قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٢۔ شاہد / ٣۴
٣۴ ۔ و شاهدا لمن خاصم بہ (اور مناظرہ کرنے والوں کے ليے شاہد ہے(
قرآن کریم شاہد، دليل و رہنما اور رہ گشا ہے ان لوگوں کے ليے محکم ہے جو اس سے استدلال کرتے ہيں اور دشمن سے مناظرہ کرنے والوں کے ليے گواہ ہے۔
”و فی ثوا ب الاعمٰال : باسنادہ عن منهال القصاب عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال : من قرء القرآن وهو شاب موٴمن اختلط القرآن بلحمہ ودمہ وجعلہ اللّٰہ مع السّفرة الکرام البررة وکان القرآن حجيزاً عنہ یوم القيٰمة ویقول : یا ربّ انّ کلّ عامل قد اصاب اجر عملہ غير عامل فبلّغ بہ کریم عطایاک فيکسرہ اللّٰہ عزّوجلّ حلّتين من حلل الجنّة ، ویوضع علی راسہ تاج الکرامة ، ثمّ یقال : هل ارضيناک فيہ ؟ فيقول القرآن : یا ربّ قدکنت ارغب لہ فيما هو افضل من هذا، قال فيعطی: الاٴمن بيمينہ والخلد بيسارہ ، ثمّ یدخل الجنّة ، فيقال : لہ اقرء آیة واصعد درجة، ثمّ یقال لہ : بَلغنا بہ وارضيناک فيہ فيقول : اللهمّ نعم قال من قراٴہ کثيراً وتعاهدہ مشقة من شدّة حفظہ ) اعطاہ اللّٰہ اجر هذا مرّتين ” ( ١
محدث جليل القدر شيخ صدوق عليہ الرحمہ کتاب ثواب الاعمال ميں اپنی سند کے ساته منهال قصاب سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو مومن جوانی کی حالت ميں قرآن پڑهے گا قرآن اس کے گوشت و خون ميں داخل ہوجائے گا اور خدا اس کو اپنے برگزیدہ پيغمبروں کے ساته رکهے گا نيز قرآن اس کو روز قيامت (آتش جہنم کے) عذاب سے روکنے والا بن جائے گا اور کہے گا: اے ميرے پروردگار! ہر عمل کرنے والا اجر تک پہنچ گيا سوائے مجه پر عمل کرنے والے کے لہٰذا اس کو بہترین بخشش عطا کر امام - نے فرمایا: الله تعالیٰ اس کو جنت کے دو حلّے پہنائے گا اور اس کے سر پر تاج کرامت رکهے گا کيا ہم نے تجهے راضی کردیا ، قرآن جواب دے گا: اے ميرے پروردگار ! ميں تو اس کے ليے اس سے زیادہ چاہتا ہوں ، لہٰذا خدا اس کو اس کے داہنے ہاته ميں دے گا اور خلد کو بائيں ہاته ميں پهر وہ جنت ميں داخل ہوگا اس سے کہا جائے گا: قرآن پڑهو اور بلند درجہ حاصل کرو۔ پهر (قرآن سے) کہا جائے گا: ہم نے تجه پر عمل کرنے والوں کا حق پورا کردیا اور تجهے راضی کردیا؟ قرآن کہے گا: اے ميرے پروردگار! مجهے ان سے اس سے زیادہ بہتر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ثواب الاعمال، ص ١٠٠ ۔ کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٧، ص ٣٠۵ ۔ (
اميدیں وابستہ تهی، راوی کا بيان ہے کہ: امام - نے فرمایا: امان نامہ کو داہنے ہاته ميں اور بہشت کا دائمی پروانہ بائيں ہاته ميں دیا جائے گا پهر وہ بہشت ميں داخل ہوگا اور اس ے کہا جائے گا کہ ایک آیت پڑهو اور ایک درجہ اوپر جاؤ پهر قرآن کو خطاب کيا جائے گا: اس کی جزا ہم نے عطا کردی ہے اور تمہيں راضی کردیا ہے۔ وہ عرض کرے گا: ہاں ميرے پروردگار۔ امام - نے فرمایا: جو قرآن کو زیادہ پڑهے گا اور اس کو یاد کرنے ميں زیادہ زحمت و مشقت اڻهائے گا تو خداوند متعال اس کو دوگنا اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔ مولف کہتے ہيں: پيغمبر اکرم (ص) کا مقدس وجود قرآن کی صریحی نص اور محکم الٰہی خطاب سے شاہد اور مبشر و نذیر ہے جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا اٴَرسَْلنَْاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا وَدَاعِيًا إِلَی اللهِ بِإِذنِْہِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا > ( ١) (اے پيغمبر! ہم نے آپ کو گواہ ، بشارت دینے والا، عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بهيجا ہے)۔ اور اسی طرح پيغمبر عظيم الشان کے مخصوص اوصيائے گرامی کے حقيقی وارث ہيں اور ہر جہت سے ان افراد پر شاہد و ناظر ہيں جو ان کے ساته باہمی خصومت و عداوت رکهے۔
١٨٠ ۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں ہم پڑهتے ہيں: “انتم الصّراط الاٴقوم وشهدآء دارالفناءِ وشفعآء دار البقاء ” آپ ہی صراط مستقيم کے گواہ اور دار بقا کے شفيع ہيں۔ ١٨١ ۔ حضرت امير المومنين کی چهڻی زیارت مطلقہ ميں وارد ہوا ہے: “اللّهم صلّ علی امير الموٴمنين عبدک المرتضی الیٰ قولہ: اٴخی نبيّک ووصیّ رسولک البائت علیٰ فراشہ والمواسی لہ بنفسہ وکاشف الکرب عن وجهہ الذی جعلتہ سيفاً لنبوتہ وآیة لرسالتہ وشاهداً ) علیٰ امتہ الخ ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ احزاب، آیت ۴۶ ۔ (
٢(۔ مزار ابن مشہدی، ص ٢٢٠ ۔ مزار شہيد اول، ص ١٠۶ ۔ بحار الانوار، ج ٩٧ ، ص ٣٠٧ ۔ (
١٨٢ ۔ “ وفی بصائر الدّرجات :باسنادہ عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قول اللّٰہ تبارک وتعالیٰ <وَکَذَلِکَ جَعَلنَْاکُم اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ>( ١) قال نحن ) الشهداء علی النّاس بما عندهم من الحلال والحرام وما ضيّعوا منہ ” ( ٢
