قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

٢۔ بے کراں سمندر / ١۶
١۶ ۔ وَبَحرٌ لا ینَزِفُہُ المُستَْنزِفُونَ (یہ وہ سمندر ہے جسے پانی نکالنے والے ختم نہيں
کرسکتے): نزف، کنویں سے تمام پانی کو تدریجی طور پر نکالنے کو کہتے ہيں، یعنی قرآن کریم ایسا سمندر ہے کہ اس کے تمام پانی کو نہيں نکالا جاسکتا اگرچہ تدریجا اور وقفہ کے ساته ہی کيوں نہ ہو، یہاں تک کہ اگر تمام لوگ اس سے استفادہ کریں پهر بهی اسے ختم نہيں کرسکتے۔
یعنی وہ علوم جن کا کتاب عزیز سے استفادہ کيا جاتا ہے اس کی حد نہيں ہے اس ميں جو کچه ہوچکا جو ہو رہا ہے یا قيامت کے دن تک ہونے والا ہے سب کا علم اس ميں موجود ہے۔ قرآن مجيد ہی وہ ہے جو حلال و حرام ، فرائض، فضائل، ناسخ و منسوخ، رخصت و عزیمت، خاص و عام، صبر و امثال، مرسل و محدود، محکم و متشابہ کو واضح طور پر بيان کرنے والا ہے جو علوم و احکام کی پيچيدگيوں مجملات اور مشکلات کی تفسير کرنے والا ہے۔ قرآن مجيد کے مطالب جو کلمات الٰہيہ پر مشتمل ہيں وہ بے نہایت عظيم ہيں کہ خود قرآن اس معنی کو بيان کر رہا ہے:
الله تعالیٰ نے فرمایا: <قُل لَو کَانَ البَْحرُْ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ البَْحرُْ قَبلَْ اٴَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ ) رَبِّی وَلَو جِئنَْا بِمِثلِْہِ مَدَدًا > ( ١
آپ کہہ دیجيے کہ اگر ميرے پروردگار کے کلمات کے ليے سمندر بهی روشنائی بن جائيں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ہو جائيں گے چاہے ان کی مدد کے ليے ہم ویسے ہی سمندر اور بهی لے آئيں۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ وَالبَْحرُْ یَمُدُّہُ مِن بَعدِْہِ سَبعَْةُ ) اٴَبحُْرٍ مَا نَفِدَت کَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِيمٌ > ( ٢
اور اگر روئے زمين کے تمام درخت قلم بن جائيں اور سمندر کا سہارا دینے کے ليے سات سمندر اور آجائيں تو بهی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہيں ہيں بے شک الله صاحب عزت بهی اور صاحب حکمت بهی ہے۔
پہلی آیت ميں فرماتا ہے:“ اگر سمندر اپنے تمام حجم کے ساته عالمين کے پروردگار کے کلمات تحریر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ کہف، آیت ١٠٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ لقمان، آیت ٢٧ ۔ (
