نويد امن وامان
 
دا ئمی عمر
حیات ابدی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف بشریت کی توجہ ہمیشہ سے مبذول رہی ہے اور اس سلسلہ میں زمانہ قدیم سے ہی تحقیق و جستجو اور تجربات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
جہاں تک دائمی عمر اور حیات ابدی کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ سبھی عقلی طو رپر اسے ممکن گردانتے ہیں اور شائد ہی کوئی انسان ہو جو حیات ابدی کو ممکن سمجھنے کے بجائے محال جانتا ہو۔
تحقیقات کا تعلق اس کے علمی امکان سے ہے یعنی علم حیات اور مفکرین اپنے تجربات اورآزمائشوں کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کے درپے ہیں کہ حیات ابدی کبھی انسانی اختیار میں آسکتی ہے یا نہیں کہ اگر کوئی انسان اسے حاصل کرنا چاہے تو حاصل کرلے۔
اس سلسلہ میں اب تک جو تحقیقات اور تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں؟
اس میدان کی تحقیقات ،ماہرین فن کے لئے امید افزا ہیں یا مایوس کرنے والی؟
کیا اس میدان میں تحقیق و جستجو کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے؟
جس طرح انسان نے چیچک، ملیریا، تپ دق اور دیگر بیماریوں کے جراثیم تلاش کرکے ان سے مقابلہ کیا ہے، کیا کسی دن عمر کے منقطع ہونے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا؟
علمی لحاظ سے ان سوالات کا جواب مثبت ہے یا منفی؟
انسانیت کے لئے سب سے اہم مسئلہ آج یہی ہے اور مادی زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی اور مسئلہ نہیں ہے۔
بیماری سے لڑنا، خطرناک کینسر جیسی مہلک بیماریوں کی دوا تلاش کرنایہ سب اسی اصل مسئلہ کی فروعات ہیں یعنی ان سب کوششوں کا راز یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ نہ سہی تو زیادہ سے زیادہ زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔
ہماری معلومات کے مطابق علم الحیات، میڈیکل سائنس اور متعلقہ موضوعات کے ماہرین نے ان سوالات کا جواب مثبت انداز میں دیا ہے اور ان کی تحقیقات امیدافزا ہیں اسی لئے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، اگرچہ بعض حضرات ابھی احتیاط کے لہجہ میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عمر کو مزید طویل بنانا ممکن ہے، یہ محتاط حضرات ابدی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں کہتے لیکن اتنا ضرور مانتے ہیں کہ عمر کو طولانی بنانے کا مطلب ہے کہ ہم زندگی سے ایک قدم نزدیک ہورہے ہیں، بنیادی طور پر میڈیکل سائنس جتنے شعبوں پر کام کررہی ہے اور بیماریوں کا علاج جیسے جیسے میسر ہوتا جارہا ہے یہ چیز بذات خود ہمیں اس ہدف سے قریب تر کررہی ہے اس لئے کہ بیماری کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ بیماری کے باعث عمروزندگی کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے اور بیماری ابدی زندگی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، جب یکے بعد دیگرے بیماریوں کا علاج فراہم ہوتا جائے گا توبتدریج حیات ابدی کا حصول بھی ممکن ہوتا جائے گا۔
اگرچہ محققین الگ الگ یونیورسٹیوں اور لیبورٹریز میں مختلف شعبوں پر کام کررہے ہیں او رہر ایک الگ بیماری کے بارے میں معلومات اور اس کا علاج تلاش کررہا ہے لیکن ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحقیقات اور تجربات کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں جب تک انسانیت کے سرپر موت کی تلوار لٹکی ہوئی ہے ان کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے، لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ ایسی تمام کوششیں اسی ہدف ومقصد اور اسی نتیجہ تک رسائی کے لئے ہیں اور جیسے جیسے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں قافلہٴ بشریت اس ہدف سے نزدیک تر ہوتا جارہا ہے یہ کوئی مبالغہ آمیز بات نہیں ہے۔
