حضرت مہدی - پيغمبر اسلام کے بارہویں جانشين ہيں۔
٣٩ ۔ شيخ الاسلام حموینی اپنی کتاب ميں اپنی سند کے ساته ابن عباس سے نقل
کرتے ہيں کہ رسول خدا نے فرمایا:
”اِنّ خُلَفائی اوصيائی حُجَجُ اللّٰہِ عَلَی الخلق بَعدی الاَثنا عَشَرَ ، اَوّلُهُمْ عَلیّ وَآخرهُمُ وَلدی
خَلْفَ المہدیِّ ، وَتشرُقُ الارضُ بنورِرَبّها وَیبلغُ المَهدی ، فينزلُ رُوْح اللّٰہِ عيسیَ بن مَریمَ فيُصَلّی
) سلطانُہُ المشرِقَ وَالمغرِبَ ” ( ١
”یقينا ميرے خلفاء اور ميرے اوصياء ميرے بعد مخلوق پر خدا کی حجّت ہيں جو بارہ افراد
ہيں، ان ميں سے پہلا حضرت علی ابن ابی طالب - ہے اور ان ميں کا آخری ميرا بيڻا مہدی ہے
کہ روح الله حضرت عيسیٰ ابن مریم جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے پيچهے ان کی اقتدا
ميں نماز پڑهيں گے، تو زمين اپنے رب کے نور سے چمک اڻهے گی حضرت مہدی کی سلطنت
مشرق اور مغرب ميں ہوگی”۔
۴٠ ۔ حموینی اسی طرح ابن عباس سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اکرم (ص) نے ارشاد
فرمایا:
”اناَ سَيِّدُ النبيّينَ وَعَلِیٌّ سيّدُ الوَصيّينَ وَانَّ اوصيآئی بَعدی اِنثا عَشَرَ ، اولُهم عَلیٌّ وَآخِرهُمُ
) المَہدیُّ عليہ السلام ” ( ٢
”ميں تمام انبياء کا سيد و سردار ہوں اور حضرت علی - تمام اوصياء کے سردار ہيں ميرے
بعد ميرے بارہ اوصياء ہيں ان ميں سے پہلا علی اور ان ميں سے آخری مہدی ہے”۔
۴١ ۔ ابو الموٴیّد احمد ابن محمد اخطب خوارزم حضرت علی ابن موسیٰ الرضا - سے بطور
مسند اپنے آبائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩۵ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٢ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩۶ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٣ ۔ (
کرام سے حضرت رسول اکرم (ص) سے اس ایک حدیث ميں کہ جس ميں اپنے اہل بيت
گرامی کی فضيلت و عظمت اور حدیث کے بعض حصے ميں اپنی معراج کے بارے ميں گفتگو
کی ہے فرمایا:
”فقُلت یارَبّی وَمَن اوصيآئی ؟ فنودیتُ : یا محمَّد اٴوصيائُکَ المَکتوبُونَ عَلیٰ سُرادِقِ
عَرشی، فَنَظَرتُ فَرَاٴیتُْ اثنی عَشَرَ نوراً ، و فی کُلِّ نوُرٍ سَطرٌ اخضَر ، عَلَيہ اِسمُ وَصِیٍّ مِن
) اوصيآئی اَوَّلُهُم عَلِیٌّ وَآخرِهُمُ القائِمُ الُمَہْدِیُّ عليہ السلام ” ( ١
”ميں نے عرض کيا: اے ميرے پروردگار! ميرے اوصياء کون ہيں؟ آواز قدرت آئی: اے محمد!
تيرے اوصياء کے نام ميرے عرش کے سرورق پر لکهے ہوئے ہيں ميں نے نظر کی تو بارہ انوار کا
مشاہدہ کيا ہر ایک نور ميںایک سبز سطر موجود ہے کہ جس ميں ميرے اوصياء ميں سے ایک
وصی کا اسم گرامی تحریر ہے ان ميں سے پہلے علی اور ان کے آخر ميں قائم مہدی (آل
محمد) ہےں”۔
۴٢ ۔ ابو موید موفق ابن احمد خوارزمی اپنی سند کے ساته ابو سليمان رسول خدا کے
چوپان سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہيں کہ: ميں نے رسول اکرم (ص) کو یہ فرماتے ہوئے
سنا:
اِلَی السَّمآءِ ( وَساق الحدیثَ اِل یٰ اَن قالَ :) قالَ اللّٰہ تعالیٰ : یا محمَّدُ ”ليلةً اُسرِْیَ بی
تحِبُّ ان تراهُم ؟ قُلتُ : نَعَم یا رَبِّ ، قال لی : اُنظر اِ لٰ ی عَينِ العَرشِ ، فَنَظَرتُ فَاذِاً عَلِیٌ وَالحَسن
وَالحُسَينُ وَعَلیُّ بنُ الحُسَينِ وَمحمدُ بنُ عَلیٍ وَجعفر بنَ محمَّدٍ وَموسیَ بنُ جعفرٍ وَعَلیُّ بنُ
مُوسیٰ وَمحمَّدُ بنُ عَلیٍّ وَ عَلیُّ بنُ محمَّدٍ وَالحَسَنُ بنُ عَلیٍّ وَمحمَّد نِِ المہدیُّ ، ابنُ الحَسَنِ ،
کَاَنَّہُ کَوکَبٌ دُرِّیٌّ بَينَهُم
) وقالَ تعالیٰ: یا محمُد هٰوٴُلآء حججی عَلیٰ عِبادی وَهُم اوصيائکَ ” ( ٢
”جس رات مجهے آسمان کی طرف لے جایا گيا تو یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے فرمایا:
اے محمد! تم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٣٧٩ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٣٨٠ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٩ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٢۵۶ ۔ (
انہيں دیکهنا چاہتے ہو؟ ميں نے عرض کيا: ہاں اے پروردگار! تو الله نے مجه سے کہا: عرش کے
داہنی جانب دیکهو ميں نے نظر کی تو اس وقت ناگاہ کيا دیکهتا ہوں کہ (حضرات) علی ، فاطمہ ،
حسن ، حسين ، علی ابن الحسين ، محمد ابن علی ، جعفر ابن محمد ، موسی ابن جعفر ،
علی ابن موسیٰ ، محمد ابن علی ، علی ابن محمد ، حسن ابن علی اور محمد مہدی ابن
حسن عليہم السلام موجود ہيں جو گویا ان کے درميان روشن (ستارے)کی طرح ہيں”۔
الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! یہ روئے زمين پر ميرے حجج ہيں اور لوگوں کے درميان
تيرے جانشين ہيں”۔
۴٣ ۔ حموینی نے سعيد ابن حبيب سے، ابن عباس سے انہوں نے نبی اکرم (ص) سے
روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا:
”ان اوصيائی وَحُجَجَ اللّٰہ عَلیٰ الخلق بَعدی الاثنی عَشَرَ اَوّلُهُم اخی وَآخِرُهُم وَلَدی قيل یا
رسوُلَ اللّٰہ (ص) مَن اخوُک ؟ قالَ عَلی عليہ السلام قيلَ : مَن وَلدَکَ ؟ قالَ: المَہدی الَّذی یملاء
الارضَ قِسطاً وَ عَدلاً کَما مُلئِت جَوراً وَظُلماً وَالذی بعَثَنی بالحَق بشيراً وَنذیراً لو لَم یبق مِنَ الدُّنيا
الاَّ یومٌ واحِدٌ لِطَوَّل اللّٰہُ ذٰلِکَ اليومَ حَتی یخرَج فيہِ وَلَدی المَهدی فينزِل روُحُ اللّٰہ عيسیٰ بنُ مَرَیمَ
) فَيصلّی خَلفَ وَلَدی و تشرق الاَرضُ بنورِ ربّها وَیبلغُ سلطانُہُ المشرق و المغرِبَ ( ١
ميرے خلفاء اور اوصياء ميرے بعد مخلوق پر خدا کی حجّت ہيں جو بارہ ہيں ان ميں کا پہلا
علی - ہے اور ان ميں کا آخری ميرا بيڻا ہے، دریافت کيا گيا: یا رسول الله! آپ کے بهائی کون
ہيں؟ فرمایا: علی -۔ آپ کا بيڻا کون ہے؟ فرمایا: مہدی، جو زمين کو عدل و انصاف سے بهردے گا
جس طرح وہ ظلم و جور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٨۶ ۔ (
سے بهرچکی ہوگی قسم ہے مجهے اس خدا کی ! کہ جس نے مجهے حق کے ساته بشارت
دینے والا اور ڈرانے والا مبعوث کيا اگر دنيا کا صرف ایک ہی دن باقی رہے تو الله تعالیٰ اس دن کو
طولانی کردے گا یہاں تک کہ اس ميں ميرا بيڻا مہدی ظہور کرے گا اور عيسی ابن مریم آسمان
سے نازل ہوں گے تو ان کے پيچهے ان کی اقتدا ميں نماز پڑهيں گے، زمين اپنے پروردگار کے نور
سے روشن ہوجائے گی حضرت مہدی کی سلطنت مشرق و مغرب ميں ہوگی (انشاء الله)۔
۴۴ ۔ “وفيہ عن مناقب الخوارزمی باسنادہ عَن اَبی حمزَةِ الثُمالی عَن محمَّدٍ الباقِرِ عَن ابَيہِ
عَلیِ بن الحُسينِ عَن اَبيہِ الحُسَينِ بن علیٍ (سَلامُ اللّٰہ عَلَيہم ) قالَ دَخَلَتُ عَل یٰ جَدی رَسُول
اللّٰہِ (ص) فاجلَسَنی عَل یٰ فَخِذہِ وَقال لی: اِنَّ اللہّٰ اختارَ مِن صُلبِکَ یا حُسَينُ تِسعَة ائمَةٍ
) تاسِعُهُم قائِمُهُم وَکُلُّهُم فی الفَضِل والمنزِلة عِند اللّٰہِ سواءٌ ” ( ١
اسی کتاب ميں مناقب خوارزمی اپنی سند کے ساته ابو حمزہ ثمالی سے حضرت امام
محمد باقر - سے انہوں نے اپنے آباء و اجداد طاہرین سے انہوں نے امام حسين - سے روایت
کی ہے کہ ميں اپنے جد بزرگوار رسول خدا (ص) کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا آپ نے مجهے
اپنے زانوئے مبارک پر بڻهایا اور مجه سے فرمایا: اے حسين! یقينا الله تعالیٰ نے تيرے صلب سے
نو ائمہ کو منتخب کيا ہے کہ ان ميں سے نواں قائم ہے اور وہ سب کے سب الله تعالیٰ کے
نزدیک فضيلت و منزلت ميں برابر ہيں۔
۴۵ ۔ “وفيہ عن مناقب الخوارزمی بسندہ عَن سُليمِ بن قَيسِ الہِلالی عَن سَلمانِ الفارِسی
قالَ دَخَلت عَل یٰ رَسوِلِ اللہِّٰ (ص) واِذاً الحسينُ بن علی ، عَلیٰ فَخذِہِ وَهُوَ یُقَبِّل عينيہ وَیلثم فاہ
وَهُوَ یَقولُ انتَ سَيّد ابنِ سَيّدٍ اخو سَيّدٍ انتَ اِمامُ ابنُ اِمامٍ اخو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٢٩ ۔ (
) اِمامٍ انتَ حجةُ ابنُ حجةِ اخوُ حجَّةٍ واَنتَ ابو حجَجٍ تِسعة تاسِعُهُم قائمهُمْ ” ( ١
پهر اسی کتاب ميں سليم ابن قيس ہلالی سے وہ سلمان فارسی رضوان الله عليہم
سے روایت کرتے ہيں کہ ميں رسول اکرم (ص) کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوا تو ناگاہ ميں نے
دیکها کہ حضرت حسين ابن علی - آنحضرت کے زانوئے مبارک پر تشریف فرما ہيں اور آنحضرت
(ص) آپ کی دونوں آنکهوں کو بوسہ دے رہے تهے، ان کے دہن مبارک کو چوم رہے تهے اور
فرماتے تهے: تم سيد و سردار ہو، سيد و سردار کے فرزند ہو، سيد و سردار کے بهائی ہو، تم
امام ہو امام کے فرزند ہو، امام کے بهائی ہو تم خود حجّت ہو حجّت کے بهائی ہو اور تم نو
حجّتوں کے باپ ہو ان ميں نواں ان کا قائم (مہدیِ فاطمہ سلام الله عليہا) ہے”۔
۴۶ ۔ “وفيہ عن المناقب الخوارزمی عن جابر بِن عَبد اللّٰہِ الاَنصاری قالَ قالَ لی رَسُولُ اللّٰہِ
(ص) یا جابِرِ انَّ اوصيائی وائمة المُسلِمينَ مِن بَعدی ، اوَّلُهُم عَلیٌ ثُم الحسنَ ثُم الحُسين ثُمَ
عَلِی بنُ الحسينُ ثُمَ محمّد بن عَلِیٍّ المعروُفُ بالباقُرُ ، ستدرِکُہُ یا جابِر ، فَاذِا لقيتَہُ فاقراہُ مِنّی
السَّلام ثُمَ جَعفَر بن محمَّدُ ثُمَ مُوسیٰ بن جعفَرٍ ثُمّ عَلِی بن موُسیٰ ثُمّ محمَّدُ بن عَلِیٍ ثُمَ عَلی
بن محمّدٍ ثُم الحسَنُ بنُ عَلیٍ ثُمَّ القآئم، اسمُہُ اسمی وَکنيتُہ کنيتی ابنُ الحَسَن بن عَلیٍ ، ذلِکَ
