|
٢۔ نور / ٢۶
٢۶ ۔ وَنُوراً لَيسَ مَعَہُ ظُلمَةٌ (ایسا نور ہے کہ اس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہيں ہے(
اس کی حفاظت کی طرف اشارہ ہے کہ کسی بهی صورت ميں باطل اس ميں نہيں
جاسکتا اور اس سے آلودہ نہيں ہوسکتا پانچویں منقبت ميں ان بزرگوار کے قول کی وضاحت ميں
فرمایا: “و شعاعاً لا یظلم نورہ” وہ ایسی شعاع ہے کہ اس کی ضوء تاریک نہيں ہو سکتی۔
تفصيل کے ساته ذکر کيا ہے۔
١۵۶ ۔ “ وفی الکافی بِاِسنادِہِ عَن اَبی جَميلة قالَ قالَ اَبُو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام کانَ فی
وَصيَّةِ اَمير المُوٴمنينَ عليہ السلام اَصحابَہُ اَنَّ هذا القرآنَ هُدیٍ النّهارِ وَنُورُ اللَّيل المُظلم عَلیٰ ماکانَ
) مِن جُهدٍ وَفاقَةٍ ” ( ١
کافی ميں ابو جميلہ سے کلينی نے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: امام جعفر
صادق - نے فرمایا: حضرت امير المومنين - نے اپنے اصحاب کو وصيت کی تهی کہ آگاہ ہو کہ
قرآن دن اور رات ميں ہدایت کرنے والا ہے اور ضلالت کی تاریکی ميں روشنی دینے والا چراغ ہے
جس قدر تلاش اور ضرورت ہو۔
١۵٧ ۔ “وفيہ عَن طلحَة بِن زَیدٍ عَن ابی عَبد اللّٰہ عليہ السلام اِنَّ هذ القُرآنَ فيہ منَار الهُدیٰ
وَمَصابيحُ الدُّجی فَليُجلِْ جالٍ بَصَرَہُ وَفَتح لِلضِّياءِ نَظَرَہ ، فَاِنَّ لتَّکَفرُ حَياةُ قَلبِ البَصيرِ کَما یَمشی
) المُستَنيرٌ فی الظّلُماتِ بِالنّورُ ” ( ٢
مزید اسی کتاب ميں طلحہ ابن زید نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ
حضرت - نے فرمایا: اس قرآن ميں ہدایت و سعادت کے روشن منارے ہيں تاریکی اور اسے ختم
کرنے کے ليے چراغ ہيں۔
)بہت بجا اور مناسب ہے) جو افراد اس جادہ مستقيم اور پُر نور راہ ميں کہ جس ميں
ہدایت و سعادت کی علامات پائی جاتی ہيں انہيں بصيرت اور چشم دل کو کهول کر تمام غورو
فکر کے ساته اس راستہ کو طے کریں، جس طرح تاریک شب ميں چلنے والے روشنی سے
استفادہ کرکے خود کو ظلمت کے حوادث اور نشيب و فراز سے محفوظ رکهتے ہيں عميق غور
وفکر سے قرآن مجيد کی رہنمائيوں سے صاحب بصيرت افراد کے دلوں کو تازہ روح ملتی ہے اور
اس کے گراں قدر مطالب سے استفادہ کرتے ہيں۔
امام - کا مقدس نور بهی مومنين کے دلوں ميں چمکتا ہے اور انہيں روشن کرتا ہے لہٰذا
اس عظيم ہستيوں کی عظمت و منزلت کی کماحقہ معرفت رکهنی چاہيے اور ہر حال ميں ان
کے سامنے سر تسليم خم کرنا چاہيے۔
١۵٨ ۔ “ وفی کمال الدّین للصدوق عَن جابِرِ الاٴنصاری فی حَدیثٍ نَصَّ رَسُولُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢١۶ ، ص ۶٠٠ ۔ بحار الانوار، ج ۶۵ ، ص ٢١٢ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ۔ وسائل الشيعہ، ج ۴، ص ٨٢٨ ۔ (
اللّٰہ (ص) عَلَی الائمة الاثنی عشَرَ ، الیٰ اَن قالَ (ص) ثُمَ سميّی وَکنيّی حُجَّة اللّٰہ فی ارضِہِ
وَبقيِتہ فی عِبادِہِ ، ابن الحَسَن بن عَلی ، ذَاکَ الذَی یَفتَح اللہّٰ تعال یٰ ذِکرہُ عَل یٰ یَدیہِْ مَشارِقَ
الاٴرض وَمَغارِبها ، ذاکَ الذَی یَغيب عَن شيعتہ وَاَوليائِہِ غَيبةً لا یَثبُتُ فيہا عَلَی القَولِ بِامامَتِہِ الاَّ مَنِ
امتَحَن اللہّٰ قَلبَہُ للایمان ،قال جَابِرُ: فَقُلتُ یا رَسُول اللّٰہِ فَهَل یَقع لشيعتہ الاٴتنفاعُ بہ فی غَيبتہ
؟فَقالَ عليہ السلام ای والّذی بَعَثَنی بالنّبوة اِنّهم یَستَضيئونَ بنورِہِ وَینتفعونَ بِولایتہِ فی غَيبتِہِ
کانتفاعِ الناسِ بالشمسِ وَاِن تجلَّلهَا سحابٌ ، یا جابر هذا مِن مَکنُون سرّ اللّٰہِ ، وَمَخزونِ عِلمِ اللّٰہِ
) فاکتمہ الاَّعَن اہلِہِ ” ( ١
اسی کتاب ميں مناقب خوارزمی سے جابر ابن عبد الله انصاری سے نقل کرتے
ہيں کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے مجه سے فرمایا: اے جابر ! یقينا ميرے اوصياء جو
ميرے بعد ائمہٴ مسلمين ہيں ان ميں سے پہلا علی پهر حسن پهر علی ابن الحسين پهر محمد
ابن علی جو باقر کے نام سے مشہور ہيں اے جابر! عنقریب تم ان کو پاؤ گے جب تم ان سے
ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد پهر موسی ابن جعفرپهر علی ابن
