حضرت موسیٰ بن عمران - کی مصر ميں ولادت ہوئی ( ٢)۔
حضرت کے ہاتهوں قبطی کے قتل ہونے کے بعد (جو ایک اسرائيلی مظلوم کو چاہتا تها کہ بے گاری کے ليے جائے تو وہ حضرت موسیٰ - کے پاس پناہ گزیں ہوا) ناچار ہوکرفرار کرکے شہر مدین گئے اور دس سال حضرت شعيب - پيغمبر کی خدمت ميں زندگی بسر کی اور جب آپ کی عمر مبارک کے تينتاليس سال اور سينتيس دن گزر گئے تو وادی ایمن ميں نبوت کے بلند درجہ پر فائز ہوئے۔
اور ایک سو چهبيس سال عمر گزارنے کے بعد بهی حضرت یوشع ابن نون کو اپنا جانشين معين کرنے کے بعد کوہ تيہ ميں رمضان المبارک کے مہينے ميں رحمت الٰہی سے جاملے۔ تراسی سال کی مدت نبوت ميں بنی اسرائيل کی بہت عظيم خدمات انجام دیں: ظلم اور ظالمين (فرعون اور قبطيوں) کی بنيادوں کو اکهاڑ پهينکا، شرک و کفر کو برطرف کيا لوگوں کو شرک و کفر سے صراط مستقيم اور توحيد کے راہ راست پر لے آئے اور اپنا عظيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ لغت نامہ دهخدا، بہ نقل الفہرست ابن ندیم۔ (
٢(۔ علامہ سلطان الواعظين عليہ الرحمہ کی مکمل تحقيق کے مطابق، انہوں نے اپنی کتاب ( صد مقالہ کے مقالہ سوم ، ص ۴ ميں تحریر کيا ہے۔
ترین قيمتی گوہر بطور یادگار چهوڑا جو بنی اسرائيل کے ليے باعث سرفرازی اور اسباب سعادت قرار پایا اور وہ مقدس کتاب توریت اور عظيم الواح و صحيفے تهے جو طور سينا ميں چاليس دن کی ریاضت کے بعد عالمِ غيبت سے ان پر نازل ہوئے اور اس کو ایک صندوق (عہد نامی صندوق) ميں مخفی رکهنے کا حکم دیا اور یہ کہ ہر سات سال ميں ایک مرتبہ مقدس عہد کے دن باہر لائيں اور بنی اسرائيل کے ليے قرائت کریں اور اس صندوق کو بيت المقدس ميں قرار دیں تاکہ دشمنوں کی دست رس سے محفوظ رہے ، ليکن افسوس یہ ہے کہ حضرت موسیٰ -نے اس مقدس توریت کی حفاظت کے بارے ميں اس قدر تاکيد کی مگر آج اس کا کوئی نام و نشان باقی نہيں ہے۔ اور یہودیوں کے ہاتهوں ميں یہ موجودہ توریت اس بنا پر جو کچه خود وہ لوگ معتقد ہيں اور اپنی کتابوں ميں تحریر کی ہيں وہ الواح و صحيفے اور توریت کے اسفار خمسہ جو حضرت موسیٰ - پر نازل ہوئے ہرگز موجود نہيں ہيں اور اس توریت کی حضرت موسیٰ - سے متصل سند کلی طور پر منقطع ہے یقينی طور پر نہيں سمجها جاسکتا کہ کس زمانہ سے صندوق عہد ميں موجودہ نسخہ غائب ہوا ليکن قدر مسلم یہ ہے کہ حضرت سليمان سے پہلے اس توریت کا نسخہ غائب ہوا اس ليے کہ سفر ملوک کے آڻهویں باب کی نویں آیت ميں درج ہے کہ جب حضرت سليمان نے صندوق کو کهولا تو دو سنگی لوح کے علاوہ کہ جس پر احکام عشرہ درج تهے اس کے علاوہ ) کوئی دوسری چيز نہيں پائی۔ ( ١

حضرت عيسیٰ علی نبينا و آلہ و عليہ السلام کی ولادت اور صليب
دو ہزار چه سال پہلے حضرت عيسیٰ روح الله فلسطين (بيت المقدس) ميں اپنی ماں مریم بنت عمران سے بطور اعجاز اور خارق العادت ( ٢) طریقے سے پيدا ہوئے اور تيس سال کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ صد مقالہ سلطانی، ص ١۶ ۔ (