حیات ابدی کے امکانی حصول کے لئے بظاہر دو راستوں سے مطالعات وتحقیقات وتجربات کا سلسلہ جاری ہے۔
۱۔ ایسے لوگوں کے حالات زندگی اوران کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی، دینی اور اقتصادی صورت حال کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں جنھوں نے طویل زندگی بسر کی ہے۔
۲۔ بعض حیوانات، جینس(Genes)، خلیوں،یا اعضا کے اوپر تحقیقات کی جائیں۔
دونوں مرحلوں میں اب تک تحقیقات مثبت اور امیدافزا رہی ہیں اور ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رشتہٴ حیات کا منقطع ہونا کسی جاندار کا طبیعی لازمہ نہیں ہے بلکہ بعض عوارض یا حوادث کے باعث ایسا ہوتا ہے۔
غیرمعمولی معمر حضرات کے حالات زندگی سے بھی یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عمر کی کوئی حد معین نہیں ہے اور حیات وزندگی جیسی عظیم نعمت انسان کے حصہ میں اتنی محدود ومختصر بھی نہیں ہے جسکے ہم عادی ہوگئے ہیں، اوراگرکسی کو خصوصی شرائط اور حالات اتفاقاً میسر ہوجائیں تو انسان اوسط سے کئی گنا زیادہ زندہ رہ سکتا ہے۔

علمی ا ورسائنسی تحقیقات
ڈاکٹر ”ہنری اطیس“ کہتے ہیں کہ ”ابدی زندگی ممکن ہے اوریہ انسانی اعضائے بدن کی مصنوعی ساخت اور انسانی بدن میں ان کی پیوند کاری کے ذریعہ عملاً ممکن ہوجائے گا۔“(۱)
ایک اور مفکر کا قول ہے ”موت بیماری کے باعث آتی ہے نہ کہ ضعیفی کے باعث اور بیماری کے بہت سے اسباب ہیں جن میں سے بعض انسان کے اختیارسے باہر ہیں جیسے والدین کا جاہل ہونا یا ان کی جانب سے اپنے رشتہ کے انتخاب سے لے کر حمل ورضاعت کے مختلف مراحل پر حفظان صحت کے اصول وقواعد کی رعایت نہ کرنا، بچوں کی غلط تربیت، خراب ماحول وغیرہ ، کچھ اسباب ایسے ہیں جو انسان کے اختیار میں ہیں او رانسان انھیں دور کرسکتا ہے جیسے زیادہ کھانا، زیادہ سونا،
---------
(۱)اطلاعات،شمارہ۱۱۸۰۵۔

غیرمنظم زندگی، غلط عادات، بداخلاقی اور باطل افکار ونظریات جن کے باعث انسان اضطراب و بے چینی میں مبتلا رہتا ہے اورآخر کار نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مایوسی وافسردگی کا شکار ہوجاتا ہے، اور انسانی زندگی سے سکون واطمینان ختم ہوجاتا ہے۔
اس طرح اگر انسان ان اسباب سے دوری اختیار کرکے لباس، غذا، مشاغل اور دیگر امور میں اعتدال سے کام لے تو اس کی عمر کی کوئی حد نہ ہوگی اورسائنٹفک اصولوں کے تحت اس کے لئے ابدی زندگی محال نہ ہوگی۔
لیکن آیات قرآنی اور انبیائے کرام کی زبانی موصولہ خبروں سے یہ ثابت ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
”کل مَن علیہا فان“جو بھی روئے زمین پر ہے وہ فنا ہونے والا ہے۔
”اینما تکونوا ید رککم الموت“تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پا لے گی۔
البتہ یہی ذرائع ہزار سال یا اس سے زیادہ عمر کی نفی نہیں کرتے۔(۱) اور نہ ہی یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس دنیا کی بقا ء تک عام افراد کی زندگی محال ہے۔
عربی زبان کے مشہور ومعروف علمی وسائنسی رسالہ ”المقتطف“نے ۱۳۵۹ء ھ ش کے تیسرے شمارہ میں ایک مقالہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے ”ہل یخلد الانسان فی الدنیا“”کیا انسان ہمیشہ ہمیشہ دنیا میں زندہ رہے گا؟“
اس مقالہ میں موت و حیات، موت کی حقیقت او رکیا ہر جاندار کے لئے موت ضروری ہے؟ جیسے موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔
اس مقالہ میں علمی تحقیقات اورتشریحات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جن جراثیم اور Cellsکے باعث نسل آگے چلتی ہے اور انسان، حیوانات، مچھلیاں، پرندے، درندے، گھوڑے، گائے،
-------
(۱)منتخب الاثر،ص۲۸۰

بکریاں اور جاندار بلکہ نباتات اور درخت انھیں جراثیم اور سیل کے ذریعہ باقی ہیں یہ جراثیم ہزاروں بلکہ لاکھوں بر س پہلے سے زندہ تھے۔
