|
٢۔ تازگی
”القرآْنُ غَضٌّ طَرِیٌ لا یَندْرِسُ بمرُورِ الزَمّانِ وَکَ لٰ ذِکِ الحجةُ عليہ السلام“
قرآن اور امام زمانہ - ہميشہ تازہ ہيں اور کبهی بهی مرور زمانہ سے ان کی طراوت و
شادابی اور تازگی کم نہيں ہوگی۔
٧۶ ۔ “عَنِ الرِضا عَنْ اَبيہ عليہما السلام انَّہ سُئِلَ اَبو عَبدِ اللّٰہِ عليہ السلام ما بالُ القرآنْ لا
یَزْدادُ عَلَی النّشر والدَّرس الاَّ غَضّاً ؟ فَقال عليہ السلام : لاٴ نَّ اللہَّٰ تَبارکَ وَ تَعال یٰ لَم یَجعَْلہُْ لِزَمانٍ
) دوُنَ زَمانٍ وَلا لِناسٍ دوُنَ ناسٍ ، فَهُو فی کلِّ زَمانٍ جَدیدٌ وَعِندَ کُلّ قومٍ غَضٌّ اِل یٰ یَومِ الق يٰمة ” ( ١
حضرت امام رضا - نے اپنے پدر بزرگوار (عليہما السلام) سے روایت کی ہے کہ حضرت
امام جعفر صادق - سے سوال کيا کہ کيوں قرآن کی جتنا زیادہ نشرو اشاعت کرتے ہيں اور اس
کی تدریس کرتے ہيں اس کی شادابی اور تازگی ميں اضافہ ہوتا جاتا ہے (اس سے احساس
خستگی نفرت اور دوری نہيں پيدا ہوتی) تو امام - نے فرمایا: چونکہ الله تبارک و تعالیٰ نے قرآن
مجيد کو کسی ایک ہی زمانہ سے مخصوص نہيں کيا ہے اور اسی طرح صرف خاص لوگوں کے
ليے نہيں نازل فرمایا بلکہ ہر زمانے ميں اور وہ ہر قوم کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ عيون اخبار الرضا -، ج ١، ص ٩٣ ۔ امالی طوسی، ص ۵٨٠ ۔ بحار الانوار، ج ٢، ص ٢٨٠ ۔ ج ١٧ (
ص ٢١٣ ، ج ٨٩ ، ص ١۵ ۔
نزدیک صبح قيامت تک ہر دل عزیز اور شادابی و تازگی کے ساته ہے۔
مولف کہتے ہيں: حضرت حجّت بقية الله الاعظم ولی عصر ناموس دہر امام زمانہ عجل
الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود بهی خدا ئے حی و قدیر کی قدرت سے جہاں تک
اس کی مشيت و مرضی ہوگی زندہ و شاداب اور جوان رہے گا، کبهی بهی فرسودگی ، پيری ،
سستی اوران کے مقدس وجود ميں کسی قسم کے عيوب و نقائص ان ميں عارض نہيں
ہوسکتے اور ان کی امامت و خلافت اور تمام موجودات پر ان کا حجّت ہونا کسی خاص زمانہ اور
صدی سے مخصوص نہيں ہے، بلکہ جب تک خدائے حی و قيّوم ازلی و ابدی جو ہميشہ سے ہے
اور ہميشہ رہے گا امام زمانہ - کا پر برکت وجود بهی فریقين کی مسلّم اور معتبر روایت کی
صراحت کی بنا پر باقی رہے گا روئے زمين حجّت خدا سے خالی نہيں رہے گی یعنی جس زمانہ
تک زمين و زمان باقی ہيں واضح طور پر امام زمانہ - کا بهی ہونا ضروری ہے تاکہ خدا کے بندے
بے سرپرست حيراں و سرگرداں نہ ہوں۔
٧٧ ۔ “وَفی الکافی بِسَندٍ صَحيح عَن الوَشّا( اسمہ حسن بن علی ) قالَ سَئَلتُ اَبَا الحَسَن
الرّضا عليہ السلام هَل تَبقی الاَرضُ بِغيرِ امامٍ ؟قالَ لا، قُلتُ: انّا نَروی انَهّا لا تَبقی اِلاَّ انی یَسخَطَ
) اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ عَلی العِبادِ قالَ: لا تَبقی ، اِذاً لَساخَت”ْ( ١
کافی ميں صحيح سند کے ساته وشا (کہ جن کا نام حسن ابن علی ہے) سے روایت
نقل کی گئی ہے کہ ميں نے ابو الحسن امام علی رضا - سے دریافت کيا : کيا امام کے بغير
زمين باقی رہے گی؟ فرمایا: نہيں ميں نے عرض کيا: ہم روایت کرتے ہيں کہ بغير امام کے نہ رہے
گی مگر جب الله تعالیٰ اپنے بندوں سے ناراض ہو۔ فرمایا: اس وقت یقينا وہ اضطراب ميں آجائے
گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٧٩ ۔ (
٧٨ ۔ “وَ فی رِوایةٍ اُخریٰ عَن ابی عبدِ اللّٰہ عليہ السلام لَو بَقَيتِ الاَرضُ بِغير امامٍ لَساخَتْ”
)١)
دوسری روایت ميں امام جعفر صادق - سے نقل ہوا ہے کہ اگر زمين بغير امام کے ہو تو
وہ ویران و برباد ہوجائے گی۔
٧٩ ۔ “وَعَن غيبة النّعمانی عَن الّصادِق عَنْ اميرِ الموٴمنينَ عليہما السلام : وَاعلَْمُوا اَنَّ
الاَرضَ لاتَخلوُمِن حُجّةٍ للہِّٰ وَ کٰلنَّ اللہّٰ سَيعم یٰ خَلقَہُ مِنها بِظُلمِهِم وَجَورِهِم وَاسِرافِهِم عَل یٰ
) اَنفُسهِمِ وَلَو خَلَتِ الارض ساعَةً واحِدةً مِن حُجةٍ للہِّٰ لسَاخَت بِاهلِْها ” ( ٢
غيبت نعما نی ميں امام صادق - سے انہوں نے امير المومنين عليہما السلام سے
روایت کی ہے کہ : یاد رکهو کہ زمين کبهی بهی حجّت خدا سے خالی نہيں رہتی بس الله
تعالیٰ لوگوں کو ان سے ظلم و ستم جور و جفااور زیادتی کی وجہ سے اندها بنا دیتا ہے ورنہ
اگر زمين ایک لمحے کے ليے بهی حجّتِ خدا سے خالی ہوجائے تو شق ہوجائے اور تمام اہل
زمين اس ميں سما جائيں۔
ان روایت کی کثرت سے جو اس باب ميں ذکر ہوئی ہيں یہ نتيجہ اخذ ہوتا ہے کہ زمين
ایک لمحہ کے ليے بهی امام اور حجّت خدا کے بغير ناممکن ہے کہ باقی رہ جائے ورنہ تمام
زمين و زمان اور لوگ فنا ہوجائيں۔
قابل توجہ یہ ہے کہ یہ روایات اس زمانہ ميں امام زمانہ - کے وجود کو حتماً باقی رہنے پر
محکم دليل اور برہان قاطع ہے جو اِن لوگوں کے ليے ایک دندان شکن جواب بهی ہے کہ بعض
کوتاہ نظر لوگوں کو حضرت کی طولانی غيبت ان کے افکار کے تشویش کا باعث ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ غيبت نعمانی، ص ١۴١ ۔ (
٢(۔ غيبت نعمانی، ص ١۴١ ۔ (
نتيجہ ميں اس عالمی مصلح کی عمر مبارک کی کميّت (مدّت) اور کيفيّت کے بارے ميں
گفتگو ميں الجهے ہوئے ہيں۔ جب کہ اس عظيم ہستی کی طولانی عمر خواہ اعتقادی نقطہٴ
نظر سے ہو یا علمی نظریہ کی بنا پر ہو بہت واضح ہے اور کسی قسم کا اس ميں شک و شبہ
