قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٣۔ نزول آسمانی
٣۔ “ القرآن منزّل من السّمآء : والحجّة منزّل نورہ قبل الخلق السّموات والارض“ قرآن آسمان سے نازل ہوا ہے اور حجّت کا نور بهی تمام آسمان اور زمين کی خلقت سے پہلے نازل کيا گيا۔
وہ آیات جو قرآن کو آسمان سے نازل ہونے کو بيان کرتی ہيں بہت ہيں ہم ان ميں سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کرتے ہيں:
الله تعالیٰ نے فرمایا: <الم ذَلِکَ الکِْتَابُ لاَرَیبَْ فِيہِ ہُدًی لِلمُْتَّقِينَ > یہاں تک کہ فرمایا: <وَإِن کُنتُم فِی رَیبٍْ مِمَّا نَزَّلنَْا عَلَی عَبدِْنَا فَاٴتُْوا بِسُورَةٍ مِن مِثلِْہِ وَادعُْوا شُہَدَائَکُم مِن دُونِ اللهِ إِن ) کُنتُم صَادِقِينَ > ( ١ الم یہ وہ کتاب ہے جس ميں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہيز گار لوگوں کے ليے مجسمہٴ ہدایت ہے۔ اگر تمہيں اس کلام کے بارے ميں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کيا ہے تو اس کا جيسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور الله کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٣ ۔ (
ہيں سب کو بلاؤ اگر تم اپنے دعوے اور خيال ميں سچے ہو۔ ) اور فرمایا: <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ > ( ١ حم۔ ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات ميں نازل کيا ہے ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تهے۔
) مزید الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ القَْدرِْ> ( ٢ بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا ہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا عَلَيکَْ القُْرآْنَ تَنزِْیلًا > ( ٣
حقيقت ميں ہم نے آپ پر قرآن تدریجی طور پر نازل کيا ہے۔ ) الله تعالیٰ کا یہ قول: <إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ > ( ۴
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: <وَیَومَْ نَبعَْثُ فِی کُلِّ اٴُمَّةٍ شَہِيدًا عَلَيہِْم مِن اٴَنفُسِہِم وَجِئنَْا ) بِکَ شَہِيدًا عَلَی ہَؤُلاَء وَنَزَّلنَْا عَلَيکَْ الکِْتَابَ تِبيَْانًا لِکُلِّ شَیءٍْ > ( ۵
اور قيامت کے دن ہم ہر گروہ کے خلاف انہيں ميں کا ایک گواہ اڻهائيں گے اور پيغمبر آپ کو ان سب کا گواہ بناکر لے آئيں گے اور ہم نے آپ پرکتاب نازل کی ہے جس ميں ہر شے کی وضاحت موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ دخان، آیت ٣۔ (
٢(۔ سورئہ طور، آیت ١۔ (
٣(۔ سورئہ هل اتی، آیت ٢٣ ۔ (
۴(۔ سورئہ حجر، آیت ٩١ ۔ (
۵(۔ سورئہ نحل، آیت ٨٩ ۔ (
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الفُْرقَْانَ عَلَی عَبدِْہِ لِيَکُونَ لِلعَْالَمِينَ نَذِیرًا>( ١
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے بر فرقان نازل کيا ہے تاکہ وہ سارے عالمين کے ليے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <طہ مَا اٴَنزَْلنَْا عَلَيکَْ القُْرآْنَ لِتَشقَْی إِلاَّ تَذکِْرَةً لِمَن یَخشَْی تَنزِیلاً ) مِمَّن خَلَقَ الاْٴَرضَْ وَالسَّمَاوَاتِ العُْلاَ> ( ٢
طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس ليے نہيں نازل کيا ہے کہ آپ اپنے کو زحمت ميں ڈال دیں یہ تو ان لوگوں کی یاد دہانی کے ليے ہے کہ جن کے دلوں ميں خوف خدا ہے۔ یہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس نے زمين اور بلند ترین آسمانوں کو پيدا کيا ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّہُ لَقُرآْنٌ کَرِیمٌ فِی کِتَابٍ مَکنُْونٍ لایَمَسُّہُ إِلاَّ المُْطَہَّرُونَ تَنزِیلٌ مِن ) رَبِّ العَْالَمِينَ > ( ٣
