قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٢۔ سرحدِ ہدایت / ٢١
٢١ ۔ وَآکام لا یجوُزُ عَنهاَ القاصِدُونَ یہ وہ ڻيلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہيں
جاسکتے ہيں، اس ليے کہ وہ تہ بہ تہ سبزاور خرم و شاداب معارف کا گلستان اور علوم کا دریا ہے کہ اس پر چلنے والے اسے ترک نہيں کریں گے۔
شارح بحرانی کہتے ہيں: لفظ اعلام و آکام ان ادلہ اور علامات سے استعارہ ہے جو قرآن مجيد ميں ہے ایسا راستہ ہے جو اس کی اور اس ميں موجودہ احکام کی معرفت پر ختم ہوتا ہے اس اعتبار سے کہ اپنے تمسک رکهنے والوں کی ان کی طرف ہدایت کرتا ہے جيسا کہ نصب شدہ علامتيں اور پہاڑ وغيرہ راستوں اور شاہراہوں کی رہنمائی کرتے ہيں۔
الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: < إِنَّ فِی خَلقِْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَاختِْلاَفِ اللَّيلِْ وَالنَّہَارِ وَالفُْلکِْ الَّتِی تَجرِْی فِی البَْحرِْ بِمَا یَنفَعُ النَّاسَ وَمَا اٴَنزَلَ اللهُ مِن السَّمَاءِ مِن مَاءٍ فَاٴَحيَْا بِہِ الاْٴَرضَْ بَعدَْ مَوتِْہَا وَبَثَّ فِيہَا مِن کُلِّ دَابَّةٍ وَتَصرِْیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ المُْسَخَّرِ بَينَْ السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ لَآیَاتٍ لِقَومٍْ ) یَعقِْلُونَ> ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١۶ ۔ (
بے شک زمين و آسمان کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد ان کشتيوںميں جو دریاؤں ميں لوگوں کے فائدہ کے لئے چلتی ہيں اور اس پانی ميں جسے خدا نے آسمان سے نازل کرکے اس کے ذریعہ مردہ زمينوں کو زندہ کردیا ہے اور اس ميں طرح طرح کے چوپائے پهيلا دیئے ہيں اور ہواؤں کے چلانے ميں اور آسمان و زمين کے درميان مسخر کيے جانے والے بادل ميں صاحبان عقل کے ليے الله کی واقعی نشانياں پائی جاتی ہيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَمِن آیَاتِہِ اٴَن خَلَقَکُم مِن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا اٴَنتُْم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ # وَمِن آیَاتِہِ اٴَن خَلَقَ لَکُم مِن اٴَنفُسِکُم اٴَزوَْاجًا لِتَسکُْنُوا إِلَيہَْا وَجَعَلَ بَينَْکُم مَوَدَّةً وَرَحمَْةً إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَومٍْ یَتَفَکَّرُونَ # وَمِن آیَاتِہِ خَلقُْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَاختِْلاَفُ اٴَلسِْنَتِکُم وَاٴَلوَْانِکُم إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ ) لِلعَْالِمِينَ > ( ١
اور اس کی نشانيوں ميں سے یہ بهی ہے کہ اس نے تمہارا جوڑا تمہيں ميں سے پيدا کيا ہے تاکہ تمہيں اس سے سکون حاصل ہو اور پهر تمہارے درميان محبت اور رحمت قرار دی اور اس کی نشانيوں o ہے کہ اس ميں صاحبان فکر کے ليے بہت سی نشانياں پائی جاتی ہيں ميں سے آسمان و زمين کی خلقت اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بهی ہے کہ اس ميں صاحبان علم کے ليے بہت سی نشانياں پائی جاتی ہيں۔
اور ٢٣ سے ٢۵ نمبر تک کی اس سورہ کی دوسری آیتيں بهی تمام لوگوں کو تمام عالمين کے پروردگار کی معرفت کی طرف متوجہ کرتی ہيں۔ مولف کہتے ہيں: ائمہٴ ہدی بالخصوص حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ہدایت کی علامات اور نشانياں ہيں کہ ان پر چلنے والے ظلم و تجاوز نہيں کرسکتے اور نہ ہی نيست و نابود ہوسکتے ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ روم، آیت ٢٠ ۔ ٢٢ ۔ (
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَ عَلاماتٍ وَ بِالنَّجِم هُم یَهتَْدُونَ> اور علامات معين کردیں اور لوگ ستاروں سے بهی راستے دریافت کرليتے ہيں۔ اس آیت کی تفسير ميں امام جعفر صادق - نے فرمایا: “النجم (ص) و العلامات هم الائمة عليهم السلام ” ( ١) نجم رسول خدا (ص) اور ہم علاماتِ الٰہيہ ہيں۔

٢۔ گوارا پانی / ٢٢
٢٢ ۔ “جَعَلَہُ اللہُّٰ تَعال یٰ رَیّاً لِعَطَشِ العُلَماء ” (پروردگار نے اسے علماء کی سيرابی کا ذریعہ قرار دیا ہے) خداوند متعال نے قرآن کریم کو علماء کی پياس کی حرارت کو کم کرنے اور سيراب کرنے والا قرار دیا شباہت کی وجہ علماء کے نفوس کا حقائق و معارف الٰہيہ کا شدید اشتياق ہے جو قرآن ہے۔ جيسا کہ صاف و شفاف سرد پانی پياسوں کی پياس کو برطرف کرتا ہے یہ عزیز ترین کتاب الٰہی بهی انہيں اپنے بے انتہا حقائق و معارف سے سيراب کرتی ہے۔ جس طرح قرآن مجيد طالبان علم و بصيرت اور حقائق و معارف الٰہيہ کے آتش عشق کو خاموش کرتا اور تسکين بخشتا ہے اس طرح ائمہٴ ہدی کا مقدس وجود بهی ہے موت و حيات کی صورت ميں وہ نور ہدایت اور علم، ادب و ہنر کے عاشقين اور متلاشيوں کے ليے آرام و سکون کا باعث ہے چونکہ وہ حضرات معادن وحی اور علم الٰہی کے خزانہ دار ہيں نيز آب حيات کا منبع و سرچشمہ ہيں، جو لوگ ان کی خدمت ميں شرف یابی کی سعادت حاصل کرچکے ہيں انہوں نے ان کے مکتب توحيد، عقائد اور مختلف النوع علوم و فنون سے استفادہ اور روشنی حاصل کی ہے نہ دس نہ نو بلکہ ہزاروں بزرگوں اور احادیث
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٢٠۶ ۔ امالی طوسی، ص ١۶٣ ۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ٩١ ۔ (
کے حاملين جيسے برید ابن معاویہ زرارہ جيسے افراد، محمد ابن مسلم جيسے لوگ، ابو بصير جيسی ہستياں اور جابر جعفی (رضوان الله تعالیٰ عليہم) وغيرہ جيسے لوگ جو سب کے سب امام محمد باقر اور امام صادق عليہما السلام کے اصحاب ميں سے تهے وہ ثقہ، فقيہ، سر شناس اور اثر و رسوخ رکهنے والے اصحاب تهے اور ان عظيم ہستيوں کے نزدیک اعلیٰ و بالا عظمت و منزلت کے حامل تهے۔
١٣٢ ۔ “عَن جَميل بن درّاج قالَ سَمعت اَبا عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام یَقُولَ بَشّر المخبتينَ بالجنة بُرید بن معٰویَةَ العجلی وَابُو بَصير لَيث بن البختری المُرادی وَمحمَّد بن مُسلمٍ وزُرارةَ اربعةً ) نجبآء اُم اٰنءُ اللہِّٰ عَل یٰ حلالِہِ وَحَرامِہِ لَو لاٰ هوٴلآء انقَطَعَ آثارُ النُبُوّةِ وَاندرَسَت ” ( ١
جميل ابن درّاج کا بيان ہے : ميں نے امام جعفر صادق - کو فرماتے ہوئے سنا کہ:مخبتين (خشوع کرنے والوں) کو (الله کی) جنت کی خوش خبری دو برید ابن معاویہ عجلی، ابو بصير، محمد ابن مسلم اور زرارہ یہ چاروں منتخب لوگوں ميں سے الله تعالیٰ کے حلال و حرام کے امانت دار ہيں، اگر یہ نہ ہوتے تو آثار نبوت منقطع اور کہنہ ہو کر ختم ہوگئے ہوتے۔ ائمہٴ اطہار انبياء کے علوم کے وارث واليان امر الٰہی اور علم خداوندی کے خزانہ دار نيز وحی الٰہی کے خزانہ ہيں ان ميں سے پہلے علی ابن ابی طالب - اور ان ميں سے آخری قائم آل محمد بقيہ الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ صلوات الله و سلامہ عليہم اجمعين ہيں۔ ١٣٣ ۔ “فی الکافی بِاسنادِہِ : عَن عَبدِ الرّح مٰن بن کَثير قالَ سَمِعتُ اَبا عَبدِ اللہِّٰ عليہ ) السلام یَقولُ نحنُ ولاةُ اٴمر اللہّٰ وَخَزَنَةُ عِلمِْ اللہِّٰ وَعَيبَةُ وَحی اللہِّٰ ” ( ٢