موسی، پهر محمد ابن علی پهر علی ابن محمد پهر حسن ابن علی پهر قائم (آل محمد) ہوں
گے کہ جو ميرا ہم نام ہوگا اس کی کنيت ميری کنيت پر ہوگی وہ محمد ابن حسن ابن علی ہوں
گے ، یہ وہ ہيں کہ جن کے دست مبارک سے خداوند تبارک و تعالیٰ زمين کے تمام مشرق و
مغرب کو فتح کرے گا ، یہ وہ ہيں کہ جو اپنے اولياء سے ایک عرصہ تک ایسا غائب ہوں گے کہ ان
کی امامت پر صرف وہی لوگ ثابت قدم رہيں گے کہ جن کے دل کا الله تعالیٰ نے امتحان لے ليا
ہوگا۔
جابر کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا : یا رسول الله! کيا آپ کی غيبت کے زمانہ ميں لوگ
فائدہ اڻهائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ١۵٣ ، کفایة الاثر، ص ۵۵ ، بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٩٣ ۔ (
گے؟ فرمایا: ہاں قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے مجهے نبوت کے ساته مبعوث کيا! وہ لوگ
آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اس طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح
سورج کو بادل پنہان کرليتا ہے مگر لوگ پهر بهی سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل کرتے
ہيں، یہ بات تمام لوگوں کے ليے اسرار الٰہی ميں سے ہے اور الله کے علم ميں مخزون ہے اس
کو اس کے غير اہل سے مخفی رکهو۔
٢۔ ریسمان الٰہی / ٢٧
٢٧ ۔ وَحَبلاً وَثيقاً عُروَتُہُ (وہ ریسمان ہے کہ جس کے حلقے محکم ہيں(
قرآن مجيد ایسی رسی ہے کہ اس کا دستہ بہت محکم اور ڻوڻنے والا نہيں ہے جس نے
بهی اسے مضبوطی سے پکڑ ليا نجات پائے گا اور اس کی کاميابی محقق ہے ، کبهی بهی وہ
وادی ضلالت و گمراہی ميں نہيں جاسکتا یہاں تک کہ حوض کوثر پر پيغمبر اکرم (ص) کے پاس
وارد ہوگا، جيسا کہ حدیث ثقلين اس معنی کے ليے گویا اور صریح ہے الله تعالیٰ نے فرمایا: <
فَمَن یَکفُْر بِالطَّاغُوتِ وَیُؤمِْن بِاللهِ فَقَد استَْمسَْکَ بِالعُْروَْةِ الوُْثقَْی لاَانفِصَامَ لَہَا > ( ١) اب جو شخص
بهی طاغوت کا انکار کرکے الله پر ایمان لے آئے وہ اس کی مضبوط رسی سے متمسک ہوگيا
ہے جس کے ڻوڻنے کا امکان نہيں ہے۔
مولف کہتے ہيں: حبل، ریسمان کے معنی ميں ہے اور ہر اس شے کے ليے استعمال
ہوتی ہے جس کے ذریعہ ہدف تک پہنچا جائے اور کتاب خدا اور عترت پيغمبر (ص) کو اس سے
اس وجہ سے تشبيہ دی ہے کہ ان دونوں محکم و مضبوط رسيوں سے تمسک اختيار کرنے
والوں کو رضائے الٰہی اور قرب پروردگار تک پہنچاتی ہے نيز اس (خدائے سبحان) کی محبت اور
ثواب پر فائز کرتی ہے۔
١۵٩ ۔ شيخ بزرگوار طبرسی عليہ الرحمہ نے حبل کے معنی کے ليے چند اقوال نقل کيے
ہيں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ ، آیت ٢۵۶ ۔ (
ان ميں سے ایک یہ ہے کہ حبل قرآن مجيد ہے۔ دوسرے یہ کہ دین اور اسلام ہے۔
تيسرے معنی کے ليے ابان ابن تغلب کی امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ
حضرت - نے فرمایا:
نَحن حبلُ اللّٰہِ الذَی قالَ اللّٰہ تعالیٰ:<وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا > ( ١) الآیہ ۔ یعنی ہم
حبل الله ہيں جس کے ليے الله تعالیٰ نے فرمایا: اور تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے
) پکڑے رہو۔ بہتر ہے کہ تمام معانی پر حمل کيا جائے۔ ( ٢
پيغمبر اکرم (ص) جو تمام صفات جميلہ و جليلہ اور سارے علوم کے حامل ہيں فرمایا:
ميں معراج سے واپس نہيں ہوا مگر یہ کہ الله تعالیٰ نے مجهے تمام چيزوں کا علم عطا کيا اور
جو کچه ميرے پاس تها اسے علی ابن ابی طالب - کو تعليم دیا۔ اس کے بعد امام حسن و امام
حسين عليہما السلام کو پهر یکے بعد دیگرے یہاں تک کہ اس امت کے مہدی حضرت حجة ابن
الحسن العسکری عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کو یہ سب کے سب انبياء علوم کے وارث ہيں۔
اس بنا پر جيسا کہ حضرت امير المومنين - حبل الله ہيں تمام ائمہٴ اطہار عليہم السلام اور امام
زمانہ - کا مقدس وجود حبل المتين ميں سے ہے۔
١۶٠ ۔ “وفی کمال الدّین وتمام النعمة باسنادہ عَنْ یَونِسِ بن عَبد الرَّحمن : دَخَلتُ عَل یٰ
