|
١١ ۔ خزانہ /٢
١١ ۔ “فَهُوَ مَعدِْنُ الایمانِ وَ بُحبوُحَتُہُ” (یہ ایمان کا معدن و مرکز ہے(
پس کلام الله مجيد معدن ایمان اور مرکز ہے یعنی مرکز ایمان ہے ، اس ميں شباہت کی
وجہ یہ ہے کہ معدن، رشد و ونمو کی جگہ اورمرکز ہوتا ہے جس ميں انواع و اقسام کے جواہرات
سونا چاندی اور بہت سے قيمتی پتهر جيسے عقيق وفيروزہ وغيرہ ہوتے ہيں اور چوں کہ الله اور
اس کے رسول پر ایمان رکهنا عقلاً اور مومنين کے نزدیک نفيس ترین اور گراں قدر جواہرات ميں
سے ہے کہ جس سے بالاتر گوہری تصور نہيں کرسکتاعين اسی حالت ميں جس سے استفادہ
کے ليے استخراج کيے جا رہے ہيں وہ قرآن مجيد ہے، لہٰذا حضرت امير المومنين علی نے اپنے
گراں قدر کلام ميں قرآن کو اس معدن کا جوہر قرار دیا اور اس بات کو مدّنظر رکهتے ہوئے کہ
ایمان کے تمام پہلووٴوں اس کے اجزاء و شرائط اور اس کے اعمال و مراسم قرآن کے محور پر
گردش کرتے ہيں نيز قرآن ایک مرکز اور دائرہٴ ایمان کی بہ نسبت قطب کی حيثيت رکهتا ہے لہٰذا
حضرت نے فرمایا کہ وہ مرکز ایمان ہے۔
ائمہٴ اطہار عليہم السلام اس آیہٴ کریمہ کے حکم سے معادن وحی و تنزیل اور ایمان کا
) منبع و مبداء اور سرچشمہ ہيں<ہَذَا عَطَاؤُنَا فَامنُْن اٴَو اٴَمسِْک بِغَيرِْ حِسَابٍ > ( ١
ایمان کا تدریجی طور پر عطا کرنا چونکہ وہ اختلاف مراتب کا حامل ہے لہٰذا اس صاف و
شفاف سرچشمہ سے ہر مومن کی صلاحيت اور قوت برداشت اور ظرفيت کے اعتبار سے عطا
کيا جائے گا۔
دوسری تعبير ميں ان عظيم ہستيوں کی محبت و ولایت جو وہی ایمان ہے ایسا گوہر ہے
کہ بہت قيمتی اور گراں قدر ہے کہ اگر تمام دنيا و ما فيہا اور جن چيزوں پر آفتاب کی روشنی
پڑتی ہے اس سے ردّو بدل یا معاملہ کرنے کے ليے آجائيں تو وہ افراد جو صاحبانِ عقل و خرد
ہيںردّ و بدل نہيں کریں گے۔
١٢ ۔ علم کا سمندر /٢
١٢ ۔ “وَ یَنابيعُ العِلمِْ وَبُحوُرُہُ ” (علم کا چشمہ اور سمندر(
تمام علوم قرآن مجيد سے نشاٴة پاتے ہيں جو دریاوٴں اور سمندروں کی صورت ميں فيض
یاب ہوتے ہيں اس جہت سے کہ تمام علوم اپنے تمام اقسام کے ساته خواہ وہ الٰہيات، طبيعات،
اقتصادیات اور سياسيات وغيرہ سے ہی مربوط ہوں یہ سب کے سب اسی کے قطرات کے
فيوضات و برکات ہيں جو علم و دانش کے تشنہ کاموں کی تشنگی بجها کر حيات عطا کرتا ہے
جس طرح چشموں سے پانی جاری ہوتا ہے اور وہ انسانوں حيوانوں چراگاہوں، کهيتوں، درختوں
اور باغات کی آبياری کرتے اور وہ اس سے سيراب ہوتے ہيں۔ جس طرح دریاؤں اور سمندروں ميں
آب بيکراں پایا جاتا ہے قرآن مجيد کے مضامين بهی انواع و اقسام کے علوم و فنون پر مشتمل
ہيں لہٰذا (بحور) دریاؤں سے تعبير کيا گيا ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: < وَلاَرَطبٍْ وَلاَیَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ ص، آیت ٣٩ ۔ (یہ سب ميری عطا ہے اب چاہے لوگوں کو دے دو یا اپنے پاس رکهو تم (
سے حساب ہوگا۔(
٢(۔ سورئہ انعام، آیت ۵٩ ۔ (
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَمَا مِن غَائِبَةٍ فِی السَّمَاءِ وَالاْٴَرضِْ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِينٍ > ( ١
الله تعالیٰ نے فرمایا: <وَنَزَّلنَْا عَلَيکَْ الکِْتَابَ تِبيَْانًا لِکُلِّ شَیءٍْ وَہُدًی وَرَحمَْةً وَبُشرَْی
) لِلمُْسلِْمِينَ > ( ٢
ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجيد ميں جو چاہو خشک و تر اور جو کچه آسمان و
زمين ميں ہے اور ہم سے پوشيدہ ہے وہ سب کتاب مبين جو قرآن مجيد ہے اس ميں موجود ہے
اور تيسری آیت ميں رسول اکرم سے خطاب ہورہا ہے کہ ہم نے کتاب (قرآن) کو آپ پر نازل کيا
ہے جس ميں تمام ضروریات زندگی کی ہر شے کی وضاحت موجود ہے اور یہ کتاب تمام اطاعت
گزاروں اور مسلمانوں کے ليے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔
مولف کہتے ہيں: عالمی مصلح امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا مقدس وجود
جو تمام انبياء اور اوصياء کے علوم کا وارث جو معادن وحی و تنزیل سے ہے معتبر روایات ميں اس
کی طرف اشارہ کيا گيا ہے۔
١٠٢ ۔ “وَفی الکافی بِاِسنادِہِ عَن یَحيیَ بنِْ عَبد اللہّٰ ابی الحَسَنِ صاحِبِ الدَّیلَْمِ ( ٣) قالَ
سَمِعْتُ جَعْفَر بن مُحمَّد عليہما السلام یَقُولُ - وَعِندَہُ اُناسٌ مِن اهل الکُوفَةِ: عَجَباً لِلنّاسِ - انَّهُم
اَخَذوا عِلمهم کُلّہ عَن رَسول اللّٰہ (ص) فَعَملوا بہِ وَاهتَدَوا یَرَونَ انَّ اَهلَْ بيتہ لَم یاٴخذُوا عِلمَہ وَنَحن
اهلُ بيتہ وَذُریّتہ ، فی مَنازِلِنا نَزَلَ الوَحیُ وَمِن عِندنا خَرَجَ العِلم اليهمِ ، اٴفَيرَونَْ انَّهُم عَلِموا وَاهتَدواْ
وَجَهِلنا نَحنُْ وَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نمل، آیت ٧۵ ۔ (
