|
٢۔ پر پرواز / ٣٧
٣٧ ۔ و مطيّة لمن عملہ (عمل کرنے والوں کے ليے بہترین سواری(
قرآن مجيد ایک کافی تيزی سے چلنے والی سواری ہے الله ان افراد کے ليے جو اس کے
مضامين عاليہ پر عمل کرتے ہيں اور وہ انہيں جلد از جلد اور صحيح و سالم ان کی منزل مقصود
تک پہنچاتا ہے، البتہ قرآن کریم کے حامل و عامل کے منزل مقصود سے سوائے اہل کمال
حضرات کے اس کی مجالس سے انس نہيں رکهتے ہوں گے۔
٢٠١ ۔ “روی فی الکافی باسنادہ عن ابن ابی یعفور قال: سمعت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام
یقول : انّ الرّجل اذا کان یعلم السورة ثم نسيها و ترکها ودخل الجنة ، اشرفت عليہ من فوق فی
احسن صورة فتقول : تعرفنی ؟ فيقول : لا فتقول : انا سورة کذا وکذا لم تعمل بی و ترکتنی ؟ امٰا
) والله لو عملت لی لبلغت بک هذہ الدرجة واشارت بيدها الیٰ فوقها ” ( ١
شيخ جليل القدر علامہ کلينی رحمة الله عليہ نے کتاب کافی ميں اپنی سند کے ساته
ابن ابی یعقوب سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے : ميں نے امام جعفر صادق - کو یہ فرماتے
سنا ہے کہ: اگر کوئی شخص قرآن کے سوروں ميں سے ایک سورہ کو پڑهے اور سمجهے اور
پهر اسے بهول جائے یا ترک کرے تو جب وہ جنت ميں داخل ہوگا تو اس کے سر پر قرآن کریم
ایک خوب صورت پيکر ميں یہ کہتا ہوا نظر آئے گا: کيا تم مجهے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا: نہيں پهر
قرآن کہے گا: ميں وہی سورہ ہوں کہ جس پر تم نے عمل نہيں کيا اور مجهے پڑهنا ترک کردیا،
اب جان لو اور آگاہ ہوجاؤ خدائے بزرگ و برتر کی قسم! اگر عمل کيے ہوتے (جو کچه تم نے پڑها
اور جانا) تو یقينا تمہيں بهی اسی درجہ تک پہنچاتا کہ جہاں مجهے دیکه رہے ہو اور اپنے ہاته
کے اشارے سے اوپر کی منزل کی طرف اشارہ کرے گا۔
٢٠٢ ۔ “وعن یعقوب الاحمر قال:قلت لا بی عبد اللّٰہ عليہ السلام: انّ علیّ دین کثيراً وقد
دخلنی شی ما کاد القرآن یتفلّت منّی ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : القرآن القرآن انّ الآیة
من القرآن والسّورة لتجیء یوم القيٰمة حتّیٰ تصعد الف درجة ، یعنی فی الجنة فتقول : لو
) حفظتنی لبلغت بک هٰهنا ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠٨ ۔ الوسائل الشيعہ، ج ۴، ص ۴٨۶ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠٨ ۔ الوسائل الشيعہ، ج ۶، ص ١٩۴ ۔ (
یعقوب احمر سے روایت نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ ميں نے امام جعفر صادق -
سے عرض کيا:ميرے ذمہ قرضہ بہت زیادہ ہے( اور مجهے ایسی مشکل ميں ڈال دیا ہے کہ)
کبهی ایسی چيزیں ميرے دل ميں خطور کرتی ہيں کہ قرآن مکمل طور پر ميرے ذہن سے نکل
جائے، تو امام - نے فرمایا: قرآن کو فراموش نہ کرو اور اس بات کی تکرار کی اور بہت زیادہ
نصيحت کی کہ قرآن مجيد کی ایک آیت یا اس کا ایک سورہ یقينا قيامت کے دن آئے گا اور جن
کے درجات ميں ہزار درجہ تک بلند ہوگا اورپهر کہے گا: اگر تم نے ميری حفاظت کی ہوتی تو یقينا
ميں تمہيں بهی یہاں تک پہنچا دیتا۔
٢٠٣ ۔ “وعن ابی بصير قال : قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : من نسی سورة من القرآن
مثّلت لہ فی صورة حسنة ودرجة رفيعة فی الجنّة فاذا راٴها قال: ما انت ؟ ما احسنک لتيک لی
) فيقول : اما تعرفنی ؟ انا سورة کذا وکذا ولو لم تنسنی لرفعتک الیٰ هذا ” ( ١
ابو بصير سے روایت نقل ہوئی ہے کہ ان کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: جو
