|
نجات بخش
بسمہ تعالی و انہ ولی التوفيق
اَلقُْرآْنُ حَبلُْ اللہّٰ وَ عِصمَْةُ مِنَ الهَْلَکَة۔
قرآن رشتہٴ اتصال الٰہی ہے اور انسانوں کو ہلاکتوں سے نجات بخشنے والا ہے۔
و کذلک الحجة القائم۔ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف۔
اسی طرح حضرت حجّت قائم اور آپ کے آباء و اجداد کرام صلوات الله عليہم اجمعين بهی
تمام انسانوں کو ہر قسم کی ہلاکتوں سے بچانے اور حفاظت کرنے والے ہيں۔
قرآن : <وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُوا وَاذکُْرُوا نِعمَْةَ اللهِ عَلَيکُْم إِذ کُنتُْم اٴَعدَْاءً فَاٴَلَّفَ
) بَينَْ قُلُوبِکُم فَاٴَصبَْحتُْم بِنِعمَْتِہِ إِخوَْانًا> ( ١
”تم سب الله کی رسی (قرآن و اسلام اور ہر قسم کے دوسرے ارتباط کے ذریعہ) کو
مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو اور الله تعالیٰ کی نصيحت کو یاد کرو کہ
تم لوگ آپس ميں دشمن تهے اس نے تمہارے دلوں ميں الفت پيدا کردی تو تم اس کی نعمت
سے بهائی بهائی بن گئے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ سورئہ آل عمران، آیہ ١٠٣ ۔ (
آیت کریمہ تمام لوگوں کو اتحاد کی طرف دعوت دے رہی ہے۔
آیت کریمہ کی شان نزول ميں ذکر ہوا ہے کہ مدینہ ميں جاہليت کے زمانہ ميں دو بڑے
قبيلے “اوس” اور “خزرج” نامی موجود تهے، کہ جن کے درميان ایک سو سال سے زائد ان کے
درميان اختلافات اور جنگ و خوں ریزی موجود تهی کبهی کبهی تو ایک دوسرے کی جان پر آپڑتے
تهے اور ایک دوسرے کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتے تهے۔
رسول خدا (ص) کی مدینہ ہجرت کے بعد منجملہ کاميابيوں ميں سے ایک کاميابی یہ
تهی کہ اسلام کے ذریعہ صلح و محبت ان دونوں قبيلوں کے درميان ایجاد کی، اختلافات کو
برطرف کيا اور دونوں قبيلوں کے اتحاد کے ساته مدینہ ميں طاقت ور گروہ سامنے آیا۔
ليکن جہاں جاہلانہ تعصبات اور شيطانی وسوسے لوگوں کے ذہنوں سے عام طور پر ختم
نہيں ہوتے وہاں اختلافات کو دوسرے قالب ميں رونما کرتے ہيں۔
کہتے ہيں: ایک دن قبيلہٴ اوس و خزرج کے دو لوگ جن کا نام ثعلبہ ابن غم اور اسعد ابن
زرارہ تها ایک دوسرے کے مدمقابل ہوئے اور اُ ن افتخارات کو شمار کرنا شروع کيا جو انہيں
اسلام قبول کرنے کے بعد نصيب ہوا تها۔ ثعلبہ نے کہا: خزیمہ ابن ثابت ذو الشہادتين اور حنظلہ
غسيل الملائکہ ہم ميں سے ہيں نيز اسی طرح عاصم ابن ثابت اور سعد ابن معاذ کا نام ذکر کيا۔
اسعد ابن زرارہ جو قبيلہٴ خزرج ميں سے تها اس نے ابی ابن کعب، معاذ ابن جبل، زید
ابن ثابت، ابو زید اور اس کے علاوہ مسعود ابن عبادہ جو مدینہ کا سردار اور مشہور خطيب تها
افتخار کيا۔
رفتہ رفتہ یہ مسئلہ نہایت سنگين ہوگيا یہاں تک کہ دونوں قبيلوں کے لوگوں کو اس واقعہ
سے اطلاع ہوئی ہاته ميں اسلحہ لے کر ایک دوسرے کے مدّ مقابل کهڑے ہوگئے، قریب تها کہ
دوبارہ آتش جنگ شعلہ ور ہو اور ان سب کو خاکستر کرکے وہيں بڻها دے۔
جب یہ خبر رسول اسلام (ص) تک پہنچی تو آں حضرت فوراً اس واقعہ کے مقام پر
پہنچے اور اپنے بہترین بيان اور خاص تدبير سے اس خطرناک حالت کو ختم کراکے ان کے درميان
صلح ومحبت برقرار کی اور مذکورہ آیات اس سلسلہ ميں نازل ہوئيں۔
آ ں حضرت نہ صرف یہ کہ ان دونوں قبيلوں کو بلکہ ایک عمومی حکم کی صورت ميں
تمام مسلمانوں کو اپنے بہترین بيانات اور ایک موثر طریقہ سے اتحاد کی دعوت دی :
) >وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا وَلاتَفَرَّقُوا> ( ١
”تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں تفرقہ نہ پيدا کرو“
اس سلسلہ ميں کہ حبل الله (ریسمان الٰہی) سے کيا مراد ہے؟ مفسرین کے کلمات
ميں بہت سے مختلف احتمالات پائے جاتے ہيں، بعض کہتے ہيں: اس سے مراد قرآن ہے، بعض
توحيد اور ولایت، بعض اسلام اور بعض نے خاندان پيغمبر اور ائمہٴ معصومين کی ذوات مقدسہ
سے تفسير کی ہے۔
معادن وحی و تنزیل قرآن سے واردہ شدہ روایات ميں بهی یہی مختلف تعبيریں مشاہدہ
ميں آتی ہيں:
دُ وَ الوِْ یٰ لاَةُ” ( ٢) حبل سے مراد توحيد ولایت ہے۔ ١۔ تفسير قمی ميں: “اَلْحَبْلُ التَّوحی v
٢۔ تفسير عياشی ميں امام محمد باقر - سے وارد ہوا ہے: “آلُ مُحَمَّدٍ هُمْ حَبْلُ اللّٰہِ