٢(۔ سورئہ نحل، آیت ٨٩ ۔ (
٣(۔ علی الظاہر حدیث کے راوی یحيیٰ ابن عبدالله ابن الحسن ہيں جيسا کہ رجال کی کتابوں (
ميں موجود ہے۔
) ضَلَلْنا ، اِنَّ هذا لمحالٌ۔ ( ١
شيخ بزرگوار کلينی رحمة الله عليہ نے کتاب کافی ميں اپنی سند کے ساته یحيیٰ ابن
عبدالله ابو الحسن صاحب دیلم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہيں کہ : ميں نے حضرت امام محمد
باقر - سے سنا: آپ کے پاس کوفہ کے کچه لوگ (بيڻهے ہوئے) تهے (مجهے بہت زیادہ تعجب
ہے) ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہيں کہ انہوں نے اپنے تمام علوم کو رسول خدا (ص) سے حاصل
کيا ہے اس پر عمل کيا اور ہدایت پائی اور وہ یہ خيال کرتے ہيں کہ ان کے اہل بيت نے ان کا علم
نہيں حاصل کيا در آن حاليکہ ہم آنحضرت کے اہل بيت اور اس کی ذریت ہيں ہمارے گهروں ميں
وحی نازل ہوئی ہمارے ہی گهر سے ان لوگوں کو علم حاصل ہوا ہے کيا وہ یہ وہم و گمان کرتے
ہيں کہ ان لوگوں نے علم حاصل کيا ہدایت پائی اور ہم جاہل اور گمراہ ہوئے یقينا یہ امر محال ہے۔
١٠٣ ۔ “وفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عنِ الحکَمَ بن عُتيبة قالَ: لَقی رَجُلٌ الحُسَينَ بنَْ عَلیٍ عليہما
السلام بِالثعلبيَّةَ وَهُوَ یرید کَربَْلا ، فَدَخَلَ عَلَيہِ فَسَلَّم عَلَيہِ ، فَقالَ لَہُ الحُسين عليہ السلام : مِن
ایِّ البلاد انتَ؟ قالَ : مِن اهْل الکُوفَةِ ، قالَ اما واللّٰہ یا اَخا اَهل الکُوفة لَو لَقِيتُکَ بِالمدینةِ لاٴ رَیتُکَ
اَثَرَ جَبرَئيلَ عليہ السلام مِن دارِنا وَنُزُولَہُ بالوَحی عَلی جَدّی ، یا اَخا اَهلِ الکُوفَةِ اٴَفَمُستَقَی النّاسِ
) العِلمَ مِن عَندنا فَعَلموا وَجَهِلنا ؟ هذ ا مَا لایَکُونُ ” ( ٢
نيز اس کتاب کافی ميں حکم ابن عتيبہ سے اپنی سند کے ساته روایت کی ہے کہ وہ
کہتے ہيں: ایک شخص نے مقام ثعلبيہ پر حضرت سيد الشہداء حسين بن علی عليہما السلام
سے ملاقات کی جب آپ کربلا جانے کا قصد رکهتے تهے تو وہ حضرت کے پاس آیا ، سلام کيا
امام حسين نے اس سے دریافت کيا: تم کس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ٣٩٩ ۔ (
٢(۔ کافی ، ج ١، ص ٣٩٨ ۔ (
شہر کے رہنے والے ہو؟ اس نے کہا: ميں کوفہ کا باشندہ ہوں ، فرمایا: خدا کی قسم! اے کوفی
بهائی! اگر آپ مجه سے مدینہ ميں ملاقات کرتے تو ميں یقينا آپ کو اپنے گهر ميں جبرئيل کا وہ
نشان اور اپنے جد پر وحی نازل ہونے کے مقام کی نشان دہی کراتا، اے برادرِ کوفی! کيا ایسا
ہوسکتا ہے کہ لوگوں نے تو ہمارے سرچشمہٴ علم سے سيرابی حاصل کی ہو اور وہ اس سے
باخبر ہوں ليکن خود ہم لوگ جاہل رہ جائيں؟! ایسا ہرگز نہيں ہوسکتا۔
١٠۴ ۔ “فی البَصآئر بِاسنادِہِ عَن زُرارَةٍ قالَ کُنتُْ قاعِداً عِندَ ابی جَعفرٍ عليہ السلام فَقالَ
رَجُلٌ مِن اَهْل الْکوفَةِ یَسئَلُہُ عَن قَول امير الموٴمِنينَ عليہ السلام سَلُونی عَمّا شِئتم وَلا تَسئلونی
عَن شَیء اِلاَّ انبْاٴتکُم بِہِ فَقالَ انَّہ لَيسَ اَحَدٌ عِندَہُ عِلمٌ الاَّ خَرَجَ عِند امير الموٴمنينَ عليہ السلام
فَليذْهَب النّاس حَيثُ شآوٴوا فواللّٰہ ليَاٴ تيهم الاَمر مِن هٰيهنا وَاَشار بيدہ الیَ المَدینةِ ( الی بيتہ )”
)١)
محدث جليل القدر شيخ القميين ابو جعفر محمد ابن حسن صفار نے کتاب بصائر الدرجات
ميں اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته زرارہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ميں حضرت امام
محمد باقر - کی خدمت اقدس ميں بيڻها ہوا تها کہ کوفہ کے رہنے والے ایک شخص نے حضرت
سے دریافت کيا کہ حضرت امير المومنين علی کے اس قول کے کيا معنی ہيں (جو چاہو مجه
سے سوال کرلو لہٰذا جو چيز بهی تم مجه سے دریافت کرو گے ميں اس چيز کے بارے ميں تم
کو باخبر کروں گا) تو امام محمد باقر نے فرمایا: حقيقت ميں کسی شخص کے پاس علم نہيں
ملے گا مگر یہ کہ وہ حضرت امير المومنين علی - کی طرف سے حاصل ہوا ہے، تمام لوگ
جدهر چاہيں چلے جائيں خدا کی قسم ! جو کچه انہيں علم ملے گا یہاں سے ملے گا، یہ کہتے
ہوئے اپنے دست مبارک سے مدینہ کی طرف اشارہ فرمایا: (کتاب وافی کے نسخہ ميں ذکر ہوا
ہے کہ اپنے گهر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٢ ۔ (
کی طرف اشارہ کيا)۔
١٠۵ ۔ “فی الکَافی بِاسنادِہِ عَن مُحمّدِ بن مُسلِم قالَ : سَمِعت اَبا جَعفَْرٍ عليہ السلام
یَقُولُ : لَيس عِندْ اَحَدٍ مِنَ النّاسِ حَقٌ وَلا صَوابٌ وَلا اَحَدٌ مِنَ النّاسِ یَقضْی بِقَضآء حَقٍ الاَّ ماخَرَجَ مِنّا
) اَهلَْ البَيتِ وَاِذا تَشَعَّبَت بِهِمُ الاُمُورُ کاَن الخَطاء مِنهُم وَالصوابُ مِن عَلیٍ عليہ السلام ” ( ١
کافی ميں کلينی عليہ الرحمة نے اپنی سند کے ساته محمد ابن مسلم سے روایت کی
