ظہورمہدی کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے
جو لوگ شیعوں کی اندھی دشمنی میں مبتلا ہوکر شیعہ حقائق کا مطالعہ کرتے ہیں یا دشمنان اسلام کے سیاسی اغراض پر مبنی مسموم افکار کی ترویج کرتے ہیں وہ جادہٴ تحقیق سے منحرف ہوکر اپنے مقالات یا بیانات میں یہ اظہار کرتے ہیں کہ ظہور مہدی کا عقیدہ ،شیعہ عقیدہ ہے اوراسے تمام اسلامی فرقوں کا عقیدہ تسلیم کرتے ہوئے انھیں زحمت ہوتی ہے۔
کچھ لوگ تعصب ونفاق کے علاوہ تاریخ وحدیث اورتفسیر ورجال سے ناواقفیت،اسلامی مسائل سے بے خبری اور عصر حاضر کے مادی علوم سے معمولی آگاہی کے باعث تمام دینی مسائل کو مادی اسباب وعلل کی نگاہ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں اور اگر کہیں کوئی راز یا فلسفہ سمجھ میں نہ آئے توفوراً تاویل وتوجیہ شروع کردیتے ہیں یا سرے سے انکار کربیٹھتے ہیں۔
اس طرح اپنے کمرہ کے ایک کونے میں بیٹھ کر قلم اٹھاتے ہیں اور اسلامی مسائل سے متعلق گستاخانہ انداز میں اظہار نظر کرتے رہتے ہیں جب کہ یہ مسائل ان کے دائرہ کا رومعلومات سے باہر ہیں، اس طرح یہ حضرات قرآن وحدیث سے ماخوذ مسلمانوں کے نزدیک متفق علیہ مسائل کا بہ آسانی انکار کردیتے ہیں۔ انھیں قرآن کے علمی معجزات، اسلامی قوانین اور اعلیٰ نظام سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے لیکن انبیاء کے معجزات اور خارق العادہ تصرفات کے بارے میں گفتگو سے گریز کرتے ہیں تاکہ کسی نووارد طالب علم کے منہ کا مزہ خراب نہ ہوجائے یا کوئی بے خبر اسے بعیداز عقل نہ سمجھ بیٹھے۔
ان کے خیال میں کسی بات کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر آدمی سمجھ سکے یا ہر ایک دانشوراس کی تائید کرسکے یا ٹیلی اسکوپ، مائیکرو اسکوپ یا لیبوریٹری میں فنی وسائل کے ذریعہ اس کا اثبات ہوسکے۔
ایسے حضرات کہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو انبیاء کو ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہئے اور حتی الامکان ان کی جانب معجزات کی نسبت نہیں دینا چاہئے بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ دنیا کے حوادث کی نسبت خداوندعالم کی جانب بھی نہ دی جائے یہ لوگ خدا کی قدرت، حکمت، علم، قضاوقدر کا صریحی تذکرہ بھی نہیں کرتے جو کچھ کہنا ہوتا ہے مادہ سے متعلق کہتے ہیں۔
خدا کی حمد وستائش کے بجائے مادہ اور طبیعت (Nature)کے گن گاتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی لے میں لے ملا سکیں، جنہوں نے تھوڑے مادی علوم حاصل کئے ہیں یا فزکس، کمیسٹری، ریاضی سے متعلق چند اصطلاحات، فارمولے وغیرہ سیکھ لئے ہیں اوراگر انگریزی یا فرانسیسی زبان بھی آگئی تو کیا کہنا۔
یہ صورت حال کم وبیش سبھی جگہ سرایت کررہی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں، عموماً اس صورت حال کا شکار کچے ذہن کے وہ افراد ہوتے ہیں جو علوم قدیم وجدید کے محقق تو نہیں ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی نظریہ یا کسی شخص کی رائے کو سو فیصدی درست مان لیتے ہیں چاہے اس کا مقصد سیاسی اور استعماری ہی رہا ہو، ہمارے بعض اخبارات، رسائل، مجلات و مطبوعات بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر انہیں عوامل سے متاثر ہو کر سامراجی مقاصد کی خدمت میں مصروف ہیں (۱)
----------
(۱) ایک مصری دانشور کہتا ہے کہ جب میں فرانس زیرِ تعلیم تھا تو ماہ رمضان میں ایک پروگرام میں شرکت کی، کالج کے پرنسپل نے میرے سامنے سگریٹ پیش کی تو میں نے معذرت کر لی،اس نے وجہ دریافت کی تو میں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ ہے اور میں روزہ سے ہوں،اس نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم بھی ان خرافات کے پابند ہوگے،پروگرام کے بعد ایک ہندوستانی پروفیسر نے جو اس پروگرام میں شریک تھے مجھ سے کہا کہ کل فلاں مقام پر مجھ سے ملاقات کرلینا، اگلے روز میں پروفیسر سے ملاقات کے لئے گیا وہ مجھے چرچ لے گئے اور دوسرے ایک شخص کو دکھا کر پوچھا، پہچانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ میں نے کہا ہمارے پرنسپل ہیں، پروفیسر نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا عبادت میں مشغول ہیں،پروفیسر نے کہا یہ لوگ ہمیں تو دینی آداب و رسوم ترک کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور خود پابندی کے ساتھ مذہبی امور بجا لاتے ہیں۔یہ خطرناک بیماری جو اغیار اور سامراجی طاقتوں کے پروپیگنڈہ کے
ذریعہ ہمارے اندر پھیلتی جا رہی ہے اوران کی صنعتی ترقی سے مرعوب ہو کر ہم اپنی کمزوری کا احساس کرنے لگے ہیں اور یہ احساس دیمک کی طرح ہماری حیثیت، شخصیت اور ترقی پذیر اقوام کی آزادی ٴ فکر کو نابود کر رہا ہے
انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ اور ان کے حکام کی علمی، عقلی، فلسفی اور دینی معلومات بالکل سطحی ہوتی ہےں، وہ اکثر بے خبر اور مغرض ہوتے ہیں (بلکہ ایک رپورٹ کے مطابق ۸۱/ فیصدافراد ضعف عقل و اعصاب ا ور دماغ میں مبتلا ہیں)اور اپنے پست اور انسانیت سے دور