کافی ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ عبد الرحمن ابن کثير کا بيان ہے کہ ميں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الفصول المہمة، ج ١، ص ۵٨٨ ، خلاصة الاقوال، ص ٢٣۴ ۔ (
٢(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٢ ۔ (
حضرت امام جعفر صادق - کو فرماتے سنا: ہم واليان امر الٰہی ہيں ہم علوم الٰہی کا خزانہ اور وحی پروردگار کی حفاظت کرنے والے ہيں۔
١٣۴ ۔ “وفيہ بِاسنادِہِ عنَ عَبد اللہِّٰ بن اَبی یَعفور قالَ : قالَ اَبو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام یا ابنَ اَبی یَعفُور انَّ اللہَّٰ واحدٌ متوحِدٌ بِالوَاحدانيةِ ، متفَرِّدٌ بِامرِہِ فَخَلَقَ خَلقْاً فَقدَّرَهُم لِذلکَ الامرْ، فَنَحنُ ) هُم یا ابنَ ابی یعفورُ فَنَحنُ حججُ اللّٰہِ فی عِبادِہِ خُزّٰانُہُ عَلیٰ عِلمہ وَالقائمونَ بِذلِکَ ” ( ١ اس کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته عبد الله ابن ابی یعفور سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: حضرت صادق آل محمد - نے فرمایا: اے ابن ابی یعفور! خدائے سبحان واحد ہے اور اپنی وحدانيت ميں منحصر بہ فرد ہے (یعنی وحدانيت کی صفت اور امر خداوندی اس کی مقدس ذات سے مخصوص ہے) لہٰذا خدائے متعال نے اپنی بعض مخلوقات کو خلق کيا اور اس امر دین کو ان کے ليے مقدر فرمایا، یقينا ہم الله کے بندوں کے درميان اس کی حجتيں اور علم الٰہی کے خزانے نيز اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔
١٣۵ ۔ “وَفيہ بِاسنادِہِ عَن عَلیً بن جعفر عن ابی الحَسَن موسیٰ عليہ السلام قالَ قالَ اَبُو عَبد اللہّٰ عليہ السلام اِنَّ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ خَلَقنا فَاَحسَنَ خَلقَنا وَصَوَّرَنا فَاَحسَن صُوَرَنا وَجَعَلَنا خُزاٰنَّہُ فی ) سمآئِہِ و ارضِہِ وَلَنا نَقَطَتِ الشَجَرة وَبِعبادتنا عُبِد اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ وَلَولانا ما عُبد اللہّٰ ” ( ٢
اسی کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته علی ابن جعفر سے انہوں نے حضرت موسی ابن جعفر - سے نقل کيا ہے کہ ان کا بيان ہے کہ حضرت امام جعفر صادق - نے فرمایا: خدائے عزوجل نے ہم کو بہترین خلقت کے ساته پيدا کيا اور ہميں بہترین خوبصورت شکل عطا کی اور ہم کو اپنے آسمان و زمين کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ۵۔ (
٢(۔ گزشتہ حوالہ، حدیث ١١ ۔ (
خزانہ دار بنایا اور ہم سے درختوں نے گفتگو کی ہماری عبادت سے خدائے سبحان کی عبادت ہوئی اور اگر ہم نہ ہوتے تو خدائے سبحان کی عبادت نہ کی جاتی۔ (ہم نے لوگوں کو الله کی طرف دعوت دی اور انہيں خدا کو پہچنوایا ہے اسی معرفت کے نتيجہ ميں وہ الله تعالیٰ کی عبادت انجام دیتے ہيں۔
ليکن جو لوگ اسی نعمت عظمیٰ (ان عظيم ہستيوں کی بارگاہ کے کسب فيض) سے محروم تهے وہ حضرت حجة ابن الحسن مولانا حضرت صاحب العصر و الزمان - عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے پُر فيض وجود کی برکتوں سے براہ راست یا اس طرح کے علاوہ استفادہ یا روشنی حاصل کی یا کرتے رہتے ہيں اگرچہ اس غيبت کے پردہ ميں برج امامت کا آفتاب اپنے عاشقين اور منتظرین کی آنکهوں سے مخفی ہے ليکن ہميشہ حضرت کی غيبی عنایات و برکات تمام موجودات کے شامل حال ہوتی ہيں۔
جن لوگوں نے معصوم ائمہٴ ہدیٰ اور پيشواؤں سے استفادہ کيا اور ان کے علوم و آثار کے حامل تهے انہوں نے ہمارے ليے تحفہ پيش کيا ان ميں سے ہم صرف ایک کو بطور نمونہ تبرکا ذکر کرتے ہيں: محمد ابن مسلم ابن ریاح، ابو جعفر الطحان الثقفی جو اصحاب اماميہ کے سرشناس اور اثر و رسوخ رکهنے والے کوفہ ميں فقيہ اور تقویٰ و پرہيز گاری کے حامل تهے انہوں نے صادقين آل محمد سے بہت زیادہ کسب فيض کيا ہے۔
اور ان حضرات سے روایت نقل کی ہے۔ امام محمد باقر - سے تيس ہزار حدیث اور امام جعفر صادق سے سولہ ہزار سوال کرکے اسے حفظ کيا ہے۔
قرآن مجيد اور ہر دل عزیز حجّت الٰہی حضرت ولی اعظم امام زمانہ - کے درميان موازنہ اور وجہ شباہت جو کتاب کے عنوان ميں (القرآن و الحجة) اخذ کيا گيا ہے آنے والے مطالب سے واضح اور روشن ہوجائے گا۔ حضرت امير المومنين - نے قرآن مجيد کی توصيف ميں فرمایا: “ جعلہ اللّٰہ رَیّا لعطش العلماء” یعنی قرآن کریم علماء کی پياس کو خنکی اور سکون بخشتا ہے جتنا بهی چاہيں اس کے لامتناہی علوم سے استفادہ کریں ان کے ایمان اور اطمينان قلب ميں اضافہ کا باعث ہوگا الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (آگاہ ہوجاؤ کہ اطمينان یاد خدا سے ہی حاصل ہوتا ہے) ليکن ائمہٴ اطہار کا قرآن کریم کے ہم پلہ ہونا اور اس کے موازنہ کا تقاضا یہ ہے کہ یہی اوصاف اور خصوصيات ان عظيم ہستوں ميں بهی پائی جانی چاہيے اس بنا پر محمد ابن مسلم اور جيسے افراد کے حالات زندگی ميں مختصر عنایت اور توجہ کے بعد مذکورہ مطالب کی دليل روشن ہوجائے گی کہ حضرات ائمہٴ اطہار کے وجود کی برکتوں سے علم و بصيرت اور علوم الٰہی کے متلاشيوں کے دلوں کی آگ کو کيسے آرام و سکون ملتا ہے ليکن جو بہت زیادہ قابل توجہ امر ہے وہ یہ کہ محمد ابن مسلم مختلف موضوعات ميں اڑتاليس ہزار حدیث کے حامل ہوتے ہوئے بهی اپنی مزید کاميابی کے ليے اس منبع اور خوش گوار سرچشمہٴ حيات سے فيض حاصل کرنے کے ليے سوال کرتے ہيں کہ آفتاب کے ڻهہرنے کی کيفيت کو بهی حضرت بيان فرمائيں۔
١٣۶ ۔ “وَفی الاِختِصاصِ لِلمُفيد بِاسنادِہِ عَن محمَّدَ بنِْ مُسلِمٍ قالَ: قُلت لابی جَعَفرٍ عليہ السلام جُعِلتُ فَداکَ اخبرنی برُکودِ الشَّمسِ قالَ وَیحَک یا محمَّدُ ما اصغَر جثّتکَ وَاعضَلَ ) مَساٴلتکَ ، ثُمَّ سَکَتَ عَنّی ثَلاثَةَ ایّامٍ ، ثُمَّ قالَ لی فی اليَومِ الرّابِعِ اِنَّکَ لاَ هلٌ لِلجوابِ ” ( ١ اختصاص ميں شيخ مفيد اپنی سند کے ساته محمد ابن مسلم سے نقل کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے ميں نے امام محمد باقر - سے عرض کيا : ميں آپ پر قربان مجهے یہ تو بتائيں کہ کس طرح سورج ڻهہرتا ہے (اور زوال کے وقت حرکت کا احساس نہيں ہوتا) تو حضرت - نے فرمایا:ویحک ( ٢) اے محمد ! اس معمولی جثہ کے ساته ایسا مشکل اور سخت مسئلہ دریافت کر رہے ہو؟ راوی کا بيان ہے: حضرت - تين دن تک خاموش رہے اور اس کا جواب نہيں دیا پهر چوتهے دن فرمایا کہ: تم اس لائق ہو کہ تمہيں اس کا جواب دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الاختصاص، ص ٢٠١ ، بحار الانوار، ج ۴، ص ٣٢٨ ۔ (