نِ الَّذی اَمَرَ بِالِاعتِْ صٰامِ بِہِ فَ اٰ قلَ <وَاعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللهِ جَمِيعًا وَلاَتَفَرَّقُوا>” ( ٣)۔ المَْتی
”آل محمد وہ ذوات مقدسہ ہيں جو حبل الله المتين ہيں جن سے متمسک رہنے کا الله
نے حکم دیا ہے اور فرمایا: تم سب الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس ميں
تفرقہ نہ پيدا کرو”۔
نِ” ( ۴)۔ طٰالِبٍ حَبلُْ اللہِّٰ المَْتی ٣۔ امام موسیٰ کاظم - سے منقول ہے: ““عَلِیُّ بنُْ اَبی
”حبل الله المتين ذات گرامی علی ابن ابی طالب ہيں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ گزشتہ حوالہ (
٢(۔تفسير قمی، ج ١، ص ١٠٨ ۔ (
) ٣(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣٣۴ (حدیث ٧٢۶ (
) ۴(۔ تفسير عياشی، ج ١، ص ٣٣۴ (حدیث ٧۶١ (
۴۔ امالی ميں امام جعفر صادق - سے منقول ہے: “نَحنُْ الحَْبلَْ” ( ١) “ہم حبل الٰہی ہيں۔
“
۵۔ تفسير سيوطی ميں پيغمبر اکرم (ص) سے اور معانی الاخبار ميں امام سجاد - سے
نقل ہوا ہے کہ فرمایا: “الاِْ اٰ ممُ مِناٰ لاٰ یَکُونُ اِلا مَّعصُْوماً وَلَيسَْتِ العِْصمَْةُ فی ظٰاہِرِ الخِْلقَْةِ فَيَعرَْفُ بِ هٰا
لَ لَہُ یٰا رَسول اللّٰہ (ص) فَ مٰا مَعنْی المَْعصُْومِ : اٰقلَ هُوَ المُْعتَْصِمُ لِ لٰ ذِکَ لاٰ یَکُونُ اِلا مَّنصُْوصاً فَقی
بِحَبلِْ اللہِّٰ وَحَبلُْ اللہِّٰ هُوَ القُْرآْنُ وَالقُْرآْنُ یَهدْي اِلَی الِا اٰ ممِ وَ لٰذِکَ قَولُْ اللہِّٰ تَ اٰ عل یٰ <اِنَّ هٰذَا الْقُرآنَ
) یَهدْي لِلَّتي هِیَ اَقوَْم >” ( ٢
لوگوں کا امام اور سرپرست ہم ميں سے نہيں ہوگا مگر یہ کہ وہ معصوم ہوگا اور عصمت
ایسی شے نہيں ہے کہ جس کا خارجی وجود پایا جاتا ہے اور خلقت انسانی کے ظاہر سے
نمایاں ہو اور وہ پہچانی جائے۔ لہٰذا الله تعالیٰ کی طرف سے معين اور منصوص ہونا چاہيے”۔
کہا گيا: اے رسول خدا (ص)! معصوم کے کيا معنی ہيں؟ فرمایا: “الله کی رسی کو
مضبوطی سے پکڑے رہو اور ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے اور قرآن بهی امام کی طرف ہدایت کرتا
ہے اور آیہٴ کریمہ کا معنی یہی ہے: “یقينا یہ قرآن اس راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو
) بالکل سيدها ہے” ( ٣
البتہ یہ بهی ذکر کرنا ضروری ہے کہ احادیث اور تفاسير کے درميان کسی قسم کا کوئی
اختلاف نہيں پایا جاتا۔ اس ليے کہ ریسمان الٰہی سے مراد الله تعالیٰ کی ذات پاک سے وہ ہر
قسم کے ارتباط کا ذریعہ ہے، خواہ اسلام ہو یا قرآن یا پيغمبر (ص) اور اہل بيت پيغمبر، دوسری
تعبير ميں جو کچه ذکر ہوا ہے خدا سے ارتباط پيدا کرنے کے وسيع مفہوم ميں حبل الله کے
معنی سے نشاٴة پانا موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
) ١(۔ امالی شيخ طوسی، ص ٢٧٢ (مجلس نمبر ١٠ ، حدیث ۵١٠ (
٢(۔ معانی الاخبار، ص ١٣٢ ۔ (
٣(۔سورئہ اسراء، آیت ٩۔ (
عاً وَ لاٰ ۶۔ تفسير الدر المنثور ميں آیہٴ کریمہ کے ذیل ميں <وَ اعتَْصِمُوا بِحَبلِْ اللہّٰ جَمی
تَفَرَّقُوا> ابن ابی شيبة اور ابن جریر ابن سعيد خدری سے رسول اکرم (ص) سے روایت کی
گئی ہے کہ آن حضرت (ص) نے فرمایا: “کِ اٰتبُ اللہِّٰ هُوَ حَبلُْ اللہِّٰ المَْمدُْودُ مِنَ السَّ مٰآءِ اِلَی الاَْرضْ“ِ
”کتاب خدا وہی الله کی رسی ہے جو آسمان سے زمين کی طرف کهنچی ہوئی ہے”۔
)١)
٧۔ انہوں نے اس طرح ابن ابی شيبہ اور ابی شریح خزاعی سے نقل کيا ہے کہ حضرت
کُمْ فَتَمَسَّکُوا بِہِ فَاِنَّکُمْ رسول خدا نے فرمایا: “اِنَّ هَ اٰ ذ القُْرآْنَ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِاللہِّٰ وَطَرَفُہُ بِاَیدْی
لَن تَضِلُّوا وَلَن تَضِلُّوا بَعدَْہُ اَبَداً “
”یقينا یہ قرآن ایک سبب اور وسيلہ ہے جس کا ایک حصہ خدا کے ہاته (قدرت) ميں ہے
اور اس کا دوسرا حصہ تمہارے ہاته ميں ہے لہٰذا اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تاکہ ثابت اور
) پابرجا رہو اور اس کے بعد کبهی بهی گمراہ نہ ہو”۔ ( ٢
٨۔ حضرت سجاد امام زین العابدین - نے ایک حدیث کے ضمن ميں فرمایا: “وَحَبلُْ اللہِّٰ هُوَ
) الْقُرْآنُ” ۔ “ریسمان الٰہی وہی قرآن ہے”۔ ( ٣
٩۔ تفسير الدر المنثور ميں طبرانی سے انہوں نے زید ابن ارقم سے اور انہوں نے پيغمبر
اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: “اِنِّي لَکُم فَرَطٌ وَاِنَّکُم وَارِدُونَ عَلیَّ الحَْوضَْ ،
لَ : وَمَا الثَّقَ لاٰنِ اٰی رَسُولَ اللہِٰ ؟ّ اٰقلَ: اَلاْ کْبَرُ کِتٰابُ اللّٰہِ فَانظُْرُوا کَيفَْ تُخَلِّفُونی فی الثَّقَلَينِْ ” قی
کُم ، فَتَمَسَّکُوا بِہِ لَنْ عَزَّوَجلَّ ، سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِاللہِّٰ ، وَ طَرَفُہُ بِاَیدْی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير در المنثور، ج ۴، ص ۶٠ ۔ (
٢(۔ تفسير در المنثور، ج ۴، ص ۶٠ ۔ (
٣(۔ معانی الاخبار ص ١٣٢ ۔ (
تَ اٰزلُ وَلَن تَضِلُّوا ؛ وَالاَْصغَْرُ عِترَْتی ، وَاِنَّهُمَا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ ، وَسَاٴَلتُْ لَهُ مٰا اٰ ذکَ
) فَلاٰ تُقَدِّمُوهُمٰا فَتُهلِکُوا وَلاٰ تَعَلِّمُوهُمٰا فَاِنَّهُمٰا اَعْلَمُ مِنْکُمْ”: ( ١ ، رَبّی
” جب تم ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوگے تو ميں تم ميں سے دو سنگين امانت کے
بارے ميں دقت سے حفاظت کرنے کا مطالبہ کروں گا؟
دریافت کيا گيا: یا رسول الله وہ سنگين شے کيا ہے؟ فرمایا: “ان دونوں ميں بڑی چيز الله
تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجيد) ہے جس کا ایک گوشہ اور کنارہ الله کے ہاته (قدرت و اختيار) ميں
ہے اور اس کا دوسرا گوشہ تمہارے ہاته ميں ہے، لہٰذا اس سے متمسک رہو تو کبهی بهی
گمراہ نہ ہوگے اور ان دونوں ميں چهوڻی چيز ميری عترت اور اہل بيت ہيں اور وہ دونوں کبهی
بهی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے۔ اور
اس بات کا ميں نے اپنے پروردگار سے ان دونوں کے بارے ميں سوال کيا تها، لہٰذا ان دونوں سے
آگے نہ بڑهو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ انہيں تعليم دو کيونکہ وہ دونوں تم سے علم ميں بہت
بڑهے ہوئے ہيں”۔
١٠ ۔ ینابيع المودة ميں نوادر الاصول سے اپنے سلسلہٴ اسناد کے ساته حذیفہ ابن اسيد
غفاری سے روایت کی ہے کہ: جب رسول خدا (ص) حجة الوداع اور آخری حج سے واپس
رُ اِنَّہُ فُ الْخَبی تشریف لائے تو خطبہ پڑها پهر ارشاد فرمایا: “اَیُّهَا الناٰسُّ اِنَّہُ قَد اَنبَْاٴَنِیَ اللَّطی
ہِ مِن قَبلُْ، وَاِنّیْ اَظُنُّ اَنّی یُوشَکُ اَن اُدعْ یٰ لَم یَعمُْر نَبِیٌّ اِلامِّٰثلَْ نِصفِْ عُمرِْ النَّبِیِّ الَّذی یَلی
نَ تَرِدُونَ عَلَیَّ عَنِ الثَّقَلَينِْ ، فَانظُْرُوا بَ، وَاِنّی فَرطُْکُم عَلَی الحَْوضِْ وَاِنّی سٰائلُکُم حی فَاُجی
هِ مٰا ، اَلثِّقلُْ الاْکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ عَزَّوَجَلَّ سَبَبٌ طَرفُْہُ بِيَدِاللہِّٰ تَ اٰ عل یٰ وَ کَيفَْ تُخلِْفُوني فی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ تفسير الدر المنثور، ج ۴، ص ۶٠ ۔ (
کُم فَاستَْمسِْکُوا بِہِ وَ لاٰ تَضِلُّوا وَ لاٰ تُبَدِّلُوا وَ عِترَْتی اَهلُْ بَيتْي فَاِنَّہُ قد اَنبَْاٴَنِیَ اللَّطيفُ طَرَفٌ بِاَیدْی
) الخبيرُ اَنَّهُما لَن یَفتَْرِ اٰق ، حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ”: ( ١
”اے لوگو! مجهے (خدائے) لطيف و خبير نے خبر دی ہے کہ ہر نبی کو اپنے سے گزشتہ
نبی کے مقابلہ ميں نصف زندگی عطا ہوتی ہے۔ قریب ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے بلاوا
آجائے تو ميں اس پر لبيک کہوں گا ميں حوض کوثر پر (قيامت کے دن) تم سے پہلے موجود ہوں
گا جب وہاں تم ميرے پاس وارد ہوگے تو ميں تم سے دو چيزوں کے بارے ميں سوال کروں گا
دیکهو! ميرے بعد ان دونوں سے کيا سلوک کرتے ہو ان دونوں ميں بڑی چيز الله تعالیٰ کی کتاب
(قرآن مجيد) ہے اس کا ایک گوشہ اور حصہ الله تعالیٰ کے دست قدرت ميں ہے اور دوسرا سرا
تمہارے ہاته ميں ہے اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور اس (کتاب خدا) کو
دوسری چيزوں سے تبدیل نہ کرو اس طرح ہماری عترت اور ميرے اہل بيت سے بهی، مجهے
خدائے لطيف و خبير نے آگاہ کيا ہے کہ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر
ميرے پاس وارد ہوں گے”۔
١١ ۔ قندوزی نے ابن عقدہ سے، عروہ ابن خارجہ سے انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام
الله عليہا سے روایت کی ہے کہ : ميں نے اپنے پدر گرامی کو آپ کی اس بيماری کے دوران
جس ميں آپ کا انتقال ہوگيا تها فرماتے ہوئے سنا جب کہ آں حضرت کا حجرئہ مبارک ان کے
اصحاب سے پُر تها فرما رہے تهے:
”اَیُّهَا الناٰسُّ یُوشَْکُ اَن اُقبَْضَ قَبضْاً سَریعاً وَقَد قَدَّمتُْ اِلَيکُْمُ القَْولَْ مَعذِْرَةً اِلَيکُْم اَ لاٰ وَاِنّی
ثُمَّ اٴخذ بيد علیّ عليہ السلام فقال: اَهلَْ بَيتْی عَزَّوَجَلَّ وَ عِترَْتی یکُم کِ اٰتبَ رَبّی مُخَلِّفٌ ف
“ هٰ اٰ ذ عَلِیٌّ مَعَ القُْرآْنِ وَالقُْرآْن مَعَ عَلِیٍّ عليہ السلام لاٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠٠ ، المعجم الکبير، طبرانی، ج ٣، ص ١٨٠ ، مجمع الزوائد، ج ٩، ص (
١۶۴ ۔
) هِ مٰا ” : ( ١ فی یَفتَْرِ اٰقنِ حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ ، فَاَسئَْلُکُم اٰ م تُخَلِّفُونی
”اے لوگو! قریب ہے کہ ميرا دنيا سے عنقریب انتقال ہوجائے عذر اور حجّت تمام کرنے کے
ليے تمہيں آگاہ کر رہا ہوں کہ ميں تم ميں الله تعالیٰ کی کتاب اور اپنی عترت جو ميرے اہل بيت
ہيں چهوڑنے والا ہوں۔ پهر آنحضرت نے حضرت علی - کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا: یہ علی -
قرآن کے ساته ہے اور قرآن علی - کے ساته ہے یہ دونوں کبهی بهی جدا نہ ہوں گے یہاں تک
کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے (روز قيامت) ميں تم سے باز پرس کروں گا کہ تم نے ان
کے بارے ميں ميرا کيا خيال رکها تها”۔
١٢ ۔ انہوں نے اسی طرح جابر ابن انصاری سے روایت کی ہے کہ : ميں رسول اکرم (ص)
کے آخری حج کے موقع پر ان کے ہمراہ تها۔ وہاں سے واپسی کے وقت جب آپ جحفہ کے مقام
پر پہنچے تو وہاں اتر پڑے پهر ایک خطبہ پڑها اور فرمایا :
”اَیُّهَا الناٰسُّ اِنّی مَسئُْولٌ وَاَنتُْم مَسئُْولُونَ ، فَ مٰا اَنتُْم اٰقئِلُونَ ؟ اٰقلُوا نَشهَْدُ اَنَّکَ بَلَّغتَْ وَ
کُمُ الثَّقَلَينِْ ، اِن نَصَحتَْ وَاَدَّیتَْ۔ اٰقلَ: اِنِّي لَکُم فَرَطٌ وَاَنتُْم اٰورِدُونَ عَلَیَّ الحَْوضَْ ، وَاِنّی مُخَلِّفٌ فی
وَاِنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ ، تَمَسَّکتُْم بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا ، کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَعِترَْتِي اَهلَْ بَيتْی
ثُمَّ قٰالَ: اٴَلَستُْم تَعلَْمُونَ اَنّیِ اَولْ یٰ بِکُم مِن اَنفُْسِکُم ؟” قٰالُوا: بَل یٰ ف اٰ قلَ اٰ خِذاً بِيَد عَلِیٍّ عليہ
) السلام: “مَن کُنتُْ مَوُ لاٰہُ فَعَلِیٌّ مَو اْٰلہُ ” ثُمَّ قٰالَ: “اَللهُّٰمَّ وَالِ مَن اٰولاٰہُ وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ” ( ٢
اے لوگو! مجه سے سوال کيا جائے گا اور تم سے بهی باز پرس ہوگی، لہٰذا تم لوگ کون
سی بات کہتے ہو؟
لوگوں نے عرض کيا: ہم گواہی دیتے ہيں کہ آپ نے تبليغ کی نصيحت کی اور مکمل طور
پر ان چيزوں کو ادا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٢۴ ۔ جواہر العقدین، ج ٢، ص ١٧۴ ۔ (
٢(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٢۶ ، جواہر العقدین، ج ٢، ص ١۶٩ ۔ (
فرمایا۔ پهر فرمایا: “ميں تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا اور تم ميرے پاس حوض کوثر
پر وارد ہوگے، ميں تم ميں دو گراں قدر چيزیں چهوڑے جارہا ہوں اگر ان دونوں کے دامن سے
متمسک رہو گے تو ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب خدا ہے دوسری ميری عترت، جو ميرے
اہل بيت ہيں جو کبهی بهی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر
پر وارد ہوں گے۔
پهر فرمایا: “کيا تم لوگ نہيں جانتے ہو کہ ميں تمہارا سرپرست اور تمہاری جانوں پر اولیٰ
بالتصرف ہوں؟” تمام لوگوں نے عرض کيا: ہاں ایسا ہی ہے اس کے بعد حضرت امير المومنين
علی (عليہ السلام) کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا: “جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی
بهی اس کے مولا اور سرپرست ہيں” پهر فرمایا: “اے خدا! تو اس کودوست رکه جو اس کو
دوست رکهے تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے”۔