ہے کہ انہوں نے کہا: ميں نے حضرت امام محمد باقر - کو یہ کہتے سنا ہے کہ: کسی بهی
انسان کے پاس درست کام اور حق و حقيقت پر مبنی صحيح بات نہيں پائی جاتی اور نہ ہی
کوئی شخص خدا کے حکم کے مطابق صحيح اور حق کے ساته فيصلہ کرسکتا ہے مگر یہ کہ ہم
اہل بيت (عصمت و طہارت) ہی سے اس کو اس نے دریافت کيا ہے لہٰذا جب ایسے امور ان
سے شائع ہوں تو ان ميں جو (حق و باطل کے ساته مخلوط ہوں) خطا اور باطل پر مبنی ہوں گے
تو وہ ان لوگوں کی طرف سے ہوں گے اور جو حق و صواب پر مبنی ہوں گے وہ حضرت علی ابن
ابی طالب - کی طرف سے ہوں گے۔
١٠۶ ۔ “و فيہ با سنادہ عن ابی مریم قال : قالَ ابُو جَعفَْرٍ عليہ السلام لِسَلمَْةِ بن کُهَيل
) وَالحَکَمِ بن عُتبْةَ شَرِّقا وَ غَرِّبا فَلا تَجِدانِ عِلماً صَحيحاً اِلاَّ شَيئاً خَرَجَ مِن عِندِ نا اَهلَْ البَيتِ ” ( ٢
اسی کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته ابو مریم سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں
نے کہا: حضرت باقر العلوم امام محمد باقر - نے سلمة ابن کهيل اور حکم ابن عتبہ سے فرمایا
کہ : دنيا کے مشرق و مغرب ميں جہاں کہيں بهی جاؤ مگر صحيح علم (جو تمہاری دنيا و آخرت
کی سعادت کے راستہ کی طرف لے جائے (
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٣٩٩ ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۴٩٩ ۔ (
تمہيں نہيں مل سکتا سوائے یہ کہ وہ ہم اہل بيت کے گهر سے نکلا ہوگا۔
١٠٧ ۔ “وفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عَن بَصيرٍ قالَ: قالَ لی : اِنَّ الحَکَمِ بن عُتيبةَ مِمَّن قالَ اللّٰہ <وَمِن النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِاليَْومِْ الآْخِرِ وَمَا ہُم بِمُؤمِْنِينَ > ( ١)فَليُشَرَّقِ الحَکَمُ وَ ليُغرّب ، اٴما وَاللّٰہ لا
) یُصيبُ العِلم اِلا مِن اهلِ بَيتٍ نَزَل عَلَيهم جَبرئيلُ عليہ السلام” ( ٢
اسی کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته ابو بصير سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں
نے (شاید یہ حدیث کہنے والے امام صادق - ہوں) مجه سے کہا کہ: حکم ابن عتيبہ ان لوگوں
ميں سے ہے کہ جن کے بارے ميں الله تعالیٰ قرآن مجيد ميں فرماتا ہے: “کچه لوگ (ظاہری اور
زبانی طور پر) کہتے ہيں کہ ہم الله اور روز قيامت پر ایمان لائے (حالانکہ باطن ميں) وہ ایمان نہيں
لائے ہيں” حکم چاہے تو دنيائے مشرق و مغرب ميں کہيں بهی چلا جائے خدا کی قسم ! صحيح
علم اسے نہيں مل سکتا سوائے اس خاندان اہل بيت کے کہ جبرئيل امين ان پر نازل ہوئے۔
آل محمد معادن و مرکز وحی و تنزیل ہيں اور علوم الٰہيہ کے حامل ہيں ہر چيز کو اس کے
اپنے اصلی مرکز و منبع سے تلاش کرنا چاہيے۔
١٠٨ ۔ “وَفی بَصائر الدَرَجات قال سمعت ابا جعفر عليہ السلام و عندہ رجلٌ یُقالُ لَہُ عُثمان
الاٴعَمی وَهُوَ یَقُولُ انّ الْحَسَنَ البصَری یَزْعمُ انَّ الّذینَ یَکتُمُونَ العِلمَ یُوٴذی ریحُ بُطُونِهِم اهْل النّارِ
فَقالَ اَبُوجَعفر عليہ السلام فَهَلَکَ اِذاً موٴمِن آل فِرعَون وَما زالَ العِلمُ مَکتوماً مُنذُ بَعَثَ اللہّٰ نُوحاً
) عليہ السلام فَليَذهَبِ الحَسنُ یَميناً وَ شمالاً فَوَا للّٰہِ ما یُوجَدُ الْعِلمُ اِلاَّ هٰيهُنا ” ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٧۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٣٩٩ ۔ ( ٣(۔ بصائر الدرجات، ص ٢٩ ۔ (
بصائر الدرجات ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن سليمان سے روایت کی ہے کہ
انہوں نے کہا: ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے سنا اور آپ کے پاس بصرہ کا ایک شخص
بيڻها ہوا تها جو عثمان نابينا کے نام سے مشہور تها اس نے کہا کہ حسن بصری کا وہم و گمان
یہ ہے کہ جو لوگ علم کو چهپاتے ہيں ان کے بدن کی بدبو اہل جہنم کو آزار و اذیت پہنچائے
گی؟ تو حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: تو اس صورت ميں مومن آل فرعون جہنمی قرار پایا
کيوں کہ وہ ہميشہ علم کو چهپاتا تها جس وقت سے الله تعالیٰ نے حضرت نوح کو مبعوث کيا،
حسن بصری دنيا ميں جہاں کہيں بهی جانا چاہتا ہے دائيں بائيں (مشرق و مغرب ) کی سمت
چلا جائے خدا کی قسم! اسے یہاں (یعنی خاندان اہل بيت عصمت وطہارت) کے علاوہ کہيں اور
علم نہيں مل سکتا۔
١٠٩ ۔ وفيہ باسنادہ عَنْ یَحيیَ بن الحَلَبی عَنْ ابيہِ عَنْ ابی جعفر عليہ السلام قال : قالَ
رَجُلٌ وَانا عِندَہُ اِنَّ الحَسَنَ البَصری یروی انّ رَسُولَ اللّٰہ (ص) قالَ: مَن کَتَمَ عِلماً جآء یوم الق يٰمة
مُلجَماً بلجامٍ مِنَ النّارِ ، قالَ: کَذَبَ وَیحَہُ فَاٴینَْ قَول اللہّٰ (عَزوجَلَ)< وَقَالَ رَجُلٌ مُؤمِْنٌ مِن آلِ فِرعَْونَْ
