|
٢۔ برہان / ٣٣
٣٣ ۔ وَبُرهْاناً لِمَن تَکَلَّمَ بِہِ (بولنے والوں کے ليے برہان ہے(
عزیز ترین کتاب الٰہی ان لوگوں کے ليے جو اس سے احتجاج و استدلال پيش کریں
بالخصوص خلافت اور ائمہٴ ہدی کی ولایت عظمیٰ کے باب ميں۔
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: <ادعُْ إِلَی سَبِيلِ رَبِّکَ بِالحِْکمَْةِ وَالمَْوعِْظَةِ الحَْسَنَةِ وَجَادِلہُْم ) بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ إِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اٴَعلَْمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِہِ وَہُوَ اٴَعلَْمُ بِالمُْہتَْدِینَ > ( ١
و قال عزّ من قائل:<وَلاَتُجَادِلُوا اٴَہلَْ الکِْتَابِ إِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ إِلاَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنہُْم ) وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی اٴُنزِْلَ إِلَينَْا وَاٴُنزِْلَ إِلَيکُْم وَإِ ہٰلُنَا وَإِ ہٰلُکُم وَاحِدٌ وَنَحنُْ لَہُ مُسلِْمُونَ > ( ٢
پہلی آیت کا ترجمہ: پيغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہے کہ آپ اپنے رب کے راستے کی
طرف حکمت (ایسی دليل و برہان کے ساته جو حق کو ثابت کرے) اور اچهی نصيحت کے ذریعہ
دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے کہ آپ کا پروردگار بہتر
جانتا ہے کون اس کے راستے سے (جو اسلام ہے) بہک گيا اور کون لوگ راہ ہدایت پانے والے
ہيں۔
دوسری آیت کا ترجمہ: اور اہل کتاب سے مناظرہ نہ کرو مگر اس انداز سے جو بہترین
انداز ہے علاوہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نحل، آیت ١٢ ۔ (
٢(۔ سورئہ عنکبوت، آیت ۴۶ ۔ (
ان کے جو ان ميں سے ظالم ہيں اور یہ کہو کہ ہم اس پر ایمان لائے ہيں جو ہماری اور تمہاری
دونوں کی طرف نازل ہوا ہے اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم سب اسی کے اطاعت گزار
ہيں۔
مفسر عظيم فيض کاشانی عليہ الرحمہ نے اپنی تفسير (صافی) ميں آیہٴ کریمہ <ادع
الیٰ سبيل ربک> (لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دو) سے تين قسم کا استفادہ کيا اور ہر ایک
کو ایک مخصوص گروہ کے ليے بيان فرمایا ہے:
١۔ <ادع الی سبيل ربک>: ایسی باتوں اور منشوروں اور محکم و صحيح باتوں کے ذریعہ
خدا کی طرف دعوت دو جو حق کو واضح اور روشن کرنے والی ہوں اور شبہات کو ختم کرنے
والی ہوں، اس قسم کی دعوت لوگوں ميں سے خاص لوگوں سے مخصوص ہے اور وہ علماء اور
دانشور افراد ہيں۔
٢۔<و الموعظة الحسنة> ایسے خطابات کے ذریعہ خدا کی طرف دعوت دو جو قانع کرنے
والے اور نفع بخش عبارتيں ہوں جو تمام لوگوں کے ليے مشکل نامانوس اور غير قابل فہم نہ ہو،
اس صورت ميں نصيحت کو لوگ قبول کریں گے اور معنویت سے پُر ہوں گے۔ یہ بهی عوام الناس
سے مخصوص ہے۔
٣۔ <و جا دلهم بالتی هی احسن> مناظرہ اور جدال احسن کے ذریعہ یہ بهی ان لوگوں
کے ليے ہے جو انکار کرنے والے اور دشمن ہيں، دوسری واضح تعبيریں یہ تينوں مذکورہ طریقے
حق کو قبول کرنے کے ليے لوگوں کی صلاحيتوں اور فہم و ادراک پر مترتب ہيں: خواص، عوام اور
صاحبان عناد اور ہٹ دهرمی کرنے والے افراد۔
ليکن خواص: وہ لوگ صاحبان نفوس نورانی اور عقلی حقائق کو درک کرنے کے ليے اور
قوی صلاحيتوں کے حامل ہيں نيز عالی اصولوں تک پہنچنے اور علم و یقين کے انس و محبت
رکهنے ميں دوسروں سے زیادہ ہيں انہيں حکمت یعنی دليل و برہان کے ساته دعوت دینی
چاہيے۔
ليکن عوام الناس: ان لوگوں کے نفوس کثيف اور وہمی صلاحيتوں کے مالک ہيں اور ان
کی انسيت و محبت زیادہ تر محسوسات سے ہے اور ان کے تعلقات اور رسوم و آداب کی قدرت
دليل و برہان قبول کرنے سے قاصر ہے اس کے باوجود وہ حق کے منکر بهی نہيں ہيں یہ ایسے
لوگ ہيں کہ انہيں موعظہٴ حسنہ کے ساته دعوت دینی چاہيے۔
ليکن تيسرا گروہ: یہ صاحبان عناد اور ہٹ دهرمی کرنے والوں کا ہے جو ہميشہ باطل
سے بحث و گفتگو کرتے ہيں تاکہ حق کو ختم کردیں اور ان کی سعی و کوشش یہ ہوتی ہے کہ
خدا کے نور کو اپنی زبانوں اور نيتوں سے خاموش کردیں کہ ان کے نفوس ميں باطل آراء نے
غلبہ پيدا کرليا ہے اور ان کے خرافاتی مفاہيم ميں گزشتہ لوگوں کی تقليد رسوخ کرچکی ہے،
لہٰذا انہيں موعظہ و نصيحت فائدہ نہيں بخشتی اور ادّلہ و براہين کی رہنمائياں ان پر اثر انداز
نہيں ہوتيں یہ ایسے گروہ والے ہيں کہ جن کے ساته جدال احسن کا حکم دیا گيا ہے۔
مولف کہتے ہيں: باوجودیکہ یہ مطلب دقت سے خالی نہيں ہے ليکن یہ کہا جاسکتا ہے
کہ یہ کليت نہيں رکهتا کہ صرف ان تينوں گروہوں کو ان کے فہم و ادراک کی حالت کی مناسبت
سے انہيں دعوت دینی چاہيے، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خواص بهی موعظہ اور مجادلہ کی
راہ سے فائدہ اڻهاتے ہيں اور کبهی عوام الناس جو اکثر و بيشتر عادات و رسوم سے مانوس
ہوتے ہيں وہ جدال احسن سے بہرہ مند ہوتے ہيں۔
١٧٢ ۔ “وَفی الدر المنثور : اخرج اِبنُ مرَدَویہ عَن اَبی لَيلی الاَشعری اَنَّ رَسُولَ اللّٰہ (ص)
قالَ تمسّکوا بِطاعَةِ ائمَّتِکم وَلا تُخالِفُوهُم فاِنَّ طاعَتهم طاعَة اللہِّٰ وَمَعصيَتُهُم مَعصية اللہِّٰ فَاِنَّ اللہّٰ
اِنَّما بعَثَنی ادعوا الی سَبيلہ بِالحِکمِة وَالموَعظة الحَسَنَةِ ، فَمَن خالَفَنی فی لٰذِک فَهوَ مِنَ
الهالِکينَ وَقَد بَرئت منہ ذِمَّةُ اللہّٰ وَ ذِمَّةُ رَسُولِہِ وَمَن وَلّی مِن اٴمرِکُم شَيئاً فَعمِلَ بغير لٰذک فَعليہِْ
) لَعنة اللہِّٰ وَالملائِکةِ وَالنَّاسِ اجمَعينَ ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الدر المنثور، ج ۴، ص ١٣۵ ۔ (
علامہ سيوطی نے اپنی تفسير ميں نقل کيا ہے کہ ابن مردویہ نے ابو ليلی اشعری سے
روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اپنے ائمہ اور پيشواؤں کی اطاعت سے تمسک
اختيار کرو اور ان کی خلاف ورزی نہ کرو کيونکہ ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ان کی
نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے، یقينا الله تعالیٰ نے مجه کو مبعوث کيا تاکہ الله تعالیٰ کے بندوں
کو اس کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہٴ حسنہ کے ساته دعوت دوں لہٰذا جو شخص
بهی ميری اس امر ميں مخالفت کرے تو وہ ہلاک ہونے والوں ميں سے ہے یقينا خدا اور اس کا
رسول ایسے شخص سے بری الذمہ ہے اور جو شخص بهی تمہارے امور ميں سے کسی چيز
کو انجام دے تو وہ اس کے علاوہ عمل کرے ایسی صورت ميں خدا، ملائکہ اور تمام لوگوں کی
اس پر لعنت ہو۔
١٧٣ ۔ “وفی تفسير القمی : فی قولہ تعالیٰ<وَجَادِلہُْم بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ> ( ١) قالَ : قالَ
) عليہ السلام بِالقرآنِ ” ( ٢
تفسير قمی ميں حضرت نے فرمایا: مخالفين سے مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ اچهے
مطالب کے ساته جدال ہو یعنی وہی قرآن کے ذریعے سے گفتگو کرنا ہے۔
١٧۴ ۔ “ فی الکافی عنہ باسنادہ عن ابی عمرو الزبيری عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی
( قولہ تعالیٰ : <ادعُْ إِلَی سَبِيلِ رَبِّکَ بِالحِْکمَْةِ وَالمَْوعِْظَةِ الحَْسَنَةِ وَجَادِلہُْم بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ> ( ٣
) قال بِالقرآنِ ” ( ۴
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته امام جعفر صادق - سے نقل کيا
ہے کہ حضرت -
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نمل، آیت ١٢۵ ۔ (
٢(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ٣٩٢ ۔ (
٣(۔ سورئہ نمل، آیت ١٢۵ ۔ (
۴(۔ اصول کافی، ج ۵، ص ١٣ ۔ (
نے فرمایا: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچهی نصيحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان
سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین طریقہ وہ قرآن کریم ہے۔ کيونکہ قرآن مجيد کی
سنت اور روش خدائے سبحان کا ادب ہے۔
١٧۵ ۔ “وفی الاحتجاج للطبرسی : قال ابو محمّد الحسن علی بن العکسری عليہما
السلام ذکر عند الصّادق عليہ السلام الجدال فی الدّین وانّ رسول اللّٰہ (ص) والائمة عليہم
السلام قد نهوا عنہ فقال الصّادق عليہ السلام لم ینہَ عنہ مطلقاً ولکنّہ نهی عن الجدال بغير التّی
هی احسن اما تسمعون قول اللّٰہ تعالیٰ <وَلاَتُجَادِلُوا اٴَہلَْ الکِْتَابِ إِلاَّ بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ >( ١)وقولہ
تعالیٰ <ادعُْ إِلَی سَبِيلِ رَبِّکَ بِالحِْکمَْةِ وَالمَْوعِْظَةِ الحَْسَنَةِ وَجَادِلہُْم بِالَّتِی ہِیَ اٴَحسَْنُ> فلجدال
بالتّی هی احسن قد قرنہ العلماء بالدین ( قد امربہ العلماء بالدّین ) والجدال بغير الّتی هی
احسن محرّم حرّمہ اللّٰہ علی شيعتنا وکيف یحرّم اللّٰہ الجدال جملة وهو یقول:<وَقَالُوا لَن یَدخُْلَ
الجَْنَّةَ إِلاَّ مَن کَانَ ہُودًا اٴَو نَصَارَی تِلکَْ اٴَمَانِيُّہُم قُل ہَاتُوا بُرہَْانَکُم إِن کُنتُم صَادِقِينَ >( ٢) فجعل علم
الصّدق والایمان بالبرهان
وهل یوٴتی بالبرهان الا بالجدال بالتّی هی احسن الیٰ قولہ عليہ السلام واٴمّا الجدال با
