|
٢۔ کاميابی / ٣١
٣١ ۔ وَ هُدیً لِمَنِ ائتَمَّ بِہِ (اقتداء کرنے والوں کے ليے ہدایت ہے(
قرآن کریم ان لوگوں کے ليے ہادی و رہنما ہے جو اس کی رہنمائی کی پيروی کرتے ہيں
اس کے دستورات عاليہ کا اتباع اور ان پر عمل کرتے ہيںاور یہ بہت واضح سی بات ہے جب کہ
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <ذَلِکَ الکِْتَابُ لاَرَیبَْ فِيہِ ہُدًی لِلمُْتَّقِينَ > ( ١
یہ صاحبان تقویٰ اور پرہيز گاروں کے ليے مجسم ہدایت ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَہلَْ الکِْتَابِ قَد جَائَکُم رَسُولُنَا یُبَيِّنُ لَکُم کَثِيرًا مِمَّا کُنتُْم تُخفُْونَ مِن الکِْتَابِ وَیَعفُْو عَن کَثِيرٍ قَد جَائَکُم مِن اللهِ نُورٌ وَکِتَابٌ مُبِينٌ یَہدِْی بِہِ اللهُ مَن اتَّبَعَ رِضوَْانَہُ سُبُلَ
) السَّلاَمِ وَیُخرِْجُہُم مِن الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّورِ بِإِذنِْہِ وَیَہدِْیہِم إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ > ( ٢
اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آچکا ہے جو اِن ميں سے بہت سی باتوں کی
وضاحت کر رہا ہے جن کو تم کتاب خدا ميں چهپا رہے تهے اور بہت سی باتوں سے درگزر بهی
کرتا ہے تمہارے پاس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ بقرہ، آیت ٢۔ (
٢(۔ سورئہ مائدہ، آیت ١۶ ۔ (
خدا کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع
کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہيں جہل و کفر و شرک کی
تاریکيوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہيں صراط مستقيم کی طرف
ہدایت کرتا ہے۔
جس طرح کہ فرق بيان و ظہور کلام اور بيان کرنے والے پر قائم ہے۔ نور اور کتاب کا لانے
والا ذات اقدس باری تعالیٰ کی ذات پر قائم ہے، اور یہی معنی تائيد کرتا ہے کہ نور سے مراد
قرآن کریم ہے کتاب اور مبين عطف تفسير و توضيح ہے اس بنا پر نور اور کتاب مبين دونوں سے
مراد قرآن مجيد ہے، الله تعالیٰ نے بہت سے مقامات ميں قرآن کو نور سے تعبير فرمایا ہے جيسا
کہ الله تعالیٰ کا قول ہے: <وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی اٴُنزِلَ مَعَہُ > ( ١) اور اس نور کا اتباع کيا جو اس کے
ساته نازل ہوا ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ قول : <فَآمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہِ وَالنُّورِ الَّذِی اٴَنزَلنَْا > ( ٢) لہٰذا خدا اور رسول
اور اس نور پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کيا ہے۔
نيز الله تعالیٰ کا یہ قول: <وَ اٴَنزَْل اْٰن اِلَيکُْم نُوراً مُبِيناً> ( ٣) اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور
بهی نازل کردیا ہے۔
مزید یہ بهی احتمال پایا جاتا ہے کہ نور سے مراد نبی اکرم (ص) کی ذات گرامی ہو
جيسا کہ صدر آیت سے ممکن ہے یہ استفادہ کيا جائے <قد جاء کم من اللّٰہ نور و کتاب مبين>
(یقينا تمہارے پاس الله کی طرف سے نور اور روشن کتاب آئی) اس بنا پر عطف تفسير و توضيح
ہوگا، بلکہ دونوں مستقل ہوگا، نور ؛ پيغمبر خدا اور کتاب مبين؛ اس بنا پر پهر عطف تفسير نہيں
ہوگا بلکہ دونوں مستقل طور پر پيغمبر خدا (ص) کا نور اور کتاب مبين قرآن مجيد ہوگا۔ اور “بہ”
کی ضمير کتاب یا نور کی طرف پلڻتی ہے خواہ اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ١۵٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ تغابن، آیت ٨۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ١٧۴ ۔ (
سے نبی اکرم (ص) کا نور یا قرآن کا ارادہ کيا گيا ہو دونوں کا نتيجہ ایک ہی ہے، کيونکہ پيغمبر
اکرم کی ذات ہدایت کے مرحلہ ميں منجملہ اسباب ظاہریہ ميں سے ایک ہے اور اسی طرح قرآن
کریم اور حقيقت ہدایت حق تعالیٰ کی ذات پر قائم ہے، الله تعالیٰ فرماتا ہے: < إِنَّکَ لاَتَہدِْی مَن ) اٴَحبَْبتَْ وَلَکِنَّ اللهَ یَہدِْی مَن یَشَاءُ > ( ١
پيغمبر بے شک آپ جسے چاہيں اسے ہدایت نہيں دے سکتے ہيں بلکہ الله جسے چاہتا
ہے ہدایت دے دیتا ہے۔ اور الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَکَذَلِکَ اٴَوحَْينَْا إِلَيکَْ رُوحًا مِن اٴَمرِْنَا مَا کُنتَْ
تَدرِْی مَا الکِْتَابُ وَلاَالإِْیمَانُ وَلَکِن جَعَلنَْاہُ نُورًا نَہدِْی بِہِ مَن نَشَاءُ مِن عِبَادِنَا وَإِنَّکَ لَتَہدِْی إِلَی صِرَاطٍ
) مُستَْقِيمٍ # صِرَاطِ اللهِ الَّذِی لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الاْٴَرضِْ اٴَلاَإِلَی اللهِ تَصِيرُ الاْٴُمُورُ > ( ٢
اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح (قرآن) کی وحی کی ہے آپ کو
نہيں معلوم تها کہ کتاب کيا ہے اور ایمان کن چيزوں کا نام ہے ليکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا
ہے جس کے ذریعہ اپنے بندوں ميں جسے چاہتے ہيں اسے ہدایت دے دیتے ہيں اور بے شک آپ
لوگوں کو سيدهے راستہ کی ہدایت کر رہے ہيں اسی خدا کا راستہ جس کے اختيار ميں زمين و
آسمان کی تمام چيزیں ہيں اور یقينا اس کی طرف تمام امور کی بازگشت ہے۔
آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) سے خطاب ہے کہ حقيقی ہدایت اور ایصال
) الی المطلوب یہ الله تعالیٰ کے ذمہ ہے آپ صرف ہدایت کی طرف رہنمائی کرنے والے ہيں ( ٣
ائمہٴ اطہار جو انبياء کے وارث ہيں بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم - جو تمام انبياء
اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ قصص، آیت ۵۶ ۔ (
٢(۔ سورئہ شوریٰ، آیت ۵٣ ۔ (
٣(۔ تفسير الميزان سے اقتباس، علامہ طباطبائی عليہ الرحمہ، ص ٢۶٣ ۔ (
اوصياء کے وارث ہيں وہ بهی ان کی تمام خصوصيات و امتيازات لوگوں کی ہدایت و رہنمائی ،
تدبير امور کے حامل اور تمام مخلوقات کے نظام کے محافظ ہيں نيز تمام جہان ہستی کے سارے
موجودات اس عظيم ہستی کی ولایت عظمیٰ کے تحت چل رہے ہيں۔
١۶٩ ۔ “ وفی الکافی : عَن ابی عَبد اللہّٰ عليہ السلام اِنَّ اللہّٰ خَلَقنا فاحسَْنَ خَلقَنا وَصَوَّرنَا
فاحسَنَ صُوَرَنا وَجَعَلنا عَينہ فی عِبادِہِ ولسانہُ النّاطِق فی خَلقِہِ وَیَدَہُ المبسُوطَة علی عِبادِةِ
بالراٴفةِ وَالرَّحمةِ وَوَجْهہ الذی یوٴتی مِنہ ، وَبابَہ الذی یدلّ عليہ وخُزّانَہُ فی سَمائِہِ وَارضِہِ، بنا
اثمَرَتِ الاَشجار راینعت الثِمار وَجَرَتِ الاٴنهار وَبنا ینَزل ( الغيث ) غيثَ السمآء وینبتُ عشبَ الاٴرضِ
) وَبِعبادَتنا عُبد اللّٰہ وَلَو لا نحن ما عُبِدَ اللّٰہ ” ( ١
حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: الله تعالیٰ نے ہم کو پيدا کيا اور بہترین صورت دی
اور ہم کو اپنے بندوں ميں اپنی آنکه اور ناظر قرار دیا اور اپنی مخلوق پر لسان ناطق بنایا ، بندوں
پر ہم کو دست کشادہ قرار دیا، مہربانی اور وقت کے ليے اپنا وجہ (چہرہ) بنایا جس سے اس
کی طرف توجہ کی جاتی ہے اور ہميں اپنا دروازہ قرار دیا جس سے اس کی طرف پہنچنا ہوتا ہے
ہم زمين و آسمان ميں اس کے خزانہ دار ہيں ہماری وجہ سے درخت پهل لاتے ہيں ہماری وجہ
سے پهل پکتے ہيں اور نہریں جاری ہوتی ہيں ہماری وجہ سے بادل برستے ہيں اور زمين پر
گهاس اُگتی ہے۔
ہماری عبادت کی وجہ سے خدا کی عبادت ہوئی، اگر ہم نہ ہوتے تو الله کی عبادت نہ
ہوتی۔
١٧٠ ۔ “وفی کمال الدین مسنَداً عَن عَلیِّ بن مُوسیٰ الرّضا عليہ السلام عَن اَبيہِ مُوسیٰ
بن جَعفرٍ عَن ابِی جَعفَر بن محمّدٍ عَن اَبيہِ محمَّد بن عَلیٍّ عَن اَبيہِ عَلی بن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٣ ۔ التوحيد، شيخ صدوق، ص ١۵٢ ۔ (
الحسينِ عَن ابيہ الحُسينِ بن عَلیٍ عَن اَبيہِ عَلی بن ابی طالبٍ عليہم السلام قالَ قالَ رَسُولُ
اللّٰہ (ص) ما خَلَقَ اللّٰہ خَلقاً افضَلَ منّی ولا اکرَمَ عَليہِ مِنّی ، قالَ عَلی عليہ السلام فقلت : یا
رَسول اللّٰہ فَاَنت افضَل اَم جَبرئيل ؟ فقالَ عليہ السلام : انَّ اللّٰہ تَبارک وتعالیٰ فَضَّلَ انبيائہ
المُرسَلين عَل یٰ ملائِکتہ المُقربينَ وَفَضَّلَنی عَلی جَميع النبيينَ والمرسَلينَ وَالفَضلُْ بَعدی لَکَ یا
عَلی عليہ السلام وللائِمَّةَ مِن بعدی، فانَّ الملائِکة لَخُدّامنا وخدّامُ محبيّنا یا عَلیّ ؛ الذَّین یحملون
العَرشَ وَمَن حولَہُ یسبّحونَ بِحمدِ رَبّهم ویستَغفِرونَ للَّذین آمَنوا بِولایتِنا یا عَلیّ ، لولانحن ما حَلق
اللّٰہ آدَمَ وَلاحوّاء وَلاَ الجنَّةَ وَلا النَّار وَلا السَّمآء وَلاالاٴرضَ وَکَيفَ لانکونُ افَضل مِنَ الملائکة وَقَد
سَبَقناهُم الَی التّوحيدِ وَمَعرِفَةِ رَبِّنا عَزَّوَجَلَّ و تَسبيحِہِ وَ تَقدیسِہِ وَتهليلہ ، لاٴنَّ اوّلَ ما خَلَقَ اللہّٰ
عَزَّوَجَلَّ ارواحُنا فانطقنا بِتوحيدِہِ وَ تمجيدِہِ ثمَّ خَلَقَ الملائِکة فلمّا شاهَدُوا وارواحَنا نُوراًَ واحِداً
استَعظَْمُوا اُمُورنا فَسَبّحنا لِتعلَمَ الملائِکة اٴنّا خَلقٌْ مَخلُوقُونَ وَاَنَّہُ منَزّہ عَن صَفاتِنا فَسَبِّحتِ الملائکة
لتسبيحنا وَنَزَّهَتْہُ عَن صِفاتِنا ، فَلَمّا شاهَدوا عِظَم شاٴننا هَلَّلنا لتعلم الملائکةُ ان لا اِلہ الا اللّٰہ،
فلمّا شاهَدُوا کِبَرَ مَحَلِّنا کبّرنا اللّٰہ لتعلَمَ الملائِکةُ اَنَّ اللّٰہ اکبرَ مِن ان ینال وَاَنہ عظيم المَحَلِّ ، فَلَمّا
شاهَدُوا ما جَعَلَہُ اللّٰہ لنا مِنَ القدرَة والقوةِ قُلنا : لا حولَ ولا قُوةُ الاَّ بِاللّٰہ العَلِیِ العظيم ، لِتعلم
الملائکة ان لا حَولَ وَلا قوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰہِ ، فقالَتُ الملائِکة : لا حولَ وَلا قوَّةَ الاَّ بِاللّٰہِ ، فَلَمّا شاهَدُوا وما
انعَمَ اللہّٰ بِہِ عَلَينا وَاَوجَبَہ ، مِن فَرضِ الطّاعہ فلقنا : الحمد للهِ لتعلم الملائِکة ما یحق اللّٰہ تعالیٰ