الذی یفتح اللّٰہ تبارکَ وَ تعالیٰ عَلیٰ یَدیہ مَشارِق الارضِ وَمَغارِبهَا، ذلِکَ الذی یغيب عَن اوليآئہِ
غيبةً لا یثبتُ عَلَی القولِ بامامتِہِ اِلاَّ مَن امتَحَن اللّٰہ قَلبہ للایمانِ : قالَ جابِر فَقلتُ : یا رَسوُلَ اللہِّٰ
فَهَل لِلنّاسِ الانتِفاعُ بِہِ فی غَيبتہِ ؟ فَقالَ : ای والَّذی بَعَثَنی بالنبوةُ انَّهُم یستضيئون نبورِ ولایتہِ فی
غيبتہ کانتفاعِ النّاس بالشمسِ وَاِن سَتَرَها سِحابٌ ، هذا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴٩٢ ۔ (
) مِن مکنوُنِ سِرّ اللّٰہِ ومخزونِ عِلم اللّٰہِ فاکتمہُ اِلاَّ عَن اهلہ ” ( ١
اسی کتاب ميں مناقب خوارزمی سے جابر ابن عبد الله انصاری سے نقل کرتے ہيں کہ
انہوں نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے مجه سے فرمایا: اے جابر ! یقينا ميرے اوصياء جو ميرے
بعد ائمہٴ مسلمين ہيں ان ميں سے جو پہلے ہيں علی پهر حسن پهر علی ابن الحسين پهر
محمد ابن علی جو باقر کے نام سے مشہور ہيں اے جابر! عنقریب تم ان کا دیدار کرو گے جب
تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد پهر موسی ابن جعفر پهر
علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی پهر علی ابن محمد پهر حسن ابن علی پهر قائم (آل
محمد) ہوں گے کہ جو ميرے ہم نام ہوں گے اس کی کنيت ميری کنيت پر ہوگی وہ محمد ابن
حسن ابن علی ہوں گے ، یہ وہ ہيں کہ جن کے دست مبارک سے خداوند تبارک و تعالیٰ زمين
کے تمام مشرق و مغرب کو فتح کرے گا ، یہ وہ ہيں جو اپنے اولياء سے ایک عرصہ تک ایسا
غائب ہوں گے کہ ان کی امامت پر صرف وہی لوگ ثابت قدم رہيں گے جن کے دل کا الله تعالیٰ
نے امتحان لے ليا ہوگا۔
جابر کہتے ہيں: ميں نے عرض کيا : یا رسول الله! کيا آپ کی غيبت کے زمانہ ميں لوگ
فائدہ اڻهائےں گے؟ فرمایا: ہاں قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے مجهے نبوت ے ساته مبعوث
کيا! وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اس طرح فائدہ اڻهائيں گے
جس طرح سورج کو بادل پنہان کرليتا ہے مگر لوگ پهر بهی سورج کی روشنی سے فائدہ حاصل
کرتے ہيں، یہ بات تمام لوگوں کے ليے اسرار الٰہی ميں سے ہے اور الله کے علم ميں مخزون ہے
اس کو اس کے غير اہل سے مخفی رکهو۔
۴٧ ۔ “وفی نہج البلاغة: قالَ علیٌّ امير الموٴمنين عليہ السلام : بَلی لا تخلُوا الارضُ مِن
) قائِمٍ للّٰہِ بحجةٍ امّٰا ظاہِرٌ مَشہُورٌ او خائِفٌ مغموُرٌ” ( ٢
”وَعَن التفتازانی قال قالَ علیٌ کَرَّمَ اللّٰہ وَجهَہُ لا تخلوا لارض مِن امامٍ قائِمٍ للّٰہِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴٩۵ ۔ (
٢(۔ نہج البلاغہ، خطبہ ٧۔ (
) بحجةٍ اِمّا ظاہِرٌ مشہُورٌ او خائِفٌ مضمودٌ انتهی ۔” ( ١
نہج البلاغہ ميں مولا حضرت امير المومنين علی ابن ابی طالب - فرماتے ہيں: ہاں روئے
زمين کبهی بهی حجّت خدا سے خالی نہيں ہوتی جو دین خدا کو قائم رکهتی ہے، خواہ وہ امام
اور حجّت یا ہر ایک گيارہ اماموں کی طرح ظاہر اور مشہور ہو یا امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
الشریف کی طرح خوف زدہ اور پوشيدہ ہو۔
تفتازانی نے بهی اس حدیث کو حضرت علی کرم الله وجهہ سے اسی مضمون کی طرح
الفاظ کے مختصر فرق کے ساته ذکر کيا ہے۔
۴٨ ۔ “وفی کتاب المهدی لآیة اللّٰہ السيد صدر الدین المعروف بالصّدر( ٢) بِاِسنادِہِ عَن عَبدِ
الرَّحمنِ بن سمرة قالَ قُلتُ لِلنبی (ص) یا رِسوُلَ اللہِّٰ ارشِدنی اِلیَ النَجاةِ فَقالَ یابنَ سَمَرة اِذا
اختلفَ الاهواءُ وَتَفَرَّقَتِ الآراء فَعَليکَ بِعَلِی بن ابی طالِبٍ فَانَّہ امامُ اُمَّتی وخليفَتی عليهمِ مِن بَعدی
، الی ان قالَ : وَانَّ منهُم امامُ امَّتی وَسَيّدی شَباب اهل الجَنَّةِ الحَسَن والحُسينُ وَتسعَةٌ مِن ولد
) الحُسينِ تاسِعُهُم قائِم امَّتی ۔” ( ٣
آیت الله صدر رحمة الله عليہ اپنی سند کے ساته عبد الرحمن ابن کمرہ سے نقل کرتے
ہيں کہ وہ کہتے ہيں: ميں نے پيغمبر اکرم (ص) سے عرض کيا : یا رسول الله ! مجهے راہ نجات
کی طرف رہنمائی فرمائيں۔ تو فرمایا: اے کمرہ کے بيڻے! جب لوگوں کی ہوائے نفس مختلف
ہوجائے اورلوگوں کی رائيں متعدد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ المہدی، سيد صدر، ص ١٠١ ۔ (
٢(۔ حضرت آیت الله العظمی سيد صدرالدین صدر منجملہ مراجع تقليد عظام ميں سے ایک ہيں (
جو حضرت آیت الله العظمیٰ حائری رضوان الله عليہم اجمعين کی رحلت کے بعد تين آیات عظام
ميں سے تهے۔
٣(۔ المہدی سيد صدر، ص ١٠١ ۔ (
ہوجائيں تو تمہارے ليے لازم ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب - کے دامن سے متمسک رہو
کيونکہ وہ ميری امت کا امام اور ميرے بعد ان کے ليے ميرا جانشين ہے (یہاں تک کہ فرمایا:) اس
سے ميری امت کے دو امام ایسے ہيں جو جوانان اہل بہشت کے سيد و سردار حسن و حسين
ہيں اور اولاد حسين ميں سے دوسرے نو افراد ہيں کہ جن ميں سے نواں ميری امت کا قائم،
حضرت مہدی (عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف) ہے۔
۴٩ ۔ “وفيہ باسنادہ عن ابن مغازلی عَن ابی امامَةٍ عَنِ النَّبیِ (ص) وَاِنَّہ قالَ الائمِة بَعدی
) اِثنا عَشَرَ کُلُّهم مِن قرَیشٍ تسعةٌ مِن صُلب الحُسينِ وَالمهدِیُّ مِنهُم ” ( ١
اسی کتاب ميں ابو امامہ نے نبی اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:
“ميرے بعد بارہ ائمہ ہيں جو سب کے سب قریش سے ہيں ان ميں سے نو افراد اولاد حسين
ميں سے ہيں اور مہدی بهی ان ميں سے ہے۔“
۵٠ ۔ “وفيہ باسنادہ عَن اَبی صالح عَن زَید بِن ثابِتٍ عَنِ النَّبیِ (ص) اِنہ قالَ لا یذهَبُ الدنيا
حَتّیٰ یقومَ باَمرامَّتی رَجُلٌ مِن صلبِ الحُسين یملاٴها ( عَدلاً) کَما ملئت جَوراً قُلنا: مَن هُوَ؟ قالَ هُوَ
) الاِمامُ التاسِعُ مِن ولد الحُسينِ عليہ السلام”( ٢
اسی کتاب ميں ابو صالح سے وہ زید ابن ثابت سے وہ رسول اکرم (ص) سے روایت نقل
کرتے ہيں کہ آنحضرت نے فرمایا: “دنيا ختم نہيں ہوگی اور اپنی آخری مدت تک نہيں پہنچے گی
یہاں تک کہ ایک شخص حسين - کی صلب سے ميری امت کے امر کے ليے قيام کرے گا اور
دنيا کو عدل و انصاف سے بهردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بهرچکی ہوگی، ميں نے
عرض کيا: وہ کون (بزرگوار) ہيں؟ فرمایا: اولاد حسين سے نواں امام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ المہدی، سيد صدر، ص ١٠۴ ۔ (
٢(۔گزشتہ حوالہ۔ (
۵١ ۔ “وفی تذکرة الاٴمة فی بيانِ اولادِ ابی محمَّدٍ الحَسَن العَسکَری قالَ: مِنهم محمَّدُ
الاِمامُ هُوَ محمَّدُ ابنُ الحَسَنِ بن عَلی بن محمَّد بن عَلی بن مُوسیٰ بن جعَفِر بن محمَّد بِن عَلیّ
بن الحُسين بن عَلی بن ابی طالِبٍ وَکنيتہُ ابو عَبِد اللّٰہ وَاَبُو القاسم وَهُوَ الخَلَفُ الحُجةُ صاحِبُ
) الزَمانِ القائِم والمنتظر والتالی وَهُوَ اخِر الائِمةَ ” ( ١
صاحب تذکرة الامة حضرت ابو محمد حسن عسکری کی اولاد کے بيان ميں رقم طراز
ہيں: ان ميں سے محمد امام ہے اور وہ محمد ابن حسن ابن علی ابن محمد ابن علی ابن
موسی ابن جعفر ابن محمد ابن علی ابن الحسين ابن علی ابن ابی طالب (عليہم السلام) ہيں
ان کی کنيت ابو عبدالله اور ابو القاسم ہے ان کا خلف صالح حجّت، صاحب الزمان، قائم ، منتظر
اور قائم ان کے ائمہ ميں سے آخری امام ہے۔
۵٢ ۔ “وفی صحيحة ابی داوٴد عَن عَلیٍ ( سلامُ اللّٰہ عَليہِ ) عَنِ النَّبیِ (ص) انَّہُ لَو لَم یبق
) مِنَ الدهرِ اِلاَّ یومٌ لَبَعَثَ اللّٰہ رَجُلاً مِن اهلِ بَيتی یملاءُ ها عَدلاً کما مُلِئَت جَوراً الحدیث ” ( ٢
کتاب صحيح ابو داؤد ميں حضرت علی - نے انہوں نے رسول خدا (ص) سے روایت کی
ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: “اگر زمانہ ایک ہی دن باقی رہے تو اس دن یقينا خداوند متعال ميرے
اہل بيت ميں سے ایک شخص کو بهيجے گا وہ زمين کو عدل و انصاف سے اسی طرح بهردے گا
جس طرح وہ ظلم و جور سے بهرچکی ہوگی۔“
۵٣ ۔ “محمّد بن یوسف الکنجی فی کتاب البيان ومحمّد بن طلحة الشافعی فی کتاب
مطالب السئول وسبط بن الجوزی فی کتاب تذکرة الائمة والشعرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ١١۶ ۔ (
٢(۔ گزشتہ حوالہ، ص ٧٧ ، صحيح ابن داؤد، ج ۴، ص ٨٧ ۔ (
فی اليواقيت والجواہر قالَ: المهدِیُّ مِن ولدِ الامامِ الحَسنِ العَسکَری مَولدُہُ ليلَةُ النِّصفِ مِن شعبان
) سَنَةَ خمسٍ وخمسينَ وَ مِاٴتَينِ وَهُو باقٍ الیٰ انَ یجتمع لعيسی بن مریمَ عليہ السلام ” ( ١
محمد ابن یوسف گنجی اپنی کتاب البيان ميں ، محمد ابن طلحہ شافعی اپنی کتاب
مطالب السوول ميں سبط ابن جوزی اپنی کتاب تذکرة الائمة ميں اور شعرانی نے اپنی کتاب
اليواقيت و الجواہر ميں ذکر کيا ہے کہ حضرت مہدی حضرت امام حسن عسکری کی اولاد ميں
سے ہيں ان کی ولادت باسعادت شب نيمہٴ شعبان سن دو سو پچپن ہجری ميں واقع ہوگی وہ
زندہ و پائندہ ہيں یہاں تک کہ عيسی ابن مریم امام زمانہ کے ظہور کے وقت باہم جمع ہوں گے۔
۵۴ ۔ “عن کتاب فصل الخطاب قالَ وَمِن ائمة اہلِ البَيتِ الطَّيبينَ ابوُ محمَّدٍ الحَسن
العَسکَری الی ان قال : وَلَم یُخْلفِ وَلَداً غَير اَبی القاسم محمَّدٍ المنتظِر المُسمّیٰ بالقائم
والحجةِ والمهدی وَصاحِبِ الزمانِ وَخاتِمِ الائِمةِ الاثنا عَشَرَ ( عند الامامية) وَکانَ مَولَد المنتظَرِ لَيلَة
النِّصف مِن شعبان سَنَة خمس وخمسينَ وَماٴتَينِ امّہُ امُ وَلَدٍ یقالُ لاٴنها نرجس توفّی ابوُہُ وَهُوَ ابن