محدّث جليل شيخ القميين، ابو جعفر محمد ابن حسن صفّار نے بصائر ميں اپنی سند کے ساته ابو بصير سے روایت نقل کی ہے کہ امام جعفر صادق - نے الله تعالیٰ کے اس قول <و کَ لٰ ذِکَ جَعَل اْٰنکُم اٴُمَّةً وَسَطاً ۔۔۔> (اور بخوبی قبلہ کی طرف تم کو درميانی امت قرار دیا تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو) کے بارے ميں فرمایا: ہم تمام لوگوں پر گواہ ہيں جو کچه ان کے پاس حلال و حرام ہے اور جو کچه ان لوگوں نے اس (حلال و حرام) سے ضائع کردیا ہے۔ ١٨٣ ۔ “ وفيہ باسنادہ عن ابی بصير عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام < وَکَذَلِکَ جَعَلنَْاکُم اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَيکُْم شَہِيدًا> قال نحن الامة الوسط ونحن ) شهدائہ علی خلقہ وحجّتہ فی ارضہ ” ( ٣
پهر اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته امام جعفر صادق - سے مذکورہ آیہٴ کریمہ کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: ہم امت وسط ہيں ہم الله کی طرف سے اس کی مخلوق پر گواہ ہيں اور اس کی زمين پر اس کی برحق حجّت ہيں۔ ١٨۴ ۔ “وفيہ باسنادہ عن سليم بن قيس الهلالی عن امير الموٴمنين - صلوات اللّٰہ عليہ - قال انّ اللّٰہ طهّرنا وعصمنا جعلنا شهدآء علیٰ خلقہ وحجتہ فی ارضہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١۴٣ ۔ (
٢(۔ بصائر الدرجات، ص ١٠٢ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٣۴٣ ۔ (
٣(۔ بصائر الدرجات، ص ١٠٣ ۔ کافی، ج ١، ص ١٩٠ ۔ (
) وجعلنا مع القرآن وجعل القرآن معنا لا نفارقہ ولا یفارقنا ” ( ١ نيز صاحب بصائر نے اپنی سند کے ساته سليم ابن قيس ہلالی سے انہوں نے امير المومنين علی - سے نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: الله تعالیٰ نے ہم کو تمام آلودگيوں سے پاک کيا ہے اور معصوم بنایا ہے اپنی مخلوق پر گواہ قرار دیا ہے نيز زمين پر اپنی حجّت بنایا ہے اور قرآن کو ہمارے ساته کيا ہے اور ہميں قرآن کے ہمراہ ، نہ ہم اس سے جدا ہوں گے نہ وہ ہم سے۔
اور الله تعالیٰ کے اس قول : <اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ > ( ٢) کيا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کهلی دليل رکهتا ہے اور اس کے پيچهے اس کا گواہ بهی ہے۔ ١٨۵ ۔ “ فی الکافی باسنادہ عن احمد بن عمر الخلاّٰل قال: ساٴلت ابا الحسن عليہ السلام عن قول اللّٰہ عزوجلّ <اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ> فقال : امير ) الموٴمنين عليہ السلام هو الشاهد من رسول اللّٰہ (ص) و رسول اللّٰہ علیٰ بينة من ربّہ ” ( ٣ صاحب کافی نے اپنی سند کے ساته احمد بن عمر خلال سے روایت نقل کی ہے کہ وہ کہتے ہيں : ميں نے ابو الحسن امام رضا - سے الله تعالیٰ کے اس قول <اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ> کے بارے ميں دریافت کيا تو فرمایا: امير المومنين - رسول الله (ص) کی رسالت کے گواہ ہيں اور رسول الله کی طرف سے بيّنہ ہيں۔ ١٨۶ ۔ “وفی امالی الشيخ باسنادہ عن عبد الرّحمٰن بن کثير عن جعفر بن محمّد بن علی ابيہ عن جدّہ علی بن الحسين عن الحسن ( عليہم السلام ) فی خطبة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ١٠٣ ۔ (
٢(۔ سورئہ ہود، آیت ١٧ ۔ (
٣(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٠ ۔ (
طویلة خطبها بمحضر معاویة : فاٴدّت الامور وافضت الدهور الیٰ ان بعث اللّٰہ محمداً (ص) للنبوة واختارہ للرّسالة وانزل عليہ کتابہ ثمّ امرہ بالدّعا الیٰ اللّٰہ عزّوجلّ ولرسولہ واوّل من آمن و صدق اللّٰہ و رسولہ وقد قال اللّٰہ عزوجلّ فی کتابہ المنزل علی نبيّہ المرسل<اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن ) رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ> فرسول اللّٰہ الذی علی بينّة من ربہ وابی الذّی یتلوہ وهو شاہد منہ ” ( ١
کتاب امالی ميں ہمارے بزرگوار شيخ جليل علامہ طوسی رحمة الله عليہ نے اپنی سند کے ساته حضرت امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے پدر گرامی سے انہوں نے اپنے جد بزرگوار علی ابن الحسين سے انہوں نے امام حسن مجتبیٰ سے معاویہ سے صلح کے متعلق طولانی خطبہ ميں نقل کيا ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امور یہاں تک پہنچ گئے اور زمانہ گزر گيا یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے حضرت محمد (ص) کو نبوت کے ليے مبعوث کيا اور رسالت کے ليے اختيار کيا آپ پر اپنی کتاب نازل کی۔ پهر حکم دیا تاکہ (لوگوں کو) خدا اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیں وہ سب سے پہلے فرد تهے جو ایمان لائے خدا اور اس کے رسول کی تصدیق کی خدائے بزرگ و برتر نے اپنے پيغمبر مرسل پر نازل کی ہوئی کتاب (قرآن) ميں فرمایا “کيا جو شخص اپنے رب کی طرف سے کهلی دليل رکهتا ہے اور اس کے پيچهے اس کا گواہ بهی ہے ” لہٰذا رسول اسلام کی ذات وہ ہے جو الله تعالیٰ کی طرف سے بيّنہ کی حامل ہے اور ميرے والد گرا می وہ ہيں جو ان کے پيچهے ان کے شاہد ہيں۔