ذِکرُہُ عَلَينا مِنَ الحَمدِ عَل یٰ نِعَم ، فقالَتِ الملائکة الحمد للہِّٰ ، فَبِنا اِهتَدَوا اِل یٰ مَعرِفَة اللہّٰ تعال یٰ وَ
تَسبيحِہِ وَتَهليلہ وَتحميدہ ، ثمَّ اِنَّ اللہّٰ تعال یٰ خَلَقَ آدمَ عليہ السلام وَاَ ودَعنا صُلبہ وَاَمَرا الملائِکة
بِالسُّجُودِ لہ تعظيماً لَنا وَاِکراماً وَکانَ سجودُهُم للہّٰ عَزوجَلَ عُبودیةً وَلآدَمَ اکراماً وَطاعَةً ، لِکوننا فی
صُلبہِ ، فَکَيف لا نکُونُ افضَلَ مِنَ الملائِکة وَقَد سَجَدَ لآدمَ کلهُم اجمَعُونَ ،وَانّہ لمّا عَرَج بی الی
السَّمآء اذَّنَ جبرئيل مَثنی مَثنی ثُمَّ قالَ : تَقَدَّم یا محمَّد ، فَقلت : یا جبرئيل اٴتقَدّمُ عَلَيک؟ فقالَ
نَعَم ، لا نَّ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اسمُہُ ، فَضَّلَ اٴنبيآئہ عَلیٰ مَلائِکَتہ اجمعينَ ، وَفضَّلَک خاصّةً
فتقدَّمتُ وَصَلَّيتُ بِهِم ولا فَخر ، فَلَّما انتهينا الیٰ حجب النُّورِ ، قالَ لی جبرئيل : تقدَّم یا محمَّد
وتَخَلّفَ عَنّی ، فَقُلت: یا جَبرئيل فی مثلِ هذا المَوضِع تُفارقُنی ؟ فقال یا محمدّ اِنَّ هذا اِنِتهاء حَدّی
الَّذی وَضَعَہ اللّٰہ لی فی هذا المکانِ ، فانْ تجاوزْتُہُ احترقَتْ اجنحتی لِتعدَّی حُدُودَ رَبّی جَلَّ جَلالُہُ ،
فَزَجَّ بی رَبّی زَجَّةً فی النّور حتّیٰ انتهيت لی حَيثُ ما شآء اللّٰہ عزَوَجَلَّ مِن مَلکوتِہِ ، فنودیت : یا
محمَّد ، فقلت: لبيّکَ رَبی وَسَعَدَیکَ ، تبارکتَ وَتعالَيتَ ، فَنودیتُ: یا محمَّد اَنتَ عَبدی وَاَنَا رَبُّک ،
فَایایَ فاعبُدْ، وَعَلَیَّ فتوکَّل فانَّکَ نُوری فی عِبادی وَرَسُولی الی خَلقی وَحجَّتی فی بَریَّتی ، لِمَن
تبعَکَ خَلَقتُ جَنَّتِی ، ولِمَن عَصاکَ وَخالفَک خَلقتُ ناری ، وَلاٴ وصيآئِکَ اٴوجَبتُ کرامَتی وَلشِيعتِکَ
اٴوجَبتُ ثوابی ، فَقُلْتُ : یا رَبِّ وَمَن اوصيائی ؟ فَنُودیتُ یا محمَّد اِنَّ اوْصِيآئَکَ المکتُوبُونَ عَلی ساقِ
العَرشِ ، فنظرتُ وَاٴنَا بَينَ یَدَی رَبّی الی ساقِ العَرش ، فراٴیتُ اِثنی عَشَرَ نُوراً ، فی کُلِ نورٍ سَطراً
اخضَر مَکتوبٌ عَلَيہ اسم کلّ وَصیٍ مِن اٴوصِيائی اوَّلُهُم عَلِیُّ بنُ ابی طالبٍ و آخِرُهُم مَهدیِ امَّتی ،
فَقُلتُ یا رَبِّ هٰوٴلاءِ اٴوْصِيائی مِن بعدی ؟ فَنودیتُ : یا محمَّدَ هٰوٴلاءِ اوليآئی وَاَحِبّائی وَاَصفيآئی
بَعدَک عَل یٰ بَریَّتی وَهُم اَوصيآئُکَ وَخُلَفآئکَ وَخيرُ خَلقی بَعدَکَ وَعزَّتی وَجَلالی لاُطهِْرَنَّ وَحُجَجی
بِهِم دینی ولاُعلينَّ لَهم کلِمَتی وَلاُطَهِّرَنَّ الارضَ بآخِرِهِمِ مِن اٴعدائی وَلاُمَلِّکنَّہ مَشارِق الارضِ
وَمَ اٰ غرِبَ هٰا ولاَ سخِّرنّ لَہُ الرّیاحَ وَلاُ ذِلَّلَنَّ لَہُ الرِّقابَ الصِّعابَ وَلاُرقينَّہ فی الاَسبابِ وَلاُنصُْرَنَّہ بجندی
حَت یٰ یَعلُوَ دَعوَتی ، وَیَجمَعَ الخَلقُْ عَل یٰ توحيدی ، ثُمّ لاُدیَمَنَّ مُلکَہ وَلاُ اٰ دوِلنَّ وَلاُمِدَّنّہ بملائِکَتی
الامامَ بَينَ اَوليآئی اِل یٰ یَومِ القِ يٰمةِ ، وَالحمد للہّٰ رَبِّ العالمينَ وَالصَّ لاٰة عَل یٰ نَبيِّنا محمَّدٍ وَآلہ الطّيّبينَ
) الطاهِرینَ وَسَلَّمَ تَسليماً”’ ( ١
ہماری بزرگوار ہستی شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے کمال الدین ميں اپنی سند کے ساته
حضرت امام علی رضا - سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد کرام سے انہوں نے رسول اکرم (ص)
سے روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: الله نے کوئی مخلوق مجه سے افضل اور
زیادہ مکرم اپنے نزدیک پيدا نہيں کی اور حضرت علی - کہتے ہيں کہ ميں نے عرض کيا: یا
رسول الله! آپ افضل ہيں یا جبرئيل؟ آنحضرت نے فرمایا: اے علی ! الله تعالیٰ نے اپنے انبياء و
مرسلين کو اپنے ملائکہ مقربين پر فضيلت دی اور مجهے تمام انبياء اور مرسلين پر فضيلت عطا
فرمائی اور یہ فضيلت ميرے بعد تم کو اور تمہارے بعد ائمہ کو عطا فرمائی کيوں کہ ملائکہ تو ہم
لوگوں کے خادم ہيں بلکہ ہمارے دوستوں کے بهی خادم ہيں۔ اے علی ! وہ فرشتے جو کہ عرش
کو اڻهائے ہوئے ہيں اور جو عرش کے گرد و پيش ہيں وہ الله کے نام کی تسبيح پڑهتے ہيں اور
اپنے رب کی حمد کرتے ہيں اور ان لوگوں کے ليے مغفرت کی دعا کرتے ہيں جو ہم لوگوں کی
ولایت و دوستی پر ایمان لاتے ہيں۔
اے علی ! اگر ہم لوگ نہ ہوتے تو الله تعالیٰ نہ آدم کو پيدا کرتا نہ حوا کو نہ جنت کو نہ
جہنم کو نہ آسمان کو نہ زمين کو پهر ہم لوگ ملائکہ سے کس طرح افضل نہيں ہوئے جب کہ ہم
لوگ اپنے رب کی معرفت اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢۵۴ ۔ (
اس کی تسبيح و تہليل و تقدیس ميں ان ملائکہ سے سابق تهے۔ اس ليے کہ سب سے پہلے
الله تعالیٰ نے جس چيز کو پيدا کيا وہ ہماری روحيں تهيں اور ہم لوگوں کو اپنی توحيد و تمجيد
کے ساته گویا کيا اس کے بعد ملائکہ کو پيدا کيا۔ جب ان ملائکہ نے ہماری ارواح کو نوری شکل