خَمسِ سنين فاختفی اِلَی الانِ ، وابو محمَّدٍ الحَسَن العَسکری ، ولدُہُ محمَّدٍ المنتظَرِ المهدی
) رَضی اللّٰہ عنهُما ” ( ٢
صاحب کتاب فصل الخطاب کہتے ہيں: ائمہٴ اہل بيت طيبين و طاہرین ميں سے حضرت ابو
محمد امام حسن عسکری ہيں یہاں تک کہتے ہيں کہ: ان کا کوئی فرزند خلف موجود نہيں
ہے سوائے ابو القاسم محمد منتظر کے کہ جن کا نام قائم، حجّت، مہدی اور صاحب الزمان ہے،
اور بارہ اماموں ميں سے آخری امام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔دانشمندان عامہ و مہدی موعود کی طرف رجوع کریں، ص ۶٨ ، ص ١٢١ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴۵١ ۔ (
کی ولادت شبِ نيمہٴ شعبان ميں دو سو پچپن ہجری ميں واقع ہوئی، ان کی مادر گرامی کنيز
تهيں جن کا اسم گرامی نرجس خاتون تها وہ صرف پانچ سال کے تهے کہ ان کے پدر بزرگوار دنيا
سے رحلت فرما گئے اور فردوس اعلیٰ کی طرف چلے گئے حضرت اس وقت سے اب تک لوگوں
کی نظروں سے غائب ہيں اور وہ ابومحمد امام حسن عسکری - کے فرزند ارجمند حضرت محمد
منتظر مہدی (سلام الله تعالیٰ عليہم اجمعين) ہيں۔
۵۵ ۔ “و فی عقدالدرر فی الباب الثانی عن الحافظ ابی نعيم فی کتابہ صفة المہدی والامام
ابی عمر المقری فی سننہ عن عبد اللّٰہ بن عمر قالَ قالَ رَسوُل اللّٰہ صلّی اللّٰہ عليہ وآلہِ وَسَلَّم
یخرجُ رَجُلٌ مِن اهلِ بيتی یواطی اِسمہ اسمی وخلقُہ خُلقی یملاءُ الاَرض قِسطاً وَعَدلًا الحدیث ”
)١)
کتاب عقد الدرر کے دوسرے باب ميں حافظ ابو نعيم سے اپنی کتاب صفة المہدی ميں اور
امام ابو عمر مقری اپنی کتاب سنن ميں عبد الله بن عمر سے نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا نے
فرمایا: ایک شخص ميرے اہل بيت ميں سے جس کا نام ميرے نام پر ہوگا اور اس کا اخلاق ميرا
اخلاق ہوگا وہ زمين کو عدل و انصاف سے بهردے گا۔
۵۶ ۔ “وفيہ فی الباب المذکور عن الحافظ ابی نعيم فی کتابہ صفة المہدی عن حذیفة بن
یمان قالَ قالَ رسوُل اللّٰہ (ص) : لولَم یبقَ مِنَ الدُّنيا اِلاَّ یَوم واحِدٌ لَبَعثَ اللہّٰ رَجُلاً اِسمُہ اسمی
) وَخُلقُہ خُلقی یُکَنی ابُو عَبدِ اللّٰہِ ” ( ٢
اس کتاب ميں حافظ ابو نعيم سے اپنی کتاب صفة المہدی ميں حذیفہ ابن یمان سے
نقل کرتے ہيں کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر دنيا کا صرف ایک ہی دن باقی رہے تو اس دن یقينا
خداوند متعال ایک شخص کو بهيجے گا جس کا نام ميرے نام پر ہوگا اور اس کا اخلاق ميرا اخلاق
ہوگا اس کی کنيت ابو عبدالله ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ عقد الدرر، ص ٣١ ۔ (
٢(۔ گزشتہ حوالہ۔ (
۵٧ ۔ “فی ینابيع المودة : فی سورة الدخان حم وَالکِْتَابِ المُْبِينِ إِنَّا اٴَنزَلنَْاہُ فِی لَيلَْةٍ
مُبَارَکَةٍ إِنَّا کُنَّا مُنذِرِینَ فِيہَا یُفرَْقُ کُلُّ اٴَمرٍْ حَکِيم :
عن عبد اللّٰہ بن مسکان عَنِ الباقِرِ والصّادِقِ وَالکاظِمِ ( سَلام اللّٰہ عَلَيہم ) قالُوا:انزَلَ اللّٰہ
تبارَکَ وَ تَعالی القرآن فی ليلَةٍ مبارکةٍ وَهِیَ لَيلَةُ القَدرِ انزلَ القرآنَ فيها اِلی البيتِ المعمُورِ جُملَةً
واحَدِةً ثُمَّ انزَلَ مِنَ البَيتِ المعمورُ ، عل یٰ رَسُولِ اللہِّٰ (ص) فی طُولِ ثَلاثٍ وَ عشرین سَنَةً یقدِّرُ اللّٰہ
کُلَّ امرِ مِنَ الحَقِ والباطِلِ وَما یَکُونُ فی تِلکَ السَّنَةِ وَلَہُ فيها البَداء والمَشيَّةُ یُقَدم ما یشآءُ ویوٴخِّرَ
ما یَشآء مِنَ الآجالِ والارزاقِ وَالاٴمنِ والسَّلامَةِ والعافِيَةِ وَغَير لٰذِکَ ، وَیُلقيہِ رَسُولُ اللہّٰ (ص) اِلیٰ
اميرِ الموٴمنينَ عليہ السلام وَهُوَ اِلَی الائِمة مِن اولادِہِ عَلَيهِم السَّلامُ حَتّ یٰ یَنتهی ال یٰ صاحِبِ
) الزَّمانِ المَهدی عليہ السلام ” ( ١
ینابيع المودة ميں نقل ہوا ہے کہ الله تعالیٰ کا قول سورہ دخان ميں ذکر ہوا <حم و الکتاب
المبين> “واو” قسم کے ليے ہے روشن کتاب کی قسم ہے ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات
ميں جو شب قدر ہے نازل کيا ہے ہم بے شک ہميشہ عذاب سے ڈرانے والے تهے اس رات ميں
تمام حکمت و مصلحت کے امور کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔
عبد الله ابن مسکان امام محمد باقر ، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم (عليہم
السلام) سے روایت کرتے ہيں کہ انہوں نے فرمایا: الله تبارک و تعالیٰ نے قرآن کو مبارک رات ميں
نازل کيا اور وہ شب قدر ہے الله تعالیٰ نے اس رات تمام قرآن کو بيت المعمور (چوتهے آسمان) پر
ایک دفعہ نازل کيا، پهر اسے الله تعالیٰ نے بيت المعمور سے رسول اکرم (ص) پر تيئيس سال
کی طویل مدت ميں (ضرورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٢٨ ۔ (
کے مطابق تدریجی طور پر) نازل فرمایا اس سال ميں جو امر حق اور باطل واقع ہونے والا ہے الله
ان کو مقدر فرماتا ہے۔
الله تعالیٰ اس سال کے اندر بدا اور مشيت الٰہی کے ذریعہ زندگی، رزق، امن و سلامتی
اور عافيت وغيرہ کے متعلق جس کے ليے چاہتا ہے تقدیم اور تاخير کرتا رہتا ہے۔
اور ان مقدّرات کو حضرت رسول اکرم کو عطا کرتا ہے وہ حضرت امير المومنين کے حوالے
کرتے ہيں اور وہ اپنی اولاد کے ائمہ کے سپرد کرتے ہيں یہاں تک کہ وہ حضرت صاحب الزمان
مہدی آل محمد عليہم السلام عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف تک پہنچتا ہے۔
سورئہ دخان کی پہلی آیت جو حروف مقطعات ميں سے شروع ہوتی ہے بعض سوروں
کے آغاز ميں ذکر ہوئے ہيں مفسرین ميں سے قدماء اور متاخرین کے درميان اختلاف پایا جاتا ہے
شيخ جليل طبرسی رحمة الله عليہ نے مجمع البيان ( ١) ميں گيارہ اقوال ذکر کيے ہيں اور اس
کے بارے ميں مطالب بيان کيے ہيں علامہ طباطبائی رحمة الله عليہ نے تفسير الميزان ميں
سورہ شوریٰ کی تفسير ميں ضروری تحقيقات کو انجام دیا ہے کہ ان سب کی طرف اشارہ کرنا
اس مختصر کتاب کے دائرہ سے خارج ہے، صرف اس قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان حروف
مقطعات اور دوسرے سوروں کے مضامين ميں جن کا اسی سے آغاز ہوتا ہے ایک خاص ربط پایا
جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ حروف حضرت رسول اسلام (ص) اور خداوند سبحان کے درميان
مخفی اسرار ميں سے ہيں کہ جسے عام عقليں نہيں درک کرسکتيں۔
۵٨ ۔ “وفی قولہ تعالیٰ : والسّماءِ ذاتِ البُرُوجِ
عَن الاصبَغِ بن نُباتة قالَ سَمِعت ابِن عَبَّاس رَضی اللّٰہ عنهما یقُولُ قالَ رَسُول اللّٰہِ (ص) :
انَا السّمآء واَمَّا البُرُوجُ فالائِمةُ مِن اهلِ بيتی وَعِترتی ، اوَّلُهُم عَلیٌّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مجمع البيان، ج ١، ص ۴٠ ۔ (
) واخرهُم المهدِیُّ وهُم اِثناعَشَرَ عليہم السلام ” ( ١
قولہ تعالیٰ <والسمآء ذات البروج> :“واو” قسم ہے، قسم ہے اس آسمان کی جس کے
متعدد برج ہيں۔
اصبغ ابن نباتہ کہتے ہيں کہ ميں نے ابن عباس سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت
رسول خدا نے فرمایا: آسمان سے مراد ميں ہوں اور بروج ميرے اہل بيت اور ميری عترت کے بارہ
ائمہ ہيں ان ميں سے پہلے حضرت علی اور ان ميں سے آخری حضرت مہدی جو بارہویں بزگوار
ہيں۔
۵٩ ۔ “وفيہ نقلاً عَن فَرائِدِ السِمطينِ بِسَنَدِہِ عَن مُجاهِدٍ عَن ابنِ عَبّاسَ رَضِی اللہّٰ عَنهُما
قالَ: قَدِمَ یهودِیٌ یقالُ لَہُ نعثل فَقالَ : یا محَمَّدُ اسئلَکَ عَن اشياء تلجلج فی صَدری مُنذُ حينٍ فاَنِ
اجَابَتنِي عَنها اسلَمتُ عَلی یَدَیکَ ، قال: سَل یا اٴبا عَمارةَ فقالَ: یا محمَّداً صِف لِی رَبَّکَ فَقالَ
(ص) لا یُوصَف اِلاَّ بِما وَصَفَ بِہِ نَفَسہُ وَکيفَ یُوصَف الخالِقُ الذی تعجز العقولُ ان تُدرِکَہُ وَالاوهامُ ان
تَنالَہُ وَالخطراتُ ان تحِدَہ والابصارُ اَن تحيطَ بہِ جَلّ وَعَلا عمّا یصِفُہ الواصِفونَ نایٴٍ فی قربِہِ وَقَریبٌ
فی نائِہِ ، هُوَ کَيَّفَ الکَيفَ وَایَّنَ الاینَ ، فَلا یقالَ لَہُ : اینَ هُو وَهُوَ منقعُ الکَيفيةَ وَالاٴینونيّة هو الاحَد
الصَّمد کَما وَصَفَ نفسہُ والواصِفُونَ لا یبلغُون نعتہ ، <لَم یلد وَلَم یُولَد وَلَم یکن لَہُ کُفُواً احَدٌ >، قالَ:
صَدَقتَ یا محمَّدَ (ص)
فَاخبرنی عَن قولکِ انّہُ واحِدٌ لا شَبيہ لَہُ ، اليسَ اللّٰہ واحِدٌ وَالاِنسانُ واحِدٌ؟ فَقالَ (ص) اللّٰہُ
عَزَّوَعَلا واحِدٌ حقيقیٌ احَدی المَعنی ، ای لا جزء لَہُ ولا تَرکُب لَہ وَالاِنسانُ واحِدٌ ثُنائیّ المَعنی
مَرکَّبٌ مِن روُحٍ وَبَدنِ ، قال : صدَقتَ ، فَاَخبِرنی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٣٠ ۔ (
عَن وَصِيَّکَ مَن هُوَ ؟ فَما من بَنّیٍ الَّا وَلہُ وصیٌّ وانَّ نبينا مُوسیٰ بن عِمران اوصیٰ یُوشع بن نونٍ ،
فَقالَ : انَّ وَصيی عَلی بنُ ابی طالِبٍ وَبَعدَہ سبطای الحَسَنُ والحسينُ ، تتلُوہ تسعَةُ ائمّةٍ مِن
صُلبِ الحُسين ، قالَ: یا محمَّد فَسَمِّيِهِم لہ ، قالَ اذا مَضَی الحسينُ فَاِبنُہُ عَلیٌ ، فَاِذا مَضی عَلیٌ
فابنُہُ محمَّدٌ ، فَاِذا مضیٰ محمَّد فابنُہُ جَعفَرُ، فاِذا مضیٰ جعفَر فابنہُ موسیٰ ، فَاِذا مَضی مُوسیٰ
فابنُہُ عَلی ، فاذا مَضی عَلیٌّ فابنہ محمَّد، فاذا مَضیٰ محمدٌ فاِبنہُ عَلیّ ، فاذا مَضیٰ عَلیُّ فابنہُ
الحَسَنُ ، فاِذا مَضیٰ الحسَنُ ، فَابنہُ الحجةُ محمَّدُ المہَدی ، فهولاءِ اثناعَشَرَ