لتی هی احسن وهو ما امر اللّٰہ بہ نبيّہ ان یجادل بہ من جحد البعث بعد الموت واحياوٴہ لہ فقال
اللّٰہ لہ حاکياً عنہ < وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَنَسِیَ خَلقَْہُ قَالَ مَن یُحیِْ العِْظَامَ وَہِیَ رَمِيمٌ >وقال اللّٰہ فی
الردّ عليہ < قُلْ(یا محمّد ) یُحيِْيہَا الَّذِی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ عنکبوت، آیت ۴۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١١١ ۔ (
اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلقٍْ عَلِيمٌ الَّذِی جَعَلَ لَکُم مِن الشَّجَرِ الاْٴَخضَْرِ نَارًا > ( ١) الیٰ آخر
السورة فاراد اللّٰہ من نبيہ (ص) ان یجادل المبطل الذی قال کيف یجوز ان یبعث هذہ العظام وهی
رميم ، فقال اللّٰہ < یُحيِْيہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ> افيعجز من ابتداٴہ لا من شیء ان یعيدہ بعد ان
یبلی بل ابتدائہ بہ اصعب عندکم من اعادتہ ، ثمّ قال <الَّذِی جَعَلَ لَکُم مِن الشَّجَرِ الاْٴَخضَْرِ نَارًا فَإِذَا
اٴَنتُْم مِنہُْ تُوقِدُونَ> ( ٢) ای اِذا کمن النّار الحارة فی الشّجر الاخضر الرّطب ثمّ یستخرجها فعرفکم
انّہ علیٰ اعادة ما بلی اقدر ثمّ قال < اٴَوَلَيسَْ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضَْ بِقَادِرٍ عَلَی اٴَن یَخلُْقَ
مِثلَْہُم بَلَی وَہُوَ الخَْلاَّقُ العَْلِيمُ >( ٣) ای اذاکان خلق السّموات والارض اعظم وابعد فی اوهامکم
وقدرکم ان تقدروا عليہ من اعادة البالی فکيف جوّزتم من اللّٰہ خلق اللّٰہ هذا الاعجب عندکم
والاصعب لدیکم ولم تجوّزوا منہ ما هو سهل عندکم من اعادة البالی قال الصّادق عليہ السلام
فهذا الجدال بالّتی هی احسن لانّ فيها قطع عذر الکافرین لا زالة شبههم
وامّا الجدال بغير التّی هی احسن فان تجحد حقّاً لا یمکنک ان تفرّق بينہ وبين باطل من
تجادلہ وانمّا تدفعہ عن باطلہ بان تجحد الحقّ ، فهذا هو المحرّم لاٴنّک مثلہ ، جحد هو حقّاً
) وجحدت انت حقّاً ” ( ۴
احتجاج ميں طبرسی رحمة الله عليہ نے نقل کيا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری -
نے فرمایا: حضرت امام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یس، آیت ٧٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ یس، آیت ٧٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ یس، آیت ٨١ ۔ (
۴(۔ احتجاج، ج ١، ص ١۴ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ١۶٢ ۔ تفسير امام حسن عسکری -، ص (
۵٢٧ ۔
صادق - کے سامنے گفتگو ہو رہی تهی کہ رسول خدا (ص) نے دین ميں بحث و گفتگو اور
مناظرہ سے منع فرمایا ہے تو حضرت امام صادق - نے فرمایا: ایسا نہيں ہے بالکل نہيں منع کيا
گيا ہے بلکہ اس سے جو بہتر نہ ہو مگر کيا تم نے الله تعالیٰ کا کلام نہيں سنا ہے کہ وہ فرماتا
ہے: اہل کتاب سے مجادلہ و مناظرہ نہ کرو مگر احسن اور بہتر طریقہ سے مزید (اپنے پيغمبر
سے) فرمایا: لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچهی نصيحت کے ذریعہ دعوت
دیں اور ان سے اس طریقے سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے، بحث و گفتگو اور عمدہ طریقہ
سے مناظرہ کو الله تعالیٰ نے علمائے دین کے ساته متصل کيا ہے (یا الله تعالیٰ نے بہترین بحث
و گفتگو کا علمائے دین کو حکم دیا ہے) اور وہ بحث و گفتگو جو اس کے علاوہ اچهے بيانات کے
ذریعہ انجام نہ دی جائے اسے حرام قرار دیا ہے، الله تعالیٰ نے اسے ہمارے شيعوں کے ليے
حرام فرمایا ہے کيسے ممکن ہے کہ مطلقاً بحث و گفتگو حرام ہو جب کہ الله یہود و نصاریٰ کے
قول کے بارے ميں فرماتا ہے: وہ کہتے ہيں کہ سوائے یہود و نصاریٰ کے کوئی جنت ميں داخل
نہيں ہوسکتا پهر الله تعالیٰ نے فرمایا: یہ ان کی اميدیں ہيں اے پيغمبر! ان سے کہہ دیں اگر وہ
اپنے قول ميں سچے ہيں تو اپنے دعویٰ کی دليل پيش کریں۔ لہٰذا الله تعالیٰ سے ان کے ایمان
اور بات کی سچائی اور صحيح ہونے کا معيار جو وہ یہ کہتے ہيں کہ یہود و نصاریٰ کے علاوہ
کوئی جنت ميں نہيں جاسکتا وہ برہان و دليل کو قرار دیا ہے (یعنی اگر تم بات کے سچی ہونے
پر یقين اور ثابت ایمان رکهتے ہو کہ بہشت یہود و نصاریٰ کے ليے منحصر ہے تو اپنی دليل لے
آؤ) متقن و محکم برہان ودليل صرف بحث و گفتگو اور اچهی طرح مناظرہ کے ساته ہی ممکن ہے
اور اس کے علاوہ قابل قبول نہيں ہے۔
یہ روایت مفصل ہے ہم صرف اپنی بحث سے مربوط موضوع کو یعنی یہ کہ قرآن مجيد اس
شخص کے ليے جو اس کے ذریعہ کلام کرے برہان قاطع ہے اس کی طرف اشارہ کر رہے ہيں۔
حضرت امام حسن عسکری - اپنے اس قول کے بعد مزید یہاں تک فرماتے ہيں (اما
الجدال بالتی هی احسن) ليکن بحث و گفتگو اور مناظرہ جو ایک راستہ سے ہو وہ وہی ہے
جسے خداوند متعال نے پيغمبر اکرم (ص) کو حکم دیا ہے کہ جو لوگ مرنے کے بعد بعث و
نشور اور دوبارہ زندہ ہونے کا انکار کرتے ہيں ان سے اس راہ و روش سے بحث و گفتگو کریں
خدائے سبحان نے خود ان کے قول کی حکایت بيان کی ہے۔ اور ہمارے ليے مَثل بيان کرتا ہے اور
اپنی خلقت کو بهول گيا ہے کہتا ہے کہ ان بوسيدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے تو خداوند
متعال نے ان کے قول کی تردید کی اور کہا: اے محمد! کہو کہ جس نے پہلی مرتبہ پيدا کيا ہے
وہی زندہ بهی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کو بہتر جاننے والا ہے وہ خدا جس نے تمہارے ليے
سرسبز و شاداب درخت سے آگ پيدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہے ہو
) (آخر سورہ تک) ( ١
پهر الله تعالیٰ نے اپنے پيغمبر کے ليے ارادہ کيا کہ اس باطل پر رہنے والے (جو ابی ابن
حضف ہے) سے بحث و گفتگو کریں کہ جس نے یہ کہا کہ یہ کيسے ممکن ہے کہ ان ہڈیوں کو
ان کے بوسيدہ ہونے پر دوبارہ زندہ اور مبعوث کرے تو الله تعالیٰ نے فرمایا: (اے محمد!) کہو کہ:
جس نے پہلی مرتبہ (جب وہ کچه نہ تها) پيدا کيا ہے وہی زندہ بهی کرے گا لہٰذا کيا وہ عاجزہے
کہ جس نے ابتدا ميں ناچيز شے سے انہيں خلق کيا ان کے بوسيدہ اور خاک ہوجانے کے بعد
دوبارہ ان کے پہلی حالت پر دوبارہ زندہ واپس کردے؟ بلکہ ابتدا ميں تو وہ کچه نہيں تهے اور ان
کا خلق کرنا اور واپس کرنا تمہارے نزدیک زیادہ مشکل اور دشوار تها۔ پهر فرمایا: وہ خدا جس نے
تمہارے ليے سرسبز و شاداب درخت سے آگ پيدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن
کرتے رہو؟ یعنی جب گرم آگ کو سرسبز و شاداب درخت کے اندر مخفی رکها پهر اسے باہر لایا
اس سے تم لوگ استفادہ کرتے ہو (حقيقت ميں) تمہيں پہچنوایا کہ وہ اس بوسيدہ شے کو
پلڻانے پر زیادہ قدرت رکهتا ہے۔ پهر فرمایا کہ: کيا وہ پروردگار جس نے زمين و آسمان کو پيدا کيا
ہے اس جيسا پيدا کرنے پر قدرت نہيں رکهتا یقينا قدرت رکهتا ہے وہ بہت زیادہ پيدا کرنے والا اور
جاننے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ یٰس۔ (
والا ہے۔ یعنی جب آسمانوں اور زمينوں کا خلق کرنا تمہارے وہم و گمان ميں زیادہ بڑی شے اور
بہت دور کی بات ہے اور تمہاری قدرت ميں یہ نہيں ہے کہ بوسيدہ چيز کو پلڻا دو تو پهر تم
کيسے الله تعالیٰ سے اپنے نزدیک اس سے زیادہ عجيب اور سخت شے کا امکان رکهتے ہو
ليکن تم لوگ اس سے اس بات کے واقع ہونے کا امکان نہيں رکهتے کہ جن بوسيدہ چيزوں کا
پلڻانا تمہارے لےے آسان ہے؟
حضرت امام صادق - نے فرمایا: لہٰذا یہ بہترین بحث و گفتگو اور مناظرہ ہے یعنی یہ
بحث و گفتگو کی روش بہترین اور خوبصورت ہے کيونکہ اس طرح کسی مناظرہ سے کافروں کے
عذر کی راہ ختم نہيں ہوجاتی ہے اور ان کے اعتراضات بهی ختم ہوجاتے ہيں۔
ليکن غير بہترین بحث و گفتگو ، یعنی وہ بحث و گفتگو جو اچهی طرح نہ ہو وہ یہ ہے کہ
تم حق کا انکار کرو کہ تمہارے ليے حق و باطل کے درميان فرق پيدا کرنا ممکن ہو جس سے تم
بحث و گفتگو کر رہے ہو سوائے اس کے کہ تم صرف چاہتے ہو کہ مدّ مقابل کے باطل کو دفع
کرو، تو ایسی صورت ميں حق کے منکر ہوجاؤ گے لہٰذا یہ وہی حرام بحث و گفتگو ہے، کيونکہ تم
بهی اس جيسے ہوگئے چونکہ اس نے ایک حق کا انکار کيا اور تم نے بهی ایک دوسرے حق کا
انکار کيا ہے۔
مولف کہتے ہيں: ائمہٴ اطہار کی خلافت و امامت اور ولایت کبریٰ کے اثبات اور احتجاج
کے متعلق دو واقعہ کی طرف اشارہ کيا جا رہا ہے :
١۔ حضرت رسول اکرم (ص) کا نصارائے نجران کے ساته مباہلہ کرنے کا واقعہ
٢۔ حضرت رسول اکرم (ص) کا حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کی ولایت و
امامت کے بارے ميں لوگوں سے درخواست اور احتجاج کرنا۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <فَمَن حَاجَّکَ فِيہِ مِن بَعدِْ مَا جَائَکَ مِن العِْلمِْ فَقُل تَعَالَواْ نَدعُْ اٴَبنَْائَنَا
وَاٴَبنَْائَکُم وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُم وَاٴَنفُْسَنَا وَاٴَنفُْسَکُم ثُمَّ نَبتَْہِل فَنَجعَْل لَعنَْةَ اللهِ عَلَی
) الکَْاذِبِينَ > ( ١
حضرت عيسیٰ کی ولادت باپ کے واسطہ کے بغير ہوئی کيونکہ عيسائيوں کے زعم
ناقص ميں یہ بات طبيعت کے برخلاف تهی لہٰذا کہنے لگے مسيح الله کے بيڻے ہيں، تو الله