ميں دیکها تو ہم لوگوں کو ہی سب سے عظيم تر سمجهنے لگے تو ہم لوگوں نے الله کی
تسبيح شروع کردی تاکہ ملائکہ سمجه ليں کہ ہم لوگ مخلوق ہيں اور الله ہم لوگوں کی صفات
سے کہيں بالا تر ہے۔ پس ہم لوگوں کی تسبيح سن کر ملائکہ بهی تسبيح پڑهنے لگے اور الله
کو ہم لوگوں کی صفات سے بالاتر سمجهنے لگے اور جب ان لوگوں نے مشاہدہ کيا اور ہم لوگوں
کی شان ہی کو عظيم سمجهنے لگے پس ہم لوگوں نے لا الہ الا الله کہنا شروع کيا تاکہ ملائکہ
یہ سمجهيں کہ یہ الله کے سوا کوئی دوسرا الله نہيں۔ ہم لوگ اس کے بندے ہيں۔ ہم لوگ الله
نہيں ہيں ہم پر بهی واجب ہے کہ اس الله کی عبادت کریں یہ سن کر ملائکہ نے بهی لا الہ الا
الله کہنا شروع کيا پهر مشاہدہ کيا تو ہم لوگوں کے محل و مقام کو بہت بڑا سمجهنے لگے ہم
لوگوں نے فوراً کہا: الله اکبر تاکہ ملائکہ یہ سمجهيں کہ الله سب سے بڑا ہے اس کی بارگاہ
سے بلند مقام عطا ہوتا ہے۔ پهر جب ملائکہ نے ہم لوگوں کی عزت و قوت دیکهی جو الله نے ہم
لوگوں کو عطا فرمائی تو ہم لوگوں نے فوراً کہا: لا حول ولا قوة الّا بالله العلی العظيم تاکہ ملائکہ
سمجه ليں کہ ہم لوگوں کے پاس نہيں ہے کوئی قوت اور طاقت مگر صرف الله کی دی ہوئی۔پهر
جو نعمتيں الله نے ہم لوگوں کو دی ہيں اور جو فریضہ اطاعت ہم لوگوں پر واجب کيا ہے جب
فرشتوں کی ان پر نظر پڑی تو ہم لوگوں نے فوراً کہا: الحمد لله تاکہ فرشتے یہ سمجه ليں کہ
الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا ہم لوگوں کے اوپر کس قدر حق ہے۔ یہ سن
کر ملائکہ بهی کہنے لگے: الحمد لله۔ پس اس طرح ہم لوگوں کے ذریعے ملائکہ نے الله کی
توحيد کی معرفت اس کی تسبيح اس کی تہليل اور اس کی تمجيد کی طرف ہدایت پائی۔
پهر الله تعالیٰ نے آدم - کو خلق کيا اور ہم لوگوں کو ان کے صلب ميں ودیعت کردیا اور
صرف ہم لوگوں کی تعظيم و تکریم کے پيش نظر ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو اور
ملائکہ کا یہ سجدہ الله کے ليے عبودیت کا تها نيز حضرت آدم - کی تعظيم و تکریم کے ليے تها۔
اس ليے کہ ہم لوگ ان کے صلب ميں تهے پهر کيسے ہم لوگ ملائکہ سے افضل نہ ہوں گے جب
کہ تمام ملائکہ نے حضرت آدم - کو سجدہ کيا۔
اور جب مجهے آسمانوں کی طرف لے جایا گيا تو جبرئيل نے وہاں اذان کہی ہر فقرے کو
دو دو مرتبہ کرکے اور اقامت کہی ہر فقرے کو دو دو مرتبہ کر کے مجه سے کہا: اے محمد! آگے
بڑهيے ميں نے کہا: اے جبرئيل! ميں تمہارے ہوتے ہوئے آگے بڑهوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اس ليے
کہ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبياء کو اپنے تمام ملائکہ پر فضيلت دی ہے اور آپ کا فضل و
شرف تو خاص ہے۔ چنانچہ ميں آگے بڑها اور ان سب کو نماز پڑهائی مگر ميں اس پر فخر نہيں
کرتا پهر جب ميں نور کے حجابوں تک پہنچا تو جبرئيل نے کہا: اے محمد (ص)! اب آپ آگے
بڑهيں اور انہوں نے ميرا ساته چهوڑا تو ميں نے کہا: اے جبرئيل ! تم نے ایسے مقام پر ميرا
ساته چهوڑ دیا؟ تو انہوں نے کہا: اے محمد (ص)! الله تعالیٰ نے جو حد ميرے ليے مقرر کی
یہاں پر ختم ہوتی ہے اگر ميں نے اس حد سے تجاوز کيا تو حدود الٰہی سے تجاوز کرنے پر ميرے
بال و پر جل جائيں گے۔ پهر انہوں نے مجهے اس نور ميں غوطہ دے دیا اور اب ميں وہاں پہنچ گيا
جہاں الله اپنے ملک کی بلندی پرمجهے پہچانا چاہتا تها۔ پهر مجهے ندا دی گئی تو ميں نے
عرض کيا: لبيک و سعدیک اے خدائے تبارک و تعالیٰ! پهر ندا آئی: اے محمد! تو ميرا بندہ ہے
ميں تيرا رب ہوں لہٰذا تم ميری ہی عبادت کرنا اور مجه ہی پر توکل کرنا اور تم ہی تو ميرے بندوں
ميں ميرے نور اور ميری مخلوقات کی طرف ميرے رسول اور ميری تمام مخلوق پر ميری حجّت ہو۔
تمہارے ليے اور تمہاری پيروی کرنے والوں کے ليے ميں نے جنت خلق کی ہے اور جو تمہاری
مخالفت کرے گا اس کے ليے ميں نے جہنم خلق کی ہے۔ تمہارے اوصياء کے ليے ميں نے اپنے
کرم کو لازم کردیا ہے اور ان کے شيعوں کے ليے ميں نے اپنی طرف سے ثواب دینا واجب کرليا
ہے۔
ميں نے عرض کيا : پروردگارا ! ميرے اوصيا کون ہيں؟ تو آواز آئی: اے محمد ! تمہارے ا
وصيا کے نام تو ستون پر لکهے ہوئے ہيں اور اگرچہ ميں اپنے رب کے سامنے تها مگر ميں نے
وہيں سے نظر کی تو ساق عرش پر بارہ نور ہيں اور ہر نور ایک سبز رنگ کی سطر ميں ہے اور ہر
سطر ميں اوصياء ميں سے ہر وصی کا نام مرقوم ہے جن کے اندر پہلے علی ابن ابی طالب -
تهے اور آخر ميں ميری امت کے مہدی - ہيں۔ ميں نے عرض کيا: پروردگار! ميرے بعد یہ سب
اوصياء ہوں گے؟ تو آواز آئی: اے محمد! ہاں اے محمد! تمہارے بعد یہی ميرے اوليا ميرے احبا
ميرے اصفيا اور ميری حجّتيں ہيں ميری مخلوق پر اور یہی تمہارے بعد تمہارے اوصيا اور تمہارے
خلفا ہيں جو مخلوق ميں تمہارے بعد سب سے بہتر ہيں۔ مجهے اپنے عزت و جلال کی قسم!