١٣ ۔ خوارزمی سليمان اعمش سے ، حبيب ابن ثابت سے، ابو طفيل ( ١) سے انہوں نے
زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ : جب رسول الله (ص) آخری حج سے واپس تشریف لائے تو
غدیر خم پر قيام فرمایا اور منبر بنانے کا حکم دیا پهر فرمایا: “کَاٴَنّي قَد دُعيتُ فَاَجَبتُْ، اِنّی قَد تَرَکتُْ فِيکُْمُ الثِّقَلَينِْ ، اَحَدُهُ مٰا اَکبَْرَ مِنَ الآْخَرِ، کِ اٰتبَ اللہِّٰ وَ عِترَْتِی ، اَہلَْ بَيتِْی فَانظُْرُوا کَيفَْ تُخلِْفُونی
هِ مٰا فَانَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضْ“ فی
” ثُمَّ قٰالَ“ اِنَّ اللہّٰ عَزَّوَجَلَّ مَو لْاٰیَ وَاَنَا وَلِیٌّ کُلِّ مُوٴمِْنٍ وَمُوٴمِْنَةٍ“
اَللهُّٰمَّ وَالِ مَن اٰولاٰہُ ، فَ هٰ اٰ ذ وَلِيُّة ثُمَّ اَخَذَ بِيَدِ عَلِیٍّ عليہ السلام فَ اٰ قلَ: “ مَن کُنتُْ وَلِيَّة
وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ”فَقُلتُْ اَنتَْ سَمِعتَْ لٰذِکَ مِن رَسُولِ اللہّٰ (ص) ؟ فَ اٰ قلَ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة کے نسخہ ميں “ابو الفضيل” ہے (ج ١، ص ١٠۵ )۔ (
) نَعَم وَ اٰ م اٰ کنَ فی الدَّو حْٰاتِ ( ١) اَحَدٌ اِلا قَد رَآہُ بِعَينِْہِ وَ سَمِعَہُ بِاُذُنِہِ”( ٢
”گویا ميرا پروردگار کی طرف سے بلاوا آگيا اور ميں نے اس کی دعوت پر لبيک کہا، یقينا
ميں تمہارے درميان دو گراں قدر چيزیں چهوڑنے والا ہوں، ایک دوسری سے زیادہ بڑی ہے، ایک
کتاب خدا (قرآن کریم) اور دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، دیکهو تم ان کے بارے ميں
ميرا کيا لحاظ رکهتے ہو یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض
کوثر پروارد ہوں“
پهر فرمایا: خداوند متعال ميرا مولا ہے اور ميں ہر مومن اور مومنہ کا مولا و سرپرست
ہوں”۔
پهر رسول خدا (ص) نے حضرت علی کا دست مبارک پکڑ کر فرمایا: “ميں جس جس کا
ولی اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کا ولی اور سرپرست ہے، اے خدا! تو اس کو دوست
رکه جو اس کو دوست رکهے اور تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے”۔
پهر ميں (ابو الفضيل) نے کہا تم نے رسول خدا (ص) کی اس حدیث کو سنا؟ زید نے
کہا: “ہاں جو شخص بهی وہاں موجود تها اس نے اپنی آنکه سے دیکها اور اپنے کان سے سنا
تها”۔
١۴ ۔ قندوزی نے ینابيع المودة ميں کتاب مودة القربیٰ سے جبير ابن مطعم سے روایت کی
کُمُ بَ ، وَاِنّی اٰترِکٌ فی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: “ اِنّی اوُشَکُ اَن اُدعْ یٰ فَاُجی
) هِ مٰا” : ( ٣ فی الثّقَلَينِْ کِ اٰتبَ رَبِّ اٰن وَعِترَْتِی اَهلَْ بَيتْی ، فَانُْظروا کَيفَْ تَحفَظُونْی
”عنقریب” مجهے بلایا جائے گا اور ميں لبيک کہوں گا ميں تم ميں دو گراں قدر امانت
چهوڑنے والا ہوں ایک اپنے پروردگار کی کتاب جو قرآن ہے اور دوسری ميرے عترت جو ميرے اہل
بيت ہيں،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ “دوحہ” کی جمع ہے جس کا معنی بڑے درخت کے ہيں، سائبان، خيمہ اور بڑی چادر (لسان (
) العرب، ج ۴، ص ۴٣٧
٢(۔ مناقب ابن خوارزمی، ص ١۵۴ ، مناقب ابن مغازلی، ص ١۶ ، مستدرک الصحيحين، ج ٣، ص ١٠٩ ۔ (
٣(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠٢ ، مودّة القربی، ص ١۴ ۔ (
دیکهو ان کے بارے ميں ميرا کيا پاس و لحاظ رکهتے ہو”۔
١۵ ۔ ابن مغازلی نے اپنی سند کے ساته زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کہ : پيغمبر
اکرم (ص) آخری حج کے موقع پر مکہ مکرمہ سے تشریف لائے اور حجفہ کے تالاب (غدیر خم)
کے کنارے نزول اجلال فرمایا اور ایک خطبہ پڑها اور اس کے ضمن ميں فرمایا: “اَیُّهَا الناٰسُّ
اَسئَْلُکُم عَن ثِقلَْیَّ کَيفَْ خَلَّفتُْمُوني فيهِ مٰا ؟“
کُم فَتَمَسَّکُوا بِہِ ، وَ لاٰ ”الاکْبَْرُ مِنهُْ مٰا کِ اٰتبُ اللہِّٰ سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِاللہّٰ تَ اٰ عل یٰ وَطَرَفُہُ بِاَیدْی
تَضِلُّوا وَالآْخَرُ مِنهُْ مٰا عِترَْتی“
”ثُمَّ اَخذَ بِيَدِ عَلیٍ عليہ السلام فَرَفَع هٰا ، فَ اٰ قلَ: مَن کُنتُْ مَو اْٰلہُ فَعَلِیٌّ مَو لْاٰہُ ، اَللهُّٰمَّ اٰولِ
) مَنْ وٰالاٰہُ وَعٰادِ مَنْ عٰادَاہُ ”قَالَ هٰا ثَ لاٰثاً:” ( ١