بعض حضرات تو مغربی تہذیب کے دھارے میں اس طرح بہہ گئے ہیں کہ خود ان سے آگے بڑھکر دیگ سے زیادہ چمچہ گرم کے مصداق نظر آتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس بیماری سے وسیع پیمانہ پر مقابلہ کی ضرورت ہے ،ایسا مقابلہ جس کی بنیاد عقل ومنطق اور اسلامی آداب و احکام کے احترام پر استوار ہو۔
حقیقت یہی ہے کہ بعض مشرقی افراد جب اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہیں تو مغربی تمدن کے سامنے سپرانداختہ ہو جاتے ہیں اور اپنی قومی و مذہبی عادات، اخلاق، لباس وغیرہ سب کچھ تج کر مغربی تہذیب کو فخر کے ساتھ اپنا لیتے ہیں اور اپنے ماحول میں بھی انہیں کا طرز معاشرت اختیار کر لیتے ہیں لیکن مغربی افراد کا چونکہ ڈنکہ بجتا ہے لہذا وہ اپنے مال و ثروت، علم و صنعت اور مادی ترقی پر اکڑتے ہیں اور اپنے عادات و اطوار کتنے ہی پست، حیوانی اور خرافاتی کیوں نہ ہوں اہل مشرق کے سامنے فخر کے ساتھ انہیں بجا لاتے ہیں۔
بہت سے مشرقی افراد مغرب سے علم و ٹکنالوجی سیکھنے کے بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو ہی اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں، کیا ہی اچھا ہوتا کہ اقوام مشرق ،مغرب پرست ہونے کے بجائے علم و صنعت و ٹکنالوجی حاصل کر کے اپنی زمین، معدنیات، سمندر، ہوا کے خود ہی مالک ہوتے یہ لوگ اتنے مغرب زدہ اور مغرب پرست ہوتے ہیں کہ ان میں اتنی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ٹائی وغیرہ کے بجائے اپنا قومی لباس پہن کر ان کے پروگرام میں شرکت کریں،معدودے چند افراد ہی اپنا لباس ترک نہیں کرتے جیسے ہندوستان کے سابق صدرڈاکٹر ذاکر حسین یا حجاز ،مراکش اور بعض دیگر ممالک کے سربراہ بھی بین الاقوامی کانفرنسوں میں اپنا قومی لباس پہن کر شریک ہوتے رہے، جب کہ اکثریت ایسے سربراہانِ مملکت کی ہے جو اہل مغرب کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، انہیں احساس ہی نہیں ہے کہ احساس کمتری کتنی بڑی لعنت ہے اور عزت نفس کتنا بڑا سرمایہ
کتنا محترم ہے وہ مسلم سربراہ جسکے اعزاز میں اگر مغربی سربراہانِ مملکت دعوت کرتے ہیں تو دسترخوان پر شراب نہیں ہوتی، کتنا قابل فخر ہے وہ سربراہ جو ماسکو میں کمیونسٹ حکومت کا مہمان ہونے کے باوجود نماز ادا کرنے کے لئے مسجد کا رخ کرتا ہے، کتنا باعظمت و شرافت ہے وہ سربراہ جو امریکا میں بھی چرچ میں داخل نہیں ہوتا اور سودی قرض سے پرہیز کرتا ہے، کتنا عظیم مردآہن ہے وہ مسلمان کہ جو اقوام متحدہ کی کانفرنس میں اپنی تقریر کا آغاز ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ سے کرتا ہے۔
کتنی پست اور حقیر ہے وہ مسلمان قوم جو قرآن پر تو فخر کرتی ہے نماز میں روزانہ بیس مرتبہ (گذشتہ صفحہ کا بقیہ)”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کہتی ہے مگر اس کی کتابوں کے سر ورق سے یہ نورانی جملہ غائب ہے، کتنے ذلیل و خوار ہیں وہ لوگ جو اغیار کی روش اختیار کرتے ہیں کتنی حقیر ہے وہ قوم جو اپنی مذہبی اور قومی روش اورلباس کو چھوڑ کر اپنے پروگراموں میں دوسروں کا لباس اور طور طریقہ اختیار کرتی ہے اور جس کے مرد و زن اپنی شخصیت اور اعتماد نفس سے محروم ہیں۔
سیاسی مقاصد کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر اپنے سیاسی مفادات کے مطابق گفتگو کرتے ہیں، البتہ جو لوگ ذی علم و استعداد، محقق و دانشور ہیں ان کا معاملہ فحشاء و فساد میں ڈوبی اکثریت سے الگ ہے۔
ان کے معاشرہ میں ہزاروں برائیاں اور خرافات پائے جاتے ہیں پھر بھی وہ عقلی، سماجی، اخلاقی اور مذہبی بنیاد پر مبنی مشرقی عادات و رسوم کا مذاق اڑاتے ہیں۔
مشرق میں جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اسے ”مغرب زدہ ہونا“ یا مغرب زدگی کہا جاتا ہے جس کی مختلف شکلیں ہیں اور آج اس سے ہمارا وجود خطرے میں ہے، انہوں نے بعض اسلامی ممالک کی سماجی زندگی سے حیاو عفت اور اخلاقی اقدار کو اس طرح ختم کر دیا ہے کہ اب ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے جو اندلس (اسپین) کے اسلامی معاشرہ کا ہوا تھا۔ (۱)
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے زمانہ میں ایسے افراد جن کی معلومات اخبارات و رسائل سے زیادہ نہیں ہے اور انہوں نے مغربی ممالک کا صرف ایک دو مرتبہ ہی سفر کیا ہے،مغرب زدگی، مغرب کے عادات و اخلاق کے سامنے سپرانداختہ ہوکر موڈرن بننے کی جھوٹی اور مصنوعی خواہش، جو دراصل رجعت پسندی ہی ہے کو روشن فکری کی علامت قرار دیتے ہیں،اور اغیار بھی اپنے ذرائع کے ذریعہ مثلاً اپنے سیاسی مقاصد کے لئے انہیں مشتشرق، خاورشناس کا ٹائٹل دے کر ان جیسے
----------