یقينا یہ بڑا محترم قرآن ہے جسے ایک پوشيدہ کتاب ميں رکها گيا ہے اسے پاک و پاکيزہ افراد کے علاوہ کوئی چهو بهی نہيں سکتا ہے یہ رب العالمين کی طرف سے نازل کيا گيا ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: <حم تَنزِیلٌ مِن الرَّحمَْانِ الرَّحِيمِ کِتَابٌ فُصِّلَت آیَاتُہُ قُرآْنًا ) عَرَبِيا لِقَومٍْ یَعلَْمُونَ > ( ۴
حم، خدائے رحمان و رحيم کی تنزیل ہے اس کتاب کی آیتيں تفصيل کے ساته بيان کی گئی ہيں عربی زبان کا قرآن ہے اس قوم کے ليے جو سمجهنے والی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فرقان، آیت ١۔ (
٢(۔ سورئہ طہ، آیت ١۔ ۴۔ (
٣(۔ سورئہ واقعہ، آیت ۴٠ ۔ (
۴(۔ سورئہ فصلت، آیت ٣۔ (
) نيز الله تعالیٰ کا قول ہے: <قُل نَزَّلَہُ رُوحُ القُْدُسِ مِن رَبِّکَ بِالحَْقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا> ( ١
تو آپ کہہ دیجيے کہ اس قرآن کو روح القدس جبرئيل نے تمہارے پروردگار کی طرف حق کے ساته نازل کيا ہے تاکہ صاحبان ایمان کو ثبات و استقلال عطا کرے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّا اٴَنزَلنَْا إِلَيکَْ الکِْتَابَ بِالحَْقِّ لِتَحکُْمَ بَينَْ النَّاسِ بِمَا اٴَرَاکَ اللهُ > ( ٢
ہم نے آپ کی طرف یہ برحق کتاب نازل کی ہے کہ لوگوں کے درميان حکم خدا کے مطابق فيصلہ کریں۔ اس کے علاوہ اور وہ آیات جو کلی طور پر قرآن کے آسمان سے نازل ہونے پر دلالت کرتی ہيں، ليکن اس کے نزول کی تاریخ اور کيفيت ذکر ہوگی۔ قرآن کے نزول کے آغاز کے بارے ميں محققين علماء اور مفسرین کے مختلف نظریات پائے جاتے ہيں، بعض مفسرین اس بات کا عقيدہ رکهتے ہيں کہ نزول قرآن کا آغاز نيمہٴ شعبان (حضرت بقية الله مہدی آل محمد - کی ولادت باسعادت کے موقع) پر ہوا اور سورئہ دخان کی آیات ميں مبارک شب سے مراد <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِيہَا یُفرَْقُ کُلُّ اٴَمرٍْ حَکِيمٍ > وہی نيمہٴ شعبان کی رات ہے۔
ليکن اکثر مفسرین اور محدثين کا عقيدہ یہ ہے کہ نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان ميں ہوا تها، یہاں تک کہ بعض نے اس کی رات اور دن کو بهی مشخص کيا ہے اور بعض دوسروں نے وقت معين کيے بغير ذکر کيا ہے۔
آیہٴ کریمہ <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةِ القَْدرِْ> کی صراحت کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ١٠٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ١٠۵ ۔ (
بطور مسلم بغير کسی شک وشبہ کے قرآن کے نزول کا آغازشب قدر ميں ہوا ہے اگرچہ خود شب قدر کے تعين ميں مختلف آراء و نظریات پائے جاتے ہيں۔ جيسا کہ ان ميں سے ایک شب نيمہٴ شعبان، پہلی، سترہویں، انيسویں، اکيسویں، تيئيسویں، چوبيسویں، پچيسویں،
ستائيسویں ماہ رمضان کی شب ميں احتمال دیا ہے، ليکن سورہ قدر ، دخان اور بقرہ کی آیات کی جمع بندی کے ساته ظن قوی حاصل ہوتا ہے کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان کی دس آخری راتوں ميں سے ایک ہے۔