”اے لوگو! ميں تم سے اپنی دو گراں قدر امانت کے بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے
ان کے ساته کيا سلوک کيا، ان ميں سے سب سے بڑی کتاب جو قرآن کریم ہے وہ ایسا وسيلہ
ہے کہ جس کا ایک گوشہ الله تعالیٰ کے دست قدرت ميں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاته ميں
ہے لہٰذا اس سے تمسک اختيار کرو تو گمراہ نہ ہوگے اور دوسرے ميری عترت جو ميرے اہل بيت
ہيں”۔
پهر حضرت علی کا دست مبارک پکڑ کر بلند کرکے فرمایا: “اے خدا! جس جس کا ميں
مولا اور سرپرست ہوں یہ علی بهی اس کا ولی اور سرپرست ہے، تو اس کو دوست رکه جو اس
کو دوست رکهے اور تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے”۔ اس جملہ کو تين
مرتبہ فرمایا۔
١۶ ۔ سليم ابن قيس کا بيان ہے: حضرت علی - نے فرمایا: رسول اکرم (ص) نے عرفہ
کے دن اپنی قصویٰ نامی اونڻنی پر سوار ہوکر مسجد خيف ميں جو بات بيان فرمائی تهی وہ
غدیر کے دن فرمائی تهی اور جس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ مناقب ابن مغازلی، ص ١۶ (حدیث ٢٣ ) ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠۴ ۔ (
کُمُ تَرَکْتُ فی دن آپ کا انتقال ہوا تها ایک مفصل خطبہ کے درميان فرمایا: “اَیُّهَا الناٰسُّ اِنّی
هِ مٰا، الاْکبَْرِ مِنهُْ مٰا کِتابُ اللہِّٰ وَالاْصغَْرُ عِترَْتي اَهلُْ بَيتْي ، وَاِنَّ الثَّقَلَينِْ لَن تَضِلُّوا اٰ م ان تَمَسَّکتُْم ب
فَ الخَْبيرَ عَهِدَ اِلَیَّ اَنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ کَ هٰاتَينِْ ” اَشٰارَ بِالسَّباٰبَّتَينِْ “فَاِنَّ اللَّطی
اَحَدَهُ مٰا اَقدَْمُ مِنَ الآْخَرِ، فَتَمسَّکُوا بِهِ مٰا لَن تَضِلُّوا، وَ لاٰ تُقَدِّمُوا مِنهُْم وَ لاٰ تُخَلَّفُوا عَنهُْم وَ لاٰ تُعَلِّمُوهُم
) فَاِنَّهُم اَعلَْمُ مِنکُْم ”: ( ١
”اے لوگو! ميں تم ميں دو گراں قدر امانت چهوڑے جارہا ہوں اگر ان دونوں کے دامن سے
وابستہ رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان ميں سب سے بڑی کتاب خدا (قرآن مجيد) ہے اور
چهوڻی ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں، خدائے لطيف و خبير نے مجه سے عہد کيا ہے کہ یہ
دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض کوثر پر وارد ہوں گے”
اور اپنی انگشت شہادت اور درميانی انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا کہ ان ميں سے ایک
دوسرے پر مقدم ہے لہٰذا اگر ان دونوں سے متمسک رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے ان کے آگے
نہ بڑهو اور نہ ہی ان کو کسی چيز کی تعليم دو کيونکہ وہ تم لوگوں سے زیادہ جاننے والے
ہيں”۔
١٧ ۔ صاحب کتاب نظم در رالسمطين کہتے ہيں: زید ابن ارقم نے روایت کی ہے کہ حضرت
رسول اکرم (ص) نے آخری حج ميں ہماری طرف رخ کرکے فرمایا:
”اِنّی فَرَطَکُم عَلَی الحَْوضِْ فَاِنَّکُم تَبَعي وَاِنَّکُم تُوشَکُونَ اَن تَرِدُوا عَلَیَّ الحَْوضَْ فَاسئَْلُکُم عَن هِ مٰا“ ثِقلَْیَّ کَيفَْ خَلَّفتُْمُونی فی
نَ ، فَ اٰ قلَ: ما الثَّقَ لاٰنِ ؟ اٰقلَ: “الاْکبَْرِ مِنهُْ مٰا کِ اٰتبُ اللہِّٰ ، سَبَبٌ طَرَفُہُ یِبَدِ فَ اٰ قمَ رَجُلٌ مِنَ المُْ هٰاجِری
کُم ، وَالاْصَغَرُ عِترَْتي فَتَمَسَّکُوا بِهِ مٰا ، فَمَنِ اللہِّٰ وَطَرَفُہُ بِاَیدْی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ کتاب سليم ابن قيس، ص ٨۴ ، ینابيع المودة، ج ١، ص ١٠٩ ، غایة المرام، ج ١، ص ٢٢۶ ۔ (
استَْقبَْلَ قِبلَْتي وَاَ جٰابَ دَعوَْتي فَليَْستَْوصِ بِعِترَْتی خَيرْاً، فَ لاٰ تَقتُْلُوهُم وَ لاٰ تَقهَْرُوهُم وَ لاٰ تَقصُْرُوا عَنهُْم فَ الخَْبيرَ ، فَاَع طْٰاني اَن یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ کَ هٰاتَينِْ ، وَاَشٰارَ وَاِنِّی قَد سَئَلتُْ لَهُمَا اللَّطی
) بِالمُْسَبَّحتَينِْ ، اٰنصِرُهُ مٰا لی اٰنصِرٌ وَ خٰاذِلُهُما لي خٰاذِلٌ وَلِيُّهُ مٰا لي وَلِیٌ وَعَدُوُّهُ مٰا لي عَدُوُّ .( ١
)اے لوگو!) (ميں یقينا حوض کوثر پر تم سے پہلے موجود ہوں گا اور تم ميرے بعد آؤ گے ،
تم عنقریب ميرے پاس حوض کوثر پر آؤ گے ميں تم سے اپنی دونوں گراں قدر امانتوں کے بارے