۶٠ ميں فرماتا ہے: ، تعالیٰ ان کی بات کی تردید کرتے ہوئے سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ۵٩
عيسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ (اس بات ميں کہ دونوں بغير باپ کے پيدا
ہوئے) انہيں مڻی سے پيدا کيا اور پهر کہا: (ایک زندہ بشر ) ہوجا اور وہ ہوگيا حق (کلی طور پر)
تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے لہٰذا خبردار اب تمہارا شمار شک کرنے الوں ميں نہيں ہونا
چاہيے۔
لہٰذا جو شخص (ترسایان) نصاریٰ سے عيسیٰ کے بارے ميں علم و یقين آجانے کے بعد
کہ عيسیٰ بندہ اور رسول ہے بحث و گفتگو کرے تو ان سے کہہ دیجيے کہ آؤ ہم لوگ اپنے
فرزند، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو (اپنے نزدیک والوں کو جو آپ کے قائم مقام
ہوں) اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائيں اور خدا کی بارگاہ ميں دعا کریں اور پهر مباہلہ کریں یعنی
خدا کی بارگاہ ميں دعا کریں اور جهوڻوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
١٧۶ ۔ “وفی تفسير القمی عن الصّادق عليہ السلام انّ نصاری نجران لمّا وفدوا علیٰ
رسول اللّٰہ (ص) وکان سيّدهم الاهتم والعاقب والسّيّد وحضرت صلواتهم فاقبلوا یضربون بالنّاقوس
وصلّوا فقال اصحاب رسول اللّٰہ (ص) یا رسول اللّٰہ (ص) هذا فی مسجدک فقال - صلوات اللّٰہ
عليہ وآلہ -: دعوهم ، فلمّا فرغوا دنوا من رسول اللّٰہ (ص) فقالوا الی ماتدعوا ؟ فقال الی شہادة
ان لا الہ الاَّ اللّٰہ وانّی رسول اللّٰہ وانّ عيسیٰ عبد مخلوق یاٴکل ویشرب یحدث قالوا فمن ابوہ نزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ۶١ ۔ (
الوحی علی رسول اللّٰہ (ص) فقال : قل لهم ما یقولون فی آدم اٴکان عبداً مخلوقاً یاٴکل ویشرب
ویحدث وینکح؟ فساٴلهم النّبی (ص) فقالوا نعم ، قال فمن ابوہ فبُهتوا ، فانزل اللّٰہ <اِنَّ مَثَلَ
عِيس یٰ عِندَْ اللہّٰ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُ اٰربٍ> الآیہ وقولہ فمن :<فَمَن حَاجَّکَ فِيہِ مِن بَعدِْ مَا جَائَکَ
مِن العِْلمِْ فَنَجعَْل لَعنَْةَ اللهِ عَلَی الکَْاذِبِينَ>فقال رسول اللّٰہ (ص) فباهلونی ان کنت صادقاً
انزلت اللعنة عليکم وان کنت کاذباً انزلتْ علیّ ، فقالوا:ا نصفت، فتواعدوا للمباهلة ، فلمّا رجعوا
لی منازلهم قال روٴساء هم السّيد العاقب والاهتم ان باهلنا بقومہ باهلناہ فانّہ ليس نبياً وان
باهلنا باٴهل بيتہ خاصّة ، فلا نباهلہ فانّہ لا یقدم الی اهل بيتة الاّ وهو صادق ، فلمّا اصحبوا جآوٴ ا
الیٰ رسول اللّٰہ ومعہ اميرا لموٴمنين وفاطمة والحسن والحسين ، فقال النصاریٰ من هٰوٴلاء فقيل
لهم انّ هذا ابن عمّہ ووصيہ وختنہ علیّ بن ابی طالب عليہ السلام وهذہ ابنتہ فاطمة عليہا
السلام ، وهذان ابنا ہ الحسن والحسين عليہما السلام ففرّقوا وقالوا لرسول اللّٰہ (ص) نعطيک
) الرضا فاعفنا من المباهلة فصالحهم رسول اللّٰہ (ص) علی الجزیة ”’ ( ١
تفسير قمی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ نصارائے نجران ميں سے
عيسائيوں کا ایک وفد رسول اکرم (ص) کے پاس مدینہ آیا یا جس کی قيادت، اہتم، عاتب، اور
سيد کر رہے تهے۔ نبی اکرم (ص) سے مذہبی مسائل پر بحث کے دوران ان کی نماز کا وقت آیا
تو انہوں نے مسجد نبوی ميں ہی اپنا ناقوس بجایا اور اپنے طریقہ سے نماز پڑهی۔ کچه صحابہ
نے رسول اکرم (ص) سے کہا: یا رسول الله! ان لوگوں کا یہ کام آپ کی مسجد ميں (صحيح
نہيں ہے) تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: انہيں اپنی حالت پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ١، ص ١٠٣ ، تفسير صافی، ج ١، ص ٣۴٣ ، تفسير الميزان، ج ٣، ص ٢٢٩ ۔ (
چهوڑ دو جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو انہوں نے نبی اکرم (ص) سے کہا کہ: آپ کس بات کی
دعوت دیتے ہيں؟ آپ نے فرمایا: ميں خدا کی توحيد اور اپنی نبوت کی دعوت دیتا ہوں اور یہ بهی
کہتا ہوں کہ عيسیٰ ابن مریم خدا کے ایک بندے تهے وہ بهی دنيا ميں رہ کر کهانا کهاتے ، پانی
پيتے اور بول و براز کرتے تهے۔
عيسائی علماء نے دریافت کيا: آپ یہ بيان فرمائيں کہ حضرت عيسیٰ کے والد کون تهے؟
اس وقت الله نے یہ آیہٴ کریمہ نازل فرمائی: خدا کے ہاں عيسیٰ کی وہی مثال ہے جو
آدم کی ہے خدا نے اسے مڻی سے پيدا کيا۔ پهر اس سے کہا کہ ہوجا وہ ہوگيا۔
آنحضرت نے عيسائی علماء سے کہاکہ: کيا تم لوگ حضرت آدم - کو خدا کی مخلوق
تسليم کرتے ہو اور اس کے ساته یہ بهی قبول کرتے ہو کہ وہ کهانا کهاتے ، پانی پيتے اور بول و
براز کيا کرتے تهے؟
عيسائی علماء نے کہا: جی ہاں، وہ ایسے ہی تهے۔
آنحضرت نے فرمایا: پهر بتاؤ آدم کے باپ کا کيا نام ہے؟
آپ کا یہ سوال سن کر وہ مبہوت اور حيرت زدہ ہوگئے اور ان سے اس کا کوئی جواب نہ
بن سکا۔ آخر ميں الله تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی:
اب علم وبرہان آجانے کے بعد بهی اگر کوئی آپ سے عيسیٰ کے بارے ميں مباحثہ کرے
تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم اپنے بيڻوں کو بلائيں تم اپنے بيڻوں کو بلاؤ ہم اپنی عورتوں کو بلائيں اور
تم اپنی عورتوں کو بلاؤ ہم اپنے نفسوں کو بلائيں تم اپنے نفسوں کو بلاؤ پهر مباہلہ کریں اور
جهوڻوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔
عيسائی علماء نے کہا: ہميں مباہلہ منظو رہے۔ پهر نبی اکرم (ص) نے انہيں مباہلہ کا
وقت بتایا۔
عيسائی علماء مسجد سے اڻه کر وہاں آئے جہاں ان کی رہائش کا انتظام کيا گيا تها اور
وہاں پہنچ کر ان کے قافلہ سالار “سيد” “عاتب” اور “اہتم” نے کہا:
اگر محمد اپنی قوم کو لے کر آئے تو ہم اس سے مباہلہ کریں گے اور اس کی بددعا ہميں
کوئی نقصان نہ دے گی اور اگر وہ اپنے مخصوص اہل خانہ کو لے کر آئے تو پهر ہم ان سے مباہلہ
(کے ليے اپنا عذر پيش کریں گے) نہيں کریں گے کيونکہ جب تک کسی شخص کو اپنی صداقت
کا یقين نہ ہو اس وقت تک اپنے قریبی عزیز لے کر (اس اہم امر کا اقدام) مباہلہ نہيں کرتا۔
صبح ہوئی رسول اکرم (ص) اپنے ہمراہ امير المومنين ، حضرت فاطمہ اور حسن و
حسين صلوات الله عليہم کو لے کر برآمد ہوئے جب نصاریٰ کی نگاہيں ان لوگوں پر پڑیں تو لوگوں
سے دریافت کيا کہ: یہ کون لوگ ہيں جنہيں محمد اپنے ہمراہ لا رہے ہيں؟
لوگوں نے جواب دیاکہ: ایک ان کی بيڻی ایک ان کا داماد ہے اور یہ دونوں بچے ان کے
بيڻے ہيں۔
یہ سن کر وہ کانپ اڻهے اور وہ دوڑتے ہوئے آنحضرت (ص) کے پاس آئے اور کہا کہ: یا
رسول الله (ص) ! ہم آپ سے معافی مانگتے ہيں آپ ہميں بد دعا نہ دیں۔ آپ جس طرح سے
راضی ہوں ہم اسی طرح سے آپ کو راضی کریں گے ہميں مباہلہ کرنے سے معاف فرمائيں تو
رسول خدا (ص) نے جزیہ کی شرطوں پر ان سے مصالحت کرلی اس کے بعد وہ اپنے گهروں
کی طرف چلے گئے۔
ليکن آنحضرت کا قسم دے کر الٰہی ولایت کبریٰ کے بارے ميں سوال اور بحث و گفتگو
کرنے کا ہم ذکر کرتے ہيں تاکہ شيعوں اور محبان علی - کے قلوب کو جلا و روشنی عطا ہو
انشاء الله۔
١٧٧ ۔ “ ذکر سليم بن قيس هلالی فی کتابہ قال راٴیت علياً - صلوات اللّٰہ عليہ - فی
مسجد رسول اللّٰہ (ص) فی خلافة عثمان وجماعة یتحدّثون ویتذاکرون العلم والفقہ ، فذکروا
قریشاً وفضلها وسوابقها وہجرتها وما قال رسول اللّٰہ (ص) فيها من الفضل مثل : (الاٴئمة من
قریش )وامثال ذٰلک وذکروا الاٴنصار وفضلها و سوابقها ونصرتها واما اثنی اللّٰہ عليهم فی کتابہ وما
قال رسول اللّٰہ (ص) فيهم من الفضل وذکروا ما قال صلوات اللّٰہ (ص) فی سعد بن معاذ وغسيل
الملائکة وغيرهم لم یدعوا شيئاً من فضلهم الی قولہ فاٴکثر القوم ، وذٰلک من بکرة الی حين
الزّوال وعثمان فی دارہ لا یعلم شيئاً ممّاهم فيہ وعلیّ بن ابی طالب - صلوات اللّٰہ عليہ - ساکت
لا ینطق والا حد من اهل بيت
فاقبل القوم عليہ فقالوا یا ابا الحسن ما یمنعک ان تتکلّم ، فقال ما من الحيّين الاّ وقد ذکر
فضلاً وقال حقاً ، فاٴنا اسئلکم یا معشر قریش والاٴنصار بما اَعطاکم اللّٰہ هذا الفضل بانفسکم
وعشائرکم واهل بيوتاتکم ام بغيرکم ؟ قالوا بل اعطانا اللّٰہ ومنّ بہ علينا بمحمد (ص) و عشيرتہ لاٰ
بانفسنا وعشائرنا ولا باهل بيوتاتن
قال عليہ السلام صدقتم یا معشر قریش والاٴنصار ، اٴلستم تعلمون انّ الذی نلتم من خير
الدّنيا والآخرة منّا اهل البيت خاصّة دون غيرهم وانّ ابن عمّی رسول اللّٰہ (ص) قال انّی واهل
بيتی کنّا نوراً یسعی بين یدی اللّٰہ تعالیٰ قبل ان یخلق اللّٰہ عزوجلّ آدم عليہ السلام باربعة عشر
الف سنة فلمّا خلق اللّٰہ تعالیٰ آدم عليہ السلام وضع ذلک النّور فی صلبہ واهبطہ الی الارض ثم
حملہ فی السّفينة فی صلب نوح عليہ السلام ثمّ قذف بہ فی النّار فی صُلب ابراہيم عليہ السلام
ثمّ لم یزل اللّٰہ عزوجل نقلنا من الاصلاب الکریمة الی الارحام الطّاہرة ومن الارحام الطّاهرة الیٰ
الاصلاب الکر یمة من الآباء والامهات لم یلق واحد منهم عن سفاح قط فقال اهل السّابقة
والقدمة واهل بدر واهل احد : نعم قد سمعنا من رسول اللّٰہ (ص)
ثمّ قال انشدکم اللّٰہ اٴتعلمون انّ اللّٰہ عزوجلّ فضل فی کتابہ السّابق علی المسبوق فی