یَکتُْمُ إِیمَانَہُ اٴَتَقتُْلُونَ رَجُلًا اٴَن یَقُولَ رَبِّی اللهُ >( ١) ثُمَّ مَدّبها ابُو جَعفَرٍ عليہ السلام صَوتہُ فقالَ
لِيَذهَبوا حَيثُ شآوٴ ا امٰا وَاللّٰہ لا یجدُونَ العِلم اِلاَّ هٰهُنا ، ثَمَّ سَکَتَ ساعةً ثُم قالَ اَبُو جَعفرٍ عليہ
) السلام : عِندَ آل مُحمدٍ ( عليہم السلام ) ( ٢
اسی کتاب ميں اپنی سند کے ساته یحيیٰ ابن حلبی نے اپنے پدر بزرگوار سے انہوں نے
حضرت امام محمد باقر - سے نقل کيا ہے کہ:
ایک شخص آپ کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا اور ميں بهی ان کے پاس موجود تها تو
اس نے کہا کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ غافر، آیت ٢٨ ۔ (اس سورہ کا دوسرا نام مومن بهی ہے۔ مترجم( (
٢(۔ بصائر الدرجات، ص ٣٠ ۔ (
حسن بصری نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے کہ جو لوگ علم کو مخفی رکهتے ہيں تو
اسے قيامت کے دن اسی حالت ميں محشور کيا جائے گا کہ آتش جہنم کی ایک لگام اس کے
ساته ہوگی (یعنی ایک آگ کی لگام اس کے منه پر لگی ہوگی) امام نے فرمایا: اس پر افسوس
کہ اس نے غلط بيانی سے کام ليا ہے پهر اس صورت ميں مومن آل فرعون کا معاملہ کيسے
صحيح ہوگا اس قول خدا وند متعال کا کيا ہوگا (اور فرعون والوں ميں سے ایک مرد مومن نے جو
اپنے ایمان کو چهپائے ہوئے تها یہ کہا کہ کيا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کر
رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ ميرا پروردگار الله ہے) پهر امام باقر - نے اپنی بلند آواز کے ساته
فرمایا: جہاں ان کا دل چاہے چلے جائيں خدا کی قسم ! انہيں سوائے یہاں کے علم مل ہی
) نہيں سکتا پهر کچه دیر تک خاموش رہے اور فرمایا: آل محمد (عليہم السلام ) کے پاس۔ ( ١
٢۔ عدالت کا گلستاں / ١٣
١١٣ ۔ وریاضُ العَدْلِ وَغُدرانُہُ
قرآن مجيد عدالت کا گلستان اور عدل و انصاف کا دریا ہے۔
اسی طرح حضرت حجّت قائم آل محمد عليہم السلام کی ذات با برکت ہے۔
ریاض ، روضة کی جمع ہے جس کا معنی سرسبز و شاداب زمين کے ہيں جو نباتات اور
سبزوں سے پُر ہو (باغ اور گلستان) پانی کا ایک ایسی جگہ جمع ہونے کے معنی ميں ہے جو
تمام جگہوں کو اپنے حصار ميں لے لے۔
غدرانہ ، غدیر کی جمع ہے: پانی کا وہ حوض کہ سيلاب کے جاری ہونے کی وجہ سے
تہ نشين مقام پر آب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیت الله مرزا مہدی اصفہانی کے ليے امام زمانہ - کا پيغام بهی اہميت کا حامل ہے اور وہ (
یہ ہے کہ: “” یعنی خاندان اہل بيت کی راہ سے جدا ہوکر علوم و معارف کی سعی اور تلاش
ہمارے انکار کے مساوی ہے۔ مجالس حضرت مہدی، ص ١۵٧ ۔
رواں جمع ہوگيا ہو۔
دونوں معنی سے مراد اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نباتات درختوں اور انسانوں کو
محفوظ رکهنے کے ليے ان کی آبياری کا مرکز ہے جس سے استفادہ کيا جاتا ہے۔ یعنی قرآن
کریم کی آیات کے حقائق کو ادراک کرنے سے تمام مردہ دلوں کی چشم بصيرت اندهی ہوچکی
ہے اس کا احياء کيا اور وہ اس طرح صيقل اور جلا دیتی ہيں کہ جس کے نتيجے ميں ان کے
ایمان ميں اضافہ ہوتا ہے۔
جب کہ الله تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: <إِنَّمَا المُْؤمِْنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَت قُلُوبُہُم وَإِذَا
) تُلِيَت عَلَيہِْم آیاتُہُ زَادَتہُْم إِیمَانًَا وَعَلَی رَبِّہِم یَتَوَکَّلُونَ > ( ١
صاحبان ایمان (حقيقت ميں) وہ لوگ ہيں کہ جن کے سامنے ذکر خدا کيا جائے تو ان کے
دلوں ميں خوف خدا پيدا ہو اور اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان ميں اضافہ ہو
جائے اور وہ لوگ الله ہی پر توکل کرتے ہيں۔
مولف کہتے ہيں: حضرت حجّت مہدی قائم آل محمد (عليہم السلام) جس وقت تشریف
لائيں گے تو دنيا پر عدل و انصاف چها جائے گا کہ کوئی بهی زمين پر چلنے والا خواہ انسان ہو یا
حيوان، چرند ہو یا پرند یا درند کبهی بهی ہو اپنی صنف والوں کو کسی قسم کی کوئی آزار و
اذیت نہيں پہنچائے گا، الله چيزوں کو جمع کرے گا وہ ایسا امن و امان اور رفاہ و آسائش کا
ماحول فراہم کریں گے کہ اگر ایک بيوہ عورت سونے کا ایک طشت مشرق سے مغرب ميں لے
جائے تو کوئی بهی شخص اس کی طرف متوجہ نہيں ہوگا۔
١١٠ ۔ “وفی کمال الدّین باسنادہ عن ابی احمد محمّد بن زیاد الاٴزدی رضی اللّٰہ عنہ قالَ
سَئَلتُ سَيدی مُوسیَ بن جَعفَر عليہما السلام عَن قَول اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ<وَاسبَغَ عَليکَم نِعَمَةُ ظاہِرةً
وَباطِنةً >( ٢) فَقال عليہ السلام النّعمة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انفال، آیت ٢۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢٠ ۔ (
الظَّاہِرَةُ الاِمامُ الظّاہِر، وَالباطِنَة الاِمامُ الغائِب ، فَقلتُ لَہُ وَیَکون فی الائِمةِ من یغيب ؟ قالَ نعمَ
یَغيب عَن ابصارِ النّاسِ شَخصُہُ وَلا یَغيب عَن قُلوبِ الموٴمنينَ ذِکرُہُ ، وهو الثانی عشر منّا یُسهَّل
اللّٰہ لَہُ کلّ عسير ویذلّل لَہُ کلّ صَعبٍ ویظهر لَہُ کنوز الارض وَیقرِّب لَہُ کُلَ بعيدٍ، یُبيرُ بہ کُلَ جَبّارٍ
عنيدٍ وَیهلِک عَل یٰ یَدِہ کلَّ شيطانٍ مریدٍ ، لٰذکَ ابن سَيِّدةِ الاِماء الَّذی تَخفی عَلَی النّاسِ وِلادَتُہُ وَلا
) یَحِلُّ لَهم تَسِميتہُ حَتّ یٰ یُظهِرَہُ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ فيملاٴ الاَْرضِ قسطاً وَ عَدلاً کَما مُلِئَت جَوراً وَظلماً ” ( ١
کمال الدین ميں شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اپنی سند کے ساته نقل کيا ہے کہ ابو
احمد محمد ابن زیاد ازدی کا بيان ہے: ميں نے اپنے آقا و مولا حضرت امام موسیٰ ابن جعفر -
سے الله تعالیٰ کے اس قول کے بارے ميں دریافت کيا <و اسبغ عليهم> (اس نے تم پر اپنی
ظاہری و باطنی نعمتيں فراوانی سے عطا کيں) تو امام نے فرمایا: ظاہری نعمت سے مراد امام
ظاہر اور باطنی نعمت سے مراد امام غائب ہيں۔ ميں نے عرض کيا: کيا ائمہ ميں سے کوئی
غائب بهی ہوگا؟ تو حضرت نے ارشاد فرمایا: ہاں وہ جسمانی طور پر لوگوں کی نظروں سے
پوشيدہ رہيں گے مگر مومنين کے دلوں سے ان کا ذکر محو نہيں ہوگا وہ ہم ائمہ ميں سے
بارہویں ہوں گے الله تعالیٰ ان کے ليے ہر مشکل کو آمادہ کردے گا، ہر سخت چيز کو نرم کردے
گا، ان کے ليے زمين کے تمام خزانوں کو ظاہر کردے گا اس کے ليے ہر بعيد کو قریب اور ان کے
ذریعے تمام ظالم اور دشمن کا قلع قمع کرے گا، ہر شيطان مردود کو ہلاک کرے گا، وہ کنيزوں
کی ایک سردار کے بطن سے پيدا ہوں گے اور ان کی ولادت کو لوگوں سے پوشيدہ رکها جائے
گا، ان کا نام اس وقت تک لينا جائز نہ ہوگا، جب تک کہ الله تعالیٰ انہيں ظاہر نہ فرما دے کہ جب
وہ ظاہر ہوں گے تو وہ زمين کو عدل و
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین ، ج ٢، ص ٣۶٨ ۔ (
انصاف سے اس طرح بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و ستم سے پر ہوچکی ہوگی۔
١١١ ۔ “ وفی غيبة النعمانی عن الصادق عليہ السلام قالَ اَما وَاللّٰہ لَيَدخُلُنَّ عَلَيهمْ عَدلُہُ
) جَوفَ بُيوتِهِم کَما یَدخُْلُ الحرّ والبر” ( ١
غيبت نعما نی ميں حضرت امام جعفر صادق - نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم! ضرور
ضرور ان لوگوں کے اندر حضرت کا عدل و انصاف اس طرح داخل ہوجائے گا جس طرح سردی اور
گرمی داخل ہوتی ہے۔
مولف کہتے ہيں: متعدد کتابوں ميں جيسے کمال الدین، ینابيع المودة، ملاحم اور غيبت
نعمانی و طوسی، مستدرک وغيرہ ميں مختلف عبارتوں کے ساته اسی مضمون کی اڻهارہ
روایتيں نقل ہوئی ہيں۔
١١٢ ۔ غيبت نعمانی ميں نقل ہوا ہے “یَملاءُ الاَرضَْ عَدلاً وَقسطاً وَ نُوراً کما مُلئت ظُلماً وَ
جوراً وَ شَر“
غيبت نعمانی ميں حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: وہ زمين کو عدل و انصاف سے
اس طرح بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور اور شر سے بهر چکی ہوگی۔
حضرت بقية الله الاعظم عجل الله تعالیٰ فرجہ کی سيرت طيّبہ کے بارے ميں جو روایات
معادن و حی و تنزیل سے وارد ہوئی ہيں اس ميں یہ ہے کہ حضرت رسول خدا کی سيرت کے
مطابق عمل کریں گے، یہ واضح سی بات ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) کا ان کی زندگی کے تمام
پہلوؤں اور رسالت ميں عدل و انصاف اظہر من الشمس ہے اور امام زمانہ - جو تمام انبياء اور
اوصياء کے علوم کے وارث ہيں ان کا عدل و انصاف اپنے انتہائی کمال پر ہوگا۔
١١٣ ۔ نعمانی نے غيبت ميں اپنی سند کے ساته عبد الله ابن عطاء مکی سے نقل کيا
ہے کہ ميں نے امام جعفر صادق - سے حضرت مہدی - کی رفتار و سيرت کے بارے ميں
دریافت کيا کہ وہ کس نوعيت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ٢٩٧ ۔ (
کی ہوگی؟ تو امام جعفر صادق - نے فرمایا: رسول خدا (ص) کی سيرت کے مطابق عمل
کریں گے اور اس کو نئے سرے سے بنائيں گے اور ہر اس چيز کو خراب کریں گے جو جاہليت کے
) زمانہ ميں تهی۔ ( ١
١١۴ ۔ تہذیب ميں نقل ہوا ہے کہ حضرت امام محمد باقر - سے سوال کيا گيا کہ حضرت
حجّت کی رفتار و سيرت لوگوں کے درميان کس نوعيت کی ہوگی؟ تو حضرت نے فرمایا: جو کچه
رسول خدا (ص) کی سيرت تهی یہاں تک کہ اسلام ظاہر ہوا ۔ عرض کيا گيا: رسول خدا (ص)
کی سيرت کيا تهی؟ فرمایا: جو چيزیں جاہليت کے زمانہ ميں تهيں اسے باطل کيا تها اور لوگوں