سورئہ مبارکہ قدر ميں ہم پڑهتے ہيں <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةِ القَْدرِْ> بے شک ہم نے اسے شب قدر ميں نازل کيا ہے اس آیہٴ کریمہ ميں صرف علت ذکر نہ ہونے کی وجہ سے مرجع ضمير سے یہ استفادہ نہيں ہوتا کہ جو کچه شب قدر ميں نازل ہوا وہ قرآن ہے اور ، سورئہ دخان ميں ہم پڑهتے ہيں <إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِيہَا یُفرَْقُ کُلُّ اٴَمرٍْ حَکِيمٍ > کتاب مبين کی قسم ! کہ ہم نے اس کو مبارک رات ميں نازل کيا ہے ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تهے اس رات ميں تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ اس آیت ميں “انزلناہ” کی ضمير کتاب مبين جو قرآن ہے اس کی طرف پلڻتی ہے اور مبارک شب سے مراد وہی شب قدر ہے اس ليے کہ آیہٴ کریمہ فرماتی ہے: <شهر رمضان الّذی انزل فيہ القرآن هدی للناس و بيّنات من الهدیٰ و الفرقان> ماہ رمضان وہ مہينہ ہے جس ميں قرآن نازل کيا گيا ہے جو لوگوں کے ليے ہدایت ہے او اس ميں ہدایت اور حق و باطل کے امتياز کی واضح نشانياں موجود ہيں، روایات بهی اسی معنی کی تائيد کرتی ہيں۔ ٢٢٩ ۔ “ وفی الخصال باسنادہ عن حسّان بن مهران قال ساٴلت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام ) عن ليلة القدر فقال التمسها ليلة احدی و عشرین وليلة ثلث وعشرین” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخصال، ص ۵١٩ ۔ (
خصال ميں صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته حسان مہران سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق سے شب قدر کے بارے ميں دریافت کيا: تو فرمایا: اسے اکيسویں اور تيئيسویں شب ميں تلاش کرو۔
٢٣٠ ۔ بعض معصومين سے مروی روایات ميں لوگوں نے سوال کيا کہ ان دونوں شب ميں سے کوئی ایک شب قدر معين فرمائيں؟ تو حضرت - نے معين نہيں کيا بلکہ فرمایا: “ مٰا ایسر ليلتين فيما تطلب ” ( ١) کتنا آسان ہے کہ اپنے مطلوب کو ان دو راتوں ميں تلاش کرو۔ ٢٣١ ۔ یا یہ قول فرمایا: “ما عليک ان تفعل خيراً فی ليلتين ” ( ٢) تمہيں کيا ہوجائے گا کہ ان دو راتوں ميں اعمال خير انجام دو؟
بہت سی حدیثوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ شب قدر تيئيسویں شب ہے اور خود حضرات معصومين کے اعمال بهی اسی معنی کی نشان دہی کرتے ہيں: دعائم الاسلام ميں روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) ماہ رمضان کی آخری دس راتوں ميں اپنے بستر جمع کرليتے اور عبادت کے ليے اپنی کمر ہمت کو محکم طور پر بانده ليتے تهے اور تيئيسویں کی شب اپنے اہل خانہ کو بيدار رکهتے تهے اور جنہيں نيند آنے لگتی تهی تو ان کے چہروں پر آب پاشی کرتے تهے۔ اور حضرت فاطمہ زہرا # اس رات اپنے اہل خانہ ميں سے کسی کو سونے نہيں دیتی تهيں ان کے نہ سونے کا علاج غذا کم کهلانے سے کيا کرتی تهيں اور انہيں تيئيسویں کی شب بيدار رہنے کے ليے آمادہ کرتی تهيں نيز فرماتی تهيں:محروم وہ شخص ہے جو آج کی رات کی خير و خوبی سے محروم ہوجائے اور روایت ميں وارد ہوا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سخت مریض ہوگئے تهے جب تيئيسویں کی شب آئی تو اپنے چاہنے والوں کو حکم دیا کہ انہيں اڻها کر مسجد لے جائيں اور اس رات صبح تک مسجد ميں تهے اور ملائکہ و روح جو اعظمِ ملائکہ کہلاتے ہيں اسی شب قدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فروع کافی، ج ١، ص ٢٠۶ ۔ (
٢(۔ تہذیب الاحکام، ج ٣، ص ۵٨ ۔ (
ميں اذن پروردگار سے زمين پر نازل ہوتے ہيں اور امام زمانہ - کی خدمت بابرکت ميں مشرف ہوتے ہيں اور تمام مخلوقات کی تقدیروں کو امام کے سامنے پيش کرتے ہيں نزول کی کيفيت کو “فلجا لمن حاج بہ” کے فقرہ ميں ذکر کيا ہے وہاں رجوع کریں۔ مصلح جہانی امام زمانہ - کا یگانہ مقدس نو آور اور ان کے آباء و اجداد کرام کے انوار مقدسہ بهی قرآن کی طرح عالم بالا سے نازل ہوئے ہيں۔