شخص قرآن کریم کا وہ سورہ جسے یاد کيا تها پهر فراموش کردیا تو وہی سورہ جنت ميں ایک
بلند درجہ ميں حسين صورت ميں آئے گا جب وہ اسے دیکهے گا تو اس سے دریافت کرے گا ۔
تم کون ہو؟ تم کتنے خوبصورت اور دل کش ہو اے کاش تم ميرے ليے ہوتے! تو وہ کہے گا: کيا تم
مجهے نہيں پہچانتے ہو؟ ميں قرآن کا فلاں سورہ ہوں کہ مجهے فراموش کردیا) اگر ميری
حفاظت کرتے اور مجهے فراموش نہ کرتے تو ميں تجهے بهی اس بلند مرتبہ پر فائز کرتا۔
مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ - اور ان کے اجداد طاہرین نجات کی
کشتی ہيں جو شخص بهی اس کشتی نجات پر سوار ہوگيا یعنی ان کا معتقد اور ان کی رحمت
کے رشتہ سے متمسک ہوگيا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠٧ ۔ ثواب الاعمال، ص ٢٣٨ ۔ (
تو وہ کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کے خوف ناک طوفانوں سے نجات پاگيا اور جہالت و
نادانی کے گرداب (بهنور) سے نکل کر ہدایت و سعادت اور علم و دانش کے ساحل تک پہنچ
جائے گا نيز حقيقی اقدار کو پالے گا۔
٢٠۴ ۔ “ قال امير الموٴمنين عليہ السلام فی وصيتہ لکميل : یا کميل قال رسول اللّٰہ (ص)
قولًا۔ اعلنہ المهاجرون والانصار ،متوافرون یوماً بعد العصر ، یوم النّصف من شهر رمضان ، قآئم علیٰ
قدميہ من فوق منبرہ:
علی منّی وابنای منہ والطّيبّون منی ومنهم وهم الطّيبّون بعد امّهم وهم سفينة نوح من
) رکبها نجی ومن تخلّف عنها غویٰ ، النّاجی فی الجنہ والهاوی فی لظی”( ١
جناب کميل سے مولا امير المومنين - کی وصيت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت - نے فرمایا:
اے کميل! رسول خدا (ص) نے ایک قول ارشاد فرمایا اسے مہاجرین اور انصار تک پہنچادو کہ
ایک دن نصف رمضان کے بعد سب جمع تهے اور آنحضرت اپنے دونوں قدم پر منبر کے اوپر کهڑے
ہوئے تهے اور فرمایا: علی مجه سے ہے اور ان کے بيڻے اس سے ہيں اور طيب و طاہر لوگ مجه
سے اور ان لوگوں سے ہيں اور وہ لوگ اپنی ماؤوں کے بعد طيب و طاہر ہيں وہی کشتیِ نوح ہيں
جو شخص اس پر سوار ہوا نجات پاگيا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ گمراہ ہوگيا، نجات
پانے والا جنت ميں ہے اور روگردانی کرنے والا آتشِ جہنم ميں ہے۔
٢٠۵ ۔ شيخ بزرگوار شہيد رحمة الله عليہ نے اپنے اجازہ ميں ابن خازن حائری سے انہوں
نے فخر المحققين سے اور بہت سے دوسرے افراد نے داؤد ابن سليمان غازی سے انہوں نے
امام ابو الحسن علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٧۴ ، ص ٢٧۶ ۔ بشارة المصطفیٰ، ص ۵٩ ۔ (
ابن موسی الرضا - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام سے انہوں نے حضرت امير المومنين سے
انہوں نے نبی اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:
مثل اهل بيتی کمثل سفينة نوح من رکبها نجی و من تخلّف عنها زحّ فی النار: ميرے اہل
بيت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے جو شخص بهی اس کشتی ميں سوار ہوگيا وہ نجات
پاگيا اور جس نے بهی اس سے پشت پهيری اور مخالفت کی تو وہ آتش جہنم ميں ڈال دیا
) جائے گا۔ ( ١
٢۔ روشنی کی علامت / ٣٨
٣٨ ۔ و آیة لمن توسّم()
عزیز تين آسمانی کتاب (قرآن مجيد) ان لوگوں کے ليے دليل و علامت اور ہدایات ہے جو
اس کے عالی متون و مضمون اور بطون ميں تدبر اور عميق غور و فکر کرتے ہيں اور گزشتہ انبياء
اور امتوں کے واقعات نيز ظالمين و جابرین کی تاریخ سے عبرت و نصيحت حاصل کرتے ہيں مزید
صاحبان عقل اور ذہين افراد کے ليے دقّت و تامّل کے ساته اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے
ليے علامت و نشانی پائی جاتی ہے۔
اصل “توسم” سے مراد دقّتِ نظر ہے، “سمہ” ميں جس کے معنی علامت کے ہيں
) جيسا کہ الله تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: <إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلمُْتَوَسِّمِينَ> ( ٢
٢٠٣ ۔ شيخ جليل القدر علامہ طبرسی عليہ الرحمہ نے تفسير مجمع البيان ميں ذکر کيا
ہے کہ یہ صحيح ہے کہ نبی اکرم (ص) نے فرمایا: “ اتّقوا من فراسة الموٴمن وانّہ ینظر بنور اللّٰہ”
، مومن کی فراست و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ الطرائف، سيد ابن طاؤوس، ص ١٣٢ ۔بحار الانوار ، ج ٢٣ ، ص ١٢٢ ۔ خلاصہ عبقات الانوار، ج ۴ (
ص ۶١ ۔
٢(۔ سورئہ حجر، آیت ٧۵ ۔ (
ذہانت سے بچو کيوں کہ وہ نور الٰہی کے ذریعہ نظر کرتا ہے۔
) نيز فرمایا: “ انّ لل-ٰہّ عباداً یعرفون الناس بالتوسّم ، ثم قرء هٰذہ الآیة ” ( ١
یقينا الله تعالیٰ کے ایسے بندے ہيں جنہيں لوگ علامت کے ذریعہ پہچانتے ہيں پهر اس
آیت کی تلاوت کی۔
نيز فرمایا: خدا کے بندوں ميں سے بعض ایسے ہيں کہ جنہيں لوگ علامتوں اور نشانيوں
سے پہچانتے ہيں کيوں کہ وہ لوگ تمام اندرونی واقعيت کو بيان کرتے ہيں پهر اس آیت کی
تلاوت فرمائی۔
مولف کہتے ہيں: متموسمين سے مراد-: پيغمبر اکرم (ص) ، امير المومنين - اور ان کی
قائم آل محمد تک ذریت طيبہ ہے جو الله کی زندہ حجّت صاحب العصر و الزمان عجل الله تعالیٰ
فرجہ الشریف ہيں۔
٢٠٧ ۔ “وفی الکافی عن الباقر عليہ السلام قال: قال امير الموٴمنين عليہ السلام فی قولہ
تعالیٰ <اِنَّ فِی لٰذِکَ لآ اٰیتٍ لِلمُْتَوَسِّمِينَ >کان رسول اللّٰہ المتوسم وانا من بعدہ والائمّة من ذریّتی
) المتوسمّون ” ( ٢
کافی ميں امام محمد باقر - سے روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: حضرت
امير المومنين - نے <اِنَّ فِی لٰذِکَ لآ اٰیتٍ لِلمُْتَوَسِّمِينَ > کے بارے ميں فرمایا: رسول خدا (ص)
متوسم (صاحب فراست) تهے اور ان کے بعد ميں ہوں اور ميری ذریت ميں سے ائمہ ہيں۔
٢۔بہترین سپر / ٣9
٣٩ ۔ و جنّة لمن لستلا (اسلحہ سجنے والوں کے ليے بہترین سپر ہے(
”جنة” سپر ڈهال اور کسی چيز کی حفاظت کرنے کے معنی ميں سے، یعنی قرآن
مجيد ان لوگوں کے ليے ایک سپر اور بہت محکم و مستحکم اسلحہ ہے جو دین و قرآن اور یکتا
پرستی کے مخالفين کے مدّ مقابل مسلح رہنا چاہتے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير مجمع البيان، ج ۶، ص ١٢۶ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١٩ ۔ اختصاص، ص ٣٠٣ ۔ الخرائج و الجرائح، ج ٢، ص ٧۴٨ ۔ بحار الانوار، (
ج ٢۴ ، ص ١٢٧ ۔
ممکن ہے یہاں ان قاریوں اور حافظوں کے ليے دنيا و آخرت کی سختيوں کے مقابل ميں
روکنے والی شے مراد ہو۔
اس کا آخرت کی سختيوں اور دشواریوں سے سپر اور ڈهال ہونا بہت زیادہ واضح و روشن
ہے کيوں کہ وہ آتش جہنم سے خلاصی کا باعث اور خدائے بزرگ و برتر کے غضب سے نجات کا
سبب ہے۔
ليکن دنيا کی سختيوں سے حجاب اور سپر بننے کے متعلق آیہٴ کریمہ ميں الله تعالیٰ
فرماتا ہے: <وَإِذَا قَرَاٴتَْ القُْرآْنَ جَعَلنَْا بَينَْکَ وَبَينَْ الَّذِینَ لاَیُؤمِْنُونَ بِالآْخِرَةِ حِجَابًا مَستُْورًا > ( ١) اور
جب تم قرآن پڑهتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان رکهنے والوں کے درميان حجاب قائم
کردیتے ہيں تاکہ تم اس سے مخفی اور پوشيدہ رہو۔
شيخ طبرسی رحمة الله عليہ رقم طراز ہيں: کلبی کا قول ہے اس سے ابو سفيان ، نضر