(۱) اندلس کی نام نہاد اسلامی حکومت نے کفار اور اغیار سے اسلامی اصولوں کے برخلاف ایسے معاہدے کئے کہ اس کے نتیجہ میں عیسائیت کے لئے دروازے کھل گئے۔ فحشاء و فساد اور شراب نوشی سے پابندی ختم ہو گئی عیسائیوں کی طرح سے مرد و عورت آپس میں مخلوط ہو گئے راتوں کو عیش و عشرت، مردوں اور عورتوں کے مشترکہ پروگرام، رقص و سرور، ساز و موسیقی نے اسلامی غیرت و حمیت کا خاتمہ کر دیا۔ غیر ملکی مشیران اسلامی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی کرنے لگے اور آخر کاراسلامی اندلس ایک عیسائی مملکت میں تبدیل ہو گیا اور اسلامی علم و تمدن کا آفتاب اس سرزمین پر اس طرح غروب ہوا کہ آج اسلامی حکومت کے زرین دور کی مساجد، محلّات اور دیگر عالیشان عمارتوں جیسی یادگار وں کے علاوہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔ البتہ یہ تاریخی اور یادگار تعمیرات آج بھی اپنی مثال آپ اور اس مملکت کے عہد زریں کے علم و صنعت کا شاہکار ہیں۔ خدا کی لعنت ہو فحشاء و فساد، ہوس اقتدار اور نفاق پرور ایسے ضمیر فروش اور اغیار پرست حکام پر
افراد کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں۔
ظہور حضرت مہدی کے بارے میں بھی ادھر ہمارے سنّی بھائیوں میں سے کچھ مغرب زدہ احمد امین، عبدالحسیب طٰہٰ حمیدہ جیسے افراد نے امام مہدی کے متعلق روایات نقل کرنے کے باوجود تشیع پر حملے کئے ہیں گویا ان کے خیال میں یہ صرف شیعوں کا عقیدہ ہے یا کتاب و سنت، اقوال صحابہ و تابعین وغیرہ میں اس کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے، بے سر پیر کے اعتراضات کر کے یہ حضرات اپنے کو روشن فکر، مفکر اور جدید نظریات کا حامل سمجھتے ہیں،غالباً سب سے پہلے جس مغرب زدہ شخص نے ظہور مہدی سے متعلق روایات کو ضعیف قرار دینے کی ناکام و نامراد کوشش کی وہ ابن خلدون ہے، جس نے اسلامی مسائل کے بارے میں ہمیشہ بغض اہلبیت اور اموی افکار کے زیر اثر بحث و گفتگو کی ہے۔
”عقاد “ کے بقول اندلس کی اموی حکومت نے مشرقی اسلام کی وہ تاریخ ایجاد کی ہے جو مشرقی مورخین نے ہرگز نہیں لکھی تھی اور اگر مشرقی مورخین لکھنا بھی چاہتے تو ایسی تاریخ بہر حال نہ لکھتے جیسی ابن خلدون نے لکھی ہے۔
اندلس کی فضا میں ایسے مورخین کی تربیت ہوتی تھی جو اموی افکار کی تنقید و تردید کی صلاحیت سے بے بہرہ تھے، ابن خلدون بھی انہیں افراد میں سے ہے جو مخصوص سیاسی فضا میں تربیت پانے کے باعث ایسے مسائل میں حقیقت بین نگاہ سے محروم ہو گئے تھے، فضائل اہلبیت سے انکار یا کسی نہ کسی انداز میں توہین یا تضعیف اور بنی امیہ کا دفاع اور ان کے مظالم کی تردیدسے ان کا قلبی میلان ظاہر ہے۔ ابن خلدون معاویہ کو بھی ”خلفائے راشدین“ میں شمار کرتے ہیں۔
انہوں نے مہدی اہل بیت کے ظہور کے مسئلہ کو بھی اہل بیت سے بغض و عناد کی عینک
سے دیکھا ہے کیونکہ مہدی بہرحال اولاد فاطمہ میں سے ہیں خانوادہ رسالت کا سب سے بڑا سرمایہٴ افتخارہیں لہٰذا اموی نمک خوار کے حلق سے فرزند فاطمہ کی فضیلت کیسے اتر سکتی تھی چنانچہ روایات نقل کرنے کے باوجود ان کی تنقید و تضعیف کی سعی لاحاصل کی اور جب کامیابی نہ مل سکی تو اسے ”بعید“ قرار دے دیا۔
اہل سنت کے بعض محققین اور دانشوروں نے ابن خلدون اور اس کے ہم مشرب افراد کا دندان شکن جواب دیا ہے اور ایسے نام نہاد روشن فکر افراد کی غلطیاں نمایاں کی ہیں۔
معروف معاصر عالم استاد احمد محمد شاکر مصری ”مقالید الکنوز“ میں تحریر فرماتے ہیں ”ابن خلدون نے علم کے بجائے ظن و گمان کی پیروی کر کے خود کو ہلاکت میں ڈالا ہے۔ ابن خلدون پر سیاسی مشاغل، حکومتی امور اور بادشاہوں، امیروں کی خدمت و چاپلوسی کا غلبہ اس قدر ہو گیا تھا کہ انہوں نے ظہور مہدی سے متعلق عقیدہ کو ”شیعی عقیدہ“ قرار دے دیا۔ انہوں نے اپنے مقدمہ میں طویل فصل لکھی ہے جس میں عجیب تضاد بیان پایا جاتا ہے ابن خلدون بہت ہی فاش غلطیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، پھر استاد شاکر نے ابن خلدون کی بعض غلطیاں نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا: اس(ابن خلدون) نے مہدی سے متعلق روایات کو اس لئے ضعیف قرار دیا ہے کہ اس پر مخصوص سیاسی فکر غالب تھی، پھر استاد شاکر مزید تحریر کرتے ہیں کہ: ابن خلدون کی یہ فصل اسماء رجال، علل حدیث کی بے شمار غلطیوں سے بھری ہوئی ہے کبھی کوئی بھی اس فصل پر اعتماد نہیں کرسکتا۔“
استاد احمد بن محمد صدیق نے تو ابن خلدون کی رد میں ایک مکمل کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ”ابراز الوہم المکنون عن کلام ابن خلدون“ ہے۔ اس کتاب میں استاد صدیق نے مہدویت سے متعلق ابن خلدون کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مکمل جواب دیا ہے اور ابن خلدون کو بدعتی قرار دیا ہے۔
ہر چند علمائے اہل سنت نے اس بے بنیاد بات کا مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ظہور مہدی کا عقیدہ خالص اسلامی عقیدہ ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک متفق علیہ اور اجتماعی ہے مگرہم چند باتیں بطور وضاحت پیش کر رہے ہیں :۔
۱۔ شیعوں کا جو بھی عقیدہ یا نظریہ ہے وہ اسلامی عقیدہ و نظریہ ہے، شیعوں کے یہاں اسلامی عقائد و نظریات سے الگ کوئی عقیدہ نہیں پایا جاتا، شیعی عقائد کی بنیاد کتاب خدا اور سنت پیغمبر ہے اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی عقیدہ شیعی عقیدہ ہو مگر اسلامی عقیدہ نہ ہو۔