موسیٰ بن جَعفرَ عليہما السلام فَقلت لَہ یا بنَ رَسولِ اللّٰہ (ص) انتَ القائِم بِالحَقَّ ؟ فَقالَ عليہ
السلام اَنا القائم بِالحَق وَلکِنَّ القائِم الذَی یُطهّر الاَرض مِن اَعداء اللّٰہ عَزَّوجَلَّ وَیملاٴها عَدلاً کما
ملِئت جوراً وَظلماً هوَ الخامِس مِن وُلدی ، لَہَ غَيبةٌ یَطُولُ اٴمَدُها خَوفاً عَلیٰ نَفسِہِ یَرتَدَّ فيها اقوامٌ
وَیَثبُتُ فيها آخرُونَ ثُمَّ قالَ عليہ السلام : طوبی لشيعتِنا المُتمسکين بحبلنا فی غيبِةِ قائمِنا
الثَّابِتينَ عَل یٰ موالا تِنا وَالبَرائة مِن اعدائِنا، اولئِک مِنّا وَنَحنُ مِنهُم ، فَقَد رضوا بِنا ائمّةً وَرَضينا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ آل عمران، آیت ١۵٩ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ٣۶ ، ص ١٩ ۔ (
) بِهِم شِيعةً ، فطوبی لَهُم ثُمَّ طُوبی لَهم ، هُم واللّٰہِ مَعَنا فی دَرَجاتِنا یَومَ القٰيمةَ ” ( ١
عالم جليل القدر شيخ صدوق (عليہ الرحمہ) نے اپنی کتاب کمال الدین ميں اپنی سند
کے ساته یونس ابن عبد الرحمن سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں امام موسی ابن
جعفر - کی خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: فرزند رسول (ص)! کيا آپ قائم بالحق ہيں؟ تو
امام نے فرمایا: ميں قائم بالحق ہوں ليکن وہ قائم جو زمين کو دشمنان خدا سے پاک کریں گے
اس کو عدل و انصاف سے اس طرح بهردیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوگی وہ
ميرے پانچویں فرزند ہوں گے اور ان کی غيبت بہت طولانی ہوگی اپنے (مقدس) نفس پر خوف (و
ہراس) کی بنا پر (اور اس طولانی غيبت ميں بہت سے لوگ اپنے دین سے پهر جائيں گے مرتد
ہوجائيں گے اور بہت سے دوسرے لوگ ہدایت پر باقی رہيں گے پهر فرمایا :
ہمارے ان شيعوں کے ليے خوش خبری ہے جو ہمارے قائم کی غيبت کے زمانہ ميں بهی
ہماری دوستی و محبت سے متمسک رہيں گے اور ہماری دوستی پر ثابت قدم رہيں گے نيز
ہمارے دشمنوں سے بيزاری کا اظہار کرتے رہيں گے وہی لوگ ہمارے ہيں اور ہم ان کے ہيں۔ یقينا
وہ لوگ اس بات پر راضی و خوش ہوں گے کہ ہم ان کے امام ہيں اور ہم اس پر خوش ہيں کہ وہ
ہمارے شيعہ ہيں۔ انہيں خوش خبری ہو کہ وہ لوگ خدا کی قسم! قيامت کے دن ہمارے ساته
ہمارے درجے ميں ہوں گے۔
١۶١ ۔ “ وفی امالی الشيخ طوسی رضوان اللّٰہ تعالیٰ باسنادہ عن ابان بن عثمان عن ابی
عبد اللّٰہ جعفر بن محمد عليہما السلام قالَ: اِذا کانَ یَوم القِيٰمةِ نادیٰ منادٍ مِن بطنانِ العَرش اینَ
خَليفة اللّٰہ فی اَرضِہِ؟ فيقوم داوُدُ النَّبی عليہ السلام فَيَاٴتی النّدآءُ مِن عِندِ اللّٰہِ عزوجَل لسنا اِیّاکَ
ارَدنا وان کُنتَ للّٰہِ خَلَيفة ، ثمّ ینادی ثانيةً اینَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٣۶١ ۔ (
خَليفة اللّٰہِ فی اَرضِہِ ؟ فَيَقوم اَمير الموٴمنينَ عليہ السلام فَيَاٴتی النّدآء مِن قِبل اللّٰہ عَزوجَل : یا
مَعاشر الخلائق هذا عَلیّ بن ابی طالبٍ خَلفية اللّٰہ فی ارضِہِ وَحجتہ عَلیٰ عبادِہِ فَمن تَعَلّقَ بحبلہِ
فی دارِ الدُّنيا فَيتعَلَّق بحبلہ فی هذا اليوم لِيَستضی بِنورِہِ وَليتَّبِعْہُ الی الدرَجات العُلیٰ مِن الجنانِ
قالَ فَيقوم اناسٌ قد تعلقوا بحبلِہِ فی الدنيا فيتّبعونہ الی الجنة ، ثُمَّ یاٴتی النّداء مِن عِند اللّٰہ
عَزَّوجَلَّ الا مَن ائتمّ بامامٍ فی دارِ الدُنيا فَليتّبعہ الیٰ حدیث یَذهبُ بِہِ ، فحينئذٍ یَتَبَرَّء<الَّذِینَ اتُّبِعُوا
مِن الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَاٴَواْ العَْذَابَ وَتَقَطَّعَت بِہِم الاْٴَسبَْابُ # وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَو اٴَنَّ لَنَا کَرَّةً فَنَتَبَرَّاٴَ مِنہُْم ) کَمَا تَبَرَّئُوا مِنَّا کَذَلِکَ یُرِیہِم اللهُ اٴَعمَْالَہُم حَسَرَاتٍ عَلَيہِْم وَمَا ہُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ >” ( ١
محقق بزرگوار عالم جليل القدر شيخ طوسی رحمة الله عليہ اپنی کتاب امالی ميں اپنی
سند کے ساته ابان ابن عثمان سے انہوں نے صادق آل محمد سے روایت نقل کی ہے کہ
حضرت نے فرمایا: جب قيامت کا دن ہوگا تو ایک آواز دینے والا عرش کے درميان آواز دے گا:
روئے زمين پر الله تعالیٰ کا خليفہ کہاں ہے؟ تو حضرت داؤد کهڑے ہوں گے، الله تعالیٰ کی
طرف سے آواز آئے گی اگرچہ آپ زمين ميں خليفہ ہيں ليکن ميری مراد آپ نہيں تهے پهر دوبارہ
الله تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی کہ روئے زمين ميں الله تعالیٰ کا خليفہ کہاں ہے؟ پهر
حضرت امير المومنين علی کهڑے ہوں گے، خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے آواز آئے گی: اے
گروہ خلائق! (جو عرصات محشر ميں جمع ہو) یہ علی ابن ابی طالب - روئے زمين پر الله کا
خليفہ اور اس کے بندوں پر حجّت ہے جس شخص نے بهی دنيا ميں اس کی حبل اور دامن سے
تمسک اختيار کيا تها آج بهی اس کی حبل سے تمسک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۶٧ ۔ ، ١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١۶۶ (
اختيار کرے ان کے دامن سے وابستہ رہے تاکہ ان کے ذریعہ روشنی حاصل کرے اور ان کی
قيادت ميں بہشت کے درجات عاليہ ميں جائے، فرمایا: پهر کچه لوگ بلند ہوں گے کہ جنہوں نے
دنيا ميں ان کے مقدس دامن سے تمسک اختيار کيا تها تو وہ حضرت - کے پيچهے بہشت ميں
داخل ہوں گے۔ پهر خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے آواز آئے گی، جان لو آگاہ ہوجاؤ جس
شخص نے اپنے امام کی دنيا ميں اقتدا اور اتباع کيا ہوگا اس مقام پر بهی وہ جہاں جائيں گے ان
کے پيچهے ان کے ساته چلا جائے ، اس وقت حضرت - نے اس آیہٴ کریمہ کی تلاوت کی: اس
قت جب کہ پير اپنے مریدوں سے بيزاری کا اظہار کریں گے اور سب کے سامنے عذاب ہوگا اور
تمام وسائل منقطع ہوچکے ہوں گے اور مرید بهی یہ کہيں گے کہ اے کاش! ہم نے ان سے اس
طرح بيزاری اختيار کی ہوتی جس طرح یہ آج ہم سے نفرت کر رہے ہيں خدا ان کے اعمال کو
اسی طرح حسرت بنا کر پيش کرے گا اور ان ميں سے کوئی جہنم سے نکلنے والا نہيں ہے۔
١۶٢ ۔ “وفی المناقب شيخ الاهل قطب المحدثين محمّد بن شہر آشوب عن النبی (ص)
انّہ ساٴل اعرابیٌ عَن قولِہِ تعالیٰ : <وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللہِّٰ >( ١) فَاَخَذَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) یَدَہُ فَوَضَعَها
عَلیٰ کِتف عَلیٍ عليہ السلام فَقالَ یا اعرابی هذا حبل اللّٰہ فاعتَصِم بِہِ فَدٰارَ الاعرابی مِن خَلفِ
عَلیٍ عليہ السلام وَالتَزَمہ ، ثمَ قالَ انّی اشهِدک انّی اِعتصمْت بحبْلکَ فَقالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) مَن
) اراد ان ینظر الیٰ رَجلٍ مِن اهل الجنةِ فلينظر الیٰ هذا ” ( ٢
سفينہ ميں مناقب محمد ابن شہر آشوب سے پيغمبر اکرم (ص) سے نقل کيا ہے کہ
ایک اعرابی نے آنحضرت (ص) سے الله تعالیٰ سے اس قول <و اعتصموا بحبل اللّٰہ> یعنی الله
کی رسی کو مضبوطی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٠٣ ۔ (
٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ٣، ص ٩٣ ۔ (
سے تهامے رہو) کے بارے ميں دریافت کيا کہ یہ حبل کيا ہے کہ جس سے الله تعالیٰ متمسک
رہنے کا حکم دیتا ہے؟ تو رسول خدا (ص) نے اعرابی کا ہاته پکڑا اور حضرت علی - کے شانہٴ
مبارک کے اوپر رکه کر فرمایا: اے اعرابی یہ حبل الله ہے، اس سے متمسک رہو (اس کا دامن
تهامے رہو) اعرابی نے حضرت علی - کے پسِ پشت چکر لگایا (آگے کی طرف آیا اور انہيں اپنی
بانہوں ميں لے کر ) کہا: ميں گواہی دیتا ہوں کہ ميں نے یقينی طور پر آپ سے تمسک اختيار
کيا، پهر رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو شخص بهی اس بات کا خواہش مند ہے کہ اہل بہشت
کے کسی مرد کو دیکهے تو اسے اس اعرابی مرد کو دیکهنا چاہيے۔
١۶٣ ۔ اسی جيسی روایت مفصل طورپر بحار الانوار ميں نقل ہوئی ہے اور اس کے آخر
ميں ذکر ہوا ہے “ انَّ الرجُلَ خَرَجَ فَيلحقُها الثانی وسَاٴلہ انّ یَستَغفِر لَہُ فَقال لَہُ هَل فَهمتَ ماقالَ
لی رُسُول اللّٰہ (ص) وَما قُلتَ لَہُ قالَ نَعَم فَقالَ لَہُ اٴنِ کنتَ متمسکاً بِذلِکَ الحبل فَغَفَر اللہّٰ لَکَ وَالا
) فلا غفر اللّٰہ لک ۔” ( ١
البتہ اس طرح کی روایت کو تفصيل کے ساته کنز الفوائد ميں کراجکی عليہ الرحمہ نے