ميں سوال کروں گا کہ تم نے ان سے کيسا سلوک کيا؟(
پهر مہاجرین ميں سے ایک شخص نے کهڑے ہوکر دریافت کيا: وہ دونوں گراں قدر امانتيں
کيا ہيں؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا “ان ميں سب سے بڑی کتاب خدا (قرآن کریم) جو ایسا وسيلہ
ہے کہ جس کا ایک گوشہ الله تعالیٰ کے دست قدرت ميں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاته
ميں ہے ان ميں چهوڻی ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں لہٰذا ان سے متمسک رہو تاکہ گمراہ
نہ ہو، جس نے ميرے قبلہ کو تسليم کيا اور ميری دعوت کو قبول کرليا تو وہ ميری عترت اور
ميرے اہل بيت کے ساته بهلائی سے پيش آئے، ان کوقتل نہ کرنا ان پر ظلم و ستم نہ کرنا ان
کے حق ميں کوتاہی نہ کرنا ميں نے ان دونوں کو خدائے لطيف و خبير سے طلب کيا ہے یہ
دونوں ميرے پاس اس طرح حوض کوثر پر وارد ہوں گے آنحضرت (ص) نے دونوں تسبيح پڑهنے
والی انگليوں سے اشارہ فرمایا ان دونوں کا ناصر و مددگار ميرا ناصر و مددگار ہے ان کو دوست
رکهنے والا مجهے دوست رکهنے والا ہے ان سے دشمنی رکهنے والا مجه سے دشمنی
رکهنے والا ہے۔
١٨ ۔ قندوزی رقم طراز ہيں: حذیفہ ابن اسيد غفاری کا بيان ہے: جب پيغمبر اکرم (ص)
آخری حج
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ نظم در رالسمطين، ص ٢٣٣ ، ینابيع المودّة، ج ١، ص ١١۶ ، کنز العمال، ج ١، ص ١٨٨ ، جواہر (
العقدین، ج ٢ ، ص ١۶٨ ۔
سے واپس آئے تو منبر کے اوپر تشریف لے جاکر فرمایا: “ یَا اَیَّهُا النّٰاسُ اِنّی مَسْوٴُولٌ واِنَّکُمْ
مَسوْٴُولُونَ ، فَ مٰا اَنتُْم اٰقئِلُونَ ؟” اٰقلُوا نَشهَْدُ اِنَّکَ قَد بَلَّغتَْ وَجَهَدتَْ وَنَصَحتَْ فَجَ اٰزکَ اللہُّٰ خَيرْاً ”فَ اٰ قل:َ
”اَلَيسَْ تَشهَْدُونَ اَن لاٰ اِ ہٰلَ اِلَّا اللہُّٰ وَاٴَنَّ مُحَمَّداً عَبدُْہُ وَرَسوْلُہُ وَاٴَنَّ جَنَّتَہُ حَقٌّ وَ اٰنرَہُ حَقٌّ
وَالبَْعثَْ بَعدَْ المَْوتِْ حَقٌّ؟” قٰالُوا: “بَل یٰ نَشهَْدُ بِ لٰ ذِکَ ” اٰقلَ: “اَللهُّٰمَّ اشهَْد ”ثُمَّ قالَ:
نَ وَاَنَا اَو لْٰ ی بِهِم مِن اَنفُْسِهِم ، فَمَن کُنتُْ اَیُّهَا الناٰسُّ اِنَّ اللہَّٰ مَو لْاٰیَ وَاَنَا مَولَْی المُْوٴمِْنی
مَو لْاٰہُ فَ هٰ اٰ ذ عَلِیٌّ مَو لْاٰہُ اَللهُّٰمَّ اٰولِ مَن اٰولاٰہُ وَ عٰادِ مَن عٰا اٰ دہُ ” ثُمَّ قالَ :
ہِ ”اِنّی فَرَطُکُم وَاِنَّکُم اٰورِدُونَ عَلَیَّ الحَْوضَْ حَوضٌْ اٴَعرَْضُ مِن اٰ م بَينَْ بُصرْ یٰ اِ لٰ ی صَن اْٰ عء فی
نَ تَرِدُونَ عَلَیَّ عَنِ الثَّقَلَينِْ ، فَانظُْرُوا کَيفَْ عَدَدَ النُّجُومِ قِد حْٰانِ مِن فِضَّةٍ ، وَاِنّی سٰائِلُکُم حی
کُم ، وَعِترَْتی اَہلَْ هِ مٰا ، اَلثِّقلُْ الاْکبَْرُ کِ اٰتبُ اللہِّٰ ، سَبَبٌ طَرَفُہُ بِيَدِ اللہِّٰ وَ طَرَفُہُ بِاَیدْی تُخْلِفُونی فی
بَيتْی فَاستَْمسِْکُوا بِهِ مٰا ، فَ لاٰ تَضِلُّوا ، اِنَّہُ نَبَّاٴَنِیَ اللَّطيفُ الخَْبيرُ اَنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتّ یٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ
) الحَْوضَْ ” :( ١
”اے لوگو! مجه سے سوال کيا جائے گا اور تم سے بهی باز پرس ہوگی لہٰذا تم کس بات
کے قائل ہو؟ لوگوں نے عرض کيا کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہيں کہ آپ نے الله کی راہ ميں
تبليغ رسالت کی کوشش فرمائی اور آپ نے اپنے نفس اور دشمن کے ساته جہاد کيا اور لوگوں
کو راہ راست کی نصيحت اور خير خواہی فرمائی الله تعالیٰ آپ کو جزائے خير عطا فرمائے” پهر
دریافت فرمایا:
”کيا تم لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ خدائے یکتا کے سوا کوئی معبود نہيں ہے اور
محمد الله کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١(۔ ینابيع المودة، ج ١، ص ١١٧ ، معجم کبير، طبرانی، ج ٣، ص ١٨٠ ، مجمع الزوائد، ج ٩، ص ١۶۴ ۔ (
بندے اور اس کے رسول ہيں، اس کی جنت حق ہے، اس کی جہنم حق ہے اور موت کے بعد
دوبارہ اُڻهنا حق ہے؟” لوگوں نے عرض کيا: ہاں اس بات کی ہم لوگ گواہی دیتے ہيں۔
آنحضرت (ص) نے فرمایا: “اے خدا! تو بهی گواہ رہنا” پهر فرمایا: “اے لوگو! یقينا خداوند
متعال ہمارا مولا اور سرپرست ہے اور ميں مومنوں کا مولا اور سرپرست ہوں اور ميں مومنين کے