۲۔ ظہور مہدی کا عقیدہ شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ علمائے اہلسنت بھی اس پر متفق ہیں اور یہ خالص اسلامی عقیدہ ہے۔
۳۔ آپ کے نزدیک ”اسلامی عقیدہ“ کا معیار کیا ہے؟ اگر قرآن مجید کی آیات کی تفسیر اسی سے ہوتی ہو تو کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟ اگر صحیح، معتبر بلکہ متواتر روایات (جو اہل سنت کی کتب میں بھی موجود ہیں) سے کوئی عقیدہ ثابت ہو جائے تب بھی کیا وہ عقیدہ اسلامی عقیدہ نہ ہوگا؟
اگر صحا بہ و تابعین اور تابعینِ تابعین کسی عقیدہ کے معتقد ہوں تو بھی وہ عقیدہ اسلامی نہیں ہے؟ اگر شواہد اور تاریخی واقعات سے کسی عقیدہ کی تائید ہو جائے اور یہ ثابت ہو جائے کہ یہ عقیدہ ہر دور میں پوری امت مسلمہ کے لئے مسلّم رہا ہے پھر بھی کیا آپ اسے اسلامی عقیدہ تسلیم نہ کریں گے؟
اگر کسی موضوع سے متعلق ابی داؤد صاحب سنن جیسا محدث پوری ایک کتاب بنام ”المہدی“، شوکانی جیسا عالم ایک کتاب ”التوضیح“ اسی طرح دیگر علماء کتابیں تحریر کریں، بلکہ پہلی صدی ہجری کی کتب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہوتب بھی یہ عقیدہ اسلامی نہ ہوگا؟
پھر آپ ہی فرمائیں اسلامی عقیدہ کا معیار کیا ہے؟ تاکہ ہم آپ کے معیار و میزان کے مطابق جواب دے سکیں، لیکن آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آپ ہی نہیںبلکہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ مذکورہ باتوں کے علاوہ اسلامی عقیدہ کا کوئی اور معیار نہیں ہو سکتا اور ان تمام باتوں سے ظہور مہدی کے عقیدہ کا اسلامی ہونا مسلّم الثبوت ہے چاہے آپ تسلیم کریں یا نہ کریں۔
عقیدہٴ ظہور مہدی اور مدعیان مہدویت کا قیام
احمد امین مصری اور طنطاوی جیسے بعض دیگر افراد نے مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کی جانب سے کی جانے والی بغاوتوں یا انقلابات کو جنگ وجدال اور مسلمانوں کی کمزوری کا عذر پیش کرتے ہوئے ظہور مہدی کے عقیدہ کو اس کی علت قرار دیا ہے اور اس طرح ان حوادث و واقعات کے سہارے شیعوں کے خلاف زہر افشانی کر کے معاشرہ کے ثبات و استحکام اور آئندہ کے اطمینان کا سبب بننے والے عقیدہ سے لوگوں کے اذہان کو منحرف کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ جن لوگوں نے مہدویت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے یا کر سکتے ہیں ان کے دعویٰ کا ظہور مہدی کے عقیدہ کی صحت یا عدم صحت سے کوئی تعلق نہیں ہے ایک دانشور کی جانب سے ایسے واقعات کو کسی دینی و مذہبی واقعات کے انکار کا بہانہ قرار دیا جانا انتہائی تعجب خیز ہے۔
جناب احمد امین صاحب ! ذرا فرمائیں تو سہی۔ وہ کون سے اعلیٰ مفاہیم اور خدائی نعمتیں ہیں کہ جن کا مغرض افراد نے غلط استعمال نہیں کیا؟ کیا ریاست طلب اور اقتدار کے بھوکے اپنے مقاصد کے لئے ایسے ہتھکنڈے نہیں اپناتے ہیں؟
حق، صلح، عدالت، امانت و صداقت، تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت، ترقی و تکامل، دین و مذہب، آزادی، ڈیموکریسی، نظم و ضبط اور قانون کی بالادستی جیسے ان گنت مفاہیم کے ساتھ مفاد پرست افراد اور موقع پرست سیاستداں کل بھی کھلواڑ کرتے رہے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں کل بھی ان چیزوں کا غلط استعمال (Miss Use) کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے، واقعیت یہ ہے کہ اب توان میں سے اکثر الفاظ اپنے مخالف معنی میں استعمال ہو رہے ہیں۔
جنگجو اور وسعت پسند صلح و ڈیموکریسی کا، ظالم عدل وانصاف کا، فساد برپا کرنے والے اصلاح کا، رجعت پسند ترقی کا، خیانت کار امانت کا اور آزادی کے دشمن آزادی کا دم بھرتے ہیں لیکن درحقیقت ان الفاظ کے سہارے اپنے مقاصد کے در پے رہتے ہیں اور خوشنما الفاظ کے ذریعہ اپنی خیانتوں اور خباثتوں کی پردہ پوشی کر کے مظلوم اقوام پر اپنی مرضی تحمیل کرتے رہتے ہیں۔
تعلیم و تربیت کی توسیع کے ذریعہ لوگوں کو صحیح اخلاقی راستہ سے ہٹاکر علمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ایجاد کی جا تی ہے، آزادی، مظلوموں کی نجات اور کمزور اقوام کے حقوق کے دفاع کے نام پر جو جنگیں لڑی گئیں ان کا مقصد کمزور ممالک کے حقوق کو پامال کر کے ان کی ثروت پر قبضہ کرنا اور انہیں اپنے نوآبادیاتی حصہ میں شامل کرناتھا۔
معنوی رہبری اور رسالت آسمانی کے نام پر زیادہ بغاوتیں ہوتی ہیں یا مہدویت کے نام پر،با لفاظ دیگر نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے یا مہدویت کا؟
مختلف ممالک میں جومسلسل فوجی بغاوتیں یا انقلاب رونما ہوتے ہیں وہ اصلاح، نجات ملت، آزادی، قانون کی بالادستی کے نام پر ہوتے ہیں یا کسی اور نام پر؟ کیا ایسے انقلابات کے خودساختہ رہبر واقعاً آزادی یا اصلاح کے لئے قیام کرتے ہیں یا ان کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہوتے ہیں؟
قرآن مجید جب نااہل مغرض اور سیاسی افراد کے ہاتھ لگتا ہے تو اس کی بھی خلاف واقع اور غلط تفسیر کی جاتی ہے غلط افراد کو آیات قرآنی کا مصداق قرار دیا جاتاہے اور یہاں تک کہہ دیا جاتا ہے کہ معاویہ و یزید بھی علی و حسین کی طرح قرآن کے کاتب اور قاری تھے!