ميں ان ہی لوگوں کے ذریعے اپنے دین کو غالب کروں گا۔ ان ہی کے ذریعے اپنے کلمہٴ لا الہ الا
الله کو بلند کروں گا ان کے آخری فرد کے ذریعے زمين کو اپنے دشمنوں سے پاک کروں گا اسے
زمين کے تمام مشرق و مغرب پر تمکن اور قابو دوں گا۔ اس کے ليے ہوا کو مسخر کروں گا بڑے
بڑے بادلوں کو اس کا مطيع بناؤں گا۔ اس کے اسباب ميں اضافہ کروں گا، اپنی فوج سے اس کی
مدد کروں گا۔ اپنے ملائکہ سے اس کی نصرت کروں گا یہاں تک ہماری دعوت بلند ہوجائے اور
ساری مخلوقات ہماری توحيد پر جمع ہوجائے پهر ميں اس کے ملک و سلطنت کو دوام بخشوں
گا اور روز قيامت تک اس سلطنت کو دوام بخشوں گا اور روز قيامت تک اس سلطنت کا سلسلہ
اپنے اولياء ميں چلاؤں گا۔ اور تمام تعریفيں عالمين کے پروردگار کے ليے ہيں اور ہمارے نبی
محمد (ص) اور ان کی پاک و پاکيزہ آل پر درود و سلام ہو۔ آمين۔
٢۔ یاور / ٣٢
٣٢ ۔ وَ عُذرْاً لِمَنَ انتَحَلہُ (نسبت حاصل کرنے والوں کے ليے حجّت ہے(
شاید اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن مجيد ایسا عذر ہے جو روز قيامت کے عذاب سے ان
لوگوں کو نجات دلانے والا ہے کہ جنہوں نے اسے اپنا پيشوا قرار دیا اور اس کے احکام و قوانين
کا پابند ہوا نيز اپنے اقدار کا معيار بنایا۔
یہ بهی کہا گيا ہے کہ اس کے عذر ہونے سے مراد یہ ہو کہ جو شخص بهی خود کو اس
سے منسوب کرے یعنی خود کو اہل قرآن جانے اور اس پر فخر کرے قرآن بهی خود کو اس کے
ليے عذر قرار دیتا ہے اس ليے کہ قرآن کی خدائے بزرگ و برتر کے نزدیک عالی شان و شوکت
ہے۔
جس طرح قرآن مجيد ان لوگوں کے ليے جو خود کو اس سے منسوب جانتے ہيں اور اس
کے احکام و قوانين کو اپنا دستور العمل قرار دیتے ہيں نجات دینے والا اور عذر ہے، اسی طرح
حضرات ائمہٴ اطہار اور خاندان عصمت و طہارت کا مقدس وجود بهی ہے۔
ان لوگوں کے ليے خوش خبری ہے جنہوں نے اپنے صحيح اعتقاد اور کامل ایمان کو ان
کی ولایت عظمیٰ کے ماتحت قرار دیا ہے ان عظيم ہستيوں سے منسوب شيعوں اور محبوں کے
بارے ميں اعتقاد رکهتے ہوں اور عملی طور پر اس پر ناز اور فخر محسوس کرتے ہوں، وہ لوگ جو
ان سے توسل اختيار کرکے ان کی عنایتوں اور مہربانيوں سے اپنی تمام دنيا کی مادی و معنوی
مشکلات سے نجات پاکر عزت و سربلندی تک پہنچے ہوں اور آخرت ميں ان کی شفاعت سے
سرفراز ہوکر رو سفيد ہوں۔
بہت سے انبياء وغيرہ نے مختلف امتحانات اور مشکلات کے پيش نظر جو محمد و آل
محمد سے متوسل ہوئے ہيں نجات حاصل کی ہے۔
ان ميں سے ہم چند مقامات کو بہ عنوان شاہد تبرک کے طور پر ذکر کر رہے ہيں جيسے
حضرت آدم - کا کلمات کے ذریعہ امتحان ليا گيا حضرت ابراہيم - نمرودیوں کی آگ ميں ڈالے
گئے۔ اور اس سے نجات حاصل کی،حضرت یعقوب - اپنے فرزند ارجمند حضرت یوسف - کے
فراق ميں مبتلا ہوئے جب وہ متوسل ہوئے تو جبرئيل آئے اور عرض کيا: کيا ميں آپ کو ایسی دعا
نہ بتاؤں کہ الله تعالیٰ آپ کی آنکهوں کو شفا عنایت کرے اور یوسف و بنيامن کو آپ کی طرف
واپس بهيج دے؟ فرمایا: ہاں، عرض کيا: وہ دعا پڑهيں جو آپ کے پدر بزرگوار حضرت آدم - نے
پڑهی اور ان کی توبہ قبول ہوئی اور حضرت نوح - نے پڑهی تو غرق ہونے سے نجات پائی،
ابراہيم - نے پڑهی تو آگ ان کے ليے سلامتی کے ساته سرد ہوئی حضرت نے دریافت فرمایا:
وہ کون سی دعا ہے ؟ عرض کيا: یہ دعا پڑهو:
”اللّهُمَ اِنّی اسئَلُکَ بِحَقّ محمَّدٍ وَعَلیٍ وَفاطِمَةَ والحَسَنِ والحُسينِ عليہم السلام اَن ترُدَّ
عَلیَّ ابنایَ ( یوسُف وابن یامين ) وَ تَشفِیَ عَينَْی“َّ
اے خدا ! ميں تجه سے محمد، علی، فاطمہ، حسن، حسين کے حق کا واسطہ دے کر
سوال کرتا ہوں کہ مجه تک ميرے دونوں بيڻے (یوسف اور ابن یامين) کو واپس دے اور ميری
آنکهوں کو شفا عنایت فرما۔
حضرت نے یہ دعا پڑهی اور ان اسماءِ مقدسہ کی برکت سے انہيں آسائش ملی نيز ان
کی آنکهوں کو بهی شفا مل گئی حضرت یوسف - نے بهی خدا سے سوال کيا، محمد و آل
محمد کے حق کا واسطہ دے کر توسل اختيار کيا اور زندان سے آزاد ہوگئے۔
حضرت موسیٰ - نے جب عصا کو ڈالا اور امت کے ليے اشتباہ ميں پڑنے سے خوف زدہ
ہوئے تو کہا: اے خدا ! تجه سے محمد و آل محمد کے حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ
مجهے اپنے امن و امان ميں رکه تو خدائے بزرگ و برتر نے فرمایا: < لاٰ تَخَف اِنَّکَ اٴَنتَْ الاٴَعلْ یٰ>
)١)
اور جب عصا کو دریا پر مارا تو الله تعالیٰ کو انہيں کے حق کا واسطہ دے کر پکارا، تو خدا
نے دریا کو پهاڑا اور اسے بنی اسرائيل کو عبور کرنے کے ليے خشک کردیا (یہاں تک کہ فرماتا