٢(۔ ویحک کا معنی ترحّم اور توجّہ کے ہيں اور کبهی مدح اور تعجب کے ليے بهی استعمال ہوتا ( ہے اس معنی کی تائيد امام کے قول سے ہوتی ہے۔
حضرت باقر العلوم - کا محمد ابن مسلم کو یہ کہنا کہ اس معمولی جثہ کے ہوتے ہوئے مشکل مسئلہ دریافت کر رہے ہو اس ميں چند احتمالات پائے جاتے ہيں ١)۔ شاید از باب مزاح اور مستحب مذاق کی بنياد پر ایسا کہا ہو ٢)۔ یا اس باب سے ہو کہ اولاد آدم معمولی جثہ کے باوجود خود کو مشکل مسائل جاننے کے ليے سختی ميں ڈالتی ہيں۔ ٣)۔ یا ادب سکهانے کے باب سے ہو کہ انسان غير ضروری چيزوں اور غير مکلف امور کی معرفت کی تلاش ميں پڑے۔ یا ایسے مسائل کہ اکثر لوگوں کی عقليں وہاں تک رسائی نہيں کر سکتيں یا اس کے احتمال تک کو درک نہيں کر سکتيں۔ جيسا کہ کميل ابن زیاد نخعی (جو مولی الموحدین حضرت امير المومنين -کے ہم راز تهے) نے حضرت - سے حقيقت کا معنی دریافت کيا تو فرمایا: “ما لک و الحقيقة” یعنی تمہيں حقيقت کے معنی سے کيا سروکار ہے، بہت زیادہ اصرار کے بعد اور حضرت کی وضاحت کے باوجود بهی کچه حاصل کرسکے تو فرمایا: چراغ کو گل کردو صبح ہو گئی ہے۔
اس بنا پر مولف بهی حضرت باقر العلوم - کا محمد ابن مسلم کے جواب ميں قارئين کرام کو اس کے اصل ماخذ جو کتاب من لا یحضرہ الفقيہ ( ١) ہے حوالہ دیتے ہيں اور کتاب روضة المتقين ميں علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے مفصل طور پر اسے ذکر کيا ہے ( ٢) مولف بطور تبرک اس مبارک حدیث کے بعض جملات کی طرف اشارہ کر رہے ہيں: ”ساٴل محمّد بن مسلم ابا جعفر عليہ السلام عن رکود الشمس فقال : یا محمّد اصغر جثتک واعضل مساٴلتک وانک لاٴهل للجواب اِنَّ الشمس اذا طلعت جذبها سبعون الف ملک بعد ان اخذ بکل شعاع ( شعبة خ ) منها خمسة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ من لا یحضرہ الفقيہ، ج ١، ص ١۴۵ ۔ (
٢(۔ روضة المتقين فی شرح من لا یحضرہ الفقيہ، ج ٢، ص ٨٠ ۔ (
آلاف من الملائکة من بين جاذب ودافع ، الی ان قال ، فعند ذلک نادت الملائکة : سبحان اللّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ والحمد للّٰہ الذی لم یتخذ صاحبة ولا ولداً ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذّل وکَبّرہ تکبيراً ، فقال لہ: جعلت فداک اُحافِظ علی هذا الکلام عند زوال الشمس ؟ فقال نعم حافظ عليہ کما تحافظ علی عينيک فاذا زالت الشمس صارت الملائکة من ورائها ) یسبحون اللّٰہ فی فلک الجوالی ان تغيب ۔” ( ١
محمد ابن مسلم نے حضرت امام محمد باقر - سے سورج کے ڻهہرنے کے بارے ميں دریافت کيا تو حضرت - نے فرمایا: اے محمد ابن مسلم ! تمہارا جثہ کتنا معمولی ليکن تمہارا مسئلہ کتنا دشوار ہے مگر جواب کی اہليت تم ميں موجود ہے : جب سورج طلوع کرتا ہے تو ستّر ہزار فرشتے اس کو جذب کرتے ہيں اس کے بعد ہر شعاع کو پانچ ہزار فرشتے اپنے اختيار ميں رکهتے ہوئے بعض جذب کرتے ہيں بعض دفع کرتے ہيں۔
اس وقت فرشتے فریاد کرتے ہيں : پاک و پاکيزہ ہے وہ خدا کہ جس کے علاوہ کوئی معبودنہيں ہے، تمام حمدو ثناء اسی الله کے ليے ہے جس نے نہ کسی کو فرزند بنایا ہے اور نہ کوئی شخص اس کے ملک ميں شریک ہے اور نہ کوئی اس کی کمزوری کی بنا پر اس کا سرپرست ہے اور پهر باقاعدہ اس کی بزرگی کا اعلان کرتے رہو۔ محمد ابن مسلم نے دریافت کيا: کيا اس بات کو سورج کے زوال کے وقت محفوظ رکهوں؟ فرمایا: ہاں اس کی حفاظت کرو، جس طرح اپنی آنکهوں کی حفاظت کرتے ہو۔ جب سورج مکمل زوال پذیر ہوجائے تو فرشتے اس کے پيچهے حرکت کرتے ہيں اور الله
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ روضة المتقين، ج ١، ص ٨٠ ۔ (
کے چرخ گردوں ميں تسبيح کرتے ہيں یہاں تک کہ وہ غروب ہو جائے۔ مولف کہتے ہيں: اس سلسلے کی دوسری احادیث کے ساته مذکورہ حدیث کی مکمل ) وضاحت کے ليے اسی کی اہليت رکهنے والے قارئين روضہ المتقين کی طرف رجوع کریں۔ ( ١

٢۔ دلوں کی بہار / ٢٣
٢٣ ۔ وَرَبيعاً لِقُلُوبِ الفقَهاء (مجتہدین کے دلوں کی بہار ہے(
قرآن مجيد فقہاء کے دلوں کی بہار ہے اس ليے کہ تدبير اور قرآن کے بطون ميں غور وفکر کی بنا پر استنباط اور استظہار احکام و حقائق نيز اس کی معنویات سے شرح صدر اور فراخ دلی حاصل ہوتی ہے مزید ان کے دلوں ميں بہت زیادہ فرحت اور سرور و نشاط پيدا ہوتا ہے اور اس کے با ارزش مطالب سے ایسی لذت حاصل کرتے ہيں کہ تمام مادی لذتيں اس کے مقابل ميں کبهی بهی کوئی قيمت نہيں رکهتی اور جس قدر زیادہ تلاوت کریں اور اس کے عميق مفاہيم تک پہنچيں اس کے علاوہ کہ ان کے ایمان ميں اضافہ ہوتا ہے ان کا اشتياق فراوان اور پياس بهی زیادہ محسوس ہوتی ہے یہ خود قرآن کریم کی واقعيت اور معجزات ميں نيز مومنين کے اوصاف ميں ذکر ہوا ہے <وَإِذَا تُلِيَت عَلَيہِْم آیاتُہُ زَادَتہُْم إِیمَانًَا > ( ٢) اور جب اس کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان ميں اضافہ ہوجاتا ہے۔
اوریہ کہ فرمایا: قرآن فقہاء کے دلوں کی بہار ہے جس طرح لوگ اور فصل بہار ميں دنيا کے طبيعی مناظر جو تمام پہاڑ دشت و صحرا باغات وغيرہ ہيں سرسبز و شاداب ہوتے ہيں اور جہاں بهی جائيں رنگا رنگ شکوفے چمکتے ہيں اور مختلف بوڻے کوہ کے دامن ميں اور خود فصل بہار کی نسيم جاں فزا ہر افسردہ اور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ روضة المتقين، ج ١، ص ٨٠ ۔ بحار الانوار، ج ۵٨ ، ص ١۶٧ ۔ ١٧١ ۔ (
١(۔ سورہٴ انفال، آیت ٢۔ (
شکستہ دل انسان کو نشاط و فرحت بخشتی ہے قرآن بهی اپنے اہل کو فرحت و سرور کی نوید سناتا ہے۔
مومنين کا ایک دوسرے کی زیارت کرنے کے باب ميں بہت سی روایات معادن وحی و تنزیل سے وارد ہوئی ہيں جو احيائے قلوب اور ائمہٴ ہدی کی احادیث کو ذکر کرنے کا باعث ہےں اور اس عمل کے اہم آثار و فوائد اور فوق العادت نتائج ذکر ہوئے ہيں۔ ١٣٧ ۔ “ فی السّفينةِ عَن الکافی عَن ابی عَبدِ اللّٰہ عليہ السلام قالَ تَزاوَرُوا فَانَّ فی زیارَتِکُم اِحيٰاءٌ لِقلُوبِکم وذِکرٌ لاٴحادیثنا واَحادیثنا تعطفُ بَعضکُم عَلیٰ بَعضٍ فَاِن اَخَذتمُ بها رشدتُم ونجوتم ) وَاِن تَرَکتُْموها ضَلَلتُم وَهَلکتُْم ، فخُذُوابِها وَاَنَا بِنجاتِکُم زَعيمٌ ” ( ١