١٨٧ ۔ “وفی الدّر المنثور : اخرج ابن ابی حاتم وابن مردویہ وابو نعيم فی المعرفة عن علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ قال: ما من رجل من قریش الاّ نزل فيہ طائفة من القرآن فقال لہ رجل ما نزل فيک ؟ قال : اٴما تقرء سورة هود <اٴَفَمَنْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی شيخ طوسی، ص ۵۶١ ۔ (
) کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ>رسول اللّٰہ (ص) علیٰ بينة من ربّہ وانا شاهد منہ” ( ١ سيوطی نے اپنی تفسير الدر المنثور ميں تحریر کيا ہے کہ ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابو نعيم نے علی ابن ابی طالب (رضی الله عنہ) کی شناخت و معرفت کے بارے ميں نقل کيا ہے کہ فرمایا: قریش ميں سے کوئی شخص نہيں پيدا کيا جاسکتامگر یہ کہ اس کے حق ميں بعض قرآنی آیات اس کے حق ميں نازل ہوئی ہوں۔ ایک شخص نے ان (علی -) سے عرض کيا: آپ کی شان ميں کيا نازل ہوا ہے؟ فرمایا: کيا تم نے سورئہ ہود نہيں پڑهی ہے کہ الله فرماتا ہے: <> رسول خدا الله تعالیٰ کی طرف سے بيّنہ و برہان ہيں اور ميں شاہد ہوں۔
١٨٨ ۔ “وفی الشواهد التنزیل عن ابن المغازلی باسنادہ عن علیّ بن عابس قال : دخلت انا وابو مریم علیٰ عبد اللّٰہ بن عطآء قال ابو مریم : حدّث علينا الحدیث الذی حدثتنی بہ عن ابی جعفر قال: کنت عند ابی جعفر جالساً اذمرّ علينا عبد اللّٰہ بن سلام قلت: جعلت فداک هذا ابن الذی عندہ علم الکتاب قال: لا ولٰکنّہ صاحبکم علیّ بن ابيطالب الّذی نزلت فيہ آیات من کتاب اللّٰہ تعالیٰ <من عندہ علم الکتاب><اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ><اِنَّمٰا وَلِيُّکُمُ اللّٰہُ ) وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا > ( ٢
شواہد التنزیل ميں حاکم حسکانی نے ابن مغازلی سے اپنی سند کے ساته علی ابن عابس سے نقل کيا ہے کہ انہوںنے کہا: ميں اور ابو مریم عبد الله ابن عطاء کے پاس گئے تو ابو مریم نے (عبد الله ابن عطاء) سے عرض کيا: وہ حدیث جو ابو جعفر سے ميرے ليے نقل کی تهی اسے بيان کریں۔ عبدالله نے کہا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدّر المنثور، ج ٣، ص ٣٢۴ ۔ (
٢(۔ شواہد التنریل، ج ١، ص ۴٠٣ ۔ تفسير الميزان، ج ١١ ، ص ٢٨٩ ۔ (
ميں ابو جعفر کے پاس بيڻها ہوا تها تو اچانک عبد الله ابن سلام کا ہماری طرف سے گزر ہوا ميں نے عرض کيا: ميں آپ پر قربان جاؤں کيا یہ اس شخص کا فرزند ہے کہ جس کے پاس علم الکتاب ہے؟ فرمایا: نہيں ليکن وہ (شخص) تمہارا مولا علی ابن ابی طالب - ہے کہ اس کی شان ميں کتاب خدا (قرآن مجيد) کی متعدد آیات نازل ہوئی ہيں من جملہ ان ميں سے یہ <من عندہ علم الکتاب> کہ اس کے پاس تمام کتاب کا علم ہے اور آیہٴ < اٴَفَمَن کَانَ عَلَی بَيِّنَةٍ مِن رَبِّہِ وَیَتلُْوہُ شَاہِدٌ مِنہُْ<
اسی طرح آیہٴ کریمہ <انما وليکم اللّٰہ> جو ان کی ولایت عظمائے الٰہی نيز الله تعالیٰ، رسول اور ائمہٴ اطہار کے اولی بالنفس ہونے کو ثابت کرتی ہے۔
ہم تبرکاً چند روایات جو ائمہٴ ہدی کا بندوں کے افعال پر شاہد اور حاضر و ناظر ہونے پر مبنی ہيں انہيں ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہيں۔
١٨٩ ۔ “ وفی بصائر الدرجات : باسنادہ عن ابراہيم بن مهزم قال: خرجت من عند ابی عبد اللّٰہ (ص) ليلة ممسياً فاتيت منزلی بالمدینة وکانت امّی معی فوقع بينی وبينها کلام فاغلظت لها، فلمّا ان کان من الغد صّليت الغداة واتيت ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام فلما دخلت عليہ فقال لی : مبتدئاً یا ابا مهزم مالک وللوالدة اغلظت فی کلامها البارحة اما علمت انّ بطنها منزل قد سکنتہ ) وانّ حجرها مهد قد غمزتہ وثدیها وعاء قد شریتہ قال قلت بلی قال فلا تغلظ لها ” ( ١ محدث جليل صاحب بصائر نے اپنی سند کے ساته ابراہيم ابن مہزم سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: گزشتہ شب امام جعفر صادق - کی خدمت سے باہر آےا پهر اپنے گهر مدینہ پہنچا اور ميری مادر گرامی بهی ميرے ہمراہ تهيں ميرے اور ان کے درميان کچه گفتگو ہوئی اور ميں ان پر غضب ناک ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٢۶٣ ۔ (