کرنے کے ليے روشنائی بن جائے تو سمندر ختم ہوجائے گا قبل اس کے کہ کلمات الٰہيہ تمام ہوں اگرچہ اس ميں دوسرے سمندر کا اضافہ بهی کيا جائے” ليکن دوسری آیت ميں ایک بہت دقيق مطلب کی طرف اشارہ کيا گيا ہے فرماتا ہے: “روئے زمين کے تمام درخت (خواہ باغات کے تمام درخت ہوں یا طبيعی جنگلوں کے کہ ان ميں سے بہت سے کی لمبائی ایک ميڻر یا دو ميڻر کی حد تک ہو) ان سب کو قلم بنائيں اور سمندر کے پانی کو روشنائی پهر اس ميں دوسرے سات سمندر کا اضافہ کریں پهر بهی خدا کے کلمات تمام ہونے والے نہيں ہيں”۔ روئے زمين کے تمام درخت اگر معمولی قلم کی شکل اختيار کرليں تو اس کی حد معلوم کرنا اور اسے شمار کرنا ہمارے بس کی بات نہيں ہے اس کے علاوہ اگر تمام سمندر اور اقيانوس تمام تعاون اور مدد کرنے کے ساته روشنائی بن جائيں تو طبيعی طور پر اس کے لکهنے والے جن و انس کے تمام خلائق ہی ہونے چاہئيں، اس کے باوجود یہ سب کچه ختم ہوجائے گا ليکن کلمات الٰہيہ اختتام پذیر نہ ہوں گے۔
حضرت حجّت، مہدی اہل بيت سالت عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف اسی طرح ان کے آباء و اجداد طاہرین کہ جن پر قرآن نازل ہوا اور اس کے تمام علوم کے حامل ہيں علوم الٰہی کے سمندر اور قرآن مجيد ہيں کہ جتنا بهی ان سے فيض حاصل کيا جائے اور لوگ سيراب ہوں پهر بهی ختم ہونے والے نہيں ہيں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ خود ان عظيم ہستيوں سے ایسی روایات صادر ہوئی ہيں جو اس معنی پر دلالت کرتی ہيں شيخ مفيد رحمة الله عليہ کی کتاب اختصاص ميں وہ موسی المبرقع ١) کی حدیث ميں جو یحيیٰ ابن اکثم نے حضرت سے دس سوال دریافت کيے تهے ان ميں ) سے ایک یہ ہے: مجهے اس آیت کے بارے ميں باخبر کریں کہ سمندر کيا ہيں؟ اور اس سے کيا مراد ہے؟
الله تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ وَالبَْحرُْ یَمُدُّہُ مِن بَعدِْہِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ابو احمد موسیٰ المبرقع امام ہادی علی نقی - کے بهائی ہيں اور رضوی سادات کے جدّ ( بزرگوار ہيں۔
سَبعَْةُ اٴَبحُْرٍ مَا نَفِدَت کَلِمَاتُ الله>( ١) ماهٰذا لاٴ بحرُ و اَیْن هِیَ ؟
١٢۴ ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم - جواب ميں فرماتے ہيں: “ وَاَمّا قَولُہُ تعال یٰ< وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ > الآیہ فَهُوَ کَذلکَ لَو اَنَّ اشجارَ الدّنيا اقلامٌ وَالبَحرُ مدادٌ لَہُ بَعدَ سَبعَةَ مَددِ البحُرِ حَت یٰ فُجّرَتِ الارضُ عيوناً فَغَرق اصحابُ الطّوفان لَنَفَدت قَبل ان تَنفَدَ کلِماتُ اللہِّٰ عزَّوَجَلَّ ) الیٰ قولہ عليہ السلام وَنَحْنُ الکَلماتُ التی لا تُدرَک فَضائلنُا وَ لا تُستَقصی” ( ٢