ابن حارث، ابوجہل اور ام جميل ابو لہب کی زوجہ مراد ہيں کہ الله تعالیٰ نے اپنے پيغمبر اکرم
(ص) کو ان کی آنکهوں سے مخفی اورپوشيدہ قرار دیا جو آنحضرت (ص) کی خدمت ميں آئے
مگر اس عظيم ہستی کو نہ دیکه سکے۔
٢٠٨ ۔ “ فی الصافی من قرب الاٴسناد عن الکاظم عليہ السلام انّ ام جميل امراٴة ابی
لهب اٴتتہ (ص) حين نزلت سورة تبّت ومن النّبی (ص) ابو بکر بن ابی قحافة، فقال : یا رسول
اللّٰہ هذہ امّ جميل محفظة او مغضبة تریدک ومعها حجر ترید ان ترميک بہ فقال (ص) : انّها
لاترانی فقالت لابی بکر: این صاحبک ؟ قال: حيث شآء اللّٰہ قالت : لقد جئتہ ولو اراہ لرمتيہ فانّہ
هجانی واللّات والعزّیٰ انّی لشاعرة فقال ابوبکر : یا رسول اللّٰہ لم ترک ؟ قال (ص) : لا ضرب
) اللّٰہ بينی وبينها حجاباً مستوراً ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ۴۵ ۔ (
٢(۔ قرب الاسناد، ص ٣٢٩ ۔ تفسير صافی، ج ۵، ص ٣٨٩ ۔ بحار الانوار، ج ١٧ ، ص ٢٣۵ ۔ (
٢٠٩ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن الاصبغ بن نباتة عن امير الموٴمنين عليہ السلام انّہ قال :
والّذی بعث محمداً بالحقّ واکرم اهل بيتہ ما من شیء تطلبونہ من حرز ممّن حرق او غرق او
سرق او اتلاف دابّة من صاحبها او آبق الاّ وهو فی القرآن ، فمن اراد ذٰلک فليسالنی عنہ
قال: فقام اليہ رجل فقال: یا امير الموٴمنين اخبرنی عمّا یوٴمن من الحرق والغرق؟ فقال
عليہ السلام اقرء هذہ الآیات
>اللهُ الَّذِی نَزَّلَ الکِْتَابَ وَہُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِينَ>( ١)<وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدرِْہِ وَالاْٴَرضُْ جَمِيعًا
قَبضَْتُہُ یَومَْ القِْيَامَةِ وَالسَّماوَاتُ مَطوِْیَّاتٌ بِيَمِينِہِ سُبحَْانَہُ وَتَعَالَی عَمَّا یُشرِْکُون>( ٢) فمن قراٴها فقد
امن من الحرق والغرق قال فقراٴها رجل واضطر مت النّار فی بيوت جيرانہ وبيتہ وسطها فلم یصبہ
شیء
ثم قام اليہ رجل آخر فقال : یا امير الموٴمنين انّ دابّتی استصعبت علیّ وانا منها علیٰ
وجل فقال عليہ السلام : اقرء فی اذنها اليمنیٰ < وَلَہُ اٴَسلَْمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ طَوعًْا
وَکَرہًْا وَإِلَيہِْ یُرجَْعُونَ>( ٣) فقراٴها فذلّت دابتہ
وقام اليہ آخر فقال : یا امير الموٴمنين ان ارضی ارض مسبعة انّ السباع تغشیٰ منزلی ولا
تجوز حتی تاٴخذ فریستها فقال عليہ السلام : اقراء <لَقَد جَائَکُم رَسُولٌ مِن اٴَنفُسِکُم عَزِیزٌ عَلَيہِْ
مَا عَنِتُّم حَرِیصٌ عَلَيکُْم بِالمُْؤمِْنِينَ رَئُوفٌ رَحِيمٌ فَإِن تَوَلَّواْ فَقُل حَسبِْی اللهُ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَيہِْ تَوَکَّلتُْ وَہُوَ
) رَبُّ العَْرشِْ العَْظِيمِ> ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ١٩۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ زمر، آیت ۶٧ ۔ (
٣(۔ سورئہ آل عمران، آیت ٨٣ ۔ (
۴(۔ سورئہ توبہ، آیت ١٢٨ و ١٢٩ ۔ (
فقراهما الرّجل فاجتنبتہ السّباع
ثم قام اليہ آخر فقال : یا امير الموٴمنين انّ فی بطنی مآء اصفر فهل من شفآء ؟
فقال نعم بلادرهم ولا دینار ولکن اکتب علی بطنک آیة الکرسی وتغسلها و تشربها و
تجلعها ذخيرة فی بطنک فتبرء باٴذن اللّٰہ عزّوجلّ ففعل الرجل فبرء باذن اللّٰہ
ثم قام اليہ آخر فقال یا امير الموٴمنين اٴخبرنی عن الضّالّة ؟ فقال عليہ السلام : اقرء یسٓ
فی رکعتين و قل یا هادی الضالّة رد علیّ ضالّتی ، ففعل فردّ اللّٰہ عليہ ضالّتہ