قالَ اخبرنی کيفيّةِ مَوتِ عَلِیٍ والحَسنَ والحُسينِ ؟قالَ (ص): یُقتلُ عَلِیٌ بِضرَبَةٍ مِن قرنِْہِ
والحَسَنُ یُقتلَ بِالسّمِ وَالحُسينُ بِالذّبحِ قالَ فَاینَ مَکانُهُم ؟ قالَ فی الجَنَّةِ فی دَرَجَتی ، قالَ
اشهَدُ ان لا اِلہَ اِلاَّ اللّٰہ وَانَّکَ رَسوُلُ اللّٰہِ وَاشهَدُ اَنَّهُمُ الاوصيآء بَعدَکَ وَلَقد وَجَدتُ فی کُتُب الانبيآء
المتقدِّمةِ وَفيما عَهِدَ اِلينا مُوسیٰ بنُ عِمران عليہ السلام اِنَّہُ اِذا کانَ آخر الزمانِ یخرجُ نبیٌ یقالُ لَہ
احمدُ ومحمَّد، هُوَ خاتِم الانبياء لا نبیَّ بعدَہُ فيکُونُ اوصيآئہُ بعدَہُ اِثنا عَشَرَ ، اَوَّلُهُم ابن عَمَّہ وختنِہ
والثانی والثالِثُ کانا اخَوَینِ مِن وُلدِہِ ویقتل امَّةُ النبی الاوَّلَ بالسَيفِ وَالثانیِ بِسّمِّ وَالثالِثَ مَعَ
جَماعَةٍ مِن اهل بيتہِ باِلسَّيفِ وَبالعطشَ فی موضِعٍ الغربةِ فهوُ کولد الغنَمِ یذبَحُ وَیصبرُ عَلَ یٰ القتل
لرَفعِ دَرَجاتِہ ودَرجاتِ اَهلِ بَيتہِ وَ ذُرِّیَتہِ ولا خراجِ محبيّہِ واَتباعِہِ مِنَ النّارِ وَتسعةُ الاوصيآء منهُم من
اولادِ الثالِثِ فَهولآء الاثِنا عَشَرَ عَدَدَ الاسباطِ
قال (ص): اتَعرِفُ الاسباطَ قالَ نَعَم کانوا اِثنا عَشَرَ اَوَّلُهُم لاوِی بن بَرخِيا وَهُو الَّذی غابَ عَن
بنی اسرائيلَ غيبةً ثُمَّ عادَ فَاظهَرَ اللہّٰ بِہِ شَریعَتَہُ بَعد اندرِاسِها وَقاتَلَ قَرسيطيا الملکَ حَت یٰ قَتَلَ
الملِکَ قالَ (ص) کائنٌ فی امَتی ما کانَ فی بَنی اسرائيل حذو النعَل بِالنعل والقذة بِالقذَةِ وَانَّ
الثانی عَشَرَ مِن وُلدی یَغيبُ حَتیٰ لا یُری وَیاٴتی عَلیٰ امَتی بِزَمنٍ لا یبقی مِنَ الاسلامِ اِلاَّ اِسمُہُ
وَلایبقی مِنَ القرآنِ اِلاَّ رسمُہُ فحينئذٍ یاٴذَنُ اللّٰہ تَبارکَ و تعالیٰ لَہُ بالخروُجِ فيظهِر اللّٰہ الاِسلام بِہِ
ویُجدَّدُہُ ، طوبیٰ بِمَن احبَّهُمْ وتبعهُمْ والوَیل لِمَن ابغضَهُم وَخالفَهُم وَطوبیٰ لمَن تَمسَّکَ بِهُدٰاهُمْ”
)١)
صاحب فرائد السمطين اپنی سند کے ساته مجاہد سے روایت کرتے ہيں کہ ابن عباس
ناقل ہيں : ایک یہودی پيغمبر اکرم (ص) کی خدمت اقدس ميں وارد ہوا جس کا نام نعثل تها
عرض کيا: اے محمد! ميں آپ سے چند چيزوں کے بارے ميں سوال کرتا ہوں جو دراز مدت سے
ميرے سينے ميں محفوظ ہے اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ميں اسلام قبول کروں گا تو
آنحضرت نے فرمایا: اے ابو عمارہ! سوال کرو عرض کيا: اے محمد! مجهے اپنے رب کی صفت
بيان فرمائيے تو آنحضرت نے فرمایا: اس کی صفت صرف اتنی بيان ہوسکتی ہے جس قدر خود
اس نے اپنی صفت بيان کی ہے، وہ پيدا کرنے والے کی توصيف سے کيسے بيان ہوسکتی ہے
جس کو پانے سے تمام عقليں عاجز اور خيالات اس کو حاصل کرنے سے قاصر ہيں نيز تمام
قلبی خطورات اس کو محدود یا اس کی تعریف نہيں کرسکتے نہ ہی آنکهيں اس کا احاطہ
کرسکتی ہيں جس قدر اس کی صفت بيان کرنے والے بيان کرتے ہيں وہ اس سے بزرگ و برتر
ہے، وہ دور ہونے کے باوجود قریب ہے قریب ہونے کے باوجود دور ہے کيف الکيف اور این الاین ہے
اس نے کيف کو کيف بنایا اور کہاں کو کہاں اس نے بنایا، الله تعالیٰ واحد حقيقی احدی المعنی
ہے وہ ہر جگہ ہے اور تمام چيزوں پر احاطہ کيے ہوئے ہے جس طرح اس نے اپنی توصيف کی ہے
وصف بيان کرنے والے اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣١٨ ۔ (
کی صفت کی کنہ اور حقيقت تک نہيں پہنچ سکتے
”اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی والد اور نہ اس کا کوئی کفوو ہمسر ہے“
یہودی نے عرض کيا: اے محمد! آپ نے سچ فرمایا اب مجهے اپنے اس فرمان سے باخبر
کيجيے کہ جس ميں آپ نے فرمایا: الله تعالیٰ یکہ وتنہا ہے اس کا کوئی شبيہ و نظير نہيں ہے
کيا الله ایک نہيں اور انسان بهی ایک نہيں؟ تو آنحضرت نے فرمایا: خدائے عزوجل ١ حد حقيقی
ہے ایک سے زیادہ معنی نہيں ہے یعنی نہ اس کے ليے کوئی جزء ہے اور نہ ہی اس کے ليے
مرکب ہوتا ہے۔ انسان کا ایک ہونا ثنائی المعنی کے اعتبار سے ہے جو روح اور بدن سے مرکب
ہے۔
عرض کيا: آپ نے سچ فرمایا: اے محمد! مجهے اپنے وصی کے بارے ميں آگاہ فرمائيے وہ
کون ہے؟ کيونکہ ہر آنے والے نبی کا ایک وصی ہوا کرتا ہے ہمارے نبی موسی بن عمران نے
یوشع بن نون کو اپنا وصی قرار دیا تها آنحضرت نے فرمایا: ميرے وصی علی ابن ابی طالب - ہيں
آپ کے بعد ميرے دو سبط ہيں وہ حسن - و حسين - ہيں آپ کے ساته ساته نو امام، حسين -
کے صلب سے پيدا ہوں گے۔
عرض کيا: اے محمد! مجهے ان کے اسمائے گرامی سے آگاہ فرمائيے؟ تو آنحضرت نے
فرمایا: جب حسين دنيا سے رخصت ہوجائيں گے تو آپ کے فرزند علی - امام ہوں گے جب آپ
رخصت ہوجائيں گے تو آپ کے فرزند محمد - ہوں گے جب محمد - تشریف لے جائيں گے تو آپ
کے فرزند جعفر - ہوں گے جب جعفر - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند موسیٰ - ہوں گے
جب موسی - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند علی - ہوں گے جب علی - تشریف لے
جائيں تو آپ کے فرزند محمد - ہوں گے جب محمد - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند
علی - ہوں گے جب علی - تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند حسن - ہوں گے جب حسن
- تشریف لے جائيں گے تو آپ کے فرزند حجّت خدا محمد مہدی - (عجل الله تعالیٰ فرجہ
الشریف ) ہوں گے پس ميری امت کے یہ ميرے بارہ اوصياء اور ائمہ ہيں۔
عرض کيا: مجهے علی - ، حسن - اور حسين - کی موت کے بارے ميں آگاہ فرمائيے؟
تو آنحضرت نے فرمایا: علی - ایک ( زہر آلود) شمشير کی ضربت سے اور سر مبارک شکافتہ
شدہ قتل اور شہيد کيے جائيں گے حسن - کو زہر سے قتل کيا جائے گا اور حسين - کو ذبح
کرکے ان کا سربدن سے جدا کرکے شہيد کيا جائے گا۔
یہودی نے عرض کيا: ان کا ڻهکانہ کہاں ہے؟ آنحضرت نے فرمایا: جنت ميں ميرے درجے
ميں ہوں گے تو پهر یہودی نے عرض کيا: ميں گواہی دیتا ہوں کہ خدا ئے وحدہ لاشریک کے
علاوہ کوئی خدا نہيں اور آپ الله کے رسول ہيں ميں گواہی دیتا ہوں کہ یہ حضرات آپ کے بعد آپ
کے اوصياء ہيں۔
خدا کی قسم ! ان سب کا ذکر گزشتہ انبياء کی کتابوں ميں موجود ہے اور ہم لوگوں
سے اس بات کا موسی ابن عمران نے بهی عہد لياتها کہ جب آخری زمانہ آئے گا تو ایک نبی
تشریف لائيں گے کہ جن کا نام احمد اور محمد ہوگا۔ وہ انبياء کے خاتم ہوں گے آپ کے بعدکوئی
نبی نہيں ہوگا آپ کے بعد بارہ اوصياء ہوں گے پہلا وصی آپ کے چچا کا بيڻا ہوگا جو آپ کا داماد
بهی ہوگا۔ دوسرا اور تيسرا وصی دو بهائی ہوں گے جو آپ کے فرزند ہوں گے پہلے کو یعنی علی
ابن ابی طالب کو نبی کی امت تلوار سے دوسرے کو زہر سے تيسرے کو آپ کے اہل بيت کی
ایک جماعت کے ساته تلوار سے پياس کے حالت ميں عالمِ مسافرت ميں گوسفند کے بچے کی
طرح ذبح کرے گی۔ (اس کے باوجود) آپ قتل پر صبر کریں گے تاکہ آپ کے اہل بيت کی اولاد کے
درجات بلند ہوں اور اپنے دوستوں اور اتباع کرنے والوں کو آتش جہنم سے نجات دے سکيں۔ نو
امام اس تيرے (امام حسين -) کی اولاد سے پيدا ہوں گے جو اسباط کی عدد کے برابر
مجموعی طور پر بارہ ہيں۔ پهر حضرت رسول اکرم (ص) نے دریافت فرمایا: کيا تم اسباط کو
جانتے ہو؟ عرض کيا: ہاں وہ بارہ حضرات تهے ان ميں سے پہلا شخص لاوی بن برخيا تها۔ یہ وہ
شخص ہيں جو ایک عرصہ تک بنی اسرائيل سے غائب تهے پهر واپس تشریف لائے تهے الله
تعالیٰ نے اپنی شریعت کے مٹ جانے کے بعد ان کے ذریعہ ظاہر کيا تها اس نے قرسطيا بادشاہ
کو قتل کيا تها۔
آنحضرت (ص) نے فرمایا: ميری امت ميں ہوبہو ایسا ہونے والا ہے جس طرح بنی
اسرائيل ميں جو کچه واقع ہوا تها۔ اور یہ کہ ميرے فرزندوں ميں سے گيارہواں فرزند غائب ہوجائے
گا اور دکهائی نہيں دے گا۔
ميری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اسلام کا صرف نام (یعنی اس کے دستورات و
احکام پر عمل نہيں کيا جائے گا) باقی رہ جائے گا اور قرآن صرف رسمی طور پر باقی رہے گا
(یعنی اس کی جلد سونے کے پانی سے کتابت اور اس کے رسم الخط کو لوگ اہميت دیں گے
ليکن اس کے مضمون ، دستورات زندگی اور احکام و قوانين کی کسی بهی حيثيت سے کوئی
خبر نہ ہوگی۔
اس وقت الله تبارک و تعالیٰ اپنے زمانہ کے ولی اعظم امام عصر (سلام الله عليہ) کو
خروج کے ليے اجازت دے گا، اس کے ذریعہ الله تعالیٰ اسلام کو (تمام دنيا ميں) ظاہر اور غائب
کرے گا اور ظلم و جور کا روئے زمين سے خاتمہ ہوگا اور عدل و انصاف پهيل جائے گا آنحضرت
نے فرمایا: اس شخص کے ليے خوش خبری ہے جس نے ان حضرات کو دوست رکها اور ہر حالت
ميں ان کا تابع فرماں رہا۔
اور اس شخص کے ليے ہلاکت ہے جس نے ان سے دشمنی رکهی اور ان کی مخالفت
کی اور اس شخص کے ليے خوش خبری ہے کہ جس نے ان کے دامن سے وابستگی رکهی اور
ان کی راہ ہدایت پر گامزن رہا۔
اللّٰهم وفّقنا لما تحبّ و ترضی وثبّتنا علی ولایتهم وهدایتهم واحشرنا معهم فی الدنيا
والآخرة بفضلک واحسانک یاکریم
اے خدا! ہميں ان چيزوں کی توفيق دے جس کو تو دوست رکهتا ہے اور اس سے راضی
ہے اور ہميں ان کی ولایت اور راہ ہدایت پر ثابت قدم رکه اور ہميں اپنے فضل اور احسان کے
ذریعہ دنيا اور آخرت ميں ان کے ساته محشور فرما اے رب کریم! آمين۔
۶٠ ۔ “وفيہ : عَن جابِرِ بن یزَیدِ الجفعی قالَ قُلتُ لِلباقرٍ ( سَلام اللہّٰ عَلَيہِ ) یا بنَ رَسوُل اللّٰہِ