یعنی اگر تمام اشجار قلم بن جائيں، تمام سمندر روشنائی بن جائيں بلکہ اس ميں سات دریا زمين سے پهوٹ کر مزید شامل ہوجائيں ، ایسے ہی ہےں جيسا کہ اصحاب طوفانِ (نوح) غرق ہوئے، پهر بهی الله کے کلمات ختم نہيں ہوسکتے(اس کے بعد امام - نے بعض چشموں کے نام بہ عنوان مثال ذکر کيے اور وہ سات چشمے یہ ہيں) چشمہٴ کبریت، چشمہ ٴ یمن، چشمہ ٴبرہوت، چشمہ ٴ طبریہ، چشمہٴ حمر ( ٣) چشمہ ٴ ماسبذان (جس کو المنيات بهی کہا جاتا ہے) چشمہٴ افریقہ (جس کو بسلان بهی کہتے ہيں) چشمہٴ باجروان (بحرون نسخہ بدل) لسان بهی کہتے ہيں فلاں چشمہ فلاں چشمہ پهر فرمایا: ہم لوگ وہ کلمات ہيں کہ جن کے فضائل کو درک نہيں کيا جاسکتا اور نہ ہی ان کا احاطہ کيا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ لقمان، آیت ٢٧ ۔ (
٢(۔ تاویل الآیات، ج ١، ص ۴۴٠ ۔ (
٣(۔ حَمَّة حاء پر فتحہ اور تشدید ، ایسے چشمے جن کا پانی گرم ہوتا ہے اور معلول و اپاہج لوگ ( اور بعض دوسرے افراد اس سے شفا حاصل کرتے ہيں یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر پانی کے ليے ایک منبع اور اس سے کوئی چيز کم نہيں ہوگی اس کے باوجود مکمل طور پر نابود اور ختم ہوجائيں گے مگر کلمات الٰہيہ کی کوئی انتہا نہيں ہے۔ اور ممکن ہے کہ ان چشموں کے اسماء سائل کے ذہن ميں موجود ہوں اور امام- نے اس کو انہيں سے قانع کيا ہو۔

٢۔ چشم / ١٧
١٧ ۔ وَ عُيُونُ لا یَنضِبُهاَ ال مٰاتِحُونَ (یہ وہ چشمہ ہے جسے الچنے والے کم نہيں کرسکتے):
“نضب” جاری و ساری اور ختم ہونے کے معنی ميں ہے، نضب الماء، پانی جاری ہوا، اور اس کا طغيانی حالت پيدا کرنا، نضب عمرہ ، یعنی اس کی عمر ختم ہوگئی، نضب البحر، سمندر کا پانی خشک ہوگيا، چشمے کا پانی کم ہوگيا، نضب ماء وجهہ، ان کی عزت چلی گئی اور کسی چيز سے شرم نہيں کرتے وغيرہ کے معانی ميں استعمال ہوا ہے۔
”متح متحا” پانی کهينچنااگرچہ ڈول ہی سے نکالے “متح الشجرة” درخت کو کاڻنا یا کاڻنے کو کہتے ہيں بئر متوح کم نشيب والے کنویں کو کہتے ہيں جس سے آسانی کے ساته پانی نکالا جاسکے۔
یعنی قرآن مجيد ایسا کنواں ہے کہ جس کا پانی صاف و شفاف ، شيرین، گوارا یا ایسا چشمہ ہے کہ جتنا بهی اس سے استفادہ کيا جائے اور سيرابی حاصل کی جائے کبهی بهی اس ميں کوئی تبدیلی واقع نہيں ہوگی، کثيف نہيں ہوگا اس ميں سے کوئی شے کم نہيں ہوگی اور نہ ہی خشک ہوگا۔
امام عصر (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود اولين و آخرین کے علوم کا منبع اور سرچشمہ ٴ آب حيات ہے کہ جتنا بهی اس سے استفادہ کيا جائے کبهی اس ميں کوئی شے کم نہيں ہوگی اور کسی بهی صورت ميں اختتام پذیر ہونے والا نہيں ہے، اس ليے کہ ائمہٴ ہدیٰ علوم الٰہی کے خزانے اور وحی و تنزیل کے معادن و مراکز ہيںاور عظيم المرتبت پيغمبر (ص) تمام انبياء ان کے اوصياء کے علم کے وارث ہيں اور یہ عظيم ہستياں ہيں کہ تمام الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتابيں ان کے پاس موجود ہيں ان سب کے مطالب کے اختلاف کو ان کی زبانی جانتے ہيں۔