نہيں پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ قرآنی آیات اور بيرونی اور طبيعی شواہد بهی بہت ہيں قارئين
اس کے مقامات اور مطالب کی طرف رجوع کریں۔ یہاں بهی قرآن مجيد کی ایک آیت ہے کہ جس
ميں حضرت یونس (علی نبينا و آلہ عليہ السلام) کے واقعہ کی طرف اشارہ کيا گيا ہے ہم اس پر
اکتفا کرتے ہيں۔
) قالَ اللّٰہ تعالیٰ<فَلَولْاَاٴَنَّہُ کَانَ مِن المُْسَبِّحِينَ # لَلَبِثَ فِی بَطنِْہِ إِلَی یَومِْ یُبعَْثُونَ>:( ١
الله تعالیٰ فرماتا ہے: “پهر اگر حضرت یونس مچهلی کے شکم ميں خدا ئے سبحان کی
تسبيح و تقدیس نہ کرتے اور ندائے <لَا إِلَہَ إِلاَّ اٴَنتَْ سُبحَْانَکَ إِنِّی کُنتُ مِن الظَّالِمِينَ >( ٢) تيرے
علاوہ کوئی خدا نہيں ہے تو پاک و بے نياز ہے اور ميں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں ميں تها۔ نہ
دیتے تو یقينا روز قيامت تک مچهلی کے شکم ميں رہتے۔
فطری بات ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ اپنی لازوال قدرت سے مچهلی اسی طرح حضرت
یونس - کو صبح قيامت تک محفوظ رکهتا ، تو پهر کيا بڑی بات ہے کہ وہ اپنے نمائندہ اور حجّت
قائم آل محمد - کے مبارک وجود کو اور ان کے آباء و اجداد طاہرین کو الله تعالیٰ آسمان و زمين
کے گرنے اور برباد ہونے سے محفوظ رکهے، اور اپنی رحمت کو بندوں پر نازل کرے ان کی دعا
مستجاب فرمائے اور بلاؤں کو ان سے دور کرے۔ اللّهُمَّ عَجِّل فرَجَہ وَسَهِّل مَخرجہُ وَبَلّغہ اَفضَلَ مَا
امّلَہَ ، واجعَلنا مِن اٴعوانِہِ وَاَنصارِہِ وَشيعتَہِ وَالمستشهدینَ بَينَ یدَیہ، بحمدٍ وآلہ الطيبينَ الطّاهرینَ
صلواتکَ عَليهِم اجمَعينَ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١۴۴ ۔ ، ١(۔ سورئہ صافات، آیات ١۴٣ (
٢(۔ سورئہ انبياء، آیات ٨٧ ۔ (
اے خدا ! اس کے ظہور ميں تعجيل فرما اس کے خروج کو آسان فرما اور اس کو اس کی
بہترین آرزوؤں تک پہنچا دے، اور ہميں اس کے اعوان و انصار اور شيعوں ميں قرار دے اور اس کے
حضور ميں ہميں شہادت نصيب فرما۔ بحق محمد وآلہ الطيبين الطاہرین صلواتک عليہم اجمعين۔
مولی الموحدین حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب نے نہج البلاغہ ميں کتاب الله
العزیز کے اوصاف کے بارے ميں مختلف مقامات پر اور قرآن مجيد کی خصوصيات نيز عظمت و
منزلت کے متعلق بہترین مطالب بيان فرمائے ہيں کہ ان ميں سے ہر ایک جملہ قابل تعریف ہے
ناچيز حقير نے ان سے جو بہت زیادہ جامع اور قابل توجہ ہے اس ميں بياليس قسم کی فضيلت
و منقبت ذکر کی ہے۔ ہم اسے بطور تبرک ذکر کرتے ہيں اور ان ميں سے ہر ایک کو امام زمانہ -
کے مقدس وجود پر منطبق کرتے ہوئے بيان کریں گے۔
حضرت امير المومنين - نے اس خطبہ ميں پيغمبر کی بعثت اور اس کے عظيم فوائد کے
بارے ميں گفتگو فرمائی ہے اور مزید فرماتے ہيں:
٨٠ ۔ “ثُمَّ اَنَزلَْ عَلَيہِ الکِتابَ نُوراً لا یُطفَاٴ مَصابيحُہُ وَ سِراجاً لا یَخبُْو تَوَقُّدُہُ وَبَحراً لا یُدرَکُ قعرہُ
وَمِنهاجاً لا یَضِلّ نَهجُہُ وَشعاعاً لا یظلمُ ضوئہ وَفرقاناً لا یخْمد بُرهانُہُ وَبُنياناً لا یُهدَم اٴرکانُہُ وَشِفاءً لا
تُخشیٰ اٴسقامُہُ وَعِزّاً لا تُهزمُ اٴنصارُہُ وَحَقّاً لا تُخْذَلُ اٴعْوانُہُ
فَهُوَ مَعدِنُ الایمانِ وَبُحبُوحَتُہُ وَیَنابيعُ العِلِم وَبُحوُرُہُ وَریاضُ العَدلِ وَغُدرانُہُ اٴثافیّ الاسلامِ
وَبُنيانہُ وَاَودِیةُ الحِقّ وَغيطانُہُ ، بَحر لا یَنزِفُہُ المُستنَزفونَ ( الْنْتَزِفُون خ ل ) وَعيونٌ لا یُنضِبُها الماضونَ
وَمناهِل لا یغُضَها الواردونُ وَمَنازلُ لا یَضلُّ نَهجهَا المسافِرُونَ وَاَعلامُ لا یَعم یٰ عَنها السّائِرُونَ وَآکامٌ
لایَجُوزُ عَنها القاصِدُونَ
جَعَلَہ اللہّٰ رَیّاً لِعَطَشِ العلمآء وَرَبيعاً لِقلوبِ الفقَهاء وَمحاجّاً لِطُرقِ الصُّلَحاء وَ دَوآءً لَيسَْ مَعَہ
(بَعدہُ خ ل ) داءٌ وَ نوراً لَيسَ مَعَہ ظُلمةٌ ، حبلاً وَثيقاً عُروتَہُ وَمَعقِلاً مَنيعاً ذِروتُةُ ، عِزّاً لِمَن تَولاَّہُ
وَسِلماً لِمَن دَخَلَہ وَهُدیً لِمَنِ ائتم بِہِ وَعذراً لِمنَ اِنتَْحلَہ وَبُرهاناً لِمَن تَکَلَّم بِہِ وَ شاهِداً لِمَن خٰاصَمَ
بِہِ وَفلجاً لِمَن حاجَّ بِہِ وَحامِلاً لِمَن حَمَلَہُ وَمَطيّةً لِمَن اٴعملہ وَآیةً لِمن تَوسَّمَ وَجُنَّةً لَمَنِ استَلامَ
) وَعِلماً لِمَن وَع یٰ وحَدیثاً لِمَن رَو یٰ وَحُکمْاً لِمَن قض یٰ ” ( ١
اس کے بعد ان پر اس کتاب کو نازل کيا جس کی قندیل بجه نہيں سکتی اور جس کے
چراغ کی لو مدہم نہيں پڑ سکتی ہے وہ ایسا سمندر ہے کہ جس کی تهاہ مل نہيں سکتی اور
ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بهڻک نہيں سکتا ہے۔ ایسی شعاع ہے جس کی ضو تاریک
نہيں ہوسکتی اور ایسا حق و باطل کا امتياز ہے جس کا برہان کمزور نہيں ہوسکتا ہے۔ ایسی
وضاحت ہے کہ جس کے ارکان منہدم نہيں ہوسکتے ہيں اور ایسی شفا ہے جس ميں بيماری کا
کوئی خوف نہيں ہے ایسی عزت ہے جس کے انصار پسپا نہيں ہوسکتے ہيں اور ایسا حق ہے
جس کے اعوان بے یارو مددگار نہيں چهوڑے جاسکتے ہيں۔
یہ ایمان کا معدن و مرکز، علم کا چشمہ اور سمندر، عدالت کا باغ اور حوض، اسلام کا