انَّ قوماً یقولونَ اِنَّ اللّٰہ تعالیٰ جَعَلَ الاِمٰامة فی عَقِبِ الحَسَن عليہ السلام رَضِیَ اللّٰہ عنہ قالَ یا
جابِر اِنَّ الائمةَ هُمُ الذین نَصَّ علَيهم رَسوُل اللّٰہ (ص) بِاِمامتِهم وَهُم اثنا عَشَر وَقالَ لَمّا اسرِی
بی الَی السَمآء وَجَدتُ اسمائُهم مَکتوبةٌ عَلی ساقِ العَرشِ بالنّورِ ، اِثنا عَشَرَ اسِماً اَوَّلُهُم عَلی
وَسِبطاہُ وَ عَلیٌ وَمحمدٌ وَ جَعفَر وَمُوس یٰ وَعَلِیٌ وَمَحمّدٌ وَعَلیٌ وَالحَسَنٌ وَمَحمَّدٌ القائمُ الحجةُ
) المَهدی عليہم السلام۔” ( ١
اسی کتاب ميں جابر ابن یزید جعفی کا بيان ہے کہ ميں نے حضرت امام محمد باقر -
سے عرض کيا: اے رسول خدا (ص) کے فرزند! ایک قوم کے لوگ کہتے ہيں کہ الله تعالیٰ نے
امامت کو امام حسين - کے عقب (نسل) ميں قرار دیا ہے۔آنحضرت نے فرمایا: اے جابر! یقينا
ائمہ وہ لوگ ہيں جن کی امامت کی رسول خدا (ص) نے تصریح کی ہے اور معين فرمایا ہے وہ
بارہ حضرات ہيں۔ آنحضرت نے فرمایا:جب مجهے آسمان (معراج) پر لے جایا گيا تو ميں نے ان
حضرات کے ناموں کو ساق عرش پر نور سے لکها ہوا دیکها وہ بارہ نام تهے ان ميں پہلا نام علی
کا تها اور آپ کے دونوں فرزندوں کا تها، علی، محمد، جعفر، موسیٰ، علی، حسن اور محمد قائم
حجّت مہدی عليہم السلام کے اسمائے گرامی تهے۔
۶١ ۔ “ و فيہ نقلاً عَنِ المَناقِب عَن واثلةِ بن الاسقَعِ بن فَرخابَ عَن جابِرِ بن عَبدِ اللہِّٰ
الانصاری قالَ دَخَلَ جندَلُ بن جُنادَةِ بن جُبَير اليَهوُدی عَلیٰ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) فَقال یا محمّد (ص)
اخبرنی عَمّا لَيسَ للّٰہِ وَعَمّا لَيسَ عندَ اللّٰہِ وَعَمَّا لا یعلمُہُ اللّٰہُ ؟ فَقالَ (ص) امّا ما لَيس للّٰہِ لَيسَ
للّٰہِ شَریکٌ وَاَمَّا ما لَيسَ عِند اللّٰہِ ، فَلَيسَ للّٰہِ عِند اللّٰہِ ظُلمٌ للعِبادِ وَامّا ما لا یعلَمُہُ اللّٰہ فَذلِکَ قولُکُم
یا معشَرَ اليهودِ انَّ عزیز ابن اللّٰہِ وَاللّٰہِ لا یعَلَم اَنّ لہُ وَلداً بَل یعَلم اٴنّہُ مخلوقُہُ وَ عَبدُہُ ، فَقالَ: اشهَدُ
ان لا اِلہ الاَّ اللّٰہَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٢٧ ۔ (
وَانّکَ رَسُولُ اللہِّٰ حَقاً وَصِدقاً ”۔
ثُمَ قالَ انّی رایتُ البارِحَةَ فی النومِ مُوسیَ بنَ عِمرانَ عليہ السلام فَقالَ یا جُندَل اٴسلم
عَلیٰ یدِ محمَّدٍ خاتم الانبياء واستمسک اوصيائہ من بعدہ ، فقلت اٴسلم ، فللہ الحمد اسلمت
وهدانی بک ثُمَّ قالَ اخبِرنی یا رَسُولَ اللّٰہِ عَن اوصيآئِکَ مِن بَعدِکَ لاٴتمَسِکَ بهِم قالَ اوصيآئی الا
ثنا عَشَرَ قالَ جندل هکذا وَجَدناهُم فی التَوراةِ وَ قالَ : یا رَسُولَ اللّٰہِ سَمِّهِم لی ، فَقالَ : اوّلهُم
سَيّد الاوصيآء ابو الائِمةِ عَلی عليہ السلام ثُمَ ابناہُ الحَسَن وَالحُسَين فاستمسِک بهِم وَلا یُغَرنَکَ
جهلُ الجاهِلينَ ، فَاذِا وُلدِ عَلِِیّ بن الحُسينِ زَینُ العابِدینَ یقضی اللہّٰ عَليکَ وَیَکُوُنُ آخِر زادِکَ مِنَ
الدُّنيا شَرَبةً لَبَنٍ تَشربُہَ فَقالَ جُندَلُ وَجَدنا فی التَوراةِ وَفی کُتُبِ الانبيآء عليہم السلام ایليا وَ شَبَّراً
وشُبيراً ، فَهذہِ اسمُ عَلیٍ و الحَسَن والحُسينَ ، فَمَن بعد الحسين ؟ فَما ساميهم ؟ قالَ اذا
انقضَت مدة الحُسين فالاِمامُ ابنہ عَلِیٌ ویلقَّب بزینِ العابدینَ فَبعدَہ ابنہُ محمَّد یلقَّبُ بِالباقِرِ ، فبعَدہُ
ابنُہُ جَعفَرُ یُدعیٰ بِالصَّادِقِ فبَعدہُ ابنہُ موسیٰ یدعیٰ بالکاظِمِ فَبَعدہُ ابنہُ عَلِیٌ یدعیٰ بالرّضا فَبَعدہ
اِبنہ محمَّد یدعیٰ بالتقیِ والزکیّ فَبَعدُہُ اِبنہُ علیٌ یُدعیٰ بالنَّقی والهادی فَبعدہُ اِبنُہُ الحَسَنُ یدعیٰ
بالعَسکَری ، فبعدَہ اِبنہُ محمدٌ یدعیٰ بالمهدِیِ والقائِمِ والحُجَّةِ فَيَغيبُ ثُمَ یخرجُ فاَذِا خَرَجَ یملاءُ
الاَرض قِسطاً وَ عَدلاً کَما ملئت جوراً و ظلماً طوبی للصّابرینَ فی غيبتہ طُوبی للمُقيمينَ عَلیٰ
حجتِہِم اولئک الذینَ وَصفَهُم اللہّٰ فی کِتابِہِ وَ قالَ : <هَدیً للمتقينَ الذینَ یوٴمِنونَ بِالغَيبِ > ثُمَ
قالَ تعالیٰ : <اوليک حِزبُ اللّٰہِ الا اِنَّ حِزب اللّٰہِ هُمُ الغالِبُونَ > فقالَ جندلُ الحمد للّٰہِ الَّذی وفقَنی
) بِمعرِفتهِم ” ( ١
اسی کتاب ميں مناقب سے واثلہ ابن اسقع بن فرخاب جابر ابن عبد الله انصاری سے
نقل کرتے ہيں کہ جندب ابن جنادة ابن جبير نامی یہودی حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت
ميں حاضر ہوا اور عرض کيا: اے محمد! مجهے خبر دیجيے کہ وہ کون سی چيز ہے جو الله کے
ليے نہيں ہے؟ اور وہ کون سی شے ہے جو الله کے پاس نہيں ہے اور وہ کون سے چيز ہے جس
کو الله تعالیٰ نہيں جانتا؟ تو رسول خدا (ص) نے فرمایا: وہ چيز جو الله کے ليے نہيں ہے تو خدا
کے ليے شریک نہيں ہے اور جو شے خدا کے پاس نہيں ہے تو وہ ظلم نہيں ہے الله تعالیٰ اپنے
بندوں پر ظلم نہيں کرتا اور وہ چيز جو الله تعالیٰ نہيں جانتا وہ یہ ہے کہ اے گروہ یہود! وہ تمہارا
قول ہے کہ عزیر الله کا بيڻا ہے البتہ الله تعالیٰ نہيں جانتا کہ اس کے ليے کوئی فرزند ہو بلکہ الله
تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ عزیر اس کی مخلوق اور اس کا بندہ ہے ۔ یہودی نے کہا: ميں گواہی دیتا
ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہيں ہے اور آپ الله کے برحق اور سچے رسول ہيں۔
اس کے بعد اس نے کہا: ميں نے کل رات موسی ابن عمران کو عالم خواب ميں دیکها تها
تو انہوںنے مجه سے فرمایا: اے جندل! تم محمد خاتم الانبياء کے دست مبارک پر اسلام لاؤ اور
ان کے بعد ہونے والے اوصياء کے دامن سے متمسک رہو، ميں نے عرض کيا: الله کا شکر ہے کہ
ميں اسلام لایا ہوں اور آپ کے ذریعہ مجهے ہدایت دی گئی۔
پهر اس نے کہا: اے الله کے رسول! مجهے اپنے اوصياء کے بارے ميں آگاہ فرمائيے تاکہ
ميں ان سے تمسک اختيار کرسکوں، آنحضرت نے فرمایا: ميرے اوصياء بارہ ہيں، جندل نے عرض
کيا: اسی طرح ہم لوگوں نے توریت ميں دیکها ہے جس طرح آپ نے فرمایا۔
اور عرض کيا: اے رسول خدا (ص)! ان حضرات کے ناموں سے مجهے آگاہ فرمائيے۔ تو
فرمایا: ان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ج ٣، ص ٢٨۴ ۔ (
ميں سے پہلے اوصياء کے سيد و سردار ہيں اور تمام ائمہ کے باپ علی (ابن ابی طالب) ہيں پهر
آپ کے دونوں فرزند حسن - و حسين - ہيں۔
لہٰذا ان کے دامن سے وابستگی اختيار کرو کہيں تم کو جاہلوں کی جہالت مغرور و گمراہ
نہ کردے، جب علی ابن الحسين زین العابدین پيدا ہوں گے الله تعالیٰ مجهے موت دے گا تيری
دنيا کی آخری خوراک دوده کا ایک گهونٹ ہوگا جس کو تو پيے گا۔
اس کے بعد جندل نے عرض کيا: ہم لوگوں نے توریت اور انبياء عليہم السلام کی کتابوں
ميں اسی طرح ایليا، شبر و شبير کا نام دیکها ہے یہ نام علی -، حسن -، حسين - کے ہيں۔
حسين - کے بعد کون حضرات ہوں گے؟ ان کے نام کيا ہيں؟ آنحضرت نے فرمایا: جب حسين -
کی زندگی ختم ہوجائے گی تو ان کے فرزند علی - امام ہوں گے جن کا لقب زین العابدین - ہے
آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد - امام ہوں گے جن کا لقب باقر - ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند
جعفر - امام ہوں گے کہ جن کا لقب صادق - ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند موسیٰ - امام ہوں
گے جن کو کاظم کہا جاتا ہے، آپ کے بعد آپ کے فرزند علی - ہوں گے کہ جن کو رضا - کہا
جاتا ہے آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد - امام ہوں گے جن کو تقی اور ذکی - کہا جاتا ہے، آپ
کے بعد آپ کے فرزند علی - ہوں گے جن کو نقی اور ہادی - کہا جاتا ہے آپ کے بعد آپ کے
فرزند حسن - ہوں گے جن کو عسکری - کہا جاتا ہے، آپ کے بعد آپ کے فرزند محمد - ہوں
گے جن کو مہدی ، قائم اور حجّت - کہا جاتا ہے پهر لوگوں کی نظروں سے جب تک خدا چاہے
گا غائب ہوں گے پهر اپنے پروردگار کی اجازت سے خروج فرمائيں گے جب خروج فرمائيں گے تو
جس طرح زمين ظلم و جور سے بهر چکی ہوگی اسی طرح اس کو عدل و انصاف سے بهردیں
گے۔
آپ کی غيبت ميں صبر کرنے والوں کے ليے خوش خبری ہے ان حضرات سے محبت
کرنے والے پرہيز گاروں کے ليے خوش خبری ہے یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کی تعریف الله نے اپنی
کتاب ميں کی ہے اور کہا ہے: “قرآن صاحبان تقویٰ اور پرہيز گاروں کے ليے مجسمہٴ ہدایت ہے
جو لوگ غيب پر ایمان رکهتے ہيں” پهر فرمایا: یہی خدا کا گروہ ہے اور جان لو کہ خدا کا گروہ
ہميشہ غالب ہے” پهر جندل نے کہا: الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجهے ان حضرات کی
) معرفت کی توفيق مرحمت فرمائی۔ ( ١
۶٢ ۔ “و فی الدرر الموسویة ( ٢) قال محمّد بن محمّد بن محمود الحافظ البخاری
المعروف بخواجہ پارسا فی حاشيتہ علی ہامش کتابہ فصل الخطاب عند ذکرہ ولا دة المهدی
(عليہ السلام) ما لفظہ : انَّ الاحادیثَ فی هذا البابِ فوقَ حَدِّ الاحصاء وَ مَناقِب المهَدی رَضِی اللّٰہ
عنہُ صاحِبُ الزمانِ الغائب عَنِ العَيانِ الموجودُ فی کُلِ الاٴزمانِ کثيرة مُتَظافِرةٌ والاخبارُ فی ظهُورہِ
وَشوارِقِ نُورِہِ وتجدید الشَّریَعةِ المحمَّدیةَ و مجاهَدَتہِ فی اللہّٰ حق جهادِہِ وَتطہير الاقطارِ مِن سائِرِ
الادناس مقطوُعٌ بِہِ وَاصحابُہُ قَد خَلَصُوا مِنَ الرَّیبِ وَسَلمُوا مِنَ العَيبِ وَاخَذَوا طَریق الهِدایَةَ وَسَلکُوا
