۵۔ روشنی /٢
۵۔ وَ شُعاعاً لا یُظلَمُ ضَوْئُہُ (ایسی درخشاں روشنی ہے کہ جس کی ضو تاریک نہيں
ہوسکتی ہے(
قرآن مجيد ایسی نورانی کرن ہے کہ جس ميں ظلمت و تاریکی عارض نہيں ہوسکتی
ہے۔
یہ اس کی حقانيت کی طرف اشارہ ہے، یعنی اس کا خدا کی جانب سے ہونا برحق ہے،
جيسا کہ واضح اور روشن ہے کہ جس ميں کسی قسم کا شک و شبہ نہيں پایا جاتا اور باطل
کی ظلمت کا شائبہ بهی اس ميں قرار نہيں پاسکتا جيسا کہ الله تعالیٰ نے فرمایا: <ذلِک
الکتاب لاریب فيہ> ( ١) یہ وہ کتاب ہے جس ميں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہيں
ہے۔ اور الله تعالیٰ نے فرمایا <إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکرِْ لَمَّا جَائَہُم وَإِنَّہُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ لاَیَاٴتِْيہِ البَْاطِلُ مِن ) بَينِْ یَدَیہِْ وَلاَمِن خَلفِْہِ تَنزِیلٌ مِن حَکِيمٍ حَمِيدٍ > ( ٢
بے شک جن لوگوں نے قرآن کے آنے کے بعد اس کا انکار کردیا ان کا انجام برا ہے اور یہ
ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس کے قریب سامنے یا پيچهے کی طرف سے باطل آبهی نہيں
سکتا ہے کہ یہ خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
٩٠ ۔ و فی تفسير القمی:<لاَیَاٴتِْيہِ البَْاطِلُ مِن بَينِْ یَدَیہِْ وَلاَمِن خَلفِْہِ >: قالَ لا یاٴتيہ الباطِلُ
) مِن قِبَلِ التَّوراة وَلا مِن قِبَلِ الانجيلِ وَالزَّبُورِ وامَّا من خَلفِْہِ لا یاتيہِ مِن بَعدِہِ کِتابٌ یبطْلہ۔ ( ٣
علی ابن ابراہيم قمی رحمة الله عليہ نے اپنی تفسير ميں اس آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں
ذکر کيا ہے کہ نہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢۔ (
٢(۔ سورئہ فصلت، آیت ۴٢ ۔ (
٣(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٢۶۶ ۔ (
توریت ميں سے نہ ہی انجيل و زبور ميں سے کوئی بهی شے قرآن کریم کے کسی مطلب کو
باطل کرنے کے ليے آئی ہے اور نہ ہی قرآن کے بعد کوئی کتاب آئے گی جو اسے باطل کرکے
نيست و نابود کردے۔
٩١ ۔ شيخ بزرگوار علامہ طبرسی نے اپنی کتاب مجمع البيان ميں ذکر کيا ہے: “و قِيل اِنَّ
الباطِلَ الشَّيطانُ” یعنی کہا گيا ہے کہ شيطان کو اتنی طاقت نہيں ہے کہ اس ميں سے کسی
حق کو اڻها کر اس ميں باطل کا اضافہ کردے۔ یہ کہ باطل کسی جہت سے اس قرآن پر عارض
نہيں ہوسکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ اس کے الفاظ ميں تضاد پایا جاتا ہے اور نہ ہی اس
کی خبروں ميں جهوٹ پایا جاتا ہے، نہ ہی اس ميں کسی شے کا اضافہ کيا جاسکتا ہے اور نہ
ہی کوئی ردّو بدل کيا جاسکتا ہے بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے صبح قيامت تک ہر مکلف کے
ليے حجّت ہے، جيسا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: <إِنَّا نَحنُْ نَزَّلنَْا الذِّکرَْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُون> ( ١) ہم نے
ہی اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں۔
مولف کہتے ہيں: حضرت پيغمبر اکرم (ص) امير المومنين اور ان کی اولاد طاہرین عليہم
السلام کے انوار مقدسہ کی درخشندگی صبح قيامت تک یہاں تک کہ روز قيامت عرصات محشر
ميں بهی اپنی تابانی اور نورانيت کے عروج کے آخری نقطہ پر ہوگی اور ہميشہ اپنے چہرے کی
تابانيوں سے تمام شيعوں اور مومنين کو منور کریں گے۔
٩٢ ۔ عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام قالَ: انَّ مُحمَّداً وَعَليّاً عليہما السلام کانٰا نُوراً بَينَ یَدَی اللّٰہ