ثم قام اليہ آخر فقال یا امير الموٴمنين اٴخبرنی عن الاٴبق ؟ فقال عليہ السلام : اقرء <اٴَو کَظُلُمَاتٍ فِی بَحرٍْ لُجِّیٍّ یَغشَْاہُ مَوجٌْ مِن فَوقِْہِ مَوجٌْ مِن فَوقِْہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعضُْہَا فَوقَْ بَعضٍْ إِذَا
اٴَخرَْجَ یَدَہُ لَم یَکَد یَرَاہَا وَمَن لَم یَجعَْلِ اللهُ لَہُ نُورًا فَمَا لَہُ مِن نُور>( ١) فقالها الرجل فرجع اليہ الآبق
ثم قام اليہ آخر فقال : یا امير الموٴمنين اٴخبرنی عن السّرق فانّ لایزال قد یسرق لی
الشیء بعد الشیء ليلاً فقال لہ : اقرء اذا ویت الی فراشک <قُلْ ادْعُوا اللهَ اٴَوْ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ - الیٰ
) قولہ - کَبِّرہُْ تَکبِْيرًا >( ٢
ثم قال امير الموٴمنين عليہ السلام : من بات بارض قفر فقراٴ هذہ الآیة <إِنَّ رَبَّکُمْ اللهُ الَّذِی
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضَْ فِی سِتَّةِ اٴَیَّامٍ ثُمَّ استَْوَی عَلَی العَْرشِْ -الیٰ قولہ - تَبَارَکَ اللهُ رَبُّ
العَْالَمِينَ >( ٣) حرستہ الملائکة وتباعدت عنہ الشياطين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نور، آیت ۴٠ ۔ (
١١١ ۔ ، ٢(۔ سورئہ بنی اسرائيل، آیت ١١٠ (
٣(۔ سورئہ اعراف، آیت ۵۴ ۔ (
قال: فمضی الرجل فاذا هو بقریة خراب فيها لم یقرء هٰذہ الآیة فغشاہ الشياطين واذا هو
آخذ بخطمہ ، فقال لہ صاحبہ : انظرہ واستيقظ الرجل فقراء الآیة فقال الشيطان لصاحبہ ارغم اللّٰہ
اٴنفک احرسہ الاٴن حتیٰ یصبح
فلما اصبح رجع الیٰ امير الموٴمنين عليہ السلام فاٴخبرہ فقال لہ راٴیت فی کلامک الشفاء
) والصّدق ومضی بعد طلوع الشمس فاذا هو باثر شعر الشياطين مجتمعاً فی الارض ” ( ١
علامہ کلينی رحمة الله عليہ کتاب کافی ميں اپنی سند کے ساته اصبغ ابن نباتہ سے
نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے مولا امير المومنين - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: قسم
ہے اس ذات کی! جس نے محمد مصطفی (ص) کو حق کے ساته بهيجا اور ان کے اہل بيت کو
صاحب عزت و کرامت قرار دیا کوئی چيز (تمہاری دنيا ميں ایسی) نہيں ہے کہ جس سے تم پناہ
حاصل کرنا چاہو جلنے سے ڈوبنے سے چوری سے یا چوپایہ کا اپنے مالک سے بهاگ جانے یا
انسان یا چوپایہ کا گم ہوجانا یا آقا کے غلام کا بهاگ جانا تو ان سب کی حفاظت کے اسباب و
وسائل قرآن مجيد ميں پائے جاتے ہيں جو شخص بهی ان امور ميں سے یا ان جيسی چيزوں
ميں مبتلا ہے مجه سے سوال کرے تاکہ اسے ميں اس کی تدبير بيان کروں۔
راوی کا بيان ہے: ایک شخص نے بلند ہو کر کہا: اے امير المومنين! مجهے وہ چيز بتائيے
جس سے جلنے اور ڈوبنے سے نجات ملے؟ تو امام - نے فرمایا: ان آیات کو پڑهو <اللّٰہ الذی ۔۔۔
عما یشرکون> لہٰذا جو شخص ان آیات کو پڑهے وہ جلنے اور غرق ہونے سے امن و امان ميں
ہوگا۔ راوی کا بيان ہے: اس شخص نے جب ان آیات کو اپنے ہمسائے کے گهروں ميں آگ لگنے
کے موقع پر پڑها جب کہ اس شخص کا گهر ان کے درميان تها تو کسی بهی قسم کا کوئی ضرر
اسے نہيں پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٢۴ ۔ (
پهر ایک دوسرا شخص اپنی جگہ سے بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين! ميرا دابہ (گهوڑا
یا دوسری سواری کا حيوان) سرکش ہوگيا ہے رکاب پر نہيں بيڻهنے دیتا ميں اس سے نزدیک
ہونے سے ڈرتا ہوں تو حضرت- نے فرمایا: اس کے داہنے کان ميں اس آیت <وَلَہُ اٴَسلَْمَ مَن فِی
السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ طَوعًْا وَکَرہًْا وَإِلَيہِْ یُرجَْعُونَ > کو پڑهو جب اس نے پڑها تو اس کا گهوڑا