مِن طَریقِ الحَقِ الیِ التحقيق وَبِہِ ختمَتِ الخِلافةُ والاِمامة وَهُوَ اِمامٌ منذُ وَفاةِ ابيہِ اِل یٰ یومِ القيامةَ
) وَعيسیٰ عليہ السلام یُصلی خَلفَہ ویُصدِّقُہُ ویدعُوا النّاس اِلیٰ مِلَّتِہِ وَ هِیَ مِلَّةُ النّبی (ص) ۔” ( ٣
صاحب الدّرر الموسویہ کہتے ہيں : محمد ابن محمود حافظ بخاری جو خواجہ پارسا کے
نام سے مشہور ہيں اپنی کتاب فصل الخطاب ميں اپنی برہان نامی کتاب کے حاشيہ ميں حضرت
مہدی (عجل الله فرجہ الشریف(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ وہ اس کے بعد زندہ رہا یہاں تک کہ حضرت علی ابن الحسين امام زین العابدین - کی (
ولادت ہوئی پهر وہ طائف گيا اور وہاں وہی دوده پيا اور کہا: پيغمبر خدا (ص) نے مجه سے فرمایا
تها کہ زندگی ميں تمہاری آخری خوراک دوده کا ایک گهونٹ ہوگا وہاں اس کا انتقال ہوا اور طائف
کے زارہ نامی مشہور محلہ ميں دفن ہوا اور رحمت و رضوان خدا سے جاملا۔
٢(۔ الدرر الموسویہ فی شرح الجعفریة۔ (
٣(۔ المہدی، سيد صدر رحمة الله عليہ، ص ١٠۶ ۔ (
کی ولادت کے متعلق گفتگو کرتے ہيں اس بيان سے کہ اس باب ميں موجودہ احادیث بے حد و
حصر ہيں اور حضرت مہدی صاحب الزمان کے فضائل و مناقب ہر زمانہ ميں بہت زیادہ ہيں وہ
لوگوں کی نظروں سے غائب ہيں ان کے ظہور کے بارے ميں ان کے نور کے چمکنے اور شریعت
محمدیہ کی تجدید کرنے نيز ان کی راہ خدا ميں خدمات انجام دینے اور وہ تمام دنيا کی ناپاکيوں
کو بلا شک و شبہ یقينا پاک کریں گے اور ان کے اصحاب کرام ہر شک و شبہ سے خلاص اور
تمام عيوب سے سالم ہيں انہوں نے راہ ہدایت کو اپنایا ہے اور راہ حق سے تحقيق و یقين کی
منزل تک پہنچے ہيں ان بزرگوار کے ذریعے خلافت و امامت کا سلسلہ ختم ہوا ہے اور وہ اپنے
والد گرامی کی وفات کے وقت سے صبح قيامت تک امام زمانہ ہيں۔ حضرت عيسیٰ ان کے
پيچهے ان کی اقتدا ميں نماز پڑهيں گے ان کی تصدیق کریں گے اور تمام لوگوں کو ان کی قوم
وملت کی طرف دعوت دیں گے اور وہ قوم و ملت نبی اکرم (ص) کی قوم و ملت ہے۔
محمد ابن محمد ابن محمود حافظ بخاری جو خواجہ پارسا کے نام سے مشہور ہيں انہوں
نے کتاب فصل الخطاب کے اپنے حاشيے ميں حضرت بقية الله الاعظم مہدی موعود (عجل الله
فرجہ الشریف) کے بارے ميں بعض مطالب ذکر کيے ہيں ضمنی طور پر ان کے ظہور نيز ان کے
نور کے چمکنے اور شریعت محمدیہ کی تجدید وغيرہ کے بارے ميں اشارہ کيا ہے، مولف بعنوان
حسن اختتام ان ميں ہر ایک سے دو حدیث بطور تبرک نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہيں اور یہ کہ
پہلی فصل ميں جو عنوان ذکر ہوا ہے کہ جس طرح قرآن کریم آخری آسمانی کتاب ہے حضرت
بقية الله الاعظم(عجل الله فرجہ الشریف) بهی آخری اوصياء ميں سے ہيں ہم اس بحث کو یہيں
ختم کرتے ہيں۔
۶٣ ۔ “و فی عقد الدرر فی الباب الثانی عَن عَبدِ اللّٰہِ بْن عُمَر قالَ قالَ رَسُول اللّٰہِ (ص) :
یَخرُْجُ فی آخِرِ الزّمانِ رَجُلٌ مِن وُلدْی اسمُْہُ کَاسمِی وَکُنيَْتُہُ کَکُنيَْتی یَملَاُ
) الاْرضَْ عَدلْاً کَما مُلِئَت جَورْاً ”۔ ( ١
عبد الله ابن عمر نقل کرتے ہيں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: ایک شخص آخری
زمانہ ميں ميری اولاد ميں سے خروج کرے گا اس کا نام ميرے نام پر ہوگا (محمد) اور اس کی
کنيت (ابو القاسم) ہے زمين کو عدل و انصاف سے بهردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے
بهرچکی ہوگی۔
۶۴ ۔ “وفی ینابيع المودة عَنْ مِشْکوةِ المَصابيح عَنْ صحيح مُسْلِم ومُسْنَدِ احْمَد عَن جابِرِ
بْنِ عَبْدِ اللّٰہ قال قالَ رَسُولُ اللّٰہ (ص) : یَکوُنُ فی آخِرِ الزّمانِ خَليفَةٌ یُقَسِّمُ المال وَلا یَعُدُّہُ وَفی
) رِوایة یَکوُنُ فی آخِرِ اُمَّتی خَليفَة یُحثِْی المالَ حثاً وَلا یَعَدُّہُ عَدّاً ” ( ٢
جابر ابن عبد الله انصاری رضی الله عنہ کہتے ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
آخری زمانہ ميں ایک خليفہ آئے گا جو مال کو تقسيم کرے گا اور اس کو شمار نہيں کرے گا۔ اور
دوسری روایت ميں ذکر ہوا ہے کہ ميری امت کے آخر ميں ایک خليفہ ہوگا جو مال مڻهی بهر بهر
کے تقسيم کرے گا اور کو شمار نہيں کرے گا۔ یعنی امام زمانہ - کے مقدس اور بابرکت وجود
سے اتنی فراوانی ہوگی کہ عطا و بخشش بے شمار ہوگی۔
۶۵ ۔ “وفيہ : عن فرائد السمطين عَنِ الْحَسَن بْنِ خالِدٍ عَنْ اَبی الْحَسَن عَلیِّ بن مُوسیٰ
الرِّضا عليہ السلام فی حَدیثٍ ذَکَر فيہِ الْمَهدیَّ وغَيْبَتَہُ وَانَّہُ الرّابعُ مِنْ وُلْدِہِ الی ان قال وَهُوَ الّذی
ینادی مُنادٍ مِنَ السّماءِ یَسْمَعُہُ جَميعُ اَهْلِ الارْض : اَلا اِنَّ حُجَّةَ اللہِّٰ قَد ظَهَرَ عِندَْ بَيتِْ اللہِّٰ فاَتّبِعُوہُ
) فاِنَ الحقَ فيہِ وَمَعَہُ الحدیث” ( ٣
اسی کتاب ميں فرائد السمطين سے حسن ابن خالد سے ایک روایت حضرت ابو الحسن
علی ابن موسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ المہدی، سيد صدر، ص ٢٠۶ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٣٠ ۔ (
٣(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴۴٨ ۔ (
الرضا سے ذکر ہوئی ہے جس ميں ایک حدیث کے ضمن ميں حضرت مہدی اور ان کی غيبت کے
بارے ميں گفتگو ہوئی ہے اور یہ کہ وہ حضرت امام رضا - کے چوتهے فرزند ہيں یہاں تک کہ
فرمایا: آپ وہ ہيں جن کے ليے آسمان سے ایک آواز دینے والا اس طرح آواز دے گا کہ جس کی
آواز کو تمام زمين و والے سنيں گے: اے لوگو! خبردار ہوجاؤ الله کے گهر کے پاس حجّت الله ظاہر
ہوگئے ہيں لہٰذا ان کی پيروی کرو یقينا حق ان ميں ہے اور ان کے ساته ہے۔
۶۶ ۔ “فی ینابيع المودة : عن فرائد السمطين عن سعَيد بْنِ جُبير عَن ابنِ عَباس قالَ: قالَ
رَسُولُ اللّٰہ (ص) :“ اِنَّ خُلَفائی اوصيآئی حُجَجُ اللّٰہُ عَلَی الخلقِ بَعدیِ اثنا عَشَرَ ، اولُهُم عَلیٌ
وَآخِرِهُمُ وَلَدی المهدیُّ ، فينزِلُ رُوح اللّٰہِ عيسیٰ بنُ مریمَ فيصلّی خَلفَ المہدی ، وتَشرقُ الارض
) بنورِرَبّها وَیبلغُ سُلطانہُ المشرِقَ والمغرِب” ( ١
ینابيع المودة ميں فرائد السمطين سے سعيد ابن جبير سے وہ ابن عباس سے نقل
کرتے ہيں کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: یقينا ميرے خلفاء اور اوصياء ميرے بعد مخلوق
خدا پر خدا کی حجّت ہيں جو بارہ ہيں ان ميں کا پہلا علی - ہے اور ان ميں کا آخر ميرا بيڻا
مہدی ہے کہ روح الله حضرت عيسی ابن مریم جب آسمان سے نازل ہوں گے تو ان کے پيچهے
ان کی اقتداء ميں نماز پڑهيں گے زمين اپنے رب کے نور سے چمک اڻهے گی حضرت مہدی کی
سلطنت مشرق اور مغرب ميں ہوگی۔
۶٧ ۔ “وما رواہ الشيخ الجليل علیّ بن ابراہيم القُميۺ فی تَفسيرہِ مسنَداً عَنِ المُفضَّل بن
عمَرۺ انّہُ سَمعَ ابا عَبد اللّٰہ عليہ السلام یقُولُ فی قولِ اللّٰہ تعالیٰ <واشرقَتِ الارضُ بنورِ رَبّها >
قالَ رَبُّ الارضِ یَعنی اِمامُ الارضِ ، قُلتُ فَاِذا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ، ص ۴۴٧ ۔ (
خَرَجَ یکُون ماذا قالَ عليہ السلام اَذاً استغنی الناسُ عَن ضوء الشَّمسِ وَنُور القَمَر ویجتزُون بِنورِ
) الاِمام” ( ١
شيخ جليل علی ابن ابراہيم قمی نے اپنی تفسير ميں مفضل ابن عمر سے اپنی سند
کے ساته روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہيں کہ انہوں نے امام جعفر صادق - کو یہ بيان کرتے ہوئے
سنا: کلام خدا اور (واشرقت الارض بنور ربها) (اور جب زمين اپنے پروردگار کے نور سے روشن
ہوجائے گی) کی تفسير ميں فرمایا: رب الارض یعنی روئے زمين پر امام مراد ہيں، ميں نے عرض
کيا: جس زمانہ ميں وہ خروج کریں گے تو کيا ہوگا؟ فرمایا: اس وقت لوگوں کو آفتاب کی روشنی
اور نور ماہتاب کی ضرورت نہ رہے گی اور لوگ نور امام پر اکتفا کریں گے۔
۶٨ ۔ “وما رواہ العالم الکامل المجلسيۺ فی البحار عَن المفضّلِ ایضاً قال: سمعتُ ابا عَبدِ
اللّٰہ عليہ السلام یقُولُ : انّ قائِمنا اِذا قامَ اشرَقتِ الارضُ بنُور رَبّها واستغنیَ العبادُ عَن ضوء
) الشَّمسِ و ذهَبَتِ الظلامةُ ” ( ٢
اس حدیث کو عالم کامل علامہ مجلسی نے بحار ميں مفصل طور سے نقل کيا ہے کہ وہ
بيان کرتے ہيں کہ اُنہوں نے امام جعفر صادق - کو یہ کہتے ہوئے سنا: یقينا جب ميرا قائم ظہور
کرے گا تو زمين اپنے پروردگار کے نور سے روشن و منور ہوجائے گی اور بندگان خدا کو آفتاب کی
روشنی کی ضرورت نہ رہے گی نيز تمام تاریکياں ختم ہوجائيں گی۔
۶٩ ۔ “منها مارواہ ثقة الاسلام محمد بن یعقُوبَ الکلينيۺ فی اصُولِ الکافی عَن ابی خالِدِ
الکابلی عَن ابی جعفَرٍ عليہ السلام قالَ:یا اَبا خالدٍ لَنُورُ الامام فی قُلوب الموٴمنين اَنوَرُ مِن
الشّمس المُضئية بالنهارِ وهم وَاللّٰہ یُنوّرونَ قُلوبُ الموٴمنين ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير قمی، ج ٢، ص ٢۵٣ ، تفسير نور الثقلين، ج ۴، ص ۵١٣ ۔ (
٢(۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٣٣٧ ۔ (
وَیَحجَب اللّٰہ عزّوجلّ نُورَهم عَمّن یَشآء فَتظلَم قُلوبُهم وَاللّٰہ یا ابَا خالِدٍ لا یُحبّنا عَبدٌ وَ یَتولانا حَتّی
یُطهّر اللّٰہ قَلبَہ وَلا یُطهِر اللّٰہ قَلب عَبدٍ حَتّی یسلم لَنا وَ یَکون سِلماً لَنا فَاذا کانَ مُسلماً لنا سلّمہ
) اللّٰہ مِن شدید الحِسابِ وَآمَنَہُ مِن فَز ع یَوم القيامَة الاکبر ” ( ١
ثقة الاسلام محمد ابن یعقوب کلينی نے اصول کافی ميں نقل کيا ہے کہ ابو خالد کابلی
