قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٢۔ علم و دانش / ۴٠
۴٠ ۔ و علما لمن وعیٰ (اور فکر کرنے والوں کے ليے علم ہے(
قرآن مجيد کو خدائے بزرگ و برتر نے مبداٴو معاد کا کامل علم قرار دیا ان لوگوں کے ليے جو اس کو محفوظ رکهنے اور غور وفکر کرنے کے ليے اپنے قلب کی طرح اسے اس ظرف کی طرح قرار دیتے ہيں جس ميں گراں قدر گوہروں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ٢١۴ ۔ طریحی رحمة الله عليہ نے فرمایا: (ائمہ کی ) حدیث ميں ذکر ہوا ہے : “لایعذّب ) اللّٰہ قلباً وعی القرآن ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وسائل الشيعہ، ج ۶، ص ١۶٧ ۔ امالی طوسی، ص ٧۔ مجمع البحرین، ج ۴، ص ۵٢۴ ۔ (
خداوند متعال اس قلب پر عذاب نہيں کرے گا جو قرآن کا حافظ اور محافظت کرنے والا ہے یعنی اگر قرآن کو ایمان و اعتقاد اور غور وفکر کرنے کے بعد درک کيا اور اس پر عمل کيا تو الله تعالیٰ اس کو عذاب نہيں کرے گا ليکن اگر کسی نے صرف ظاہری الفاظ کو حفظ کيا اور اس کے حدود و احکام کو ضائع کيا تو اس شخص پر حافظ اور اس کی محافظت کرنے والے کا اطلاق نہيں ہوگا۔
٢١۵ ۔ “وفی ثواب الاعمال عن الصادق عليہ السلام الحافظ للقرآن العامل بہ مع السّفرة ) الکرام البررة ” ( ١
ثواب الاعمال ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت - نے فرمایا: حافظ قرآن جو اس پر عمل کرنے والا بهی ہو خدا کے صاحب کرامت اور نيکو کار پيغمبروں کے ساته ہوگا۔ ٢١۶ ۔ دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہيں: خير القلوب او عاها ( ٢) بہترین قلوب سے مراد وہ قلب ہے کہ جس کی قرآن حفظ کرنے کی ظرفيت و صلاحيت زیادہ ہو۔ جو یقينا زیادہ علم قرآن جمع اور حفظ کرے اتنی ہی اس قلب کی ارزش ہوگی اور معيار بلند ہوگا۔ خدائے بزرگ و برتر نے مومنين کو ظرف اور قائم آل محمد امام زمانہ - اور تمام ائمہٴ اطہار کی ولایت و محبت کے استقرار کی جگہ قرار دی ہے وہ قلب و جگر جو اِن عظيم ہستيوں کی ولاء و محبت کا حامل ہو تو اس ميزان کے پلہ کا معيار اس کے دوسرے پلہ کے مقابل ميں یہاں تک کہ اگر تمام وہ چيزیں جن پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے رکه دیں تو وہی پہلا پلہ سنگين ہوگا ۔
٢١٧ ۔ “ فی الاختصاص باسنادہ عن محمّد بن اسماعيل بن عبد الرّحمٰن الجعفی قال دخلت انا وعمّی الحصين بن عبد الرّحمٰن علی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فاٴدناہ وقال ابن من هذا معک ؟ قال ابن اخی اسماعيل فقال رحم اللّٰہ اسماعيل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ثواب الاعمال، ص ١٠١ ۔ (
٢(۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ٢٠ ، ص ٢٧١ ۔ (
وتجاوز عنہ صیّ عملہ کيف خلّفتموة قال بخير ما آتاہ اللّٰہ لنا من موّدتکم فقال یا حصين لا تستصغر وا مودّتنا فانّها من الباقيات الصالحات قال یابن رسول اللّٰہ ما استصغرتها ولٰکن احمد اللّٰہ ) عليها ” ( ١ شيخ مفيد نے کتاب اختصاص ميں اپنی سند کے ساته محمد ابن اسماعيل ابن عبد الرحمن جعفی سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں اپنے چچا حصين ابن عبد الرحمن کے ہمراہ امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں شرف یاب ہوا تو امام - نے ميرے چچا کو اپنے پاس نہيں بڻهایا اور دریافت کيا: یہ جو تمہارے ساته ہے وہ کس کا فرزند ہے؟
ميرے چچا نے جواب دیا: وہ ميرے بهائی اسماعيل کا بيڻا ہے۔ تو امام - نے فرمایا: الله تعالیٰ اسماعيل کی مغفرت اور اس کی کوتاہيوں سے درگزر فرمائے، ان سے کس حالت ميں جدا ہوئے؟ ميرے چچا نے جواب دیا: اس سے بہترین حالت ميں کہ الله تعالیٰ نے آپ کی ولایت اس کو عطا کی تهی ہم نے انہيں ترک کيا۔
فرمایا: اے حصين! ہماری مودت و محبت ناچيز اور معمولی نہ شمار کرو کيوں کہ وہ باقيات الصالحات ميں سے ہے۔