سے عدل و انصاف کے ساته پيش آئے اس طرح جب حضرت حجّت قيام فرمائيں گے تو جو
چيزیں ان کے زمانہ ميں تهيں انہيں باطل کریں گے اور لوگوں کے ساته عدل و انصاف سے پيش
) آئيں گے۔ ( ٢
١١۵ ۔ “ وفی الارشاد للشيخ المفيد وَلَمَّا قَسَمَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) غَنایِم حُنَينِ اقبَْلَ رَجُلٌ
طَویلٌ آدم اَحن یٰ بَينَ عَينَيہ اَثَر السُّجُودِ فَسَلَّمَ وَلَم یَخصَّ النَّبی (ص) ثُمَّ قالَ قَد رَاَیتکَ وَما صنعتَ
فی هٰذِہِ الغَنائم ، قالَ وَکَيفَْ رَاٴیتَ ؟ قالَ لَم اَرَکَ عَدَلتَْ ، فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِّٰ (ص) وَقالَ وَیلکَ اِذا
لَمْ یَکُن العَدل عِندی فَعنْدَ مَنْ یَکُونُ ؟ فقَال المُسلِمُونُ اَلاَّ اقْتُلُہُ؟ قالَ دَعُوہ فَاِنَّہُ سَيَکُونُ لَہُ اتباعٌ
یَمرُقُونَ مِنَ الدّینِ کَما یَمرقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمْيَةِ یَقتلُهُمُ اللّٰہ علی یَد اَحبّ الخَلق اليہ مِنْ بعدی ،
) فقتلَہُ اٴمير المومنينَ علی بن ابی طالب عليہ السلام فيمن قَتَل یَومَ النَّهروانِ مِنَ الخوارجِ ” ( ٣
ارشاد شيخ مفيد رحمة الله عليہ ميں نقل ہوا ہے کہ: جب رسول خدا (ص) جنگ حنين
کا مال غنيمت تقسيم کر رہے تهے تو ایک طویل قد و قامت کا لحيم شحيم انسان آیا جس کی
دونوں آنکهوں کے درميان سجدے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ١٢٣ ۔ (
٢(۔ تہذیب، ج ۶، ص ١۵۵ ۔“” (
٣(۔ ارشاد شيخ مفيد، ج ١، ص ١۴٨ ۔ (
کے اثر سے جهکاؤ تها اس نے سلام کيا اور نبی اکرم (ص) کو خصوصی طور پر سلام نہيں
عرض کيا پهر وہ کہنے لگا کہ: ميں نے تجهے دیکها ہے کہ جو کچه تم نے اس مال غنيمت ميں
انجام دیا ہے، تو آنحضرت نے دریافت فرمایا: تو نے کيا دیکها ہے ؟ کہنے لگا:ميں نہيں سمجهتا
کہ تم نے عدل و انصاف سے کام ليا ہو، پس رسول خدا (ص) غضب ناک ہوئے اور فرمایا: تيرے
ليے ہلاکت ہو اگر ميرے ہی پاس عدل و انصاف نام کی کوئی چيز نہيں ہوگی تو پهر وہ کس کے
پاس ہوگی! تو موجودہ مسلمان دریافت کرنے لگے کہ کيا ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ تو رسول خدا
(ص) نے فرمایا: اسے چهوڑ دو عنقریب اس کے کچه پيروکار ہوں گے جو دین سے اس طرح نکل
جائيں گے جس طرح تير کمان سے نکل جاتا ہے خدا انہيں ميرے بعد اس شخص کے ہاتهوں قتل
کرے گا جو اسے تمام مخلوق سے زیادہ محبوب ہے پهر امير المومنين علی ابن ابی طالب - نے
خوارج کے ان لوگوں کے ساته جنہيں نہروان کی جنگ ميں قتل کيا تها اسے بهی قتل کيا۔
) ١١۶ ۔ “وفی ینابيع المودة فی قولہ تعالیٰ< وَاعلَْمُوا اٴَنَّ اللهَ یُحیِْ الاْٴَرضَْ بَعدَْ مَوتِْہَا> ( ١
عن سلام بن المستنير عن الباقر عليہ السلام قالَ یُحيها اللّٰہ بِالقَائِم عليہ السلام فَيعدِلُ
) فيها فيُحيی الاَرضْ بِالعَدلِْ بَعدَْ مَوتِها بِالظلمِ ” ( ٢
ینابيع المودة ميں امام محمد باقر - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: “”
یعنی زمين کو حضرت قائم کے ذریعہ زندہ کرے گا پس زمين ظلم و ستم کی وجہ سے مرنے
کے بعد ان کے عدل و انصاف کے ذریعہ دوبارہ زندہ ہوگی لہٰذا وہ عدل و انصاف سے کام ليں گے۔
پهر مشيت الٰہی کا تقاضا یہ ہوگا کہ حضرت قائم آل محمد قيام اور ظہور فرمائيں اس طرح
ان کے دریائے عدل و انصاف کے فيض ميں تلاطم پيدا ہوگا کہ ان کا کوہ گراں پيکر تمام دنيا کو
گهير لے گا اور ان کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حدید، آیت ١٧ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢۵٢ ۔ (
عدل و انصاف تمام انسانی جسم ميں مجسم ہوجائے گا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں دنيا و ما فيها اپنے وجود ميں بہشتی تازہ روح کا احساس کرے
گی اور تمام مخلوقات امن و امان، رفاہ و آسائش اور صلح و مصالحت کے ساته زندگی بسر کرے
گی۔
٢۔ اسلام کی بنياد / ١۴
١۴ ۔ “وَاَثافِیّ الاِسلامِ وَبُنيانُةُ” (اسلام کی سنگ بنياد اور اساس) اثافی اثفيہ کی جمع
ہے اس سے مراد ایسا پتهر ہے کہ جس پر دیگ کو رکها جاتا ہے اور اگر دو دوسرے پتهر مثلث
کی شکل اختيار کریں تو اسے “اثافی” کہتے ہيں جب کبهی دیگ اس کے اوپر رکها جائے تو
بغير حرکت کے اپنی جگہ مستحکم اور مستقر ہوجائے گا۔
اس اعتبار سے کہ اسلام قرآن مجيد کی محکم و استوار بنيادوں پر مستقر ثابت اور پا
برجا ہے اثافی سے شباہت دی ہے۔
١١٧ ۔ “وَفی الکافی عَنِ الصّادقُ عليہ السلام قالَ اثا فِی الاِسلامُ ثَلاثَةٌ الصُّلوةُ وَالزَّکٰوة
) وَالوِلایَةُ لا تصِحُّ واحِدةٌ مِنهُنَّ اِلاَّ بِصاحبتيها ” ( ١
کافی ميں امام صادق - سے مروی ہے کہ اسلام کے بنيادی ارکان تين ہيں۔ نماز، زکوٰة
اور ولایت ائمہٴ اطہار عليہم السلام ان ميں سے کوئی بهی اپنے دو کے بغير صحيح اور قابل