کا بيان ہے کہ حضرت امام محمد باقر - نے فرمایا: اے ابو خالد! خدا کی قسم! جو نورِ امام
قلوبِ مومنين ميں ہے وہ نصف النہار کے سورج سے زیادہ روشن ہوتا ہے اور وہ (ائمہ) قلوب
مومنين کو منور کرتے رہتے ہيں اور الله تعالیٰ ان کے نور کو جس سے چاہتا ہے چهپاتا ہے تو ان
کے قلوب تاریک ہوجاتے ہيں خدا کی قسم! اے ابو خالد! ہم سے کوئی بندہ محبت نہيں کرتا اور
نہ ہی ہم کو دوست رکهتا ہے مگر یہ کہ الله اس کے قلب کو پاک و پاکيزہ کرتا ہے اور کسی بندہ
کا دل پاک نہيں کرتا جب تک وہ ہم کو تسليم نہ کرے اور ہم سے صلح و مصالحت سے پيش نہ
آئے لہٰذا جب وہ ہم سے صلح و مصالحت سے پيش آتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو قيامت کے دن
سخت حساب اور عظيم خوف سے محفوظ رکهتا ہے۔
٧٠ ۔ “وما فی البحار عن السيدِ عَلیِ بن عَبدِ الحَميد فی کِتابِ سلطانِ المُفَرجِ عَن اهلِ
الایمانِ عِند ذِکر مَن رآ القآئِم عليہ السلام قالَ: فمِن ذلِکَ ما شتَهَر وذاعَ وَمَلاء البُقاعَ وَشَهِدَ
بالعَيانِ ابناءُ الزَّمانِ وهُو قصَّةُ
اَبی راجح الحمَّامی بِالحلّةِ وَقَد حکَی ذلِکَ جَماعَةٌ مِنَ الاعيان الاَماثِلِ وَاَهل الصِّدقِ
الافاضِلِ
مِنهمُ الشَيخُ الزَّاہِدِ العابِدِ المحققِ شَمسُ الدین محمَّد بنُ قارُونَ سَلَّمَہُ اللّٰہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ١، ص ١٩۴ ۔ (
تعالیٰ قال: کانَ الحاکِمُ بالحِلّةِ شَخصاً یُدعیٰ مَرجانُ الصَّغيرُ فَرفع الَيہِ اَنَّ ابا راجح هذا یسبّ
الصَّحابَةَ فاحضَرَہُ واَمَر بضَربہِ ، فضُرِبَ ضرباً شَدیداً مُهلِکاً عَلی جَميع بَدَنِہِ ، حَ تٰی اِنَّہُ ضَرَبَ عَل یٰ
وَجهِہِ فَسَقَطَت ثَنایاہُ واخرَجَ لِسانَہُ فجعَلَ فيہِ مَسَلّةً مِن الحدیدِ وَخَرَقَ انفہُ وَوَضَعُ فيہِ شَرِکَةً مِنَ
الشَعرِ وَ شَدَّ فيها حَبلاً وَسَلّمہ ال یٰ جَماعَةٍ مِن اصحابِہِ وامَرَهُم ان یدُورُوا بہِ ازقَّةَ الحِلَّةِ والضَرب
یاٴخُذُ مِن جَميع جوانِبہِ حَتیّٰ سَقَطَ اِلَی الارضِ وَعایَنَ الهَلاکَ ، فاخبَر الحاکمُ بِذلِکَ فَاَمَرَ بقَتلِہِ فَقالَ
الحاضِرُونُ انَّہُ شَيخ کبيرٌ وَقَد حَصَلَ لَہُ ما یَکفيہ وَهُوَ مَيتٌ لِما بِہِ فاترکُہُ وَهُو یموتُ حَتفَ انفِہِ وَلا
تَتَقَلّد بِدمِہِ ، وَبالَغوا فی لٰذِکَ حَت یٰ امَرَ بتخليتہ وَقَد انتفَخ وَجهُہُ وَلِسانُہُ فَنَقَلَہُ اهلُہُ فی الموتِ وَلَم
یَشُکَّ اَحدُ انَّہ یمُوتُ مِن لَيلَةِ
فَلَما کانَ مِنَ الغَدِ غَدا عَلَيہِ النّاسُ فَاِذا هُوَ قائِمٌ یُصلّی عَل یٰ اتَمِ حالَةٍ وَقَد عادَت ثَنایاہُ الَتی
سَقَطَت کَما کانَت وَاندَمَلت جَراحاتہُ وَلَم یبَق لَهَا اثَرٌ والشَّجَّةُ قَد زالَت من وَجهِہِ ، فَعَجب النّاس
لِسانٌ اٴسالُ اللّٰہ تَعالیٰ بِہِ، مِن حالِہِ وَ سائلوُہُ عَن امرِہِ فَقالَ انّی لَمّا عاینتُ المَوتَ وَلَم یبق لی
فکنت اٴساٴلہ بقلبی واستغثتُ اِلی سَيِّدی وَمَولایَ صاحِب الزَّمانِ عليہ السلام
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیّ الَّليلُ فَاِذاً بَالدّارِ قَد امتَْلاٴت نوُراً وَ اِذاً بمولایَ صاحِبِ الزمانِ قَد امَرَّ یَدَہُ
الشرَیف عَل یٰ وَجهی وَقالَ الی اخُرجُ وَکَدِّا عَل یٰ عَيالِکَ عافاکَ اللہّٰ تَعال یٰ فاصحبتُ کَما تَرون
وَحَکَی الشيخ شَمس الدّین محمَّد بن قارُونَ المذکُور قالَ واقسِمُ بِاللّٰہ تَعالیٰ اِنَّ هذا ابو
راجح کانَ ضعيفاً جِداً ضَعيف الترکيبِ اَصفَر اللون شينَ الوَجہ مُقَرِضَ اللحيَةِ وَکُنتُ دائِماً ادخُلُ
الْحمامَ الَّذی هُوَ فيہِ وَکُنتُ دائِماً اٴراہُ عَلیٰ هذِہِ الحالَة وَهذا الشَّکلِ فَلمَّا اصبَحتُ کُنتُ مِمَّن دَخَلَ
عَلَيہِ فَراٴیتُہُ قَدِ اشتَدّت قوَّتہُ وَانتَصَبت قامَتُہُ وطالَت لحيتُہُ وَاحمّرِ وجهہُ وَعاد کاٴنَّہُ ابِن عِشرین
) سَنة وَلَم یزَل عَل یٰ ذلِکَ حَتّ یٰ ادرَکَہُ الوفاة ” ( ١
بحار ميں سيد علی ابن عبد الحميد سے جنہوں نے اپنی کتاب “السلطان المفرّج عن
اهل الایمان” ميں ان لوگوں کا تذکرہ کيا ہے کہ جن افراد نے حضرت قائم سے ملاقات کی ہے
چنانچہ وہ تحریر کرتے ہيں: وہ واقعہ جو تمام شہروں ميں سب سے زیادہ مشہور و معروف ہوا
ہے اور لوگوں نے ان کو اپنی آنکهوں سے دیکها ہے وہ حلّہ ميں ابو راجح حمامی کا واقعہ ہے
جسے وہاں کے علماء و افاضل کی ایک جماعت نے بيان کيا ہے، منجملہ ان افاضل ميں سے
ایک فاضل، زاہد، عابد محقق شمس الدین محمد ابن قارون حفظہ الله تعالیٰ بهی ہيں ان کا بيان
ہے کہ حلّہ ميں ایک حاکم تها جس کو لوگ مرجان صغير کے نام سے یاد کرتے تهے اس کو
لوگوں نے بتایا کہ یہ ابو راجح، صحابہ پر لعنت کرتا ہے اور گالی دیتا ہے چنانچہ راجح کو پکڑ کر
لایا گيا اور حکم دیا کہ جتنا زیادہ ہوسکے شدید طور پر اس کو مارو تاکہ وہ مرجائے تو یہ حکم
عملی شکل ميں تبدیل ہوا لوگوں نے اس کو اتنی شدید ضرب لگائی کہ اس کے سامنے کے
دانت تک توڑ کر گرا دیے اس کی زبان کهينچ لی گئی اس کی ناک ميں سوراخ کرکے اس ميں
ایک بال کی رسی باندهی گئی اور اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے حوالے کيا اور حکم دیا کہ
اس کو حلّہ کی گليوں ميں پهراؤ اور ہر طرف سے جتنا ہوسکے اس کو زد وکوب کرو۔ چنانچہ
ویسا ہی ہوا اور وہ مار کهاتے کهاتے مرنے کے نزدیک پہنچ گيا حاکم کو اطلاع دی گئی تو اس
نے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔
دربار کے حاضرین نے حاکم سے کہا: یہ ایک بوڑها آدمی ہے اس کے خودبخود مرنے کے
ليے وہی کافی ہے جو اتنی زیادہ اس کو مار پڑی ہے اب اسے چهوڑ دیجيے، یہ خود اپنی موت
مرجائے گا آپ اس کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ بحار الانوار، ج ۵٢ ، ص ٧٠ ۔ (
خون اپنی گردن پر کيوں ليتے ہيں۔ جب لوگوں نے بہت زیادہ اصرار کيا تو حکم دیا کہ اسے چهوڑ
دو اس کا منہ ورم کر گيا ہے اور زبان بهی سوج چکی ہے۔ چنانچہ اس کو اس کے گهر والوں کے
پاس منتقل کيا اور اس کے اہل خانہ اس کے اسی رات مرنے ميں کسی طرح کا شک و شبہ
نہيں رکهتے تهے۔
دوسرے دن جب صبح ہوئی لوگ اسے دیکهنے کے ليے احوال پرسی کی غرض سے
آئے تو دیکها کہ وہ بالکل صحت مند ہے اور کهڑے ہوکر نماز پڑه رہا ہے اس کے دانت جو توڑ دیے
گئے تهے سب بعينہ اس کے منہ ميں موجود ہيں اس کے جسم کی تمام جراحت اور منہ کے
زخم اس طرح مندمل ہوچکے تهے کہ گویا اسے چوٹ کی کوئی تکليف تهی ہی نہيں اور زخم
کے نشانات بهی نہيں تهے۔ یہ دیکه کر لوگوں کو بڑا تعجب ہوا اور اس سے دریافت کيا کہ یہ کيا
ماجرا ہے؟
اس نے جواب دیا: ميں موت کو اپنی آنکهوں کے سامنے دیکه رہا تها زبان تو گویا تهی ہی
نہيں جس سے دعا کرتا، لہٰذا ميں نے دل ہی دل ميں الله تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے آقا و مولا
سے فریاد کی، جب شب کا کافی حصہ گزر گيا تو ناگہاں ميں نے دیکها کہ تمام گهر روشنی
سے منور ہوگيا ہے اور ميرے سيد و سردار حضرت صاحب الزمان - تشریف لائے ہيں اور اپنا
دست مبارک ميرے چہرے پر مس کر رہے ہيں اور یہ فرما رہے ہيں: اب اڻه جاؤ اپنے اہل و عيال
کے پاس جاؤ اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرو الله تعالیٰ نے تمہيں صحت و عافيت عطا کی
پهر صبح ہوئی اور ميں ایسا صحت مند اڻها کہ جس طرح تم لوگ دیکه رہے ہو۔
شمس الدین محمد ابن قارون مذکور کا بيان ہے کہ: خدا کی قسم! یہ راجح بہت ضعيف،
نحيف و لاغر، زرد رنگ بدصورت تها اور اس کی چهوڻی سی داڑهی تهی، ميں ہميشہ اس حمام
ميں جاتا کرتا جس ميں وہ موجود ہوا کرتاتها اور ميں ہميشہ اس کو اسی حالت ميں پاتا تها،
مگر اس دن صبح کو جب ميں دوسرے لوگوں کے ساته پہنچا تو دیکها کہ اس کا جسم مضبوط،
اعضاء و جوارح توانا وقدرت مند اور قدو قامت طولانی ہے اور داڑهی پہلے سے بڑی ہے اور چہرہ
سرخی مائل ہے معلوم ہوتا تها کہ وہ بيس سال کا نوجوان ہے پهر وہ مرتے دم تک اسی حالت
ميں رہا۔
٧١ ۔ “وفی ینابيع المودة عَنِ المنَاقِبِ عَن عَلیّ بن مُوسیٰ الرّضا عَن آبائِہِ عَن رَسُول اللّٰہِ
(ص) فی حَدیثٍ طویلٍ ذکَرَ فيہِ فضلَهُم وَشيئاً مِن حَدیثِ المِعراجِ اِ لٰ ی ان قالَ فقُلتُ : یا رَبّی وَمَن
اوَصِيآئی ؟ فنودیتُ یا محمَّد اوصيآئکَ المکتوبُونَ عَلی سُرادِق عَرشی ، فَنَظَرت فَراٴیَتُ اثنی عَشَرَ
نوراً وفی کُلّ نُورٍ سترٌ اخضَر عَلَيہ اسِمُ وَصِیِّ مِن اوصيآئی ، اوَّلُهُم عَلِیّ وآخِرهُمُ المهَدی ، فَقُلتُ :
یا رَبِّ هوٴلائی اوصِيآئی مِن بَعدی؟ فَنودیتُ یا محمَّد : هوٴ لاء اوليائی واحِبّائی واصِفيائی وَحُجَجی
بَعدَکَ عَل یٰ بَرّیتی، وَهُم اوصِيآئکَ وَعِزَّتِی وَجَلالی لاُ طَهِّرَنَّ الاٴرضَ بآخِرِهِم المَهدی مِنَ الظُلمِ وَلاٴ
مِکَّننّہُ مَشارِقَ الارضِ وَمَغارِبَها وَلا سَخِّرنَّ لَہُ الرِّیاح وَ لاٴذَلِلَّن لَہُ السَّحابَ وَلاٴ رقينَّہُ فی الاٴسبابِ
وَلاٴ نصِرَنَّہُ بجندی وَلاُ مِدنَّہُ بملائکَتی حَتّی تَعلُوَ دَولَتی وَیجتمعَ الخَلقُ عَلَی توحيدی ، ثُمَّ لاُ دیمَنَّ
) مُلکَہُ وَلاُ اٰ دوِلَنَّ الایام بَينَ اوليآئی اِل یٰ یَومِْ القِ يٰمةِ ” ( ١
ینابيع المودة ميں مناقب سے حضرت علی ابن موسی الرضا - اپنے آبائے کرام سے ان
حضرات نے حضرت رسول اکرم (ص) سے ایک مفصل حدیث ميں کہ جس ميں ان کی فضيلت و
منقبت اور حدیث معراج کا بعض حصہ ذکر کيا ہے یہاں تک کہ فرمایا: ميں نے کہا: اے پروردگار!
