قرآن اور آخری حجت
مشترکات قرآن اور حجت زمان
 

قرآن اور عترت کو ثقلين کہے جانے کی وجہ تسميہ:
اس کی وجہ تسميہ ميں مختلف نظریات پائے جاتے ہيں: لغت کے اعتبار سے “ثَقْلْ” ثاء پر زیر اور قاف پر سکون کے ساته، اکثر اوزان ميں سنگين چيز کے معنی ميں استعمال ہوتا ہے، قرآن مجيد اور اہل بيت پيغمبر (ص) کو اس اعتبار ے ثقلين کہا جاتا ہے چونکہ ان کا عمل سنگين ہے۔
ليکن “ثَقَل”ْ دونوں (ثاء اور قاف) پر زبر کے ساته گراں قدر چيز اور عمدہ سامان کے معنی ميں ہے قرآن اور عترت کو “ثَقَلَينْ” اس اعتبار سے کہا جاتا ہے چونکہ ان کی جلالت و منزلت عظيم اور گراں قدر ہے۔
ابن ابی الحدید کہتے ہيں: جب پيغمبر اکرم (ص) نے خود کو جوار رحمت پروردگار کی طرف انتقال ہونے کے قریب پایا جيسے ایک مسافر ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ہوتا ہے، تو کتاب خدا (قرآن) اور عترت کو اپنی متاعِ حيات اور جاہ و حشم کی جگہ قرار دیا اس ليے کہ وہ آنحضرت (ص) کی مخصوص ترین اشياء تهيں اسی ليے امت کو ان کی سفارش اور وصيت کی۔
صاحب منهاج البراعة کہتے ہيں: اظہر یہ ہے کہ “ثقل” عمدہ سامان کا معنی کيا جائے کيونکہ جلالت و منزلت کے لحاظ سے عظيم اور گراں قدر ہے۔ یہاں مناسب یہ ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات ميں سے ایک خطبہ کی طرف اشارہ کيا جائے وہ خطبہ جس کا آغاز اس عبارت سے ہوتا ہے: ٢١ ۔ “عِ اٰبدَ اللہِّٰ اِنَّ مِن اَحَبِّ عِ اٰبدَ اللہِّٰ اِلَيہِْ عَبدٌْ اَ عٰانہَ اللہُّٰ عَ لٰی نَفسِْہِ ․․․” “بندگان خدا ! الله کی نگاہ ميں سب سے محبوب بندہ وہ ہے جس کی خدا نے اس کے نفس کے خلاف مدد کی ہے ․․․” خطبہ کے آخری حصے ميں رسول اکرم (ص) کے قول پر عمل کرنے کی لوگوں کو یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا: ”اِنَّہُ یَموْتُ مَن اٰ متَ مِنّا وَلَيسَْ بِمَيِّتٍ ( ١) وَیَب لٰی مَن بَلِیَ مِنّا وَلَيسَْ بِ اٰبل“ٍ ”فَ لاٰ تَقُولُوا بِ مٰا لاٰ تَعرِْفُونَ ، فَاِنَّ اَکثَْرَ الحَْقِّ فيِ مٰا تُنکِْرُونَ وَاَعذِْرُوا مَنَ لاٰ حُجَّةَ لَکُم عَلَيہِْ وَاَنَا هُوَ․“ کُم بِالثَّقَلِ الاْکبَْرِ وَاٴَترُْک فيِکُمُ الثَّقَلَ الاَْصغَْرِ ، قَد رَکَزتُْ فيِکُم اٰریَةَ الاِی مٰانِ ”اٴَلَم اَعمَْل فی ) وَوَقَفتُْکُم عَ لٰی حُدُودِ الحَْ لاٰلِ وَالحَْ اٰرمِ ”․ ( ٢
یعنی “اے لوگو! پيغمبر خاتم النبين (ص) کے اس قول کو ان کی اولاد طاہرین کے بارے ميں قبول کرو، کيا گمان کرتے ہو کہ ہمارا مرنے والا ميت ہوتا ہے حالانکہ ہم ميں سے کوئی مرور زمانہ سے مردہ نہيں ہوتا اور اس طرح کيا خيال کرتے ہو کہ ہم ميں سے جانے والا بوسيدہ ہوجاتا ہے حالانکہ ہم ميں سے کوئی بهی مرور زمانہ سے بوسيدہ نہيں ہوتا”۔ ”اے لوگو! جو تم نہيں جانتے ہو وہ نہ کہو، اس ليے کہ بسا اوقات حق اسی ميں ہوتا ہے جسے تم نہيں پہچانتے ہو اور جس کے خلاف تمہارے پاس کوئی دليل نہيں ہے، لہٰذا اس کے عذر کو قبول کرلو اور اس کی مذمت نہ کرو جس کے بارے ميں تمہيں کوئی دليل نہ ملی ہو۔ اور وہ ميں ہوں، ميں نے تمہيں راہ راست
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ آیہٴ کریمہ< وَلاَتَحسَْبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِيلِ اللهِ اٴَموَْاتًا بَل اٴَحيَْاءٌ عِندَْ رَبِّہِم یُرزَْقُونَ >کی ( طرف اشارہ ہے۔ “اور خبردار راہ خدا ميں قتل ہونے والوں کو مردہ خيال نہ کرنا وہ زندہ ہيں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہيں۔ آل عمران، ١۶٩
٢(۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ٨٧ ۔ (
کی طرف ہدایت کی اور ميں نے تمہارے ليے عذر کی کوئی راہ نہيں چهوڑی ليکن تم نے ميری پيروی نہيں کی۔ کيا ميں نے تمہارے درميان ثقل اکبر (قرآن مجيد) پر عمل نہيں کيا ہے اور کيا ثقل اصغر اپنے اہل بيت کو تمہارے درميان نہيں رکها ہے، ميں نے تمہارے درميان ایمان کے پرچم کو نصب کردیا ہے اور تمہيں حلال و حرام کے حدود سے آگاہ کردیا ہے ”۔ شيعہ اماميہ کے اعتقاد کے مطابق عترت قرآن سے افضل ہے، اور وہ لوگ قرآن کے محافظ و سرپرست ہيں ليکن قرآن کا اکبر ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن اصل ہے اور ) تمام لوگ اس کی پيروی اور اقتدا کرتے ہيں ۔ ( ١
علامہ خوئی رحمة الله عليہ شارح نہج البلاغہ رقم طراز ہيں: “عترت بهی اصل ہے اور اس کی تمام لوگ پيروی اور اقتدا کرتے ہيں”۔
اور یہ احتمال بهی پایا جاتا ہے کہ قرآن کا اکبر سے متصف ہونا اس جہت سے ہے کہ معجزہ رسالت اور رسالت و ولایت کی سند شرع مبين اور دین اسلام کی اصل و اساس ہے اگر قرآن نہ ہوتا تو نہ رسالت ہوتی نہ ہی شریعت اور ولایت، نہ ہی امن و ایمان ثابت ہوتا لہٰذا بڑے ہونے سے قرآن توصيف کيا گيا ہے۔
ممکن ہے کہ عظيم صحابی (ابو سعيد خدری) کی روایت سے بهی اس بات کا استظہار کيا جائے وہ بيان کرتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: کُمُ الثَّقَلَينْ اَحَدُهُ مٰا اَکبَْرُ مِنَ الآْخَرِ کِ اٰتبَ اللہِّٰ حَبلٌْ مَمدُْودٌ مِنَ السَّ مٰآءِ ٢٢ ۔ “ اِنِّي تٰارکٌ فی ) اِلَی الاَْرضِْ وَعِترَْتی اَهلَْ بَيتْی ، لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ”: ( ٢ ”یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑ کر جارہا ہوں ان ميں سے ایک، دوسر ی سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ شرح نہج البلاغہ ابن ميثم، ج ٢، ص ٣٠٣ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ۴۶٠ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٣١۴ ۔ (
بڑی ہے، (جو بڑی ہے) وہ کتاب خدا قرآن مجيد ہے جو ایسی رسی ہے کہ زمين سے آسمان تک کهنچی ہوئی ہے (اور جو چهوڻی ہے) ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں۔ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہيں ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے”۔ اس سے زیادہ واضح امام محمد باقر - کی روایت ہے جسے جابر ابن عبد الله نے بيان کيا ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا :
کُمُ الثَّقَلَينِْ ، الثَّقَلُ اَلاَْکبَْر وَالثَّقَلُ الاَْصغَْر، اِن تَمسَّکتُْم ٢٣ ۔ “یٰا اَیُّهَا النّٰاسُ اِنّی تٰارِکٌ فی رَ لاٰ یَفتَْرِ اٰقنِ حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ فَ الخَْبی بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا وَلَن تُبَدِّلوُا ، فَاِنّی سَاٴَلتُْ اللہَّٰ اللَّطی تُ․“ الحَْوضَْ فَاُعطْی
لَ : فَمَا الثَّقَلُ الاْکبَْرُ وَمَا الثَّقَلُ الاْٴصَغَرُ ؟ فَ اٰ قلَ: اَلثَّقَلُ الاَْکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ ، ”فَقی ) کُم وَالثَّقَلُ الاْٴصغَْرُ عِترَْتي اَهلُْ بَيتْي ” : ( ١ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ وَطَرَفٌ بِاَیدْی ”اے لوگو! یقينا ميں تمہارے درميان دو گراں قدر امانتيں چهوڑ رہا ہوں، جب بهی ان سے متمسک رہو گے اور مضبوطی سے پکڑے رہو گے، گمراہ نہ ہوگے اور ان کو دوسری چيز سے تبدیل نہ کرو لہٰذا ميں نے مہربان خدائے لطيف و خيبر سے درخواست کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں ، پس خداوند متعال نے مجهے عطا فرمایا”۔