٢٣٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن محمّد بن الفضيل عن ابی الحسن عليہ السلام : قال ساٴلتہ عن قول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ <یریدون ليطفوٴوا نور اللّٰہ باٴفواههم > قال یریدون ليطفوٴوا ولایة اميرالموٴمنين عليہ السلام باٴفواههم ، قلت قولہ <واللّٰہ متمّ نورہ > قال یقول : والله متمّ الامامة والامامة هی النّور وذٰلک قولہ تعالیٰ عزوجلّ <آمنوا باللّٰہ ورسولہ والنّور الّذی انزلنا > قال : النّور ) هو الامام ” ( ١

اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته محمد ابن فضيل سے انہوں نے حضرت ابو الحسن - سے نقل کيا ہے کہ راوی کا بيان ہے: ميں نے آیہٴ کریمہ <یُرِیدُونَ لِيُطفِْئُوا نُورَ اللهِ بِاٴَفوَْاہِہِم>ْ
٢) یہ لوگ چاہتے ہيں کہ نور خدا کو اپنے منه سے بجها دیں۔ کا معنی دریافت کيا تو حضرت نے ) فرمایا: چاہتے ہيں کہ امير المومنين - کی ولایت کو اپنی ناروا اور ننگين پروپيگنڈوں سے خاموش کردیں، ميں نے عرض کيا: کلام الٰہی “و اللّٰہ متم نورہ” اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے، سے کيا مراد ہے؟ فرمایا: خدائے بزرگ و برتر امامت کو پایہٴ تکميل تک پہنچانے والا ہے اور امامت وہی نور ہے اور برہان و بيان ہے جيسا کہ الله تعالیٰ کا قول ہے: <آمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ وَالنُّورِ الَّذِی اٴَنزَلنَْا > ( ٣) لہٰذا خدا اور رسول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ صف، آیت ٨۔ (
٣(۔ سورئہ تغابن، آیت ٨۔ (
اور اس نور پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کيا ہے، فرمایا: نور سے مراد وہی امام ہے۔
٢٣٣ ۔ “ وفيہ : علیّ بن ابراہيم باسنادہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قول اللّٰہ تعالیٰ <الذین یتبعون الرسول الالنبی الامّی الذی یجدونہ مکتوباً عندهم فی التوراة والا نجيل یاٴمرهم بالمعروف وینهٰهم عن المنکر ویحلّ لهم الطييّبات ویحرم عليهم الخبائث>الی قولہ <واتبعوا النّور الذی انزل معہ اولئک هم المفلحون>( ١) قال: النّور فی هذا الموضع (علی ) امير الموٴمنين )“ والائمّة عليہم السلام ( ٢
نيز اسی کتاب ميں علی ابن ابراہيم قمی نے اپنی سند کے ساته امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: آیہٴ کریمہ ميں جو لوگ رسول امّی کا اتباع کرتے ہيں جس کا ذکر اپنے پاس توریت اور انجيل ميں (جو آسمان سے نازل ہوئی ہے) لکها ہوا پاتے ہيں کہ وہ نيکيوں کا حکم دیتا ہے اور برائيوں سے روکتا ہے اور پاکيزہ چيزوں کو حلال قرار دیتا ہے اور خبيث چيزوں کو حرام قرار دیتا ہے یہاں تک کہ فرمایا: اتباع کرو اس نور کا جو اس پيغمبر کے ہمراہ نازل کيا گيا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہيں، فرمایا: یہاں نور سے مراد امير المومنين اور ائمہ کا نور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ١۵٧ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ (


۴۔ جاوداں
۴۔القرآن باقية ما دامت السّموات والارض: والحجّة باقية الیٰ ان یشآء اللّٰہ ان یبقيہ قرآن کریم جاودانی اور دائمی ہے جب تک کہ تمام آسمان اور زمين ثابت اور اپنی جگہ باقی ہيں اور کبهی بهی زوال پذیر نہيں ہوں گے اسی طرح حجّت خدا امام زمانہ - بهی ہميشہ زندہ و پائندہ ہيں کہ جب تک خدا چاہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ > ( ١
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ ) نيز الله تعالیٰ نے فرمایا: <تَبَارَکَ الَّذِی نَزَّلَ الفُْرقَْانَ عَلَی عَبدِْہِ لِيَکُونَ لِلعَْالَمِينَ نَذِیرًا> ( ٢