غير آیة وانّی لم یسبقنی الی اللّٰہ عزوجلّ والی رسول اللّٰہ (ص) احد من اهل الامّة ؟ قالوا اللّهمّ
( نعم قال فانشدکم اللّٰہ اتعلمون حيث نزلت > وَالسَّابِقُونَ الاْٴَوَّلُونَ مِن المُْہَاجِرِینَ وَالاْٴَنصَارِ>( ١
<وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ
اٴُولَْئِکَ المُْقَرَّبُونَ>( ٢) سئل عنها رسول اللّٰہ (ص) فقال انزلها اللّٰہ تعالیٰ ذکرہ فی الانبيآء
واوصيآئهم فانا افضل انبيآء اللّٰہ ورسلہ وعلی بن ابی طالب وصی افضل الاوصيآء ، قالوا اللهمّ نعم
قال فانشدکم اللّٰہ اٴتعلمون حيث نزلت <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی
الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ>( ٣) حيث نزلت <إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤتُْونَ
( الزَّکَاةَ وَہُم رَاکِعُونَ>( ۴) وحيث نزلت <وَلَم یَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللهِ وَلاَرَسُولِہِ وَلاَالمُْؤمِْنِينَ وَلِيجَةً>( ۵
قال النّاس یا رسول اللّٰہ اٴخاصة فی بعض الموٴمنين اٴم عامة لجميعهم؟ فامر اللّٰہ عزوجلّ نبيّہ
(ص) ان یعلمهم ولاة امرهم ان یفسر لهم من الولایة مافسّر لهم من صلاتهم وزکاتهم وحجهم
وینصبنی للنّاس بغدیر خم، خطب (ص) فقال ایها الناس انّ اللّٰہ ارسلنی برسالة ضاق بها صدری
وظننت ان النّاس مکذّ بی فاوعدنی لابّلغها او ليعذبنی ، ثمّ امر فنودی بالصّلاة جامعة ثم خطب
فقال ایّها الناس اتعلمون ان اللّٰہ عزوجل مولای وانا مولی الموٴمنين وانا اولیٰ بهم من انفسهم
قالوا: بلی یارسول اللّٰہ ، قال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - :قم یا علی فقمت فقال (ص) من کنت
مولاہ فعلی مولاہ اللهم وال من والاہ وعاد من عاداہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ توبہ، آیت ١٠٠ ۔ (
٢(۔ سورئہ واقعہ، آیت ١٠ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
۴(۔ سورئہ مائدہ، آیت ۵۵ ۔ (
۵(۔ سورئہ توبہ، آیت ١۶ ۔ (
فقام سلمان فقال یا رسول اللّٰہ ولاء کماذا ؟ فقال (ص) ولاء کولائی ، من کنت اولیٰ بی
من نفسہ فعلیٌّ اولیٰ بہ من نفسہ فاٴنزل تعالیٰ ذکرہ <اَليَْومَْ اٴَکمَْلتُْ لَکُم دِینَکُم وَاٴَتمَْمتُْ عَلَيکُْم نِعمَْتِی وَرَضِيتُ لَکُمُ الاِس لْاٰمَ دِیناً>( ١)فکبّر رسول اللّٰہ (ص) وقال اللّٰہ اکبر تمام نبوتی وتمام دین
اللّٰہ ولایة علی بعدی ، فقام ابو بکر و عمر فقالا : یا رسول اللّٰہ هذہ الآیات خاصة فی علی؟ قال
(ص) بلی فيہ وفی اوصيآئی الیٰ یوم القيٰمة ، قالا یا رسول اللّٰہ اتمم لنا قال - صلوات اللّٰہ عليہ
وآلہ -: علی اخی ووزیری ووارثی ووصيی وخليفتی فی امّتی وولیّ کلّ موٴمن بعدی ثمّ ابنی
الحسن ثمّ الحسين ثمّ تسعة من ولد ابنی الحسين واحد بعد واحد ، القرآن معهم وهم مع القرآن
، لا یفارقونہ ولا یفارقهم حتیّٰ یردوا علیّ الحوض فقالوا کلّهم اللهمّ نعم قد سمعنا ذٰلک وشهدنا
کما قلت سواء ، وقال بعضهم قد حفظنا جلّ ما قلت ولم یحفظ کلّہ وهوٴلآء الذین حفظوا اخيارنا
وافاضلنا فقال علی - صلوات اللّٰہ عليہ - صدقتم ليس کلّ الناّس یستوون فی الحفظ
انشدکم اللّٰہ عزّوجلّ من حفظ ذٰلک من رسول اللّٰہ (ص) لمّا قام فاخبر بہ ، فقام زید بن
ارقم والبراء بن عازب وسلمان وابوذرّ والمقداد وعمّار فقالوا: لقد حفظنا قول رسول اللّٰہ (ص) وهو
قائم علی المنبر وانت الی جنبہ وهو یقول ایّها النّاس ان اللّٰہ عزوجلّ امرنی ان انصب لکم والقائم
فيکم بعدی ووصيی وخلفيتی والّذی فرض اللّٰہ عزوجلّ علی الموٴمنين فی کتابہ طاعتہ فقرنہ
بطاعتہ وطاعتی وامرکم بولایتہ وانّی راجعت ربی خشية طعن اهل النّفاق وتکذیبهم فاوعدنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انعام، آیہ ٣۔ (
لتبليغها اوليعذّبنی، یا ایّها النّاس انّ اللّٰہ امرکم فی کتابہ بالصّلاة فقد بيّنتها لکم ، والزکاة والصّوم
والحج فبيّنتها لکم و فسّرتها واٴمرکم بالولایة وانی اشهدکم انها لهذا خاصة ، ووضع یدہ علی
علیّ بن ابی طالب - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - ( قال) ولاٴبنيہ بعدہ ثمّ للا وصيآء من بعدهم من
ولدهم ، لا یفارقون القرآن ولایفارقهم القرآن حتّی یردوا علی حوضی
ایّها الناس قد بيّنت لکم مفزعکم بعدی وامامکم ووليّکم وهادیکم وهو اخی علیّ بن ابی
طالب وهو فيکم بمنزلتی فيکم فقلدوہ دینکم واطيعوہ فی جميع امورکم فانّ عندہ جميع ما
علّمنی اللّٰہ من علمہ وحکمة فسلوہ وتعلموا منہ ومن اوصيآئہ بعدہ ولا تعلّموهم ولا تقدّموهم ولا
تخلفوا عنهم فانّهم مع الحقّ والحق معهم لا یزایلونہ ولایزایلهم ثمّ جلسو
)قال سليم ) ثمّ قال علی عليہ السلام ایها الناس اتعلمون ان اللّٰہ انزل فی کتابہ < إِنَّمَا
) یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا> ( ١
فجمعنی وفاطمة وابنی حسناً والحسين ثمّ القی علينا کسآء وقال اللهمّ هولآء اهل بيتی
ولحمتی یوٴلمنی ما یوٴلمهم ویجرحنی ما یجرحهم ، فاذهب عنهم الرّجس وطهرهم تطهيراً ،
فقالت امّ سلمة وانا یا رسول اللّٰہ ؟ فقال - صلوات اللّٰہ عليہ وآلہ - انت علیٰ خير ، انّما نزلت فیّ
وفی اخی علی بن ابی طالب وفی ابنی وفی تسعة من ولد ابنی الحسين خاصة ، ليس معنا
فيها احد غيرهم ، فقالوکلّهم نشهد انّ امّ سلمة حدّثتنا بذلک فساٴلنا رسول اللّٰہ (ص) فحدّثتنا
امّ سلمة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ احزاب، آیہ ٣٣ ۔ (
ثم قال علی - صلوات اللّٰہ عليہ - انشدکم اللّٰہ اٴتعلمون ان اللّٰہ انزل < یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا
اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ>( ١) فقال سلمان یا رسول اللّٰہ عامّة هذہ ام خاصة ؟ قال (ص) امّا
الماٴمور فعامة الموٴمنين امروا بذلک وامّا الصّادقون فخاصة لاٴخی علی واوصيآئی من بعدہ الی
یوم القيٰمة قالوا اللهم نعم ، قال عليہ السلام اٴنشدکم اللّٰہ اٴتعلمون انی قلت لرسول اللّٰہ (ص)
فی غزوة تبوک لم خلفتنی ؟ فقال اناٴ المدینة لا یصلح الاّبی اوبک وانت منّی بمنزلة ہارون من
موسیٰ الاّ انہ لا نبیّ بعدی ، قالوا اللهمّ نعم ، فقال عليہ السلام انشدکم اللّٰہ اتعلمون انّ اللّٰہ
انزل فی سورة الحّج <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ>( ٢)الیٰ اخر
السّورة فقام سلمان فقال یا رسول اللّٰہ من هوٴلاء الذین انعمت عليهم شهيدهم شهدآء علی
النّاس الذین اجتباهم اللّٰہ ولم یجعل عليهم فی الدین من حرج ملّة ابراہيم ؟ قال - صلوات اللّٰہ
عليہ وآلہ -: عنی بذلک ثلاثة عشر رجلاً خاصة دون هذہ الاٴمة ، قال سلمان بينهم لنا یا رسول
اللّٰہ، فقال (ص) : اٴنا واخی علی واحد عشر من ولدی ، قالوا اللهمّ نعم ، فقال عليہ السلام
انشدکم اللّٰہ اتعلمون انّ رسول اللّٰہ (ص) قام خطيباً ولم یخطب بعد ذلک ، فقال ایّها النّاس انّی
تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰہ وعترتی اهل بيتی فتمسّکوا بهما لن تضلّوا ، فانّ اللّطيف اٴخبرنی
وعهد الیّ انّهما لن یفترقا حتّی یردا علیّ الحوض ، فقام عمر بن الخطاب شبہ المغضب فقال یا
رسول اللّٰہ اٴکلّ اهل بيتک؟ فقال لا ولٰکن اوصيٰآئی منهم ، اوّلهم اخی ووزیری ووارثی وخليفتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ توبہ، آیہ ١١٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ حج، آیہ ٧٧ ۔ (
فی امّتی وولیّ کلّ موٴمن بعدی ، هو اوّلهم ثم ابنی الحسن ثمّ ابنی الحسين ثمّ تسعة من
ولدی الحسين ، واحد بعد واحد، حتی یردوا علیّ الحوض ، شهدآء اللّٰہ فی ارضہ وحجتہ علیٰ
خلقہ وخزّان علمہ ومعادن حکمتہ ، من اطاعهم فقد اطاع اللّٰہ من عصاهم فقد عصی اللّٰہ فقالوا
کلّهم نشهد انّ رسول اللّٰہ (ص) قال ذٰلک ثمّ تمادی بعلی عليہ السلام السئوال ، فما ترک
شيئاً الاّ ناشدهم اللّٰہ فيہ وساٴلهم عنہ حتّی اٴتی علیٰ آخر منا قبہ وما قال لہ رسول اللّٰہ (ص)
) کثيراً ، کلّ ذلک یصدّقونہ و یشهدون انّہ الحقّ ”’ ( ١
سليم ابن قيس ہلالی اپنی کتاب ميں نقل کرتے ہيں کہ ميں نے (حضرت)علی - کو
حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ ميں مسجد رسول الله (ص) ميں دیکها مہاجرین اور انصار
کے ایک گروہ کے افراد ایک دوسرے سے علم و فقہ کے بارے ميں مذاکرہ کر رہے تهے پهر ان
کی گفتگو کے دوران قریش کی ہجرت و فضيلت اور ان کے سابقے کے بارے ميں بهی بات نکل
آئی اور جو کچه رسول خدا (ص) نے ان کے فضائل و مناقب کے بارے ميں فرمایا تها جيسے یہ
کہ: تمام ائمہ قریش سے ہيں اور اسی جيسے دوسرے فضائل۔ پهر انصار کے فضائل و مناقب ان
کے سابقے اور نصرت و مدد کے بارے ميں گفتگو ہوئی نيز جو کچه الله تعالیٰ نے اپنی کتاب ميں
ان کی تعریف ميں بيان فرمایا اسی طرح جو کچه رسول خدا (ص) نے ان کی فضيلت و منقبت
کے بارے ميں ذکر کيا تها گفتگو ہوئی اسی طرح پيغمبر اکرم (ص) کے اقوال سعد ابن معاذ کے
حق ميں جو غسيل ملائکہ (حنظلہ ابن ابو عامر) تهے اور ان کے علاوہ بهی دوسرے لوگوں کے
فضائل ہيں سب کو بيان کيا پهر لوگوں کی تعداد ميں اضافہ ہوا (یا زیادہ گفتگو ہوئی) اور یہ