سوال کيا گيا: وہ بڑی امانت کون سی ہے اور چهوڻی امانت کيا ہے؟ فرمایا: “بڑی امانت کتاب خدا قرآن مجيد ہے جو ایسا وسيلہ ہے کہ اس کا ایک سرا خداوند متعال کے دست قدرت ميں ہے اور دوسرا سرا تم لوگوں کے ہاته ميں ہے اور چهوڻی امانت ميری عترت اور ميرے اہل بيت ہيں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔مختصر البصائر، ص ٩٠ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٣٣٩ ۔ (
٢۴ ۔ جو کچه تفسير علی ابن ابراہيم قمی ميں انہوں نے اپنے باپ سے، صفوا ن ابن یحيیٰ سے، ابی جارود سے، عمران ابن ميثم سے، مالک ابن حمزہ سے انہوں نے ابوذر سے روایت کی ہے، وہ جابر کی روایت کی مزید وضاحت بيان کرتی ہے۔ ابوذر کہتے ہيں: جب آیت <یَومَْ تَبيَضُّ وُجُوہٌ وَ تَسوَْدُّ وُجُوہٌ> ( ١) “قيامت کے دن جب بعض چہرے سفيد ہوں گے اور بعض چہرے سياہ ہوں گے” نازل ہوئی تو پيغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :
”تَرِدُ عَلَیَّ اُمَّتي یَومَْ القِْ اٰيمَةِ عَل یٰ خَمسِْ اٰراٰیتٍ: فَ اٰریَةٌ مَعَ عِجلِْ هٰذِہِ الاُْمَّةِ فَاَساْٴلُْهُم اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن بَعدِْی ؟ فَيَقُولُونَ اَمّا الاْکبَْرُ فَحَرَّف اْٰنہُ وَ نَبَذ اْٰنہُ وَ آٰرء ظُهُورِ اٰن ، وَاَمَّا الاَْصغَْرُ فَ اٰ عدَی اْٰنہُ وَاَبغَْض اْٰنہُ وَظَلَم اْٰنہُ ، فَاَقُولُ: رُدُّوا اِلَی الناٰرِّ ضَمآْءَ نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ مُضِمِئی ثّمَُ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ مَعَ فِرعَْونِْ هٰذِہِ الاُْمَّةِ فَاَقُولُ لَهُم : اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ ، مِن بعدْی؟ فَيَقُولُونَ : اَمَّا الاْکبَْرُ فَحرَّف اْٰنہُ وَمَزَّق اْٰن ہُ وَ خٰالَف اْٰنہُ، وَاَمَّا الاَْصغَْرُ فَ اٰ عدَی اْٰنہُ وَ اٰقتَل اْٰنہُ ، فَاَقُولُ رُدُّوا نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ اِلَی الناٰرّ ضَمآْءَ مُضمِْئی ثُمَّ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ مَعَ سٰامِرِیِّ هٰذِہِ الاُْمَّةِ فَاَقُولُ لَهُم : اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن بَعدِْي ؟ فَيَقُولُونَ : اَمَّا الاْکبَْرُ فَعَصَي اْٰنہُ وَ تَرَک اْٰنہُ وَاَمَّا الٴَاصغَْرُ فَخَذَل اْٰنہُ وَضَيَّع اْٰنہُ فَاَقُولُ رُدُّوا اِلَی النَّارِ نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ ضَمآْءَ مُضمِْئی ثُمَّ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ ذِی الثَّدیَةِ مَعَ اَوَّلَ الخَْ اٰورِجِ وَآخِرِهِم وَاَسئَْلُهُم اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن فَيَقُولُونَ اَمَّا الاْکبَْر فَمَزَق اْٰنہُ وَ بَرِئ اْٰن مِنہُْ وَاَمَّا الاٴَصغَْرُ فَ اٰ قتَل اْٰنہُ وَ بَعدْی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔سورہ آل عمران، آیت ١٠۶ ۔ (
نَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُکُم․ْ قَتَل اْٰنہُ فَاَقوْلُ رُدُّوا اِلَی الناٰرِّ ضَمآْءَ مُضمِْئی نَ وَوَصِیِّ نَ وَ اٰقئِدِ الغُْرِّ المُْحَجَّلی نَ وَ سَيِّدِ المُْسلِْمی ثُمَّ تَرِدُ عَلَیَّ اٰریَةٌ مَعَ اِ اٰ ممِ المُْتَّقی نَ ، فَاَقُولُ لَهُم اٰ م فَعَلتُْم بِالثَّقَلَينِْ مِن بَعدِْی ؟ رَسُولِ رَبِّ ال اْٰ علَمی فَيَقُولُونَ: اَمَّا الاْکبَْرُ فَاتَّبَع اْٰنہُ وَاَطَع اْٰنہُ ، وَاَمَّا الاَْصغَْرُ فَاَحبَْب اْٰنہُ و اٰولَي اْٰنہُ وَزُر اْٰنہُ وَ نَصَر اْٰنہُ حَتّ یٰ نَ مُبيَْضَّةً وُجُوهَکُم․ْ هِم دِ اٰ مئُنا ، فَاَقُولُ رُدُّوا اِلَی الجَْنَّةِ رَوآٰءَّ مَروِْیّی قَتْ فی اُهْری ثُمَّ تَلیٰ رَسُولُ اللّٰہِ (ص) < یَومَْ تَبيَْضُّ وُجُوہٌ وَتَسوَْدُّ وُجُوہٌ فَاٴَمَّا الَّذِینَ اسوَْدَّت وُجُوہُہُم اٴَکَفَرتُْم بَعدَْ إِیمَانِکُم فَذُوقُوا العَْذَابَ بِمَا کُنتُْم تَکفُْرُونَ وَاٴَمَّا الَّذِینَ ابيَْضَّت وُجُوہُہُم فَفِی رَحمَْةِ اللهِ ہُم ) فِيہَا خَالِدُونَ >” ․ ( ١
جب سورئہ آل عمران کی آیت نمبر ١٠۶ نازل ہوئی تو حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
ميری امت بروز محشر پانچ علم لے کر ميرے پاس پہنچے گی : ١ (پہلا عَلم ميری اس امت کے گوسالہ (بچهڑے) کا ہوگا ان سے دو گراں قدر امانتوں کے بارے ميں سوال کروں گا؟ تو وہ کہيں گے: ليکن جوان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اس کی ہم نے تحریف کی تهی اور اس کو پس پشت ڈال دیا تها (اس پر عمل نہيں کيا) ليکن جو چهوڻی امانت عترت تهی اس کو اپنی دشمنی اور بغض و حسد کا نشانہ بنایا اور اس پر ظلم و ستم کيا تها، لہٰذا ميں کہوں گا : روسياہ اور پياسے ہوکر جہنم کی طرف چلے جاؤ۔ ٢ (پهر ميرے پاس ميری اس امت کے فرعون کا دوسرا علم وارد ہوگا، پهر ان سے دو گراں قدر امانت کے بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے ميرے بعد ان کے ساته کيسا سلوک کيا؟ تو وہ کہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔تفسير قمی، ج ١، ص ١٠٩ ، تفسير برہان، ج ١، ص ۴٧۴ ، غایة المرام، ج ٢، ص ٣۴۶ ۔ (
گے: ليکن جو ان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اسے ہم نے بدل ڈالا اور اسے ڻکڑے ڻکڑے کرکے اس کے برخلاف عمل کيا، ليکن جو چهوڻی امانت عترت تهی اس سے لڑائی اور دشمنی کی تهی، تو ميں ان سے کہوں گا: روسياہ اور نہایت تشنگی کے عالم ميں جہنم کی طرف چلے جاؤ۔
٣ (اس کے بعد ميرے پاس ميری اس امت کے سامری کا تيسرا علم وارد ہوگا، پهر ميں ان سے سوال کروں گا کہ تم نے ان دونوں گراں قدر امانتوں کے ساته کيا سلوک کيا؟ وہ لوگ کہيں گے: ليکن جوان ميں سے بڑی امانت (قرآن) تهی اس کی نافرمانی کی تهی اسے پس پشت ڈال دیا تها اسے چهوڑ دیا تها اور جو چهوڻی امانت (عترت) تهی اس کو ذليل و رسوا کيا تها اسے ضایع کردیا تها پهر انہيں بهی روسياہ اور تشنگی کے عالم ميں جہنم کی طرف بهيجوں گا۔
۴ (اس کے بعد ميرے پاس اس امت کا چوتها علم تمام خوارج کی ہمراہی ميں وارد ہوگا ان ميں اول سے آخر تک کی ہر ایک فرد سے دریافت کروں گا: تم نے ميرے بعد ان دو گراں قدر امانتوں کے ساته کيسا سلوک کيا؟ وہ کہيں گے: ليکن جو ان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اس کو ڻکڑے ڻکڑے کيا اس سے بيزار ہوگئے تهے کنارہ کشی کی تهی ليکن ان ميں سے جو چهوڻی امانت (عترت) تهی ان سے لڑے اور ان سب کو قتل کيا تها پهر انہيں بهی روسياہی اور تشنگی کے عالم ميں جہنم کی طرف بهيجوں گا۔
۵ (پهر (سب سے آخر ميں) امام المتقين، سيد الوصيين قائد غرّ المحجلين حضرت علی ابن ابی طالب- کا پرچم وارد ہوگا، پهر ان سے بهی سوال کروں گا کہ ميرے بعد ان دونوں گراں قدر امانتوں کے ساته کيسا سلوک کيا؟ وہ کہيں گے: ليکن جو ان ميں سے بڑی امانت کتاب خدا تهی اس کی پيروی کی اور اس کے احکام پر عمل کيا اس کی اطاعت کی تهی ليکن جو ان ميں سے چهوڻی امانت (عترت) تهی ان سے محبت کرتے تهے ان کو اپنا سرپرست قرار دیا، ان کی زیارت کی ان کی نصرت و مدد کی یہاں تک کہ ہم نے اپنے خون کا آخری قطرہ ان کی نصرت ميں قربان کردیا تها، پهر ميں ان سے کہوں گا:حوض کوثر سے سيراب ہوکر نورانی اور سفيد چہروں کے ساته جنت ميں چلے جاؤ۔
اس کے بعد حضرت رسول اکرم (ص) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی: “قيامت کے دن بعض چہرے سفيد اور نورانی ہوں گے”۔