سنگ بنياد اور اساس، حق کی وادی اور اس کا ہموار ميدان ہے۔ یہ وہ سمندر ہے جسے پانی
نکالنے والے ختم نہيں کرسکتے ہيں اور وہ چشمہ ہے جسے اُلچنے والے خشک نہيں کرسکتے
ہيں۔ وہ گهاٹ ہے جس پر وارد ہونے والے اس کا پانی کم نہيں کرسکتے ہيں اور وہ منزل ہے
جس کی راہ پر چلنے والے مسافر بهڻک نہيں سکتے ہيں۔ وہ نشانِ منزل ہے جو راہ گيروں کی
نظروں سے اوجهل نہيں ہوسکتا ہے اور وہ ڻيلہ ہے جس کا تصور کرنے والے آگے نہيں جاسکتے
ہيں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ١٩٨ ۔ (
پروردگار نے اسے علماء کی سيرابی کا ذریعہ فقہاء کے دلوں کی بہار، علماء کے
راستوں کے ليے شاہراہ قرار دیا ہے یہ وہ دوا ہے جس کے بعد کوئی مرض نہيں رہ سکتا اور وہ
نور ہے جس کے بعد کسی ظلمت کا امکان نہيں ہے۔ وہ ریسمان ہے جس کے حلقے مستحکم
ہيں اور وہ پناہ گاہ ہے جس کی بلندی محفوظ ہے چاہنے والوں کے ليے عزت، داخل ہونے والوں
کے ليے سلامتی، اقتداء کرنے والوں کے ليے ہدایت نسبت حاصل کرنے والوں کے ليے حجّت،
بولنے والوں کے ليے برہان اور مناظرہ کرنے والوں کے ليے شاہد ہے بحث کرنے والوں کی
کاميابی کا ذریعہ، اڻهانے والوں کے ليے بوجه بڻانے والا، عمل کرنے والوں کے ليے بہترین
سواری، حقيقت شناسوں کے ليے بہترین نشانی اور اسلحہ بيچنے والوں کے ليے بہترین سپر
ہے، فکر کرنے والوں کے ليے علم اور روایت کرنے والوں کے ليے حدیث اور قضاوت کرنے والوں
کے ليے قطعی حکم اور فيصلہ ہے۔
ہم حضرت مولی الموحدین امير المومنين - کے اس مبارک خطبہ کا ترجمہ اور تشریح
قرآن اور امام زمانہ - کے موازنہ کے ساته پيش کرتے ہيں
امام نے فرمایا: الله تعالیٰ نے پيغمبر اسلام کو مبعوث کرنے کے بعد قرآن مجيدکو
آنحضرت کے قلب مبارک پر نازل فرمایا جو اِن تمام مندرجہ ذیل اقدار اور معيار پر مشتمل ہے۔
١۔ نور /٢
١۔ نوراً لا یُطفاٴ مَصابيحُہُ۔
قرآن ایسا نور ہے کہ جس کے چراغ کی روشنائی ناتمام ہونے والی نہيں ہے۔
لوگوں کو اس کے ذریعہ ہدایت کرنے سے شباہت دینا جہل و نادانی کی ظلمتوں اور
تاریکيوں کی بنا پر ہے جس طرح محسوس نور اور روشنی کے ذریعہ تاریکی شب ميں لوگ
سامنے کی چيزیں دیکهتے ہيں الله تعالیٰ نے فرمایا: < انّ هذا القرآن یهدی للتی هی اقوم>
١) بے شک یہ قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سيدها ہے۔ اور مصابيح سے مراد )
ہدایت کے مختلف راستے اور علوم و فنون ہيں جو قرآن ميں موجود ہيں۔
مولف کہتے ہيں: قرآن مجيد کے بہت سے مختلف راستے ہيں کہ انسان ان ميں سے
کسی ایک پر چل سکتا ہے تو وہ فطر ی طور پر شاہ راہ ہدایت اور صراط مستقيم تک پہنچ جائے
گا، قرآن کریم نے لوگوں کو ان راستوں کی طرف متوجہ کيا ہے اور اس کی طرف چلنے کا حکم
دیا ہے۔ خلقت کے لحاظ سے اس کے تمام پہلو جو ابتدائی مادوں سے ڻپکے اور زمين کی تہ
سے باہر آئے یہاں تک کہ بعد والی تبدیلياں نطفہ، علقہ، مضغہ، ہڈی گوشت اور پهر روح داخل
کرکے انسانوں کو مکمل طور پر بنایا پهر فتبارک اللّٰہ (خدا کس قدر بابرکت ہے) کے امتياز کا
سزاوار ہوا اور کبهی فطرت کے ایجادات اور خلقت کے شاہکاروں کے لحاظ سے اس ميں غوروفکر
کرکے الله تعالیٰ کی صناعی ازل ميں غور کرکے جہالت و نادانی کے گرداب سے نکل کر فضل و
کمال اور راہ سعادت کے ساحل پر پہنچا ہے <اٴَفَلاَیَنظُْرُونَ إِلَی الإِْبِلِ کَيفَْ خُلِقَت > ( ٢) کيا یہ
لوگ اونٹ کی طرف نہيں دیکهتے ہيں کہ اسے کس طرح پيدا کيا گيا ہے۔ <اٴَوَلَم یَرَواْ إِلَی الطَّيرِْ
فَوقَْہُم صَافَّاتٍ وَیَقبِْضنَْ مَا یُمسِْکُہُنَّ إِلاَّ الرَّحمَْانُ إِنَّہُ بِکُلِّ شَیءٍْ بَصِيرٌ> ( ٣) کيا ان لوگوں نے اپنے
اوپر اپنے پرندوں کو نہيں دیکها جو پر پهيلا دیتے ہيں اور سميٹ ليتے ہيں کہ انہيں فضا ميں الله
کے علاوہ کوئی نہيں سنبهال سکتا کہ وہی ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے۔
پهر آسمانوں کی خلقت ميں فکر کرنا کہ اس کو بغير ستون کے کيسے آویزاں خلق کيا
ہے اسی طرح شب و روز کی گردش کشتی کو بيکراں دریاؤں کے اوپر رواں دواں ہونا ابر باراں کا
نازل ہونا آباد زمينوں کو آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ اسراء، آیت ٩۔ (
٢(۔ سورہ غاشيہ، آیت ١٧ ۔ (
٣(۔ سورہ ملک، آیت ١٩ ۔ (
کرنا اسی کی بابرکت ذات سے مختلف ہواؤں کا چلنا بادلوں کا زمين اور آسمان کے درميان چلنا
یہ سب قدرت الٰہی کے کرشمے ہيں اور انسانوں کی پروردگار کی طرف ہدایت کرتے ہيں۔ جيسا
کہ فرماتا ہے:
> إِنَّ فِی خَلقِْ السَّمَاوَاتِ وَالاْٴَرضِْ وَاختِْلاَفِ اللَّيلِْ وَالنَّہَارِ > ( ١) بے شک زمين وآسمان
کی خلقت روز و شب کی رفت و آمد ۔
یہ قابل تردید بات نہيں ہے کہ ان آیات یا اسی طرح اور دوسری آیتوں کے حقيقی اور
واقعی مطالب کے پيش نظر انسان کے ليے اس کا ضمير روشن ہوتا ہے اور دل کو نورانيت حاصل
ہوتی ہے جو حق کو باطل سے جدا اور صراط مستقيم کو غير مستقيم سے مشخص کرتا ہے۔
ائمہ کا مبارک وجود نور ہے اور مخلوقات کی خلقت سے ہزاروں سال پہلے الله تعالیٰ
نے ان کے انوار مقدسہ کو خلق کيا اور تمام عالم اور جو کچه اس ميں شمس و قمر، بہشت،
حور العين، ملائکہ ، عرش اور تمام افلاک اور ستاروں کو ان بزرگوں کے انوار کے حصوں سے پيدا