نقل کيا ہے اور اس کے آخر ميں ذکر ہوا ہے کہ وہ شخص رسول خدا (ص) کے پاس سے باہر آیا
تو عمر ابن خطاب نے اس سے ملاقات کی اور اس اعرابی سے درخواست کی کہ اس کے حق
ميں طلب مغفرت کرے، اعرابی نے ان سے کہا: کيا تم جانتے اور سمجهتے ہو کہ مجه سے
رسول خدا (ص) نے کيا فرمایا اور ميں نے ان سے کيا عرض کيا؟ کہا: ہاں ميں سمجهتا ہوں ، تو
اعرابی نے خليفہٴ دوم سے کہا: آپ بهی اس حبل یعنی علی - سے متمسک ہوجائيں گے تو
الله تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے گا ورنہ (اگر مخالفت کی اور ان سے تمسک اختيار نہ کيا تو)
الله آپ کی مغفرت نہيں کرے گا۔
ہم الله تعالیٰ کو خود اپنے آقا امير المومنين - کے مقام ولایت و عظمت کی قسم دیتے
ہيں کہ اس حقير کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣۶ ، ص ١۶ ۔ تفسير کنز الدقائق، ج ٢، ص ١٨۶ ۔ تاویل الآیات، ج ١، ص ١١٨ ۔ (
اور تمام شيعوں اور مومنين کو ان دونوں حبل قرآن عترت جو آنحضرت کے اہل بيت ہيں بالخصوص
حضرت بقية الله عجل الله فرجہ الشریف کے مقدس وجود سے متمسک رہنے والوں ميں قرار
دے۔ بحمد وآلہ الطاہرین ۔
٢۔ پناہ گاہ / ٢٨
٢٨ ۔ “ومَعقَلاً منيعاً ذِروَتُہُ” (اور وہ پناہ گاہ ہے کہ جس کی بلندی محفوظ ہے(
قرآن کریم ملجا و مآوی اور ایسی پناہ گاہ ہے جو بہت بلند، اور ایسا قلعہ اور حصار ہے
جو فوق العادت مضبوط و مستحکم ہے کہ اس کی بلندی اور استحکام اس بات سے مانع ہے کہ
اس کے پناہ لينے والے کے پاس کوئی ناپسند شے یا عذاب و ناراضگی پہنچے۔
١۶۴ ۔ “وفی تَفسير العيَّاشی عَن جَعفر بن محمَّدٍ عَن ابيہ عَن آبائِہِ عَليہم السلام قالَ قالَ
رَسُولُ اللّٰہ (ص) ایّها النّاسُ اِنَّکُم فی زمان هدنَةٍ وَانتُم عَلیٰ ظَهر السَّفَر والسَّير بِکُم سَریعُ فَقَد
رَاٴَیتم اللّيلَ والنّهار وَالشَّمسَ وَالقَمَر یُبليان کُلَّ جدیدٍ وَیقرّبان کلَّ بَعيدٍ وَیاٴتيانِ بِکلّ موعودٍ، فَاَعِدّوا
الجهَازَ لِبُعد المفازِ ، فَقامَ المِقداد فَقالَ: یا رَسولَ اللّٰہ (ص) مادار الهدنةِ ؟ قالَ دار بَلیً وانقطاعٍ ،
فَاِذا التَبَسَت عَلَيکم الفِتَن کَقِطَع اللَّيلِ المُظلم فَعَلَيکُم بِالقرآن فَانَّہ شافعٌ مُشَفَّعٌ وَماحِلٌ مُصَدَّقٌ
مَن جَعَلَہ اٴمامَہُ قادہ اِلی الجنَّةِ وَمَن جَعَلَہ خَلفَہ ساقہ اِلَی النّارِ ، ال یٰ قولہ لا تحص یٰ عَجائِبُہُ وَلا
) تُبل یٰ غرائِبہ ، فيہِ مَصابيح الهُدی ومنار الحِکمَةِ وَدَليلٌ عَلَی المَعروفِ لِمَن عَرَفَہ” ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٢۔ بحار الانوار، ج ٨٩ ، ص ١٧ ۔ (
عياشی نے اپنی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے آبائے طاہرین سے
روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: تم ہدنہ کے گهر ميں ہو تم سفر ميں ہو (ایسی
سواری جو بہت تيز رفتار ہے) اور نہایت تيزی سے سفر کر رہے ہو یقينا تم نے دیکها کہ رات اور
دن (طلوع و غروب) سورج اور چاند ہر نئی چيز کو کُہن بنا رہے ہيں اور ہر بعيد کو قریب کرتے جا
رہے ہيں اور وعدہ کيے ہوئے کو لا رہے ہيں لہٰذا راستہ دور ہے اور اپنی کوششوں سے کوچ کو
آمادہ رکهو تاکہ مفاز جو فلاح و نجات کی جگہ ہے پہنچ جاؤ۔ اس وقت مقداد نے کهڑے ہوکر عرض
کيا: یا رسول الله! وہ کيا ہے؟ فرمایا: وہ امتحان (و آزمائش) کا گهر ہے اور اسی طرح کی لذتوں
سے قطع کرنے کا مقام ہے لہٰذا جب بهی فتنے تمہارے اوپر مشتبہ ہوجائيں اور تاریک رات کی
طرح چها جائيں تو تم قرآن کی طرف رجوع کرو اس سے متمسک رہو کيونکہ وہ شفاعت کرنے
والا بهی ہے اور شفاعت کو قبول کرنے والا بهی اور جو خدا کی طرف سے آیا ہے اس کی
تصدیق کرنے والا جس نے اُسے آگے رکها وہ جنت کی طرف لے گيا اور جس نے اسے پيچهے
ڈالا اور اس کا احترام ملحوظ خاطر نہيں رکها تو وہ اسے دوزخ کی طرف کهينچ لے گيا (روایت
مفصل ہے) یہاں تک کہ فرمایا: قرآن مجيد کے عجائب و غرائب شمار ميں نہيں آتے اس کی حد
شمار سے باہر اور اس کے غرائب ہميشہ جدید اور تازہ ہيں ، بوسيدہ و کہنہ نہيں ہوتے وہ ہدایت
کے چراغ ہيں اور حکمت کے منارے ہيں اور جس نے اس کی حقيقت اور با ارزش مطالب کو