ان روایات سے نتيجہ اخذ ہوتا ہے کہ :ریسمان الٰہی سے متمسک رہنا خواہ وہ قرآن مجيد ہو یا اہل بيت عصمت و طہارت عليہم السلام ہوں اختلافات رفع کرنے کے ليے بہت قوی عامل ہيں جو دنيا ميں ملتوں کے درميان اور امتوں کے مابين مادی، معنوی، اعتقادی، اخلاقی دنيا اور آخرت کے متعلق رونما ہوتے ہيں۔ اب اس سلسلے ميں چند آیات کی طرف اشارہ کرتے ہيں :
١ > (وَمَا اٴَنزَلنَْا عَلَيکَْ الکِْتَابَ إِلاَّ لِتُبَيِّنَ لَہُم الَّذِی اختَْلَفُوا فِيہِ وَہُدًی وَرَحمَْةً لِقَومٍْ یُؤمِْنُونَ > : )١)
”اور ہم نے آپ پر کتاب (قرآن کریم) صرف اس ليے نازل کی ہے کہ آپ ان مسائل کی وضاحت کردیں جن ميں یہ اختلاف کيے ہوئے ہيں (وہ امور جو مبداٴ و معاد، حلال و حرام سے مربوط ہيں) اور یہ کتاب صاحبان ایمان کے ليے مجسمہ ہدایت اور رحمت ہے”۔ ٢> (وَکَيفَْ تَکفُْرُونَ وَاٴَنتُْم تُتلَْی عَلَيکُْم آیَاتُ اللهِ وَفِيکُم رَسُولُہُ وَمَن یَعتَْصِم بِاللهِ فَقَد ہُدِیَ ) إِلَی صِرَاطٍ مُستَْقِيمٍ> : ( ٢
”اور تم لوگ کس طرح کافر ہوجاؤ گے جب کہ تمہارے سامنے آیات الٰہيہ کی تلاوت ہورہی ہے اور تمہارے درميان رسول (پيغمبر اکرم (ص)) موجود ہے اور جو خدا سے وابستہ ہوجائے سمجهو کہ اسے سيدهے راستہ کی ہدایت کردی گئی”۔ انکار اور اظہار تعجب ان کے کفر کی وجہ سے ہے حالانکہ ان کے ليے تمام مقتضی ایمان کے اسباب اور کفر کے مواقع جمع ہوگئے تهے۔ خداوند متعال کی آیات اور نشانياں الله کی معرفت کے ليے قوی ترین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔سورہ نحل، آیت ۶۴ ۔ (
٢(۔سورہ آل عمران، آیت ١٠١ ۔ (
عامل ہے، اس کے علاوہ پيغمبر اکرم (ص) کا مقدس وجود جو تمام کا تمام نور اور ہدایت کا حامل ہے ان کے درميان موجود تها، اس بنا پر جو شخص ان کے دین سے متمسک ہو اور تمام امور ميں ان سے التجا کرے تو یقينا وہ راہ راست کی طرف ہدایت پاگيا ہے۔ جملہٴ < وَاٴَنتُْم تُتلَْی عَلَيکُْم آیَاتُ اللهِ وَفِيکُم رَسُولُہُ>اس بات کو گوش گزار کر رہا ہے کہ تمہيں کتاب الٰہی کی تلاوت اور اس ميں تدبر و تفکر کی طاقت موجود تهی اور ان امور ميں جو تم پر مخفی تهے رسول خدا کی طرف رجوع کرنے یا ان امور ميں بهی جو یہودی لوگ تمہيں یاد دلاتے تهے،
اور <صراط مستقيم> سے مراد: وہی راستہ ہے کہ جس ميں اختلاف نہيں ہے اور نہ ہی ) اختلاف ہوسکتا ہے اور اس وادی پر چلنے والے افراد کبهی بهی گمراہ نہيں ہوں گے۔ ( ١ ٣> (وَلَقَد آتَينَْا مُوسَی الکِْتَابَ فَاختُْلِفَ فِيہِ وَلَولْاَکَلِمَةٌ سَبَقَت مِن رَبِّکَ لَقُضِیَ بَينَْہُم وَإِنَّہُم ) لَفِی شَکٍّ مِنہُْ مُرِیبٍ > ( ٢ ”اور یقينا ہم نے موسی کو کتاب دی تو اس ميں بهی اختلاف پيدا کردیا گيا اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے پہلے بات نہ ہوگئی ہوتی تو ان کے درميان فيصلہ کردیا جاتا اور یہ لوگ اس عذاب کی طرف سے شک ميں پڑے ہوئے ہيں”۔
جملہ ولقد آتينا موسی الکتاب: یعنی: جس وقت ہم نے حضرت موسیٰ - کو کتاب (توریت) دی تو ان کی قوم کے درميان اختلاف ہوگيا تها، بعض ایمان لائے اور بعض نے کفر اختيار کيا، جس طرح ان لوگوں نے قرآن ميں بهی اختلاف ایجاد کيا۔
٢۵ ۔ روضہ کافی ميں امام محمد باقر -سے روایت ہوئی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔تفسير الميزان، ج ٣، ص ٣۶۵ ۔ (
٢(۔ سورئہ ہود، آیت ١١٠ ۔ (
”اِختَْلَفُوا کَمَا اختَْلَفَ هٰذِہِ الاُْمَّةُ فی الکِْ اٰتبِ وَسَيَختَْلِفُونَ فی الکِْ اٰتبِ الَّذی مَع ال اْٰ قئِمِ عليہ هِم بِہِ حَتّ یٰ یُنکِْرُہُ اٰنسٌ مِنهُْم فَيُقَدِّمُهُم فَيَضرِْبُ اَع اْٰنقَهُم:ْ “ لسلام الَّذی یَاٴتی
) ”یہودیوں نے)اختلاف کيا جس طرح اس امت نے کتاب “قرآن” ميں اختلاف کيا اور عنقریب اس قرآن ميں بهی اختلاف کریں گے جب حضرت قائم آل محمد - اسے لے کر آئيں گے، یہاں تک کہ اس کا بعض لوگ انکار کریں گے پهر حضرت (اتمام حجّت کے بعد) ان کی گردنوں کو کاٹ دیں گے”۔
آیہٴ کریمہ کے اس فقرہ ميں موسی - کے بعد توریت ميں یہودیوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کيا گيا ہے۔ قرآن کریم ميں الله تبارک وتعالیٰ نے لوگوں کے دنيوی امور ميں اختلاف کو متعدد مرتبہ ذکر کيا ہے جو ایک فطری امر ہے ليکن ان کا اختلاف جو ظلم اور تجاوز کے علاوہ ہے وہ بهی علم و یقين کی وجہ سے تها اس کا کوئی منشا نہيں پایا جاتا، الله تعالیٰ فرماتا ہے: <وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلاَّ اٴُمَّةً وَاحِدَةً فَاختَْلَفُوا> ( ١) (سارے انسان فطرتاً ایک امت تهے پهر سب آپس ميں الگ الگ ہوگئے)۔ فرماتا ہے: <وَمَا اختَْلَفَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِْتَابَ إِلاَّ مِن بَعدِْ مَا جَائَہُمُ العِْلمُْ بَغيًْا بَينَْہُم > ٢) (اور اہل کتاب نے علم آنے کے بعد ہی جهگڑا شروع کيا ہے صرف آپس کی شرارتوں کی بنا ) پر) فرماتا ہے: <کَانَ النَّاسُ اٴُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِینَ وَمُنذِرِینَ وَاٴَنزَلَ مَعَہُمُ الکِْتَابَ بِالحَْقِّ لِيَحکُْمَ بَينَْ النَّاسِ فِيمَا اختَْلَفُوا فِيہِ وَمَا اختَْلَفَ فِيہِ إِلاَّ الَّذِینَ اٴُوتُوہُ مِن بَعدِْ مَا جَائَتہُْم البَْيِّنَاتُ ) بَغيًْا بَينَْہُم> ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ یونس، آیت ١٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ آل عمران، آیت ١٩ ۔ (
٣(۔ سورئہ بقرہ، آیت ٢١٣ ۔ (
)فطری اعتبار سے) (سارے انسان ایک قوم تهے پهر الله نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبياء بهيجے اور ان کے ساته برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلافات کا فيصلہ کریں اور اصل اختلاف انہيں لوگوں نے کيا ہے جنہيں کتاب مل گئی ہے اور ان پر آیات واضح ہوگئيں صرف بغاوت اور تعدی و تجاوز کی بنا پر)۔
مذکورہ آیات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ : جنہوں نے اختلاف ایجاد کيا باوجودیکہ انبيائے الٰہی نے ان کے ليے دین کو واضح و روشن طور پر بيان فرما دیا ہے، جان بوجه کر تعدی اور ظلم و ستم کی وجہ سے اختلاف کيا ہے۔
الله تبارک و تعالیٰ نے ایسا مقدر فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جو لوگ انجام دیتے ہيں اس کا انہيں اجر و ثواب عطا کرے اور یہی تقاضا کرتا ہے کہ الله تعالیٰ جس ميں وہ اختلاف کرتے ہيں اسی اختلاف ميں حکم اور فيصلہ کرے ليکن حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بهی روئے زمين پر لطف اندوز ہوں تاکہ قيامت اور ان کی دنيا آباد ہو اور اپنے ليے زاد آخرت مہيا کریں، جيسا کہ فرمایا: < وَلَکُم فِی الاْٴَرضِْ مُستَْقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَی حِينٍ> ( ١) “زمين ميں تمہارے ليے ایک مدت تک ڻهکانا اور سامان زندگانی ہے”۔
ان دونوں قضاو قدر کا تقاضا یہ ہے کہ جن لوگوں نے دین الٰہی اور کتاب خدا (قرآن) ميں تعدی اور ظلم و ستم کی وجہ سے اختلاف ایجاد کيا ہے ان کا عذاب قيامت کے دن تک ملتوی ) کردیا جائے۔ ( ٢
۴ > (فَلاَوَرَبِّکَ لاَیُؤمِْنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِيمَا شَجَرَ بَينَْہُم ثُمَّ لایَجِدُوا فِی اٴَنفُسِہِم حَرَجًا مِمَّا ) قَضَيتَْ وَیُسَلِّمُوا تَسلِْيمًا> ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ اعراف، آیت ٢۴ ۔ (