١٢۵ ۔ “فی الکافی بِاسنادِہِ عَنْ عَبدِ الرّحمٰن بن کثيرٍ قالَ: سِمَعت اَبا عَبدِ اللہّٰ ) عليہ السلام یَقولُ نَحنُ وُلاةُ الاَمرِ اللہِّٰ وَخَزَنَةُ عِلم اللہِّٰ وَ عَيبةُ وِحیِ اللہِّٰ ” ( ١ کافی ميں کلينی عليہ الرحمہ اپنی سند کے ساته عبد الرحمن ابن کثير سے روایت کرتے ہيں کہ ان کا بيان ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق کو کہتے سنا: ہم واليان امر الٰہی ہيں ہم علوم الٰہی کا خزانہ ہيں اور وحی الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہيں۔ ١٢۶ ۔ “وفيہ عَنْ سُدَیْرٍ عَن ابی جَعفرٍ عليہ السلام: قُلتُ لَہُ : جعلت فداک ما انتُم ؟ قالَ نَحنُ خُزّانُ عِلمِ اللہِّٰ وَنَحنُ تراجِمَةُ وَحیِ اللہِّٰ وَنَحنُ الحجَّةُ البالِغَةُ عَل یٰ مِن دُونَ السّ مٰآء وَمَن فَوق ) الاَرضِْ ” ( ٢
اسی کتاب ميں منقول ہے کہ سدیر امام محمد باقر - سے عرض کرتے ہيں: آپ کيا ہيں؟ امام - نے فرمایا: ہم علم الٰہی کے خزانہ دار ہيں ، ہم وحی الٰہی کے ترجمان ہيں، ہم خدا کی حجّت بالغہ ہيں ان لوگوں پر جو آسمانوں کے نيچے اور زمين کے اوپر ہيں۔
) ١٢٧ ۔ دوسری روایت ميں ہے کہ : “ لاٰ عَل یٰ ذَهَبٍ وَلا عَلی فضَّةٍ اِلا عَل یٰ عِلمِہِ ” ( ٣ ہم زمين وآسمان ميں الله کے خزانہ دار ہيں مگر سونے چاندی کے خزانہ دار نہيں بلکہ ہم علم الٰہی کے خازن ہيں۔
مولف کہتے ہيں: ان تين روایت کو تبرکاً ہم نے ذکر کيا ہے مذکورہ عناوین کی دوسری روایات کتاب اصول کافی ( ۴) ميں موجود ہيں قارئين کرام وہاں ملاحظہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩٣ ، باب ان الائمہ عليہم السلام ولاة امرالله و عيبة وحی الله”۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ۴۔ (
٣(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١٩٢ ، حدیث ٢۔ (
٢۶۴ ۔ ، ۴(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١۴ (

٢۔ ہدایت کا چشمہ / ١٨
١٨ ۔ وَمَنا هِلُ لا یَغيضُهَا الوارِدُونَ ؛ (ایسا گهاٹ ہے کہ جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہيں کرسکتے) منهل ، پانی پينے کے مقام اور جگہ کے معنی ميں ہے ۔ جيسے چشمہ اور نہر۔
غيض ، نقصان کے معنی ميں ہے کسی شے کو خراب کرنے یا داخل کرنے کو کہتے ہيں جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَقِيلَ یَااٴَرضُْ ابلَْعِی مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ اٴَقلِْعِی وَغِيضَ المَْاءُ وَقُضِیَ ) الاْٴَمرُْ وَاستَْوَت عَلَی الجُْودِیِّ> ( ١
طوفان نوح کے واقعہ ميں ہے: (اور قدرت کا حکم ہوا کہ اے زمين! پانی کو نگل لے اور اے آسمان! اپنے پانی کو روک لے اور پهر پانی گهٹ گيا اور کام تمام کردیا گيا اور کشتی کوہ جودی ) پر ڻهہر گئی)۔ دوسری آیت ميں فرمایا: <اللهُ یَعلَْمُ مَا تَحمِْلُ کُلُّ اٴُنثَی وَمَا تَغِيضُ الاْٴَرحَْامُ > ( ٢