چونکہ قرآن مجید کی بعض آیتوں کی لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر، دل خواہ طریقہ سے تاویل و تفسیر کر لی ہے اور اس طرح کچھ لوگوں کی ضلالت و گمراہی کا سبب بن گئے ہیں تو کیاقرآن کے بارے میں بھی آپ یہ تجویز پیش کریں گے کہ (العیاذباللہ) قرآن سے ایسی آیات حذف کر دینا چاہئےں تاکہ لوگ اپنی مرضی سے تفسیر نہ کر سکیں؟
ان سب سے بڑھکر کچھ لوگوں نے تو خدائی کا دعویٰ بھی کیا ہے، صرف زبانی ہی نہیں عملی طور پر لوگوں کو اپنی عبدیت میں رکھا ہے کروڑوں افراد گائے کی پوجا کرتے ہیں، بت پرست، آتش پرست اور ستارہ پرست ہیں بے شمار افراد فرعون، نمرود اور تاریخ کے دیگر ڈکٹیٹروں کے سامنے ذلت و رسوائی کا شکار رہے اور خود کو ان کا بندہٴ بے دام اور غلام کہتے رہے اپنے جیسے بلکہ اپنے سے بھی جاہل، نالائق انسانوں کی پرستش کرتے رہے اور خدائے واحد کے بجائے سلاطین کا نام لیتے رہے اور خدائے رحمٰن و رحیم کے بجائے ظالموں کے پست و حقیر ناموں سے کام کا آغاز کرتے رہے اگر اسلام کا سورج طلوع نہ ہوا ہوتا اور عقیدہٴ توحید کی روشنی نے لوگوں کے دلوں تک پہنچ کر انہیں غلط افکار سے آزادی نہ دلائی ہوتی اور انسان نے اپنے آپ کو نہ پہچانا ہوتا ، قوم نے حکام سے رابطہ کی حقیقت کا ادراک نہ کیا ہوتا، ”بسم اللہ“ اور ”اللہ اکبر“ آزاد منش افراد کا نعرہ نہ بنا ہوتا تو انسان پرستی کا بدنما طوق کبھی بھی بشریت کی گردن سے نہ اترتا۔
چونکہ تاریخ شریعت میں علم و صنعت، خدا پرستی، نبوت، صلح، عدل و انصاف اقتدار پرست سیاستدانوں کا کھلونا بنتے رہے ہیں اس لئے کیاآپ ان چیزوں کی مذمت کر سکتے ہیں؟
چونکہ کچھ لوگ آزادی اور عدل و انصاف یا قانون کی بالادستی کے نام پر ظلم و تشدد اور قانون شکنی کرتے ہیں ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں تو کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ عدل و انصاف، حریت و آزادی، قانون، مساوات و فضیلت کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے ، بلکہ یہ چیزیں تو انسانیت کے لئے دردِ سر ہیں لہٰذا انہیں انسانیت کی لغت سے حذف کر دینا چاہئے؟
کیا آپ اسی نارسا فکر اور غلط منطق کے بل بوتے پرایسے موضوع کے بارے میں جس کے سلسلہ میں سینکڑوں حدیثیں پائی جاتی ہیں اور کروڑوں مسلمان ہر دور میں جس عقیدہ کے حامل رہے ہوں؟ اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں؟
نہیں جناب احمد امین صاحبہرگز آپ ایسی بے عقلی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔
آپ بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں اکثر اختلافات جزئیات اور مصادیق کے ہی ہوتے ہیں۔ اور اگر سہواً یا عمداً کسی چیز کو کسی کلی یا جزئی کامصداق قرار دے دیا گیا یا باطل کو حق کا لباس پہنا دیا گیا تو اس سے حق کی صداقت پر حرف نہیں آتا۔
جس طرح کچھ جاہل جھوٹی ڈگریاں لے کر خود کو عالم بتایا کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ مصلح، عادل، مہدی موعود، امام، نبی اور پیغمبر ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔
بلکہ مہدویت کے جھوٹے دعویداروں میں سے ایک (علی محمد شیرازی) نے جب یہ دیکھا کہ معاملہ میں جان نہیں آئی اور ہلدی پھٹکری کے باوجود رنگ نہیں جما اور اپنے معتقدین کو بہت زیادہ نادان اور احمق محسوس کیا تو مہدویت کے علاوہ اور بھی دعوے کرنے لگا (۱)
لہٰذا یہ بات، کہ چونکہ ظہور مہدی کے عقیدہ کو چند اقتدار پسند عیار و مکار افراد نے استعمال کیا ہے لہٰذا اس مسلّم الثبوت واقعیت کا انکار ہی کر دیا جائے قطعی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ نہ ہی یہ بات عقل و منطق کے مطابق ہے۔
اسی لئے پہلی صدی ہجری سے آج تک جب بھی کسی نے مہدویت کادعویٰ کیایا دوسروں
--------
(۱) علی محمد شیرازی ابتداء میں خود کوسید کہتا تھا بعد میں ”بابیت“ کا مدعی ہوا اور اس کے بعد صراحت کے ساتھ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ کی امامت و مہدویت اور ان کے فرزند امام حسن عسکری ہونے کا اقرار و اعتراف کرنے کے باوجود مہدویت اور اس کے بعد نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔ اور اس کے بعض مکتوبات کے مطابق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خدائی کا دعویدار ہو گیا تھا۔ آخر میں تمام باتوں کا منکر ہو گیا اور اپنے ہاتھ سے معذرت نامہ اور توبہ نامہ لکھ کر ناصر الدین شاہ کے سامنے پیش کیا مدعیان مہدویت کے درمیان علی محمد جیسی صورتِ حال شائد ہی کسی کی ہو اوہ اپنی مختلف اور نامعقول باتوں، رکیک اور ہذیانی عبارتوں کے باعث پاگل مشہور تھا۔
یہ بات مخفی نہ رہے کہ بابی یا بہائی گروپ در اصل ایک زرخیز سیاسی گروہ سے جو آخری صدی میں ہندوستان، ترکی، ایران خاص طور پر فلسطین اور دیگر اسلامی مراکز میں سامراجی طاقتوں کا آلہ کار اور ان کی سیاست کے لئے حالات ہموار کرنے نیز ان کے لئے جاسوسی کا ایک نیٹ ورک رہا ہے۔ اسی لئے یہ لوگ مشرقی ممالک خصوصاً ملت مسلمہ پرلالچی نگاہیں رکھنے والے ممالک کے منظور نظر رہے ہیں۔