جب صبح ہوئی تو نماز بجا لایا اور امام جعفر صادق - کی خدمت ميں پہنچا جب ميں شرف یاب ہوا تو انہوں نے بغير کسی تمہيدکے مجه سے فرمایا: اے ابو مہزم! تمہيں کيا ہو گياتها کہ کل رات تم اپنی ماں کے ساته شدّت و سختی کے ساته پيش آئے کيا تم نہيں جانتے کہ اس کا شکم تمہاری منزل تهی جس ميں تم ساکن تهے اور اس کی آغوش تمہارا گہوراہ تها کہ جس ميں تم آرام کيا کرتے تهے اور اس کی چهاتی ایک ظرف کہ جس سے تم پيا کرتے تهے؟ ميں نے عرض کيا: ہاں، تو حضرت نے فرمایا: اب آج کے بعد اپنی ماں کے ساته شدت اور سختی کے ساته نہ پيش آنا۔
١٩٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابی کهمش قال کنت نازلاً بالمدینة فی دار فيها وصيفة کانت تعجبنی فانصرفت ليلاً ممسياً فاستفتحت الباب ففتحت لی فمددت یدی فقبضت علیٰ ثدیها ، فلما کان من الغد دخلت علیٰ ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فقال: یا ابا کهمش تب الیٰ اللّٰہ مما ) صنعت البارحة ” ( ١
نيز اسی کتاب ميں صاحب بصائر نے اپنی سند کے ساته ابو کهمش سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ميں مدینہ کے ایک گهر ميں داخل ہوا کہ وہاں ایک (خوبصورت) خادمہ کا مشاہدہ کيا تها کہ جس نے مجهے تعجب ميں ڈال دیا گزشتہ رات ميں نے گهر پر دقّ الباب کيا جب اس نے دروازہ کهولا ميں نے دست درازی کرکے اس کی چهاتی کوپکڑ ليا جب صبح امام جعفر صادق - کی خدمت ميں پہنچا تو فرمایا: اے ابو کهمش! کل رات جو تم نے انجام دیا ہے الله تعالیٰ کی بارگاہ ميں توبہ کرو۔
١٩١ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابی عمر الدّماری عمن حدّثہ قال: جآء رجل الی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام وکان لہ اخ جارودی فقال لہ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : کيف اخوک قال جعلت فداک خلفتہ صالحاً قال وکيف هو قال قلت مرضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٢۶٢ ۔ (
فی جميع حالاتہ وعندہ خير الّا انّہ لا یقول بکم قال: وما یمنعہ قال قلت جلعت فداک یتورع من ذٰلک قال فقال لی اذا رجعت اليہ فقل لہ : این کان ورعک ليلة نهر بلخ ان تتورع قال: فانصرفت الیٰ منزلہ فقلت لاٴخی ما کانت قصتک ليلة نهر بلخ ان تتورع ان تقول بامامة جعفر عليہ السلام ولا تتورع من ليلة نهر بلخ؟ قال : ومن اخبرک قلت انّ ابا عبد اللّٰہ عليہ السلام ساٴلنی فاخبرت انک لا تقول بہ تورعاً فقال لی قل لہ:این کان ورعک ليلة نهر بلخ ؟ فقال : یا اخی اشهد انّہ کذا کلمة لا یجوز ان تذکر قال قلت : ویحک اتق اللّٰہ ، کلّ ذا ليس هو هکذا قال فقال: ما علمہ والله ماعلم بہ احدّ من خلق اللّٰہ الّا انا والجاریة وربّ العالمين قال قلت وما کانت قصّتک ؟ قال خرجت من وراء النّهر وقد فرغت من تجارتی وانا ارید مدینة بلخ فصحبنی رجل معہ جاریہ لہ حسناء حتی عبرنا نهر بلخ فاتيناہ ليلاً فقال لی الرجل مولیٰ الجاریة : امّا احفظ عليک وتقدم انت وتطلب لنا شيئاً وتقتبس ناراً اوتحفظ علی واذهب اٴنا قال فقلت : انا اخفظ عليک واذهب انت قال فذهب لرجل وکنّا الی جانب غيظة فاخذت الجاریة فادخلتها الغيظة فاوقعتها وانصرفت الیٰ موضعی ثمّ اٴتی مولاها فاضطجعنا حتیٰ قدمنا العراق فما علم بہ احد والم ازل بہ حتّی سکن ثمّ قال بہ وحججت من قابل فادخلتہ اليہ فاخبرہ بالقصة فقال : تستغفر اللّٰہ فلا تعود ) فاستقامت ظریقتہ ” ( ١
مزید اسی کتاب ميں صاحب بصائر نے ابو عمر سے روایت نقل کی ہے کہ ان کا بيان ہے کہ: ایک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٢٧٠ ۔ (
شخص امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا اور اس کا ایک جارودی نامی بهائی تها تو حضرت امام صادق - نے اس سے دریافت فرمایا: آپ کا بهائی کيسا ہے (اس کا کيا حال ہے)؟ جواب دیا: ميں آپ پر قربان ایک خلف صالح ہے دریافت فرمایا: وہ کيسا ہے (اس کے حالات کيسے ہيں) ميں نے عرض کيا: وہ ہميشہ مریض رہتا ہے نيک امور انجام دیتا ہے ليکن (افسوس یہ ہے کہ) آپ کی امامت کا قائل نہيں ہے فرمایا: کيا سبب ہے اور کون سی شے مانع ہے (کہ وہ ہماری ولایت و امامت کو قبول نہيں کرتا؟) جواب دیا: ميں آپ پر قربان، احتياط کرتا ہے اس کا ورع و تقویٰ مانع ہے۔ امام - نے اس سے فرمایا: جب تم واپس جانا تو اس سے کہنا : یہ ورع و تقویٰ اور تمہاری احتياط اس رات کہاں تهی جب تم بلخ کی نہر کے کنارے تهے وہاں اس تقوے اور احتياط کی رعایت کرنی چاہيے تهی؟