٢(۔ الميزان، ج ١، ص ۴۵ ۔ (
٣(۔ سورئہ نساء، آیت ۶۵ ۔ (
”پس آپ کے پروردگار کی قسم! کہ یہ ہرگز صاحبِ ایمان نہ بن سکيں گے جب تک آپ کو اپنے اختلافات ميں حَکَم نہ بنائيں اور پهر جب آپ فيصلہ کردیں تو اپنے دل ميں کسی طرح کی تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فيصلہ کے سامنے سراپا تسليم ہوجائيں ”۔ ٢۶ (کافی ميں حضرت امام محمد باقر - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: یقينا خداوند متعال نے امير المومنين - کو اپنی کتاب کی اس آیت ميں مورد خطاب قرار دیا اٰ م تَ اٰ عقدُوا عَلَيہِْ لَئِن اٴَ اٰ متَ اللہُّٰ مُحَمَّداً (ص) لاٰ <وَلَواْٴَنَّهُم اِذ ظَلَمُوا․․․ فيِ مٰا شَجَرَ بَينَْهُم > اٰقلَ : فی اٰ م قَضَيتُْ عَلَيهِْم مِنَ القَْتلِْ اَوِ یَرُدُّوا هٰذَا الاَْمرَْ فی بنی ہاشمٍ ثُمَّ لاٰ یَجِدُوا فی اَنفُْسِهِم حَرَجاً فی ) ماً ”( ١ العَْفوِْ وَیُسِلِّمُو ا تَسلْی
”فرمایا: جو کچه اس کے بارے ميں عہد و پيمان کيا تها یہ تها اگر الله تعالیٰ اپنے پيغمبر کو مار دے تو اس امر (رسالت و امامت کو بنی ہاشم ميں نہ آنے دیں گے پهر اس سے اپنے نفسوں ميں کوئی تنگی نہ پائيں گے اس امر ميں کہ جو تو نے ان کے بارے ميں فيصلہ کردیا ہے قتل یا عفو کرنے کا اور یہ کہ تيرے حکم کو مکمل طور پر تسليم کریں”۔
و قولہ تعالیٰ :<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم فَإِن تَنَازَعتُْم فِی شَیءٍْ فَرُدُّوہُ إِلَی اللهِ وَالرَّسُولِ إِن کُنتُم تُؤمِْنُونَ بِاللهِ وَاليَْومِْ الآْخِرِ ذَلِکَ خَيرٌْ وَاٴَحسَْنُ ) تَاٴوِْیلًا > ․ ( ٢
”اے ایمان والو! الله کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تمہيں ميں سے ہيں پهر اگر آپس ميں کسی بات ميں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلڻادو اگر تم الله اور روز آخرت (قيامت) پر ایمان رکهنے والے ہو یہی تمہارے حق ميں خير اور انجام کے اعتبار سے بہترین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔اصول کافی، ج ١، ص ٣٩١ ، تفسير برہان، ج ٢، ص ١۵٨ ۔ (
٢(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
بات ہے”۔ یہ آیہٴ کریمہ اور چند بعد والی دوسری آیات ایک اہم ترین اسلامی مسائل ميں سے یعنی مسئلہ قيامت اور واقعی اماموں کی راہ کو مختلف دینی اور سماجی مسائل کے بارے ميں معين کرتی ہے۔
سب سے پہلے جو لوگ ایمان لائے انہيں حکم دیتا ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ کی اطاعت کریں یہ ظاہر ہے کہ ایک باایمان فرد کے ليے تمام اطاعتيں اطاعت پروردگار تک اختتام پذیر ہوں اور ہر قسم کی رہبری اور قيادت اس کی ذات پاک سے نشاٴة پاتی ہو اور اسی کے تابع فرماں ہو چونکہ جہان ہستی کا حاکم اور تکوینی (تخليقی) مالک خداوند سبحان ہے اور ہر طرح کی حاکميت اور مالکيت بهی اسی کے حکم سے ہونی چاہيے: <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا الله> ․ )١)
بعد والے مرحلے ميں پيغمبر اکرم (ص) کی پيروی کا حکم دیتا ہے وہ پيغمبر (ص) جو معصوم ہے اور کبهی بهی ہوا و ہوس کی بنا پر کلام نہيں کرتا۔ ایسا پيغمبر جو لوگوں کے درميان خدا کا نمائندہ ہے اور اس کا قول خدا کا قول ہے : <وَمَا یَنطِْقُ عَنِ الہَْوَی إِن ہُوَ إِلاَّ وَحیٌْ یُوحَی>․
٢) اس موقعيت اور منصب کو الله تعالیٰ نے انہيں عطا کيا ہے اس بنا پر خداوند متعال کی ) اطاعت اس کی خالقيت اور حاکميت کی ذات کے تقاضے کے مطابق ہے، ليکن پيغمبر اکرم (ص) کی اطاعت الله تعالیٰ کے حکم سے ہے۔ دوسری تعبير ميں یوں کہا جائے کہ الله تعالیٰ واجب الاطاعت بالذات ہے پيغمبر واجب الاطاعت بالغير ہيں اور شاید اس آیت ميں “اطيعوا” کی تکرار اسی موضوع کی طرف اشارہ ہو کہ فرمایا:و اطيعوا الرسول․< تيسرے مرحلے ميں اولو الامر کی اطاعت کا حکم دیتا ہے جو اسلامی معاشرہ کے ) درميان سے نکلا اور لوگوں کے دین و دنياکا محافظ ہے۔ ( ٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
١(۔سورئہ نجم، آیت ۵۔ (
٢(۔ تفسير نمونہ، ج ٣، ص ۴٣۵ ۔ (
اس سلسلے ميں کہ اولو الامر کون لوگ ہيں؟ مفسرین کے درميان بہت سے مختلف نظریات پائے جاتے ہيں، ان سب کی وضاحت کو اگر مدّنظر رکها جائے تو اس کتاب کے دائرہ سے خارج ہے، ہم اولو الامر کو معادن وحی و قرآن سے ذکر ہونے والی آیات و روایات جو سب کے ليے تسکين بخش اور مومنين کے قلوب کو نورانی بنانے والی ہے۔ ٢٧ ۔ تفسير عياشی ميں جابر جعفی سے روایت نقل ہوئی ہے کہ انہوں نے امام محمد باقر - سے آیہٴ <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم> کے متعلق دریافت کيا، تو فرمایا : ) ”اس سے مراد اوصياء ہيں”۔ ( ١ ٢٨ ۔ ابن شہر آشوب نے حسن ابن صالح سے روایت کی ہے کہ امام جعفر صادق - سے اس مذکورہ آیت کے بارے ميں ، ميں نے دریافت کيا تو فرمایا: “الائِمَّةُ مِنْ اهِل بَيت رسولِ اللّٰہِ (ص) ” ( ٢) “اہل بيت رسول خدا (ص) کے ائمہ مراد ہيں۔“
شيخ صدوق عليہ الرحمہ نے اس جيسی حدیث ابو بصير سے امام محمد باقر - سے نقل کی ہے اور وہاں یہ فقرہ ذکر ہوا ہے کہ حضرت نے فرمایا: “الاٴئِمَّةُ مِن وُلدِ عَلِیٍّ وَ اٰفطِمَةَ اِل یٰ اَن تَقُومَ السّاعَةُ: “
) ”اس سے روز قيامت تک اولاد علی و فاطمہ عليہما السلام سے ائمہ مراد ہيں”۔ ( ٣ ٢٩ ۔ مشہور و معروف اسلامی مفسر ابو حيان اندلسی مغربی (متوفی ٧۵۶ ئه ق) تفسير بحر المحيط ميں رقم طراز ہيں کہ یہ آیت علی - اور ائمہٴ اہل بيت کے حق ميں نازل ) ہوئی ہے۔ ( ۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ۴٠٧ (حدیث ١۶٩ ) تفسير برہان، ج ٣، ص ١۴۵ (حدیث ١١٧ ) بحار ( ج ٢٣ ، ص ٣٠٠ (حدیث ۵٢ ) ۔
٢(۔ مناقب ابن شہر آشوب ج ٣، ص ٢٠ ۔ (
) ٣(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢٢ (حدیث ٨) تفسير البرہان، ج ٣، ص ١۴١ (حدیث ١٠ (
۴(۔تفسير بحر المحيط۔ (
٣٠ ۔ تفسير برہان ميں شيخ صدوق نے اپنے اسناد کے ساته جابر ابن عبدالله انصاری سے روایت کی ہے کہ جب خداوند متعال نے اپنے پيغمبر حضرت محمد (ص) پر آیہٴ <یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ > نازل فرمائی تو ميں نے عرض کيا: اے الله کے رسول! خدا اور اس کے رسول کی معرفت حاصل کرلی، پس اولو الامر کون سے افراد ہيں کہ الله تعالیٰ نے ان کی اطاعت کو آپ کی اطاعت کے ساته قرار دیا ہے؟ تو آنحضرت نے فرمایا : ”هُمْ خُلفائی یا جابِر وائمَّةُ المسْلمينَ مِن بَعدی : اَوَّلُهُم عَلیُّ بن ابی طالِبٍ ، ثُمَّ الحَسَنُ، ثُمَّ الْحُسَيْنُ ، ثُمَّ عَلیِّ بنُ الْحُسَيْنُ ، ثُمَّ محمَّدُ بنُ علیٍ المعروُفُ فی التّوراة بِالباقِر، ستدرکُہُ یا تَہُ فاقراٴہ مِنّی السَّلامَ ، ثُمَّ الصادقُ جعفرُ بن محمّدٍ ، ثُمَّ موُسیٰ بن جَعفرٍ ، ثُمَّ جابِرُ ، فَاِذا لقی عَلی بنُ موُسیٰ، ثُمَّ محمَّدٌ بنُ عَلیٍ ، ثُمَّ عَلیٌّ بنُ محمَّدٍ ، ثُمَّ الْحَسَنُ بنُ عَلیٍّ ، ثُمَّ سَميّی حجة اللّٰہ فی ارضِہِ وَبقيَّتُہُ فی عِبادِہِ ، ابنُ الحَسَن بن عَلیٍ ، ذاکَ الذی یَفتَحُ (محمّدٌ) وَکَنِيّی اللہَّٰ تعال یٰ ذکرُہُ عَل یٰ یَدَیہِ مشارِقَ الارضِ وَمغارِبها ، ذاکَ الَّذی یَغيبُ عَن شيعتِہِ وَاَوليآئہِ غيبَةً لا یثبتُ فيہِ عَلَی القولِ بامامَتِہِ الا مَن اِمتحَنَ اللہّٰ قَلبہُ للایمان․ِ“ وَالَّذی بَعَثنی قال جابر: فَقُلتُ لَہُ یا رَسُولَ اللہِّٰ فَهَل یَقَعُ لِشيعتِہِ الِانتِفاع بِہِ فی غيبتِہِ ؟فَقالَ “ای بِالنّبوةِ انّهم یستَضيئوُنَ بِنورِہِ وَینتفعوُنَ بِوِلایتِہِ فی غيبتہِ کانتفاعِ النّاسِ بالشَّمسِ وَان تجَلاهّٰا ) سَحابٌ ، یا جابُر هذا مِن مَکنوُنِ سرِّ اللّٰہِ ، وَمخزونِ عِلمِ اللّٰہِ فاکتمہُ الاَّعَن اہلِہِ ” : ( ١ ”اے جابر ! وہ ميرے خلفاء و اوصياء اور مسلمانوں کے امام ہوں گے، ان ميں سے اول علی ابن ابی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کمال الدین، ج ١، ص ٢۵٣ (حدیث، ٣) تفسير برہان، ج ٣، ص ١٣۴ ۔ (