ہے:) جب موسیٰ بنی اسرائيل کے ساته دریاپر پہنچے اور فرعون اور اس کے تابعين کے غرق
آب ہونے کا وقت ہوا تو خدائے عزوجل نے موسیٰ کو وحی کی کہ بنی اسرائيل سے کہو ميری
وحدانيت اور ميرے رسول کی رسالت ميرے آقا و مولا حضرت امير المومنين - اور اولاد علی عليہ
السلام کے اعتقاد کا دوبارہ اقرار کریں۔
اور کہيں: اے خدا! ان کی عظمت و جلالت کا واسطہ ہميں پانی پر سے گزار دے تاکہ
دریا کا پانی زمين کی طرح ہوجائے پهر حضرت موسیٰ - نے ان لوگوں سے فرمایا ان لوگوں نے
قبول نہيں کيا۔ ليکن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ طہ، آیت ۶٨ ۔ (
کالب ابن یوحنا نے قبول کرکے ان کے دستور کے مطابق عمل کيا اور اپنے گهوڑے کے ساته دریا
کے اوپر گيا اور آبِ دریا زمين کی طرح ہوگيا، دریا کی دوسری جگہ جاکر واپس آکر کہا: اے قوم
بنی اسرائيل! موسیٰ - کی اطاعت کرو کہ یہ دعا جنت کے دروازوں کی کنجی اور جہنم کے
دروازوں کے بند ہونے کے منجملہ اسباب ميں سے ہے اور روزی نازل کرنے والی نيز الله تعالیٰ
کے بندوں کے ليے حق تعالیٰ کی رضایت حاصل کرنے والی ہے، ليکن ان لوگوں نے قبول نہيں
کيا اور کہا: ہم زمين کے علاوہ جاہی نہيں سکتے تو الله نے موسیٰ - کے ليے وحی نازل کی
کہ اپنے عصا کو دریا پر مارو اور کہو: اے خدا! محمد و آل محمد کی عظمت و جلالت کا واسطہ
ہمارے ليے دریا کو پهاڑ دے تو انہوں نے وحی کے مطابق عمل کيا اور آب دریا پهٹ گيا۔
حضرت موسیٰ - نے فرمایا: اب چلو کہنے لگے: زمين نم ہے ہميں اس ميں اندر چلے
جانے کا خوف ہے تو خدا نے فرمایا: کہو: اے موسیٰ! اے خدا! تجهے محمد و آل محمد کے جاہ
و جلال کا واسطہ کہ زمين کو بهی خشک کردے، پهر یہ کہا! اور وہ خشک ہوگئی فرمایا: اب چلو
عرض کيا: ہم بارہ قبيلے ہيں آگے پيچهے چلنے ميں ہميں فتنہ و فساد کا خطرہ ہے تو الله تعالیٰ
نے موسیٰ کو حکم دیا: اپنے عصا کو بارہ مرتبہ دریا کے بارہ مقامات پر ماریں اور کہيں: اے خدا!
تجهے محمد و آل محمد کی عظمت و جلالت کا واسطہ بارہ جگہ بنادے، کہا اور ویسا ہوگيا۔ پهر
کہا: راستہ ایسا ہو کہ عبور کے وقت ہم ایک دوسرے کو دیکه سکيں اور ایک دوسرے کی حالت
سے باخبر رہيں، تو الله تعالیٰ نے موسیٰ - کو وحی بهيجی کہ عصا کو تمام پانی کے اطراف
ميں مارو اور کہو: اے خدا! محمد و آل محمد کے جاہ و جلال کا واسطہ کہ اس پانی کے درميان
طاق بنادے تاکہ ایک دوسرے کو دیکه سکيں، چنانچہ موسیٰ - نے کہا اور ہوگيا ۔ لوگوں نے
عبور کيا، پهر فرعون والے افراد وارد ہوئے اور سب غرق ہوگئے۔
اور جب صحرائے تيہ ميں بنی اسرائيل پياسے ہوئے گریہ و نالہ کيا تو حضرت موسیٰ نے
عرض کيا: اے خدا! بحق محمد سيد الانبياء، بحق علی سيد الاوصياء، بحق فاطمہ سيدة النساء،
بحق حسن سيد الاولياء، بحق حسين افضل الشہداء بحق عترت اور ان کے خلفاء کا واسطہ جو
دنيا ميں پاکيزہ اور نيک لوگوں کے آقا و مولا ہيں، اپنے بندوں کو سيراب کردیں تو الله تعالیٰ نے
وحی بهيجی اے موسیٰ ! اپنے عصا کو پتهر پر مارو تو مارا اور بارہ چشمے جاری ہوئے لوگوں نے
پانی پيا اور سيراب ہوئے۔
مولف کہتے ہيں: بنی اسرائيل کے ساته حضرت موسیٰ - کا واقعہ تفصيل کے ساته
قرآن مجيد کے سورئہ بقرہ یا اور بهی دوسرے دوسروں ميں اسی طرح کتاب بحار الانوار ،
وسائل الشيعہ اور مستدرک وسائل الشيعہ ميں ذکر ہوا ہے، قارئين کرام مذکورہ مآخذکی طرف
رجوع کریں۔
١٧١ ۔ “وَفی الخصال وَالاٴمالی بِاسنادِهِما عَن جابِرٍ عَن اَبی جَعفَرٍ الباقِرِ عليہ السلام قالَ:
انَّ عَبد اً مَکَثَ فی النَّارِ سبَعين خَریفاً وَالخریف سَبعُونَ سَنَةً ، قالَ ثُمَّ اِنَّہ سَاٴلَ اللہّٰ عزّوجلّ بحَقِّ
محمَّد وَاَهل بَيتہ لمّا رحمتنی ، قالَ فَاٴَوحَی اللّٰہ جَلَّ جَلالُہُ الی جَبرَئيل عليہ السلام اَن اِهبط
اِلیٰ عَبدی فاخرجہُ قال یا رَبِّ وَکيف لی بالهبوط فی النّارِ ، قالَ اِنّی قد اَمَرتُها انْ تکونَ عَلَيکَ بَرداً
وَسَلاماً ، قالَ یا رَبِّ فَما عِلمی بموضِعِہِ ؟ قالَ اِنَّہ فی جُبٍّ مِن سجّينَ قالَ فَهَبِطَ فی النّار فَوَجَدَہُ
فهُو مَعقُولٌ عَل یٰ وَجهِہِ فَاَخرَجہ ، فقال عزّوجلّ : یا عَبدی کمْ لَبِثتَ تُناشِدُنی فی النّارِ ؟ قالَ ما
اُحصی ( احصيتُہُ ) یا رَبِّ ، قالَ: اَما وَعِزَّتی لولا ما سَاٴلتنَی بِہِ اَطَلتُ هُو انَکَ فی النّار وَلٰکنَّہ حتمٌ
عَلی نَفسی اٴنْ لا یَساٴلَنی عَبدٌ بِحَقِّ محمَّدٍ وَاَهل بَيتہ ، صَلَوات اللّٰہ عليہم اجمعَينَ ، اِلاَّ غَفَرتُ