محدث قمی نے سفينہ ميں کافی سے نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق - نے فرمایا: ایک دوسرے کی زیارت کرو تمہارے زیارت کرنے کی وجہ سے تمہارے قلوب زندہ ہوں گے اور ہماری احادیث کا ذکر ہوگا (یاد آوری کے فوائد) ہماری حدیث ایک کو دوسرے پر مہربان بنائيں گی،لہٰذا اگر تم ان کے مطالب کو اپنا دستور العمل قرار دو گے تو تم ترقی یافتہ ہوگے ، نجات حاصل کرو گے اور ان کو چهوڑ دو گے تو گمراہ اورہلاک ہوجاؤ گے پهر امام - نے تاکيد فرمائی لہٰذا ان احادیث کے مطالب کو اس کے مختلف موضوعات خواہ اصول، عقائد، احکام یا اخلاقيات ميں ذکر کيے گئے ہوں اسے اپنی روزہ مرہ زندگی کا معمول قرار دو تو پهر ميںتمہاری نجات کا ضامن ہوں۔
١٣٨ ۔ “ وَفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عَن مَيسرٍ عَن ابی جعفَرٍ عليہ السلام قالَ قالَ لی اٴَتخلُونَ وَ تَتَحَدَّثُونَ تَقُولونَ ما شِئتُم ؟ فَقلتُ : ای وَاللہّٰ اِنّا لَنَخلُو وَنَتَحدّثُ وَنَقُولُ ما شِئنا فَقالَ : اٴَما وَاللہِّٰ لَوَدَدتُ انّی مَعَکُم فی بَعضِ تِلکَ المواطِنِ ، اٴما وَاللہِّٰ انّی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ١٨۶ ۔ سفينة البحار، ج ٣، ص ۵٢٩ ۔ (
) لاٴحِبُّ ریحَکُم وَاَرواحَکُم وَانَّکم عَلی دینِ اللہِّٰ وَدینِ ملائِکَتِہِ فاَعينونی بوَرَعٍ وَاجتِهادٍ ” ( ١
اسی کتاب کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ نے روایت نقل کی ہے کہ امام محمد باقر - سے ميسر نے روایت کی ہے کہ حضرت - نے مجه سے دریافت فرمایا: کيا تم لوگ خلوت نشين ہوکر گفتگو کرتے ہو اور جو چاہتے ہو کہتے ہو؟ ميں نے عرض کيا: بے شک خدا کی قسم! جب بهی ہمارا دل چاہتا ہے ہم لوگ خلوت ميں بيڻهتے ہيں اور اہل بيت عصمت و طہارت کے فضائل و مناقب کے بارے ميں بات چيت کرتے ہيں۔ تو حضرت محمد باقر - نے فرمایا: جان لو کہ خدا کی قسم ! ميرا دل تو بہت چاہتا ہے کہ ميں بهی ایسے مواقع پر بعض جگہ تمہارے ہمراہ ہوتا، خدا کی قسم ! ميں تمہاری قوت اور جانوں کو دوست رکهتا ہوں تم خدا کے دین اور اس کے ملائکہ کے دین پر ہو لہٰذا تم تقوی و پرہيز گاری اور اپنی کوششوں سے اس کی مدد کرو۔ ١٣٩ ۔ “عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام قالَ قالَ الحَسنُ بنُ عَلیٍ عليہما السلام لِرَسول اللّٰہِ
(ص): یا اباہُ ما جَزآء مَن زارَکَ ؟ فَقالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) یا بنیَّ مَن زارَنی حيّاً اَو مَيّتاً ، او زارَ اَباکَ ) او اخاکَ اَو اٰزرَکَ کانَ حَقاً عَلیّ اَنَّ ازُورَہُ یَوم القِ اٰيمةِ فاخَلّصہُ مِن ذُنُوبہِ ” ( ٢
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی کتاب علل الشرائع ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امام حسن مجتبیٰ نے حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت ميں عرض کيا: اے ميرے پدر گرامی! جو آپ کی زیارت کرے اس کا کيا اجر و ثواب ہے؟ فرمایا: اے بيڻے! جو ميری زندگی ميں یا مرنے کے بعد ميری زیارت کرے یا تمہارے والد گرامی یا تمہارے عزیز بهائی یا خود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ١٨٧ ۔ (
٢(۔ کامل الزیارات، ص ۴٠ ، علل الشرائع، ج ٢، ص ۴۶ ۔ تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۴، مزار ابن ( مشہدی، ص ٣٢ ۔
تمہاری زیارت کرے تو یہ ميرے ليے اس کے زائد حق ميں واجب ہے کہ اس کی قيامت کے دن زیارت کروں اور اسے گناہوں کی قيد سے نجات اور چهڻکارا دلاؤں۔
١۴٠ ۔ “وَفی فَرحةِ الغَرِیّ للسَّيدِ بن الطّاووسِ ( رضوان تعالیٰ عليہ ) عن الصَّادِقِ عليہ السلام وَ قَد ذکِرَ امير الموٴمنينَ عليہ السلام فقال : یَابنَ مارِد مَن زارَ جَدّی عارِفاً بِحَقةِ کَتَبَ اللہّٰ لَہ بِکلّ خطوةٍ حَجَّةً مقبولةً وعمرةً مبرورة یَابن مارِد وَاللہّٰ ما یَطعَْمُ النّارُ قَدَماً تَغَيّرت فی زیارَةِ ) اميرالمُوٴمنينَ عليہ السلام ما شِياً کانَ اَوْ راکِباً ، یَابْنَ مارِدٍ اکتُب هذا الحَدیثَ بمآءِ الذّهَب ” ( ١ سيد جليل القدر جناب ابن طاووس رضوان الله تعالیٰ عليہ نے اپنی کتاب فرحة الغری ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ گویا ان کے جد بزرگوار کے بارے ميں گفتگو ہوئی (ابن مارد کے ذریعہ یا کسی دوسرے کے ذریعہ) تو حضرت نے ابن مادر کو خطاب کرکے فرمایا: اے فرزند مادر! جو شخص ميرے جد بزرگوار کی حقيقی معرفت کے ساته زیارت کرے (ان کی ولایت و خلافت بلا فصل کا عقيدہ رکهتا ہو) تو خدائے عزوجل اس کے ہر ایک قدم پر قبول شدہ حج اور عمرہ اس کے نامہٴ اعمال ميں تحریر کرتا ہے، اے فرزند مادر! خدا کی قسم ! آتش جہنم اس قدم کو اپنی غذا نہيں بناتی جو حضرت امير المومنين - کی زیارت کی راہ ميں اڻهایا جائے ، خواہ وہ پيادہ گيا ہو یا سواری کے ساته اے فرزند مادر! اس حدیث کو سونے کے پانی سے تحریر کرو۔
مولف کہتے ہيں: جس جگہ مومنين کی زیارت اور ائمہٴ اطہار کی حدیثوں کا مذاکرہ کيا جائے تو وہ ان کے احيائے قلوب کا باعث اور ان کے درميان محبت و مہربانی ایجاد ہوگی، ترقی اور ہلاکت سے نجات کا سبب ہوگی اور خود ائمہ کو شرکت کرنے کی تمنا پيدا ہوگی تو پهر واضح سی بات ہے کہ خود ان عظيم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فرحة الغری، ص ١٠٣ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ١۴٧ ۔ (
ہستيوں کے قبور مطہر کی زیارت کے آثار و فوائد خواہ ان کی زندگی اور موجودگی ميں ہوں خواہ ان کی رحلت کے بعد ہوں وہ بے شمار اور ر تصور سے بالاتر ہوں گے۔
قرآن مجيد جو فقہاء کے دلوں کی بہار ہے، حضرت بقية الله الاعظم امام زمانہ اور ان کے اجداد طاہرین کا مقدس وجود جو قرآن کریم کے ہم پلہ اور شریک ہيں جو ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہيں ہيں فطری بات ہے کہ ان کے مقدس حضور کو درک کرنا اور ان کے گہر بار کلمات کو غور سے ان فقہاء کا سننا جو حلال و حرام خدا کے امين ہيں حيات بخش نسيمِ بہاری کی طرح فراخ دلی اور دلوں کی پاکيزگی کا باعث ہوگا نہ صرف فقہاء کے ليے بلکہ امام - کا مقدس نور تمام مومنين کے قلوب ميں ضو فگن ہے تو وہ دلوں کی سياہی اور سب کے مشکلات کو دور کرنے کا موجب ہوگا۔
١۴١ ۔ “ وَفی الکافی عَن اَبی خالدِ الکابُلی عَن اَبی جَعفر عليہ السلام یا اَبا خالدٍ لَنُورُ الامامِ فی قُلُوبِ الموٴمنين اَنْوَرُ مِنَ الشّمس المُضئيةِ بِالنَهارِ وَهُمْ وَاللّٰہ یُنوّرونَ قُلُوبَ الموٴمنين ، وَیَحجبُ اللّٰہ عزّوجلّ نُورَهم عَمّن یَشآء فَتظلَم قُلوبَهم وَاللّٰہ یا ابَا خالد لا یُحبنا عَبدٌ وَ یَتولّانا حَتّی یُطهِّرَ اللّٰہ قَلبَہ وَلا یُطهِّر اللّٰہ قَلب عَبدٍ حَتّی یُسلَّم لَنا وَ یَکون سِلماً لَنا فَاذا کانَ مسلماً لنا سَلّمہ ) اللہّٰ مِن شدیدِ الحِسابِ وَآمَنَہُ مِن فَزَ عِ یَوم القيامَة الاَکبَرِ ” ( ١