یعنی یہ آسمانی عزیز ترین کتاب ایسا سرچشمہ ہے کہ اس پر وارد ہونے سے اس ميں کوئی کمی نہيں واقع ہوتی، یہ عادی اور مادی چشموں کی طرح نہيں ہے کہ اگر حد سے زیادہ اس سے لوگ استفادہ کریں تو اس ميں کمی واقع ہوجائے اور اس پر کثرت سے وارد ہونے والے اس کو خراب اور کثيف کردیں بلکہ وہ اس گہرے کنویں کی طرح ہے جو اصل پانی کے مادّہ سے موجود ہے جتنا بهی آپ پانی نکاليں کبهی بهی اس ميں (FELTER) متصل ہے اور اس ميں فلڻر کوئی اثر نہيں پڑے گا۔
حضرت ولی عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود اور تمام ائمہٴ اطہار کے علوم اور ان کے سارے فضائل و مناقب لوگوں کے ليے چشمہ اور روشنی حاصل کرنے کا مرکز ہيں جو ختم ہونے والے نہيں ہيں کيونکہ یہ عظيم ہستياں تمام نبيوں اور رسولوں بالخصوص حضرات خاتم الانبياء کے علوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ ہود، آیت ۴۴ ۔ (
٢(۔ سورئہ رعد، آیت ٨۔ (
کے نہ صرف یہ کہ وارث ہيں بلکہ آنحضرت (ص) کے علم ميں شریک ہيں۔
١٢٨ ۔ “وفی الکافی بِاِسنادِہِ عَنْ محمدِ بن مُسلِمٍ قالَ سَمِعت اَبا جعفرٍ عليہ السلام یَقُولُ نَزَلَ جَبرَئيل عَلی محمَّدٍ (ص) بُرمّا نَتَينِْ مِنَ الجنَّةِ فَلَقِيہ عَلیٌ عليہ السلام فَقالَ ماهاتانِ الرُّمانتانِ اللَّتان فی یدَکَ ؟ فَقالَ امْا هٰذِہِ فالنّبوَةُ لَيسَ لَکَ فيها نصيبٌ ، وَاٴمّا هذِہِ فالعِلمُ ، ثمّ فَلَقَها رَسُولُ اللّٰہُ (ص) بِنِصفَينِ فاعطاہُ نصفها وَاٴخَذَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) نِصفَها ، ثُمَّ قالَ : اَنتَ شَریکی فيہِ وَاَنَا شَریکُکَ فيہِ ، قالَ فَلَم یَعْلَم وَاللّٰہ رَسُولُ اللّٰہ (ص) حَرفاً مِمَّا عَلَّمہ اللہُّٰ عَزّوَجَلَّ الاَّ وَقَد عَلّمہ عَليّاً ) ثمّ انتَهی العِلمُ الينا ، ثُمَّ وَضَعَ یَدَہُ عَل یٰ صَدرِہِ ” ( ١
شيخ بزرگوار کلينی رحمة الله عليہ کافی ميں اپنی سند کے ساته محمد ابن مسلم سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: ميں نے امام محمد باقر - کو کہتے سنا: جبرئيل حضرت محمد مصطفی (ص) کے پاس دو انار جنت سے لائے اس کے بعد آنحضرت (ص) کی حضرت علی - سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے دریافت کيا: آپ کے ہاته ميں یہ دو انار کيسے ہيں؟ فرمایا: یہ ایک نبوت ہے جس ميں تمہارا حصہ نہيں ليکن دوسرا علم ہے اس کے بعد آپ نے دو ڻکڑے کيے۔ نصف حضرت علی - کو عطا کيا اور نصف خود رسول خدا (ص) نے ليا اور حضرت علی - سے فرمایا: اس ميں تم ميرے شریک ہو اور ميں بهی اس ميں تمہارا شریک ہوں۔