جلّ جَلالُہُ قبلَ خَلقِ باَلْفَی عامٍ وَاِنَّ الملائکة لمّا راٴت ذلِکَ النّور راٴت لَہْ اصْلاً وَقد انشَعَب مِنہ
شُعاعٌ لامعٌ فقالَت:ْ الهَنا وسيَّدنا ما هذا النّورُ ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ حجر، آیت ٩۔ (
فَاوْحیَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اليهمْ هذا نورٌ مِنْ نُوری ، اصْلُہُ نبوّة وَفَرعہ امامة فَامّا النبوَّةُ لِمحمدٍ (ص)
) عَبدی وَرَسُولی وَاَمَّا الاِمامَةُ فَلِعَلیٍّ حُجّتی وَوليّی وَلَولْا هُما اٰ م خَلَقتُْ خَلقْی۔ ( ١
علامہ مجلسی رحمة الله عليہ نے بحار الانوار ميں امام جعفر صادق - سے روایت کی
ہے کہ حضرت - نے فرمایا: محمد اور علی عليہما السلام دونوں خدائے عزوجل کی خدمت
اقدس ميں مخلوقات کی خلقت سے دو ہزار سال پہلے نور کی شکل ميں تهے اور جب ملائکہ
نے ان انوار مقدسہ کا مشاہدہ کيا کہ جن کی اصل و اساس ہے اور اس سے روشن شعاع
چمک رہی ہے تو عرض کيا: اے خدائے عزوجل اور ميرے مولا! یہ کون سا نور ہے (جو اس طرح
چمک رہا ہے) ؟ الله تعالیٰ نے ان کی طرف وحی نازل کی کہ یہ ميرے نور کا ایک حصہ ہے جو
ميرے نور سے (مشتق) ہے اس کی اصل اور ریشہ نبوت ہے اور اس کی شاخ امامت ہے ليکن
امامت محمد (ص) سے مخصوص ہے جو ميرا بندہ اور رسول ہے ليکن امامت حضرت علی کی
خصوصيات ميں سے ہے جو ميرا ولی اور حجّت ہے اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو ميں اپنی مخلوقات
کو پيدا نہ کرتا یعنی تمام کائنات ان کے وجود کی برکت سے ہے۔ (یہ مکمل روایت بحار الانوار
ميں موجود ہے ہم نے اختصار کو لحاظ رکهتے ہوئے صرف اپنے محل شاہد کو بيان کيا ہے قارئين
کرام رجوع کریں)۔
٩٣ ۔ “عِنّ ابی ذِرِّالغفارِی قالَ قالَ رَسول اللّٰہ (ص) یَردُ عَلیّ الحَوْضَ رایةُ امير الموٴمنين
وَامامَ الغُرِّ المحجّلِينَ ، فَاَقُومُ فَآخُذُ بِيَدِہِ فَيبيضُّ وَجهُْہُ وَوُجُوہُ اصحابِہِ، فاَقولُ اٰ م خَلّفتمُوُنی فی
الثَّقَلَينِ بَعدْی فيَقولُونَ تَبَعنَا الاٴکَبرَ وَصَدَّقناہُ وَاوازَرنَْا الاصغَْرَ وَ نَصرناہُ ، وَقَتَلنْا مَعَہُ، فَاَقولَ رَوُّوا روّاءً
مَروِیّين فَيَشربونَ شَربْةً لا یظمْاٴ وُنَ بَعدَْها ، وَجہُ امامِهِم کالشَّمسِ الطّالِعَةٍ وَوُجُوهُهُم کَالقَْمَرِ لَيلَْة
البَدرِ وَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ١١ ۔ (
) کَاَ ضوْاءِ نَجمٍْ فی السَّ مٰآءِ ” ( ١
مزید علامہ مجلسی عليہ الرحمہ نے بحار الانوار ميں ابوذر غفاری (رضوان الله عليہ) سے
روایت کی ہے کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا: (قيامت کے دن) حوض کوثر پر حضرت امير
المومنين امام الغرّ المحجلين(یعنی جو روشن و منور پيشانی والے مومنين کے امام ہيں کہ ان
کی پيشانياں ان بزرگوار کے نور ولایت سے تاب ناک اور روشن ہيں) حوض کوثر کے کنارے ميرے
پاس اپنے پرچم کے ساته وارد ہوں گے، پهر ميں ان کا دست مبارک پکڑ کر کهڑا ہوجاؤں گا تو ان
کا چہرہ اور ان کے اصحاب کا چہرہ سفيد اور منور ہوجائے گا، پهر ميں ان سے کہوں گا: تم نے
ميری کتاب اور ميری دونوں امانت (ثقلين) یعنی کتاب خدا اور ميری عزت جو ميرے اہل بيت ہيں)
کے ساته ميرے بعد کيسا سلوک کيا؟ تو اسی وقت اصحاب علی - کہيں گے: ہم نے دونوں
ميں سے بڑی امامت قرآن کریم تهی اس کا اتباع کيا اس کی تصدیق کی اور اس کے احکام و
دستورات کی پيروی کی اور چهوڻی امانت جو عترت اور اہل بيت عصمت و طہارت تهے ان کی
بهی حفاظت اور نصرت و مدد کی اور ان کے سامنے درجہٴ شہادت پر فائز ہوئے، اس کے بعد