ابتدائی مرحلہ میں انہیں ایرانی قوم کے درمیان اختلاف اور حکومت کے خلاف شورش کا کام سپرد کیا گیا اور اس کی مدد کا وعدہ کیا گیا۔ علی محمد جب ایران پہونچا تو ایران میں نفوذ رکھنے والی روسی حکومت کی سرپرستی اور حفاظت نے اس امید میں کہ شائد بہائیت روسی سیاست کے نفاذ اور اسلام و علماء کے نفوذ کی کمزوری کاوسیلہ ہو سکے فارس میں اسے سزائے موت نہ ہونے دی۔ اور اسے صوبہ فارس سے اصفہان کے حاکم منوچہر خان گرجی کے سپاہیوں کی حفاظت میں اصفہان لے آئے۔ اصفہان کا حاکم منو چہر خان گرجی ارمنی نژاد تھا اور اسے روسی حکومت کی حمایت حاصل تھی۔ جب تک منو چہر زندہ رہا روسی حکومت کے حکم کے مطابق علی محمد کو مخفیرکھ کراس کی حفاظت کی گئی۔ کافی عرصہ تک روس کاسفارتخانہ اور قونسل خانہ بہائیت کی حمایت کرتے رہے یہاں تک کہ یہ لوگ اصفہان میں بھی کھلم کھلا دین، اورملکی آزادی کے خلاف اور روسی مفادات کے حق میں فتنہ انگیزی کرتے رہے۔ جب کبھی علماء اور عوام کے دباؤ کے نتیجہ میں حکومت اصفہان مجبور ہو جاتی اور ان کی گرفتاری کے لئے اقدام کرتی تو یہ لوگ روس کے قونسل خانہ میں پناہ گزیں ہو جاتے اور کونسلٹ ان کی حمایت کرتا اس طرح اعلانیہ طور پر ایران کے معاملات میں مداخلت کرتے رہتے۔ جب روس والوں کو احساس ہوا کہ یہ لوگ نمک حرامی پر کمر بستہ ہیں اور انہوں نے انگلینڈ سے ساز باز کر لی ہے اور اب انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو مجبوراً روس والوں
نے ان کی حمایت ترک کر دی اپنے لگائے ہوئے پودے کو انگلینڈ کے حوالہ کر دیا۔ انگلینڈ کے جاسوسی ادارہ نے ان سے کام لینا شروع کر دیا اور ایران، ترکی نیز بعض عربی ممالک میں ان کی موجودگی سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اچھی تنخواہوں کے ساتھ بہتر وسائل ان کے حوالہ کئے۔ عباس افندی نے پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کی جو خدمت کی جس کے نتیجہ میں انگریز فلسطین پر قابض ہوئے اور اسلامی ممالک کا تجزیہ شروع ہوا اس کے انعام کے طور پر انگریز جنرل البنی نے رسمی البتہ مخفی طور پر عباس افندی کو ”لقب“ اور میڈل وغیرہ سے نوازا۔ بعد میں اس جشن کی تصاویر اور تفصیلات کتابوں میں شائع ہوئیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس فرقہ کی تمام فعالتیوں اور جاسوسی کا مقصد عالمی صیہونزم کو فائدہ پہونچانا تھا۔
انگلینڈ کے بعد امریکیوں نے بھی ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا اور اس طرح یہ C.I.A. کے ایجنٹ ہو گئے۔ عباس افندی کے وصیت نامہ کے برخلاف شوقی آفندی مقطوع النسل رہ گیا اور شوقی آفندی کی موت کے بعد ڈاکٹر شعبی کے بقول (مقارنة الادیان ج ۱ ص ۳۰۹) بہائیت رسمی طور پرصہیونیت کا حصہ بن گئی یا اس نے اپنے چہرہ سے نقاب ہٹا کر صیہونزم کا چہرہ اختیار کر لیا۔ اس حقیقت کا اعتراف دیگر مصنفین نے بھی کیا ہے اور پھر اسرائیل میں منعقدہ عظیم کانفرنس میں ”میسن“ نامی ایک امریکی صہیونیت کو بہائیت کا عالمی رہبر منتخب کر لیا گیا۔البتہ شوقی کے دوست ”میسن رسمی“ نامی ایک شخص نے بھی شوقی کی جانشینی کا دعویٰ کیا اور ایک دوسرے شخص نے خودکو ”سماء الہٰ“ کہا۔
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ بابی یا بہائی گروپ کا وجود ایک سیاسی کھیل تھا جس کے ذریعہ ایران کے استقلال و آزادی کو ختم کرنا مقصود تھا۔ یہ سب صہیونزم کے زرخرید ایجنٹ تھے اور ہیں ۔ایک روسی جاسوس نے ان کی بنیاد رکھی بعد میں یہ لوگ اسلام مخالف سامراجی طاقتوں کا کھلونا بن گئے۔ اگر بڑے اور طاقتور ممالک کا نفوذ نہ ہوتا، صہیونی اور امریکہ کی یہودی کمپنیوں، اداروں اور انجمنوں نے ان کی حمایت نہ کی ہوتی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے تو یہ گروپ رو ز اول ہی ختم ہو گیا ہوتا،جو لوگ اس سیاسی ڈرامہ اور ان کے ضمیر فروش سربراہوں کی تاریخ اور ان کی خیانتوں، فتنوں اور قتل و غارت گری کے بارے میں تفصیل کے خواہاں ہیں و ہ علی محمد کے فتنہ کے دور میں لکھی جانے والی کتب مثلاً ناسخ، روضة الصفا، یا کشف الحیل، فلسفہٴ نیکو، ساختہ ہای بہائیت در دین و سیاست، مہازل البہائیہ، محاکمہ و بررسی، بہائیت دین نیست،بہائی چہ می گوید، دزد بگیر شرح بگیر، مفتاح باب الابواب، یادداشتہائی کینیا دالگورکی، دانستنیہائی دربارہٴ تاریخ، نقش سیاسی رہبران بہائی بلکہ خود اسی فرقہ کی کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں۔ ( )
ہمارے خیال میں اس جاسوس اور اغیار کے مزدور فرقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کا بعض کلیدی مقامات پر ہونا انہیں امتیازات دیا جانا اور تبلیغاتی و تجاری شعبوں میں ایسے افراد کی آج بھی مداخلت اس بات کی دلیل ہے کہ سامراج اور اغیار کا نفوذ ہمارے یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ اور اپنے ملک و ملت کی حاکمیت کا جذبہ رکھنے والے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ ان سامراجی ایجنٹوں اور جاسوسوں کے لئے اپنے ملک کے دروازے بند کردے۔
نے کسی کی جانب ایسی نسبت دی تو کسی نے بھی یہاں تک کہ بنی امیہ اور بنی عباس نے بھی یہ کہہ کر اس کی تکذیب نہیں کی کہ اصل ظہور کا عقیدہ ہی غلط ہے بلکہ ہمیشہ موعود کے صفات نہ ہونے کا حوالہ دے کر انہیں جھٹلایا جاتا تھا،کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ چونکہ لوگ جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں لہٰذا ظہور مہدی کا ہی انکار کر دینا بہتر ہے،کیونکہ جو مسلمان بھی کتاب، سنت، اجماع صحابہ و تابعین پر ایمان رکھتاہے