پہچان ليا وہ اس کے ليے تمام نيکيوں کے ليے دليل و راہ گشا ہوگيا۔
مولف کہتے ہيں: ائمہٴ اطہار کا مقدس وجود ہر زمان و مکان ميں ان کی امامت کے
زمانے ميں ان کی موت و حيات کے دوران وہ تمام لوگوں کے مرجع و ملجا و ماوی اور پناہ گاہ
تهے اور ہيں بهی، بالخصوص مہدی آل محمد حضرت بقية الله الاعظم ولی مطلق رب العزت
صاحب العصر و الزمان - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود جو ہر بے پناہ اور
مستضعف لوگوں کے ليے ملجا و مآوی ہے نيز وہ دنيائے واقعی مستضعفين کا انتقام لينے والے
ہيں۔
١۶۵ ۔ “وفی الامالی للشيخ الطوسی رضوان اللّٰہ تعالیٰ عليہ ) بالاٴسناد الیٰ احمد بن
المعافا بقَصر صَبيح ، قالَ حدثَنا عَلیّ بن مُوسیٰ الرِضا عليہ السلام عن ابيہِ مُوسیٰ عن اَبيہِ جَعفر
بن محمَّد عن اَبيہ محمَّد بن علی عَن اَبيہ عَلیّ بن الحسين عن اَبيہ الحُسين بن علیِّ ابن ابی
طالبٍ عليہ السلام ، عن النّبی (ص) عن جبرائيلَ عَن ميکلائيل عَن اسرافيل - صلوات اللّٰہ عليہم
) - عَن القَلَم عَنِ اللوح عَنِ اللہّٰ تعال یٰ : عَلیٌ عليہ السلام حِصنی من دَخلَہ اَمِنَ ناری ” ( ١
محدث اور فقيہ عالی قدر شيخ جليل علامہ طوسی نے اپنی سند کے ساته احمد ابن
معافا سے قصر صبيح سے کہا کہ مجه سے حضرت علی ابن موسی الرضا - نے اپنے پدر
بزرگوار موسی کاظم - سے انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے پدر
گرامی محمد باقر - سے انہوں نے اپنے پدر بزرگوار علی ابن الحسين - سے انہوں نے اپنے
والد گرامی حسين ابن علی ابن ابی طالب سے انہوں نے نبی اکرم سے انہوں نے جبرئيل
سے انہوں نے ميکائل سے انہوں نے اسرافيل سے انہوں نے قلم سے انہوں نے لوح سے اس
نے الله تعالیٰ سے یہ حدیث بيان کی ہے:“ علی ميرا قلعہ ہے جو اس ميں داخل ہوگيا وہ ميری
آتش جہنم سے امان ميں ہے“
مولف کہتے ہيں: بارہویں حجّت خدا آسمان ولایت کے درخشاں ستارے کی ولایت اور
محبت و دوستی اور تمام اہل بيت عصمت و طہارت کی ولایت ایسا گوہر ہے جو بہت زیادہ گراں
قيمت ہے کہ اگر تمام دنيا کے ماہرین جمع ہوجائيں تو اس کی قيمت اور معيار کا اندازہ نہيں لگا
سکتے نہ ہی اسے معين کرسکتے ہيں۔
اس عالی قدر گوہر کے حامل افراد نے خدانخواستہ اگر نا آگاہی یا بے اہميتی کی وجہ
سے یا مادّی اقدار
سے موازنہ کرنے کی بنا پر اپنے ہاتهوں سے اسے کهودیں یا سہل انگاری کریں تو بہت زیادہ اور
ناقابل تلافی نقصان تحمل کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی شيخ طوسی، ص ٣۵٣ ۔ (
٢۔ شرافت / ٢٩
٢٩ ۔ وَعِزّاً لِمَن تَوَلاّہُ (چاہنے والوں کے ليے عزت اور قيمتی ہے(
قرآن اپنے چاہنے والوں کے ليے عزت و شرف ہے اور ان لوگوں کے ليے بهی جو اسے اپنا
ولی و رہبر اور پيشوا قرار دیں نيز اپنے دنيوی اور اخروی زمام امور کو اس کے اختيار ميں دے دیں
اس کے اوامر و نواہی پر عمل کریں تمام اقدار اور معياروں کو اسی پر تطبيق دیں تو ان کی دنيا و
آخرت کی عزت و شرف کا حامل ہوگا۔
مولف کہتے ہيں: حضرت ولی عصر - ناموس دہر امام زمانہ - اور ان کے آباء و اجداد
طاہرین کی دوستی اور ولایت و محبت ایسا شرف اور عزت ہے جو تمام شرافتوں سے بالاتر اور
دنيا وآخرت ميں سربلندی کا باعث ہے نيز اس کے نطفہ کی قداست اور طاہر الولادت ہونے کی
علامت ہے۔
١۶۶ ۔ “ و فی بشارَةِ المُصطفیٰ لِشيعة المُرتضیٰ باِسنادِہِ عَن المفَضَّل بن عُمر قالَ قالَ
) اَبو عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام : مَن وَجَدَ بَردَ حبّنا عَلی قلبِہِ فليکثِر الدُعآء لاٴمِّہِ فَانّها لَم تَخُن اَباہُ ” ( ١
مولف بشارة المصطفیٰ لشيعة المرتضی نے اپنی سند کے ساته مفضل ابن عمر سے
نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: جو شخص ہماری محبت کی لذت اور خنکی کا
اپنے دل ميں احساس کرے (ہماری دوستی و مودت اس کے دل ميں جاگزیں ہوجائے) تو اسے
اپنی مہربان ماں کو بہت دعائيں دینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بشارة المصطفیٰ، ص ١١ ۔ (
چاہيے اس ليے کہ اس نے اس کے باپ کے ساته خيانت نہيں کی ۔ یعنی اس کا نطفہ قداست