پهر امام محمد باقر - نے فرمایا: خدائے عزوجل کی قسم! اگر پيغمبر اکرم (ص) کو جو کچه الله تعالیٰ نے تعليم دی ان ميں سے ایک حرف بهی فروگزار نہيں کيا بلکہ سب کا سب علی کو تعليم دیا۔ پهر ان بزرگوار کے بعد وہ ہميں وراثت ميں ملا۔ اس کے بعد امام محمد باقر - نے اپنے دست مبارک کو اپنے سينے پر رکها۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢۶٣ ۔ (
مولف کہتے ہيں: یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم علم رسول اکرم (ص) ميں شریک اور آنحضرت کے علوم کے وارث ہيں، وہ سينہ بہ سينہ یکے بعد دیگرے ہماری طرف منتقل ہوا پهر وہ خاتم الاوصياء حضرت مہدی آل محمد صاحب العصر و الزمان عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے ہر دل عزیز وجود تک پہنچا لہٰذا ان سب کا علم کم ہونے والا نہيں ہے اور جتنا بهی زیادہ اس سے استفادہ کيا جائے ختم نہيں ہوگا۔

٢۔ منزل ہدایت / ١٩
١٩ ۔ “وَمَنازِلُ لا یَضِلُّ نَهجَهَا المُسافِرُونَ ؛” (وہ ایسی منزل ہے کہ جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بهڻک نہيں سکتے(
منازل، منزل کی جمع،گزرنے والوں کے ڻهہرنے اور آرام کرنے کی جگہ کو کہتے ہيں کہ قافلے والے ان منازل کو گم نہ کریں۔ یعنی قرآن مجيد بهی خدا ئے عزوجل کی راہ پر چلنے والوں کے ليے منزل اور ڻهہرنے کی جگہ ہے کہ جسے مسافرین کسی وقت راستہ کو گم نہيں کرتے اس ليے کہ ایسا صاف و شفاف سيدها جادہ ہے کہ کبهی بهی اس ميں کجی اور انحراف نہيں پيدا ہوسکتا لہٰذا جو شخص بهی اس راستہ کی سير کرے گا بلاشک و شبہ شاہراہِ ہدایت و سعادت تک پہنچ جائے گا۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَالَّذِینَ جَاہَدُوا فِينَا لَنَہدِْیَنَّہُم سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ المُْحسِْنِينَ> ( ١ اور جن لوگوں نے ہمارے حق ميں جہاد کيا ہے ہم انہيں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقينا الله حُسنِ عمل والوں کے ساته ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ عنکبوت ، آیت ۶٩ ۔ (
>إِنَّ ہَذَا القُْرآْنَ یَہدِْی لِلَّتِی ہِیَ اٴَقوَْمُ وَیُبَشِّرُ المُْؤمِْنِينَ الَّذِینَ یَعمَْلُونَ الصَّالِحَاتِ اٴَنَّ لَہُم اٴَجرًْا ) کَبِيرًا > ( ١
بے شک یہ قرآن اسی راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے اور ان صاحبان ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نيک عمل بجا لاتے ہيں کہ ان کے ليے بہت بڑا اجر ہے۔
حضرت حجة ابن الحسن اور ان کے اجداد طاہرین عليہم السلام بهی اسی طرح ہيں جيسا کہ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں وارد ہوا ہے۔
١٢٩ ۔ انتُمُ الصِراطُ الاَقومُ وَالسَّبيلُ الاٴعظَم ، مَنْ اتاکُم نَجیٰ وَمَن لَم یَاٴْتِکُم هَلَکَ ،ان عظيم ہستيوں سے تمسک اختيار کرنے والا اور ان کی راہ پر چلنے والا سعادت تک پہنچا، دنيا اور آخرت کی ہلاکتوں سے نجات پاگيا ورنہ بے چارہ بدبخت اور دونوں جہان ميں نقصان اڻهانے والا ہے۔