بابرکت ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کيا ہے تاکہ وہ سارے عالمين کے ليے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بن جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حجر، آیت ٩۔ (
٢(۔ سورئہ فرقان، آیت ١۔ (
خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا - <وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُوا وَاذکُْرُوا نِعمَْةَ اللهِ عَلَيکُْم إِذ کُنتُْم اٴَعدَْاءً فَاٴَلَّفَ بَينَْ قُلُوبِکُم فَاٴَصبَْحتُْم بِنِعمَْتِہِ إِخوَْانًا وَکُنتُْم عَلَی شَفَا حُفرَْةٍ مِن النَّارِ ) فَاٴَنقَْذَکُم مِنہَْا کَذَلِکَ یُبَيِّنُ اللهُ لَکُم آیَاتِہِ لَعَلَّکُم تَہتَْدُونَ > ( ١
اور تم سب الله کی رسی کو پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو اور الله کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس ميں دشمن تهے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بهائی بهائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تهے تو اس نے تمہيں نکال ليا اور الله اسی طرح اپنی آیتيں بيان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: <حم وَالکِْتَابِ المُْبِينِ إِنَّا جَعَلنَْاہُ قُرآْنًا عَرَبِيا لَعَلَّکُم تَعقِْلُونَ وَإِنَّہُ فِی ) اٴُمِّ الکِْتَابِ لَدَینَْا لَعَلِیٌّ حَکِيمٌ > ( ٢
حم، اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے عربی قرآن قرار دیا ہے تاکہ سمجه سکو اور یہ ہمارے پاس لوح محفوظ ہے نہایت درجہ بلند اور پُر از حکمت کتاب ہے۔ اس کے علاوہ دوسری آیات بهی ہيں جو تينوں منطقی دلالت (مطابقی، تضمنی اور التزامی) کے مطابق اس بات پر دلالت کرتی ہيں کہ قرآن مجيد الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا اور اس کتاب کی حفاظت ذات اقدس الٰہی پر ہی منحصر ہے۔ ليکن احادیث بہت زیادہ ہيں من جملہ ان ميں سے ایک حدیث ثقلين ہے۔
٢٣۵ ۔ “ وفی البصائر عن ابی جعفر عليہ السلام قال : قال رسول اللّٰہ (ص) : یا ایّها النّاس انّی تارک فيکم الثّقلين الثّقل الاکبر والثّقل الاٴصغر ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا ولا تتبدّلوا ، وانّی سئلت اللّطيف الخبير ان لا یفترقا حتّیٰ یردا علیّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت، ١٠٣ ۔ (
٢(۔ سورئہ زخرف، آیت ١۔ ۴۔ (
الحوض فاعطيت ذلک ، قالوا وما الثّقل الاکبر وما الثّقل الاصغر ؟ قال عليہ السلام : الثّقل الاکبر ) کتاب اللّٰہ سبب طرفہ بيداللّٰہ وسبب طرفہ بایدیکم والثّقل الاصغر عترتی واهل بيتی ” ( ١
بصائر الدرجات ميں امام محمد باقر - سے منقول ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو عظيم (گراں قدر) چيزیں چهوڑ رہا ہوں ان ميں سے ایک بڑی اور دوسری چهوڻی ہے اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو ہرگز ہر گز گمراہ نہ ہو گے اور اسے کسی چيز ميں تبدیل نہ کرنا ميں نے خدائے لطيف و خبير سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے ميرے پاس وارد ہوں اور الله تعالیٰ نے ميری درخواست قبول کی اور مجهے عطا فرمایا ہے، لوگوں نے دریافت کيا: یا رسول الله! وہ بڑی گراں قدر چيز کيا ہے؟ اور ان ميں چهوڑی کون سی شے ہے؟ فرمایا: بڑی گراں قدر شے وہی کتاب خدا ہے کہ جس کا ایک سرا خدا کے قبضہٴ قدرت ميں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں ہے، اور چهوڻی گراں قدر شے ميری عترت ہے جو ميرے اہل بيت ہيں۔