ميرے چچا نے کہا: اے فرزند رسول (ص)!ميں نے اسے ناچيز اور معمولی نہيں شمار کيا ہے بلکہ ميں نے الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ليے زبان سے یہ جملہ کہا ہے۔ ائمہ - کی مودت و محبت بهی باقيات الصالحات اور آخرت کی ہلاکتوں سے نجات دلانے والی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اختصاص، ص ٨۶ ۔مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ٣۴٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢٧ ، ص ٧۵ ۔ (

۴١ ۔ بہترین کلام /٢
۴١ ۔ و حدیثاً لمن رویٰ (اور روایت کرنے والوں کے ليے بہترین حدیث ہے(
خدائے بزرگ و برتر نے قرآن کریم کو جو اس کی روایت کرتے ہيں بہترین حدیث قرار دیا ہے۔
شيخ بزرگوار امين الاسلام علامہ طبرسي نے اپنی تفسير ميں آیہٴ کریمہ <اللهُ نَزَّلَ اٴَحسَْنَ الحَْدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقشَْعِرُّ مِنہُْ جُلُودُ الَّذِینَ یَخشَْونَْ رَبَّہُم > ( ١) الله نے بہترین کلام اس کتاب کی شکل ميں نازل کيا ہے جس کی آیتيں آپس ميں ملتی جلتی ہيں اور بار بار دہرائی گئی ہيں کہ ان سے خوف خدا رکهنے والوں کے رونگڻے کهڑے ہوجاتے ہيں۔ کے ذیل ميں فرماتے ہيں: یعنی الله تعالیٰ نے قرآن کا حدیث نام رکها وہ اس ليے ہے کہ کلام خدا ہے اور کلام کو حدیث کہا جاتا ہے جيسا کہ پيغمبر (ص) کا بهی حدیث نام رکها گيا ہے۔ اور یہ کہ احسن حدیث کہا گيا ہے تو وہ اس ليے کہ اس ميں بہت زیادہ اعجاز اور فصاحت پائی جاتی ہے نيز ان تمام چيزوں پر مشتمل ہے کہ جس کے تمام مکلفين محتاج ہيں جيسے توحيد و عدل کی دليلوں کی یاد دہانی، احکام شرائع کا بيان وغيرہ موعظے ، انبياء کے قصے اور بشارت و نذارت۔
اور یہ کہ کتاب کو متشابہ کہا گيا تو وہ اس وجہ سے ہے کہ بعض آیات دوسری آیتوں سے مشابہت رکهتی ہيں اور ان ميں سے بعض آیات ، بعض دوسری آیات کی تصدیق کرتی ہيں بغير اس کے کہ اس ميں کوئی اختلاف یا تضاد پایا جاتا ہو۔ معادن و حی و تنزیل اور آسمان ولایت و امامت کے درخشاں ستاروں سے وارد شدہ حدیثيں خواہ موعظے، خطبات ، کلمات قصار وغيرہ ہوں یا فصاحت و بلاغت اور اعجاز کی حيثيت سے ہوں یا بشار ت نذارت اور احکام شرائع کی تفسير وضاحت کے نقطہٴ نظر سے یا فضائل و مناقب وغيرہ کے لحاظ سے ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ زمر، آیہ ٢٣ ۔ (
خوبصورت اور ایسی بہترین حدیث ہے کہ ہر بيان کرنے والے ،لکهنے اور سننے والے کے قلب کی پاکيزگی نيز ضمير کو روشن کرنے اور تزکيہ نفس کے ليے آمادہ کرتی ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے دل سے تمام قسم کی آلودگيوں کو ختم کرتی ہےں بالخصوص وہ احادیث جو حضرت خاتم الاوصياء قائم آل محمد بقية الله الاعظم امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت اور غيبت صغریٰ و کبریٰ کو بيان کرتی ہيں اسی طرح وہ روایات جو حضرت کے ظہور کی علامتوں پر مشتمل ہيں نيز امت کے نيک بخت بعض وہ افراد کہ جنہيں اس عزیز محمد اور یوسف فاطمی روحی و ارواح العالمين لہ الفداء سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا خواہ ان کے پدر بزرگوار حضرت امام حسن عسکری - کی زندگی ميں یا خواہ غيبت صغریٰ کے دوران یا خواہ غيبت کبریٰ کے زمانے ميں جو تمام افسردہ دلوں اور پژمردہ روحوں کے مخفی تمام درد کا بہترین اور عالی ترین درمان و علاج ہے۔
ان افراد کے واقعات کو پڑهنا یا سننا جو اس عظيم فيض پر فائز اور حضرت کا شرف حضور حاصل کيا ہے ایسا ولولہ انگيز اور دل افزا ہے کہ فطری طور پر شرف یابی کا ہيجان اور شوق پيدا کرتا ہے اور نتيجہ ميں نفس کی پاکيزگی اور تہذیب و اخلاق کا سبب ہوتا ہے۔ اب ہم تبرکاً ان ميں سے چند مورد کی طرف اشارہ کرتے ہيں۔
١۔ اس سلسلہ ميں کہ ائمہٴ اطہار کی احادیث انسانی قلوب کو تمام پليدگيوں اور آلودگيوں سے جو خطاؤں اور گناہوں سے نشاٴة پاتی ہيں صاف کرتی اور جلا بخشتی ہيں ہم ان ميں سے دو روایت بيان کرنے پر اکتفا کرتے ہيں۔