قبول نہ ہوگی۔
اس جيسی حدیث روزہ اور حج کے اضافہ کے ساته حضرت امام محمد باقر - سے نقل
ہوئی ہے۔
١١٨ ۔ “وفيہ عن ابی جعفر عليہ السلام قالَ بُنِی الاِسلامُ عَلیٰ خَمسٍ الصَّلاةُ وَالزَّکاةُ
والصّوم والحَجّ وَالوِلایةُ وَلَم ینادِ بِشَیءٍ کَما نُودِیَ بالولایةِ، وفی روایة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ١٨ ۔ (
) کما نودِیَ بالولایَةِ یومَ الغَدیر ” ( ١
اسی کتاب ميں مذکور ہے کہ امام محمد باقر - نے فرمایا: اسلام کی اساس پانچ
چيزوں پر استوار ہے، نماز، زکوٰة، روزہ، حج اور ولایت اور ان ميں سے ولایت کی طرح کسی چيز
کی تاکيد نہيں کی گئی ہے۔ اور دوسری روایت ميں ذکر ہوا کہ کسی چيز کی غدیرخم کے دن
ولایت کی طرح سفارش نہيں کی گئی ہے۔
١١٩ ۔ “وَفيہ ایضاً بِاِسنادِہِ عَن عَبدِ الحميد بن ابی العَلاء الاٴزدی قالَ سَمعت اَبا عبد اللّٰہِ
عليہ السلام یَقُولُ اِنَّ اللہَّٰ عَزَّوَجَلَّ فَرَضَ عَ لٰی خَلقہِ خَمساً فَرخَّصَ فی اَربَْعٍ وَلَم یُرخّص فی واحِدة
)٢) ”
اس کتاب ميں کلينی اپنی سند کے ساته عبد الحميد ابن ابی العلا ازدی سے روایت
کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا: ميں نے ابو عبد الله امام جعفر صادق کو یہ فرماتے سنا: خدائے
عزوجل نے اپنی مخلوق پر پانچ چيزیں واجب قرار دی ہيں ان ميں سے چار ميں ترک کرنے کی
اجازت دی ہے ليکن ان ميں سے ایک کے ليے کبهی بهی رخصت نہيں دی ہے۔
مولف کہتے ہيں: وہ چار واجب کہ جن ميں رخصت ہے اس سے مراد نماز ہے جو بعض
افراد سے ساقط ہے جيسے جس زمانہ ميں عورتيں حيض و نفاس کی حالت ميں ہوتی ہيں اور
بعض حالات ميں تو دونوں کی طہارت مفقود ہوتی ہے اور زکوٰة ان لوگوں سے متعلق نہيں ہوتی
جن کے اموالِ زکوٰة اپنے نصاب کی حد تک نہ پہنچے ہوں، اور روزہ ان افراد سے کہ جو روزہ
رکهنے کی طاقت نہيں رکهتے جيسے ضعيف العمر انسان اور ضعيفہ عورت اور حج ان افراد سے
کہ جنہيں مالی اور جانی استطاعت وغيرہ نصيب نہيں ہوئی ان سب سے ساقط ہے ليکن ولایت
کبهی بهی کسی صورت ميں قابل قبول عذر نہيں ہے اور نہ ہی کسی بهی فرد سے ساقط
ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢١ ۔ ، ١(۔ اصول کافی، ص ١٨ (
٢(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ٢٢ ۔ (
علامہ مجلسی کہتے ہيں: اس حدیث ميں کہ جس ميں تين رکن پر اکتفا کيا گيا ہے
کيوں کہ اہم اجزاء یہی نماز، زکوٰة اور ولایت ہے اور بلاشک و شبہ ان ميں سے ہر ایک کا قبول
ہونا دوسرے کے قبول ہونے پر موقوف و مشروط ہے بالخصوص ولایت جو تمام اعمال کے قبول
ہونے کی شرط ہے۔
١٢٠ ۔ “وَفی الکافی عَنْ ابی جَعفرٍ الثانی عَنْ اَبيہِ عَن جَدِّہِ عليہم السلام قال: قالَ اَمير
الموٴمنينَ عليہ السلام قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) اِنَّ اللہّٰ خَلَقَ الاِسلامَ فَجَعَلَ لَہُ عَرصَْةً وَجَعَلَ لَہ نوراً
وَجَعَلَ لَہُ حِصناً وَجَعَلَ لَہُ ناصِراً فامّا عَرصَْتُہُ فَالقُران ، وَامّا نُورُہُ فَالحِکمْة ، وَاَما حِصنہُ فالمعرُوفُ ،
فامّا انصارُہُ فَانَا وَاَهلُ بَيتی وَشيعتُنا ، فَاَحِبّوا اَهْلَ بَيتی وَشيعَتهُمْ وانصارَهُم ، فَاِنَّہ لمّا اُسری بی
اِلَی السّمآء الدنيا فَنَسبنی جَبرَْئيلُ عليہ السلام لِاَ هلِْ السَّمآءِ اِستَودَعَ اللہِّٰ حُبّی وَحُبَّ اَهلِ
بيتی وَ شيعَتهِم فی قُلُوبِ المَلائِکَةِ فَهو عِندَهُم ودیَعةٌ اِلیٰ یَومِ القيٰمةَ ثُمَّ هَبَطَ بِی الیٰ اهْل
الارض فَنَسَبنی لِاَهلْ الاَرض فاَستودَعَ اللہُّٰ عَزَّوَجَلَّ حُبّی وَحُبَّ اهلِ بَيتی وَ شيعَتهم فی قلُوب
موٴمنی امتی ، فموٴمِنوا اُمَّتی یَحفَظُونَ وَدیعَتی الیٰ یومِ القِيٰمةِ ، اَلا فَلَو انَّ الرَّجُلَ مِن اُمّتی عَبَدَ
اللہّٰ عَزَوَجل عمرہ ایَّامَ الدُّنيا ثُمّ لَقِیَ اللہّٰ عَزَوَجَلّ مبغضاً لاَهلِ بيتی وَ شيعَتی ما فَرَّجَ اللہّٰ صَدرَہُ الا
) عَن نِفاقٍ ” ( ١
شيخ کلينی نے کتاب کافی ميں حضرت امام جواد تقی - سے انہوں نے اپنے آباء و
اجداد بزرگوار سے انہوں نے حضرت امير المومنين سے انہوں نے حضرت رسول اکرم (ص)
سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: خدائے عزوجل نے اسلام کو خلق کيا اس کے ليے
وسعت پيدا کی، اس کے ليے نور قرار دیا، اس کے ناصر بنائے، اس کا عرصہ (صحن خانہ) قرآن
ہے اس کا نور،حکمت ہے اس کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۴۶ ۔ (
حصار و قلعہ نيکی ہے اور اس کے اعوان و انصار ، ميرے اہل بيت ہيں لہٰذا ميرے اہل بيت اور
ميرے شيعوں اور مدد کرنے والوں کو دوست رکهو کيونکہ جب مجهے جبرئيل دنيا کے آسمان