کيا، بالخصوص امام زمانہ کے مقدس نور سے جو ہميشہ مومنين کے دلوں ميں چمکتا رہتا ہے
اور آیات اور متعدد روایات اس بات کی تاکيد کرتی ہيں۔
٨١ ۔ “عَنِ الصّادِقِ عليہ السلام قالَ: ان محمّداً وَعَليّاً عليہما السلام کانا نوراً بَيْنَ یَدَیِ اللّٰہ
عزَوجل جلالہُ قَبلَ خَلقِ الخَلقِ بالْفی عامٍ وانَّ الملائِکة لمَّا رَاَتْ ذلٰکَ النُور راٴتْ لہ اصلاً وقد
انشَعَبَ منہُ شعاعٌ لامعٌ فقالتْ: الهٰنَا وَسَيّدنا مٰا هذا النّور ؟ فَاَوْحیَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اِليْهم هذا نورٌ مِنْ
نوری ، اصْلُہُ نُبُوَّة وَفَرعہُ امِامة، فامّا النّبوة لمحمدٍ (ص) عَبدْی وَرَسُولی وَاٴمَّا الاِمامة فَلِعَلِیٍ
) حجتی وَوَلِیّ وَلَولا هُما ما خَلقْتُ خَلْقی ” ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ بقرہ، آیت ١۶۴ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ١١ ۔ (
شيخ المحدثين علامہٴ جليل مجلسی رضوان الله تعالیٰ عليہ نے اپنے گراں قدر دائرة
المعارف “بحار الانوار” ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت نے فرمایا:
محمد و علی عليہما الصلاة و السلام دونوں ایک نور تهے جو خدائے عزوجل کی بارگاہ ميں دو
ہزار سال تمام مخلوقات کی خلقت سے پہلے موجود تهے، جب ملائکہ نے ان انوارِ قدسيہ کا
مشاہدہ کيا تو دیکها کہ وہ اصلی نور ہيں کہنے لگے: بار الٰہا! اے ميرے سيد و سردار! یہ نور
کيسا ہے (جسے ہم مشاہدہ کر رہے ہيں؟) خدائے عزوجل نے ان کی طرف وحی کی: یہ ایک
ایسا نور ہے جو ميرے نور سے مشتق ہے اس کی اصل اور اساس نبوت اور اس کی فرع اور
شاخ امامت ہے، نبوت ميرے بندہٴ خاص محمد سے مخصوص ہے اور وہ ميرا رسول اور فرستادہ
ہے ليکن امامت علی سے مخصوص ہے جو ميرا حجّت اور ولی ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ميں
) مخلوقات کو خلق نہ کرتا۔ ( ١
٨٢ ۔ “فيہ ایضاً عَنِ النّبی (ص) قالَ: اِنَّ اللہّٰ خَلَقَنی وَخَلَقَ عَلياً فاطِمة والحَْسَنَ والحُسَينْ
عليہم السلام قَبْل ان یخلْقَ آدَمَ حينَ لا سَمآء مبنيّة ولا ارْضَ مدحيةٌ ولا ظُلُمة وَلا نورٌ ولا شَمْسٌ
وَلا قَمَر ولا جنَّةٌ وَلا نارٌ فَقالَ العَّباس : فيکف کان بدو خِلقتکم یا رسول اللّٰہ (ص) فقالَ : یا عَمِّ لمّا
ارادَ اللہّٰ اَن یَخلُْقنا تَکلَّم بِکلِمةٍ خَلَقَ مِنها نُوراً، ثمَ تکَلَّم بِکلمةٍ اخر یٰ فَخَلَقَ مِنها رُوحاً ، ثُمَّ مَزَجَ
النورَ بِالرُّوحِ فخَلَقنی وَخَلَقَ عَلياً وَفاطمةً وَالحسَن والحسينَ ، فَکُنّا نُسبّحہُ حين لا تسبيح ونقدّسہُ
حين لا تقْدیسَ ، فَلما اراد اللّٰہ تعالیٰ اَنْ ینشیء خَلقَہ فَتَقَ نُوری فخلَقَ مِنہ العرش والعرش مِنْ
نُوری ، وَنوری مِنْ نُورِ اللّٰہ، انَّ نوری افْضَل مِنَ العَرش ، ثمَّ فَتَقَ اخی عَلیٍ فَخَلَقَ مِنہُ الملائِکَةَ
فملائِکة مِنْ نور عَلیٍّ وَنُور عَلیٍّ مِنْ نور اللّٰہ وَ عَلیّ افْضَلُ مَن الملائکة ثمَّ فَتَقَ نور ابنتی فاطمة
ونور ابنتی فاطمة من نور اللّٰہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ١١ ۔ (
وابنتی فاطمة افضل من السموات والارض ثم فتَقَ نورَ ولدی الحَسَنَ فخلقَ مِنہ الشَّمس والقَمر،
فالشمس والقَمر مِنْ نور وَلَدی الحسَن عليہ السلام وَ نُورُ الحَسَن مِن نور اللّٰہ والحسَن افضَل مِنَ
الشَّمس والقمر ، ثمَ فَتَقَ نورَ وَلدی الحُسَين صَلوات اللّٰہ عليہ وسلامہ فخلق مِنہ الجنّةَ وَالحور
العينَ ، فالجنة والحور العَين مِن نور وَلَدی الحسينِ وَ نُورُ وَلَدِیَ الحُسين مِنْ نورِ اللّٰہِ ، وَلدی
) الحُسَيْنُ افْضَلُ مِنَ الجنَّة والحُور العين” ( ١
نيز بحار الانوار ميں رسول اکرم (ص) سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
یقينا الله تعالیٰ نے مجهے خلق فرمایا اور علی، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام کو بهی
خلق فرمایا قبل اس کے کہ آدم کو پيدا کرے، جس وقت نہ آسمان وجود ميں آیا تها اور نہ ہی
زمين کا فرش بچهایا گيا تها نہ ہی نور و ظلمت ، آفتاب و ماہتاب اور جنت و جہنم کا وجود تها پهر
عباس نے عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! آپ کی خلقت کے آغاز کی کيفيت کيا تهی؟ فرمایا:
اے چچا! جس زمانے ميں خدائے بزرگ و برتر نے ہميں خلق کرنے کا ارادہ کيا تو ایک کلمہ کہا
اور اس کلمے سے ایک نور خلق فرمایا پهر دوسرا کلمہ کہا اور اس سے ایک روح خلق کی پهر
خود کو روح کے ساته مخلوط کيا پهر مجهے خلق کيا اور علی، فاطمہ اور حسن و حسين کو
بهی خلق فرمایا۔
ہم وہ تهے کہ خدائے سبحان کی تسبيح و تقدیس کرتے تهے جب کوئی بهی تسبيح و
تقدیس کرنے والا نہيں تها، جب خدائے بزرگ و برتر نے اپنی مخلوقات کو ایجاد و تخليق کا ارادہ
کيا تو ميرے نور کو شگافتہ کيا اور عرش کو ميرے نور سے خلق فرمایا اور ميرا نور خدا کا نور ہے
اور ميرا نور عرش سے افضل ہے، پهر ميرے بهائی علی کے نور کو شگافتہ کيا اور ان کے نور
سے ملائکہ کو خلق فرمایا پهر ملائکہ کو علی کے نور سے اور علی کے نور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ١۵ ، ص ١٠ ۔ (
کو خدا کے نور سے خلق کيا اور علی ملائکہ سے افضل ہيں اس نور کے بعد ميری بيڻی کے نور