٢١٨ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن محمّد الحجّال عن بعض اصحابہ رفعہ قال قال رسول اللّٰہ (ص) تذاکروا وتلاقوا وتحدّثوا فانّ الحدیث جلآء للقلوب انّ القلوب لترین کما یرین السّيف ) جلآوٴهٰا ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص، ۴١ ۔ بحار الانوار، ج ١، ص ٢٠٢ ، ج ٢ ، ص ١۵٢ ۔ (
شيخ بزرگور علامہ کلينی رحمة الله عليہ نے کافی ميں حضرت رسول خدا (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: علم دین کا آپس ميں ذکر کيا کرو اور ایک دوسرے سے ملاقات کرو اور آپس ميں ہماری حدیثوں کے بارے ميں گفتگو کيا کرو کيوں کہ ہماری حدیثوں کا ذکر کرنا اور سننا قلوب کو جلا بخشتا ہے، کيونکہ قلوب نافرمانی کی وجہ سے کثيف اور زنگ آلود ہوجاتے ہيں جس طرح تلوار، اگر اپنے مخصوص تيل سے روغن مالی نہ کی جائے تو زنگ آلود اور خراب ہوجاتی ہے اس بنا پر شمشير کو اسلحہ کے تيل سے صيقل کرنے سے جلا ملتی ہے اسی طرح دلوں کو بهی ائمہٴ ہدی کی حدیثوں سے جلا ملتی ہے۔
٢١٩ ۔ “ وفی نہج البلاغہ من کلام امير الموٴمنين علیّ بن ابی طالب عليہ السلام قال ) عليہ السلام انّ هذہ القلوب تملّ کما تملّ الاٴبدان فابتغوا لها طرائف الحکم” ( ١ مولی الموحدین حضرت امير المومنين - کے من جملہ گُہر بار اقوال ميں سے ہے کہ آپ نے نہج البلاغہ ميں فرمایا: یہ دل اسی طرح ملول و خستہ اور اُکتا جاتے ہيں جس طرح بدن بہت سے کام زحمت سے ملول و خستہ اور اکتا جاتے ہيں جس طرح انسان کے بدن آرام اور شرعی رفع خستگی سے آرام و سکون حاصل کرتے ہيں اسی طرح دلوں کی ملالت و افسردگی دور کرنے کے ليے بهی بيش بہا حکمتيں تلاش کرو اور فطری بات ہے کہ کوئی بهی حکمت قرآنی آیات اور حضرات معصومين جو علم الٰہی کے خزانہ دار ہيں کی حدیثوں سے زیادہ ارزش مند اور پختہ مطالب پر مشتمل نہيں ہے۔
وہ افراد جو عالمی مصلح امام منتظر قائم آل محمد عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کا شرف حاصل کرچکے ہيں اور جو عالمی حکومت کے بهی حامل ہيں عالم طفلی اور غيبت صغریٰ کے زمانہ سے پہلے غيبت کبریٰ کے دوران تک نيز اپنے زمانہ کے چند واقعات کی طرف چاہنے والے منتظرین کے افسردہ و رنجيدہ دلوں کی روشنی کے ليے ہم اشارہ کر رہے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، حکمت ٩١ ۔ (
٢٢٠ ۔ “عن احمد بن اسحاق بن سعد الاشعری قال دخلت علیٰ ابی محمّد الحسن بن علی وانا ارید ان اساٴلہ عن الخلف من بعدہ فقال لی مبتدئاً یا احمد بن اسحاق انّ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ لم یخل الاٴرض منذ خلق آدم ولا یخليها الیٰ ان تقوم السّاعة من حجة اللّٰہ علیٰ خلقہ بہ یدفع البلآء عن اهل الارض وبہ ینزّل الغيث وبہ یخرج برکات الارض قال فقلت لہ یابن رسول اللّٰہ فمن الاٴمام والخليفة بعدک فنهض عليہ السلام مسرعاً فدخل البيت ثم خرج وعلیٰ عاتقة غلام کان وجهہ القمر ليلة البدر من ابناء ثلاث سنين فقال یا احمد بن اسحاق لو لا کرامتک علی اللّٰہ عزّوجلّ وعلیٰ حجہ ما عرضت عليک ابنی هذا انّہ سمّی رَسول اللّٰہ (ص) وَکنيہ الّذی یملاء الارض قسطاً وَ عَدَلاً کَما ملئت جوراً وظلماً یا احمد بن اسحاق مثلہ فی هٰذہ الامّة مثل الخضر ومثلہ مثل ذی القرنين والله ليغيبنّ غيبة لا ینجوا من الهلکة فيها الّامن ثبّة اللّٰہ عزّوجلّ علی القول بامامة ووفّقہ فيها الدّعآء بتعجيل فرجہ فقال احمد بن اسحاق فقلت یا مولای فهل من علامة یطمئنّ اليها قلبی فنطق الغلام عليہ السلام بلسان عربیّ فصيح فقال انا بقية اللّٰہ فی ارضہ والمنتقم من اعدائہ فلا تطلب اثراً بعد حين یا احمد بن اسحاق قال احمد بن اسحاق فخرجت مسروراً فرحاً فلما کان من الغد عدت اليہ فقلت یابن رسول اللّٰہ لقد عظم سروری بما مننت بہ علیّ فما السّنة الجاریة فيہ منالخضر وذی القرنين قال عليہ السلام طول الغيبة یا احمد قلت یابن رسول اللّٰہ وانّ غيبة لتطول قال ای وربّی حتّیٰ یرجع عن هذ الامر اکثر القائلين بہ ولا یبقی الاّ من اخذ اللّٰہ عزّوجلّ عهدہ لولایتنا وکتب فی قلبہ الایمان وایّدہ بروح منہ یا احمد بن اسحاق هذا امر من امر اللّٰہ وسر من سرّ اللّٰہ وغيب من غيب اللّٰہ فخذما آتيتک واکتمہ وکن من الشاکرین تکن ) معنا غداً فی علييّن” ( ١