١۴٢ ۔ “ وَفی الخرایجِ عَن اَبی بَصيرٍ قالَ دَخَلتُ المَسجِدَ مَعَ اَبی جَعفَرٍ عليہ السلام وَالنَّاسُ یَدخُلُونَ وَیخرُجُونَ فَقالَ لی سَلِ النّاسَ هَل یَرَونَنَی ؟ فَکل مَن لَقيتہ قُلتُ لَہ : اَرَاَیتَْ اَبا جَعفرٍ عليہ السلام یَقُولُ: لا،وَهُوَ وَاقِفٌ ، حَت یٰ دَخَلَ اَبُو رٰہونُ المکفُوف قالَ: سَل هذا؟ فَقُلت : هَل راٴیتَ اَبا جَعفَر ؟ فَقالَ: اٴلَيس هُو بقائمٍ ، ثُمَّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ مختصر بصائر الدرجات، ص ٩۶ ۔ بحار الانوار، ج ٢٣ ، ص ٣٠٨ ۔ تفسير ( قمی،ج ٢، ص ٢٧١ ۔ تفسير نور الثقلين، ج ٣، ص ۴۶٢ ۔
) قالَ: وَما عِلمکَ ؟ قالَ: وَکَيَفَ لا اعَلم وَهُوَ نُورٌ ساطعٌ ۔” ( ١
راوندی رحمة الله عليہ نے خرائج ميں ابو بصير سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں امام محمد باقر کے ہمراہ مسجد ميں داخل ہوا لوگ بهی رفت و آمد کر رہے تهے حضرت نے مجه سے فرمایا: لوگوں سے دریافت کرو کيا وہ مجهے دیکه رہے ہيں؟ ميں نے جس سے بهی ملاقات کی اس سے سوال کيا: ابو جعفر امام باقر - کو دیکها ہے ؟ کہا: نہيں، جب کہ حضرت - مسجد ميں تشریف فرما تهے یہاں تک کہ ابو ہارون مکفوف ( ٢) آئے تو حضرت نے فرمایا: اس سے دریافت کرو، ميں نے کہا: اے ابو ہارون! کيا ابو جعفر - کو تم نے دیکها ہے؟ کہا: کيا وہ وہی نہيں ہيں جو کهڑے ہوئے ہيں، بعد ميں راوی نے دریافت کيا کہ تمہيں کيسے معلوم ہوا؟ کہا: کيسے مجهے علم نہ ہو جب کہ اس عظيم ہستی ميں ایک نور تابان اور شمع روشن ہے۔
مولف کہتے ہيں: امام - کے نور کی روشنی یہ ہے کہ مومنين کے قلوب اگرچہ مادی نگاہيں ناقص اور وہ نابينا ہوں ليکن چشم دل سے ان عظيم ہستيوں کے نور اور حقيقت کو درک اور مشاہدہ کرتے ہيں۔

٢۔ مستقيم راستہ / ٢۴
٢۴ ۔ “ وَمَحاجَّ لِطُرُقِ الُّلحاء ” (اور اسے علماء کے راستوں کے ليے شاہراہ قرار دیا ہے)۔
قرآن مجيد روشن اور مستقيم شاہراہ ہے کہ نہ اس ميں کوئی کجی ہے نہ گهاڻی اور سرنگ “صحاج” جای پناہ اور پناہ گاہ کے معنی ميں ہے یعنی قرآن صالحين کے ليے جو حق و حقيقت کے راستے پر چلتے ہيں ان کے ليے ایسی پناہ گاہ ہے کہ انہيں اپنی طرف ہدایت کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرایح، ج ٢، ص ۵٩۶ ۔ (
٢(۔ مکفوف: نابينا۔ (
الله تعالیٰ فرماتا ہے: <إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ > ( ١) بے شک یہ قرآن اس ) راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ ( ٢
١۴٣ ۔ “فی الکافی باسنادہ عن العلاء بن سيّابَة ، عن ابی عبد اللّٰہ عليہ السلام فی قولہ ) تعالیٰ < إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ >؛قالَ: یَهدیَ اِلیَ الا اٰ ممِ ” ( ٣ کافی ميں کلينی اپنی سند کے ساته علاء الدین سيّابہ سے نقل کرتے ہيں کہ امام صادق - فرماتے ہيں: یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ اس سے مراد امام معصوم - ہے جو تمام ملتوں اور فرقوں کو قرآن کی طرف ہدایت کرنے والا ہے اس کے احکام و قوانين اور مطالب کو واضح طور پر بيان کرنے والا ہے نيز اس کی معرفت اور عمل کرنے کی دعوت دینے والا ہے۔
مولف کہتے ہيں : حضرت بقية الله الاعظم اور ان کے اجداد طاہرین سب کے سب جادہٴ مستقيم سے منحرف ہونے والوں کی علامات اور نشانياں ہيں اور وادی حيرت و ضلالت ميں گم شدہ افراد کے قلوب کو روشن اور جذب کرنے والے ہيں نيز راہ حق جو کہ حضرت علی بن ابی طالب - اور ان کی اولاد طاہرین کا راستہ ہے اس پر چلنے والوں کے ليے پناہ گاہ ہيں۔ صِراطٌ عَلیٍ حَقٌ نُمْسِکُہُ، علی کا راستہ حق ہے ہم سب اس سے متمسک ہيں۔
١۴۴ ۔ “ وفی الکافی باسنادہ عن الوشاء قال: سَالتُ الرِّضا عليہ السلام عَن قول اللّٰہ تعالیٰ < وَعَلامَاتٍ وَبِالنَّجمِْ ہُم یَہتَْدُونَ >( ۴) قال عليہ السلام نَحن العلاماتِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ اسراء، آیت ٩۔ (
٢(۔ قولہ للتی هی اقوم ای للملة هی اقوم الملل و الطریقة التی هی اقوم الطریق۔ ( الله تعالیٰ کا یہ قول “جو بالکل سيدها ہے ” یعنی وہ ملت جو تمام ملتوں ميں بالکل راہ راست پر ہے اور وہ راستہ جو بالکل سيدها ہے۔
٣(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١۶ ۔ (
۴(۔ سورئہ نحل، آیت ١۶ ۔ (
) وَالنجم رُسُولُ اللّٰہ (ص) ” ( ١
کافی ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته وشاء سے نقل کيا ہے کہ ميں نے امام علی رضا - سے آیہٴ کریمہ “اور علامات معين کردیں اور لوگ ستاروں سے بهی راستے دریافت کرليتے ہيں” کے بارے ميں دریافت کيا تو امام نے فرمایا: علامات سے مراد ہم (ائمہ) ہيں اور ستارے سے مراد رسول خدا (ص) ہيں۔
١۴۵ ۔ “وفيہ باسنادہ عن برید العجلی عن ابی جعفر عليہ السلام فی قول اللّٰہ تعالیٰ < إِنَّمَا اٴَنتَْ مُنذِرٌ وَلِکُلِّ قَومٍْ ہَادٍ >( ٢) فقال: رسول اللّٰہ (ص) المنذر ، ولکل زمان منّا هاد یهدیهم ) الی ماجآء بہ نبی اللّٰہ (ص) ثم الهداة من بعدہ علی ، ثم الاوصياء واحد بعد واحد ” ( ٣ کافی ميں کلينی نے اپنی سند کے ساته یزید عجلی سے نقل کيا ہے کہ امام محمد باقر - نے آیہٴ کریمہ “آپ کہہ دیجيے کہ ميں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے ليے ایک ہادی اور رہبر ہے” کے بارے ميں فرمایا: رسول خدا (ص) ڈرانے والے ہيں اور ہر زمانہ ميں ہم اہل بيت ميں سے ایک ہادی ہوتا ہے جو لوگوں کو ان چيزوں کی طرف ہدایت کرتا ہے کہ جسے پيغمبر اکرم (ص) لے کر آئے، حضرت رسول خدا (ص) کے بعد پہلے ہادی حضرت علی - پهر ان کے اوصياء ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢٠٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ رعد، آیت ٧۔ (
٣(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩١ ۔ (

٢۔ اکسيرِ شفاء / ٢۵
٢۵ ۔ وَدَواءً لَيسَ مَعَہ داءٌ (یہ وہ دوا ہے جس کے بعد کوئی مرض نہيں رہ سکتا(
یہ عزیز ترین آسمانی کتاب ہر قسم کے درد و آلام کی دوا اور علاج ہے تمام دردوں اور امراض کو خواہ جسمانی ہو یا روحانی، ظاہری ہوں یا باطنی سب کا علاج کرتی اور جلد شفا بخشتی ہے، مادی دواؤں کی طرح نہيں ہے کہ اگر ایک درد کے ليے مفيد ہو تو دوسرے حصّہ کو ضرر پہنچائے بلکہ اس کا علاج ہميشہ بغير کسی قسم کے عارضہ کے ہوتا ہے الله تعالیٰ فرماتا ہے: <وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ > ( ١) اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے۔
حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - کے اس پُر معنی اور گراں قدر آڻهویں فقرہ کی وضاحت “وَشَفِآءً لا تُخشیٰ اٴسْقامُہُ ” (اور وہ ایسی شفاء ہے جس ميں بيماری کا کوئی خوف نہيں ہے) کو اس حصے پر موقوف کيا تها اس کی حتی المقدور تشریح کریں گے۔ اب الله ) تعالیٰ کی طاقت و قوت اور تائيد سے اس کی وضاحت بيان کر رہے ہيں ( ٢
یہ عظيم الشان قرآن اور عزیز آسمانی کتاب تمام جسمانی و روحانی اور ابدان و ارواح کا علاج کرنے والی اور شفا بخشنے والی ہے۔ ليکن ابدان کے بارے ميں تجربات اور عينی مشاہدات سے ثابت ہوا ہے کہ اس کے علاوہ ائمہٴ ہدی کی بہت سی احادیث ميں سوروں کے خواص اور بہت سی آیات، شفا حاصل کرنے اور ان کی تعویذ بنانے کے ليے وارد ہوئی ہيں ہم ان ميں سے بعض حصّہ کو بطور تبرک ذکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٢ ۔ (
١(۔ قرآن اور امام زمانہ - کے درميان اسی کتاب ميں (اکتيسویں ) شباہت کے درميان اس ( موضوع کے بارے ميں ہم مفصل بحث ذکر کر چکے ہيں۔ کرتے ہيں:
١۴۶ ۔ “ فی الکافی باسنادہ عَنِ السّکونی عَنْ ابی عَبدِ اللّٰہ عن آبائہ عليہم السلام قالَ: شَکیٰ رُجُلٌ اِلَی النّبی (ص) وَجَعاً فی صَدرِہِ فَقالَ : اِستشفِ بِالقُرآنِ فَانتَ اللہّٰ عَزَّوجل یَقُولُ :” ) >َشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ > ( ١
کافی ( ٢) ميں کلينی اپنی سند کے ساته سکونی سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے انہوں نے اپنے آبائے کرام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے سينہ کے درد کی شکایت کی تو حضرت نے فرمایا: قرآن کے ذریعہ شفا حاصل کرو خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے قرآن شفا ہے اس مرض کے ليے جو سينوں کے اندر ہے۔ ١۴٧ ۔ “وعَن ابراہيم مَهزَم عَن رَجلٍ سَمعَ اَبا الحَسَنِ عليہ السلام یَقُولُ : مَن قَرَءَ آیَة الکُرسی عِندَْ مَنامِہِ لَم یَخَفِ الفِالج اِنشاءَ اللہّٰ ،وَمَن قراٴها فی دَبرِ کُلّ فریضةٍ لَم یُضِرَّہُ ذو حِمَة ” )٣)
ابراہيم مہزم نے ایک شخص سے سنا تها کہ حضرت علی - فرمایا کرتے تهے: جو شخص سوتے وقت آیة الکرسی کو پڑهے تو اگر الله نے چاہا تو فالج کے مرض ميں مبتلا نہيں ہوگا اور جو شخص ہر فریضہ کے بعد پڑهے تو اسے کوئی چيز نقصان نہيں پہنچا سکتی۔ ١۴٨ ۔ “وفی من کتاب العياشی بِاسنادِہِ انَّ النَّبی (ص) قالَ لِجابِرِ بن عبد اللّٰہ الاٴنصاری الا اعَلّمَکَ افضَلَ سورةٍ انزلَهَا اللہّٰ فی کِتابِہِ ؟ قالَ: فَقالَ لَہُ جابر : بَلی بِابی اَنتَ وَاٴمّی یا رَسُولَ اللہِّٰ عَلِّمِني هٰا ، قالَ: فَعَلَّمہ الحَمدَ امَّ الکِتابِ ، ثُمّ قال : یا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ۵٧ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ۔ (
٣(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٢ ۔ ثواب الاعمال، ص ١٠۵ ۔ (
جابِر اٴلا اُخبرُکَ عَنها ؟ قالَ :بَلی بِاَبی اَنت وَامّی فاٴخبرنی ، فقالَ: هِیَ شِفاءٌ مِن کُلّ اٰ دءٍ اِلاَّ ) السّام یعنی الموتُ” ( ١
عياشی نے اپنی کتاب ميں اپنی سند کے ساته نبی اکرم (ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت نے جابر ابن عبد الله انصاری سے فرمایا: کيا ميں تمہيں با فضيلت ترین سورہ جو خدا نے اپنی کتاب ميں نازل کيا ہے تعليم نہ دوں؟ جابر نے عرض کيا: ہاں ميرے ماں باپ آپ پر قربان، تعليم فرمائيں، آنحضرت (ص) نے سورہ الحمد جو ام الکتاب ہے جابر کو تعليم دی پهر فرمایا: اے جابر! کيا اس کے آثار اور فوائد کی خبر تمہيں نہ دوں؟ عرض کيا: ميرے ماں باپ آپ پر قربان جائيں مجهے باخبر کریں تو فرمایا: وہ ہر درد کا علاج اور شفاہے سوائے سام یعنی موت کے۔
١۴٩ ۔ “و فی ثواب الاعمال : عن الصادق عليہ السلام مَنْ قَرَء فی المُصحَفِ نَظَراً مُتّعَ ) بِبَصرِہِ وَخُفِّفَ عَن والدَیہ وَان کانا کافِرینَ ، ()( وفی نُسخةٍ وَانْ کٰانا مُشرِکين ) ” ( ٢
ثواب الاعمال ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے صادق آل محمد - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو شخص مصحف (قرآن) کو دیکه کر پڑهے تو اس کے نور سے اس کی آنکهيں لطف اندوز ہوں گی اور ان کے والدین کے عذاب ميں کمی واقع ہوگی اگرچہ دونوں کافر (ایک نسخہ کی بنا پر دونوں مشرک) ہی کيوں نہ ہوں۔ ١۵٠ ۔ “وفی حدیث الاربعماٴة: عن امير الموٴمنين عليہ السلام : قالَ عليہ السلام اِذَا اشَتکی اَحَدکُمْ عَينَہُ فَليقَراْ آیة الکُرسی وَليضمِر فی نَفسِہِ انَّها تُبرء فَانہ یُعافی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٢٠ ، تفسير صافی، ج ١، ص ٨٨ ۔ (
٢(۔ ثواب الاعمال، ص ١٠٣ ۔ (
) اِنْشاءَ اللّٰہ تعالیٰ ” ( ١
حدیث اربعماٴة ميں حضرت امير المومنين - نے فرمایا: اگر تم ميں کسی شخص کو آنکه کے درد کی شکایت ہو تو اسے چاہيے کہ آیت الکرسی پڑهے اور وہ اپنے دل ميں شفا حاصل کرنے کی نيت کرے تو وہ انشاء الله عافيت حاصل کرے گا۔ ١۵١ ۔ “فی مکارم الاٴخلاق: عن الصادق عليہ السلام قال : لَو قُرِاٴَتِ الحمد عَلی ميتٍ ) سبعين مَرَّةً ثُمَّ رُدَّت فيہِ الرُّوحُ ما کانَ عَجباً ” ( ٢
مکارم الاخلاق ميں طبرسی عليہ الرحمہ نے صادق آل محمد سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جب کبهی سورئہ حمد کو ميت پر ستّر مرتبہ پڑها جائے تو اس کے بعد اس کی روح واپس آجائے یعنی سورہ حمد کی برکت سے زندہ ہوجائے۔ تو کوئی تعجب کی بات نہيں ہے
بہت سے دردوں اور مختلف امراض کے مداوا و علاج کے ليے جو انسان کے تمام بدن ميں عارض ہوتے ہيں قرآن مجيد کی آیات اور سوروں سے استفادہ کيا گيا اور تجربہ سے بهی یہ بات ثابت ہوچکی ہے ہم نے اختصار کے ساته چند مذکورہ مقام کی طرف اشارہ کيا ہے۔ ليکن قرآن کریم سے روحانی امراض جيسے: جہل، حسد، کينہ، شک و شبہ وغيرہ سے شفا حاصل کرنا یہ معنی بہت سی آیات کے ضمن ميں بيان ہوا ہے۔ ) الله تعالیٰ نے فرمایا: <قُل ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ > ( ٣
آپ کہہ دیجيے: کہ یہ کتاب صاحبان ایمان کے ليے شفا اور ہدایت ہے۔ و قالَ عَزَّ مِن قائِلِ:وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ وَلایَزِیدُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخصال، ص ۶١۶ ۔ تحف العقول، ص ١٠۶ ۔ مکارم الاخلاق، ص ٢٧۵ ۔ (
٢(۔ الخصال ، ص ۶١۶ ۔ تحف العقول، ص ١٠۶ ، مکارم الاخلاق، ص ٣۶٣ ۔ (
٣(۔ سورہ فصلت، آیت ۴۴ ۔ (
) الظَّالِمِينَ إِلاَّ خَسَارًا> ( ١
اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت ہے اور ظالمين کے ليے خسارہ ميں اضافہ کے علاوہ کچه نہ ہوگا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: <یَااٴَیُّہَا النَّاسُ قَد جَائَتکُْم مَوعِْظَةٌ مِن رَبِّکُم وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ ) وَہُدًی وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِين> ( ٢