(معراج) کی طرف لے گئے تو ميرا تعارف اہل آسمان سے کرایا الله نے ميری اور ميرے اہل بيت
کی اور ان کے شيعوں کی محبت ملائکہ کے دلوں ميں پيدا کی جو قيامت تک ان کے دلوں ميں
رہے گی پهر جبرئيل نے زمين پر مجهے اتارا تو زمين والوں سے ميرا تعارف کرایا اور ميری اور
ميرے اہل بيت اور ان کے شيعوں کی محبت ميری امت کے مومنين کے دلوں ميں قرار دی پس
ميری امت ایمان لائی پس مومنين ميری امانت (ميرے اہل بيت اور ان کے شيعوں کی ولایت و
محبت ہے) کی روز قيامت تک حفاظت کریں گے۔
آگاہ ہوجاؤ ! اور یہ جان لو کہ اگر ميری امت کا کوئی شخص بقدر عمر دنيا رکهتا ہو اور الله
تعالیٰ کی عبادت تمام دنيا کے دنوں (دنيا کے تمام عمر) ميں انجام دیتا رہے پهر وہ ایسی
صورت ميں خدائے سبحان سے ملاقات کرے کہ اس کے دل ميں ميرے اہل بيت اور ميرے
شيعوں کی عداوت ہو تو الله اس کے سينہ کو کشادہ نہيں کرے گا مگر نفاق سے۔
بعض روایات ميں نقل ہوا ہے کہ اگر ثقلين (انس و جن) کی عبادت بجالائے ليکن ہماری
ولایت و محبت اس کے دل ميں نہ پائی جاتی ہو تو اسے وہ تمام عبادت کوئی فائدہ نہ دے گی۔
مولف کہتے ہيں: جيسا کہ قرآن مجيد دین اسلام کی اساس و بنياد ہے اسی طرح
حضرت بقية الله الاعظم حجة ابن الحسن اور ان کے آباء و اجداد طاہرین کی معرفت و ولایت
اسلام کی اساس اور سنگ بنياد ہے کہ اس کے بغير کوئی بهی عمل قابل قبول نہ ہوگا اور نہ
ہی اس پر کوئی آثار و ثواب ہی مترتب ہوں گے۔
١٢١ ۔ “وفی الکافی فی الصَّحيح عَنْ مُعاویةَ بن عَمَّارٍ عَن ابی عبدِ اللّٰہِ عليہ السلام فی
قولِ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ <وَلِلَّہِ الاْٴَسمَْاءُ الحُْسنَْی فَادعُْوہُ بِہَا> ( ١) قالَ نَحنُْ وَاللہِّٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ١٨٠ ۔ (
) الاسمآءُ الحُسن یٰ الذی لایقبَلُ اللہّٰ مِنَ العِبادِ عَمَلاً اِلاَّ بِمعرفَتِنا ” ( ١
کافی ميں صحيح روایت کے ساته کلينی عليہ الرحمہ نے معاویہ ابن عمار سے نقل کيا
ہے کہ وہ امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہيں کہ آیہٴ کریمہ “کہ الله کے ليے بہترین نام
ہيںلہٰذا اسے انہيں سے پکارو” کی تفسير کے بارے ميں حضرت نے فرمایا: خدا کی قسم! ہم
الله کے اسماء الحسنی ہيں بغير ہماری معرفت کے الله تعالیٰ بندوں کا کوئی عمل قبول نہيں
کرے گا۔
مولف کہتے ہيں: جو شخص بهی الله تعالیٰ پر ایمان لائے اور پيغمبراکرم (ص) کی
رسالت کا اعتراف کرے تو اس کے ليے لازم ہے کہ ان کی پيروی اور ان بزرگوار کی تصدیق کرے
تاکہ الله اور رسول کی بہ نسبت جو حقوق ہيں ان کی معرفت پيدا کرے اور اس کو ادا کرے ظاہر
ہے کہ سب سے بڑا حق جو تمام مخلوقات پر واجب ہے ائمہٴ ہدی کی ولایت کا تحفظ ہے اِس
بنا پر ولایت کی رعایت اور حفاظت کيے بغير کوئی بهی عمل بارگاہ الٰہی ميں قابل قبول نہيں
ہے۔
٢۔ وادی حق / ١۵
١۵ ۔ “وَ اٴَودِیَة الحَقّ وَ غيطانُہُ” حق و حقيقت کی پيروی کی وادی اور اس کا ہموار ميدان و
بيابان ہے کہ جس ميں دین و دانش کے گل و ریحان اُگتے ہيں تاکہ ان کے طالبوں کے دماغ کو
اُن کی خوشبو سے معطر کرے، اودیہ، وادی کی جمع ہے جس کے معنی بيابان کے ہيں دو پہاڑ
کے درميان وسيع نہر اسلوب، راستہ اور مذہب کے معنی ميں بهی استعارہ کے عنوان سے
استعمال ہوا ہے۔
غيطان، غيط کی جمع ہے جس کا معنی باغ کے ہيں اور کسی چيز ميں داخل ہونے کے
ہيں اور نزاع نيز دوسرے مختلف کلام کے معنی ميں بهی ذکر ہوا ہے، یعنی جو شخص حق و
حقيقت کا طالب ہے وہ قرآن مجيد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ١۴٣ ۔ (
کے وسيع بيابانوں ميں اور اس کی ہر قسم کی کجی و انحراف اور خطرناک حوادث سے محفوظ
سرزمين سے حاصل کرسکتا ہے۔
شارح بحرانی بيان کرتے ہيں : دونوں ہی لفظ استعارہ کے طور پر آئے ہيں اس اعتبار
سے کہ قرآن مجيد حق کا معدن و مرکز اور اس کے پائے جانے کا جہاں قوی گمان پایا جاتا ہے
جس طرح بيابانوں اور نشيبی مقامات ميں گهاس اور پانی جمع ہونے کا قوی گمان و امکان پایا
جاتا ہے۔
حضرت ولی عصر بقية الله الاعظم امام زمانہ عجل الله فرجہ الشریف اور تمام ائمہ ٴہدیٰ
عليہم السلام حق کے معدن و مرکز اور آب حيات کا سرچشمہ ہيں، حق کے طلب کرنے والے
افراد کو چاہيے کہ خاندان عصمت اور معادن وحی تنزیل کے پاس اس کو تلاش کریں جيسا کہ ہم
زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں پڑهتے ہيں۔
١٢٢ ۔ “وَالحقّ مَعَکم وَفيکُم وَاَنتمُ اَهلُْہُ وَمَعدِنُہُ” حق آپ کے ساته آپ ميں آپ سے اور آپ
کی طرف ہے آپ ہی اس کے اہل اور اس کے معدن و مرکز ہيں۔
١٢٣ ۔ “عَلِیٌّ مَعَ الحَقّ وَالحق مَعَ عَلی یَدُوُر حيث دارِ ” علی حق کے ساته ہيں اور حق
علی کے ساته ہے حق کو اسی طرف پهير دے جدہر علی جائيں۔
|
|