کو شگافتہ کيا اور اس سے آسمانوں اور زمين کو پيدا کيا پس تمام آسمان اور زمين ميری بيڻی
فاطمہ کے نور سے خلق ہوئے اور ميری بيڻی فاطمہ کا نور خدا کا نور ہے اور ميری بيڻی فاطمہ
آسمانوں اور زمين سے افضل ہے، پهر ميرے بيڻے حسن کے نور کو شگافتہ کيا اور اس سے
آفتاب و ماہتاب کو خلق فرمایا اور سورج چاند کو ميرے بيڻے حسن کے نور سے خلق کيا اور
ميرے بيڻے کا نور خدا کے نور سے ہے اور حسن آفتاب و ماہتاب سے افضل ہے، اس کے بعد
ميرے بيڻے حسين کے نور کو شگافتہ فرمایا اور اس سے بہشت اور حور العين کے نور کو خلق
کيا پهر بہشت اور حور العين کو ميرے بيڻے حسين کے نور سے خلق کيا اور ميرے بيڻے حسين
کا نور خدائے سبحان کے نور سے ہے اور ميرا بيڻا حسين (عليہ و عليہم صلوات الله و سلامہ)
بہشت اور حور العين سے افضل ہے۔
ان دونوں روایت سے یہ استنباط و استنتاج ہوتا ہے کہ پيغمبراکرم (ص) اور ائمہٴ اطہار
کے انوار مقدسہ تمام موجودات کی اصل و اساس تهے اور ان سب کے انوار قدسيہ کی روشنی
سے تمام منظومات شمسی اور روشن ستارے تمام کواکب و انجم اور کہکشائيں انہيں عظيم
ہستيوں کے مقدس نور سے نشاٴة پاتے ہيں۔
قرآن مجيد ایسا نور اور روشنی ہے جو دائمی ہے اور خاموش ہونے والی نہيں ہے اور
لوگ ہميشہ ہميشہ اس کی ضيا اور نورانيت سے جہل اور جہالت کی ظلمتوں کی تاریکيوں اور
ظلم و بربریت سے نجات پائيں گے اور دونوں جہاں کی ہدایت و سعادت کی شاہراہ تک پہنچيں
گے۔
مہدی آل محمد حضرت قائم امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا ہر دل عزیز وجود
اور ان کے آباء و اجداد طاہرین (سلام الله عليہم اجمعين) جو تمام انوار قدسيہ کا مبداٴ و منشاٴ
ہيں ہميشہ دوسروں کے لےے ساطع و منور اور پرتو افکن تهے وہ بهی بطریق اولی غير قابل
زوال اور تغير ناپذیر ہوں گے۔ بالخصوص حضرت ولی عصر روحی لہ الفداء کا مقدس نور بہت سے
مقامات ميں خواہ ابتدائے ظہور ميں خواہ زمانہ غيبت اور زمانہ حضور ميں اشراقات و نورانيت کے
حامل تهے جيسا کہ عالم ملکوت ميں حضرت ابراہيم خليل الرحمن اور حضرت سيد الشہداء
حسين ابن علی عليہا السلام کی شہادت کے وقت اور معراج ميں خاتم الانبياء کے ليے ظاہر ہوا
ہے ایک مفصل حدیث کے ضمن ميں منقول ہے:
” یا محمد (ص) اٴتحِبّ اٴنْ تَراهُمْ ؟ قُلْتُ: نعَمَ یا رَبِّ ، فَقالَ: اٴلتفِت عَن یَمين العَرشِ
فَالتَفَتُّ فَاِذاً بعَلِیٍ وَفاطِمَةَ وَالحَْسَنِ وَالحُسَينِْ وَعَلیِّ بن الحسينِ وَمُحمَّد بن عَلیٍّ وَجَعفرَ بنَْ
مُحمَّد وَمُوس یٰ بنَ جَعفَْرٍ وَعَلِیّ بنِْ مُوس یٰ وَ محمَّد بنِْ عَلِیٍّ وَعَلِیّ بنْ محمدٍ وَالحَسَن بنَ عَلِیٍّ
وَالمَهدِْیُّ فی ضَحضْاحٍ مِن نُور، قيامٌ یُصَلّونَ ، وَهُوَ فی وَسَطِهِم - اَی المهْدی - کَانَّہُ کوکَبٌ دّرُِیٌ ”
)١)
اے محمد (ص) ! کيا ان کو دیکهنا چاہتے ہو؟ پيغمبر (ص) نے عرض کيا: ہاں ميرے
پروردگار! فرمایا: عرش کے داہنی طرف نگاہ کرو، لہٰذا ميں نے جب نگاہ کی تو علی، فاطمہ اور
حسن و حسين (بارہ امام) کا مشاہدہ کيا۔مہدی ان کے درميان نور کا ایک ہالہ تهے جو حالت
نماز و قيام ميں تهے اور وہ ان کے درميان نورانی ستارے کی طرح چمک رہے تهے۔
٢۔ چراغ /٢
٢۔ وَ سراجاً لاٰ یَخْبو تَوَقُّدُوہ (ایسا نور ہے جس کی لو مدہم نہيں پڑ سکتی ہے)
ایسا
ضوفشاں چراغ ہے جو کبهی بهی خاموش نہيں ہوسکتا جب تک دنيا باقی ہے اس کی لوگوں
کی ہدایت ختم نہيں ہوسکتی اور اس کے نور کے پرتو سے روشنی حاصل کریں گے۔
یہی معيار پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصياء کرام کے ہر دل عزیز وجود ميں آیہٴ کریمہ
کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔غيبت طوسی، ص ۴٨ ، بحار الانوار، ج ٣۶ ، ص ٢١۶ ۔ (
صراحت <یَااٴَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا اٴَرسَْلنَْاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا وَدَاعِيًا إِلَی اللهِ بِإِذنِْہِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا >
١) (اے پيغمبر! ہم نے آپ کو گواہ بشارت دینے والا، عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور خدا کی )
طرف سے اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بناکر بهيجا ہے) کے ساته موجود
ہے :
اے پيغمبر! ہم نے آپ کو اس امت کے تمام حالات پر شاہد اور حاضر و ناظر بناکر بهيجا
تاکہ اس کی تصدیق و تکذیب کو دیکهو اور ان کی گمراہيوں کا مشاہدہ کرو اور ہمارے نيک وعدوں
جنت اور الله کی لامتناہی نعمتوں کی خوش خبری دینے والا اور جہنم کے عذاب سے ڈرانے والا
اور خدائے سبحان کی اجازت و توفيق کے ساته اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا اور ایسا
روشن و تابندہ چراغ بناکر بهيجا کہ لوگوں اس کے ذریعہ جاہليت کے تعصبات اور جہالت کی
تاریکيوں سے نجات دے اور انہيں دنيا و آخرت کے سعادت کی معراج پر پہنچا دے۔
٨٣ ۔ حضرت امير المومنين علی بن ابی طالب عليہما السلام حدیث منزلت کے منطوق:
) “اَنتَْ مِنّی بِمَنزِْلَةِ هٰرُونَ مِن مُوس یٰ الاَّ اَنّہ لانَبی بَعَدی” ( ٢
”تمہيں مجه سے وہ نسبت و منزلت حاصل ہے جو حضرت ہارون کو حضرت موسیٰ سے