ميں کہوں گا: اس آب کوثر سے سيراب ہوجاؤ وہ تمہيں خوش گوار اور مبارک ہو پهر وہ لوگ اس
سے کچه پی کر سيراب ہوں گے اس کے بعد کبهی بهی دنيا ميں پياسے نہ ہوں گے۔ پهر
پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ان کے امام کا چہرہ نصف النہار ميں چمکتے سورج کے مانند
روشن و منور ہوگا اور ان کے اصحاب کے چہرے شب بدر کے چاند کی طرح روشن ہوں گے
جيسے آسمان پر نورانی ستارے چمکتے ہيں۔
مولف کہتے ہيں: شاید ان کی مراد آقا سے خود حضرت امير المومنين - یا امام زمانہ -
کا ہر دل عزیز وجود ہو جو کوکب درّی یعنی روشن چمکتے ستارہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔بحار الانوار، ج ٨، ص ١۵ ۔ (
اللهم ارزقنا من حوضہ بيد علی امير الموٴمنين ریاً رویاً لا ظماٴ بعدہ ابداً بحق محمَّد وا لہ
الطاہرین
اے خدا! ہميں حوض کوثر سے حضرت امير المومنين علی - کے ہاتهوں ایسا مکمل
سيراب ہونے کا رزق مرحمت فرما کہ پهر اس کے بعد کبهی احساسِ تشنگی نہ ہو۔ بحق محمد
و آلہ الطاہرین۔
۶ باطل کو حق سے جدا کرنے والا /٢
۶۔ وَ فُرْقاناً لا یُخْمَدُ بُرْهانُہُ ( اور ایسا حق کو باطل کرنے والا امتياز ہے جس کی دليل
کمزور نہيں ہوسکتی ہے(
قرآن مجيد حق کو باطل سے جدا کرنے والی برہان ہے اور اس کی حجيت و قاطعيت
ہميشہ زندہ اور گویا ہے وہ کسی وقت بهی خاموش نہيں ہوسکتا۔ انہيں براہين جليہ اور بينات
واضحہ کے ساته حق و باطل کے درميان امتياز اور فرق پيدا کرنے والا ہے جيسا کہ الله تعالیٰ نے
فرمایا: <إِنَّہُ لَقَولٌْ فَصلٌْ وَمَا ہُوَ بِالہَْزلِْ> ( ١) بے شک یہ قول فصل ہے اور وہ مذا ق نہيں ہے۔ اور
الله تعالیٰ کا قول ہے: <ہُدًی لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِن الہُْدَی وَالفُْرقَْانِ > ( ٢) لوگوں کے ليے ہدایت ہے
اور اس ميں ہدایت اور حق و باطل کے امتياز کی واضح نشانياں موجود ہيں۔ دونوں آیات مبارکہ
اس بات کی صراحت کرتی ہيں کہ قرآن کریم سنجيدہ کلام ہے اور حق و باطل کے درميان نزاع
کا فيصلہ کرنے کے ليے قطعی حجّت و دليل موجود ہے۔
مولف کہتے ہيں: حضرت بقية الله الاعظم امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا
مقدس وجود اور ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔سورئہ طارق، آیت ١۴ ۔ (
٢(۔ سورئہ بقرہ، آیت ١٨۵ ۔ (
کے آباء و اجداد گرامی عليہم السلام جو تمام انبياء کے علوم کے وارث ہيں اور وہ وحی الٰہی
سے اخذ کيا گيا ہے وہ لوگ خود حق محور اور حق مدار ہيں اور حق ميں سے جو چيز بهی
لوگوں کے ہاته ميں ہے انہوں نے اسی خاندان جو وحی و تنزیل کے معادن و مرکز ہيں سے اخذ
کيا ہے اور یہ بات فطری ہے جاہل کو حق سے جدا کرنے والے بهی ہيں۔
٩۴ ۔ “فی الکافی بِاسنْادِہِ عَنْ مُحمَّد بن مُسلمٍ قالَ سمعت اَبا جَعفَرٍ عليہ السلام یَقولُ
لَيس عندَ اَحَد مِنَ النّاسِ حقٌ وَلا صَوابٌ وَلا اَحَدٌ مِنَ النّاسِ یَقضی بِقَضاءِ حَقٍّ الاَّ ماخَرَجَ مِنّا اَهلَ
) البَيتِ وَاِذٰا تَشعبَتْ لهُمُ الاٴُمُورُ کٰانَ الخَطاٴ مِنهم وَالصّوابُ من عِلیٍّ عليہ السلام ” ( ١
کافی ميں کلينی اپنی سند کے ساته نقل کرتے ہيں کہ محمد ابن مسلم کا بيان ہے:
ميں نے حضرت امام محمد باقر - سے سنا ہے کہ کسی بهی انسان کے پاس عمل اور حق و
حقيقت پر مبنی صحيح بات نہيں پائی جاتی اور نہ ہی کوئی شخص خدا کے حکم کے مطابق
صحيح اور حق کے ساته فيصلہ کرسکتا ہے مگر یہ کہ ہم اہل بيت (عصمت و طہارت) ہی سے
اس کو اس نے دریافت کيا ہے لہٰذا جب ایسے امور ان سے شائع ہوں تو ان ميں جو (حق و باطل