راوی کا بيان ہے: جب ميں واپس ہوا تو اس کے گهر کيا اور کہا: اے بهائی! نہر بلخ کی رات کا کيا واقعہ تها جو تم امام جعفر صادق - کی امامت پر عقيدہ رکهنے سے احتياط کر رہے ہو، حالانکہ تم نے نہر بلخ کی رات کے واقعہ ميں تقویٰ و احتياط سے کام نہيں ليا؟ اس نے دریافت کيا: آپ کو کس نے اس بات کی خبر دی؟ ميں نے کہا: امام جعفر صادق - نے تمہاری احوال پرسی کی ہے اور مجه سے کہا ہے کہ تم تقویٰ و احتياط کی بناپر ان کی امامت کے قائل نہيں ہو۔ (حضرت نے) فرمایا: اس سے کہو کہ تمہارا ورع و تقویٰ اس رات کہاں تها؟ تو اس نے کہا: اے ميرے بهائی! ميں گواہی دیتا ہوں (اعتراف کرتا ہوں) کہ واقعہ اسی طرح ہے۔ یہ ایسا کلمہ اور گفتگو ہے جو قابلِ ذکر نہيں ہے۔ راوی کا بيان ہے: ميں نے کہا: تم ہلاک ہو، خدا سے ڈرو یہ سب اس طرح نہيں ہے جس طرح تم تصور کرتے ہو۔ اس نے دریافت کيا: انہيں اس بات کا علم کہاں سے ہوا؟ خدا کی قسم ! اس واقعہ کو مخلوقات خدا ميں سے کوئی نہيں جانتا سوائے ميری اس کنيز اور پروردگار عالم کے ۔ ميں نے دریافت کيا تمہارا وہ کون سا واقعہ تها! جواب دیا: ميں تجارت کے کام سے فارغ ہوا اور ماورء النهر سے باہر آیا اور شہر بلخ جانے کا قصد رکهتا تها ایک شخص ميرے ساته تها جس کے ہمراہ ایک خوبصورت کنيز تهی۔ ہم لوگوں نے نہر بلخ کو عبور کيا اور رات ميں شہر بلخ وارد ہوئے ميرا دوست جو کنيز کا مالک تها مجه سے کہا: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے اموال کی حفاظت کروں اور تم جاؤ غذا اور آگ ہمارے ليے فراہم کرو یا یہ کہ تم ہمارے اموال کی پاسبانی کرو ميں ان امور کی انجام دہی کے ليے جاؤں؟ ميں نے جواب دیا: ميں تمہارے اموال اور کنيز کی حفاظت کرو ں گا تم جاؤ وہ گيا اور ہم لوگ ایک گڈهے کے کنارے کہ جس ميں پانی تها بيڻه گئے ميں نے کنيز کو ليا اور اسے پانی ميںداخل کردیا اور اس کے ساته مباشرت کی پهر اپنی جگہ واپس آئے۔ پهر کنيز کا مولا آیا۔ اور رات ميں ہم سب سوئے پهر عراق ميں داخل ہوئے کوئی شخص بهی اس واقعہ سے باخبر نہيں تها اور ميں اسی طرح باقی رہا یہاں تک کہ وہاں ساکن ہوا پهر واقعہ کی خبر دی۔
ميں نے آئندہ سال حج ادا کيا پهر ميں اپنے بهائی کو حضرت کے پاس لے گيا اور انہوں نے واقعہ کی خبر دی ، حضرت نے فرمایا: الله تعالیٰ سے طلب مغفرت کرو اور اس فعل کا دوبارہ ارتکاب نہ کرنا آج کے بعد سے تم صحيح راستہ پر آجاؤ۔ مولف کہتے ہيں: بصائر الدرجات سے چند روایت جن ميں سے ابراہيم ابن مہزم کا واقعہٴ سلوک یا اس کی ماں اور ابو کهمش کی داستان اور اس کا کنيز پر خيانت کا ہاته رکهنا اسی طرح جارودی نامی شخص کا واقعہ اور اس کا اپنے ہم سفر دوست کی کنيز کے ساته تجاوز کرنا اور نہر بلخ کے واقعہ کو ہم نے نقل کيا اور تمام واقعات کو امام جعفر صادق - نے یوں بيان کيا جيسے حضرت بهی ان کے ہمراہ تهے اس سے باخبر کيا اور اس کی سرزنش و ملامت کی، یہ سب کچه اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہمارے حضرات معصومين ہمارے تمام اعمال و رفتار و کردار پر شاہد اور ناظر ہيں اور حضرت بقية الله ولی الله الاعظم صاحب العصر و الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف بهی ان کے تمام فضائل و مناقب اور اپنے آباء و اجداد کرام کے علوم کے بهی اس آیہٴ کریمہ کی صراحت کی بنا پر وارث ہيں۔ < وَقُل اعمَْلُوا فَسَيَرَی اللهُ عَمَلَکُم ) وَرَسُولُہُ وَالمُْؤمِْنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الغَْيبِْ وَالشَّہَادَةِ فَيُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُم تَعمَْلُونَ> ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ توبہ، آیت ١٠۵ ۔ (
اور پيغمبر کہہ دیجيے (جو کچه نيک و بدکردار ميں سے ) تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمہارے عمل کو الله ، رسول اور صاحبان ایمان سب کچه دیکه رہے ہيں اور عنقریب تم اس خدائے عالم الغيب و الشهادہ کی طرف پلڻائے جاؤ گے اور وہ تمہيں تمہارے اعمال سے باخبر کرے گا۔
١٩٢ ۔ “ قال الصادق عليہ السلام لداوٴد الرقّی لقد عرضت اعمالکم علی یوم الخميس ) فراٴیت فيما عرض من عملک لابن عمّک فلان فسّرنی ذلک ” ( ١ امام صادق - نے داؤد رقّی سے فرمایا: تمہارے اعمال ہر جمعرات کے دن ہمارے پاس پيش کيے جاتے ہيں تمہارے اعمال کے درميان تمہارے چچا کے فرزند کی مدد بهی تهی لہٰذا مجهے اسی طرح خوش حال کيا۔
١٩٣ ۔ “والرضوی عليہ السلام : انا معشر الائمّة تعرض علينا اعمال شيعتنا صباحاً ومساء ” )٢)
حضرت امام رضا - نے فرمایا: اے لوگو! تمہارے اعمال روزانہ صبح و شام ہمارے سامنے پيش کيے جاتے ہيں۔