اے لوگو! یقينا تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصيحت دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت نيز صاحبان ایمان کے ليے رحمت قرآن آچکا ہے۔ مشہور و معروف حدیث ثقلين ميں جسے پيغمبر اکرم (ص) نے اپنی با برکت عمر کے آخری لمحات ميں قرآن اور اہل بيت عصمت و طہارت کو امت کے درميان امانت کے عنوان سے متعارف کرایا اور تمام تاکيدی بيان کے ساته فرمایا کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں اپنے اس قول کے ذریعہ “ لَن یَتَفَرَّ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَ” تمام پہلوؤں اور خصوصيات ميں ایک دوسرے سے اتصال اور تلازم رکهتے ہيں۔ جيسا کہ قرآن مجيد شفا اور تمام جسمانی و روحانی ، مادی و معنوی امراض کا علاج ہے۔ ائمہٴ اطہار بهی الله کے بندوں کے مختلف مادی و معنوی امراض سے شفا بخشنے والے ہيں، اور حضرت خاتم الاوصياء بقية الله الاعظم حجّت زمانہ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف بهی تمام مخلوقات کے ليے ملجا و ماوی اور پناہ گاہ ہيں اور بہت سے وہ لوگ جو مختلف امراض اور صعب العلاج مرض ميں مبتلا ہيں کہ تمام ڈاکڻر ان کے علاج سے روئے زمين پر عاجز ہوکر اپنا ہاته بيماروں کے سينے پر رکه کر لاعلاج بتایا ہے اور ان عظيم ہستيوں کی سانس کی برکت سے ان بيماروں نے شفا پائی اور صحت سلامتی کے ساته اپنی عمر کا ایک حصہ بسر بهی کيا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ اسراء، آیت ٨٢ ۔ (
٢(۔ سورہ یونس، آیت ۵٧ ۔ (
مولف کہتے ہيں: اب خاندان عصمت و طہارت محمد و آل محمد کے دوستوں کی روشنیِ چشم کے ليے اور شيعيان علی - اور اولاد علی کو خو ش خبری دینے کے ليے ہم اس کے چند مورد کی طرف تبرک اور برکت کے طور پر ذکر کرتے ہيں۔
١۵٢ ۔ “وفی بحار الاٴنوارعن کتاب صفوة الاخبار : رَوَی الاَعمَش قالَ راٴیتُ جارِیَةً سَوداء تَسقی الماءَ وَهِیَ تَقُولُ : اِشْربُوا حُبّاً لِعَلِیّ بن ابی طالِبٍ عليہ السلام وَکانَت عَمياء قالَ ثُمَّ اتيتُها بِمکَّة بَصيرةً تَسقی الماءَ وَ تَقُولُ : اِشربُوا حُبّاً لِمَن رَدَّ اللہّٰ عَلیَّ بَصَری بِہِ ، فَقُلتُ : یا جارِیة رَاٴیتُکِ فِی المَدینةِ ضَریرَةً تقولينَ اِشربُوا حُبّاً لِمَولایَ عَلیّ بن ابی طالِب عليہ السلام وَانتَْ اليَومَ بَصيرةٌ فَمٰا شانُکِ ؟ قالت: بَاَبی اَنتَ اِنَّی رَاٴیتُ رَجلاً قالَ یا جارِیةُ اَنتَ مولاة لِعَلِی بن ابی طالِبٍ عليہ السلام وَمُحبَّتِہِ فقلتُ: نعم فَقالَ اللهُّٰمَّ اِن کانَت صادِقةً فَردّ عَلَيها بَصَرَها فَوَاللہِّٰ لَقدَ ردَّ اللہّٰ عَلَیّ بَصَرِی ، فَقلتُ: مَن انت ؟ قالَ : اَنَا الخضرُ وَاَنَا مِن شيعةِ عَلیِّ بن بی طالبٍ عليہ السلام ” )١)
محدث عالی قدر غوّاص بحار آل محمد علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے اپنی کتاب بحار الانوار ميں کتاب صفوة الاخبار ميں اعمش سے روایت نقل کی ہے کہ اس کا بيان ہے: ميں نے ایک سياہ کنيز کا دیدار کيا جو پانی پلا رہی تهی اور یہ کہہ رہی تهی: علی بن ابی طالب - کی دوستی اور محبت کی بنا پر پانی پيو جب کہ وہ نابينا تهی، پهر ميں مکہ مکرمہ مشرف ہوا تو اس سياہ کنيز کو دیکها کہ اس کی آنکهيں کهلی ہوئی ہيں اور پانی پلا رہی ہے اور وہ کہہ رہی ہے: اس کی محبت کی بنا پر پيو کہ جس نے ميری آنکهوں کی بصارت مجهے واپس لوڻا دی پهر ميں نے اس سے کہا: اے کنيز! ميں نے تجهے مدینہ ميں دیکها تو ضریر العين (نابينا) تهی اور کہہ رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۴٢ ، ص ٩۔ (
تهی ميرے مولا علی ابن ابی طالب - کی محبت ميں پانی پيو اور آج تيری بينائی واپس آگئی ہے آخر اصل واقعہ کيا ہے؟ کہا: ميرے باپ تم پر قربان جائيں یقينا ميں نے ایک شخص کو دیکها کہ جس نے کہا: اے کنيز! تو علی ابن ابی طالب - سے دوستی اور محبت رکهتی ہے؟ ميں نے کہا: ہاں، تو کہا: اے خدا! اگر (یہ کنيز) اپنے دعوی ميں سچی ہے تو اس کی آنکه کی بينائی اسے واپس کردے، خدائے بزرگ و برتر کی قسم ! اِس نے ميری آنکهوں کی روشنی واپس کردی پهر ميں نے دریافت کيا: تم کون ہو؟ جواب دیا: ميں خضر - اور حضرت علی ابن ابی طالب - کا شيعہ ہوں۔
١۵٣ ۔ “وفی الخرایج : روی ابُو ہاشِمِ الجعفَری انّہ ظَهَرَ برجُل مِن اهلِ سُرّ مَن رَاٴی بَرَصٌ فَتَنَغّص عَلَيہِ عَيشہ ، فَجَلَسَ یوماً الیٰ اٴبی عَلیّ الفهری، فشَکا اِليہِ حالہ ، فقال لہُ : لَو تعرّضتَ یَوماً لابی الحَسَن عَلیٍّ بن محمَّد بن الرّضا (عَلَيہم السَّلامُ ) فَسَاٴلتَہُ ان یَدعُوَلَکَ لَرَجوتُ ان یَزوُلَ عَنکَ ، فَجَلَسَ لَہُ یوماً فی الطّریقِ وَقتَ منصَرَفِہِ مِن دار المُتوکِّلِ ، فَلَما راٴہ قامَ لِيَدنومِنہُ فَيَساٴلَہُ ذلِکَ ، فقالَ : تَنحَّ عافاکَ اللہّٰ ، وَاَشارَ اليہِ بِيَدہِ تَنَحَّ عافاکَ اللہّٰ ثَلاث مرّاتٍ، فاٴبعدَ الرَّجُلُ وَلَم یجسُر اَن یَدنومِنہُ ، فانصَْرفَ فَلِقی الفهری فَعرفَہ الحالَ وَما قالَ: قَد دَعالَکَ قَبل اَن تَساٴَلَ ، فامضِ فَانَّکَ سَتُعافی ، فَانَصَرفَ الرَّجل اِلی بَيتہِ ، فَباتَ تِلکَ اللَّيلة فَلمَّا اصبَحَ لَم یَر عَلَی بدنِہِ شيئاً مِن ذلکَ ” )١)
خرائج راوندی ميں مروی ہے کہ ابو ہاشم جعفری نے روایت کی ہے کہ ایک شخص سرمن سرای (سامرا) کا رہنے والا تها اس کے اندر برص کا مرض ظاہر ہوا اس طرح اس کی زندگی کا عيش و آرام درہم برہم کردیا ایک دن ابو علی فہری کے پاس گيا اور اپنی حالت کی اس سے شکایت کی فہری نے اس سے کہا :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ الخرائج و الجرائح، ج ١، ص ٣٩٩ ، مدینہ المعاجز، ج ٧، ص ۴٧٢ ، بحار الانوار، ج ۵٠ ، ص ١۴۶ ۔ (
اگر کسی دن خود کو حضرت ابو الحسن علی ابن محمد ابن الرضا - (یعنی امام علی نقی -) کو دیکهاؤ اور ان کی خدمت اقدس ميں اپنا حال بيان کرو تاکہ وہ تمہارے حق ميں دعا کریں، مجهے اميد قوی ہے کہ تمہارا یہ مرض ختم ہوجائے گا پهر وہ شخص ایک دن حضرت کے راستہ ميں بيڻه گيا جب آپ متوکل کے گهر تشریف لا رہے تهے تو اس نے خود کو امام کو دکهایا جب اس وقت اس کی نظر حضرت - پر پڑی تو کهڑا ہوگيا تاکہ نزدیک جاکر ان سے اپنے مرض سے شفا پانے کی دعا کا طلب گار ہو حضرت امام علی نقی - نے فرمایا: دور ہوجاؤ خدا تم کو صحت و عافيت عطا فرمائے، حضرت - نے اپنے دست مبارک سے اشارہ فرمایا یہ کہ دور ہوجاؤ خدا تمہيں صحت و عافيت سے نوازے تين مرتبہ اسی جملہ کی تکرار کی تو اس شخص نے خود کو حضرت سے دور رکها اور جسارت نہيں کی کہ وہ حضرت سے نزدیک ہو پهر واپس ہوا ابو علی فہری سے ملاقات کی اور تمام واقعہ اس سے بيان کيا اور حضرت کی باتوں کو بهی اس سے بيان کيا۔ فہری نے کہا: اس عظيم المرتبت انسان نے تمہارے سوال کرنے سے پہلے تم کو دعائے عافيت دی اور کہا جاؤ اپنا کام انجام دو، یقينی طورپر عنقریب تمہيں شفا مل جائے گی وہ شخص واپس ہوا اور اپنے گهر اسی رات کو سویا جب صبح ہوئی تو اس نے اپنے برص کا کوئی اثر اپنے بدن ميں مشاہدہ نہيں کيا اور کلی طور پر وہ حضرت امام علی نقی - کی دعا کی برکت سے ختم ہوچکا تها۔