احمد ابن اسحاق اشعری کا بيان ہے: حضرت امام حسن عسکری - کی خدمت ميں اس ارادہ سے حاضر ہوا کہ دریافت کروں کہ آپ نے اپنے بعد اپنا جانشين (حجّت خدا) کس کو مقرر فرمایا ہے تو حضرت نے ابتدا ہی ميں (ميرے سوال کرنے سے پہلے) فرمایا: اے احمد ابن اسحاق! خدائے بزرگ و برتر نے آدم (ابو البشر) کی خلقت سے روز قيات تک زمين کو اپنی حجّت سے کبهی خالی نہيں چهوڑا اور صبح قيامت تک خالی نہيں چهوڑے گا اس کی وجہ سے اہل زمين کی بلائيں دور کرتا ہے اس کی وجہ سے پانی برساتا ہے زمين کی برکتيں اس کے ذریعہ باہر نکالتا ہے۔
احمد ابن اسحا ق کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا: اے فرزند رسول (ص) !آپ کے بعد امام اور خليفہ کون ہوگا؟ تو حضرت تيزی سے اڻهے اور گهر ميں داخل ہوئے اور (کچه دیر نہيں گزری تهی کہ) جب واپس آئے تو آپ کے دوشِ مبارک پر تقریباً تين سال کا بچہ تها جس کا چہرہ چودهویں کے چاند کی طرح چمک رہا تها۔
آپ نے فرمایا: اے فرزند اسحاق! اگر الله اور الله کی حجّتوں کی نظر ميں تمہاری کوئی وقعت نہ ہوتی تو ميں اپنے اس بچے کو تمہارے سامنے نہ لاتا۔ جان لو کہ ! ميرا یہ بچہ وہ ہے کہ جس کا نام اور کنيت خود رسول خدا (ص) کے ہم نام اور ہم کنيت ہے ميرا یہی وہ بيڻا ہے جو زمين کو عدل و انصاف سے پُر کر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی۔ اے احمد ابن اسحاق! ميری امت ميں ميرے اس بچے کی شان خضر اور ذو القرنين کی طرح ہے۔ خدا کی قسم! یقينا اس کی ایسی (بہت طولانی) غيبت ہوگی کہ اس زمانہ ميں ہلاکت سے صرف وہی نجات پائے گا کہ جس کو الله تعالیٰ اس کی امامت کے اعتراف و اعتقاد پر ثابت قدم رکهے گا اور اس امر کی توفيق دے گا کہ وہ اس کی غيبت ميںتعجيل ظہور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المعاجز، ص ١٧۵ ۔ کشف الغمہ، ج ٣، ص ٣٣۴ ۔ (
کے ليے دعا کرتا رہے گا۔ احمد ابن اسحاق کا بيان ہے: ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا! کيا کوئی ایسی علامت بهی ہے جس سے ميرا قلب مطمئن ہوجائے؟ یہ سن کر اس بچے (بقية الله الاعظم امام زمانہ -) نے فصيح عربی زبان ميں فرمایا: سنو! ميں الله کی زمين پر الله کی طرف سے باقی رہنے والا ہوں ميں الله کے دشمنوں سے انتقام لينے والا ہوں اور اسے احمد ابن اسحاق ! اب اپنی آنکهوں سے دیکه لينے کے بعد کوئی علامت تلاش نہ کرو ۔
احمد ابن اسحاق کا بيان ہے کہ: پهر ميں وہاں سے خوش حال ہوکر نکلا اور دوسرے دن پهر حاضرِ خدمت ہوا اور عرض کيا: اے فرزند رسول! آپ نے (اپنے جانشين کی زیارت سے) مجه پر احسان فرمایا ہے اس سے مجهے بے حد خوشی ہے مگر یہ تو فرمائيے کہ ان ميں حضرت خضر - اور حضرت ذوالقرنين - کی کون سی صفات ہوں گی؟ تو آپ نے فرمایا: ان کی طویل غيبت ہے ، ميں نے عرض کيا: کيا ان کی غيبت یقينا بہت طویل ہوگی؟ فرمایا: خدائے بزرگ و برتر کی قسم! اس قدر طویل ہوگی کہ اکثر لوگ جو ان کی امامت کے قائل ہوں گے وہ بهی اپنے قول سے (شک ميں پڑنے کی وجہ سے) پهر جائيں گے اور صرف وہی لوگ رہ جائيں گے کہ جن سے الله تعالیٰ نے ہماری ولایت کا عہد و پيمان لے ليا ہوگا جن کے دلوں پر الله نے ایمان کو نقش کردیا ہوگا اور جن کی مدد روح القدس کے ذریعے فرمائی ہوگی۔ اے فرزند اسحاق! یہ قدرت کے کرشموں ميں سے ایک کرشمہ، الله کے اسرار ميں سے ایک راز اور خدا کے غيوب ميں سے ایک غيبت ہے لہٰذا ميں نے جو کچه اس عظيم نعمت کے بارے ميں تمہيں بتایا ہے اسے یاد رکهنا، دل ميں پوشيدہ رکهنا اور خدا کا شکر ادا کرتے رہنا تاکہ تم جنت ميں ميرے ساته رہو۔