١٩۴ ۔ “ وفی کنز الکراجکی عن رسول اللّٰہ (ص) قال تعرض اعمال الناس فی کل جمعة مرتين یوم الاثنين ویوم الخميس فيغفر لکل عبد موٴمن الامن کانت بينہ وبين اخيہ شحناء فيقال ) اترکوا هذین حتٰی یصطلحا ” ( ٣ صاحب کنز الکراجکی نے رسول خدا (ص) سے نقل کيا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہر ہفتہ دو مرتبہ دو شنبہ اور جمعرات کے دن تمہارے اعمال پيش کے جاتے ہيں تو ہر مومن کے ليے استغفار کيا جاتا ہے مگر یہ کہ اس کے اور اس کے بهائی کے درميان عداوت و دشمنی ہو۔ پس کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں کو چهوڑ دو یہاں تک کہ دونوں کے درميان صلح و مصالحت ہوجائے۔ اعمال پيش ہونے کی روایات مختلف اوقات کے شب و روز ميں، ہر ہفتہ مہينہ اور سال ميں ائمہٴ اطہار کی خدمت اقدس ميں پيش کيے جانے کے متعلق بہت زیادہ ہيں ہم نے تبرکاً چند روایت کی طرف اشارہ کيا اور ان سب کے مضمون و مطالب سے اس طرح استفادہ ہوتا ہے کہ وہ عظيم ہستياں ہمارے نيک اعمال سے مسرور اور خوش حال ہوتی ہيں اور ہمارے ناشائستہ کردار سے ناراض اور غمگين ہوکر طلب مغفرت کرتی ہيں۔ وفّقنا اللّٰہ وجميع الموٴمنين لکل عمل یسرّ محمداً وآل محمّد عليہم السلام آمين“ الله تعالیٰ ہميں اور تمام مومنين کو ہراس عمل کی توفيق کرامت فرمائے جو محمد و آل محمد کے ليے خوش حال ہونے کا باعث ہو۔ آمين
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی طوسی، ص ۴١٣ ۔ الخرائج و الجرائح، ج ٢، ص ۶١٢ ۔ (
، ٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ۴۵٣ ۔ مستدرک الوسائل، ج ١٢ ، ص ١۶۴ ۔ سفينة البحار، ج ٢ ( ص ١٧٧ ۔
٣(۔ کنز الفوائد، ص ١۴١ ۔ مستدرک الوسائل، ج ١٢ ، ص ١۶۵ ۔ (


٢۔ فتح و ظفر / ٣۵
٣۵ ۔ و فلجاً لمن حاجّ بہ (بحث کرنے والوں کی کاميابی کا ذریعہ(
قرآن مجيد نجات اور دشمن پر فتح و ظفر کا باعث ہے یعنی جو شخص بهی قرآن اور اس کی آیات و براہين کے ساته ہے گفتگو و احتجاج کرے تو وہ اپنے ہدف و مقصد تک پہنچے گا اور اپنے مخالف پر غالب آئے گا۔
١٩۵ ۔ “روی فی البحار من کنز الفواید باسنادہ عن ابی جعفر عليہ السلام قال یا معشر الشيعة خاصموا بسورة < انّا انزلناہ فی ليلة القدر >تفلحوا فوالله انّها لحجة اللّٰہ تبارک و تعالیٰ علی الخلق بعد رسول اللّٰہ (ص) وانّها لسيّدة دینکم انّها لغایة علمنا یا معشر الشيعة خاصموا ) <بحٓم والکتاب المبين> فانّها لو لاة الامر خاصّة بعد رسول اللّٰہ (ص) ” ( ١ محدّث بزرگوار علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے کنز الفوائد سے اپنی سند کے ساته امام محمد باقر - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: اے گروہ شيعہ! سورئہ انا انزلنا کے ذریعہ تم اپنے مخاطبين سے مناظرہ کرو تاکہ اپنے مدّ مقابل پر غالب اور کامياب ہوجاؤ۔ خدا کی قسم ! یہ مبارک سورہ رسول خدا کے بعد الله تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اس کی حجّت ہے اس کی مخلوق پر اور یہ تمہارے دین کا سردار ہے اور ہمارے علم کی انتہا ہے۔ اے گروہ شيعہ! تم سورہ دخان (حمٓ و الکتاب المبين) کے ذریعہ مخالفين سے بحث کرو کيونکہ یہ سورئہ مبارکہ رسول خدا (ص) کے بعد واليان امر کے بارے ميں مخصوص ہے۔ حضرت امام محمد باقر - نے مذکورہ روایت ميں شيعہ گروہ کو جو راسخ اعتقاد و ایمان کے حامل ہيں حضرت علی ابن ابی طالب - کی بلافصل امامت و خلافت اور ان کے گيارہ فرزند گرامی جو سب کے سب آسمان ولایت کے درخشان ستارے ہيں مخاطب قرار دیا ہے اور اپنے مخالف سے احتجاج کے طریقے کو ان دونوں سورہ کے ذریعے انہيں تعليم دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٢۵ ، ص ٧٢ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ٣۵٨ ۔ (


٢۔ حافظ / ٣۶
٣۶ ۔ و حاملا لمن حملہ (اڻهانے والوں کے ليے بوجه بڻانے والا(
قرآن حمل کرنے سے مراد اس کے مطالب و مضامين اور اوامر و نواہی اور احکام و قوانين پر عمل کرنا ہے، جو شخص ان معانی کا حامل اور اس کے احکام کی پيروی کرے تو قرآن مجيد بهی اس کو حمل کرے گا یعنی اس کو مقدس منازل اور بہشتی کمروں کی طرف جو مومنين کا آخری ملجا و مآوی ہے لے جائے گا۔
١٩۶ ۔ “رویٰ فی الکافی باسنادہ عن جابر عن ابی جعفر عليہ السلام قال: قال رسول اللّٰہ (ص) یا معشر قرّاء القرآن اتّقوا اللّٰہ عزّوجلّ فيما حملکم من کتابہ فانّی مسئول وانکم مسئولون ) انّی مسئول عن تبليغ الرّسالة وامّا انتم فتساٴلون عمّا حملتم من کتاب اللّٰہ وسنتی ” ( ١
شيخ بزرگوار کلينی رحمة الله عليہ نے کافی ميں اپنی سند کے ساته جابر جعفی سے انہوں نے امام محمد باقر سے انہوں نے حضرت رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: اے قاریوں کی جماعت! یعنی قرآن کی قرائت و تلاوت کرنے والو! الله تعالیٰ سے ان چيزوں ميں ڈرو جو تم نے الله تعالیٰ کی کتاب سے یاد کيا ہے اسے مدّنظر قرار دو کيوں کہ مجه سے سوال کيا جائے گا اور تم سے بهی سوال کيا جائے گا مجه سے تبليغ رسالت کے بارے ميں سوال ہوگا (اگر ميں اس عظيم وخطير ذمہ داری کو تم تک نہ پہنچاؤں تو قہر و غضب الٰہی ميرے شامل حال ہوگا) اور تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ کيوں تم نے قرآنی دستورات اور وہ احکام و قوانين پر جن کے تم حامل تهے اسی طرح پيغمبر اسلام (ص) کی سنت جو اس کی تفسير و وضاحت کرنے والی ہے عمل نہيں کيا ہے۔ ١٩٧ ۔ مزید رسول اکرم (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ انحضرت (ص) نے فرمایا: “ ) اشراف امّتی حملة القرآن ” ( ٢