کے ساته مخلوط ہوں) خطا اور باطل پر مبنی ہوں گے تو وہ ان لوگوں کی طرف سے ہوں گے اور
جو حق و صواب پر مبنی ہوں گے وہ حضرت علی - کی طرف سے ہوں گے۔
٩۵ ۔ “وفيہ ایضاً باسنادہ عن ابی بصير ، قالَ ساٴلت اَبا جَعفَر عليہ السلام عَن شَہادَة وَلَد
الزّنا تجُوزُ؟ فَقال لا ، فَقُلْتُ اِنَّ الحَکَمَ بن عُتيْبَة یزعَمُ انّها تجوزُ فَقالَ: اللّهم لاٰ تغفرُ ذَنبُہ ما قالَ اللّٰہ
لِلحکَمَ : <انّہ لَذِکرٌ لَکَ وَلِقومکَ> ( ٢) فَليَذهَب الحکَمُ یَميناً و شمالاً فَوَاللہّٰ لا یُوٴخَْذُ العِلمُ اِلا مِن اهلْ بيتٍ نَزَلَ عَلَيہم جَبرئيل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٣٩٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ زخرف، آیت ۴٣ ۔ (
) عليہ السلام ” ( ١
اسی کافی ميں ہی ابوبصير سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہيں : ميں نے حضرت
امام محمد باقر سے ولد الزنا کی گواہی کے بارے ميں دریافت کيا کہ کيا اس کی گواہی دینا
جائز اور وہ نافذ ہوگی؟ تو امام - نے فرمایا: نہيں، ميں نے عرض کيا: حَکَم کہتا ہے: جائز ہے، تو
امام - نے اس کو نفرین اور ملامت کرکے فرمایا: اے خدا ! تو حَکَم کے گناہ کو نہ بخشنا، خدائے
عزوجل نے حَکَم بن عتبہ سے یہ نہيں فرمایا ہے کہ یہ قرآن تمہارے اور تمہاری قوم کے ليے نازل
ہوا ہے، حکم جہاں بهی جانا چاہے جائے داہنی طرف یا بائيں طرف (دونوں گمراہ کرنے والے ہيں)
الله کی قسم! کسی بهی قسم کا علم حاصل نہيں ہوگا سوائے ان اہل بيت کے کہ جن کے
اوپر جبرئيل امين نازل ہوئے ہيں۔
٩۶ ۔ آیہٴ کریمہ <اِنّہ لذکر لک> کی تفسير ميں امام جعفر صادق - سے روایت ہوئی ہے
کہ حضرت نے فرمایا: ذکر قرآن ہے یا پيغمبر اسلام کی قوم ہے اور ہم سے سوال کيا جائے گا
الله تعالیٰ نے ہمارے ذکر کا قصد کيا ہے اور ہم اہل ذکر ہيں اور ہم ہی سے سوال کيا جائے گا۔
)٢)
٩٧ ۔ فریقين کی روایات ميں بطور مستفيض بلکہ متواتر طریقہ سے پيغمبر اسلام سے یہ
حدیث ہم تک پہنچی ہے: “ عَلِیٌّ مَعَ الحَقِّ وَالحَقُّ مَعَ عَلِیٍ یَدُورُ حَيثُْ اٰ در ”۔ ( ٣) علی حق کے
ساته ہيں اور حق علی کے ساته ہے حق وہاں وہاں جائے گا جہاں علی جائيں گے۔
٩٨ ۔ زیارت جامعہٴ کبيرہ ميں یہ فقرہ موجود ہے :وَالحقُّ معکم وَفيکُمْ وَاَنتُم اهَلہُ وَمَعْدِنُہُ
الخ۔
حق آپ کے ساته آپ ميں آپ سے اور آپ کی طرف ہے آپ ہی اسی کے اہل اور راز کے
معدن و مرکز ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ١، ص ۴٠٠ ۔ (
٢(۔ بصائر الدرجات، ص ۶٢ ، مستدرک الوسائل، ج ١٧ ، ص ٢٧٨ ۔ (
٣(۔ الفصول المختارة، ص ٣٣٢ ، مناقب ابن شہر آشوب، ج ٢، ص ٢۶٠ ، النص و الاجتہاد، ص ۶٩ ۔ (
٧۔ محکم اساس /٢
٧۔ وَبُنيٰاناً لا تُهْدَمُ اَرْکانُہُ (ایسی عمارت ہے کہ جس کے ارکان منہدم نہيں ہوسکتے ہيں(
آسمانی اور الٰہی کتاب عزیز ایسی عمارت ہے کہ اس کے ارکان انہدام پذیر نہيں ہيں،
ایسی عمارت ہے کہ جسے بہت قوی مصالح اور محکم ستون سے اس کی اساس و بنياد
رکهی گئی ہے اور اس کے تمام ارکان انجينئرنگ کے صحيح اصولوں کے ساته درست کيے گئے
ہيں، اس طرح سے کہ تمام جہتوں سے ڻوڻنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہيں قرآن مجيد کے
بهی تمام الفاظ اور اجزاء بطور منظم صحيح تنظيم و ترتيب دینے والے کے ذریعے اس کے بعض
جز بعض دوسرے محکم حصے سے مستحکم طور پر مرتبط ہيں، خلل ، کہنگی اور شکست
عارض ہونے سے محفوظ ہيں۔
٩٩ ۔ “وفی العُيونْ باسنادِہِ عَن مُحمّد بن مُوسیٰ الرّازی عَن ابيہ قالَ ذَکَرَ الرضا عليہ