ميرے اولياء کون ہيں؟ آواز آئی: اے محمد!تيرے اوصيا کے نام ميرے عرش کے سرورق پر لکهے
ہوئے ہيں ميں نے نظر کی تو بارہ انوار کو دیکها۔ ہر ایک نور کی سبز سطر ہے جس پر ميرے
اوصياء ميں سے ميرے وصی کا نام موجود ہے ان ميں اول علی ابن ابی طالب اور ان ميں آخری
مہدی - ہيں۔ ميں نے عرض کيا : اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ۴٨۶ ۔ (
پروردگار! ميرے بعد یہ ميرے اوصياء ہيں، آواز آئی اے محمد! یہ ميرے اولياء ہيں ، مجهے ميری
عزت اور جلال کی قسم! زمين کو ضرور ضرور ان کے آخری مہدی کے ذریعہ ظلم سے پاک کروں
گا ميں اس کو زمين کے مشرق و مغرب کا مالک بناؤں گا۔ پس اس کے ليے ہواؤں کو اس کا
فرماں بردار قرار دوں گا سخت بادلوں کی گردنيں اس کے ليے جهکادوں گا۔ ميں اس کو اسباب
ميں بلند کروں گا۔ ميں اس کی اپنے لشکر کے ذریعے مدد کروں گا اپنے فرشتوں سے اس کی
نصرت کروں گا۔ آخرکار ميری حکومت عروج پر پہنچے گی ميری تمام مخلوق ميری توحيد پر جمع
ہوجائے گی ميں اس کی سلطنت کو دوام بخشوں گا۔ بڑے دنوں کو اپنے اوليا کے درميان قيامت
کے روز گردش دوں گا۔
٧٢ ۔ مشہور و معروف اور معتبر دعا جس کو شيخ ابو عمر و عثمان ابن سعيد امام زمانہ -
کے پہلے نائب نے املا کرایا تها اور سيد ابن طاووس عليہ الرحمہ نے بهی حضرت کے زمانہٴ
غيبت ميں پڑهنے کی خصوصی تاکيد کی ہے اس کا آغاز یوں ہوتا ہے: اللهُّٰمَّ عَرِّفنی نَفَسَکَ ال یٰ
قولہ
”اللّٰهم عَجِّل فَرَجَہ وایِّدہُ بالنصر حَتّ یٰ لا تَدَعَ مِنهُْم دَیّاراً وَلا یبقَی لهُم آثاراً طَهِّر مِنهُْم
بِلادَکَ وَاشفِ منهُم صُدُور عِبادِکَ وَجَدّد بِہِ ما امتَح یٰ مِن دینِکَ واصلحُ بِہِ ما بُدِّلَ مِن حکمِکَ وَغُيِّرَ
مِن سنتکَ حَت یٰ یعُودَ دینُکُ بِہِ وَعَل یٰ یَدَیہِ غَضّاً جَدیداً صَحيحاً لا عِوَجَ فيہِ ولا بِدعةَ مَعَہُ حَتّ یٰ
تطفِیَّ بعدلِہِ ني اٰزنَ الکافِرینَ اللّهُمَّ واَحیِْ بوَليِّکَ القرآن وَاٴرِنا نورَہُ سَرمَداً لاليلَ فيہِ وَاٴحیِْ بِہِ
القُلُوب الميتة واشف بہ الصدور الوغرة واجمَع بِہِ الْاٴهوآءَ المختلفَةَ عَلَی الحَقّ وَاٴقِم بِہِ الحدوُدَ
) المُعَطَّلةَ والاٴحکامَ المهملَةَ حَتیٰ لا یبقی حَقٌ الاَّ ظهر ولا عَدلٌ الاَّ زَهَر۔”( ١
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ص ۴١۴ ، جمال الاسبوع، ص ٣١٢ ، بحار الانوار، ج ۵٣ ، ص ١٨٩ ۔ (
اے پروردگار! تو مجهے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما یہاں تک کہ فرمایا:
اے پروردگار! تو حضرت امام مہدی - کے ظہور ميں تعجيل فرما اور اپنی نصرت سے ان
کی تائيد فرم یہاں تک کہ ان کا کوئی گهر باقی نہ رہے اور ان کا نام و نشان تک نہ رہنے دے
اور ان سے اپنے شہروں کو پاک و پاکيزہ اور ان لوگوں کو برباد کرکے اپنے بندوں کے دلوں کو
شفا بخش اور حضرت - کے ذریعہ تيرے دین سے جو محو کر دیا گيا ہے اس کی تجدید فرما اور
تيرے احکام ميں جو تبدیلی کی گئی ہے اور تيری سنت ميں جو تفسير کی گئی ہے حضرت -
کے ذریعے ان سب کی اصلاح فرما یہاں تک کہ تيرا دین حضرت کے ذریعے جدید اور صحيح انداز
ميں پهر سے پلٹ آئے اس طرح کہ اس ميں نہ کوئی کجی ہو اور نہ اس کے ساته کوئی بدعت
واقع ہو یہاں تک کہ ان کے عدل و انصاف کی وجہ سے کافروں کی بهڑکائی ہوئی آگ بجه
جائے اے ميرے پروردگار! تو اپنے ولی کے ذریعے قرآن ميں تازہ روح پهونک ہميں اس کا وہ
سرمدی (ازلی و ابدی) نور دکها جس ميں ظلمت نام کی کوئی شے نہ ہو اور ان کے ذریعے
مردہ دلوں کو زندہ کر نيز ان کے ذریعے لوگوں کے دلوں کی آگ کو خاموش کر مزید یہ کہ لوگوں
کے مختلف خيالات کو حق پر جمع کردے اور ان کے ذریعے معطل حدود اور غير موٴثر کيے ہوئے
احکام کو پهر سے قائم کردے تاکہ کوئی حق بغير ظاہر ہوئے باقی نہ رہ جائے اور کوئی عدل
بغير نمایاں ہوئے نہ رہے۔
٧٣ ۔ اسی طرح دعا کے ان جملوں ميں کہ جسے سيد ابن طاووس رحمة الله عليہ نے
سرداب مقدس کے اعمال ميں اور شيخ نے مصباح ميں روز جمعہ کے اعمال ميں حضرت امام
رضا - سے نقل کيا ہے اور ضمنی طور پر یونس ابن عبد الرحمن نے بهی نقل کيا ہے کہ حضرت
امام رضا - نے حضرت صاحب الامر کے ليے اس دعا کے پڑهنے کا حکم دیا ہے: اللّهُمَّ ادفَع عَن
وِليِّکَ وَخَليفَتِکَ
اللّهُمَّ طَهِّر مِنهُم بِلادکَ واشفِ منهم عبادَکَ وَاَعزَّ بِہِ الموٴمنينَ وَاٴحیِْ بِہِ سنَنَ المُرسَلينَ
وَدارِسَ حُکم النّبيينَ وَجَدِّد بِہِ ما امتَحی مِن دینکَ وَبُدِّلَ مِن حکمِکَ حَت یٰ تعيد دینک بہ وَعَلی یَدَیہ
جَدیداً غَضّاً محضاً صحيحاً لا عِوَجَ فيہِ وَلا بِدعَةَ مَعَہُ ، وَحَت یٰ تُغيِّر بِعَدلِہِ ظُلَمَ الجورِ وَتُطفِیَ بہِ ني اٰرنَ
) الکُفرِ وَ توضِحَ بِہِ مَعاقد الحقِ وَمجهُولَ العَدلِ۔ ( ١
اے پروردگار! شہروں کو ان سے پاک و پاکيزہ کر، اور ان لوگوں کی نابودی کے ذریعہ اپنے
بندوں کے دلوں کو شفا بخش اور حضرت امام مہدی - کے ذریعہ مومنين کو عزت عطا فرما اور
پيغمبروں کی سنتوں کو اس کے ذریعہ احيا کر۔ اور حضرت - کے ذریعہ تيرے دین سے جو محو
کردیا گيا ہے اس کی تجدید فرما، اور اپنے احکام ميں تبدیلی لادے یہاں تک کہ اس کے ذریعہ
تيرا دین واپس آجائے اور حضرت کے ذریعے ان سب کی اصلاح فرما یہاں تک کہ تيرا دین خالص
ہوجائے اس ميں کوئی کجی اور بدعت نہ رہ جائے، تاکہ حضرت - کی عدالت کے ذریعہ تاریکياں
روشنائی ميں تبدیل ہوجائےں کافروں کی بهڑکائی ہوئی آگ خاموش ہوجائے اور حضرت کے
ذریعہ تمام مشکلات برطرف فرما نيز حق کی گرہيں کهول دے اور ان کی نامعلوم عدالت کو
لوگوں کے ليے آشکار فرما۔
٧۴ ۔ دعائے ندبہ ميں ہم پڑهتے ہيں: “اینَ بَقِيَّةُ اللہِّٰ الَّتی لا تخلُومِنَ العِترةِ الهادِیةِ ، اینَ
المُعَدُّ لقطع دابِرِ الظَّلَمةِ ، اینَ المُنْتَظَرُ لا قٰامةِ الاٴمتِ وَالعِوَجِ اینَ المرتجی لاِ زٰالةِ الجَور والعُدوٰانِ ،
اینَ المدّخُر لِتجدیدِ الفرایِضِ والسُّنَنَ“
وہ بقية الله کہاں ہے؟ جس سے ہدایت کرنے والی عترت پيغمبر سے دنيا خيال نہيں
ہوسکتی وہ کہاں ہے؟ جسے سلسلہٴ ظلم کو قطع کرنے کے ليے مہيا کيا گيا ہے وہ کہاں ہے؟
جس کا کجی او ر انحرافات کو درست کرنے کے ليے انتظار ہورہا ہے وہ کہاں ہے؟ جس سے
ظلم و تعدی کو زائل کرنے کی اميدیں وابستہ ہيں وہ کہاں ہے؟ جسے فرائض اور سنن کی
تجدید کے ليے ذخيرہ کيا گيا ہے۔
٧۵ ۔ وہ صلوات کہ جسے شيخ کفعمی نے کتاب مصباح ميں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہصلوات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ص ۴١٠ ، جمال الاسبوع، ص ٣٠٨ ، بحار الانوار، ج ٩٢ ، ص ٣٣١ ۔ (
صلواتحضرت صاحب الزمان - سے مروی ہے جو ابو الحسن ضرّاب اصفہانی کے ليے حضرت کے وجود
مقدس کی طرف سے مکہ ميں صادر ہوئی ہے اور اس کی سند کو مختصر طور پر ذکر کيا ہے۔
“بِسمِ اللّٰہِ الرحمٰنِ الرحيمِ اللّٰهُمَّ صَلّ عَلیٰ محمَّدٍ سيدِ المُرسَلينَ وخاتَم النبيينَ وحجة ربّ
العالمين ، الیٰ ان قال : اللهُم جَدِّد بہِ ما امتح یٰ مِن دینک واَحیِْ بِہِ ما بُدِّلَ مِن کِتابِک وَاٴظهِر بِہِ
ما غُيِّر مِن حُکمِکَ حَتّی یَعُودَ دینکَ بِہِ وَعَل یٰ یَدَیہِ غَضّاً جَدیداً خالصِاً مخلَصاً لا شَکَّ فيہِ وَلا شُبهة
) مَعَہُ ولا باطِلَ عِندَہُ وَلا بِدعَْةَ لَدَیہِ”( ١صلوات
عظيم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے: اے پروردگار! اپنا درود و سلام بهيج
محمد پر جو تمام رسولوں کے سردار خاتم النبين اور تمام عالمين پر پروردگار کی حجّت ہيں یہاں
تک کہ فرمایا: اے پروردگار! حضرت - کے ذریعہ جو تيرے دین سے محو ہوگيا ہے اس کی تجدید
فرما اور حضرت - کے ذریعہ جو کچه تيری کتاب ميں (تحریف کرنے والوں کی وجہ سے) تبدیلی
ہوئی ہے اس کا احياء فرما اور جو کچه تيرے حکم ميں ردّ و بدل کيا گيا ہے حضرت - کے ذریعہ
ظاہر فرما یہاں تک کہ تيرا دین واپس آجائے اور حضرت - کے دست مبارک سے وہ ایسا خالص
ہوجائے کہ اس ميں کبهی بهی کوئی شک و شبہ باقی نہ رہ جائے اور نہ ہی اس ميں کوئی
باطل یا بدعت باقی رہ جائے۔صلوات
روحی لہ الفداء و عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف وجعلنا وجميع الموٴمنين من اٴعوانہ
واٴنصارہ وشيعتہ آمين
ہماری جان ان پر قربان! اور خدا ان کے مبارک ظہور ميں تعجيل فرمائے اور ہميں اور تمام
مومنين کو ان کے اعوان و انصار اور ان کے شيعوں ميں قرار دے۔ آمين یارب العالمين ۔صلوات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مصباح المتهجد، ٢٠٨ ، دلائل الامامة، ص ۵۵١ ۔ (
|