آگے چل کر مزید تحریر کرتے ہیں کہ ”قابل اعتماد علم کے حامل افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حیوان کے جسم کے تمام اعضائے رئیسہ میں لامحدود اور دائمی بقا کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگررشتہٴ حیات کو منقطع کرنے والے اسباب وحوادث رونما نہ ہوں تو انسان بھی ہزاروں سال زندگی گزار سکتا ہے، ان حضرات کا نظریہ محض اندازہ اور خیال نہیں ہے بلکہ تجربات کے ذریعہ ثابت ہوچکا ہے۔
نیویارک کی روکفکر لیبوریٹری کے ممبر ڈاکٹر ”الیکس کارل“ (Alex Carl) نے حیوان کے بدن کے ایک جداشدہ حصہ کو اس حیوان کی طبیعی عمر سے کہیں زیادہ عرصہ تک زندہ رکھنے میں کامیابی حاصل کی یعنی جدا شدہ حصہ تک اس کی مطلوبہ اور معینہ غذا پہنچتی رہی اور وہ زندہ رہا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر ہمیشہ مطلوبہ غذا پہنچتی رہے تو ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔
یہی تجربہ انہوں نے گھریلو مرغی کے جنین پر بھی کیا وہ جنین آٹھ سال تک زندہ رہا، اسی طرح خود انھوں نے اور دیگر محققین نے انسانی بدن کے بعض اعضاء، پٹھوں، دل، کھال، گردوں پر بھی یہ تجربہ کیا جس سے یہ نتیجہ اخذکیا کہ جب تک اعضاء کو غذا ملتی رہے گی وہ زندہ رہیں گے اور ان میں نشوء نما بھی ہوتی رہے گی۔
جانس ہنکش یونیورسٹی کے پروفیسر ڈائمنڈ وبرل تو یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ جسم انسانی کے تمام اعضائے رئیسہ کے سیل کی ابدی زندگی یا تو تجربات کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہے یا ان کی ابدی حیات کا احتمال قطعا رجحان کا حامل ہے۔
بظاہر سب سے پہلے حیوانات کے اعضاء پر کامیاب تجربہ کرنے والے روکفلر لیبوریٹری کے ممبر ڈاکٹر جاک لوب تھے، ان کے بعد ڈاکٹر ورن لوئٹس اور ان کی زوجہ نے یہ ثابت کیا کہ مرغ کے جنین کے سیل (Cells) کو ایک نمکین مایع میں زندہ رکھا جاسکتا ہے اور اگر اس میں غذا ئی اجزا کا اضافہ کردیا جائے تو ان Cellsمیں نشوء نما ہوسکتی ہے۔
تجربات کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور آخرکار یہ ثابت ہوگیاکہ حیوانی بدن کے سیل کوایسے مایع میں زندہ رکھا جاسکتا ہے جس میں ان سیلز کے لئے ضروری غذائی مواد موجود ہوں لیکن ان تجربات سے یہ ثابت نہ ہوسکا کہ ان اجزاء کو ضعیفی (Fluids) کے باعث موت نہ آئے گی،یہاں تک کہ ڈاکٹر کا رل کی تحقیقات سامنے آئیں جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ سیلز حیوانات کے بڑھاپے کا سبب نہیں ہیںبلکہ یہ تو معمول سے بہت زیادہ عرصہ تک زندہ رہ سکتے ہیں، ڈاکٹر کارل اور ان کے ساتھیوں نے ہمت نہ ہاری اور سخت جدوجہد کے ساتھ تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ:
۱۔ جسم کے خلیوں (Cells)کے اجزاء زندہ رہتے ہیں انھیں صرف اسی صورت میں موت آتی ہے جب غذا نہ ملے یا کوئی بیکٹریا ان کو ختم کردے۔
۲۔ اجزاء نہ صرف یہ کہ زندہ رہتے ہیں بلکہ ان میں نشوء نما کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان کی تعداد میں ایسے ہی اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے زندہ جسم کا حصہ ہونے کی صورت میں ہوتا رہتا تھا۔
۳۔ ان کی نشو نما اور تعداد میں اضافہ کا تعلق ان کی غذا سے ہے۔
۴۔ زمانہ ان کی ضعیفی یا بڑھاپے پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا اور طول عمر سے ان کی ضعیفی پر معمولی سا بھی اثر نمایاں نہیں ہوتا بلکہ نشوء نما اور توالد وتناسل کا سلسلہ ہر سال گزشتہ برسوں کی مانند جاری رہتا ہے او ربظاہر آثار یہ نظر آتے ہیں کہ جب تک تجربہ کرنے والوں کے ذریعہ ان تک مطلوبہ غذا پہنچتی رہے گی وہ زندہ ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضعیفی خود سبب نہیں ہے بلکہ نتیجہ ہے۔