السلام یَوماً القرانَ فَعَظَّم الحجَّة فيہِ والاٴَیَةَ المُعجزَة فی نظمِْہِ فَقالَ هُوَ حَبلُْ اللہّٰ المتين وَعُروَتُہُ
الوُثقی وَ طَریقتةُ المثُلْی ، الموٴدّی اِلی الجنَّةِ وَالمنجی مِنَ النّارِ ، لا یخلَقُ مِنَ الازْمِنَةِ وَلا یُغْمَتُ
عَلَی الاٴلسِنَةِ لِاَنّہ لَم یُعجلَ لِزمانٍ دُونَ زَمانٍ بَل جُعِلَ دَليل البُرهْانِ ، حُجَّةً عَل یٰ کُلّ انسانٍ ، لا
) یاٴتيہِ الباطِلُ مِن بَينِ یَدَیہِ وَلا مِن خَلفِہِ تَنزیلٌ مِن حَکيمٍ حَميدٍ ۔” ( ١
کتاب عيون الاخبار الرضا ميں محمد ابن موسی رازی نے اپنے پدر بزرگوار سے روایت کی
ہے کہ انہوں نے کہا: حضرت امام رضا - نے ایک دن قرآن مجيد کے بارے ميں گفتگو کی
توفرمایا: اس ميں حجّت اور برہان بہت عظيم ہے ایک عاجز کردینے والی علامت اس کی نظم و
ترتيب ميں پائی جاتی ہے پهر فرمایا: قرآن الله تعالیٰ کی محکم رسّی ہے اور اس خدا کا نہ
ڻوڻنے والا دستہ ہے اور اس (خدائے سبحان) کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عيون الاخبار الرضا، ج ١، ص ١٢٧ ، بحار الانوار، ج ١٧ ، ص ٢١٠ ، تفسير نور الثقلين، ج ١، ص (
٢۶٣ ۔
بغير کجی کے سيدها راستہ ہے جو بہشت کی طرف لے جاتا ہے اور آتش جہنم سے نجات
عطا کرتا ہے، زمانے کی طولانی مدت اسے بوسيدہ نہيں کرسکتی اور زبانوں پر سنگينی کا
احساس نہيں ہونے دیتيں اس ليے کہ اسے کسی مخصوص زمانہ کے ليے نہيں قرار دیا گيا ہے
بلکہ اسے تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی اور رہ گشائی کے ليے دليل و برہان قرار دیا گيا
ہے۔ اس کے قریب سامنے یا پيچهے کسی طرف سے باطل آبهی نہيں سکتا ہے کيونکہ یہ
خدائے حکيم و حميد کی نازل کی ہوئی کتاب ہے۔
حضرت ولی عصر حجة ابن الحسن العسکری عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف ناموس دہر
کا مقدس وجود اور ان کے اجداد طاہرین عليہم السلام جو قرآن مجيد کے مساوی اور ثقلين کا
دوسرا حصہ ہيں ان کا وجود اقدس و اطہر یکے بعد دیگرے دین مقدس اسلام کے ائمہٴ راہ حق
اور صراط مستقيم کے رہبر ہيں کہ کسی بهی قسم کا باطل انحراف اور ضلالت ان ميں نفوذ
نہيں کرسکتی اور کسی ایک کو بهی گمراہی کی وادی تک نہيں پہنچایا ہے۔
جس طرح قرآن کریم کسی مخصوص زمانہ اور مخصوص امت کے ليے نہيں نازل کيا گيا
بلکہ تمام افراد بشر کے ليے ثابت اور محکم قوانين کے ساته نہایت بلند مضامين اور انسان ساز
مطالب پر مشتمل ہے جو پيغمبر اکرم کے قلب مبارک پر نازل ہوا اور اس کے تمام علوم و مطالب
کو اپنے حبيب حضرت محمد ابن عبدالله (ص) کے ہر دل عزیز قلب ميں قرار دیا نيز ائمہٴ اطہار
کو تمام مخلوقات سے منتخب کيا نيز انہيں اپنا نمائندہ اور اولو الامر ميں سے قرار دیا اور تمام
مخلوق پر گواہ بنایا ہے، وہ وہی ذوات مقدسہ ہيں کہ کتاب عزیز ميں انہيں راسخون فی العلم
اور ہدایت کی علامات اور اہل ذکر سے توصيف کيا گيا ہے اور اپنی تمام مخلوقات کو حکم دیا ہے
کہ اپنی مادی اور مصنوعی مشکلات ميں ان سے سوال کریں، یہ وہی لوگ ہيں کہ جن پر
آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہيں بالخصوص شبہای قدر ميں <تَنَزَّلُ المَْلاَئِکَةُ وَالرُّوحُ فِيہَا بِإِذنِْ
رَبِّہِم مِن کُلِّ اٴَمرٍْ> (اس ميں ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساته تمام امور لے کر نازل ہوتے
ہيں) الله تعالیٰ کے حکم سے مخلوقات خدا کی تقدیریں امام زمانہ عجل الله فرجہ الشریف کے
پُر برکت ہاتهوں سے اجرا کی جاتی ہيں لہٰذا یہ عظيم ہستياں بهی قرآن مجيد کی طرح کسی