اس کے خیال میں اس فکر یعنی ظہور مہدی کے انکار کا مطلب قولِ پیغمبر اور کتاب و سنت کی تکذیب کے مانند ہے جو کہ ایک مسلمان کے لئے کسی قیمت پر قابلِ قبول نہیں ہے اور چونکہ ظہور مہدی سے متعلق احادیث میں شروع سے ہی خبر بھی دی گئی تھی کہ جھوٹے مدعی بھی پیدا ہوں گے لہٰذا ایسے جھوٹے افراد کے سامنے آنے سے ظہور مہدی پر یقین و اطمینان اور زیادہ ہوتا جاتاہے اور اگر کچھ لوگ جھوٹے دعوؤں کی بنا پر گمراہ بھی ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں اوصاف و علائم مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے بارے میں بقدرِ ضرورت معرفت نہیں تھی لہٰذا یہ لوگ اپنی جہالت، نادانی، بے معرفتی کے باعث گمراہ ہوئے نہ کہ جھوٹے دعوے کی وجہ سے لیکن اگر کوئی مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو احادیث میںمذکور اوصاف و علائم کے ذریعہ پہچانے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگا جھوٹے دعوؤں سے اس کا عقیدہ و ایمان متزلزل نہ ہوگا، یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جتنے واضح اور روشن طریقہ سے امام مہدی کے اوصاف و خصوصیات بیان کئے گئے ہیں اتنے واضح انداز میں نبی، ولی یا کسی اور منصوص من اللہ شخصیت کے اوصاف بیان نہیں ہوئے ہیں۔
عقیدہٴ ظہور کا اخلاق پر اثر
مشہور مصری مفسر ”طنطاوی“ نے اپنی تفسیر میں قرب ساعت” قیامت“ اور ظہور مہدی کے بارے میں ابن خلدون کے نظریات نقل کرنے کے بعد ان دونوں موضوعات کو پست ہمتی، تساہلی اور اختلاف و تفرقہ کا سبب قرار دیا ہے اور علمائے اسلام کی جانب غفلت بلکہ جہالت و ضلالت کی نسبت دی ہے
اختلاف و تفرقہ کے بارے میں گذشتہ مقالہ میں وضاحت پیش کی جا چکی ہے اور یہ بتایا گیا
ہےکہ تمام اچھے عنوانات یا حقائق کا فاسد اور مفاد پرست افراد کے ہاتھوں غلط استعمال ہوا ہے یہاں تک کہ مذہبی و قومی اتحاد کے ذریعہ بھی اختلافات برپا کئے گئے اورتحفظ اتحاد کے نام پر بھی اختلاف پیدا ہوئے اور شرم سے سر جھکا دینے والے جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔
لیکن اس کے باوجود اتحاد کی اچھائی اور ضرورت پر کوئی حرف نہیں آسکتا۔
دوسرے اسلامی عقائد کی مانند ظہور مہدی کے عقیدہ کو بھی اسلامی فرقوں کے درمیان قدر مشترک اور اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہئے تھا، غلطی آپ کی ہے جو ایسے موضوع کا انکار کر رہے ہیں یا اس کے ذریعہ امت کے درمیان تفرقہ پیدا کر رہے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ متفق و متحد ہے اور جس کے لئے دوسرے اسلامی عقائد سے زیادہ معتبر مدارک و منابع پائے جاتے ہیں۔
رہا قرب ساعت ”قیامت“ کا مسئلہ پہلی بات تو یہ کہ اقتراب اور قرب قیامت پر ایمان، قرآن مجید کی صریح و محکم آیات سے ماخوذ ہے۔
دوسری بات یہ کہ یہ عقیدہ کسی بھی قیمت پر ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے برخلاف قوت ارادی، احساس ذمہ داری، خلوص نیت، تہذیب نفس، اور کارِ خیر اور اعمال صالح کی جانب رغبت کا باعث ہوگا۔ غلطی سے آپ نے چونکہ حقائق کی تصدیق یا تکذیب کا معیار مادی نتائج کو بنا رکھا ہے اس لئے آپ ”اقترا ب ساعت“ کو براہ راست ممالک کی فتح کا سبب، مختلف ایجادات اور صنعتی و مادی ترقی کی دعوت کا موجب قرار دینا چاہتے ہیں اور آپ معنویات و اخلاقیات کی تاثیر اور اسلام کے مقصد ِ نظر ”مدینہ فاضلہ“ اوراس کے رابطہ سے بے خبر ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ انبیاء کی دعوت اور تعلیم و تربیت کی اساس مبداء ومعاد کے ایمان پرہے۔
مسلمانوں نے مبد ا ء ومعاد اور اسی اقتراب ساعت کے ایمان کے ساتھ بڑے بڑے ممالک کو فتح کیا ہے اور دور دراز علاقوں میں اسلامی پرچم لہرایا ہے اور دنیا بھر میں انسانی آزادی کا پیغام دیا ہے۔
اسی ایمان کے ساتھ دنیا والوں کو علم و دانش، تحقیق و تفکر اور علمی و صنعتی ترقی کی دعوت دی ہے ۔مسلمان اسی ایمان کے ساتھ علم و دانش اور تہذیب و تمدن کے علمبردار بنے ۔ سائنس کے مختلف شعبوں میں بھی اسلام نے نامورعلماء پیش کےٴ۔
قیام مہدی اور قیامت کے وقت کی تعیین کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ ”یہ عقائد انحراف و گمراہی کا ذریعہ ہیں اور فلاں دھوکہ باز سنی صوفی نے اس کا وقت مقرر کر دیا ہے“ اس طرح آپ اپنے سنی بھائیوں سے شکوہ کر رہے ہیں۔ آپ کو شکوہ کا حق بھی ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اس دھوکہ باز صوفی کی بات تسلیم کرلے تو اس کا گناہ اہل سنت کے آپ جیسے رہبروں کی گردن پر ہے کہ آپ افکار و اذہان کو روشن نہیں کرتے مبداء و معاد سے متعلق قرآنی معارف مسلمانوں کو نہیں بتاتے۔
قرآن نے صاف و صریح طور پر اعلان کیا کہ قیامت کا علم صرف خدا کو ہے اور ہمارا عقیدہ یہی ہے کسی کو قیامت کے وقت کا علم نہیں ہے اور اگر کوئی اس کا وقت معین کرے تو وہ جھوٹا ہے۔ عوام کی اکثریت بلکہ تمام مسلمان چاہے سنی ہوں یا شیعہ انہیں علم ہے کہ قیامت کی اطلاع کسی کو نہیں ہے۔ علماء اور خواص کو تو جانے دیجئے۔ قرآن کا اعلان ہے:
”انّ اللہ عندہ علم السّاعة“ (۱)
اس کے باوجودبھی اگر نادان اس بارے میں اظہار خیال کرے تو اس کی بات قابل قبول نہ ہوگی اور نہ ہی کوئی اس کی بات پر دھیان دے گا۔ ایسے عقائد ضعف یا سستی کا موجب نہیں ہیں۔ بلکہ ضعف ِمسلمین کا سبب حقائق کا چھپایا جانا، حکام کی غلط سیاست اور اسلامی معاشرہ کو اسلام کے واضح راستہ سے گمراہ کرنا ہے۔
قیام ساعت اور قرب قیامت کی طرح ظہور مہدی پر ایمان بھی ضعف، پست ہمتی اور ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کا سبب نہیں ہے۔ کسی نے نہیں کہا کہ چونکہ مہدی کا ظہور ہوگا لہٰذا
---------
(۱) یقینا الله ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ،سورئہ لقمان ۳۴۔
تمام ذمہ داریاں ختم اب مسلمانوں کو کفار کے حملوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں کرنا ہے بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔
کسی نے نہیں کہا کہ آیہٴ کریمہ :
”واعدوا لہم مااستطعتم من قوة“ (۱)
امربالمعروف و نہی عن المنکر، حق کی طرف دعوت، اسلام کے دفاع اور سیاسی و سماجی فرائض سے متعلق آیات کا نفاذنہیں ہونا چاہئے۔
کسی نے نہیں کہا کہ ظہور مہدی کا عقیدہ کاہل سست، ضعیف الارادہ اور بہانہ تلاش کرنے والوں اور اپنے گھر، وطن اور اسلامی علاقوں میں اغیار کے ظلم و ستم برداشت کرنے والوں کے لئے ”عذر“ ہے۔
ایک بھی روایت میں یہ نہیں ملتا کہ تمام امور مستقبل یا ظہور مہدی تک معطل رکھو،اس کے برعکس روایات میں صبروثبات، سعی واستقامت اور شدت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور قرآنی احکام پر عمل پیرا رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔
جیسے کہ پیغمبر اکرم اوراسلام کے اولین مجاہد حضرت علی اور دیگر صحابہٴ والا مقام نے ظہور مہدی کے انتظار میں گوشہ نشینی اختیار نہیں کی اورگھر میں خاموش نہیں بیٹھے رہے بلکہ کلمہ ٴ اسلام کی برتری کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے اوراس راہ میں کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا آج بھی مسلمانوں کی یہی ذمہ داری ہے۔
ظہور مہدی کا ایمان اور امام وقت کی موجودگی کا احساس، ذمہ داریوں سے غافل نہیں بناتا بلکہ احساس ذمہ داری میں اضافہ کرتا ہے۔
ظہور مہدی کا عقیدہ طہارت نفس، زہدوتقویٰ اور پاکیزگی کردار کا سبب ہے۔
-----------
(۱) اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت کا انتظام کرو، سورئہ انفال۔ ۶۰
ظہور مہدی کے ایمان کا مطلب امور کو آئندہ پر اُٹھا رکھنا، گوشہ نشینی اختیار کرنا اورآج کوکل پر ٹالنا اور کفار واغیار کے تسلط کو قبول کرنا، علمی وصنعتی ترقی نہ کرنا اور سماجی امور کی اصلاح ترک کردینا ہرگز نہیں ہے۔
ظہور مہدی کا عقیدہ رشد فکر کا باعث اور ضعف وناامیدی اور مستقبل کے تئیں مایوسی سے روکتاہے چنانچہظہور مہدی کے عقیدے سے وہی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو:
”انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون“(۱)
”ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“
”یریدون لیطفئوا نور اللّٰہ بافواہھم“(۲)
”یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوںسے بجھا دیں۔“
”ولاتہنوا ولاتحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین“(۳)
”مسلمانوں! خبردار (دینی معاملات میں) سستی نہ کرو اور (مال غنیمت اور متاع دنیا فوت ہوجانے کے ) مصائب سے محزون نہ ہونا اگر تم صاحبان ایمان ہو تو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے۔“
جیسی آیات سے حاصل ہوتے ہیں جس طرح ان آیات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان سستی کا شکار ہوجائے اور ذمہ داریوں سے گریزاں رہے اسی طرح ظہور مہدی ، آپ کے غلبہ اور عالمی حکومت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سستی اور ذمہ داریوں میں کوتاہی کو جائز سمجھ لیں۔
جس طرح صدر اسلام کے مسلمانوں نے ان آیات اور پیغمبر اکرم کی بشارتوں سے مستقبل کی فتوحات اور مسلمانوں کے ہاتھوں ممالک کی فتح کے بارے میں یہ نہیں سمجھا کہ ہمیں گھر میں بیٹھ کر مستقبل کا انتظار کرنا چاہئے اور دور سے مسلمانوں کی شکست، اور کفار کے مقابل علم وصنعت اور اسباب قوت میں مسلمانوں کی پسماندگی کا نظارہ کرتے رہنا چاہئے اور اس دور کے مسلمان یہ سوچ کر
خاموش نہیں بیٹھ گئے کہ خدا حافظ وناصر ہے اس نے نصرت کا وعدہ کیا ہے اس کا نور کبھی بجھ نہیں
--------
(۱)سورہٴ حجر آیت۹۔
(۲)سورہٴ صف آیت۸۔
(۳)سورہٴ آل عمران آیت۱۳۹۔
سکتااسی طرح جو لوگ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں خصوصاً اگرانہوں نے شیعہ طرق سے نقل ہونے والی روایات پڑھی ہیں تو انھیں اوامر خدا کی اطاعت اور احکام الٰہی کی ادائیگی میں دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ آگے ہونا چاہئے اور قرآن وشریعت، حریم اسلام، عظمت مسلمین کے دفاع کے لئے زیادہ غیرت وحمیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
اللھّم عجّل فرجہ وسہّ-ل مخرجہ واجعلنا من انصارہ واعوانہ
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمین۔
|