ميری امت کے اشراف وہ لوگ ہيں جو قرآن کو حمل (اس پر عمل) کرتے ہيں۔ ١٩٨ ۔ “ وفی الکافی عن السّکونی عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قال رسول اللّٰہ (ص) حملة القرآن عرفاء اهل الجنّة والمجتهدون قوّاد اهل الجنّة والرّسل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠۶ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٠۶ ۔ (
) سادات اهل الجنّة” ( ١
اسی کتاب ميں صاحب کافی نے سکونی سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ آپ نے حضرت رسول اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: قرآن کے پڑهنے والے اہل جنت کے عارفين اور شناختہ شدہ افراد ميں سے ہيں اور مجتہد لوگ (جن لوگوں نے اپنی عزیز ترین عمر علوم دینيہ قرآن و سنت رسول خدا (ص) ائمہٴ ہدیٰ عليہم السلام کی روایات کی تحصيل ميں صرف کی ہے) اہل بہشت کے پيشوا رہبر اور انبياء و مرسلين اہل بہشت کے سردار اور عظيم ہستياں ہيں۔
١٩٩ ۔ “ عن عمرو بن جميع عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال قال رسول اللّٰہ (ص)انّ احقّ النّاس بالتخشع فی السرّ والعلانية لحامل القرآن وانا احق النّاس فی السّر والعلانية بالصّلاة والصوم لحامل القرآن نادی باعلی صوتہ یا حامل القرآن تواضع بہ یرفعک اللّٰہ ولا تغّزز بہ فی ذلک اللّٰہ یا حامل القرآن تزیّن بہ اللّٰہ یزنيک اللّٰہ بہ ولا تزین بہ للنّاس فيشينک اللّٰہ بہ من ختم القرآن فکانما ادرجت النبوّة بين جنبيہ ولٰکنة لا یوحی اليہ ومن جمع القرآن فنولّہ لایجهل مع من یجهل عليہ ولا یغضب فيمن یغضب عليہ ولا یحدّ فيمن یحدّ عليہ وَلٰکنہ یعفو ویصفح وَیغفر ویحلم لتعظيم القرآن ومن اوتی القرآن فظنّ انّی احداً من النّاس اوتی افضل ممّا اوتی فقد عظم ما حقّر اللّٰہ ) وحقّر ما عظّم اللّٰہ ” ( ٢
عمرو ابن جميع نے امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا ظاہر و باطن ميں مخفی اور آشکارا طور پر خشوع کے ليے زیادہ حق دار حامل قرآن ہے اور یقينا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخصال، ص ٧۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠۶ ۔ (
سب سے زیادہ مستحق ظاہر و باطن ميں ممتاز اور روزہ کے ليے حامل قرآن ہی ہے پهر بلند آواز سے کہا جائے گا: اے حامل قرآن! (قرآن کی تلاوت کرنے والے اور احکام و علوم قرآن کے حامل) قرآن کے ذریعہ تواضع اور منکسر المزاجی اختيار کرو تاکہ الله تعالیٰ تمہيں عالی درجہ تک پہنچائے اور اس کو اپنی عزت کا ذریعہ قرار نہ دے تاکہ خدائے بزرگ و برتر تمہيں ذليل و رسوا نہ کرے۔
اے حامل قرآن ! رضائے الٰہی کے ليے اپنی آرائش قرآن سے کرو الله تعالیٰ اس کے ذریعہ بہترین زینت کرے گا لوگوں کے ليے اس کے ذریعہ زینت کے خواست گار نہ بنو تاکہ خدائے بزرگ و برتر اس وجہ سے تمہيں ذليل و خوار نہ کرے پهر فرمایا: جو شخص قرآن کو اول سے آخر تک پڑهے اور اسے ختم کرے تو وہ ایسا ہے کہ گویا نبوت کے درجے پر فائز ہوا ہو ليکن اس پر وحی نازل نہيں ہوتی اور جو شخص قرآن کو جمع کرے اور دوسروں کو عطا کرے تو وہ جاہلوں کے زمرے ميں نہ ہوگا اور غضب قرآن اس کے شامل حال نہ ہوگا نيز ان لوگوں کے ساته محشور نہيں کيا جائے گا کہ جنہوں نے قرآن کے احترام کی رعایت نہ کی ہو اور انہيں سزا دی جائے گی۔ بلکہ قرآن مجيد کی تعظيم و تکریم کی بنا پر عفو و بخشش اور مغفرت کا حکم دیا جائے گا۔
پهر فرمایا: جس شخص کو علم قرآن اور قرآن کی عظمت کا احساس عطا کيا جائے اور وہ یہ وہم و گمان کرے کہ دوسروں کو اس سے زیادہ اور بہتر دیا گيا ہے تو اس نے اس چيز کو حقير اور ناچيز بنایا اور بقدر معمولی شمار کيا کہ جس چيز کے ليے خدائے سبحان بہت زیادہ عظمت کا قائل ہے۔
قرآن مجيد اور اس کے گراں قدر مطالب و علوم اور اس کا احترام نيز عظمت و منزلت کا درک کرنا ایک نعمت ہے جو تمام الٰہی نعمتوں سے بالاتر ہے، اگر کوئی شخص مادی نعمتوں ميں سے کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہو ليکن قرآن اور اس کے علوم سے بے بہرہ ہو اس کے مقابل ميں کہ وہ قرآن کا حامل ہے مگر اس کے پاس کچه نہيں ہے تو وہ نعمتيں بہت ناچيز ہوں گی۔
جيسا کہ قرآن کریم کا حامل اور اس کے مطالب پر عمل کرنے والا دنيا و آخرت ميں بلند درجات تک پہنچتا ہے جنت کے عارفوں ( ١) اور بزرگ ترین الٰہی نعمتوں کا حامل ہوجاتا ہے اور اس کے حاملين اور قارئين کو کہا جاتا ہے- :“اقراء و ارقہ” (پڑهو اور اوپر جاؤ )( ٢) اور فرمایا: جس شخص کو قرآن کا علم دیا جائے اسے حقير و ناچيز شمار نہ کرو، کيونکہ حقيقت ميں اس نے ان چيزوں کو حقير و ناچيز شمار کيا کہ جن کا الله تعالیٰ نے بہت عظمت و رفعت کے ساته ذکر فرمایا ہے۔