سلسلہ صبح کی ابتدا سے زوال تک چلتا رہا اور عثمان اپنے گهر ميں تهے انہيں یہاں کے حالات
سے کچه
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ٢٠١ ۔ بحار الانوار، ج ٣١ ، ص ۴١۵ ۔ (
خبر نہيں تهی اور (حضرت) علی ابن ابی طالب - خاموش بيڻهے ہوئے تهے نہ خود گفتگو کر رہے
تهے اور نہ ہی اہل بيت ميں سے کوئی دوسرا شخص گفتگو کر رہا تها۔
تو وہ لوگ حضرت علی - کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کيا: اے ابو الحسن! آپ کے
ليے کون سی چيز مانع ہے جو گفتگو نہيں فرماتے؟ تو فرمایا: دونوں قبيلے والوں نے فضيلت و
منقبت ميں سے سب ہی کچه بيان کيا اور حق بات کہی؛ لہٰذا اب اے گروہ قریش و انصار! ميں
تم سے سوال کرتا ہوں کہ تمہيں یہ فضيلت کہاں سے الله تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ یہ فضيلت
تمہيں خودبخود حاصل ہوگئی ہے یا تمہارے قبيلہ و خاندان کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے یا
دوسروں کی وجہ سے ؟ سب نے کہا: بلکہ یہ فضيلت ہميں الله نے عطا کی ہے حضرت محمد
(ص) کے مقدس وجود اور ان کے قبيلہ کی برکت سے ہم پر احسان و کرم فرمایا ہے، نہ کہ
ہمارے قبيلہ اور خاندان کی وجہ سے۔
حضرت نے فرمایا: اے گروہ قریش و انصار تم لوگ سچ کہتے ہو، کيا تم اس بات کو نہيں
جانتے کہ جو کچه تمہيںدنيا و آخرت کی بهلائی نصيب ہوئی ہے وہ صرف ہم اہل بيت کی وجہ
سے تهی نہ دوسروں کی وجہ سے اور یہ کہ ميرے پسر عم رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا
ميں اور ميرے اہل بيت ایک نور کی شکل ميں بارگاہ ایزدی کے سامنے رواں دواں تهے۔ الله
تعالیٰ کو حضرت آدم - نے پيدا کرنے سے چودہ ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ پهر اس وقت الله
تعالیٰ نے آدم - کو پيدا کيا اور اس نور کو آدم کی صلب ميں ودیعت کردیا آدم کو زمين پر اتارا پهر
الله تعالیٰ نے اس نور کو نوح - کی صلب ميں رکه کر کشتی پر سوار کيا پهر اس نور کو ابراہيم
کی صلب ميں ڈال کر آگ ميں پهينکا، الله تعالیٰ مسلسل اس نور کو اصلاب کریمہ سے ارحام
مطہرہ کی طرف لایا اور امہات کے ذریعہ منتقل کرتا رہا ان ميں سے کسی بهی شخص کا دامن
سفاح و زنا سے کبهی بهی مس نہيں ہوا تها، پهر تمام سابقين (اصحاب) اور اہل بدر وغيرہ نے
کہا: ہاں ہم لوگوں نے اس حدیث کو رسول خدا (ص) سے سنا تها۔
پهر فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کيا تم جانتے ہو کہ
الله تعالیٰ اپنی کتاب کی اکثر و بيشتر آیات ميں ان لوگوں کی فضيلت و برتری کا قائل ہوا ہے
جنہوں نے اسلام قبول کرنے ميں سبقت حاصل کی بہ نسبت ان لوگوں کے جو بعد ميں اسلام
لائے اور یہ کہ اس امت ميں الله تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے ميں مجه
سے کسی شخص نے سبقت نہيں کی۔ ان لوگوں نے عرض کيا:ہاں خدا جانتا ہے۔
پهر فرمایا: ميں تمہيں خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ جب آیہٴ (والسابقون الا
وّلون) نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) سے اس کے بارے ميں سوال کيا گيا تها کہ کس کے بارے
ميں نازل ہوئی تو آنحضرت (ص) نے فرمایا تها کہ : الله نے اس آیت کو انبياء اور ان کے اوصيا کے
حق ميں نازل کيا ہے لہٰذا ميں الله کے تمام انبياء اور رسولوں سے افضل ہوں اور علی ابن ابی
طالب - ميرے وصی ہيں اور تمام اوصياء سے افضل ہيں؟ لوگوں نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے۔
فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا تم اس بات کو
جانتے ہو کہ جب آیہٴ <یا ایها الذین آمنوا اطيعوا الله و اطيعوا الرسول> اور آیہٴ <انما وليکم الله و
رسولہ ۔۔۔ وهم راکعون> اور جب آیہٴ <لم یتخذوا من دون اللّٰہ الیٰ قولہ وليجة؟> نازل ہوئی تو
لوگوںنے کہا: اے رسول خدا (ص) کيا یہ بعض مومنين سے مخصوص ہے یا عام ہے اور تمام
مومنين شامل ہيں؟ تو الله تعالیٰ نے اپنے پيغمبر کو حکم دیا تاکہ انہيں ان کے ولاة امر یعنی
صاحبان امر جو اولی بالنفس ہيں ان کا تعارف کرائيں لوگوں کے ليے ان کی تفسير ووضاحت
کریں ان کی ولایت اور امور کی حقيقت کی تفسير کریں جس طرح ان لوگوں کو ان کی نماز زکوٰة
اور حج کی کيفيت و شرائط سے آگاہ کيا تها اور مجهے اپنی جانشينی کے ليے غدیر خم ميں
منصوب کيا تها پهر رسول خدا (ص) نے خطبہ پڑها اور فرمایا: اے لوگو! الله تعالیٰ نے مجهے ایک
پيغام بهيجا ہے جس کی وجہ سے ميرا سينہ تنگ ہوگيا ہے اور ميں یہ گمان کرتا ہوں کہ لوگ
ميری تکذیب کریں گے اور یقين نہيں کریں گے لہٰذا مجهے نصيحت اور تہدید کی کہ اس رسالت
کو پہنچا دوں اور اگر انجام نہ دوں تو مجه پر عذاب نازل کرے گا۔
پهر حکم دیا لوگوں کو نماز جمعہ کے ليے آوازیں دیں اس کے بعد خطبہ پڑها اور فرمایا:
اے لوگو! کيا تم اس بات کو جانتے ہو کہ الله تعالیٰ ميرا مولا ہے اور ميں مومنين کا مولا ہوں ميں
ان ميں سے ان کی جان سے بهی زیادہ بہتر ہوں لوگوں نے عرض کيا تها:ہاں اے رسول خدا
(ْص) ! پهر رسول خدا نے فرمایا: اے علی ( - )کهڑے ہوجاؤ تو ميں کهڑا ہوگيا پهر لوگوں سے
فرمایا: جس جس کا ميں مولا ہوں اس اس کے علی مولا ہيں اے خدا! تو اس کو دوست رکه جو
علی کو دوست رکهے تو اس سے دشمنی رکه جو علی سے دشمنی رکهے۔
پهر حضرت سلمان رضوان الله عليہ اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور عرض کيا: یا رسول الله! یہ
کيسی ولایت ہے یعنی اس کا مقصد کيا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا: علی کی ولایت ميری ولایت
کی طرح ہے جس کی جان سے ميں افضل ہوں اس کی جان سے علی افضل ہيں پهر الله
تعالیٰ نے اس آیت <اليوم اکملت لکم دینکم و اتممت عليکم نعمتی و رضيت لکم الاسلام دینا>
کو نازل فرمایا، پهر حضرت رسول اکرم (ص) نے تکبير کہی اور فرمایا: اس نے دین مکمل کردیا
ہے اور نعمت کو تمام کردیا اور ميری رسالت اور ميرے بعد علی کی ولایت پر راضی ہوگيا اس
وقت ابو بکر اور عمر دونوں اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور کہا: یا رسول الله (ص)! یہ آیت خاص طور
سے علی کے حق ميں نازل ہوئی ہے؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہاں علی کے حق ميں اور
قيامت تک ہونے والے ميرے اوصياء کے حق ميں نازل ہوئی ہے حاضر ین نے عرض کيا: اے الله
کے رسول! ان حضرات کو ہم سے بيان کردیجيے یعنی مزید وضاحت فرمائيں تو حضرت نے فرمایا:
علی ميرے بهائی ميرے وارث ميرے وصی اور ميرے خليفہ ہيں اور ميرے بعد ميری امت
ميں ہر مومن کے ولی اور اولیٰ بالنفس ہيں پهر ميرا بيڻا حسن - پهر حسين - ہوگا پهر حسين -
کے نو فرزند ہوں گے قرآن ان حضرات کے ساته ہوگا اور وہ حضرات قرآن کے ساته ہوں گے نہ
قرآن ان سے جدا ہوگا اور نہ یہ قرآن سے جدا ہوں گے آخر کار ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں
گے۔
پهر سب نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے کہ ہم سب نے ان کلمات کو سنا اور اس بات پر
شاہد ہيں جيسا کہ آپ نے بغير کسی کمی بيشی کے فرمایا:
بعض نے کہا: (اے علی -!) جو کچه آپ نے فرمایا اس کا بيشتر حصہ ہميں یاد ہے ليکن
تمام واقعہ یاد نہيں ہے ليکن ان حضرات ميں سے جنہوں نے مکمل واقعہ یاد کر رکها ہے ہمارے
درميان بہترین اور بزرگ افراد ہيں۔ پهر حضرت علی - نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا کہ تمام لوگوں
کا حافظہ برابر نہيں ہے۔
ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ جس شخص نے رسول خدا (ص) سے جو
کچه سنا ہے اور اسے یاد ہے اڻهے اور خبر دے پهر زید ابن ارقم، براء ابن عازب، سلمان، ابوذر،
مقداد اور عمار (رضوان الله عليہم) اپنی جگہ کهڑے ہوئے اور کہا کہ: ہم گواہی دیتے ہيں کہ
رسول خدا (ص) کی باتوں کو سنا اور ہميں یاد ہے ہم گواہی دیتے ہيں کہ آنحضرت (ص) منبر
کے اوپر کهڑے ہوئے تهے اور آپ (اے علی) ان کے پہلو ميں تهے کہ جب وہ فرما رہے تهے کہ
اے لوگو! یقينا الله تعالیٰ نے مجهے حکم دیا ہے تاکہ آپ کو امام اور رہنما منصوب کروں اور یہ کہ
ميرے بعد ميرے امور کو تم انجام دو گے اور ميرے وصی و خليفہ اور جانشين ہو اور جو کچه
خدائے بزرگ و برتر نے اپنی کتاب ميں تمام مومنين پر واجب و لازم جانا ہے اپنی اطاعت و فرماں
برداری کو ميری اطاعت و فرماں برداری کے ساته متصل کيا ہے اور تمہيں اس کی ولایت کا حکم
دیا ہے۔
اور ميں نے پروردگار کی طرف رجوع کيا اس خوف سے کہ اہل نفاق اور منافقين مجهے
طعنہ دیں اور ميری تکذیب کریں پهر مجهے اس نے تاکيد کی اور مجهے ڈرایا کہ ميں ضرور تبليغ
کروں اور اگر نہيں کروں تو مجه پر عذاب کرے گا۔ اے لوگو! الله تعالیٰ نے تمہيں اپنی کتاب ميں
نماز پڑهنے کا حکم دیا ہے اور اس کی کيفيت و شرائط کو تم سے بيان فرمایا، اور زکوٰة ، روزہ اور
حج کا حکم دیا تو اس کی شرائط اور خصوصيات کی تم سے وضاحت کی اور تمہيں ولایت
(علی) کا حکم دیا ميں بهی تم کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ ولایت مخصوص ہے اور اپنے
دست مبارک کو علی ابن ابی طالب - کے (شانہ) پر رکها اور اس کے بعد ان کے دونوں فرزند