٢٣۶ ۔ “عن ابی ثابت مولی ابی ذرّ قال : سمعت ام سلمة تقول : سمعت رسول اللّٰہ (ص) فی مرضہ الّذی قبض فيہ یقول وقد امتلئت الحجرة من اصحابہ : ایّها النّاس یوشک ان اقبض سریعاً فينطلق بی وقد قدمت اليکم الا انّی مخلّف فيکم کتاب اللّٰہ ربّی عزّوجلّ وعترتی اهل بيتی ، ثم اخذ بيد علی عليہ السلام فرفعها فقال: هذا علی مع القرآن والقرآن مع علیٍّ خليفتان
) نصيران لا یفترقان حتی یردا علیّ الحوض فاسئلهما ماذا خلّفت فيهما ” ( ٢ ابو ثابت غلام ابوذر رضوان الله تعالیٰ عليہ سے روایت منقول ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے ام سلمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ۴٣۴ ۔ مختصر بصائر الدرجات، ص ٩١ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ٢٢ ، ص ۴٧۶ ۔ (
کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: ميں نے رسول خدا (ص) سے اس مرض الموت کی حالت ميں جب انہوں نے دنيا سے رحلت فرمائی سنا کہ اس موقع پر آپ کا حجرئہ مبارک اصحاب سے بهرا ہوا تها تو وہ فرما رہے تهے: اے لوگو! ميرے دنيا سے جانے کا وقت نزدیک آچکا ہے ميں تمہارے سامنے آیا ہوں جان لو ، آگاہ ہوجاؤ یقينا ميں تمہارے درميان (دو چيزیں بطور امانت چهوڑ رہا ہوں) اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، پهر حضرت علی - کا دست مبارک پکڑا اور بلند کرکے فرمایا: یہ علی قرآن کے ساته ہيں اور قرآن علی کے ساته ہے۔ یہ دونوں ميرے خليفہ اور ایک دوسرے کے ناصر و مددگار ہيں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے ميرے پاس وارد ہوں گے پهر ميں ان دونوں سے سوال کروں گا کہ تمہارے ساته کيا سلوک کيا گيا؟
حدیث ثقلين ان روایات ميں سے ہے جو رسول خدا (ص) سے شيعہ سنی طرق سے تواتر کے ساته نقل ہوئی ہے اور اس کے ذریعے استقلال اور اثبات کيا ہے کہ حضرت امير المومنين - پيغمبر (ص) کے بعد ولایت و خلافت کے زیادہ حق دار تهے۔ یہ مبارک حدیث شيعہ طرق سے مشہور بلکہ اس کا متواتر ہونا غير قابل انکار ہے، یہاں تک کہ طرق اہل سنت سے بهی کتب صحاح ستہ ميں مع معتبر اسانيد اور تواتر کے ساته نقل ہوئی ہے۔ ٢٣٧ ۔ “ففی مسند احمد بن حنبل بالاٴسناد عن ابی سعيد الخدری قال! قال رسول اللّٰہ (ص) انّی قد ترکت فيکم الثقلين ما ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا بعدی واحدهما اکبر من الاٴخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود من السّمآء الی الاٴرض وعترتی واهل بيتی الا وانّهما لن یفترقا حتیٰ یردا ) علی الحوض ( ١) وقد روی عن ابی بکر انہ قال عترة النّبی (ص) علی عليہ السلام ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مسند احمد ابن حنبل، ج ٣، ص ٢٧ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ١٠۶ ۔ (
احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب مسند ميں ابو سعيد خدری سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا: یقينا ميں تمہارے درميان دوعمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑنے والا ہوں ميرے بعد جب تک ان دونوں سے متمسک رہو گے اور مضبوطی سے تهامے رہو گے ہر گز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان ميں سے ایک دوسری سے زیادہ بڑی ہے ایک کتاب خدا ہے جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی ہے اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں جان لو کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس وارد ہوں۔ اور ابوبکر سے روایت ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا: نبی اکرم (ص) کی عترت علی - ہيں۔