اسی طرح پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصيائے کرام کے عالی مقام کے احترام کا پاس و لحاظ رکهنا ان کی بلافصل ولایت و خلافت اور امامت کا راسخ عقيدہ رکهنے کے مترادف ہے۔ قرآن ایک امانت ہے کہ جس کا بار عظيم آسمانوں، زمينوں اور تمام پہاڑ اپنی تمام قدرت کے بعد نہ اڻها سکے ليکن وہ انسان جو بہت زیادہ ظلم کرنے والا اور بہت زیادہ نادان ہے اس کو اڻها ليا ( ٣) اگرچہ اس امانت کے ليے معتبر (تفسيروں ميں مختلف معانی ذکر ہوئے ہيں ليکن بہت سی وہ روایات جو معادن وحی و تنزیل سے صادر ہوئی ہيں ان سے واضح و روشن ہوجاتا ہے کہ وہ امانت وہی ولایت کبری ہے جو اب بهی ائمہٴ ہدی کے بعد مولائے دو جہاں حضرت مہدی قائم آل محمد عجل الله تعالی فرجہ الشریف کے دست مبارک کے پر قدرت ہاتهوں ميں سپرد کی گئی ہے اور وہ صاحب العصر اور امام زمانہ - ہيں کہ آنکهيں ان کے ظہور کی منتظر اور قلوب ان بزرگوار کے شوق دیدار کے ليے تڑپ رہے ہيں۔
اس بقية الله الاعظم ، نور چشم حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ کبریٰ کے تمام محبين و عاشقين پر واجب ہے کہ تمام اوقات ميں بالخصوص نمازوں ، مجالس اور جہاں بهی دعا کی قبوليت کا گمان پایا جاتا ہے حضرت - کے تعجيل فرج کے ليے دعا کریں جيسا کہ خود حضرت نے بارہا اس بات کی نصيحت اور تاکيد فرمائی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی کی روایت ج ٢، ص ۶٠۶ ميں سکونی نے امام جعفر صادق - سے نقل کيا ہے کہ ( پيغمبر (ص) نے فرمایا: حملة القرآن عرفاء اهل الجنة۔
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٣ ۔ (
٣(۔ امّا عَرَضنَْا عَلَی السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَالجِْبَالِ ۔۔۔ ظلوماً جهولا ۔۔۔ احزاب ٧٢ ۔ (
کہ تعجيل فرج کی دعا کے ليے بہت زیادہ اہميت دی جائے۔
٢٠٠ ۔ کمال الدین ميں شيخ صدوق رحمة الله عليہ نے اس توقيع مبارک ميں جو اسحاق ابن یعقوب نے محمد ابن عثمان عمری ۻ حضرت کے خاص نائب کے ذریعہ اس ميں مشکل مسائل دریافت کيے تهے ان بزرگوار نے انہيں مبارک تحریر سے بيان فرمایا، من جملہ ان سوالات ميں سے ایک سوال زمانہٴ غيبت ميں لوگوں کے استفادہ اور نفع حاصل کرنے کی کيفيت کے بارے ميں دریافت کيا تها تو حضرت حجّت عليہ السلام نے مرقوم فرمایا: “وامّا وجہ الانتفاع بی فی غيبتی فکالانتفاع بالشّمس اذا غيبتها عن الابصار السحاب وانّی لاٴمان لاهل الارض کما انّ النجوم امان لا هل السّماء ، فاغلقوا باب السّؤال عمّا لا یعنيکم ولا تتکلفوا علم ما قد کفيتم واکثر والدّعاء بتعجيل الفرج ، فانّ ذلک فرجکم والسّلام عليک یا اسحاق بن یعقوب وعلیٰ من اتبع الهدیٰ ” ( ١) ليکن مجه سے ميری غيبت کے زمانہ ميں نفع و فائدہ کی صورت حال ویسی ہی ہے جيسے آفتاب بادلوں ميں لوگوں کی نظروں سے مخفی ہوتا ہے اور لوگ اس سے نفع و فائدہ اڻهاتے ہيں۔
یقينا ميں اہل زمين کے ليے اسی طرح امن و امان کا باعث ہوں جس طرح ستارے اہل آسمان کے لےے امن و امان کا سبب ہيں لہٰذا ان چيزوں کے متعلق جس ميں تمہارے ليے کوئی فائدہ نہيں پایا جاتا باب سوال بند کردو اور خود کو ان چيزوں کے جاننے کے ليے تکليف اور سختی ميں نہ ڈالو کہ جس ميں یقينا تمہارے ليے کفایت کی گئی ہے (اور جس مقدار ميں تمہارے ليے ضروری تها بيان کردیا گيا ہے ليکن غيبت کے زمانے ميں جو تمہارے ليے فرض ہے وہ یہ ہے کہ) تعجيل فرج کے ليے زیادہ سے زیادہ دعائيں کرو، کيونکہ اسی ميں خود تمہارے ليے آسائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ۴٨۵ ۔ (
اے ابن اسحاق ! تم پر خدا کا سلام ہو اور ان لوگوں پر جو ہدایت کی پيروی کرتے ہيں۔ اس جيسی روایت شيخ جليل القدر طبرسی عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب احتجاج ميں الفاظ کے مختصر فرق کے ساته توقيعات کی فصل ميں ذکر کی ہے۔ دعاؤں کی کتابوں ميں پهر دعاؤں کے جملوں کے ضمن ميں امام زمانہ - کے تعجيل فرج کے بارے ميں بہت زیادہ اشارات پائے جاتے ہيں۔ قابل ذکر ہے کہ حضرت کے فرمان کی وجہ ميں کہ: تعجيل فرج کے ليے بہت زیادہ دعا کرو، اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے چونکہ حضرت کا ظہور بداٴ کے امور ميں سے ہے لہٰذا ممکن ہے کہ مومنين کی بہت زیادہ دعا اور گریہ و زاری کرنا اس امر ظہور کے مقدم اور جلدی ہونے کا سبب ہوجائے،کيوں کہ بعض دعاؤں کے فقرات ميں ذکر ہوا ہے: الله تعالیٰ بہت سے حتمی اور یقينی امور قضا و قدر الٰہی کی بنا پر اس سے صرف نظر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ یقينی امور کو دعا کی وجہ سے بدل دیتا ہے۔ اس بنا پر ہم پر لازم ہے کہ تمام حالات ميں تعجيل فرج کو مدّنظر قرار دیں اور کہيں:
اللّهم عجّل مولانا صاحب الزمان بحق محمد وآلہ الطاهرین صلواتک عليهم اجمعين۔