(حسن - و حسين -) اور پهر ان کے ان کے اوصياء جو ان کی اولاد سے ہوں گے اور وہ قرآن سے
جدا نہيں ہوں گے اور قرآن بهی ان سے جدا نہ ہوگا یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد
ہوں۔
اے لوگو! یقينا ميں نے تم سے اپنے بعد تمہاری پناہ گاہ کو بيان کيا ہے اور تمہارے امام
ولی اور ہادی کو اور وہ ميرے بهائی علی ابن ابی طالب - ہيں اور وہ تمہارے درميان ميری ہی
طرح ہيں۔ لہٰذا اپنے دین کو ان سے یاد کرنا اور اپنے تمام کاموں ميں ان کی اطاعت کرنا کيونکہ
اس کے پاس وہ سب کچه ہے جو الله تعالیٰ نے مجهے اپنا علم و حکمت تعليم فرمائی، لہٰذا
اس سے سوال کرو اور اس سے یاد کرو اور اس کے بعد اس کے اوصياء سے یاد کرو اور انہيں
تعليم نہيں دینا اور نہ ہی ان سے آگے چلنا اور ان سے پيچهے بهی نہ رہنا کيونکہ وہ سب حق
کے ساته ہيں اور حق بهی ان کے ساته ہے نہ وہ لوگ حق سے کنارہ کش ہوں گے اور نہ ہی
حق ان سے کنارہ کشی اختيار کرے گا اس کے بعد سب بيڻه گئے (سليم (راوی) کا بيان ہے(:
پهر حضرت علی - نے فرمایا: اے لوگو! کيا تمہيں معلوم ہے کہ الله تعالیٰ نے جب یہ آیت
<انّما> اپنی کتاب ميں نازل فرمائی تو اس وقت مجهے فاطمہ اور ميرے دونوں فرزندوں حسن و
حسين کو جمع کيا تها اور ہم پر اپنی چادر ڈال کر فرمایا تها: اے خدا ! یہ ميرے اہل بيت اور ميرے
بدن کا ڻکڑا ہيں جس نے مجهے تکليف دی اس نے انہيں بهی تکليف پہنچائی اور جس نے
مجهے مجروح کيا اس نے انہيں بهی مجروح کيا لہٰذا ان سے رجس اور ہر گندگی کو برطرف کر
اور ان کو پاک و پاکيزہ رکه۔
پهر ام سلمہ نے عرض کيا: اے الله کے رسول! ميں (ان ميں داخل ہوں) تو رسول خدا
(ص) نے فرمایا: تم خير پر ہو۔ یہ آیت صرف ميرے اور ميرے بهائی علی ابن ابی طالب ( -) اور
ميرے دونوں فرزند حسن و حسين اور ميرے فرزند حسين کی اولاد ميں سے نو افراد کے حق
ميں نازل ہوئی اور انہيں سے مخصوص ہے اس جہت سے کوئی بهی شخص ہمارے ساته
شریک نہيں ہے، سب نے کہا: آپ گواہی دیتے ہيں کہ ام سلمہ نے ہم سب سے حدیث بيان
کی اور ہم نے رسول خدا (ص) سے سوال کيا اور آنحضرت (ص) نے ہم سے وہ حدیث بيان
فرمائی جس طرح ام سلمہ نے حدیث بيان کی تهی۔
پهر حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں اور الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں
کہ تم اس بات کو جانتے ہو کہ جب الله تعالیٰ نے اس آیت <إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ
اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا > کو نازل فرمایا تها تو حضرت سلمان نے عرض کيا تها: اے الله کے
رسول! یہ آیت خاص ہے یا عام تو رسول خدا (ص) نے فرمایا تها: جن کو حکم دیا گيا ہے وہ عام
مومنين ہيں ليکن صادقين خاص لوگ ہيں (ان ميں) ميرے بهائی اور آپ کے بعد ميرے قيامت تک
ہونے والے اوصياء مراد ہيں ، تمام حاضر ین نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے۔
حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ تم
اس بات کو جانتے ہو کہ جب الله تعالیٰ نے اس آیت <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَکُونُوا مَعَ
الصَّادِقِينَ > کو نازل فرمایا تها تو حضرت سلمان نے عرض کيا تها: اے الله کے رسول ! یہ آیت
خاص ہے یا عام تو ؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا تها: جن کو حکم دیا گيا ہے وہ عام مومنين
ہيں ليکن صادقين خاص لوگ ہيں (ان ميں) ميرے بهائی اور آپ کے بعد ميرے قيامت تک ہونے
والے اوصياء مراد ہيں، تمام حاضرین نے کہا: ہاں خدا جانتا ہے۔
حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں خدا کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا تم
اس بات کو جانتے ہو کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول خدا نے مجهے اپنا خليفہ مقرر فرمایا
تها تو ميں نے رسول خدا (ص) کی خدمت ميں عرض کيا تها کہ آپ مجهے عورتوں اور بچوں پر
خليفہ مقرر کرتے ہيں تو رسول خدا نے فرمایا تها: (اے علی !) مدینہ کی حالت ميری وجہ سے
درست رہ سکتی ہے یا تمہاری وجہ سے اور تمہيں مجه سے وہ منزلت حاصل ہے جو ہارون کو
موسی سے تهی ليکن ميرے بعد کوئی نبی نہيں ہوگا (یعنی ميرے اور تمہارے درميان صرف
نبوت کا فرق ہے) لوگوں نے عرض کيا: خدا کی قسم ! ہم جانتے ہيں۔
حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں الله تعالیٰ کی قسم دے کر دریافت کرتا ہوں کہ کيا
تم اس بات کو جانتے ہو کہ: سورئہ حج کی آیت <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ
وَافعَْلُوا الخَْيرَْ > آخر تک نازل فرمائی تو حضرت سلمان اڻهے اور عرض کيا: اے رسول خدا ! وہ
لوگ کون ہيں جن پر آپ گواہ ہيںاور وہ لوگوں پر گواہ ہيں جس طرح الله تعالیٰ نے ان لوگوں کو
چن ليا ہے اور ان پر دین کے معاملے ميں کوئی حرج مقرر نہيں کيا کہ لوگ حضرت ابراہيم - کی
ملت ہيں؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: الله تعالیٰ نے اس سے تيرہ آدميوں کو خاص طور سے
مراد ليا ہے حضرت سلمان نے عرض کيا: اے الله کے رسول! ان آدميوں کو ہم سے بيان فرما
دیجيے، تو آنحضرت نے فرمایا: ایک ميں ہوں اور ميرے بعد علی ہيں اور ميرے گيارہ فرزند ہيں۔
تمام حاضرین نے کہا: ہاں خدا کی قسم ! ہم سب کو معلوم ہے۔
حضرت علی - نے فرمایا: ميں تمہيں الله کی قسم دے کر تم سے دریافت کرتا ہوں کيا
تم اس بات کو جانتے ہو کہ رسول خدا (ص) کهڑے ہوئے اور خطبہ پڑها اور ان کا آخری خطبہ کہ
جس کے بعد دوسرا خطبہ نہيں پڑها اور فرمایا: اے لوگو! ميں تم ميں دو گراں قدر چيزیں بطور
امانت چهوڑ رہا ہوں ایک کتاب خدا (قرآن مجيد) اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں ان
دونوں کا دامن پکڑو تاکہ کبهی بهی گمراہ نہ ہو کيونکہ مجهے خدائے لطيف و خبير (جو امور کے
دقائق سے باخبر ہے) نے مجهے خبر دی ہے اور مجه سے وعدہ کيا ہے کہ وہ دونوں (امانت)
کبهی بهی ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر پہنچيں۔
پهر عمر ابن خطاب غضب ناک حالت ميں کهڑے ہوئے اور کہا: اے رسول خدا (ص)! کيا
سب کے سب آپ کے اہل بيت ہيں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: نہيں ان ميں ميرے اوصياء بهی
ہيں، ان ميں سے پہلے ميرے بهائی علی ابن ابی طالب جو ميری امت ميں ميرے وزیر و وارث
اور خليفہ و جانشين ہيں اور ميرے بعد ہر مومن کے ولی ہيں وہ (علی -) ان اوصياء ميں سے
پہلے ان کے بعد ميرا فرزند حسن ہے، ان کے بعد ميرا فرزند حسين ہے اور پهر اولاد حسين
سے نو افراد یکے بعد دیگرے ہيں یہاں تک ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں یہ لوگ تمام
مخلوقات پر خدا کی زمين پر الله تعالیٰ کے شاہد اور حجّت ہيں اور علم حکمت الٰہی کے خزانہ
دار ہيں جو شخص بهی ان کی اطاعت کرے اس نے خدا کی اطاعت کی اور جو شخص ان کی
نافرمانی کرے اس نے خدا کی نافرمانی کی، پهر سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہيں کہ رسول
خدا (ص) نے ان سب باتوں کو فرمایا تها۔
پهر حضرت علی - نے اپنے سوالات کو مسلسل بيان کيا اور کوئی چيز باقی نہيں گزاری
مگر یہ کہ ان سے خدا کی قسم دے کر سوال کيا یہاں تک کہ اپنے آخری فضائل و مناقب تک
پہنچے جو کچه رسول خدا (ص) نے ان سے بيان کيا تها بہت زیادہ ہے ان سب کی تصدیق کی
اور تمام حاضرین نے گواہی دی کہ یہ سب کچه برحق ہے۔
یہی دو مبارک حدیث قرآن مجيد سے گفتگو اور احتجاج کے ذریعہ مناظرہ اور دشمن
سے بحث و گفتگو کے باب ميں محکم ترین حجّت اور روشن ترین دليل و برہان کے اثبات کے
ليے کافی ہے۔
جس طرح قرآن اپنے ذریعے گفتگو کرنے والوں کے ليے قوی دليل و برہان کی حيثيت
رکهتا ہے۔
اسی طرح حضرت حجّت امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف عدل و انصاف کے
ساته قائم ہيں۔
کذلک الحجة القائم بالقسط والعدل امام زمان
چونکہ ان کا کلام ، کلامِ الٰہی سے کمتر اور انسانوں کے کلام سے بالاتر ہے بلکہ آیہٴ
کریمہ <وَمَا یَنطِْقُ عَنِ الہَْوَی إِن ہُوَ إِلاَّ وَحیٌْ یُوحَی > ( ١) ان کے کلام کا منتہی کلام الٰہی ہے
کی صراحت کی بنا پر پيغمبر اکرم (ص) ہویٰ و ہوس کی وجہ سے کلام نہيں کرتے مگر یہ کہ
الله تعالیٰ کی جانب سے وحی ہوچکی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نجم، آیت ٣۔ (
یعنی پيغمبر اکرم (ص) کا کلام، کلامِ الٰہی سے نشاٴة پاتا ہے اور آنحضرت (ص) کے اوصياء و
جانشين تمام انبياء کے علوم کے وارث ہيں بالخصوص آنحضرت کے علوم کے وارث ہيں لہٰذا ان کا
کلام خواہ احتجاجات کے مقامات ميں ہو خواہ اور دوسرے موضوعات کے سلسلے ميں ہو
آنحضرت (ص) کے کلام پر ختم ہوتا ہے اور آنحضرت (ص) کا کلام، وحی الٰہی پر منتہی ہوتا ہے۔
مولف کہتے ہيں: ائمہٴ اطہار عليہم السلام کے احتجاجات کے بارے ميں دو حدیث کو ذکر
کرکے اپنی بحث ختم کرتے ہيں کيونکہ ان کے کلمات دشمنوں کی ہدایت اور ان کے جواب کے
ليے ادلّہ و براہين قاطعہ کی حيثيت رکهتے ہيں۔
”وفی الکافی مسنداً عن علی بن منصور قال قال لی ہشام بن الحکم کان بمصر زندیق