نفسوں پر اولی بالتصرف ہوں لہٰذا جس جس کا ميں مولا اور سرپرست ہوں یہ علی ابن ابی
طالب - بهی اس کے مولا اور سرپرست ہيں، اے خدا! تو اس سے دوستی رکه جو اس سے
دوستی رکهے اور تو اس سے دشمنی رکه جو اس سے دشمنی رکهے” پهر فرمایا:
”ميں تم سے پہلے حوض کوثر پر موجود رہوں گا اور تم لوگ بهی ميرے پاس حوض کوثر
پر وارد ہوگے ایسا حوض جو بُصریٰ سے لے کر صنعا تک کے علاقے سے زیادہ وسيع و عریض
ہے اس ميں چاندی کے پيالوں کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہے”۔
جب تم لوگ ميرے پاس حوض کوثر پروارد ہو گے تو ميں تم سے دو گراں قدر امانتوں کے
بارے ميں سوال کروں گا کہ تم نے ان کے ساته کيا معاملہ کيا؟ اب دیکهو تمہارے پاس اس کا
کيا جواب موجود ہے؟ اور کيساسلوک کيا ہے؟ بڑی گراں قدر امانت کتاب خدا (قرآن کریم) ہے جو
ایسا وسيلہ ہے کہ جس کا ایک سرا خداوند متعال کے دست قدرت ميں ہے اور اس کا دوسرا
سرا تمہارے ہاته ميں ہے (اور اس کی چهوڻی گراں قدر امانت) ميری عترت جو ميرے اہل بيت
ہيں لہٰذا ان دونوں کا دامن پکڑے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو خدائے لطيف و خبير نے مجهے خبر دی ہے
کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز اور کبهی بهی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ ميرے پاس حوض
کوثر پر وارد ہوں گے”۔
١٩ ۔ حاکم نے مستدرک ميں اپنی سند کے ساته سلمہ ابن کہيل سے انہوں نے اپنے
باپ سے انہوں نے ابوطفيل سے انہوں نے ابن واثلہ سے سنا ہے کہ زید ابن ارقم کہتے تهے:
حضرت رسول اکرم (ص) نے مکہ و مدینہ کے درميان پانچ بڑے درختوں کے نزدیک نزول اجلال
فرمایا، پهر لوگوں نے درخت کے نيچے سے خار اور خس و خاشاک کو صاف کيا اس کے بعد
رسول خدا (ص) نماز عصر بجالائے خطبہ پڑهنے کے ليے کهڑے ہوئے: حمدو ثنائے پروردگار
بجالائے، موعظہ و نصيحت فرمائی جو کچه چاہتے تهے بيان کيا پهر فرمایا: “ اَیُّهَا النّٰاسُ اِنّی تٰارِکٌ
کُم اَمرَْینِْ لَن تَضِلُّوا اِنِ اتَّبَعتُْمُوهُ مٰا ، وَهُ مٰا کِ اٰتبُ اللہِّٰ وَاَهلُْ بَيتْي عِترَْتي (ثُمَّ قٰالَ) اَتَعلَْمُونَ اَنّي فی
اَوْلٰی بِالْمُوٴْمِنينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ، ثَلاٰثَ مَرّٰاتٍ ؟ قٰالُوا بَلٰی ، فَقالَ رسول اللّٰہ (ص) “ مَنْ کُنْتُ مَوْ لاٰہُ
) فَعَلِیٍّ مَو لْاٰہُ ” ( ١
”اے لوگو! ميں تمہارے درميان دو اہم امانتيں چهوڑ رہا ہوں، اگر ان دونوں اہم امانتوں کی
پيروی کروگے تو کبهی بهی گمراہ نہ ہوگے، ان ميں سے ایک کتاب خدا (قرآن کریم) ہے اور
دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں”۔
پهرفرمایا: “کيا تمہيں معلوم ہے کہ ميں تمام مومنين کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف اور ان
کا سرپرست ہوں” اس جملہ کی تين مرتبہ تکرار کی، سب نے کہا: ہاں، پهر رسول خدا (ص)
نے فرمایا: “ميں جس جس کے نفس پر اولیٰ بالتصرف اور ان کا سرپرست ہوں، یہ علی بهی
اس اس کے نفس پر اولی بالتصرف اور ان کے سرپرست ہيں”۔
٢٠ ۔ مسند احمد حنبل ميں زید ابن ثابت سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول اکرم (ص)
نے فرمایا :
فَتَينِْ : کِ اٰتبَ اللہِّٰ ، حَبلٌْ مَمدُْودٌ اٰ م بَينَْ السَّمآءِ وَالاَْرضْ ( اَو اْٰ م بَينَْ کُم خَلی ”اِنّی تٰارِکٌ فی
) السَّمآءِ اِلَی الْاَرْضِ ) وَعِترَْتي اَهلَْ بَيتْي ، وَاِنَّهُ مٰا لَن یَفتَْرِ اٰق حَتیّٰ یَرِ اٰ د عَلَیَّ الحَْوضَْ” :( ٢
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
، ١(۔ مستدرک صحيحين، ج ٣ ص ١٠٩ ، مسند احمد، ج ٣، ص ١٧ ، الصواعق المحرقہ، ص ١۵٠ (
جواہر العقدین، ج ٢، ص ١۶٧ ، ینابيع المودة، ج ١، ص ١١۵ ۔
٢(۔ مسند احمد، ج ۵، ص ١٨٢ ، کتاب الولایة، ابن عقدہ، ص ٢٠٩ ، ینابيع المودة، ج ١، ص ١١٩ ۔ (
”ميں تمہارے درميان دو خليفہ بطور یادگار چهوڑنے والا ہوں، ایک کتاب خدا ہے جو رسی
کی طرح آسمان اور زمين کے درميان کهنچی ہوئی ہے (یا آسمان اور زمين کے درميان ہے)
دوسری ميری عترت جو ميرے اہل بيت ہيں یہ دونوں جب تک ميرے پاس حوض کوثر پر نہ پہنچ
جائيں جدا نہ ہوں گے”۔
|
|