تهی مگر ميرے بعد کوئی نبی نہيں آئے گا” کی بنا پر پيغمبر اکرم (ص) کے تمام کمالات کے
حامل تهے سوائے منصب نبوت کے جو انہيں کی ذات اقدس سے مخصوص ہے۔
اور آیہٴ مباہلہ ميں “اَنفُْسَ اٰن” بهی اسی معنی کی وضاحت کرتا ہے۔
اور علی - کے گيارہ عزیز جو اسی شجرہٴ طيبہ سے تهے انبياء اور اوصياء کے وارث ہيں
حضرت بقية الله الاعظم - امام عصر (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) بهی جو ان کے تمام فضائل
و مناقب اور کمالات کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ احزاب، آیت ۴۶ ۔ (
٢(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٧٨ ، معانی الاخبار، ص ٧۴ ۔ (
حامل ہيں ان کا انوار مقدسہ بهی جب تک دنيا باقی رہے خاموش نہيں ہوا ہے اور نہ ہوگا <وَاللهُ
مُتِمُّ نُورِہِ وَلَو کَرِہَ الکَْافِرُونَ> ( ١) اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو
کتنی ہی ناگوار کيوں نہ ہو۔
٣۔ دریا /٢
٣۔ وَ بَحْراً لا یُدْرَکُ قَعْرُہُ( وہ ایسا سمندر ہے جس کی تهاہ نہيں مل سکتی ہے(
)وہ ایسا سمندر ہے جس کی تهاہ نہيں مل سکتی ہے)۔ اس ميں قرآن مجيد کی
عظمت کی طرف اشارہ ہے اس اعتبار سے کہ وہ جدید نکات اور اسرار خفيّہ پر مشتمل ہے نيز
اس ميں علوم کے دقائق و لطائف موجود ہيں اس کی گہرائی اور حقيقت کو درک نہيں کيا
جاسکتا اگرچہ تمام ہمتوں کو بروئے کار لایا جائے۔
بہت زیادہ قوی شناور بهی جس طرح سمندروں کی گہرائی تک نہيں پہنچ سکتے قرآن
مجيد کے مطالب کو بهی کہ جس کے بہت سے بطون ہيں قابل درک نہيں ہيں۔
مولف کہتے ہيں: قرآن مجيد کی بہت سی آیتوں ميں ایک قسم کے موضوعات اور عناوین
نگاہوں کے سامنے آتے ہيں کہ وہ سب پيغمبر خاتم (ص) کے وجود اقدس اور ان کے اوصياء
گرامی سے تعبير و تفسير کيے گئے ہيں۔
٨۴ ۔ “ فی الکٰافی بِاسنٰادِہِ عَنْ بُرَید بْنِ مُعاوِیَةَ عَنْ اَحَدِهما عليہما السلام فی قَوْلِ اللّٰہ
عَزَّوَجَلَّ <وَمَا یَعلَْمُ تَاٴوِْیلَہُ إِلاَّ اللهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی العِْلمِْ> ( ٢) فَرَسُولَ اللہّٰ (ص) اَفْضَلُ الرّاسِخُون
فی العِلم قَد عَلّمہ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ جَميعَ اما اَنزَْلَ عَلَيہِ منَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔سورئہ صف، آیت ٨۔ (
٢(۔سورئہ آل عمران، آیت ٧۔ (
التنزیل وَالتَاٴویل ، وَما کانَ اللّٰہ لينزِّل عَلَيہ شيئاً لَمْ یُعلِّمہ تاٴویلہ ، اٴوصيآئہُ مِنْ بعدِہِ یَعلمونہ کُلّہ،
یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِن > والَّذین لا یَعْلَمُونَ تَاٴویلَہُ اذا قالَ العالمُ فيهم بِعلمٍ ، فَاَجابَهُمُ اللّٰہ بقولہ
عِندِْ رَبِّنَا>( ١) وَالقُرآن خاصٌ وَعامٌ وَمُحکمٌ وَمُتشابہٌ وناسِخٌ وَ مَنسوخٌ فالراسخون فی العِلمِ
) یَعلمونَہ۔ ”( ٢
کافی ميں اپنی سند کے ساته برید ابن معاویہ نے امام محمد باقر - یا امام جعفر صادق
- سے روایت کی ہے کہ آیہٴ کریمہ <و الراسخون فی العلم> کے بارے ميں فرمایا: رسول خدا
(ص) راسخون فی العلم ميں افضل ہيں، یقينا الله تعالیٰ نے انہيں ان تمام چيزوں کا علم دیا تها
جو چيزیں ان پر تنزیل اور تاویل (قرآن) کی رو سے نازل کی تهيں اور الله تعالیٰ نے آنحضرت
(ص) پر کوئی ایسی شے نازل نہيں کی جس کی تاویل نہ بتادی ہو اور آنحضرت (ص) کے بعد
ان کے اوصيائے گرامی بهی ان تاویلات کے جاننے والے ہيں وہ لوگ جو نہيں جانتے ( شيعيان
اہل بيت) تو جب عالم آل محمد ان کو آگاہ کرتا ہے تو وہ <یَقُولُون آمنّا بِہِ کُلٌ من عنْد ربّہ> کہتے
ہيں کہ ہم اس پر ایمان لائے یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہے۔
قرآن کریم (جو بہت سے علوم پر مشتمل ہے) خاص و عام محکم و متشابہ، اس ميں
ناسخ و منسوخ موجود ہے وہ لوگ جو راسخون فی العلم ہيں تمام علوم قرآن کو جانتے ہيں۔
اسی کتاب ميں دوسری حدیث ميں عبد الرحمن ابن کثير نے امام جعفر صادق - سے
روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا:
) ٨۵ ۔ “الرّاسخون فی العلم اٴمير الموٴمنين والائمّة من بعدہ عليہم السّلام” : ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
٢(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١٣ ۔ (
٣(۔ اصول کافی، ج ١، ص ٢١٣ ۔ (
راسخون فی العلم حضرت امير المومنين - ہيں اور ان کے بعد ائمہٴ ہدیٰ ہيں۔
و قال تعالیٰ :<وَلَو اٴَنَّمَا فِی الاْٴَرضِْ مِن شَجَرَةٍ اٴَقلَْامٌ وَالبَْحرُْ یَمُدُّہُ مِن بَعدِْہِ سَبعَْةُ اٴَبحُْرٍ مَا
) نَفِدَت کَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِيمٌ> ( ١
الله تعالیٰ نے فرمایا: اگر روئے زمين کے تمام درخت قلم بن جائيں اور سمندر کا سہارا
دینے کے ليے سات سمندر اور آجائيں تو بهی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہيں ہيں بے شک
الله صاحب عزت بهی ہے اور صاحب حکمت بهی ہے۔
و قال تعالیٰ : <قُل لَو کَانَ البَْحرُْ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ البَْحرُْ قَبلَْ اٴَن تَنفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَو ) جِئنَْا بِمِثلِْہِ مَدَدًا > ( ٢