و پاکيزگی کے ساته رحم مادر ميں مستقر ہوا اور اسی طرح اس نے دنيا ميں آنکهيں کهوليں۔
١۶٧ ۔ “وَفيہ باِسنادِہِ عَن اَبی سَلمةَ عَن اَبی ہُریرةٍ قالَ اِنَّ رَسُول اللہّٰ (ص) جآء ہ رَجُلٌ
فقالَ یا رَسولَ اللّٰہ (ص) اَما رَاٴَیتَ فلاناً رَکِبَ البَحر ببِضاعةٍ یَسيرةٍ الیَ الصين فَاَسرَعَ الکرَّةَ واعظمَ
الغنيةَ حَت یٰ حَسَدَہ اهلُ وُدِّہِ وَاَوسَعُ قَراباتِہِ وَجيرانِہِ ، فَقالَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) انَّ مالَ الدُّنيا کلّما
ازدادَ کثرةً وَعظَمَةً اِزدادَ صاحَبہُ بَلاءً تَغبطوا اصحابَ الاموال الاَّ بِمن جآءَ بمالِہِ فی سَبيل اللہّٰ وَ کٰلن
الا اُخبِرکُم بِمَن هُو اقلّ مِن صاحِبک بِضاعَةً واسرَعُ مِنہ کرَّةً ؟ قالوا بَلی یا رَسولَ اللّٰہ (ص) فَقالَ
رَسُولُ اللّٰہ (ص) انظُروا اِلیٰ هذَا المُقبِلِ فَنَظَرنا فَاذِاً رَجُلٌ مِن الاٴنصار رثّ الهيئةِ فَقال رَسُولُ اللّٰہ
(ص) اِنَّ هذا الرجلُ لَقَد صَعَدَ لَہ فی هذااليَوم اِلَی العُلُوّ مَن الخيراتِ وَالطّاعَةِ ما لو قُسمَ عَلی
جَميع اهل السَّمواتِ وَالارض لَکانَ نصيب اقلّهِم مِنہ غُفران ذُنُوبہِ وَوُجُوب الجنَةَ لَہُ ، قالوا: بِما ذایا
رَسُولَ اللّٰہ (ص) فَقالَ سَلُوہُ یخبرکُم بِما صَنَعَ فی هذا اليوم ، فاقْبَل اليہِ رَسُول اللّٰہ (ص) وَقالوا
لَہُ هنيئاً لَکَ ما بَشَّرَکَ بِہِ رَسُولُ اللہّٰ (ص) فماذا صنعتَ فی یَومِکَ هذا حتّی کُتِبَ لَکَ ماکتِبَ ؟
فقالَ الرجُلُ ما اعْلَمُ انّی صَنَعت شَيئاً غَير انّی خَرجتُ مِن بيتی وَاَردتُ حاجَة کُنتُ ابطاٴتُ عَنها
فَخَشيتُ اٴن یکونَ فاتتنی ، فقُلتُ فی نَفسی لاٴعتاض مِنها بِالنظَرِ الیٰ وَجہ عَلیِّ بن ابی طالِبٍ
عليہ السلام فَقَد سَمِعت رَسُول اللّٰہ (ص) یَقُولُ النظر اِلی وَجہِ عَلیِ بن ابی طالِبٍ عِبادَة، فقال
رَسُول اللّٰہ (ص) ای و اللّٰہ عِبادةٌ وَایُّ عِبادَةٍ، انَّکَ یا عبد اللّٰہِ ذَهَبتَ تبتَغی اٴن تکسِب دیناراً
لِقوتِ عيالِکَ فقاتَکَ ذلِکَ فاعتَضتَْ مِنہُ بِالنَّظَر اِل یٰ وَجہ عَلیّ ابن ابی طالبٍ عليہ السلام وَانتَ
محِبٌّ لَہ وَلِفضلِہِ معتَقِدٌ وَ لٰذکَ خَيرٌ لَکَ مِن ان لو کانَتِ الدّنيا کلّها ذَهَبَةً فَانفَقتْها فی سَبيل اللہِّٰ
وَلتشفعنَّ بَعِدَدِ کُلِّ نَفَسٍ تنفَّستہَ فی مَسيرِکَ اليہِ فی الف رَقَبةٍ یعتِقهُمُ اللہّٰ مِنَ النَّارِ بش اٰ فعتِکَ”
)١)
نيز اسی کتاب ميں رسول خدا (ص) سے روایت کی گئی ہے کہ ایک شخص رسول خدا
(ص) کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا اور کہا: اے رسول خدا (ص) ! کيا آپ نے فلاں شخص کو
نہيں دیکها کہ جس نے دریا کا سفر طے کيا اورمختصر سرمایہ کے ساته چين گيا اور بہت جلد
بڑے کافی منافع کے ساته واپس آیا، اس طرح کہ اس کے دوستوں نے حسد کرنا شروع کيا یہاں
تک کہ اس کے رشتے دار اور پڑوسی لوگوں ميں بهی یہ حسد پهيل گيا، حضرت رسول اکرم
(ص) نے فرمایا: مالِ دنيا جس قدر بهی زیادہ اور بہت عظيم المرتبت ہو اس کا مالک زیادہ
آزمائشوں ميں مبتلا ہوگا لہٰذا صاحبانِ اموال پر غبطہ نہيں کرنا چاہيے اور ان کی طرح اموال کی
تمنا نہيں کرنی چاہيے ہاں ایسے شخص پر غبطہ کرنا چاہيے جو اپنے مال کو راہِ خدا ميں خرچ
کرے ليکن کيا تم یہ چاہتے ہو کہ تمہيں ایسے شخص کے بارے ميں خبر دوں جو تمہارے
دوستوں ميں سے ہے اس نے کم سرمائے اور مختصر پونجی کے ساته اپنا سفر کيا اور بہت
جلد واپس آگيا اور اس سے زیادہ منافع لے کر واپس ہوا ہے؟ کہا: ہاں یا رسول الله (ص)! تو
رسول اکرم (ص) نے فرمایا: اس شخص کی طرف نظر کرو جو ہماری طرف آ رہا ہے لہٰذا ہم
لوگوں نے اس کی طرف نظر کی تو وہ انصار ميں سے ایک شخص کہنہ لباس اور اپنی معمولی
ہيئت کے ساته ہے۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا: اس شخص نے اس دن خيرات اور اطاعت کی وجہ سے
ایسا اعلیٰ مقام حاصل کيا ہے اور اس حد تک پہنچا ہوا ہے کہ اگر تمام اہل آسمان و زمين کے
لےے تقسيم کر دیا جائے تو ان سب کا کم سے کم حصہ ان کے گناہوں کی بخشش اور ان کے