١۵۴ ۔ “وفی الامالی : بِاسنادِہِ عَن سُدَیر الصِّيرفی قالَ: جآئتِ امراٴةٌ اِلیٰ ابی عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام فقالَت لَہُ : جُعِلت فَداک انّی واَبَی وَاَهلُ بيتی نَتَوَلاکم ، فَقالَ لَها ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : صَدَقتِ فَمَا الذی تریدین ؟ مَن قالت لَہ المراٴةُ : جُعِلتُ فِداک یابنَ رَسُول اللّٰہِ اٴصابنی وَضحٌ فی عَضدی فَادعُ اللّٰہ اَن یذَهبَ ، بِہِ عَنّی ، قالَ ابو عبد اللّٰہ عليہ السلام : اللّٰهمَّ اِنک تُبری الاکمَہَ وَالابَرصَ وَتُحيی العِظامَ وَهِی رَميمٌ اٴلبسها مِن عَفوِکَ وَعافِيتَکَ ما تر یٰ اَثَر اِجابَةِ دعائی ، فَقالتِ المراٴةُ : ) وَاللّٰہِ لَقد قمت وَما بی مِنہُ قَليلٌ ولا کثيرٌ ” ( ١
کتاب امالی ميں شيخ بزرگوار علامہ طوسی (رحمة الله عليہ) نے اپنی سند کے ساته سدیر صيرفی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ایک خاتون حضرت امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوئی اور عرض کيا: ميں آپ پر قربان ،ميں ميرے باپ اور ميرے گهر والے آپ کی محب اور دوست دار ہيں تو حضرت امام جعفر صادق -نے اس سے فرمایا: تم سچ کہتی ہو، تم کيا کہنا چاہتی ہو؟ کہا: ميں آپ پر قربان ميرے بازو پر سفيد داغ ہيں دعا فرمائيں کہ الله تعالیٰ اس کو ميرے بازو سے ختم کردے تو حضرت نے ان کلمات کے ذریعہ اس کے ليے دعا کی: اے خدا! یقينا تو ابرص (مادر زاد نابينا اور برص والوں) کو شفا دیتا ہے اور بوسيدہ ہڈیوں کو زندہ کرتا ہے ان ميں روح ڈالتا ہے اپنا لباس صحت و عافيت اس خاتون کو پہنا دے اس طرح سے کہ ميری دعا قبوليت کا اثر دیکه لے ۔ اس خاتون کا بيان ہے: خدا کی قسم ! ميں اپنی جگہ سے کهڑی ہوئی تو ميں نے اس مرض سے کسی بهی قسم کا اثر باقی نہيں دیکها۔
١۵۴ ۔ محدث جليل القدر الحاج شيخ عباس قمی رحمة الله عليہ نے سفينة البحار ميں خرائج راوندی سے اسماعيل ہرقلی کا مشہور و معروف واقعہ نقل کيا ہے و کہتے ہيں: “ هُو الذَی خَرَجَ عَلی فَخذِہِ الاٴیَسرِ توثةٌ قطعہ اٴلمها عَن کَثير منْ اشغالِہِ فاَحضرَ لَہُ السَّيدُ بن طاوُوسُ اَطِباّءَ الحِلّة وَبغدادَ قالُوا هذِہِ التّوثة فَوقَ العِرق الاکحلِ وَعلاجُها خَطرٌ وَمَتی قُطِعتَ خيفَ اٴن یَنقَطعَ العِرقْ فَيَمُوتَ فَتَوجَّہ ال یسُرَّ مَن رَاٴی وَزارَ الائمة عليہم السلام وَنَزَلَ السَّردابَ فاَستَغاثَ بالاِمامِ صاحِبِ الزَّمانِ ( صَلَواتُ اللّٰہ عليہ ) ثُمَ مَضی ال یٰ دجلةٍ وَاغتَسَلَ فَرَجَعَ فَتَشَرَّفَ بِلقاءِ الامامِ عليہ السلام فَمَدّہ اليہِ وَجَعَلَ یَلمسِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ امالی طوسی، ج ١، ص ۴۶٠ ۔ (
جانبہُ مِن کتفِہِ ال یٰ ان اصابت یَدَہُ التّوثة فعصَرَها فَبَرئت فکَشَفَ عَن فَخذِہ فَلَم یَرَلَها اثَراً فتداخَلَہُ ) الشک فاَخَرجَت رَجلہُ الاٴخر یٰ ، فَلَم یَرَشَيئاً فَانطَبَقَ النّاسُ عَلَيہِ وَمَزّقَوا قميصہ” ( ١
( محدث قمی کہتے ہيں کہ: اسماعيل ہر قلی وہ ہيں کہ ان کی بائيں ران ميں “توثة” ( ٢
نامی ایک زخم ہو گيا تها اور وہ ان کے بہت سے امور سے مانع ہوا، سيد ابن طاووس رحمة الله عليہ نے حلّہ اور بغداد کے ڈاکڻروں کو بلاکر دکهایا تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایک قسم کی توثة نامی بيماری ہے جو رگِ اکحل کے اوپر ہے اس کا علاج بہت زیادہ خطرناک ہے اگر اسے کاڻا جائے تو رگ کے کٹ جانے کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے موت بهی واقع ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ہر قلی (حلہ اور بغداد کے ڈاکڻروں سے مایوس ہوگئے) اور سرمن سرای (سامرا) کے ليے روانہ ہوگئے حضرات عسکریين عليہما السلام کی زیارت کے بعد سرداب مقدس ميں پناہ حاصل کی اور وہاں حضرت امام زمانہ عجل الله فرجہ سے استغاثہ و فریاد کی توسل اختيار کيا پهر دریائے دجلہ کی طرف روانہ ہوگئے، وہاں غسل کيا اور واپس آئے (اسی اثنا ميں) امام زمانہ - کی ملاقات کا شرف حاصل کيا اس عظيم ہستی نے اپنے دست مبارک سے شانہ کی طرف سے (توثہ) زخم کی جگہ تک مس کرکے اسے دبا دیا (شبہ دور کرنے کے ليے ) دوسرے پير کو بهی نکالا تو کچه نہ دکهائی دیا پهر لوگوں نے چاروں طرف سے اسماعيل کو اپنے حصار ميں ليا اور ان کی قميص کے کپڑے کو تبرک کے طور پر نوچنا شروع کردیا۔
مولف کہتے ہيں : اس واقعہ کی تفصيل خرائج راوندی ميں ذکر کی گئی ہے۔ حضرت بقية الله الاعظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سفينة البحار، ج ٣، ص ٢٨٣ ۔ الانوار البهيہ، ص ٣۶ ۔ (
٢(۔ “توثہ” آنکه کی ایک بيماری ہے۔ خوارزم شاہی ذخيرہ ميں رقم طراز ہيں: اضافی گوشت ہے (
سرخ اور نرم توث کی شکل ميں لڻکا ہوتا ہے کبهی سياہ ہوتا ہے اور اکثر و بيشتر گوشہٴ چشم کے نزدیک ہوتا ہے اور ہميشہ سرخ اور زخمی سياہ خون اس سے خارج ہوتا ہے، بحر الجواہر ميں ذکر ہوا ہے: “” ایک قسم کی بواسير ہے جو خلوت گاہ ميں ہوتی ہے۔ مولف کہتے ہيں: دوسری جگہوں پر بهی نکلتا ہے (هخدا( روحی لہ الفداء کے عاشقين وہاں رجوع کریں۔
مزید مولف کہتے ہيں: ان چند مورد کو اختصار کے ساته تبرک کے طور پر خاندان عصمت و طہارت اور ائمہٴ ہدی عليہم السلام کے چاہنے والوں کی چشم و دل کے روشنی کے ليے ہم نے ذکر کيا ورنہ اگر بنا یہ ہو کہ جو لوگ ان کے مقدس وجود کی برکتوں سے اپنی زندگی ميں یا مرنے کے بعد ان ميں ائمہ کے مشاہد مشرفہ اور مشہد مقدس ميں ثامن الائمہ امام رضا - بالخصوص حضرت صاحب العصر و الزمان مہدی آل محمد کے پُر برکت وجود () سے پرندے چہچہاتے رہيں اور درختوں ميں پتے رہيں اور پهل تيار ہوتے رہيں نيز مادی و معنوی اور جسمانی و روحانی امراض سے شفا حاصل کيا مزید اپنی لا ینحل مشکلات کو حل کيا ہے اس کو شمار کریں تو اس کا احصاء کرنا ہماری قدرت سے باہر اور مثنوی کے ليے سو من دفتر درکار ہوں گے اللهم عجّل فرجهم وفرّجنا بفرجهم بمحمد وآلہ آمين اے خدا! ان کے ظہور ميں تعجيل فرما اور ان کے ظہور سے ہميں آسائش عطا فرما بمحمد و آلہ الطاہرین۔ آمين۔