٢٢١ ۔ “وفی اکمال الدین للصّدوق عليہ الرحمة : باسنادہ عن طریف ابو نصر قال قال: دخلت علیٰ صاحب الزّمان عليہ السلام فقال علیّ بالصّندل الاٴحمر فاتيتہ بہ ، ثم قال: اتعرفنی ؟ قلت نعم فقال من انا؟ فقلت انت سيدی وابن سيّدی فقال: ليس هذا سالتک قال طریف فقلت : جعلنی اللّٰہ فداک فبيّن لی قال انا خاتم الاوصيآء وبی یدفع اللّٰہ عزوجل البلآء عن اهلی وشيعتی )١) ”
شيخ صدوق رحمة الله عليہ نے کمال الدین ميں طریق ابو نصر سے نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے : ميں حضرت صاحب الزمان کی خدمت ميں شرف یاب ہوا تو فرمایا: اس سرخ صندل کو لے آؤ تو ميں اسے لے آیا، پهردریافت فرمایا: کيا مجهے پہچانتے ہو؟ ميں نے عرض کيا: ہاں ، دریافت فرمایا: ميں کون ہوں؟ ميں نے عرض کی: آپ ميرے مولا اور ميرے مولا کے فرزند ہيں تو فرمایا: ميں نے تم سے یہ نہيں دریافت کيا تها، ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں آپ اپنے منشا و ارادہ سے مجهے آگاہ فرمائيں؟ فرمایا: ميں خاتم الاوصياء ہوں، خدائے بزرگ و برتر ميرے ہی ذریعے ميرے خاندان اور شيعوں سے بلا کو دور کرے گا۔ ٢٢٢ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن جعفر الحميری قال: ساٴلت محمّد بن عثمان العمروی رضی اللّٰہ عنہ فقلت لہ : اٴراٴیت صاحب هذا الامر؟ فقال: نعم وآخر عہدی بہ عند بيت ) اللّٰہ الحرام وهو یقول : اللّهم انجزلی ما وعدتنی ” ( ٢
نيز اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن جعفر حميری سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے محمد ابن عثمان عمری سے دریافت کيا: کيا اس امر کے صاحب (امام زمانہ -) کو آپ نے دیکها ہے؟ جواب دیا: ہاں یہ آخری مرحلہ (غيبت کبریٰ کے بعد) ميں اتفاق ہوا تها بيت الله الحرام کے پاس تها اور وہ خدا سے درخواست کر رہے تهے کہ ان کے آبائے کرام کے خون کا انتقام اور نصرت کا وعدہ عملی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴١ ۔ تبصرة الولی، حدیث ۵۶٣ ۔ (
٢(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴٢٨ ۔ وسائل الشيعہ، ج ٩، ص ٣۶٠ ۔ احتجاج، ج ٢، ص ٢٨٢ ۔ (
٢٢٣ ۔ “وفيہ باسنادہ عن عبد اللّٰہ بن جعفر الحميری قال سمعت محمّد بن عثمان العمری ( رضی اللّٰہ عنہ) یقول رایتہ - صلوات اللّٰہ عليہ - متعلقاً باستار الکبعة فی المستجار وهو یقول ) اللّهم انتقم لی من اعدائی ” ( ١
مزید اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن جعفر حميری سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے محمد ابن عثمان عمری حضرت کے پہلے نائب کو کہتے سنا ہے کہ ميں نے حضرت (بقية الله الاعظم) کو باب مستجار ميں خانہٴ کعبہ کا پردہ پکڑے ہوئے دیکها کہ الله تعالیٰ سے دعا و مناجات فرما رہے تهے: اے ميرے پروردگار! ميرے دشمنوں سے ميرا انتقام لے۔
٢٢۴ ۔ شيخ بزرگوار علامہ صدوق رحمة الله عليہ نے کتاب کمال الدین ميں اپنی سند کے ساته ابو محمد حسن ابن وجناء نصيبی سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے : “کنت ساجداً تحت الميزاب فی رابع اربع وخسمين حجة بعد العتمة ، وانا اتضرّع فی الدّعاء اذ حرّکنی محرّک فقال: قم یا حسن بن وجناء ، قال فقمت فاذاً جاریة صفرآء نحيفة البدن اقول: انّها من ابناء اربعين فما فوقها فمشت بين یدی وانا لا اسئلها عن شیء حتّیٰ اتت بی الیٰ دار خدیجة سلام الله عليہا وفيها بيت بابہ فی وسط الحایط ولہ درج ساج یرتقی فصعدت الجاریة وجآء نی النداء: اصعد یا حسن فصعدت فوقفت بالباب ، فقال لی صاحب الزّمان عليہ السلام یاحسن اٴتراک خفيت علیّ واللّٰہ ما من وقت فی حجّک الاّ وانا معک فيہ ثمّ جعل یعدّ علیّ اوثاتی فوقعت مغشياً علیٰ وجهی فحسست بيد قد وقعت علیّ فقمت ، فقال لی یا حسن الزم دار جعفر بن محمّد عليهما السلام ولا یهمنّک طعامک ولا شرابک ولا مایسر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴٠ ۔ وسائل الشيعہ، ج ١٢ ، ص ٢۵٩ ۔ غيبت طوسی، ص ٣٢۵١ ۔ معجم ( احادیث الامام المہدی -،ج ۴، ص ٢٩٣ ۔