٢٣٨ ۔ “ وفی صحيح مسلم عنہ (ص) ، انّہ قام خطيباً فينا بمآء یدعیٰ خماً بين مکة والمدینة فحمد اللّٰہ واثنیٰ عليہ ووعظ وذکّر ثمّ قال (ص) ایّها النّاس انّما انا بشر یوشک ان یاٴتينی رسول ربّی فاجيب ، وانّی تارک فيکم الثقلين احدهما کتاب اللّٰہ فيہ الهدیٰ والنّور فخذوا بکتاب اللّٰہ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب اللّٰہ تعالیٰ ورغّب فيہ ثمّ قال عليہ السلام واهل بيتی اذکّر کم ) اللّٰہ فی اهل بيتی اذکّرکم اللّٰہ فی اهل بيتی اذکّرکم اللّٰہ فی اهل بيتی” ( ١ صحيح مسلم ميں پيغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ : رسول خدا (ص) ہمارے درميان ایک پانی کے جمع ہونے کی جگہ جسے “خم” کہتے ہيں جو مکہ اور مدینہ کے درميان ہے کهڑے ہوئے اور خطبہ پڑها حمد وثنائے الٰہی کی موعظہ و نصيحت فرمائی پهر فرمایا: اے لوگو! ميں بهی صرف تمہاری طرح ایک انسان ہوں قریب ہے خدا کا فرستادہ (عزرائيل) ميرے پاس آئے اور ميں لبيک کہوں اب ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑے جا رہا ہوں ان ميں سے ایک الله کی کتاب ہے کہ جس ميں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ صحيح مسلم، ج ٧، ص ١٢٢ ، ط محمد علی صبيح۔ (
ہدایت اور نور ہے لہٰذا کتاب خدا سے متمسک رہو اسے مضبوطی سے پکڑے رہو پهر کتاب خدا کی بہت زیادہ ترغيب و توصيف بيان کی پهر فرمایا: دوسری چيز ميرے اہل بيت ہيں ميں خدا کے واسطے سے تمہيں اپنے اہل بيت کے بارے ميں یاد دہانی کراتا ہوں ، تمہيں اپنے اہل بيت کے بارے ميں یاد دہانی کراتا ہوں ، تمہيں اپنے اہل بيت کے بارے ميں یاد دہانی کراتا ہوں ، (خدا کے ليے ميرے اہل بيت کو مدّنظر قرار دینا) اس کلام کی تين مرتبہ تاکيد فرمائی۔
٢٣٩ ۔ “وعن کتاب المجمع بين الصّحاح الستة عن سنن ابی داوٴد وعن صحيح الترمذی باسنادهما عن رسول اللّٰہ (ص) قال: انّی تارک فيکم الثقلين ما ان تمسّکتم بهما لن تضلّوا بعدی احدهما اعظم من الاٴخر وهو کتاب اللّٰہ الممدود من السّمآء الی الاٴرض وعترتی اهل بيتی لن ) یفترقا حتّیٰ یردا علیّ الحوض فانظروا کيف تخلفونی فی عترتی ” ( ١
کتاب مجمع اور سنن ابو داؤد ميں صحيح ترمذی سے کہ ان دونوں نے اپنے اسناد کے ساته رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: یقينا ميں تمہارے درميان عمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑ رہا ہوں ميرے بعد جب تک ان دونوں سے متمسک رہو گے اور مضبوطی سے تهامے رہو گے ہرگز ضلالت و گمراہی ميں نہيں پڑو گے ان ميں سے ایک دوسرے سے زیادہ بڑی ہے اور وہ کتاب خدا ہے جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی رسی ہے اور دوسرے ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں اور یہ قرآن و اہل بيت ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے، دقت سے غور کرو کہ ميری عترت کے ساته تم کيسا سلوک کرتے ہو۔
٢۴٠ ۔ “ < واعتصموا بحبل اللّٰہ جميعاً > باسانيد قال: قال رسول اللّٰہ (ص) :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کنز العمال، ج ١، ص ٣٨١ ۔ (
ایّها النّاس انّی قد ترکت فيکم الثقلين ان اخذتم بهما لن تضلّوا بعدی احدهما اکبر من الآخر کتاب اللّٰہ حبل ممدود ما بين السماء والارض او قال الی الاٴرض وعترتی اهل بيتی الا وانهما لن یفترقا ) حتّی یردا علیّ الحوض ” ( ١
ثعلبی نے اپنی تفسير ميں آیہٴ کریمہ <واعتصموا بحبل اللّٰہ> کی تفسير ميں اپنے متعدد اسناد کے ساته ذکر کيا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: اے لوگو! یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑے جا رہا ہوں۔