خاص اور مخصوص زمانے کے ليے نہيں ہيں بلکہ صبح قيامت تک ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ
رہيں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر پيغمبر اکرم (ص) کی خدمت ميں حاضر ہوں گی۔اللهم لا
تفرّق بيننا وبينهم طرفة عين ابداً بمحمد وآلہ الطاہرین
اے خدا! ہمارے اور ان لوگوں کے درميان کبهی بهی ایک لحظہ کے ليے جدائی قرار نہ
دے۔ بمحمد وآلہ الطاہرین۔
٨۔ شفاء /٢
٨۔ وَشفاءً لا تُخْشی اٴسقٰامُہُ (ایسی شفا ہے جس ميں بيماری کا کوئی خوف لاحق
نہيں ہے(
یعنی قرآن مجيد تمام ابدان اور ارواح کے ليے شفا بخش ہے اور ہر انسان کی روح اور بدن
کا اس طرح بيمہ کردیتا ہے کہ کس بهی قسم سے کفر ق نفاق اور جہل و عناد کے جراثيم ميں
سے اس کی جڑ ميں نفوذ نہيں کرسکتے ۔
موجودہ احادیث کے علاوہ تجربات اور عينی مشاہدات کے ذریعے شفا حاصل کرنے کے
ليے آیات کے خواص نے یہ ثابت کردیا ہے کہ مختلف اقسام کے درد و آلام اور متعدد بيماریوں کا
آیات قرآنی کے ذریعے علاج کرکے شفا حاصل کی گئی ہے۔
١٠٠ ۔ “وفی الکافی باسنادہ عن السکونی عن ابی عبد اللّٰہ عن آبائہ عليہم السلام قال:
شَکی رَجُلٌ اِلَی النَّبی (ص) وَجَعاً فی صَدرِہِ فقالَ اِستَشفِْ بِالقرآن فَانَّ اللہّٰ عَزوجلَ یَقُولُ :< وَ
) شِفاءٌ لِما فی الصّدُورِ > ( ١
کلينی نے کافی ميں اپنی سند کے ساته سکونی سے روایت ذکر کی ہے کہ امام جعفر
صادق - نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ اصول کافی، ج ٢، ص ۶٠٠ ، مکارم الاخلاق، ص ٣٧٨ ، عدة الداعی، ص ٢٧۴ ، بحار الانوار، (
ج ٨٩ ، ص ١٧۶ ۔
اپنے آبائے کرام سے روایت نقل کی ہے کہ : ایک شخص نے اپنے سينہ کے درد کی شکایت
کی تو حضرت نے فرمایا: قرآن کے ذریعہ شفا حاصل کرو کيوں کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے: قرآن ہر
درد (اور اس مرض) کے ليے شفا ہے جو سينوں کے اندر ہے۔
١٠١ ۔ سلمة ابن محرّر کا بيان ہے: ميں نے حضرت امام محمد باقر - کو یہ فرماتے ہوئے
سنا ہے کہ جس شخص کی بيماری کا علاج سورئہ حمد نہ کرسکے تو دوسری چيز اس کو
شفا نہيں عطا کرسکتی۔
اس جملہٴ مبارکہ کی تفصيل کو ( وَشفاءً لا تُخْشی اٴسقٰامُہُ ) (ایسی شفا ہے جس
( ميں بيماری کا کوئی خوف لاحق نہيں ہے) پچيسویں حصہ ميں فرمایا: “ودواء ليس معہ داء” ( ١
(یہ وہ دوا ہے جس کے بعد کوئی مرض نہيں رہ سکتا) توفيق الٰہی اور الله کی عطا کردہ قوت
سے ذکر کریں گے انشاء الله تعالیٰ۔
ليکن ارواح کے علاج کی کيفيت جو جہل اور عناد جيسے امراض ميں مبتلا ہيں، مذکورہ
مطالب جسے ہم نے اجمالی طور پر ذکر کيا ہے معلوم ہوا کہ قرآن کریم تمام درد اور مختلف
بيماریوں جسموں سے شفا دینے والی ہے نيز تمام دلوں کو ہر اس قسم کے شک و شبہ سے
شفا بخشتا ہے جو ان پرعارض ہوا ہے۔
) الله تعالیٰ نے فرمایا: <قُل ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ> ( ١
آپ کہہ دیجيے کہ یہ کتاب صاحبان ایمان کے ليے شفا اور ہدایت ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: < وَنُنَزِّلُ مِن القُْرآْنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَرَحمَْةٌ لِلمُْؤمِْنِينَ وَلاَیَزِیدُ الظَّالِمِينَ إِلاَّ
) خَسَارًا > ( ٢
اور ہم قرآن ميں وہ سب کچه نازل کر رہے ہيں جو صاحبان ایمان کے ليے شفا اور رحمت
ہے اور ظالمين کے ليے خسارہ ميں اضافہ کے علاوہ کچه نہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ فصلت، آیت ۴۴ ۔ (
٢(۔ سورئہ اسراء، آیت ٨٢ ۔ (
مولف کہتے ہيں: شيخ بزرگوار حضرت امين الاسلام طبرسی رحمة الله عليہ نے قرآن کے