٢(۔ <إِنَّ مَثَلَ عِيسَی عِندَْ اللهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ کُن فَيَکُونُ> (آل عمران، ۵٩ )۔ ( عيسی کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ انہيں مڻی سے پيدا کيا اور پهر کہا ہوجا اور وہ ہوگيا۔
بعد مبعوث بہ رسالت ہوئے او لوالعزم کے درجہ پر فائز ہوئے اور ایک کتاب بہ نام انجيل حق تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائيل کے معاشرہ توریت کی تکميل اور ان کی ہدات کے ليے لائے۔ آپ کے زمانہٴ رسالت کے تين سال گزرنے کے بعد گروہ یہود اپنی انتہائی شقاوت و عناد کے درجہ پر پہنچ کر حضرت کے قتل کے درپے ہوئے،لہٰذا حواریوں (یعنی وہ خاص اصحاب جو بارہ افراد تهے) ایک غار ميں مخفی ہوئے ليکن تلاش و جستجو کرنے والے افراد مسلسل ان کے تعاقب ميں تهے اور انجام کار ميں حضرت کے شاگردوں اور حواریوں ميں سے اسخر یوٴطی نامی یہودی شخص نے یہودیوں سے تيس درہم چاندی ليا اور حضرت کے مکان کی نشان دہی کی۔
عجيب و غریب اچانک حملہ کے ساته حضرت کو گرفتار کيا اور بہت زیادہ آزار اور اذیت پہنچائی اور ایک معين جگہ مقيد کيا اور انہيں اپنے زیرِ نظر قرار دیا تاکہ کل عام لوگوں اور خود باشاہ کے سامنے انہيں قتل کردیں۔

حضرت عيسیٰ - کے مصلوب ہونے کے متعلق عيسائيوں کا عقيدہ
عيسائيوں کا عقيدہ اخبار اناجيل اور موجودہ رسائل کے مطابق یہ ہے کہ حضرت کو صليب دی گئی اور شقاوت اور شدید سختی کے ساته دار پر لڻکایا اور مصلوب اور دفن ہونے کے بعد زندہ ہوئے اور آسمان پر پہنچ گئے۔
ليکن قرآن مجيد کی آیات کی صراحت کے مطابق مسلمانوں کا عقيدہ یہ ہے کہ حضرت عيسیٰ - کو نہ قتل کيا گيا اور نہ سولی دی گئی ہے بلکہ دوسرے کو ان کی شبيہ بنا دیا گيا اس ليے کہ وہ شخص جو دقيق طور پر حضرت عيسیٰ - کی شبيہ تها اسے دار پر لڻکایا جيسا کہ آیہٴ کریمہ بهی اس معنی کی صراحت کرتی ہے: الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَمَا قَتَلُوہُ وَمَا صَلَبُوہُ وَلَکِن شُبِّہَ لَہُم وَإِنَّ الَّذِینَ اختَْلَفُوا فِيہِ لَفِی شَکٍّ مِنہُْ مَا لَہُم بِہِ مِن عِلمٍْ إِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوہُ ) یَقِينًا بَل رَفَعَہُ اللهُ إِلَيہِْ> ( ١
نہ انہيں قتل کيا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ دوسرے کو ان کی شبيہ بنا دیا گيا تها اور جن لوگوں نے عيسیٰ کے بارے ميں اختلاف کيا ہے وہ سب منزل شک ميں ہيں اور کسی کو گمان کی پيروی کے علاوہ کوئی علم نہيں ہے اور انہوں نے یقينا انہيں قتل نہيں کيا ہے بلکہ خدا نے اپنی طرف اڻهاليا ہے۔
حضرت عيسیٰ - کا زندان سے آسمان پر جانے کے بعد گروہ یہود جو ان کا اتباع کرنے والے تهے حد سے زیادہ غالب ہوگئے اور ایسے سخت حملے اور شدید صدمے پہنچائے کہ تمام عيسائی فرار اور مخفی ہوئے صحراؤں اور پہاڑوں ميں پوشيدہ ہوگئے اور یہودیوں نے اس مدّت ميں جو کچه انجيل کے نسخے حاصل کيے اسے نيست و نابود کردیا۔
خود عيسائيوں کے قول کے مطابق بغير کتاب کے تهے، بغير کتاب ہونے کی مدت اتنی طویل ہوئی کہ ان ميں سے ایک گروہ کلی طور پر اصل انجيل کا انکار کر بيڻها اور کہا کہ حضرت عيسیٰ - بالکل انجيل نامی کوئی کتاب نہيں لائے ہيں!