) لَہُ ما کانَ بَينی وَبَينَہ وَقَد غَفَرتُ لَکَ اليومَ ” ( ١
محدث جليل القدر غواص بحار اہل بيت عصمت و طہارت علامہ مجلسی رحمة الله عليہ
نے ہمارے شيخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخصال ، ص ۵٨۴ ، امالی صدوق، ص ٧٧٠ ۔ معانی الاخبار، ص ٢٧٧ ۔ روضة الواعظين، ص (
٢٧١ ۔ بحار الانوار، ج ٩١ ، ص ١، ج ٨، ص ٢٨٢ ۔
بزرگوار علامہ صدوق عليہ الرحمہ کی کتاب خصال اور امالی سے اپنی سند کے ساته جابر
سے انہوں نے امام محمد باقر - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: بے شک
(بندگان خدا ميں سے) ایک بندہ ستر خریف جہنم ميں رکها جائے گا اور ایک خریف (کی مدت)
ستّر سال کی ہے پهر وہ خداوند عالم سے محمد و آل محمد کے واسطے سے سوال کرے گا
کہ اپنی رحمت اس کے شامل حال کرے، تو خدائے بزرگ و برتر جبرئيل کو وحی فرمائے گا کہ
ميرے بندے کے پاس جاؤ اور اسے آگ سے باہر نکال دو تو جبرئيل کہيں گے کہ اے ميرے
پروردگار! ميں کيسے آگ ميں جاؤں، خطاب ہوگا اس نے آگ کو حکم دیا ہے کہ تمہارے ليے سرد
اور سلامتی کا باعث بن جائے پهر جبرئيل عرض کریں گے: اے خدا! مجهے اس کی جگہ کا علم
نہيں ہے تو الله تعالیٰ فرمائے گا: وہ سجّين کے ایک کنویں ميں ہے امام محمد باقر - فرماتے
ہيں: پهر جبرئيل امين اس حالت ميں آئيں گے کہ اپنے دونوں پر سميڻے ہوں گے اور اس بندہ کو
اس سے باہر نکاليں گے ، پهر خدائے بزرگ و برتر فرمائے گا: ميرا بندہ کتنے دن آتش دوزخ ميں
جلتا رہا ؟ ميری پناہ حاصل کرنا چاہ رہا ہے اور مجهے قسم دے رہا ہے ؟ وہ عرض کرے گا: اے
ميرے پروردگار ميں نے شمار نہيں کيا ہے تو الله فرمائے گا: ميری عزت کی قسم! اگر تونے ان
(ہستيوں کے ذریعہ سوال نہ کيا ہوتا تو ميں آتش جہنم ميں تيرے قيام کو اور طولانی کردیتا ليکن
ميں نے اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ کوئی بندہ محمد و اہل بيت محمد کے واسطے سے
سوال نہيں کرے گا مگر یہ کہ ميں وہ تمام گناہ جو ميرے اور اس کے درميان حائل و مانع ہيں
بخش دوں گا۔ اور یقينا (ان ہستيوں کی برکت سے) آج ميں نے تجهے بخش دیا۔
پيغمبر اکرم (ص) کے اجداد ميں سے ایک عبد المطلب تهے کہ جن کا نام شبية الحمد
تها ان کے چچا مطلب شيبہ کو مکہ معظمہ ميں لے کر آئے اور یہ اظہار نہيں کيا کہ یہ شيبہ
ميرے بهائی کے لڑکے ہيں اور کہا: یہ ميرا بندہ ہے لہٰذا عبد المطلب کے نام سے مشہور ہوئے،
جب حرم ميں داخل ہوئے تو شيبہ یا عبد المطلب کی دونوں آنکهوں کے درميان ایک نور ظاہر تها
قریش اس سے متبرک ہوتے تهے جس زمانہ ميں بهی ان پر مصيبت آتی تهی یا کوئی بلا نازل
ہوتی تهی یا کوئی قحط ان پر آ پڑتا تها تو پيغمبر اکرم (ص) کے مقدس نور سے توسل اختيار
کرتے تهے اور خداوند متعال ان سے اس بلا و مصيبت کو برطرف کردیتا تها۔
ان کے ليے سب سے اہم واقعہ جو رونما ہوا وہ اصحاب فيل کا واقعہ تها کہ عبد المطلب
ایک جماعت کے ساته دعا کرتے تهے اور کہتے تهے: اے خدا! اس نور کی برکت سے ہميں
معاف کردے ہميں اس ہمّ و غم سے نجات بخش دے اور ہمارے دشمن کو دور کردے، لہٰذا اس
مقدس نور کی برکت سے تمام اصحاب فيل ہلاک ہوئے ابا بيليں ان کے سروں پر کنکریاں مار
رہی تهيں جو ان کے سر کے مغز سے داخل ہوتی تهيں اور ان کے نيچے سے نکل جاتی تهيں
یہ واقعہ بحار ميں مفصل طور پر بيان ہوا ہے قرآن مجيد ميں ایک خاص سورہ (فيل) اس موضوع
کے بارے ميں نازل ہوا ہے۔
کفار مکہ نے پيغمبر اکرم (ص) سے عرض کياکہ: ہبل نامی بت ہميں شفا دیتا ہے اور
ہمارے امراض، درد و آلام اور ہماری بدبختياں ہم سے برطرف کرتا ہے، پيغمبر اسلام نے فرمایا: تم
جهوٹ کہتے ہو خدا شفا دیتا ہے، عرض کيا: اگر اس پروردگار کے علاوہ کوئی دوسرا پروردگار
تمہارے پاس موجود ہو تو اس سے سوال کرو کہ مجهے اس درد و آلام ميں مبتلا کرے بعد ميں
ہم ہبل سے سوال کریں گے وہ ہميں شفا دے۔
لہٰذا جبرئيل نازل ہوئے،عرض کيا: تم ميں سے کچه لوگ ان پر لعنت وملامت کریں اور
علی - دوسرے لوگوں پر، پهر خدا (ص) نے ان ميں سے بيس افراد پر لعنت و ملامت کی اور
حضرت امير المومنين - نے ان کے دس لوگوں پر لعنت و ملامت کی اپنے مقام سے ابهی حرکت
نہيں کی تهی یہاں تک کہ برص و فالج، جذام ، لقوہ اور نابينائی ميں مبتلا ہوئے پهر ان لوگوں
کوہبل کے پاس لائے اور دعا کی کہ ہبل ان لوگوں کو شفا دے، نا گہاں ہبل نے انہيں بلند آواز
سے ندا دی اے دشمنان خدا! ميرے ليے کون سی طاقت ہوسکتی ہے، اس خدا کی قسم! کہ