١٣٠ ۔ “رویٰ ابراہيمُ بْنُ محمَّد الحَمَوینی مُسنداً عَن الاعْمَش عَن ابراہيم ، عَن عَلْقَمہ وَالاسود قالا:
اتَينا اَبا اَیوب الاَنصاری وَقلنا لَہُ یا اَبا اٴیوبِ انَّ اللّٰہِ تعالیٰ اَکرَمَک بنبيّہ حَيثُ کانَ ضَيفاً لَکَ فَضيلة مِن اللّٰہ فَضَّلَکَ بِها اخبرنا مخرَجِکَ مَعَ عَلیٍّ عليہ السلام تُقاتِلُ اَهلَ لا اِلہ الاَّ اللّٰہ ، قالَ : اُقسمُ لکما بِاللّٰہِ لَقَد کانَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) فی هذا البَيتِ الذی انتُما فيہِ مَعی وَما فی البَيتِ غَيرُ رَسَول اللہِّٰ (ص) ، وَعَلیٌ عليہ السلام جالِسٌ عَن یَمينِہِ وَاٴنَا جالِسٌ عَن یَسارِہِ وَاَنَس قائمٌ بَينَ یَدَیہِ اِذحرَّکَ البابُ فَقالَ رَسُولُ اللہّٰ (ص) اِفتَح لِعَمّار الطّيب المُطَيّب فَفَتَحَ النّاس البابَ وَدَخَلَ عَمّارٌ فَسَلَّمَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
عَلیٰ رسول اللّٰہ (ص) فَرَحَّبَ بِہِ ثم قالَ لِعَمّارٍ انّہ سَيَکُونُ فی امّتی بَعدی هُناة حتّی یَختلِفَ السَّيف فيما بَينَهم وَحتّی تَقتل بَعضُهُم بَعضاً ، فَاِذا رَاٴیتَْ لٰذِک فَعَلَيکَ بِهذا الاٴضلَْعِ عَن یمينی ، یَعنی عَلیَّ بن ابی طالبٍ عليہ السلام فَاِذا سَلَکَ النّاسُ کُلّهم وادیا وَسَلَکَ عَلیٌّ وادیاً فَاسلک وادِی عَلیٍّ وَخلّ عَن النّاسِ یا عمار انَّ عَلياً لا یردّکَ عَن هدیً وَلا یَدُلُّکَ عَلیٰ رَدیً ، یا عمّار طاعةُ ) عَلیٍّ طاعَتی وَ طاعتی طاعَة اللّٰہ عزّوجلّ” ( ١
ابراہيم ابن محمد حموینی نے اپنے اسناد کے ساته علقمہ اور اسود سے روایت کی ہے کہ ان کا بيان ہے: ہم دونوں ابو ایوب انصاری کی خدمت ميں حاضر ہوئے (جو مکہٴ مکرمہ سے مدینہ ٴ منورہ کی طرف ہجرت کرتے وقت حضرت رسول اکرم (ص) کے ميزبان تهے) اور ہم نے عرض کيا: اے ابو ایوب ! الله تعالیٰ نے پيغمبر اسلام (ص) کے مہمان ہونے کی برکت سے بزرگی اور فضيلت کی دولت سے مالا مال کيا ہے ہميں اپنے خروج کی وجہ بتائيے کہ آپ نے علی ابن ابی طالب - کے ساته کلمہ گویوں سے کيوں جنگ کی (جو خدا کو یکتا تسليم کرکے اس کی عبادت کرتے ہيں)۔
اور (شاید ان کی نظر ميں نہروان کے خوارج ہوں) ابو ایوب انصاری نے کہا: ميں تم دونوں سے الله کی قسم کها کر کہتا ہوں ميرے گهر ميں رسول خدا (ص) موجود تهے جس گهر ميں تم دونوں ميرے ساته بيڻهے ہوئے ہو۔ حضرت علی - ، رسول خدا (ص) کی دائيں طرف اور انس رسول الله (ص) کے سامنے تشریف فرما تهے گهر ميں ہمارے علاوہ اور کوئی موجود نہيں تها اس دوران دقّ الباب ہوا رسول خدا (ص) نے انس سے فرمایا: عمار کے ليے دروازہ کهول دو (وہ عمار جو ہر لحاظ سے پاک و پاکيزہ، طيّب و طاہر تهے) لوگوں نے دروازہ کهول دیا، عمار نے داخل ہوکر رسول خدا (ص) کو سلام عرض کيا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ٣٨ ، ص ٣٧ ، بشارة المصطفیٰ، ص ٢٣٢ ، ینابيع المودة، ج ٢، ص ٢٨۶ ۔ (