الله تعالیٰ نے فرمایا: آپ کہہ دیجيے کہ اگر ميرے پروردگار کے کلمات کے ليے سمندر
بهی روشنائی بن جائيں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائيں
گے چاہے ان کی مدد کے ليے ہم ویسے ہی سمندر اور بهی لے آئيں۔
دونوں آیہٴ کریمہ کے معنی کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبهی تمام سمندروں کے پانی
روشنائی ہوجائيں اور اس ميں چند برابر اضافہ ہوجائے اور جو کچه روئے زمين ميں درخت موجود
ہيں قلم ہوجائيں (اور جن و انس کاتب) کلمات الٰہی کو تحریر کریں یا احصاء کریں تو تمام سمندر
ختم ہوجائيں گے مگر کلمات خداوندی کبهی بهی ختم نہيں ہوں گے۔
آیات کریمہ کی تفصيل اور حضرت موسیٰ ابن جعفر - سے جناب موسی مبرقع کا آیت
کے تمام پہلوؤں کا دریافت کرنا اور حضرت کا جواب دینا کہ ہم کلمات الٰہی ہيں کہ ان کے فضائل
و مناقب (جو الله نے اپنے فضل سے عطا فرمایا) کی کنہ و حقيقت تک ہرگز نہيں پہنچ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ لقمان، آیت ٢٧ ۔ (
٢(۔ سورئہ کہف، آیت ١٠٩ ۔ (
۴۔ شاہراہ /٢
۴۔ وَ منهاجاً لا یَضَلُّ نَهْجُہُ ( ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بهڻک نہيں سکتا ہے(
)ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا بهڻک نہيں سکتا ہے)۔
ایسی مستقيم اور روشن شاہراہ ہے جو ہر قسم کی کجی سے خالی، اس کی
علامات اور نشانياں نصب کی ہوئی ہيں جو ہميشہ چلنے والوں کو حق و حقيقت کی راہ پر
چلنے کی ہدایت کرتی ہيں، اس کے سالکين کبهی بهی منحرف اور گمراہ نہيں ہوں گے۔
جس طرح قرآن مجيد ميں سيدها راستہ ہے کہ اس کے تمام پيروکار منحرف اور گمراہ
نہيں ہوں گے، پيغمبر اکرم (ص) اور ان کے اوصياء و اہل بيت اطہار بهی صریحی آیات و روایات
کی بنا پر سيدها راستہ ہيںجس ميں داہنی اور بائيں طرف بغير منحرف ہوئے گم گشتہٴ راہ اور
حيرت زدہ افراد کو اپنی طرف جذب کرتے ہيں۔ اور انہيں کجی اور گمراہی سے نجات عطا کرتے
ہيں، الله تعالیٰ قرآن کریم ميں پيغمبر اسلام (ص) کو خطاب کرکے فرماتا ہے: <قُل ہَذِہِ سَبِيلِی
اٴَدعُْو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِيرَةٍ اٴَنَا وَمَن اتَّبَعَنِی وَسُبحَْانَ اللهِ وَمَا اٴَنَا مِن المُْشرِْکِينَ > ( ١) آپ کہہ
دیجيے کہ یہی ميرا راستہ ہے کہ ميں بصيرت کے ساته خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور ميرے
ساته ميرا اتباع کرنے والا بهی ہے (اس دعوت ميں یعنی ميرے اوصياء جو تمام جہات ميں ميرے
وارث ہيں) اور خدائے تبارک و تعالیٰ پاک و بے نياز ہے اور ميں مشرکوں ميں سے نہيں ہوں۔
و قال اللّٰہ تعالیٰ : <وَاٴَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُستَْقِيمًا فَاتَّبِعُوہُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن ) سَبِيلِہِ ذَلِکُم وَصَّاکُم بِہِ لَعَلَّکُم تَتَّقُونَ > ( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یوسف، آیت ١٠٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ انعام ، آیت ١۵٣ ۔ (
الله تعالیٰ نے فرمایا: اور یہ ہمارا سيدها راستہ ہے (کہ اس ميں کسی قسم کی کجی
اور انحراف نہيں پایا جاتا) لہٰذا اس کا اتباع کرو اور کبهی بهی دوسرے راستوں کے پيچهے نہ جاؤ
کہ راہ مستقيم اور حق کے راستہ سے الگ ہوجاؤ (الله تعالیٰ نے اس اہم امر کی ولایت کے طور
پر) تمہيں نصيحت کی ہے کہ اس طرح شاید متقی اور پرہيز گار بن جاؤ۔
٨۶ ۔ شيخ المحدثين غوّاص بحار الانوار، علامہ مجلسی (عليہ الرحمة و الرضوان) اپنی
کتاب بحار ميں شيخ جليل القدر نے ابو عمرو محمد ابن عمر ابن عبد العزیز رحمة الله عليہ سے
اپنی رجال جو رجال الکشی کے نام سے مشہور ہے اپنے اسناد کے ساته حمزہ سے انہوں نے
اپنے پدر بزرگوار محمد طيار سے روایت نقل کی ہے کہ : ميں نے امام محمد باقر - کے بيت
الشرف ميں داخل ہونے کے ليے اجازت طلب کی تاکہ حضرت کی خدمت ميں شرف یاب ہوں
مجهے اجازت نہيں دی ليکن ميرے علاوہ دوسروں کو اجازت دی، ميں بہت رنجيدہ خاطر ہو کر
واپس پلڻا، خود کو گهر کے ایک موجودہ تخت پر گرا دیا تها ليکن ميری آنکهوں سے نيند اڑ گئی،
ميں خود فکر کر رہا تها اور کہہ رہا تها : کيا مرجئہ، قدریہ، حروریہ اور زیدیہ ایسا نہيں کہتے کہ ہم
ان کی بات کو باطل و فاسد کریں، ميں اسی فکر ميں تها کہ ایک آواز دینے والے نے دروازہ پر
آواز دی، ميں نے دیکها کہ دروازہ پر کسی نے دستک دی، ميں نے دریافت کيا: تم کون ہو؟ کہا:
ميں ابو جعفر امام محمد باقر - کا فرستادہ ہوں امام نے تمہيں طلب کيا ہے، ميں نے اپنا لباس
پہنا اور ساته ميں حضرت کی خدمت ميں پہنچے جب ميں گهر ميں داخل ہوا تو مجهے دیکه کر
فرمایا:
”یا محمَّد لا اِلی المرجئةِ وَلا اِلَی القَدِریَّہ وَلا اِلَی الحَروریَةِ وَلا اِلَی الزَّیدیةِ وَ کٰلن اليَنا وَانَّما
) حَجَتُکَ لِکذا وَکَذَا فقبلت وَقُلتَ بِہ ” ( ١
اے محمد! نہ مرجئہ کے گهر کے دروازے پر نہ حروریہ کی طرف نہ قدریہ کی جانب اور نہ
ہی زیدیہ کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ٢، ص ٧۴ ، بحار الانوار، ج ۶، ص ٢٧١ ۔ (
سمت (ان ميں سے کسی کی طرف) جانے کی ضرورت نہيں ہے بلکہ ميرے گهر کے دروازہ پر