تبلغہ عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام اشيآء فخرج الی المدینة ليناظرہ فلم یصادفہ بها ، وقيل لہ :
انّہ خارج بمکّة ، فخرج الیٰ مکة ونحن مع ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فصادفنا ونحن مع ابی عبد
اللّٰہ عليہ السلام فی الطّواف وکان اسمہ عبد الملک وکنيتہ ابو عبد اللّٰہ فضرب کتفہ کتف ابی
عبد اللّٰہ عليہ السلام، فقال لہ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام ما اسمک ؟ فقال اسمی عبد الملک قال
فما کنيتک ؟ قال کنيتی ابو عبد اللّٰہ ، فقال لہ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام فمن هذا الملک الذی انت
عبدہ ، امن ملوک الارض ام من ملوک السمآء ؟ واخبرنی عن ابنک عبد الہ السمآء ام عبد الہ
الاٴرض ؟ قل ما شئت تخصم قال ہشام بن الحکم فقلت للزندیق اما ترد عليہ ؟ قال فقبّح قولی ،
فقال ابوعبد اللّٰہ عليہ السلام اذا فرغت من الطّواف فاٴتنا فلمّا فرغ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام اتاہ
الزّندیق فقعّد بين یدی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام ونحن مجتمعون عندہ فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ
السلام للزندیق اٴتعلم انّ للارض تحتاً وفوقاً؟ قال نعم ؛ قال فدخلت تحتها ؟ قال لا ، قال فما
یدریک ما تحتها؟ قال لا ادری الّا انی اظنّ ان ليس تحتها شی ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام
فالظّنّ عجز لما لا تستيقن ، ثمّ قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام افصعدت السّمآء ؟ قال لا ، قال
اٴفتدری ما فيها ؟قال لا، قال عجباً لک لم تبلغ المشرق ولم تبلغ المغرب ولم تنزل الارض ولم
تصعد السّمآء ولم تجز هناک فتعرف ما خلفهن وانت جاحد بما فيهنّ وهل یجحد عاقل ما لا یعرف ؟
قال الزّندیق ما کلّمنی بهذا احد غيرک ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : فانت من ذلک فی شکّ
، فعلہ هو ولعلّہ ليس هو ؟ فقال الزندیق ولعلّ ذلک ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : ایّها الرّجل ،
ليس لمن لا یعلم ، حجة علیٰ من یعلم ولا حجّة للجاهل یا اخا اهل مصر تفهّم عنّی فانّا لا نشک
فی اللّٰہ ابداً ، اما تری الشمس والقمر والليل والنّهار یلجان فلا یشتهان ویرجعان ؟ قد اضطرّا ليس
لهما مکان الّا مکانهما فان کانا یقدران علیٰ ان یذهبا فلم یرجعان؟ وان کانا غير مضطرین فلم لا
یصير الليل نهاراً والنهار ليلاً ؟ اضطرّا واللّٰہ یا اخا اهل مصر الیٰ دوامهما والّذی اضطرّهما احکم
منهما واکبر ، فقال الزّندیق صدقت ، ثم قال ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : یا اخا اهل مصر، ان الذی
تذهبون اليہ وتظنون انّہ الدّهر ان کان الدهر یذهب بهم لهم لا یردهم وان کان یردهم لم لا یذهب
بهم ؟ القوم مضطرّون یا اخا اهل مصر ، لم السّمآء مرفوفة والارض موضوعة ؟ لم لا یسقط السّمآء
علی الارض ؟ لم لاینحدر الارض فوق طباقها ؟ ولا یتماسکان ولا یتماسک من عليها ؟ قال الزّندیق
امسکهما اللّٰہ ربّهما وسيدهما ، قال فآمن الزندیق علی یدی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام، فقال لہ
حمران: جلعت فداک ان آمنت الزّنادقة علیٰ یدک فقد آمن الکفّار علی یدی ابيک ، فقال الموٴمن
الّذی آمن علی یدی ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام : اجعلنی من تلامذتک ، فقال ابو عبد اللّٰہ عليہ
السلام یا ہشام بن الحکم خذہ اليک وعلّمہ فعلّمہ ہشام ، فکان معلم اهل الشّام واهل مصر
) الایمان وحسنت طهارتہ حتّیٰ رضی بها ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام ” ( ١
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته علی ابن منصور سے روایت کی
ہے کہ انہوں نے کہا کہ مجه سے ہشام ابن حکم نے نقل کيا کہ: مصر ميں ایک زندیق (دہریہ)
تها کہ جس نے امام جعفر صادق - کی کچه احادیث سنيں تهيں وہ حضرت - سے مناظرہ
کرنے مدینہ آیا ليکن ملاقات نہ ہوئی لوگوں نے اس سے کہا کہ حضرت مکہ تشریف لے گئے ہيں
وہ مکہ آیا ہم طواف ميں حضرت کے ساته تهے اس زندیق کا نام عبد الملک تها اور کنيت ابو
عبدالله تهی اس نے طواف کی حالت ميں اپنے شانہ کو حضرت کے شانہ سے رگڑا تو حضرت -
نے اس سے دریافت فرمایا:تمہارا کيا نام ہے؟ جواب دیا: ميرا نام عبد الملک (بادشاہ کا بندہ )
ہے۔ فرمایا: تمہاری کنيت کيا ہے؟ جواب دیا: ابو عبدالله۔ حضرت نے فرمایا: یہ کون بادشاہ ہے کہ
جس کا تو بندہ ہے یہ زمين کے بادشاہوں ميں سے ہے یا آسمان کے؟ اور مجهے اپنے بيڻے کے
بارے ميں بهی بتا کہ وہ آسمان کے الله کا بندہ ہے یا زمين کے الله کا؟ ان دونوں ميں سے جو
بهی تو جواب دے گا ملزم قرار پائے گا (وہ خاموش رہا) ہشام کا بيان ہے کہ ميں نے اس دہریہ
سے کہا: تو حضرت کی بات کا جواب کيوں نہيں دیتا؟ اس کو ميرا یہ قول بر امعلوم ہوا۔ امام
صادق - نے فرمایا: جب ميں طواف سے فارغ ہوجاؤں تو ميرے پاس آنا۔
چنانچہ جب امام - طواف سے فارغ ہوئے تو دہریہ آیا اور آپ کے سامنے بيڻه گيا ہم سب
حضرت کے پاس جمع تهے حضرت نے دہریہ سے دریافت فرمایا: کيا تم جانتے ہو کہ زمين کے
ليے تحت و فوق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٧٣ ۔بحار الانوار، ج ٣، ص ۵٢ ۔ (
ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں ، حضرت نے فرمایا: کيا تم زمين کے نيچے گئے ہو اس نے جواب دیا:
نہيں، تو حضرت نے فرمایا: پهر تمہيں کيا معلوم کہ زمين کے نيچے کيا ہے؟ اس نے کہا: جانتا تو
نہيں ہوں ليکن ميں گمان کرتا ہوں کہ زمين کے نيچے کوئی چيز نہيں ہے۔ امام - نے فرمایا:
گمان اس چيز کے بارے ميں عاجزی اور درماندگی ہے کہ جس کے بارے ميں تمہيں یقين نہ ہو،
پهر دریافت فرمایا: کيا تم آسمان کے اوپر گئے ہو؟ جواب دیا: نہيں ، دریافت کيا: کيا تم جانتے ہو
اس ميں کيا ہے؟ جواب دیا: نہيں ، تو فرمایا: کيسی عجيب بات ہے کہ تم نہ مشرق ميں گئے ہو
نہ مغرب ميں، نہ زمين کے اندر گئے نہ آسمان کے اوپر اور جب تم وہاں سے نہيں گزرے اور تم
کو پتہ نہيں کہ کيا کيا وہاں پيدا کيا گيا ہے (وہ نظم و تدبير جو صانع حکيم پر دلالت کرتی ہے) تو
اس صورت ميں ان چيزوں سے تمہارا انکار کيسا، کيا عقل مند انسان کے ليے جائز ہے کہ جس
چيز کو نہيں جانتا اس سے انکار کردے۔
دہریہ نے کہا: آپ کے علاوہ کسی اور نے مجه سے ایسا کلام نہيں کيا، امام - نے
فرمایاکہ اس معاملہ ميں تمہيں شک ہے کہ شاید آسمان و زمين ميں کچه ہو یا نہ ہو؟ زندیق نے
جواب دیا: شاید ہاں ایسا ہی ہے ، تو امام - نے فرمایا: اے شخص! جو کوئی نہيں جانتا وہ
جاننے والے پر حجّت تمام نہيں کرتا جاہل کے ليے تو حجّت ہی نہيں، اے مصری بهائی! مجه
سے سنو اور سمجهو ہم کبهی بهی الله کے بارے ميں شک نہيں کرتے۔
کيا تم سورج ، چاند اور رات و دن کو نہيں دیکهتے کہ وہ آتے جاتے ہيں۔ ان کی مقررہ
حالت ميں کوئی خطا نہيں ہوتی۔ وہ جاتے ہيں اور پهر پلٹ آتے یہی یہ ان کی اضطراری حالت
ہے جو ان کی معين جگہ ہے اس سے ہٹ نہيں سکتے۔ انہيں اس پرقدرت نہيں کہ جاکر واپس
نہ آئيں۔ اگر غير مضطر ہوتے تو رات دن نہ بنتی اور دن رات ميں نہ بدلتا؟ اے مصری بهائی! خدا
کی قسم! یہ دونوں ہميشہ سے اپنی حالت ميں مضطر ہيں اور جس نے انہيں مضطر بنایا ہے
وہ ان سے زیادہ طاقت ور اور بڑا حاکم ہے۔ زندیق نے کہا: آپ نے سچ فرمایا: پهر امام - نے
فرمایا: اے مصری بهائی ! لوگ جس طرف جا رہے ہيں اور گمان کرتے ہيں کہ وہ دہر ہے اگر دہر
ان لوگوں کو لے جاتا ہے تو پهر ان کو لوڻاتا کيوں نہيں؟ اور اگر لوڻاتا ہے تو پهر وہ ان کی طرف لے
کيوں نہيں جاتا؟ اے مصری بهائی! لوگ مضطر ہيں کيوں آسمان کو بلند کيا اور زمين کو بچهایا؟
آسمان زمين پر کيوں نہيں گر پڑتا؟ اور زمين اپنے طبقات کو لے کر دهنس کيوں نہيں جاتی
اورآسمان سے بهی متصل ہوتی اور جو لوگ اس کے اوپر ہےں آپس ميں متصل نہيں ہوتے؟
وہ دہریہ امام - کے ذریعہ ایمان لایا اور کہا: وہ خدا جو زمين و آسمان کا پروردگار اور
سرپرست ہے اس کو سنبهالے ہوئے ہے، حمران جو مجلس ميں موجود تهے کہا: ميں آپ پر فدا
ہوں زنادقہ و دہریے آپ کے ذریعے ایمان لائے اور کفار آپ کے پدر بزرگوار کے وسيلہ سے۔ پهر
اس نئے مومن نے عرض کيا: مجهے آپ اپنے شاگردوں ميں سے قرار دیں، امام - نے ہشام
سے فرمایا: ان کو اپنے ساته رکهو اور انہيں تعليم دو، ہشام جنہوں نے اہل شام اور مصر کو
ایمان کی تعليم دی اسے بهی تعليم دی تاکہ اس کا عقيدہ پاکيزہ ہوجائے اور امام صادق -
خوش حال ہوئے۔
مولف کہتے ہيں: “کان” کی ضمير شاید نئے مومن کی طرف پلڻے گی، یعنی امام جعفر
صادق - کے ذریعہ ایمان لانے کے بعد اپنے مکان پر گيا اور اہل شام و مصر کا معلم ہوا اور ان
لوگوں کو ایمان کی تلقين و تعليم دی۔
مولف کہتے ہيں: حضرت امام جعفر صادق - نے ایک دہریہ اور خدا کی معرفت نہ رکهنے
والے کے ساته مناظرہ کی روش ميں ابتدا ہی سے اسے کيسے ملزم قرار دیا اور اسے توحيد
اور ایمان کی طرف لائے اس ميں چند نکات معلوم ہوتے ہيں جو قابل ذکر ہيں:
١۔ امام جعفر صادق - کے جذّاب مطالب کی طاقت جو پہلے سے اس تک پہنچ چکی