چنانچہ عيسائيوں کے اکابر علماء کا ایک گروہ جيسے جيروم وارجن مشہور عيسائی مفسرین نيز کنٹ ڻولسڻوی روسی نے اپنی کتاب کے مقدمہ ميں جو انجيل ڻو لسڻوی کے نام سے مشہور ہے کہتا ہے-: انجيل حضرت عيسیٰ کے زمانہ ميں نہيں تهی بلکہ زمانہٴ عيسیٰ کے برسوں بعدحواریوں پر الہام کی گئی اور ان کے ذریعے تصنيف کی گئی نيز اپنی کتاب کے مقدمہ ميں کہتا ہے: ہمارے زمانہ کی موجودہ اناجيل کی حضرت عيسیٰ - سے متصل سند نہيں پائی جاتی بلکہ حضرت عيسیٰ کے چار سو سال بعد تحریر کی گئی ہے۔ ڻو لسڻوی مشہور روسی رائڻر اپنی تفسير کی چودہویں جلد ميں اناجيل اربعہ (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) کو ہر ایک کی تاریخ تاليف جو سب کی سب حضرت عيسیٰ - کے زمانہ کے مدتوں بعد تحریر کی گئی ہيں ذکر کيا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ١۵۶ ۔ (
ہے قارئين کرام کتاب صد مقالہ سلطان الواعظين شيرازی رحمة الله عليہ ميں ص ۴۶ کی طرف رجوع کریں۔
ليکن قرآن مجيد کے نزول کی تاریخ کے بارے ميں کہ وہ کس دن اور کس مہينہ ميں منصہ شہود پر آیا اسلامی دانشوروں کے درميان مختلف نظریات پائے جاتے ہيں جيسا کہ حضرت رسول اکرم (ص) کی مبعث کی تاریخ ميں بهی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ليکن چونکہ مسلّم طور پر قرآن مجيد آخری آسمانی کتاب ہے لہٰذا مختلف نظریات کی وضاحت سے ہم صرف نظر کرتے ہيں۔
٢۵٨ ۔ اکثر شيعہ روایات کے مطابق شب قدر ماہ رمضان کے آخری دس دنوں ميں قرار پائی ہے کہ ظنِّ قوی اور روایات کی شہادت کے مطالب ماہ رمضان کی تيئيسویں شب کو شب قدر جاننا چاہيے اور قرآن مجيد کے نزول کا آغاز بهی اسی دس رات ميں ہے۔ سيوطی نے در منثور ميں اس سلسلہ ميں ایک قابل توجہ روایت نقل کی ہے وہ رقم طراز ہيں: واثلہ ابن اسقع سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: توریت ماہ رمضان کے چه دن بعد ، انجيل ماہ رمضان کی تيرہویں تاریخ سے پہلے، زبور اڻهارہویں ماہ رمضان سے پہلے اور قرآن جوبيسویں ماہ رمضان سے پہلے نازل ہوا ہے اور یہ احادیث آیات قرآنی <شهر رمضان الذی انزل فيہ القرآن> ( ١) (ماہ رمضان یہ وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا ہے) اور آیہٴ کریمہ <انا انزلناہ فی ليلة القدر> (بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا) سے تطبيق کرتی ہيں۔ اسی جيسی حدیث کو ہم عصر دوستوں ميں سے ایک دوست نے کتاب جامع الاخبار و الآثار ج ١، ص ٧، ص ٨، حدیث نمبر ٢ اپنی تاليفات ميں حفص ابن غياث سے اور انہوں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٨۵ ۔ (
امام جعفر صاد ق - سے نقل کيا ہے: ٢۵٩ ۔ “ قال: ساٴلتة عن قول اللّٰہ تعالیٰ <شهر رمضان الذی انزل فيہ القرآن>انَّما انزل فی عشرین سنة بين اولہ وآخرہ
فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام نزل القرآن جملة واحدة فی شہر رمضان الٰی بيت المعمور ثمّ نزل فی طول عشرین سنة ثم قال: قال النّبی (ص) : نزلت صحف ابراہيم عليہ السلام فی اول ليلة من شهر رمضان وانزلت التّوراة لستٍّ مضمين من شهر رمضان وانزل الانجيل لثلاث عشر ليلة خلت من شهر رمضان وانزل الزّبور لثمان عشر خلون من شهر رمضان وانزل القرآن فی ثلاث و ) عشرین من شهر رمضان” ( ١
حفص ابن غياث نے امام جعفر صادق - سے ماہ رمضان ميں نزول قرآن کے بارے ميں دریافت کيا تو حضرت - نے فرمایا: قرآن صرف بيس برس کے عرصہ ميں اول سے آخر تک نازل ہوا ہے پهر امام صادق - نے فرمایا: مکمل قرآن تو ماہ رمضان ميں بيت المعمور ميں نازل ہوا تها پهر بيس سال کے عرصہ ميں حضرت رسول خدا (ص) پر نازل ہوتا رہا۔ پهر فرمایا کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت ابراہيم - پر صحيفے ماہ رمضان کی پہلی رات ميں نازل ہوئے اور توریت چه رمضان کو نازل ہوئی اور انجيل شبِ تيرہ ماہ رمضان کو، زبور اڻهارہ ماہ رمضان کو اور قرآن تيئيس ماہ رمضان کو نازل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ۶٢٨ ، حدیث ۶۔ بحار الانوار، ج ١٣ ، ص ٢٢٧ ، حدیث ۴۴ ۔ نور الثقلين ج ١، ص ( ٢٨۵ ، حدیث ٩، ص ۴٧٩ ، حدیث ۶٧٢ ۔ الجنة الواقيہ کفعمی ص ۵١٣ ۔