طالب ، پهر حسن، پهر حسين، پهر علی ابن الحسين، پهر محمد ابن علی کہ جن کا نام توریت ميں باقر مشہور ہے، اے جابر! تم عنقریب ان کو پاؤ گے جب تم ان سے ملاقات کرنا تو ان کو ميرا سلام کہنا، پهر جعفر ابن محمد
الصادق، پهر موسی ابن جعفر، پهر علی ابن موسی، پهر محمد ابن علی، پهر علی ابن محمد، پهر حسن ابن علی ہوں گے، ان کے بعد ميرے ہم نام (محمد) اور ميری ہم کنيت حجّت خدا ، بقية الله روئے زمين ميں الله کے بندوں کے درميان حسن ابن علی عليہم السلام کے فرزند ہوں گے۔
وہ ایسی فرد ہيں کہ الله تبارک و تعالیٰ ان کے دست مبارک سے زمين کے تمام مشرق و مغرب کو کاميابی و کامرانی عطا فرمائے گا۔ وہ وہی بزرگوار ہيں جو اپنے شيعوں اور چاہنے والوں کی نظروں سے ایک عرصہ تک غائب ہوجائيں گے آپ کی امت ميں سے وہ لوگ اپنے عقيدہٴ امامت پر ثابت قدم رہيں گے کہ جس کے قلب کا امتحان الله تعالیٰ نے ایمان کے ذریعے لے ليا ہوگا۔ جابر نے عرض کيا: اے رسول خدا! کيا حضرت کے شيعوں کو ان کی غيبت کے زمانہ ميں کوئی فائدہ حاصل ہوگا؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: ہاں “قسم ہے اس ذات کی جس نے مجهے نبوت (و رسالت) کے ساته مبعوث کيا! وہ لوگ آپ کی غيبت ميں آپ کی ولایت کے نور کی ضو سے اسی طرح فائدہ اڻهائيں گے جس طرح سورج بادل کو چهپاليتا ہے تو لوگ سورج کی روشنی سے فائدہ اڻهاتے ہيں۔
اے جابر! یہ بات الله تعالیٰ کے راز ميں پوشيدہ ہے، علم الٰہی کے خزانہ ميں مخفی ہے، لہٰذا (اس راز کو) اس کے اہل کے سوا دوسروں سے پوشيدہ رکهو”۔ ٣١ ۔ اہل سنت کے مشہور و معروف علماء ميں سے شيخ سليمان حنفی قندوزی نے اپنی کتاب ینابيع المودة ميں کتاب مناقب سے سليم ابن قيس هلالی سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن ایک شخص امير المومنين حضرت علی - کی خدمت بابرکت ميں حاضر ہوا اور دریافت کيا: وہ کون سی مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے؟ اور وہ کون سی مختصر شے ہے کہ جس کی وجہ سے بندہ کافروں یا گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے؟ تو امام علی - نے فرمایا: جب تم نے سوال کر ہی ليا ہے تو جواب کو سنواور سمجهو : ”امّا اٴد نٰ ی مایکَوُنُ بِہِ العَْبدُْ موٴمِناً اٴن یُعَرِّفَہُ اللہّٰ تبارکَ وَ تَعال یٰ نَفسہ فَيُقِرَّلَہُ بِالطّاعَةِ وَ یُعَرِّفَہُ نَبِيَّہُ (ص) فَيُقِرَّلَہُ بِالطّاعَةِ ویُعَرِّفَہُ اِمامَہُ وَحجتہُ فی ارضِہِ وَشاهِدَہُ عَل یٰ خَلقِہِ فَيُقِرَّلَہُ بِالطّاعَةِ․
قُلتُ: یا امير الموٴمنين وَانِ جَهِلَ جَميع الاٴشياءِ اِلاّ ما وَصَفَت ؟ قالَ: نَعَم اِذا اَمَرَ اطاعَ وَاِذا نَهی انتَهی․ وَادنی مایکوُنُ العَبدُ بِہِ کافِراً مَن زَعَمَ انَّ شَيئاً نَهَی اللہّٰ عَنہُْ انَّ اللہّٰ امَرَہُ بِہِ وَنصبہُ دیناً یتَوَلّی عَلَيہِ ، وَیَزعُم انَّہُ یَعبد اللّٰہ الذی امرَہُ بہِ وَما یعبُدُ الاَّ الشيطانَ․ وَامّا ما یکَوُنُ العبد بہ ضالاً اَن لا یعرِف حجَة اللّٰہ تبارکَ و تعالٰی وَ شاہِدَہُ عَلیٰ عِبادہِ الَّذی اَمَرَ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ عِبادَہُ بِطاعَتِہ وَ فَرضَ ولایتَہ․ُ
قُلت: یا اَميرَ الموٴمنينِ صِفهُم لی․ قالَ: الذینَ قَرنہُ اللّٰہ تعالیٰ بنفِسِہ وَنَبيّہ فقال: یَاا یّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْمْ
فَقلت لَہُ: جَعَلَنی اللہّٰ فَداکَ اَوضِْح لی․ فَقالَ: الَّذینَ قالَ رَسوُلُ اللہِّٰ (ص) فی مَواضِعَ وَفی آخِر خُطَبةٍ یَومَ قبضَہُ اللہّٰ عزوَجَلَّ اِليہِ - اِن تَمَسَّکتُْم بهِ مٰا ، کِ اٰتبَ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ وَ عِترَْتی ، اَهلُْ اِنّی تَرَکتُ فيکُم اَمرْینِ لَن تَضِلّوا بعدی بَيتْی ، فَانَّ اللَّطيفَ الخَبير ، قَدَ عَهدَ اِلَیَّ اَنَّهُما لَن تَفرْ اٰق حَتّی یردا عَلَیّ الحوضَ کهاتينِ ، وَجَمَعَ ) مسبحتَيہِ ، وَلا اقولُ کَهاتَين ، وَجَمَعَ مَسبحَتَہ والوُسطی فَتَمسکَوَا بِهِ مٰا وَلا تقدَّموُهم فتضِلّوا ” ( ١
”وہ مختصر سی شے جس کی وجہ سے بندہ مومنين ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ الله تبارک و تعالیٰ اس کو اپنی معرفت عطا کرتا ہے پهر وہ اس کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے اور اپنے نبی کی اس کو معرفت عطا کرتا ہے۔پهر وہ ان کی اطاعت کا اقرار کرتا ہے نيز اس کو اپنے امام کی معرفت عطا کرتا ہے جو روئے زمين پر اس کی حجّت اور مخلوق پر گواہ ہے پهر وہ اس اطاعت کا اقرار کرتا ہے۔
ميں نے عرض کيا: یا امير المومنين ! جو اوصاف آپ نے بيان فرمائے ہيں اگر ان سب سے ناواقف ہو تو؟ فرمایا: ہاں! اگر اس کو حکم دیا جائے تو وہ اطاعت کرے اور جب اسے منع کيا جائے تو وہ اس سے باز آجائے اور وہ کم ترین شے جس کی وجہ سے بندہ کافروں ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان نے کسی چيز کے بارے ميں محض یہ خيال کيا کہ اس سے الله تعالیٰ نے منع کيا ہے جس کا اس نے حکم دیا ہے لہٰذا اسے اس کے اپنے ليے ایک دین کی شکل دے دی اور اس کی اطاعت اور ولایت کو اپنے ليے لازم بناليا اور اس نے اپنے خيال ميں یہ گمان کيا کہ وہ الله کی عبادت کر رہا ہے حالانکہ وہ الله کی عبادت نہيں کرتا بلکہ شيطان کی عبادت کرتا ہے۔
ليکن وہ کم ترین شے جس کی وجہ سے بندہ گمراہوں ميں شامل ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ شخص حجّت خدا کی محبت اور اس کے بندوں کے گواہ کی معرفت نہيں رکهتا کہ جس کی اطاعت اور ولایت کو (اپنے بندوں پر) فرض قرار دیا ہے۔ اس شخص نے عرض کيا: یا امير المومنين ! ان حضرات کی توصيف سے ہميں آگاہ فرمائيے تو امام علی - نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا الله تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنے نبی کی ذات کے ساته ذکر کيا اور فرمایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ٣۴٩ ۔ (
>یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم < اس شخص نے عرض کيا : الله تعالیٰ مجهے آپ پر قربان کرے ذرا مجهے وضاحت سے بيان فرمائيے، تو حضرت علی - نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا ذکر رسول خدا (ص) نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے منجملہ ان ميں سے اپنی عمر کے آخری خطبہ ميں بهی جن کا ذکر کيا اور فرمایا ہے: “انی ترکت فيکم امرین لن تضلّوا بعدی ان تمسکتم بهما، کتاب اللّٰہ وعترتی اہل بيتی” ميں تم ميں دو چيزیں بطور یادگار چهوڑے جارہا ہوں اگر ان کے دامن سے متمسک رہوگے تو ميرے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے ميرے عترت جو ميرے اہل بيت ہيں۔
خدائے لطيف و خبير نے مجه سے وعدہ کيا ہے کہ یہ دونوں ہرگز ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔
الله ہميں اور تمام مومنين کو اس رزق سے نوازے انشاء الله۔ ٣٢ ۔ کافی ميں بطور مسند ابو مسروق نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ ميں نے حضرت سے عرض کيا کہ ہم علمائے علم کلام سے گفتگو کرتے ہيں اور آیت <اطيعو الله و اطيعوا الرسول> ( ١) کے ذریعہ ان سے احتجاج کرتے ہيں تو وہ کہتے ہيں: یہ مومنين کے بارے ميں نازل ہوئی اور آیہٴ مودت < قُل لاَاٴَساْٴَلُکُم عَلَيہِْ اٴَجرًْا إِلاَّ المَْوَدَّةَ فِی القُْربَْی > ( ٢) سے احتجاج کرتے ہيں تو وہ کہتے ہيں : یہ عام مومنين کے اقرباء سے محبت کرنے کے ليے نازل ہوئی ہے۔
راوی کابيان ہے: جو کچه مجهے یاد تها اسی طرح احتجاج کے طور پر ذکر کرتا رہا اور کوئی چيز فروگزار نہيں کی اور سب کو ميں نے ذکر کيا پهر بهی کوئی خاطر خواہ نتيجہ برآمد نہيں ہوا تو حضرت نے فرمایا: ”اِذا کانَ ذلِکَ فادعُهُم اِلَی المُْ اٰبهَلَةِ ، قُلتُ: وَکَيفَ اٴصنَعُ ؟ فَقالَ: اٴصْلحْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ نساء، آیت ۵٩ ۔ (
٢(۔ سورئہ شوریٰ، آیت ٢٣ ۔ (
نَفسَْکَ ثَ لاٰثاً واٴظنّہ قال: صُمْ وا غتسلِ وابرز اٴنت وهو الی الجبّان ، فشبّک اٴصابعک من یدک الْيُمْنیٰ فی اٴصابعہ ، فابدء بنفسک فقل: اللّهُم رَبَّ السَّمواتِ السَّبع وَ ربَّ الاٴرَضينَ السَّبعِ، عالِمَ الغَيبِ وَالشَّهادةِ الرَّح مٰنَ الرَّحيمُ اِن کانَ اَبوُ مَسروُق جَحدَ حَقّاً وَادَّع یٰ باطِلاً فاٴنِزل عَلَيہِ حُسباناً مِنَ السَّماءِ اوْ عذاباً اليماً ، ثُمّ ردَّ الدَّعوة عليْہِ فَقُل وَاِنْ کان فُلاٰنٌ جَحَدَ حَقّاً وَادَّعیٰ باطِلاً فاٴنزل عَلَيہِ حُسباناً مِنَ السَّمآء او عذاباً اليماً․“ ) فَاِنَّکَ لا تَلبثُ اٴن تَریٰ ذلِکَ فيہِ ، فَوَا للّٰہِ ما وجدت خلقاً یجيبُنی عليہِ ” ( ١ “ : ثُمَّ قالَ لی
”جب ایسی صورت درپيش ہوتو ان کو مباہلہ کی دعوت دینا ميں نے دریافت کيا: کيسے مباہلہ کروں، فرمایا: پہلے تين دن اپنے پاکيزگی نفس اور اصلاح کو عبادت کے ذریعہ انجام دو اور روزہ رکهو، غسل انجام دو اور اس کے بعد تم اور تمہارا مخالف دونوں ایک پہاڑ پر جاؤ اس کے بعد اپنے داہنے ہاته کی انگلياں اس کی انگليوں ميں ڈال دو پهر انصاف سے کام لو یعنی پہلے اپنی طرف سے آغاز کرو اور کہو: اے خدا! اے سات آسمان اور سات زمين کے پروردگار! اے ظاہر و غائب کے جاننے والے! اے رحمن و رحيم! اگر ابو مسروق نے حق سے انکار کيا ہے اور باطل کا مدعی ہے تو اس کے ليے آسمان سے بلائے عظيم اور دردناک عذاب نازل فرما پهر یہی الفاظ اپنے مخالف سے کہلواؤ ، اگر (فلاں شخص نے) حق سے انکار کيا اور باطل کا مدعی ہے تو اس کے ليے آسمان سے بلائے عظيم اور دردناک عذاب نازل فرما”۔
٣٣ ۔ عياشی نے ابو بصير سے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: آیہٴ <اطيعو الله و اطيعوا الرسول> حضرت علی ابن ابی طالب - کے حق ميں نازل ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کافی، ج ٢، ص ۵١٣ ، وسائل الشيعہ، ج ٧، ص ١٣ ۔ (
ميں نے عرض کيا: وہ لوگ کہتے ہيں: کون سی رکاوٹ تهی کہ الله تعالیٰ حضرت علی - اور اہل بيت عليہم السلام کا نام اپنی کتاب ميں ذکر کرتا؟
تو امام محمد باقر - نے فرمایا : ”قوُلوُا لَهُم اِنَّ اللہّٰ انزَلَ عَل یٰ رَسوُلِہِ الصَّلاة وَلَم یُسَمّ بہ ثلاثاً وَلا اربعَاً حَتّ یٰ کانَ رَسوُل فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُم ․ وَانزَلَ الحجّ وَلَم یُنزِل طوُفوا اُسبُوعاً حَتّ یٰ فَسَّرَ ذَلِکَ لَهُم اللّٰہ (ص) هُوَ الَّذی رَسوُلُ اللّٰہ (ص) وَاٴنزَلَ<اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم>ْ فنَزلَت فی عَلیٍ والحَسَنَ والحُسينِ عليہم السلام․
وَقالَ فی عَلِیٍ مَن کُنتُ مَولاہُ فَعَلیٌ مَولاہُ ، وَقالَ رَسوُل اللّٰہ (ص) اوُصيکُم بِکِتاب اللّٰہ واهلِ بيتی ، انّی سَاٴَلتُ اللّٰہ ان لا یفرِّقَ بينَهما حَتی یوردَهُما عَلَیَّ الحوضَ ، فَاَعُطانی ذلِکَ ، وَقالَ فَلا تُعَلِّمُوهُم فَاِنَّهُم اٴعلَمُ مِنکُم ، اِنَّهُم لَن یُخرجوُکُم مِن بابِ هُدیً وَلَن یُدخِلوُکُم فی باب ضَلالٍ، وَلَو سَکَتَ رَسول اللّٰہِ وَلَم یُبَيِّن اهلَها لا دعٰاهٰا آل عبّاسٍ وَآل عقيلٍ وآل فُلانٍ وَلکِنْ انزَلَ ) اللّٰہ فی کتابِہِ < إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْمُ الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُم تَطہِْيرًا >،( ١ فکانَ عَلیٌ والحَسنُ والحسيَنُ وَ فاطِمَةُ عليہم السلام تَاٴویلُ ہذہِ الآیة ، فاٴخذَ رَسوُل اللّٰہ (ص) بِيَدِ عَلیٍّ وَفاطِمَةَ والحَسَنِ والحسيَنِ صَلَوات اللہّٰ علَيہم ، فاٴدخَلَهُم تحتَ الکِساءِ فی بَيتِ اُمِّ سَلَمةَ وقالَ: اللّهُم اِنَّ لِکُلِّ نبیٍّ ثقلاً واهلاً ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ احزاب، آیت ٣٣ ۔ (
فَهولٓاء ثقلی وَاَهلْی․ ” وَاَهلْی وَقالَت: اُمُّ سَلَمةَ : الستُ مِن اهلِکَ ؟ قالَ اِنَّکِ اِلٰی خيرٍ، وَلٰکِن هٰوٴُلاٰءِ ثِقلی )١)
”تم ان سے کہو: الله تعالیٰ نے نماز کو حضرت رسول خدا (ص) پر نازل کيا ليکن یہ نہيں بتایا کہ تين رکعت یا چار رکعت یہاں تک کہ اُس کی تفسير و توضيح رسول خدا (ص) نے بيا ن کی، الله تعالیٰ نے آیہٴ حج نازل کی ليکن یہ نہيں بتایا کہ سات طواف کرو یہاں تک کہ رسول خدا (ص) نے اس کی تفسير و تشریح کی اور الله تعالیٰ نے آیہٴ <اطيعو الله و اطيعوا الرسول> علی، حسن اور حسين عليہم السلام کے حق ميں نازل فرمائی۔ اور حضرت علی - کے بارے ميں فرمایا: اے لوگو! جس جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کے مولا اور سرپرست ہيں۔
اور رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے لوگو! ميں تم ميں الله کی کتاب اور اپنے اہل بيت کے بارے ميں وصيت کرتا ہوں ميں نے خدا سے دعا کی تهی کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے کبهی بهی جدا نہ ہوں یہاں تک کہ حوض کوثر پر ميرے پاس وارد ہوں الله تعالیٰ نے ميری یہ حاجت قبول کی۔
مزید فرمایا: تم ان کو تعليم نہ دو کيونکہ وہ تم سے زیادہ جاننے والے ہيں اور وہ تم کو باب ہدایت سے نہيں نکلنے دیں گے اور کبهی بهی تمہارے ليے گمراہی کا راستہ ہموار نہيں کریں گے۔
اگر رسول خدا (ص)خاموش ہوجاتے اور اپنے اہل بيت کو نہ بتاتے تو یقينا آل عباس، آل عقيل اور فلاں خاندان والے اہل بيت ہونے کا دعویٰ کر بيڻهتے، ليکن الله تعالیٰ نے خود اپنی کتاب ميں ان کے بارے ميں آیہٴ تطہير إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِيُذہِْبَ عَنکُْم الرِّجسَْ اٴَہلَْ البَْيتِْ وَیُطَہِّرَکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ۴٠٨ (حدیث ١٧٠ ) اصول کافی، ج ١ ، ص ٢٨۶ (حدیث ١) تفسير ( فرات، ج ١، ص ١١٠ (حدیث ١١٢ )۔
تَطہِْيرًا> نازل فرمائی کہ: الله کا ارادہ یہ ہے اے اہل بيت! ہر قسم کے رجس کو تم سے دور رکهے اور اس طرح پاک و پاکيزہ رکهے جو پاک و پاکيزہ رکهنے کا حق ہے۔ لہٰذا علی ، حسن ، حسين، اور فاطمہ عليہم السلام اس آیت کے مصداق ہيں۔