جس نے محمد کو حق کے ساته بهيجا اور انہيں افضل الانبياء و المرسلين قرار دیا، اگر پيغمبر
اکرم (ص) مجه پر نفرین و ملامت کریں تو یقينی طور پر ميرے اجزائے بدن پراکندہ اور جدا
ہوجائيں گے اور ميرے وجود کا کوئی اثر باقی نہيں رہے گا، جب یہ سنا تو پيغمبر (ص) کی طرف
رخ کرکے نالہ و فریاد بلند کی تو پيغمبر رحمت (ص) نے فرمایا: ان ميں سے بيس افراد ميرے
پاس آئيں اور ان ميں سے دس لوگوں کو حضرت علی - کے پاس لے جاؤ، ان لوگوں کو رسول
خدا (ص) کے پاس لے کر آئے تو آنحضرت نے ان بيس افراد سے فرمایا کہ: اپنی آنکهوں کو ایک
دوسرے پر رکه کر کہو: اے خدا ! اس کی عظمت و جلالت کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے
ہميں اس ميں مبتلا کيا ہميں صحت و عافيت عطا فرما؛ بحق محمد و علی و آل علی ، اس طرح
حضرت امير المومنين - نے ان دس لوگوں سے فرمایا تو (سب نے کہا) اور فوراً شفا یاب ہوئے اور
وہ تيس لوگ اپنے اہل خانہ کے ساته ایمان لائے۔ بحار الانوار ميں عمار ابن یاسر کا یہود کے
ساته مکالمے اور ان کے احتجاج کو آیہٴ کریمہ <وَدَّ کَثِيرٌ مِن اٴَہلِْ الکِْتَابِ لَو یَرُدُّونَکُم مِن بَعدِْ
إِیمَانِکُم کُفَّارًا حَسَدًا مِن عِندِْ اٴَنفُسِہِم>ْ ( ١) (بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہيں کہ تمہيں بهی
ایمان کے بعد کافر بنادیں وہ تم سے حسد رکهتے ہيں)۔
کے ذیل ميں مفصل طور پر نقل کيا گيا ہے اس ميں سے بعض ہم خلاصةً نقل کر رہے
ہيں:
جب مسلمان لوگ جنگ احد ميں بہت زیادہ مصيبتوں ميں مبتلا ہوئے تو چند دن بعد قوم
یہود کے کچه لوگ عمار ابن یاسر اور حذیفہ ابن یمان کے پاس آئے اور کہا: کيا تم لوگوں نے
نہيں دیکها کہ احد کے دن کيسی مصيبت تم پر آئی ان کے دین سے پلٹ جاؤ، حذیفہ نے یہ
سنتے ہی ان پر لعنت کی اور کہا: اب نہ ہم تمہارے ساته بيڻهيں گے اور نہ ہی تمہاری باتيں
سنيں گے،ہم اپنے دین اور جان کی حفاظت کے ليے تم سے فرار کریں گے۔ ليکن عمار ابن
یاسر نے تمام استقامت کے ساته ان کے ساته مکالمہ کيا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٩١ ، ص ١۶ ۔ (
اور کہا: “یا معَاشِر اليَهُودِ اِنَّ محمّداً (ص) وَعَدَ اصحابَہُ الظَّفر یَومَ بَدرٍ ان یَصبِرُوا فَصَبَرُوا وَظَفَروا
وَوَعَدَهُم الظَفَرَ یَومَ احدٍ ایضاً اِن صَبَروا فَفَشَلُوا وَخالفَوا فِل لٰ ذِکَ اصابَهُم ما اَصابَهُم وَلَو اَنَّهُم اطاعُوا
فَصَبَرُوا وَلَم یخالِفو غلبو
اے گروہ یہود! یقينا محمد نے اپنے اصحاب کو بدر کے دن فتح و ظفر کا وعدہ کيا تها کہ
اگر وہ صبر کریں گے تو کامياب ہوں گے چنانچہ انہوں نے صبر کيا تو فلاح و نجات پاگئے اور انہيں
احد کے دن بهی فتح و ظفر کا وعدہ کيا تها کہ اگر وہ صبر کریں گے تو کامياب ہوں گے مگر انہوں
نے صبر نہيں کيا تو شکست کها گئے اور ان کی بات تسليم نہيں کی لہٰذا ان پر وہ مصيبتيں
آئيں جو آچکی ہيں اگر وہ ان کی اطاعت کرتے اور صبر کرتے اور مخالفت نہ کرتے تو غالب اور
کامياب ہوتے، یہاں تک نقل کرتے ہيں کہ یہود رسول خدا کے پاس آئے اور عرض کيا: اے محمد!
عمار کا دعویٰ ہے کہ اگر انہيں حکم دیں کہ وہ آسمان کو زمين پر لے آئيں اور زمين کو آسمان پر
لے جائيں تو وہ ایسا کر دکهائيں گے سچ ہے تو ان سے کہيں کہ اس پتهر کو جو یہاں پڑا ہوا ہے
جسے دو سو افراد بهی حرکت نہيں دے سکتے عمار اسے ہلا دیں۔
حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے عمار! ميری اطاعت کا اعتقاد رکهو اور کہو: “ اللهُّٰمَّ
بِجاہِ محمَّدٍ وَآلہِ الطَّيبينَ قوّنی ليُسهِّلَ اللہّٰ عَلَيکَ ما اَمَرَکَ بہ کَما سَهّلَ عَلی کالِبِ بن یُوحَنّا عُبُورَ
البَحر عَل یٰ متنِ المآء” یعنی اے خدا! محمد و آل محمد (ص) کی عظمت و جلالت کا واسطہ
مجهے طاقت عطا کر کہ اس پتهر کا اڻهانا الله ميرے ليے آسان کردے جس طرح کالب بن یوحنا
کے ليے دریا کے پانی سے عبور کرنا آسان کيا تها ہمارے اس توسل کے ذریعہ اس نے پتهر کو
اپنے سر پر بلند کرکے عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! ميرے ماں باپ آپ پر قربان! یہ ميرے ليے
اس خلال سے زیادہ ہلکا ہے جو ميں اپنے ہاته ميں اڻهائے رہوں۔ الخ
بہت سے مقامات پر خود حضرت ولی عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے مقدس
نفس سے توسل اختيار کيا ان کو بارگاہ خداوندی ميں شفيع قرار دیا اور اپنی تمام حاجتوں کو
حضرت کے ذریعہ حاصل کيا، انشاء الله مناسب موقع پر اس کے متعلق چند مقام کی طرف ہم
اشارہ کریں گے۔
|
|