عورتک ، ثم دفع الی دفتراً فيہ دعآء الفرج وصلاة عليہ فقال بهذا فادع، وهکذا صلّ علیّ ، ولا تعطہ الا محقّی اوليائی فانّ اللّٰہ جلّ جلالہ موفّقک فقلت یا مولای لا اراک بعدها ؟ فقال یا حسن اذا شآء اللّٰہ ، قال فانصرفت من حجّتی ولزمت دار جعفر بن محمّد ( علهيما السلام ) فانا اخرج منها فلا ادعو اليهاالا لثلاث خصال : لتجدید وضوء او لنوم اولوقت الاٴفطار ، وادخل بيتی وقت الاٴفطار فاصيب رباعياً مملوٴاً ماء ورغيفاً علیٰ راٴسہ وعليہ ما تشتهی بالنّهار فاٴکل ذٰلک فهو کفایة لی ، وکسوة الشّتآء فی وقت الشتاء وکسوة الصّيف فی وقت الصّيف وانّی لاٴدخل المآء بالنّهار فاٴرشّ البيت وداع الکوز فارغاً فاٴوتی بالطعام ولا حاجة لی اليہ فاصاٴدق بہ ليلاً کيلا یعلم بی من معی ” )١)
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے ابو محمد حسن وجناء نصيبی سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميرا چوّنواں سفر حج تها، نماز عشاء کے بعد طواف کے چوتهے چکر ميں تحتِ ميزاب سجدے کے عالم ميں گریہ و زاری کے ساته دعا ميں مشغول تها کہ ناگاہ کسی نے ميرا شانہ ہلایا اور کہا: اے حسن ابن وجناء اڻهو! جب ميں اڻها تو دیکها کہ ایک نحيف و لاغر گورے رنگ کی کنيز ہے جس کا سن چاليس سال یا کچه زیادہ ہے وہ مجهے لے کر چلی اور ميں بهی اسی کے پيچهے چلنے لگا ميں نے اس سے کچه نہ پوچها کہ کہاں لے جارہی ہے یہاں تک کہ وہ مجهے حضرت خدیجہ - کے گهر پر لے آئی اس ميں ایک کمرہ تها جس کا دروازہ دیوار کے درميان تها، وہيں سے اوپر جانے کے ليے ایک لکڑی کا زینہ تها وہ کنيز اوپر چلی گئی اور مجه تک ایک آواز آئی: اے حسن! اوپر آجاؤ، لہٰذا ميں اوپر گيا اور دروازہ کے پاس کهڑا ہوگيا (کہ ناگہاں) حضرت صاحب الزمان کو دیکها انہوں نے مجه سے فرمایا: اے حسن! کيا تمہارا خيال ہے کہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴۴۴ ۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٣٢ ۔ معجم الاحادیث الامام المہدی -، ج ۴ ( ص ۴٣ ۔
)تمہارے اعمال) مجه سے مخفی ہيں؟ خدا کی قسم! ميں تمہارے تمام حج ميں ہر وقت تمہارے ساته ساته تها پهر آپ ہر یک موقعِ حج (اور ميرے اعمال کی کيفيت) کی نشان دہی فرمانے لگے، یہ سن کر مجه پر غش کی حالت طاری ہوگئی اور ميں وہيں زمين پر گر پڑا، اور یہ بهی محسوس کرتا رہا کہ حضرت اپنے دست مبارک ميرے جسم پر پهير رہے ہيں پهر ميں کهڑا ہوا تو حضرت نے مجه سے فرمایا: اے حسن ! تم مدینہ ميں حضرت جعفر ابن محمد کے مکان ميں رہا کرو تمہيں کهانے پينے اور پہننے اوڑهنے کی فکر کی ضرورت نہيں ہے پهر آپ نے مجهے ایک کتابچہ عطا کيا جس ميں دعائے فرج اور آپ پر صلوات کا طریقہ مرقوم تها اور فرمایا: تم اس طرح دعا کيا کرو اور اسی طرح مجه پر درود و صلوات بهيجا کرو یہ دعائے فرج اور طریقہٴ صلوات ہمارے حقيقی دوستوں کے علاوہ کسی اور کو نہ تعليم دینا الله تعالیٰ تمہيں اس کی توفيق عطا کرنے والا ہے۔ ميں نے عرض کيا: اے ميرے مولا! کيا اس کے بعد مجهے آپ کی دوبارہ زیارت نصيب نہ ہوگی؟ تو فرمایا: اے حسن! جب خدا چاہے۔ راوی کا بيان ہے کہ پهر حج سے واپس ہوا اور مدینہ ميں حضرت جعفر ابن محمد - کے مکان ميں رہنے لگا ميں وہاں سے باہر آتا تها اور دوبارہ واپس نہيں جاتا تها مگر صرف تين چيزوں کے ليے، دوبارہ وضو کرنے یا سونے اور آرام کرنے کے ليے یا جب افطار کا وقت ہوتا تها تو اپنے کمرے ميں داخل ہوتا تها تو ميں دیکهتا تها کہ ایک ظرف پانی روڻی اور ہر وہ غذا جو ميرا دل چاہتا تها موجود رہتی تهی، ان کو ميں کهاتا تها اور سردی کا لباس سردی ميں اور گرمی کا لباس گرمی ميں فراہم رہتا تها ميں روزانہ پانی ميں داخل ہوتا تها اور کمرے ميں پانی چهڑکتا تها اور پانی کے کوزہ کو خالی رکهتا تها ليکن رات ميں سب کو کهانے سے بهرا ہوا پاتا تها اور وہ غذائيں جو دوسرے افراد مجهے دیتے تهے اسے رات ميں صدقہ دے دیتا تها تاکہ دوسرے لوگ اس واقعہ کو نہ سمجه سکيں۔ مولف کہتے ہيں: صاحبان نعمت کو وہ نعمتيں گوارا ہوں ہميں اور ان کے شرف دیدار کے تمام مشتاق اور منتظر افراد کو زیارت کی توفيق عطا فرمائے اور دنيا ميں صحت و عافيت عنایت کرے، ان کی اور ان کے اجداد طاہرین کی آخرت ميں شفاعت نصيب فرمائے اور ان کے ظہور سے ہمارے ليے فرج و کشائش عطا کرے اور ان کی بہترین آرزؤوں کو ان تک پہنچا دے بحمد وآلہ الطاہرین۔