شفاء ہونے کے بارے ميں چند دليل بيان کی ہے۔
١۔ چونکہ قرآن ميں ایسے بيانات موجود ہيں جو نابينائی جہالت و حيرت اور شک و شبہ
کو ختم کردیتے ہيں۔
٢۔ چونکہ قرآن ميں ایسی نظم و ترکيب اور فصاحت و بلاغت موجود ہے جو اعجاز کی حد
تک پہنچی ہوئی ہے جو نبی اکرم (ص) کی صداقت پر دلالت کرتی ہے لہٰذا قرآن اس جہت
سے شفاء ہے کہ نابينائی، جہالت اور شک و شبہ کو دین اور ان کے دلوں سے برطرف کرتا ہے۔
٣۔ قرآن اور اس کی تلاوت کے ساته بطور تبرک بيماریوں اور ناگوار چيزوں ميں اس کے
ذریعہ خدا سے مدد طلب کرتے ہيں اور الله تعالیٰ اس کے وسيلے سے بہت سی ناگوار چيزوں
اور مضرات کو اپنی حکمت کے تقاضوں کے تحت دور کردیتا ہے۔
۴۔ ہر قسم کے دلائل توحيد و عدل اور شریعتوں کا بيان قرآن کریم ميں پایا جاتا ہے۔ لہٰذا
لوگوں کے ليے دنيا ميں اور ان کی آخرت ميں شفاء ہے نيز مومنين کے ليے رحمت ہے یعنی ان
کے ليے نعمت ہے کيونکہ ان سے ایمان کے ذریعہ انہيں نفع پہنچتا ہے ۔ طبرسی صاحب کی
) بات ختم ہوئی خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔ ( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير مجمع البيان، ج ۶، ص ۶٧٣ ۔ (
٩۔ عزت /٢
٩۔ وَعِزّاً لا تُهزَْمُ اَن صٰارُہُ ( ایسی عزت ہے جس کے انصار پسپا نہيں ہوسکتے(
یہ قرآن مجيد ہر مومن قاری کے ليے عزت و سربلندی کا باعث ہے کہ جس کے اعوان و
انصار کبهی بهی مقلوب و مغلوب نہيں ہوسکتے۔
و قال اللّٰہ تعالیٰ :<إِنَّمَا المُْؤمِْنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَت قُلُوبُہُم وَإِذَا تُلِيَت عَلَيہِْم آیاتُہُ
) زَادَتہُْم إِیمَانًَا وَعَلَی رَبِّہِم یَتَوَکَّلُونَ > ( ١
الله تعالیٰ نے فرمایا: صاحبان ایمان درحقيقت وہ لوگ ہيں جن کے سامنے ذکر خدا کيا
جائے تو ان کے دلوں ميں خوف خدا پيدا ہو اور اس کے آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے
ایمان ميں اضافہ ہوجائے اور وہ لوگ الله ہی پرتوکل کرتے ہيں۔
و قال اللّٰہ تعالیٰ : <لَن یَجعَْلَ اللهُ لِلکَْافِرِینَ عَلَی المُْؤمِْنِينَ سَبِيلًا > ( ٢) الله تعالیٰ نے
فرمایا: الله تعالیٰ کبهی بهی کافروں کو مومنين پر مسلط نہيں فرماتا اور ان کے پاس دین کا
کوئی راستہ نہيں ہے۔
آیہٴ کریمہ کی وضاحت مومنين پر کفار کے مسلّط ہونے اور نفوذ پيدا کرنے کے ليے کہ
کن مقامات پر اس کاامکان پایا جاتا ہے اور کن مقامات پر امکانات موجود نہيں ہيں، بعد والے
حصّے ميں (حضرت - کے قول “ولا تخذل اعوانہ” وہ ایسا حق ہے کہ جس نے اعوان بے یارو
مددگار نہيں چهوڑے جاسکتے )کے ضمن ميں آئے گا انشاء الله تعالیٰ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ انفال، آیت ٢۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ١۴١ ۔ (
١٠ ۔ حقيقت /٢
١٠ ۔ وَحَقَّا لا تُخذَْلُ اَعوْانُہ(وہ ایسا حق ہے کہ جس کے اعوان بے یارومددگار نہيں چهوڑے
جاسکتے)۔
قرآن مجيد ایسا حق ہے اس کے اعوان و انصار زمانے کے کسی بهی حصے ميں بے یارو
مدگار نہيں ہوسکتے اس کے اعوان و انصار سے مراد ایسے مسلمان حضرات ہيں جو حق کی
معرفت رکهتے ہيں اور اس کے احکام و قوانين پر عمل کرنے والے تهے اور کسی بهی طاقت کے
مقابل ميں ان کے زیر تسلط اور تحت تاثير نہيں قرار پائے کہ وہ مغلوب اور پسپا نہيں ہوتے اسی
معنی ميں آیہٴ کریمہ <لَن یَجعَْلَ اللهُ لِلکَْافِرِینَ عَلَی المُْؤمِْنِينَ سَبِيلًا > (اور کفار کے ليے صاحبان
ایمان کے خلاف کوئی راہ نہيں قرار دے سکتا) صریحی طور پر دلالت کرتی ہے۔ شيخ بزرگوار،