رسول خدا (ص) نے آپ کو سلام کا جواب دیا ان کا احترام کيا اور خوش آمدید کہہ کر عمار سے فرمایا: عنقریب ميرے بعد ميری امت ميں ناگفتہ بہ امور صادر ہوں گے آخرکار ان امور کی وجہ سے لوگوں ميں تلوار چلے گی وہ ایک دوسرے کو قتل کریں گے جب تم ان باتوں کو دیکهو تو ميری دائيں طرف بيڻهنے والے مرد اضلع ( ١) یعنی علی ابن ابی طالب کا ساته دینا، اگر تمام لوگ ایک راستہ پر چليں اور علی تنہا دوسرے راستہ کو اختيار کریں تو تم انہيں کے راستہ کو منتخب کرنا اور انہيں کی پيروی کرنا اور دوسرے تمام لوگوں کے راستے کو چهوڑ دینا (اور یاد رکهو!) اے عمار! علی - (کسی وقت بهی) تم کو راہِ ہدایت سے برگشتہ نہيں کرے گا اور نہ ہی تمہيں ناپسند امور اور انحرافی و باطل راستوں کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گا، اے عمار! علی کی اطاعت و فرماں برداری ميری اطاعت ہے اور ميری اطاعت بهی الله تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری ہے۔
حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - جو ہر قسم کے فضائل و مناقب اور کمالات پر فائز تهے ان کے گيارہ فرزند ارجمند عليہم السلام بهی ان کے وارث ہيں چنانچہ فرمایا: ١٣١ ۔ “اوّلنا محمّد وا وسطنا محمّد وآخرنا محمّد و کلّنا محمّد ” ( ٢) (ہمارا اول محمد ہے ہمارا اوسط محمد ہے ہمارا آخر محمد ہے اور ہم سب ہی محمد ہيں) سب کے سب ایک ہی نور ہيں۔
مذکورہ روایت ميں حضرت امير المومنين علی -کے اعلیٰ اور عظيم مرتبہ کی تصریح کی اور یہ کہ وہ ایک امت بلکہ سارے لوگوں کے مقابل ميں وہ پوری امت ہيں، اور اگر تمام لوگ اور ہر ایک امت مختلف راستوں پر یا بالاتفاق سب ایک راستہ کو اختيار کریں ليکن علی - ان سب کے برخلاف چليں تو صرف راہِ مستقيم ، ہدایت اور سعادت کا راستہ علی کا ہے اور ان سب کا راستہ ضلالت و گمراہی اور بدبختی کا ہے جس کا نتيجہ ہلاکت اور نقصان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اضلع اُس شخص کو کہتے ہيں جس کے سر کے آگے بال کم ہوتے ہيں۔ (
٢(۔ غيبت نعمانی، ص ٨۶ ، بحار الانوار، ج ٢۶ ، ص ۶، ص ١۶ ، تفسير قمی، ج ١، ص ١٨ ۔ (


٢۔ نورانی نشان / ٢٠
٢٠ ۔ “وَاَعلامٌ لا یُعم یٰ عَنها السّائِرُونَ ” (وہ نشان منزل ہے جو راہ گيروں کی نظروں سے اوجهل نہيں ہوسکتا ہے(
یہ عزیز ترین الٰہی کتاب بہت نورانی اور روشن نشانی ہے کہ اس کی سير کرنے والے نابينا نہيں ہوسکتے۔