پهر رسول خدا (ص) نے علی، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام کا دست مبارک پکڑا اور خانہٴ ام سلمہ ميں چادر کے اندر داخل کرکے فرمایا: بار الٰہا! (اے ميرے پروردگار!) ہر نبی کے کچه اہل اور گراں قدر ذاتيں اور اہل بيت ہوا کرتے ہيں ميرے اہل بيت اور گراں قدر عزیز یہ ہيں۔ ام سلمہ نے عرض کيا: کيا ميں آپ کے اہل بيت ميں شامل نہيں ہوں؟ تو حضرت نے فرمایا: تم ہميشہ خير پر ہو ليکن ميرے گراں قدر عزیز اور اہل بيت یہ ہيں۔ ٣۴ ۔ تفسير صافی ميں امام جعفر صادق - سے روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت - سے دریافت کيا گيا کہ اسلام کی بنياد یں کن چيزوں پر قائم ہےں کہ اگر انسان انہيں حاصل کرلے تو اس کا عمل پاک و پاکيزہ ہوجائے گا اور اس کے علاوہ جہل نقصان نہيں پہنچا سکتا ؟ حضرت نے فرمایا:
”شَہادَةُ ان لا اِلہ اِلاَّ اللّٰہُ وانَّ محمَّد اً رَسوُل اللّٰہ وَالاٴقِرار بما جآءَ بِہِ مِن عِندِ اللّٰہِ وَحَقٌ فی الاٴموالِ الزکاة ، والوِلایةُ الَّتی امَرَ اللّٰہ بِها وِلایة آل محمَّدٍ فَانَّ رَسوُلَ اللّٰہ (ص) قال : مَن ماتَ وَلَم یَعرِف امامَہُ ماتَ ميتةً جاهِليةً قال اللّٰہ تعالیٰ <اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنْکُمْ> فکانَ عَلیٌ عليہ السلام ثُم صارَ مِن بَعدِہِ الحَسَنُ، ثُم مِن بَعدِہِ الحُسينُ ، ثُمّ مِن بَعدِہِ عَلیُّ بنُ الحُسينُ ، ثُم مِن بَعدِہِ مُحمدٌ بنُ علیٍ ،ثُمَّ هکَذا یَکُون الامرْ ، اِنَّ الارضَ لا تُصلحُ اِلاَّ بِامِامٍ )١) ”
اس بات کی گواہی دینا کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہيں اور محمد الله کے رسول ہيں اور ان تمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير صافی، ج ١، ص ۴٢٨ ۔ (
باتوں کا اقرار کرنا جو آنحضرت (ص) خدا کی طرف سے لائے اور اپنے مال ميں زکوٰة کا ہونا حق ہے اور وہ ولایت کہ جس کا الله تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ آل محمد ہے اور رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو شخص مرگيا اور اس نے اپنے امام کو نہ پہچانا تو وہ جاہليت کی موت مرا۔ اور الله تعالیٰ نے فرمایا: الله کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی جو تم ميں سے ہوں لہٰذا وہ علی (عليہ السلام) ہيں پهر ان کے بعد حسن پهر حسين پهر علی ابن الحسين پهر محمد ابن علی، پهر اسی طرح یہ امر جاری رہے گا، روئے زمين کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر امام کے ذریعہ۔
٣۵ ۔ سليم ابن قيس ہلالی نقل کرتے ہيں: حضرت امير المومنين - سے دریافت کيا گيا: کم ترین شے جو انسان کو گمراہ کرتی ہے وہ کيا ہے؟ فرمایا : ”اَن لا یَعرِفَ مَن امَرَ اللہّٰ بِطاعَتِہِ وَفرَضَ ولایَتَہُ وَجَعَلَ حُجَّتَہُ فی ارضِہِ وَشاہِدَہُ عَل یٰ خَلقہِ ، قالَ ومَنْ هُم یا امير الموٴمنينَ ؟ قالَ: الَّذین قَرَنَهُم اللہّٰ بِنَفسِہِ وَنَبيّہِ فَقالَ :یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِيعُوا اللهَ وَاٴَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاٴُولِْی الاْٴَمرِْ مِنکُْم․ْ< قالَ: فَقَبَّلتُ رَاٴسَہُ وَقُلت: اوضَحتَ لی وَفَرَّجتَ عَنّی واذهَبت کُل شَیٍ کانَ فی قَلبی ” ․ )١)
یہ ہے کہ وہ انسان حجّت خدا کی محبت اور اس کے بندوں کے گواہ کی معرفت نہيں رکهتا کہ جس کی اطاعت اور ولایت کو اپنے بندوں پر فرض قرار دیا ہے۔ ميں نے عرض کيا: اے امير المومنين ! وہ کون افراد ہيں؟ فرمایا: یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کا الله تعالیٰ نے اپنی ذات اور اپنے نبی کی ذات کے ساته کيا ذکر کيا اور فرمایا: ‘(اے ایمان والو! الله کی اطاعت کرو ، رسول کی اطاعت کرو اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ميں سے ہيں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سليم ابن قيس، ص ۵٩ ، تفسير صافی، ج ١، ص ۴٢٩ ۔ (
راوی کا بيان ہے : ميں نے حضرت کے سر مبارک کا بوسہ دیا اور عرض کيا: ميرے ليے آپ نے مسئلہ واضح کردیا اور ميرے دل کے تمام ہم و غم کو ختم کردیا۔
حضرت امام مہدی کے بارے ميں اہل سنت سے مروی احادیث
٣۶ ۔ خواجہ کلان ، شيخ سليمان بلخی حنفی اپنی گراں قدر کتاب “ینابيع المودة” ميں علامہ سمہودی شافعی اپنی کتاب “جواہر العقدین” ميں ، ابن ہيتمی اپنی کتاب (صواعق محرقہ) ميں اور طبرانی اپنی کتاب “اوسط” ميں ابو ایوب انصاری سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت فاطمہ زہرا رسول اکرم (ص) کی خدمت ميں آپ کے مرض الموت کے موقع پر حاضر ہوئيں اور رو پڑیں، تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا: “اِنَّ لِکَرامةِ اللہِّٰ ایّاکِ زَوَّجَکِ مَن هُو اقدمُهُم سِلماً وَاکثَْرُهُمُ ) عِلمْاً ” : ( ١
”آپ کے بارے ميں پروردگار کی منجملہ کرامتوں ميں سے یہ ہے کہ آپ کی شادی ایسے شخص سے کی جو اسلام لانے ميں سب سے پہلے اور علم و دانش کے لحاظ سے سب سے زیادہ جاننے والا ہے”۔ پهر فرمایا: خداوند متعال نے اہل زمين پر نظر ڈالی تو مجهے منتخب کيا، پهر دوبارہ نظر ڈالی تو تمہارے شوہر کو منتخب کيا پهر مجهے وحی کی کہ تمہاری شادی اس سے کردوں اور اسے اپنا وصی قرار دوں۔
”یافاطِمة مِناّ خَير الانبيآء وَهُوَ ابوکِ وَمِنّا خَير الاَوصيآء وَهُوَ بَعلکِ وَمِنّا خَير الشُّہَداء وَهُوَ حمزة عمُّ ابيکِ وَمِنّا مَن لَہُ جَناحانِ یطير بِهِما فی الجَنَّةِ حَيث شَاء وَهُوَ جَعفر ابنِ عَمِّ ابيکِ وَمِنّا سِبطا هذِہِ الاُمّة وَسَيّدا شبابِ اہلِ الجَنَّةِ ، الحَسَنُ والحُسينُ ، وَهما ابناکِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢۶٩ ، مناقب ابن مغازلی، ص ١٠١ (حدیث ١۴۴ )، فرائد السمطين، ( ج ١، ص ٩٢ (حدیث ۶١ )۔
) وَالَّذی نَفسی بيدِہِ ، مِنَّا مَهدیُّ ہذهِ الامَّة وَهُو مِن وُلدِکِ” : ( ١ اے بيڻی فاطمہ! بہترین انبياء ہم ميں سے ہے اور اور وہ تمہارے باپ ہيں اور ہم ميں سے بہترین اوصياء ہيں اور وہ تمہارے شوہر ہيں اور ہم ميں سے بہترین شہداء ہيں اور وہ تمہارے باپ کے چچا حمزہ ہيں اور ہم ميں سے وہ شخص موجود ہے کہ جس کو دو پر عطا ہوئے ہيں جن کے ذریعے جہاں چاہتے ہيں پرواز کرتے ہيں اور وہ جعفر ہيں تمہارے باپ کے پسر عم اور ہم ميں سے اس امت کے دو سبط ہيں اور اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہيں، وہ حسن و حسين ہيں جو تمہارے فرزند ارجمند ہيں۔
اس خدا کی قسم! جس کے قبضہٴ قدرت ميں ميری جان ہے ہم ميں سے اس امت کا مہدی ہے جو تمہاری اولا دميں سے ہے”۔ ٣٧ ۔ اسی کتاب ميں سعيد ابن جبير سے ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ حضرت رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
وَمِن وُلدِہِ القائِمُ المُنتظَرُ الَّذی یملاءُ الاٴرضَ قِسطاً وَ عَدلاً ، ”اِنَّ عَليّاً اِمامُ اُمَّتی من بِعدی کَ مٰا مُلئَت جوراً وَ ظُلماً وَالَّذی بعثنی بِالحّقِ بَشيراً وَ نَذیراً اِن الثاٰبّتينَ عَلَی القولِْ بِامِامَتِہِ فی زَمانِ غَيبَْتِةِ لاٴعَزّ مِنَ الکبریتِ الاَحّمر فقال اليہ جابر بن عبد اللّٰہ فقال : یا رسول اللّٰہ (ص) ولِل اْٰ قئِمِ من وُلدِْکَ غَيبَْةٌ ؟ قال (ص) ای وربّی <وَلِيُمَحِّصَ اللهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمحَْقَ الکَْافِرِینَ>( ٢) ثُمّ قالَ یا جابِر انّ هذا امرٌ مِن امرِ اللّٰہ ) ہِ فانّ الشکَ فی امرِ اللّٰہ عزّوجلّ کُفر ” ( ١ وَسِرٌّ مِن سِرِّ اللہّٰ فایّاکَ وَالشَّک فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢۶٩ ، صواعق محرقہ، ص ١۶۵ ۔ (