عالی قدر مفسر طبرسی عليہ الرحمة اپنی کتاب مجمع البيان ميں آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں رقم
طراز ہيں کہ اس ميں چند اقوال پائے جاتے ہيں:
١۔ “لَن یَجعلَ اللہُّٰ لِليهودِ عَلَی الموٴُمِنينَ نَصراً وَلا ظَهُورا“ً
یعنی الله تعالیٰ نے کبهی بهی کوئی ایسی چيز قرار نہيں دی ہے کہ یہود مومنين کے
خلاف قيام کریں اور خدائے عزوجل مومنين پرانہيں نصرت اور غلبہ عطا کرے۔
٢۔لَن یَجعلَ اللہّٰ لِلکافِرینَ عَلَی الموٴمنينَ سَبيلاً بِالحُجَّةِ وَانِ جاَزان یغلِبوهُم بِالقُوة کٰلنَّ
الموٴمِنينَ منصُْورُونَ بِالدَّلالَةِ والحجةِ
یعنی الله تعالیٰ نے مقام احتجاج اور کفار کے ساته مناظرہ کی صورت ميں ان کو مومنين
کے خلاف کوئی راستہ قرار نہيں دیا ہے، اگرچہ طاقت اور ظاہری مادی قوت کی بنا پر غالب آنے
کا امکان پایا جاتا ہے ليکن ایسے بهی مومنين موجود ہيں جو خدائے منّان کی طرف سے قاطع
دليلوں اور حجّتوں کے ذریعہ نفوذ پيدا کرنے والے تائيد شدہ اور مدد کيے ہوئے ہيں۔
٣۔ “لَن یَجعلَ اللہُّٰ لَهُم فِی الآخِرَةِ عَلَيهِم سَبيلا“ً
یعنی خدائے عزوجل نے آخرت ميں مومنين پر یہود کو غلبہ پانے کے ليے کوئی راستہ
قرار نہيں دیا ہے چوں کہ آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں <فاللّٰہ یحکم بينهم یوم القيامة> (یعنی الله ان
کے درميان قيامت کے دن فيصلہ کرے گا) فرماتا ہے: <لَن یَجعَْلَ اللهُ> ( ١) لہٰذا اگر کفار اور یہود
دنياميں بهی مومنين کے خلاف کوئی راستہ، قہر وغلبہ قتل و غارت اسارت و استعمار گری اور
غارت گری وغيرہ کے ذریعے کسی طرح کا غلبہ حاصل کر بهی ليں ليکن قيامت کے دن کسی
بهی عنوان سے اور کسی بهی صورت ميں مومنين پر غلبہ پانے کا کوئی راستہ موجود نہ ہوگا۔
مولف کہتے ہيں: دوسرا قول اکثریت کا ہے بلکہ تمام علمائے و فقہاء اسلام کا یہی
نظریہ ہے اور بارہا تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ بہت سے عام لوگوں سے نزاع اور احتجاج کے وقت
اسلام کے مخالفين کے ساته ایسے کلمات اگرچہ خود ساختہ طور پر صادر ہوئے ہيںجن کے
ذریعے مقابل کو پسپا کردیا اور اسے اپنی بات تسليم کرالی ہے اور آیہٴ کریمہ نے واقعی
مصداق پيدا کرليا ہے اس قول کی تائيد ميں یہ آیہٴ کریمہ ہے: <وَالَّذِینَ یُحَاجُّونَ فِی اللهِ مِن بَعدِْ
) مَا استُْجِيبَ لَہُ حُجَّتُہُم دَاحِضَةٌ عِندَْ رَبِّہِم وَعَلَيہِْم غَضَبٌ وَلَہُم عَذَابٌ شَدِیدٌ> ( ٢
اور جو لوگ اس کے مان ليے جانے کے بعد خدا کے بارے ميں جهگڑا کرتے ہيں ان کی
دليل و حجّت بالکل مہمل اور لغو ہے اور ان پر الله کا غيظ و غضب ہے اور ان کے ليے شدید قسم
کا دردناک عذاب ہے۔
مولف کہتے ہيں: امام عصر ناموس دہر حضرت بقيہ الله الاعظم روحی لہ الفداء اور تمام
ائمہ عليہم السلام الله تعالیٰ کے ولی امر اور برحق خليفہ اور نمائندہ تهے اور ان بزرگوار کے
تمام باوفا یار و یاور مومنين ان کے حق کو پہچانتے تهے اور ان کے احکام کی بجا آوری، فداکاری
اور جاں نثاری نيز ان کے مقدس وجود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ١۴١ ۔ (
٢(۔ سورہ شوریٰ، آیت ١۶ ۔ (
کے حریم سے دفاع کرتے ہيں کوتاہی اور دریغ نہيں کيا۔
اس دعوی کی زندہ دليل صدر اسلام ميں راہ حق و فضيلت کے جاں باز سپاہی اور
شہداء سے لے کر حضرت سيد الشہداء سلام الله عليہم اجمعين کے اصحاب و انصار ہيں۔
ليکن مناظرہ اور گفتگو کی جہت سے کون عالم ، فقيہ، فلسفی اور دنيا کا دانشمند
ایسا ہے جو ان عظيم ہستيوں کے مقابل ميں اپنے وجود کا اظہار کرے انہيں مغلوب اور ذليل و
رسوا کرنے کی بات تو بہت دور کی ہے۔
|