تهی اس کی بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ان کے اثر کی وجہ سے جو ولایت کی کرن اس کے
ضمير پر چمکی تهی جو اس بات کا سبب ہوئی کہ اسے حضرت - کے ساته مناظرہ کرنے کے
ليے مدینہ تک کهينچ کر لائی۔
٢۔ امام - کا حلم اور بردباری نيز ان کی الٰہی سياست جو طواف کے وقت اس نے
اپنے شانہ کو حضرت کے شانہ سے ملایا تو حضرت - نے کسی چوں چرا اور عکس العمل کے
بغير اس کا نام اور کنيت دریافت فرمائی اور اس نے جواب دیا: ميرا نام عبد الملک (باد شاہ کا
بندہ) ہے ميری کنيت ابو عبد الله (بندہٴ خدا کا باپ) ہے حضرت نے فرمایا: یہ کون بادشاہ ہے
جس کا تو بندہ ہے یہ زمين کے بادشاہوں ميں سے ہے یا آسمان کے؟ اور مجهے اپنے بيڻے کے
بارے ميں بهی بتا کہ وہ آسمان کے الله کا بندہ ہے یا زمين کے الله کا؟ امام صادق - اس طرح
بحث ميں وارد ہوئے کہ اس کو چاروں طرف سے اپنی گفتگو کے حصار ميں لے ليا تو پهر حضرت
نے فرمایا: تم جو بهی جواب دو ملزم قرار پاؤ گے۔
٣۔ حضر ت کا طریقہ و طرز استدلال بہت سبق آموز روشن اور متعين و لطيف
ہے۔
اور ہر دانشور کے ليے جو چاہتا ہے کہ اصول و اعتقادات یا ہرموضوع ميں اپنے دشمن
سے بحث و گفتگو اور مناظرہ کرے قابل تعریف ہے، کيوں کہ مصداق <وَجَادِلہُْم بِالَّتِی ہِیَ
اٴَحسَْنُ > ( ١) کو بہ نحو اتم و اکمل اپنے پُر مغز اور دل نشين کلمات سے مجسم فرمایا اور
معاشرتی آداب کی رعایت کے ساته ایک دہریہ اور خدا کی معرفت نہ رکهنے والے اور خدا
پرستوں سے بيزار انسان کی دلجوئی کرتے ہوئے اپنے استدلال کے ہر جملے ميں اس کو
مصری بهائی سے خطاب کرتے ہيں اور کبهی بهی اپنی زبان پر نازیبا اور سخت بات نہيں لاتے،
لہٰذا حضرت کے دست پُر برکت پر اسلام و ایمان کے درجہ پر فائز ہوا اور امام کے حکم سے
ہشام ابن حکم کے زیر تعليم قرار پایا اور خود اہل شام و مصر کا استاد بن گيا اور انہيں ایمان کی
تعليم دی۔
١٧٨ ۔ “وفيہ عن عبد الاعلیٰ مولی آل سام عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام قال: انّ یهودیاً
یقال لہ سبخت جآء الیٰ رسول اللّٰہ (ص) ، فقال : یا رسول اللّٰہ جئت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نمل، آیت ١٢۵ ۔ (
اساٴلک عن ربّک فان انت اجبتنی عمّا اسئلک عنہ والاّ رجعت
قال (ص) : سل عمّا شئت قال: این ربّک ؟ قال: هو فی کلّ مکان ليس فی شیء من
المکان المحدود قال: وکيف هو ؟ قال (ص) : وکيف اصف ربّی بالکيف والکيف مخلوق واللّٰہ لا
یوصف بخلقہ قال : فمن این یعلم انک نبی اللّٰہ؟ قال: فما بقی حولہ حجر ولا غير ذلک الا تکلم
بلسان عربی مبين : یا سبخت انہ رسول اللّٰہ فقال سبخت : ما راٴیت کاليوم امراً ابين من هذا،
) ثم قال : اشهد ان لا الہ الاّ اللّٰہ انت وانّک رسول اللّٰہ ” ( ١
کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته عبد الاعلی مولائے آل سام سے
نقل کيا ہے کہ اس کا بيان ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: ایک یہودی سبخت نامی
حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں آیا اور عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! ميں اس ليے
حاضر ہوا تاکہ آپ سے آپ کے پروردگار کے بارے ميں سوال کروں اگر آپ نے ميرے سوال کا
جواب دیا تو قبول کروں گا ورنہ واپس چلا جاؤں گا آنحضرت (ص) نے فرمایا: جو چاہو پوچه لو، اس
نے دریافت کيا: ميں اپنے رب کی کيفيت کيوں کر بتاؤں کيفيت تو اس کی مخلوق ہے اور مخلوق
کے وصف سے اس کی تعریف و توصيف نہيں ہوسکتی (کيوں کہ ہر چيز کی تعریف و توصيف خود
اسی سے مخصوص ہے اور دوسری شے جو اس وصف کی حامل نہيں ہے اس ليے اس کی
تعریف و توصيف نہيں کی جاسکتی) اس نے دریافت کيا: پهر کيسے معلوم ہوگا کہ آپ الله کے
نبی ہيں؟ جيسے ہی یہ کہا توکوئی پتهر یا اور بهی دوسری چيزیں ان کے اطراف ميں ایسی
نہيں تهيں جس نے صاف اور فصيح عربی ميں یہ نہ کہا ہو: اے سبخت! یہ الله کے رسول ہيں۔ یہ
سن کر سبخت نے کہا: ميں نے آج سے زیادہ اس معاملہ ميں واضح مطلب نہيں دیکها پهر کہا:
ميں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٨۴ ۔ (
گواہی دیتا ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبود نہيں ہے اور آپ الله کے رسول ہيں۔
١٧٩ ۔ “وفی الاحتجاج : انّ بعض الاٴحبار جاء الیٰ ابی بکر ، فقال لہ: انت خليفة نبی هذہ
الامّة ؟ فقال: نعم قال:فانّا نجد فی التوراة انّ خلفاء الانبياء اعلم اممهم فخبّرنی عن اللّٰہ این هو
اٴفی السّماء هو ام فی الاٴرض ؟ فقال لہ ابو بکر: فی السّمآء علی العرش قال اليهودیّ : فاٴری
الارض خالية منہ واراہ علی هذا القول فی مکان دون مکان ، فقال ابو بکر : هذا الکلام الزّنادقة
اعزب عنّی والا قتلتک
فولّی الرجل متعجباً یستهزی بالاسلام فاستقبلہ امير المومنين عليہ السلام فقال لہ : یا
یهودی قد عرفت ما سئلت عنہ وما اجبت بہ وانّا نقول انّ اللّٰہ عزّوجلّ این الاٴین فلا این لہ وجلّ
ان یحویہ مکان وهو فی کلّ مکان بغير مماسّة ولا مجاورة یحيط بها علماً بما فيها ولا یخلو شی
من تدبيرہ تعالیٰ وانّی مخبرک بما جآء فی کتاب من کتبکم یصدّق ما ذکرتة لک فان عرفتہ اٴتومن
بہ قال اليهودی : نعم
قال: الستم تجدون فی بعض کتبکم انّ موسیٰ بن عمران کان ذات یوم جالساً اذ جائہ
ملک من المشرق ، فقال لہ : من این جئت ؟ قال : من عند اللّٰہ وجآئہ ملک آخر من المغرب ،
فقال لہ : من این جئت فقال من عند اللّٰہ ثم جآئہ ملک، فقال : من این جئت فقال : قد جئتک من
السّمآء السّابعة من عند اللّٰہ عزّوجلّ وجآء ملک آخر، قال : قد جئتک من الارض السّابعة السّفلی
من عند اللّٰہ عزّوجلّ فقال موسیٰ عليہ السلام سبحان من لا یخلو منہ مکان ولایکون الیٰ مکان
اقرب من مکان
فقال اليهودی : اشهد انّ هذا هو الحقّ المبين وانّک احقّ بمقام نبيّک ممّن استولیٰ عليہ
)١) ”
علامہ طبرسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب احتجاج ميں نقل کيا ہے کہ: یہودیوں کے
علماء ميں سے ایک عالم ابوبکر کے پاس آیا اور کہنے لگا: کيا آپ اس امت کے نبی کے خليفہ
ہيں؟ جواب دیا: جی ہاں ، تو وہ کہنے لگا کہ ہم نے توریت ميں یہ لکها ہوا دیکها ہے کہ انبياء کے
خلفاء ان کی امتوں سے زیادہ عالم ہوتے ہيں تو مجهے الله کے بارے ميں خبر دیں کہ وہ کہاں
ہے وہ آسمان ميں ہے یا زمين ميں؟ ابوبکر نے جواب دیا: وہ آسمان ميں عرش پر ہے تو یہودی
نے کہا: تو ميں سمجهتا ہوں کہ پهر زمين تو اس سے خالی ہے اور اس قول کی بنا پر ميں
سمجهتا ہوں کہ وہ ایک مکان ميں ہے نہ کہ دوسرے ميں تو ابوبکر اس سے کہنے لگے کہ: یہ
زندیقوں (دہریوں) کی گفتگو ہے مجه سے دور ہوجاؤ ورنہ ميں تجهے قتل کردوں گا۔
پهر وہ عالم تعجب کرتے ہوئے واپس ہوا اور اسلام (خليفہ کے علم و کردار) کا مذاق اڑاتے
ہوئے واپس ہو ہی رہا تهاکہ اسی اثنا ميں امير المومنين - اس تک پہنچے اور فرمایا: اے یہودی!
مجهے معلوم ہوا ہے جو تونے سوال کيا اور جو تجهے جواب ملا اور ہم تو کہتے ہيں کہ خدا نے
این کو این کيا ہے (یعنی کہاں کو کہاں کيا ہے) اس ليے کوئی این نہيں ہے اور وہ اس سے بلند
و برتر ہے کہ کوئی مکان اس کو گهيرلے اور وہ ہر مکان ميں ہے بغير اس سے مس ہونے اور بغير
اس ميں پناہ لينے کے اس کا علم محيط ہے اس کو جو اس ميں ہے جگہوں ميں سے کوئی
جگہ اس کی تدبير سے خالی نہيں اور ميں تجه کو اس چيز کی خبر دیتا ہوں جو تمہاری کتابوں
ميں سے ایک کتاب ميں ذکر ہوئی ہے اور وہ ميری اس بات کی تصدیق کرتی ہے جو ميں نے
تجه سے بيان کی ہے اگر تم اس کو جان لو تو کيا تم اس پر ایمان لے آؤ گے؟ جواب دیا: جی
ہاں!
حضرت نے فرمایا: تم اپنی بعض کتابوں ميں نہيں پاتے کہ موسی ابن عمرا ن - ایک دن
بيڻهے ہوئے تهے کہ اچانک ان کے پاس مشرق کی طرف سے ایک فرشتہ آیا تو جناب موسیٰ
نے اس سے دریافت کيا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ احتجاج، ج ١، ص ٢١٣ ۔ بحار الانوار، ج ٣، ص ٣٠٩ ۔ (
کہاں سے آرہے ہو؟ تو اس نے جواب دیا: الله کے پاس سے، پهر آپ کے پاس مغرب سے ایک
فرشتہ آیا، تو آپ نے پوچها: کہاں سے آرہے ہو؟ اس نے بهی یہی جواب دیا کہ الله کے پاس
سے، پهر ان کے پاس ایک اور فرشتہ آیا تو آپ نے دریافت کيا: کہاں سے آنا ہوا؟ اس نے بهی
یہی جواب دیا کہ الله کے پاس سے، پهر ان کے پاس ایک اور فرشتہ آیا تو اس نے جواب دیا:
ساتویں آسمان سے خدائے بزرگ و برتر کے پاس سے آرہا ہوں ، پهر ان کے پاس ایک اور فرشتہ
آیا تو اس نے کہا کہ ميں زمين کے ساتویں طبقے سے الله کے پاس سے آرہا ہوں تو جناب
موسیٰ نے عرض کيا: وہ ذات منزہ ہے کہ جس سے کوئی مکان خالی نہيں اور جو ایک مکان
کی بہ نسبت دوسرے مکان سے زیادہ قریب نہيں ہے یہ سن کر یہودی کہنے لگا: ميں اس بات
کی گواہی دیتا ہوں کہ یہ حق واضح وآشکار ہے اور آپ مقام منصب نيابت نبی کے زیادہ حق دار
ہيں بہ نسبت اس کے جو اس پر غلبہ کرکے بيڻها ہوا ہے۔
مولف کہتے ہيں: جس طرح قرآن مجيد کی آیات حجّت قاطعہ ہيں ائمہٴ ہدی کے گُہر بار
کلمات بهی حجّت قاطعہ اور براہين واضحہ ہيں جو راہ حق سے گمراہ ہوجانے والوں کو شاہراہِ
ہدایت پر گامزن کرکے نجات بخشتے ہيں۔
|
|