دونوں ميرے خليفہ اور نمائندے ہيں جب تک ان دونوں کو باہم ليے رہو گے (اور عمل کرو گے) تو ہرگز ہرگز ميرے بعد گمراہ نہ ہوگے ان ميں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ کتاب الله ہے جو آسمان سے لے کر زمين تک کهنچی ہوئی رسی ہے اور دوسری چيز ميرے اہل بيت ہيں جان لو یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مير ے پاس وارد ہوں گے۔
٢۴١ ۔ “ وعن ابی الحسن الفقيہ فی ماٴة منقبة عن زید بن ثابت قال : قال رسول اللّٰہ (ص) انی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعلیّ بن ابی طالب افضل لکم من کتاب اللّٰہ لاٴنّہ مترجم ) لکم کتاب اللّٰہ” ( ٢
ابو الحسن فقير سے ابن شاذان نے کتاب مائة منقبة ميں زید ابن ثابت سے روایت نقل کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: ميں تمہارے درميان دو عمدہ گراں قدر چيزیں چهوڑے جارہا ہوں ایک الله کی کتاب اور دوسرے علی بن ابی طالب - اور وہ تمہارے ليے کتاب سے افضل ہيں کيوں کہ وہ کتاب الله کی تمہارے ليے ترجمانی کرنے والے ہيں۔
٢۴٢ ۔ “ وعن موفّق بن احمد ابو الموٴیّد اخطب خوارزمی بالاٴسناد عن مجاهد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ١٠٧ ۔ (
٢(۔ مائة منقبة، ص ١۴٧ ، بہ نقل مقتل الحسين خوارزمی، ص ٣٢ ۔ ارشاد القلوب، ص ٣٧٨ ۔ (
قال قيل لابن عبّاس ما تقول فی علیٍّ کرّم اللّٰہ وجهہ ؟ فقال: ذکرت والله احد الثقلين سبقنا بالشّهادتين وصلّی بالقبلتين وبایع البيعتين ( ١) وهو ابو السّبطين الحسن والحسين وردّت عليہ الشمس مرّتين ”( ٢) بعد ما غاب عن الثقلين وجرّد السّيف تارتين ( ٣) وهو صاحب الکونين فمثلہ ) “ فی الامة مثل ذی القرنين ، ذاک مولای علی بن ابی طالب عليہ السلام ( ۴
ابو الموٴید اخطب خوارزمی نے اپنی سند کے ساته مجاہد سے روایت کی ہے کہ ابن عباس سے روایت نقل کی گئی ہے کہ ان سے کہا گيا کہ آپ علی کرّم الله وجہ کی شان ميں کيا کہتے ہيں؟ کہا: خدا کی قسم !اس شخص کی گفتگو ہمارے درميان کی ہے جو ثقلين ميں سے ایک ہے اور کلمہٴ شہادتين یعنی وحدانيت خدا اور رسول خدا (ص) کی رسالت کی گواہی ميں سبقت کی ہے دو قبلوں (بيت المقدس اور بيت الله الحرام) کی طرف نماز پڑهی ہے دو دفعہ بيعت (بيعت رضوان اور بيعت ذو العشيرہ) کی ہے آپ دو فرزندوں حسن و حسين کے باپ ہيں، آپ کی خاطر دو مرتبہ سورج واپس لوڻا۔ جب وہ دونوں قبلہ سے غائب اور غروب ہوچکا تها اور دو مرتبہ تلوار کهينچی اور وہی صاحب کونين (دنيا و آخرت ہيں آپ کی مثل ائمہ ميں ذو القرنين کی مانند ہے اور وہ ہمارے آقا و مولا علی بن ابی طالب - ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ البيعتين:دو بيعت یعنی بيعت عشيرہ یہ وہی بيعت ہے جو حضرت امير المومنين نے رسول ( خدا (ص) کے ليے کی تهی جب انہوں نے کہا: کون ہے جو ميرے امر ميں ميرا شریک ہو اس وقت جب الله تعالیٰ نے آیت <و انذر عشيرتک الاقربين> اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ نازل ہوئی۔ اور بيعت غدیر (بيعت عشيرہ ابتدا ميں اور بيعت غدیر انتہا ميں) اور علی ان دونوں فضيلت ميں فرد فرید کی حيثيت رکهتے ہيں اور دونوں طرف کی فضيلت آپ کے حصر ميں آئی ہے۔ ٢(۔ ردّ الشمس۔ ایک مرتبہ سورج کا پيغمبر (ص) کی دعا سے مقام صهباء سے پلڻنا اور (
دوسری مرتبہ سرزمين بابل ميں۔
٣(۔ و جرّد السيف۔ ایک مرتبہ جنگ خيبر ميں مرحب کے مقابل ميں تلوار کهينچی اور دوسری ( مرتبہ جنگ خندق ميں عمرو بن عبدود کے مقابل ميں۔
۴(۔ مناقب خوارزمی، ص ٣٣ ۔ (