آؤ (وہ سب کے سب شاہراہ مستقيم سے نکل کر ضلالت و گمراہی کی سنگلاخ وادی ميں پڑے
ہوئے ہيں) ليکن ہمارا راستہ سيدها اور شاہراہ ہدایت و سعادت ہے اور یہ کہ ميں نے تم کو
اجازت مرحمت نہيں فرمائی وہ کچه مصلحتوں کی بنا پر تهی جس کی وجہ سے ميں مانع ہوا۔
راوی کا بيان ہے : حضرت کی بات کو قبول کيا اور اپنے عقيدہ پر ثابت رہا۔
یہ چار فرقے جو روایت ميں ذکر ہوئے ہيں ان کے اعتقادات دین اسلام اور عقائد حقّہ کے
مخالف ہيں :
١ (ليکن مرجئہ کا عقيدہ یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی نافرمانی
انسان کو نقصان نہيں پہنچا سکتی جس طرح کفر کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی اطاعت فائدہ
نہيں بخشتی، اور کہتے ہيں: جو شخص نماز نہ پڑهے روزہ نہ رکهے غسل جنابت نہ انجام دے
خانہٴ کعبہ کو خراب کرے اور اپنی ماں کے ساته زنا کرے تو وہ جبرئيل و ميکائيل کے ایمان پر
باقی ہے۔ شياطين کے وسوسوں سے ہم خدا کی پناہ طلب کرتے ہيں۔
٢ (ليکن قدریہ، لفظ “قدری” روایات ميں جبری اور تفویض دونوں مذاہب والوں کے ليے
استعمال ہوا ہے ليکن اس مقام پر دوسری قسم ہماری مورد بحث ہے جو تفویض ہے، ان کے
عقائدميں یہ کہا گيا ہے کہ وہ کہتے ہيں: کسی بهی قسم کا خير و شر تقدیر اور مشيت الٰہی
کی بنا پر نہيں ہے اور بعض نے اس کے برخلاف بات کہی ہے وہ یہ کہ ان کا عقيدہ یہ ہے کہ
تمام خير و شر مشيت الٰہی کی بنا پر نہيں واقع ہوتے ہيں۔ بہرحال روایت صحيحہ ميں ذکر ہوا
ہے کہ ستّر پيغمبروں کی زبانی قدریہ کے فرقوں پر خدا نے لعنت کی ہے۔
پيغمبر اسلام (ص) سے صحيح روایت کے ساته یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ آنحضرت
(ص) نے فرمایا: قدریہ ميری امت کے مجوس ہيں نيز فرمایا: جب قيامت ہوگی اہل محشر کو آواز
دینے والا آواز دے گا: “این خصماء اللّٰہ” دشمنانِ خدا کہاں ہيں؟ تو قدریہ لوگوں کے درميان سے
اڻه کهڑے ہوں گے اور وہ مشخص ہوجائيں گے۔
٣ (ليکن حروریہ، جو خوارجِ نہروان کے ایک گروہ کے لوگ ہيں، وہ حروراء سے منسوب
ہيں کوفہ کے نزدیک ایک محلہ جہاں ان کا پہلا اجتماع ہوا تها اور نہروان کے مشہور خوارج کہ
جنہوں نے حضرت امير المومنين - کے خلاف خروج اور قيام کيا تها جن کی تعداد بارہ ہزار تهی
حضرت امير المومنين - نے گفت و شنيد کے بعد امان کا پرچم ابوتراب - کو عطا کيا اور آوازی
دی: جو بهی اس پرچم کے سائے ميں آجائے یا اس گروہ کے درميان سے باہر جائے امن و امان
ميں ہوگا، تو ان ميں سے آڻه ہزار برکنار ہوگئے، بقيہ افراد اپنی مخالفت پر باقی رہے اور وہ سب
کے سب نہروان ميں قتل کيے گيے سوائے نو افراد کے کہ جس کی تفصيل کتب تواریخ ميں ذکر
ہوئی ہے۔
۴ (ليکن زیدیہ: امام جعفر صادق - سے ناصبی اور زیدیہ کو صدقہ دینے کے بارے ميں
دریافت کيا گيا تو فرمایا: انہيں کوئی چيز صدقہ نہ دیں اور اگر ہوسکے تو انہيں ایک گهونٹ پانی
بهی نہ دو پهر فرمایا: زیدیہ نصّاب ہيں یعنی حضرت امير المومنين سے تعصب اور عداوت رکهتے
ہيں۔
٨٧ ۔ دوسری روایت ميں نقل ہوا ہے کہ زیدیہ اور واقفيہ اور نصّاب ایک ہی درجہ ميں ہيں
اور اعتقادات ميں برابر ہيں ان کے حق ميں یہ آیات نازل ہوئيں۔ <وُجُوہٌ یَومَْئِذٍ خَاشِعَةٌ # عَامِلَةٌ
نَاصِبَةٌ > ( ١) (اس دن بہت سے چہرے ذليل اور رسوا ہوں گے محنت کرنے والے تهکے ہوئے)۔
٨٨ ۔ رسول خدا (ص) نے معراج کی شب ميں مرجئہ، قدریہ، حروریہ، بنی اميہ اور نواصب
کو دیکها کہ سب کے سب کو آتش جہنم ميں ڈال رہے ہيں، تو آنحضرت (ص) سے کہا گيا ان
پانچوں گروہ کا اسلام ميں کوئی حصہ نہيں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ غاشيہ، آیت ٢،٣ ۔ (
٨٩ ۔ تاریخ ميں نقل ہوا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امير المومنين - مسجد کوفہ ميں تشریف
فرما تهے تو اپنی انگشت مبارک سے روئے زمين پر تين عدد خط کهينچ کر فرمایا: داہنے اور
بائيں گمراہ ہيں اور درميانی خط سيدها اور نجات عطا کرنے والا ہے۔
راہ مستقيم وہی راستہ ہے کہ جسے دین مقدس کے اماموں اور انبياء و اوصياء نے
طے کيا ہے اور ہماری بهی اس کی طرف ہدایت اور رہنمائی فرمائی ہے الله تعالیٰ نے اسی
صراط مستقيم کو انبياء صدیقين شہداء اور صالحين کو بطور انعام و اکرام نوازا ہے اور روزانہ کی
پنجگانہ نماوزں ميں الله تعالیٰ سے درخواست کرتے ہيں کہ ہميں حق و حقيقت کے راستے پر
ثابت قدم رکهنا اور جو ہميں یہ عظيم نعمت عنایت فرمائی ہے اس کو ہم سے سلب نہ کرنا۔
وہی صراط مستقيم کہ پيغمبر اکرم (ص)اور تمام اوصياء کرام نے سب کو اسی کی
طرف دعوت دی ہے اب غيبت کبریٰ کے زمانہ ميں اس راستہ کی طرف رہنمائی کرنے والی ذات
گرامی امام زمانہ - کی (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) ہے۔
اللهُّٰمَّ یارَّبنا اِهدِنا اِلیَ الحَقّ وَالی طَریقٍ مُستقيمٍ صِراطَ الَّذینَ اَنعَْمتَْ عَلَيہم غَيرِ المغضُْوبِ
عَلَيہم وَلا الضّاليّن آمين رب العالمين
اے خدا! اے ميرے پروردگار! ہميں حق کی طرف ہدایت فرما اور صراط مستقيم پر گامزن
رکه جو اِن لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل کی ہيں ان کا راستہ نہيں جن پر غضب
نازل ہوا ہے یا جو بہکے ہوئے ہيں۔ آمين یارب العالمين۔
|
|