سرکشی سے باز آیا اور اس مرد کے ليے قابل استفادہ قرار پایا۔
تيسرا شخص بلند ہوا اور کہا: یا اميرا لمومنين -! ميرے پاس ایک زمين ہے اس ميں
درندے حيوانات بہت زیادہ ہيں۔ ناگہاں ميرے گهر آتے ہيں تو واپس نہيں جاتے مگر یہ کہ اپنے
کهانے کا حصہ گوسفند وغيرہ اڻها کر لے جاتے ہيں تو امام - نے فرمایا: اس آیہٴ کریمہ <لَقَد جَائَکُم رَسُولٌ مِن اٴَنفُسِکُم عَزِیزٌ عَلَيہِْ مَا عَنِتُّم حَرِیصٌ عَلَيکُْم بِالمُْؤمِْنِينَ رَوٴُفٌ رَحِيمٌ فَإِن تَوَلَّواْ فَقُل حَسبِْی اللهُ لاَإِلَہَ إِلاَّ ہُوَ عَلَيہِْ تَوَکَّلتُْ وَہُوَ رَبُّ العَْرشِْ العَْظِيمِ > کو پڑهو اس شخص نے ان دونوں
آیتوں کو پڑها تو پهر دوبارہ وحشی حيوانات اس کے گهر کے اطراف نہيں گئے۔
پهر ایک اور شخص اپنی جگہ بلند ہوا اور کہا : یا امير المومنين -! ميرے شکم ميں زرد
پانی ہوگيا ہے کيا اس درد اور مشکل سے شفا پانے کا ميرے ليے کوئی امکان پایا جاتا ہے؟ تو
امام - نے فرمایا: ہاں بغير ایک درہم یا دینار خرچ کيے تم اپنے شکم پر آیت الکرسی لکهو اس کو
پانی سے دهو کر پی لو تاکہ تمہارے شکم کے اندر ذخيرہ ہوجائے اذن خدا سے تم صحت یاب
اور شفا پاجاؤ گے اس شخص نے حضرت - کے دستور کے مطابق عمل کيا اور اپنی صحت و
سلامتی حاصل کرلی۔
ایک دوسرا شخص بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين -! مجهے ميرے گم شدہ کی تلاش
کے ليے راہ تدبير بتائيں؟ تو حضرت - نے فرمایا: دو رکعت نماز پڑهو اور دونوں رکعتوں ميں سورئہ
یٰسين پڑهو اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد کہو : یا هادی الضالة ردّ علیّ ضالتی۔ اس شخص
نے حضرت - کے قول پر عمل کيا نماز پڑهی اور الله تعالیٰ نے اس کے گم شدہ کو واپس کردیا۔
پهر کوئی دوسرا شخص بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين -! مجهے اس غلام کے بارے
ميں خبر دیجيے جو اپنے مولا کے ہاته سے فرار کر جائے؟ تو امام نے فرمایا: مکمل آیہٴ کریمہ
<> پڑهو ، اس شخص نے اس آیت کی تلاوت کی اس کا جو غلام فرار کر گيا تها اپنے مولا کے
پاس واپس آگيا۔
پهر ایک اور شخص بلند ہوا اور کہا: یا امير المومنين! مجهے ان چيزوں کے بارے ميں
بتائيں جو چوروں نے چوری کی ہيں کيونکہ کوئی رات ایسی نہيں گزرتی جس ميں ميری کوئی
چيز چوری نہ ہوتی ہو۔ تو اس عظيم ہستی نے فرمایا: تم اپنے بستر پر جاؤ تو اس آیہٴ کریمہ
<قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ - تا- وَ کَبِّرہُْ تَکبِْيراً> کو پڑهو۔
پهر حضرت امير المومنين - نے فرمایا: جو شخص بے آب و گياہ صحرا ميں سوئے اور ان
آیات <> کو پڑهے تو ملائکہ اس کی حفاظت کریں گے اور شياطين اس سے دور رہيں گے۔
راوی کا بيان ہے: ایک شخص ایک خرابہ ميں پہنچا رات وہاں بسر کی ليکن مذکورہ آیات
کو نہيں پڑها تو شياطين آئے اور اس کا احاطہ کرليا حالانکہ وہ اپنے دماغ کو پکڑے ہوئے تها۔ ایک
شيطان نے دوسرے سے کہا: اس کی طرف دیکهو اسی وقت وہ شخص بيدار ہوا اور آیت پڑهی
تو شيطان نے اپنے ساتهی سے کہا: خدا نے تمہاری ناگ رگڑ دی اب اس کی طلوع فجر تک
حفاظت کر جب صبح ہوئی تو وہ شخص حضرت امير المومنين - کے پاس آیا اور تمام واقعہ کی
انہيں اطلاع دی اور عرض کيا کہ آپ کے کلام ميں شفا اور سچائی کا ميں نے اپنی آنکهوں سے
مشاہدہ کيا جب سورج نکلا اور تمام سطح زمين کو روشن کر دیا تو وہ شخص پهر خرابہ ميں گيا
وہاں اس کو شيطان کے بال زمين پر کهڑے ہوئے ایک جگہ نظر آئے۔