٢۔ بہترین / ۴٢
۴٢ ۔ و حکماً لمن قضیٰ (اور قضاوت کرنے والوں کے ليے قطعی حکم اور فيصلہ ہے( قرآن مجيد ہر اس شخص کے ليے جو لوگوں کے درميان فيصلہ کرنا چاہتا ہے اس کے حکم کی سند اور مرجع ہے کيوں کہ اس کا حکم محکم اور حق ہے اور اس کے علاوہ باطل، خدائے بزرگ و برتر نے متعدد مقامات پر ان افراد کو جو قرآن کے علاوہ حکم اور قضاوت کرتے ہيں انہيں شدید الفاظ ميں ظالم و فاسق اور کافر سے یاد کيا ہے: <وَمَن لَم یَحکُْم بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ ) فَاٴُولَْئِکَ ہُم الظَّالِمُونَ > ( ١
اور جو بهی خدا کے نازل کردہ حکم کے خلاف فيصلہ کرے گا وہ ظالموں ميں شمار ہوگا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّا اٴَنزَلنَْا التَّورَْاةَ فِيہَا ہُدًی وَنُورٌ یَحکُْمُ بِہَا النَّبِيُّونَ الَّذِینَ اٴَسلَْمُوا لِلَّذِینَ ہَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالاْٴَحبَْارُ بِمَا استُْحفِْظُوا مِن کِتَابِ اللهِ وَکَانُوا عَلَيہِْ شُہَدَاءَ فَلاَتَخشَْواْ النَّاسَ ) وَاخشَْونِْی وَلاَتَشتَْرُوا بِآیَاتِی ثَمَنًا قَلِيلًا وَمَن لَم یَحکُْم بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فَاٴُولَْئِکَ ہُم الکَْافِرُونَ > ( ٢ بے شک ہم نے توریت کو نازل کيا ہے جس ميں ہدایت اور نور ہے اور اس کے ذریعہ اطاعت گزار انبياء یہودیوں کے ليے فيصلہ کرتے ہيں اور الله والے اور علمائے یہود اس چيز سے فيصلہ کرتے ہيں جس کا کتاب خدا ميں ان کو محافظ بنایا گيا ہے اور جس کے یہ گواہ بهی ہيں لہٰذا تم ان لوگوں سے نہ ڈرو صرف ہم سے ڈرو اور خبردار تهوڑی سی قيمت کے ليے ہماری آیات کا کاروبار نہ کرنا اور جو بهی ہمارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۴۵ ۔ (
٢(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۴۴ ۔ (
نازل کيے ہوئے قانون کے مطابق فيصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَليَْحکُْم اٴَہلُْ الإِْنجِيلِ بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ فِيہِ وَمَن لَم یَحکُْم بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ ) فَاٴُولَْئِکَ ہُم الفَْاسِقُونَ > ( ١ اہل انجيل کو چاہيے کہ خدا نے جو حکم نازل کيا ہے اس کے مطابق فيصلہ کریں کہ جو بهی تنزیل خدا کے مطابق فيصلہ نہ کرے گا وہ فاسقوں ميں شمار ہوگا۔ قرآن مجيد جو تمام قاضيوں کے ليے مرجع اور سند ہے اور حق کو باطل سے جدا اور بيان کرنے والی کتاب ہے، پيغمبر اکرم (ص) کی وصيت کے مطابق قاعدہٴ تلازم کے اعتبار سے قرآن اور اہل بيت عصمت و طہارت جب تک حوض کوثر پر وارد نہ ہوجائيں ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہيںہيں اس کے علاوہ قرآن اس عظيم ہستی پر نازل ہوا ہے “ و اهل البيت ادریٰ بما فی البيت” یعنی گهر کی باتوں سے گهر والے زیادہ واقف ہوتے ہيں۔ اور تمام قرآنی علوم پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصياء کے پاس موجود ہيں <وَکُلَّ شَیءٍْ اٴحصَْينَْاہُ فِی إِمَامٍ مُبِينٍ > ( ٢) اور ہم نے ہر شے کو ایک روشن امام ميں جمع کردیا ہے۔ نيز الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَلاَرَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٣) کوئی خشک و تر ایسا نہيں ہے جو کتاب مبين کے اندر محفوظ نہ ہو۔ تفسير صافی ميں امام مبين سے مراد “اللوح المحفوظ” ( ۴) لوح محفوظ ہے۔ تفسير قمی ميں ذکر ہوا ہے “فی کتاب مبين و هو محکم” ( ۵) کتاب مبين سے مراد وہی محکم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۴٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ یسين، آیت ١٢ ۔ (