ليے بہشت واجب ہونا ہے کہا: یا رسول الله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بشارة المصطفیٰ، ص ۶٨ ۔ (
کس عمل کے ذریعے؟ فرمایا: خود اسی سے دریافت کرو کہ اس نے آج کون سا عمل انجام دیا
ہے؟ پس اصحاب رسول خدا (ص) اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا:تمہارے ليے وہ خوش
خبری گوارا ہو جو تمہيں رسول خدا (ص) نے دی ہے تم نے آج کون سا عمل انجام دیا ہے کہ
جو تمہارے اعمال ميں لکهاجانا چاہيے تها وہ تحریر کيا جا چکا ہے؟
اس شخص نے کہا: مجهے اس عمل انجام دینے کے علاوہ کسی اور کام کرنے کی
اطلاع نہيں ہے، آج گهر سے باہر آیا ایک حاجت اور ضرورت کے پوری کرنے ميں تهوڑی تاخير
کردی، جب ميں نے اس کے فوت ہونے کا خوف محسوس کيا تو اپنے دل ميں کہا: (اگر وہ
ضرورت پوری نہ ہوتی تو) اس کے عوض ميں (مبارک) چہرہٴ علی ابن ابی طالب - کا نظارہ کروں
گا، کيونکہ رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے ميں نے سنا ہے: علی ابن ابی طالب - کے
چہرے کی طرف نگاہ کرنا عبادت ہے، رسول خدا (ص) نے فرمایا:ہاں خدا کی قسم! عبادت ہے
اور وہ بهی کيسی عبادت؟ یقينا اے بندہٴ خدا! تم دینار حاصل کرنے کے ليے گئے تاکہ اپنے اہل
و عيال کا رزق فراہم کرو اور وہ فرصت تم سے فوت ہوگئی اسے نہ حاصل کرسکے، ليکن اس
کے عوض ميں تم نے علی ابن ابی طالب - کے چہرے کی طرف نظارہ کرنا اختيار کيا حالانکہ تم
ان کے عاشق اور محب تهے، ان کے فضل و مقام کے معتقد تهے (یعنی ان سے محبت و
دوستی رکهتے تهے اور ان کے فضل و مقام کے معتقد تهے) وہ تمہارے ليے اس چيز سے بہتر
ہے کہ اگر تمام دنيا (وما فيها) سرخ سونا ہو اور ان سب کو راہِ خدا ميں خرچ کرو، اس کے علاوہ
تم یقينا اپنی ان تمام سانسوں کے برابر جو اس راہ ميں لی ہے اس کی تعداد کے برابر شفاعت
کرو گے الله تمہاری شفاعت کے ذریعے ہزار غلام کو آتش جہنم سے آزاد کرے گا۔
٢۔ سلامتی / ٣٠
٣٠ ۔ وَسِلماً لِمَن دَخَلَہُ (اس ميں داخل ہونے والوں کے ليے سلامتی ہے(
شارح بحرانی کہتے ہيں: سلم امن کے معنی ميں ہے اور اس ميں داخل ہونا یعنی اس
کے مقاصد ميں تدبر اور غور وفکر کرنا ہے اور اس کے اندر کی کرن سے اقتباس کرنا نيز اس کے
انوار کا خاموش نہ ہونا اس اعتبار سے عذاب خدا اور ان شبہات ميں پڑنے سے پناہ گاہ ہے جو
ہلاکت کا زمينہ فراہم کرتے ہيں۔
اور یہ بهی کہا گيا ہے کہ لفظ سلم استعارہ اور کنایہ ہے اس اعتبار سے کہ جو بهی اس
ميں داخل ہوجائے اسے کسی بهی صورت ميں آزار و اذیت نہيں پہنچ سکتی۔
جس طرح قرآن مجيد اپنی پناہ حاصل کرنے والوں کے ليے ملجا و مآوی اور شبہات سے
محفوظ رکهنے والا ہے اسی طرح ائمہٴ اطہار کی ولایت و محبت حضرت علی بن ابی طالب -
اور ان کی اولاد طاہرین کہ جن کی آخری فرد حضرت بقية الله (روحی لهم الفداء) ہيں جو اپنے
پاس وارد ہونے والوں کے ليے بہت مضبوط و مستحکم اطمينان اور پناہ گاہ ہيں۔
١۶٨ ۔ “وفی فضائل الشيعة بِاِسنادِہِ عَن جابر عَن ابی جعفَرٍ محمَّد بنَ عَلیِّ بن الحُسين
عَن عَلیّ بن الحسين عَن اَبيہ قالَ قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) حُبّی وَحبُّ اَهل بَيتی نافعٌ فی سَبعِ
مواضِعَ اٴهو الهنّ عَظميةٌ: عِندَ الوفاةِ وَفی القبرِ وَ عِندَ النُّشُورِ وَعندَ الکِتابِ وَ عند الحِسابِ وَعند
) الميزانِ وعند الصِّراط ” ( ١
کتاب فضائل الشيعہ ميں شيخ صدوق نے اپنی سند کے ساته امام محمد باقر -
سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد طاہرین سے انہوں نے حضرت رسول خدا (ص) سے نقل کيا
ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ميری اور ميرے اہل بيت کی دوستی و محبت سات مقامات ميں کہ
جہاں ان کی دہشت و حشت
بہت زیادہ عظيم ہے فائدہ بخش ہے۔
١۔ احتضار اور موت کی حالت ميں، ٢۔ قبر ميں، ٣۔ حشر و نشر کے وقت کہ جب قبروں
سے محشر کی طرف آئيں گے، ۴،۵ ۔ حساب و کتاب کے وقت اور جب نامہٴ اعمال اڑ کر لوگوں
تک پہنچيں گے، ۶۔ ميزان اور اعمال کے وزن کے موقع پر، ٧۔ صراط سے عبور کرتے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فضائل الشيعہ، ص ۵۔ روضة الواعظين، ص ٢٧١ ۔ (
|
|