مولف کہتے ہيں: ولایت عظمیٰ حجّت حق خاتم الاوصياء امام عصر ناموس دهر مہدی آل
محمد -اور ان کے اجداد کرام بهی مومنين اور خاندان عصمت و طہارت کے چاہنے والوں کے
ليے عذاب الٰہی اور آتش جہنم سے بچانے کے ليے سپر اور مانع ہيں۔
٢١٠ ۔ “ وفی البحار عن الصدوق رضوان اللّٰہ تعالیٰ فی جملة من کتبہ عن القطّان عن عبد
الرّحمٰن بن محمّد الحسينی عن محمّد بن ابراہيم الفزاری عن عبد اللّٰہ بن بحر الاهوازی عن
علیّ بن عمر وعَن الحَسَن بن محمّد بن جمهور عَن عَلیّ بن بلال عَن عَلی بن موسیٰ الرّضا عَن
موسیٰ بن جعفر عن جعفر بن محمّد بن محمّد بن علی عن علیّ بن الحسين عن الحسين بن
علی عن علی بن ابی طالب عليہم السلام عن النّبی (ص) عن جبرئيل عن ميکائيل عن
اسرافيل عن اللّوح عن القلم قال یقول اللّٰہ عزوجلّ ولایة علی بن ابی طالب حصنی فمن دخل
) حصنی امن من عذابی ” ( ١
ہمارے شيخ بزرگوار علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے شيخ جليل القدر علامہ صدوق
رحمة الله عليہ سے کہ جنہوں نے اپنی متعدد حدیث کی کتابوں ميں نقل کيا ہے اس کی سند
کو حضرت علی ابن موسی الرضا - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام اور رسول خدا (ص) سے
انہوں نے جبرئيل، ميکائيل اور اسرافيل سے انہوں نے لوح و قلم سے نقل کيا ہے کہ خدائے
بزرگ و برتر فرماتا ہے: علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت ميرا محکم قلعہ اور حصار ہے،لہٰذا
جو شخص بهی اس قلعہ اور حصار ميں داخل ہوگيا وہ ميرے عذاب سے امن و امان پا گيا ہے۔
٢١١ ۔ “وفی اماليہ باسنادہ عن ابان بن تغلب عن عکرمة عن ابن عبّاس قال قال رسول
اللّٰہ (ص) قال اللّٰہ جلّ جلالہ لو اجتمع النّاس کلّهم علیٰ ولایة علي عليہ السلام ما خلقت النار
٢١٢ ۔ اسی جيسی روایت کو الفاظ کے مختصر معانی کے ساته خطيب خوارزمی نے
اپنی کتاب مناقب ميں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون اخبار الرضا، ج ١، ص ١۴۶ ۔ امالی صدوق، ص ٣٠۶ ۔ معانی الاخبار، ص ٣٧١ ۔ بحار الانوار، (
ج ٣٩ ، ص ٢۴۶ ۔
حضرت رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: “قال : قال رسول اللّٰہ
(ص) : لو اجتمع النّاس علیٰ حبّ علیّ بن ابی طالب عليہ السلام لما خلق اللّٰہ عزّوجلّ النّار“
اگر تمام لوگ علی ابن ابی طالب کی ولایت و محبت کو قبول کرتے اور ہر ایک کے اتفاق
اور ہم آہنگی سے اس کو مرکزی نقطہ قرار دے کر اس کے اطراف ميں جمع ہوتے تو الله تعالیٰ
کبهی بهی آتش جہنم کو خلق نہ کرتا۔
ائمہٴ اطہار کی ولایت و محبت بہت ہی قوی اور مستحکم قلعہ نيز مومنين اور حضرات
معصومين کے دوستوں کے ليے آتش جہنم سے محفوظ رہنے کے ليے مستحکم حجاب ہے
اس کے علاوہ منجملہ اسلام اور ایمان کے ثابت اور پا برجا ستونوں ميں سے ایک ستون ہے۔
٢١٣ ۔ “فی الکافی عن زرارة عن ابی جعفر الباقر عليہ السلام قال بنی الاسلام علیٰ
خمسة اٴشيآء علیٰ الصّلٰوة والزّکٰوة والصٴوم والحجٴ وَالولایَة قال زرارَة فقلت وَایّ شَیء من ذٰلِک
افضل قال الولایة افضل لانها مفتاحهنّ والوالی هو الدّليل عليهنّ قلت ثمّ الذی یلی ذٰلک فی
الفضل فقال الصّلٰوة انّ رسول اللّٰہ (ص) قالَ الصّلٰوةَ عَمُودُ الدین دینکُم قالَ قُلتُ ثَمَّ الذی یَليها
فی الفَضِل قالَ الزّ کٰوةُ لاٴنّها قَرَنَها بِها وَبَدَء بِالصَّلاة قَبلهَا وَ قالَ رَسولُ اللہّٰ (ص) الزّکوة تذهب
الذّنوب قلت والذی یليها فی الفضل قال الحجّ قال اللّٰہ عزّوجلّ وللّٰہ علی الناس حجّ البيت لآیة الیٰ