٢(۔ سورہ آل عمران، آیت ١۴١ ۔ (
”یقينا علی ميرے بعد ميری امت کے امام ہيں آپ کے فرزندوں ميں قائم المنتظر ہوں گے جو زمين کو اس طرح عدل و انصاف سے بهر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بهری ہوگی، قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے مجهے حق کے ساته بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بهيجا! وہ لوگ جو آپ کی غيبت کے زمانہ ميں آپ کی امامت کے عقيدہ پر ثابت قدم رہيں گے وہ آپ سے زیادہ عزت والے اور کم یاب ہوں گے۔
جابر نے اپنے مقام پر کهڑے ہو کر عرض کيا: یا رسول الله! کيا آپ کے فرزندوں ميں سے قائم کے ليے کوئی غيبت ہے؟ فرمایا: ہاں ميرے رب کی قسم! “تاکہ الله مومنين کو پاک و پاکيزہ بنائے اور کافروں کو نيست و نابود کرے“ پهر فرمایا: یہ الله تعالیٰ کے رازوں ميں سے ایک راز ہے، اور اسرار رب ميں سے ایک مخفی بات ہے اس ميں کبهی بهی شک نہ کرنا کيونکہ پروردگار کی ذات ميں شک کرنا کفر کا باعث ہے”۔
٣٨ ۔ حسن ابن خالد کا بيان ہے کہ حضرت علی ابن موسیٰ الرضا - نے فرمایا: ”لا دینَ لِمَن لا وَرَعَ لَہُ <اِنّ اَکرَْمَکُم عِندَْ اللہِّٰ اَت اْٰ قکُم > ( ٢) ای اعملکُم بالتَّقویٰ ثُمَّ قالَ اِنَّ الرَّابعَ مِن وُلدِی ابنُ سَيِّدَةِ الاِماءِ یُطَهِّرُ اللہّٰ بِہِ الاٴرضَ مِن کُلّ جَورٍ وَظلمٍ وَهُوَ الذی یَشُکُّ النّاسُ فی ولادَتِہِ وَهُوَ صاحِبُ الغيبةِ ، فاذا خَرَجَ اٴشرَقَتِ الاَرضَ بنور رَبّها ، وَ وَضَعَ ميزانَ العَدل بَينَ النّاسِ فَلا یظلمُ احَدٌ اَحداً وَهُوَ الذی تُطویٰ لَہُ الاَرضُ وَلا یَکُونَ لَہُ ظِلٌ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣٣۶ ، ینابيع المودة، ج ٣، ص ٣٩٧ ، احقاق الحق، ج ١٣ ، ص ١۵۶ ( کمال الدین، ج ١، ص ٢٨٧ (باب ٢۵ ، حدیث ٧)۔
٢(۔ سورہ حجرات، آیت ١٣ ۔ (
وَهُوَ الذی یُنادی مُنادٍ مِن السَّمآء یَسمَعُہُ جَميعُ اَهْل الاٴرضِ : اَ لاٰ اِنّ حُجَّةَ اللہِّٰ قَد ظَهَرَ عِند بيتِ اللّٰہِ فاتّبِعُوہُ ، فَاِنَّ الحقَّ فيہ وَمَعہُ ، وَهُوَ قولُ اللّٰہ عزّوجلّ <إِن نَشَاٴْ نُنَزِّل عَلَيہِْم مِن السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّت اٴَعنَْاقُہُم لَہَا خَاضِعِينَ>( ١) وَقَولُْ اللہِّٰ عَزّوَجَلَّ <ْ یَومَْ یُنَادِ المُْنَادِی مِن مَکَانٍ قَرِیبٍ یَومَْ ) یَسمَْعُونَ الصَّيحَْةَ بِالحَْقِّ ذَلِکَ یَومُْ الخُْرُوجِ > ( ٢) اَیْ خُروجُ وَلَدِیَ الْقآئِمُ الْمُہْدِیُّ عليہ السلام” ( ٣ ”اس شخص کے ليے دین نہيں ہے جس کے پاس پرہيزگاری نہيں ہے یقينا الله کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو تم ميں سے زیادہ تقوا اور پرہيز گار ی کے ساته زیادہ عمل کرنے والا ہو۔ پهر فرمایا: یقينا ميرے فرزندوں ميں سے جو چوتها کنيزوں کی ملکہ (سيدة الاماء) سے ہوگا الله تعالیٰ اس کے ذریعہ زمين کو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک کرے گا۔ وہ وہی شخص ہے کہ جس کی ولادت کے بارے ميں لوگ شک و شبہ کریں گے۔ اس کے ليے غيبت کبریٰ ہے، جب ظہور کرے گا تو زمين اپنے رب کے نور سے چمک اڻهے گی، لوگوں کے درميان عدل و انصاف کی ميزان قائم کرے گا کوئی شخص کسی شخص پر ظلم نہيں کرے گا آپ وہ ہيں کہ جس کے ليے زمين سمٹ جائے گی (طی الارض کا حامل ہوگا) آپ کا کبهی بهی سایہ نہيں ہوگا۔
آپ وہ بزرگوار ہيں جن کی خاطر آسمان سے ایک آواز دینے والا آواز دے گا جس کی آواز کو تمام زمين والے سنيں گے: “(اے لوگو!) خبردار! یقينا الله کے گهر کے پاس حجّت خدا ظاہر ہوگئے ہيں لہٰذا ان کی پيروی کرو، کيونکہ وہ خود حق ہے اور حق بهی ان کے ساته ہے” الله تعالیٰ کے اس قول کا معنی یہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورہ شعراء، آیت ۴۔ (
۴٢ ۔ ، ٢(۔ سورہ ق، آیت ۴١ (
٣(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩۶ ، فرائد السمطين، ج ٢، ص ٣٣۶ ۔ (
ہے: “اگر ہم چاہتے تو آسمان سے ایسی آیت نازل کردیتے کہ ان کی گردنيں خضوع کے ساته جهک جائيں” مزید فرماتا ہے: “اور اس دن غور سے سنو جس دن قدرت کا منادی (اسرافيل) قریب ہی کی جگہ آواز دے گا جس دن خدائے آسمان کو سب بخوبی سن ليں گے اور وہی دن قبروں سے نکلنے کا دن ہے” فرمایا: یعنی ميرے فرزند قائم مہدی کے ظاہر ہونے کا دن ہوگا”۔ ۴٠ ۔ عبایة ابن ربعی جابر (ابن عبد الله انصاری) سے روایت کرتے ہيں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: “انَا سَيد النبيّينَ وَعَلِیٌ سَيّد الوَصييَن وَانَّ اوصِيآئی بَعدی اِثنا عَشَر ، اَوّلُهُم عَلِی ) وَآخرُهم القائم المَہدی - عجل اللّٰہ تعالیٰ فرجہ الشریف ” ( ١
”ميں انبياء کا سردار ہوں اور علی تمام اوصياء کے سردار ہيں” ميرے بعد ميرے اوصياء بارہ افراد ہيں، ان سب ميں اول علی ہيں اور ان ميں آخری قائم (آل محمد) مہدی ہيں”۔ ۴١ ۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: نُ وَلا یُصْلِحُہُ اِلاَّ المَہدِیُّ عليہ السلام نَ بِعَلیٍّ ،وَاذَا قُتلَ فَسَدَ الدّی ”اِنَّ اللہَّٰ فَتَحَ ہَذَا الدّی )٢) ”
”یقينا الله تعالیٰ نے اس دین کو حضرت علی - کے ذریعہ فتح کيا اور جس زمانے ميں وہ قتل کردیے جائيں گے تو دین اسلام تباہ و برباد ہوجائے گا اس کو سوائے حضرت مہدی کے کوئی درست نہيں کرے گا”۔ ۴٢ ۔ ابو نعيم اصفہانی اپنی کتاب “صفة المہدی” ميں حزیفہ ابن یمان سے روایت کرتے ہيں کہ رسول اکرم (ص) نے ارشاد فرمایا: ” هٰذِہِ الامّةَ مِن مُلوکٍ جَبابِرَةٍ کَيفَ یقتلوُنَ وَیَطردُونَ المُسلمِينَ اِلاَّ مَن اظهَر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩١ ، مودة القربیٰ، ص ٢٩ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٣٩۴ ، مودة القربیٰ، ص ١٢٠ ۔ (
طاعَتَهم فَالموٴمن التَّقِیُّ یُ صٰانِعُهُم بِلِسانِہ وَیفِرُّ مِنهُم بقلبہِ فَاِ اٰ ذ ارادَ اللہّٰ تَبارَکَ وَتَعال یٰ ان یُعيدَ الاِسلامَ عَزیزاً قصَمَ کُلّ جَباٰرٍّ عَنيدٍ ، وَهُوَ القادِر عَل یٰ ما یشآء ، وَاصلَحَ الا مة ، بَعدَ فَسادِها یا حذیفة ، لو لم یبق مِنَ الدُّنيا الاَّ یومٌ واحِدٌ لِطَوّل اللّٰہ ذلِکَ اليومَ ، حَتّی یملِک رَجُلٌ مِن
) اٴهِل بيتی ، یظهِرُ الاسلام ، وَاللّٰہ لا یخلفُ وَعدَہُ ، وَهُوَ عَلیٰ وَعدِہِ قدیر” : ( ١ اس امت مسلمہ کے ظالم و جابر بادشاہوں پر وای ہووہ کس طرح مسلمانوں کا قتل کریں گے اور انہيں شہر بدر کریں گے سوائے ان افراد کے جو ان کی اطاعت و فرماں و برداری کرے گا،پرہيز گار مومن ان سے زبانی طور پر بنائے رکهے گا اور قلبی طور پر ان سے دور بهاگے گا۔
جب الله تبارک و تعالیٰ اسلام کی عزت کو دوبارہ واپس کرنا چاہے گا تو تمام ظالم اور شرپسندوں کو تباہ و برباد کرے گا وہ اس اسلام کو غلبہ عطا کرے گا، خدا کی قسم! الله اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہيں کرتا وہ اپنے وعدے کو پورا کرنے کی قدرت رکهتا ہے۔ اے حذیفہ! اگر دنيا کا صرف ایک دن باقی رہے تو خداوند متعال اس کو طولانی کردے گا یہاں تک کہ ایک شخص ميرے اہل بيت ميں سے اس کائنات کا مالک ہوگا اور اسلام کو آشکار کرے گا کيونکہ الله تعالیٰ کبهی بهی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہيں کرتا وہ اپنے وعدے پورا کرنے کی طاقت رکهتا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ٣، ص ٢٩٨ ، عقد الدّرر، ص ۶٢ ۔ (