٣(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
۴(۔ تفسير صافی، ج ۴، ص ٢۴٧ ۔ (
۵(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٢١٢ ۔ (
٢٢۵ ۔ تفسير الميزان ميں ابن عباس سے انہوں نے امير المومنين سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: “ وانا واللّٰہ الامام المبين ابيّن الحق من الباطل ورثتہ من رسول اللّٰہ (ص) ” )١)
امام علی - نے فرمایا: خدا کی قسم ! ميں امام مبين ہوں حق کو باطل سے جدا اور بيان کرتا ہوں یہ علم ميں نے پيغمبر سے ورثہ ميں حاصل کيا ہے۔ ٢٢۶ ۔ “وفی تاویل الآیات لمولفہ الفقيہ المفسر السيد الشرف الدین علی الحسنی الاٴ سترابادی النجفی باسنادہ عن صالح بن سهل قال سمعت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام یقرء <وکلّ ) شیء احصيناہ فی امام مبين > قال: فی امير الموٴمنين عليہ السلام ” ( ٢
تاویل الآیات جو مفسر فقيہ سيد شرف الدین علی الحسينی استر آبادی نجفی کی تاليف ہے انہوں نے اپنی سند کے ساته صالح ابن سہل سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں نے امام جعفر صادق - کو یوں پڑهتے ہوئے سنا: “ ” امير المومنين کی ذات ميں ہم نے ہر شے کا احصاء کردیا ہے۔
٢٢٧ ۔ “ وفيہ باسنادہ الیٰ ابی الجارود عن محمّد بن علی الباقر صلوات اللّٰہ عليهما - قال لمّا نزلت هذہ الآیة علی رسول اللّٰہ (ص) <وکل شیء احصيناہ فی امام مبين > قال رجلان ( ابو بکر وعمر ) کما فی المعانی من مجلسها فقالا یا رسول اللّٰہ هو التوراة ؟ قال لا قالا هو الانجيل ؟ قال لا قالا هو القرآن؟ قال لا قال فاقبل امير الموٴمنين عليہ السلام فقال رسول اللّٰہ (ص) هو هذا ، انّہ الامام الذی احصی اللّٰہ تبارک و تعالیٰ فيہ علم کلّشیء یعنی علم ماکان وما یکون الیٰ یوم ) القيٰمة”’ ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير الميزان، ج ١٧ ، ص ٧٠ ۔ (
٢(۔ تاویل الآیات، ج ٢، ص ۴٨٧ ۔ ) (
٣(۔ گزشتہ حوالہ۔
صاحب کتاب تاویل الآیات نے اپنی سند کے ساته ابو الجارود سے نقل کيا ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: جب یہ آیت <وَکُلَّ شَیءٍْ اٴحصَْينَْاہُ فِی إِمَامٍ مُبِينٍ > رسول خدا (ص) پر نازل ہوئی (یعنی ابوبکر اور عمر) اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور کہا: یا رسول الله (ص)! کيا امام مبين سے مراد توریت ہے؟فرمایا: نہيں، عرض کيا: کيا انجيل مراد ہے؟ فرمایا: نہيں ، پهر دریافت کيا قرآن مراد ہے؟ فرمایا: نہيں، اسی اثنا ميں امير المومنين علی - تشریف لائے تو رسول الله نے فرمایا: وہ امام یہ ہيں۔
یہ وہ امام ہےں کہ خدائے بزرگ و برتر نے انہيں ہر شے کا علم عطا فرمایا ہے یعنی ماضی اور مستقبل کا روز قيامت تک کا علم ودیعت کيا ہے۔ ٢٢٨ ۔ “ ویوید هذ التاویل قول النبی (ص) فی خطبة یوم الغدیر : معاشر النّاس ما من علم الّا وقد احصٰاہ اللّٰہ فیّ وکلّ علم علّمت فقد احصيتہ فی امام المتقين وما من علم الّا وقد علّمتہ ) عليّاً وهو الامام المبين ” ( ١
نبی اکرم (ص) کے اس قول کی تائيد ميں وہ فقرہ ہے جو آپ نے غدیر کے دن ایک مفصل خطبہ ميں حاجيوں کے کثير مجمع ميں کہ جن کی تعداد دو لاکه تک بتائی گئی ہے فرمایا: اے لوگو! کوئی علم ایسا نہيں ہے مگر یہ کہ خدائے بزرگ و برتر نے اسے مجهے عطا کيا ہو اور ہر وہ علم جسے ميں نے الله تعالیٰ سے اخذ کيا ہے ان سب کو امام المتقين کو عطا کيا اور کوئی علم ایسا نہيں ہے کہ جس کو ميں نے علی - کو تعليم نہ کيا ہو اور وہ وہی امام مبين ہے کہ جس کا آیت ميں ذکر ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج ، ج ١، ص ٧۴ ۔ (