ان قال ثمّ قال عليہ السالم ذروة الاٴمر وسنامہ ومفتاحہ وباب الاٴشيآء ورضا الرّحمن الطّاعة للامام
بعد معرفتہ انی اللّٰہ عزّوجلّ یقول من یطع الرّسول فقد اطاع اللّٰہ ومن تولّی فما ارسلناک عليهم
حفيظاً ، امٰا لو انّ رجلاً قام ليلہ وصام نهار ہ وتصدّق بجميع مالہ وحجّ جميع دهرہ ولم یعرف ولایة
ولیّ اللّٰہ فيواليہ ویکون جميع اعمالہ بدلالتہ اليہ ماکان لہ علی اللّٰہ حق فی ثوابہ ولا کان من اهل
) الایمان ثمّ قال اولئک المحسن منهم یدخلہ اللّٰہ الجنّة بفضل رحمة ” ( ١
شيخ جليل القدر علامہ کلينی عليہ الرحمہ نے کتاب کافی ميں زرارہ سے انہوں نے امام
محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اسلام کی اساس و بنياد پانچ چيزوں پر
استوار ہے اور وہ پانچوں ستون سے مراد نماز، زکوٰة، روزہ، حج بيت الله اور ائمہٴ اطہار کی
ولایت ہے۔
زرارہ نے عرض کيا: ان پانچ چيزوں ميں سے کون سے چيز سب سے افضل ہے؟ فرمایا:
ولایت افضل ہے، اس ليے کہ ولایت ان سب کی کنجی ہے اور ان سب چيزوں کا والی اور دليل و
رہنما ہے۔ ميں نے عرض کيا: ولایت کے بعد کون سی شے افضل ہے؟ فرمایا: نماز ، یقينا رسول
خدا (ص) نے فرمایا ہے کہ نماز تمہارے دین کا ستون ہے ميں نے عرض کيا: نماز کے بعد کون
سی شے افضل ہے؟ فرمایا: زکوٰة کيوں کہ الله نے نماز کے بعد اس کا ذکر فرمایا ہے، رسول خدا
نے فرمایا: زکوٰة گناہوں کو دور کرتی ہے، ميں نے عرض کيا: زکوٰة کے بعد کون سی شے افضل
ہے؟ فرمایا: حج بيت الله کيوں کہ خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: خدا کے ليے ان لوگوں پر امکانی
صورت ميں خانہٴ کعبہ کی طرف حج کا سفر فرض قرار دیا گيا ہے جو وہاں پہنچنے اور مخصوص
اعمال بجالانے کی قدرت رکهتے ہيں یہاں تک کہ فرمایا: عالی ترین اور با ارزش ترین امور اور ان
کی کنجی تمام چيزوں ميں خدائے غفور و رحيم کی رضایت اور خوشنودی ہے اور اس کی
معرفت کے بعد امام معصوم کی اطاعت و فرماں برداری ہے جيسا کہ الله تعالیٰ آیہٴ کریمہ ميں
فرما رہا ہے: جو شخص الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے یقينا اس نے الله کی اطاعت
کی اور جو شخص تجه سے گریز کرے اور تيری اطاعت نہ کرے تو ميں نے تم کو اس کا حفاظت
کرنے والا نہيں بنا کر بهيجا ہے۔
پهر امام - نے ائمہٴ طاہرین کی عظيم ولایت کی عظمت ومنزلت کی اہميت کو لوگوں
سے تاکيد اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٩ ۔ (
وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اور یہ کہ تمام مذکورہ اشياء کی کنجی پروردگار متعال کی رضایت و
خوشنودی کا حاصل کرنا وہی ولایت ہے اپنے تہدید آميز اور بيدار کرنے والے جملوں ميں فرمایا:
یہ جان لو اور آگاہ ہوجاؤ کہ! اگر تم ميں سے کوئی شخص تمام رات و دن کو نماز و روزہ ميں
بسر کرے اور اپنے تمام مال و دولت کو راہِ خدا ميں صدقہ دے اور اپنی تمام عمر کو زیارت خانہ
ٴخدا اور حج بيت الله ميں صرف کرے ليکن ولی امر کی ولایت کی معرفت نہ رکهتا ہو تاکہ اس کا
چاہنے والا اور فرماں بردار نيز اپنے تمام اعمال اس کی رہنمائيوں کے مطابق انجام دے تو الله
تعالیٰ کی طرف سے اس کے ليے نہ اس کے اعمال کا کوئی ثواب ہوگا اور اس کا شمار اہل
ایمان ميں بهی نہيں ہوگا۔
اس کے بعد امام - نے فرمایا: جو لوگ ہماری ولایت کی شناخت و معرفت رکهتے ہيں اور
خدا کے مطلوبہ نيک اعمال انجام دیتے ہيں تو خدائے غفور رحيم اپنے فضل و رحمت سے
بہشت ميں داخل کرے گا اور اس کی لامتناہی نعمتوں سے اسے نوازے گا۔
|
|