پھر وہ خود بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ واقعا اگر ایسا ہے تو آخر انسان کو موت کیوں آتی ہے؟ انسان کی عمر محدود کیو ں ہوتی ہے؟ اور آخر کیوں صرف معدودے چند افراد ہی سو سال سے زیادہ عمر گزارتے ہیں؟
وہ جواب دیتے ہیں کہ حیوانات کے جسمانی اعضاء بہت زیادہ ہیں اور مختلف ہونے کے باوجود ان کے اندر اتنا زیادہ تعلق وارتباط بھی ہوتا ہے کہ ایک عضو کی زندگی دوسرے پر موقوف ہوتی ہے۔
لہٰذا جب کوئی عضو کمزور پڑ جاتا ہے یا کسی سبب سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے تودوسرے اعضاء کو بھی موت آجاتی ہے جیسا کہ مائکروب(Microbe) کی بیماری میں یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے اس لئے اوسط عمر ستر، اسّی سال سے کم ہوتی ہے۔
اب تک کے تجربات اور تحقیقات کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کو اس لئے موت نہیں آتی کہ وہ ساٹھ یا ستّر یا اسّی یا سویا اس سے زیادہ سال کا ہوگیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کے کچھ اجزا بعض عوارض کی بنا پر ختم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد آپسی ارتباط کے باعث ان اجزاء سے تعلق رکھنے والے اجزا بھی مرجاتے ہیں لہٰذا جب علم وسائنس ان عوارض کو برطرف کرنے یا ان کی تاثیر ختم کرنے کے قابل ہوجائے گا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ انسان سینکڑوں سال زندگی نہ گزار سکے، جب کہ بعض درخت ہزاروں سال تک زندہ رہتے ہیں(۱)
کچھ عرصہ قبل غیر ملکی جرائد سے ایک مقالہ کا ترجمہ روزنامہ ”اطلاعات“ میں شائع ہوا تھا جس میں ضعیفی کے علاج او ردائمی زندگی کے بارے میںچند عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹروں کی آخری تحقیقات پیش کی گئی تھیں۔
مذکورہ مقالہ میں صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت کی گئی تھی کہ اگر مرنے والے انسان کے بدن سے کوئی حصہ اس کی زندگی میں جدا کرلیا جائے اور پھر اسے مناسب ماحول میں رکھا جائے تو وہ حصہ زندہ رہے گا معلوم ہوا کہ حیات ابدی کا راز مناسب اور سازگار ماحول ہے(۲)
امریکہ میں ایسی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو مردوں کو مومیائی کرنے کے بعد منجمد کرکے دیتی ہیں تاکہ انھیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے، ان کمپنیوں کا اعلان ہے کہ حیات ابدی کا تصور
----------
(۱)رسالہ ٴ المقتطف شمارہ ۳ سال ۵۹سے ماخوذ ، اصل مقالہ منتخب الاثر ص ۲۸۰تا ۲۸۳ پر نقل ہوا ہے۔
(۲)اطلاعات شمارہ ،۱۱۸۰۵۔

ناقابل قبول نہیں ہے البتہ حیات ابدی کا مطلب لامحدود زندگی نہیں ہے یہ زندگی بھی محدود ہوگی اور تقریباً ایک لاکھ برس سے زیادہ نہ ہوسکے گی! یہ بھی ضروری ہے کہ حیات ابدی تک رسائی کے لئے ہمیں نفسیاتی موانع کو بھی راہ سے ہٹانا پڑے گا اس وقت ہم موت اور محدود ومختصر زندگی کے اتنا زیادہ عادی ہوچکے ہیں کہ ابدی زندگی کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں، اس طرز فکر کو تبدیل کرنا ہوگا۔(۱)
اگر ہم طول عمر اور ابدی زندگی کے بارے میں محققین ومفکرین کی تمام آرا ونظریات جمع کریں تو متعدد تفصیلی مقالات کے بعد بھی ہم محققین کے نظریات وتحقیقات بیان نہ کرسکیں گے، البتہ مکمل وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو حضرات بھی علمی دنیا کے ایسے جرائد ومجلات سے تھوڑا بہت سروکار رکھتے ہیں جن میں دانشوروں کے تازہ ترین نظریات اور جدید ترین تحقیقات اور علم وصنعت کی دنیا میں ہرروز نئی تبدیلیوں اور ارتقاء کے بارے میں رپورٹیں شائع ہوتی ہیں ایسے افراد کو جدید علمی نظریات اور تجربات کے نتائج نیز معمر حضرات کے بارے میں کہیں زیادہ اطلاعات ومعلومات فراہم ہوتی رہتی ہیں۔
ایک اور چیز کہ جس سے طول عمر اور ابدی زندگی کے امکان کو تقویت حاصل ہوتی ہے وہ اعضا کی پیوند کاری ہے یہ کارنامہ اس سال ڈاکٹر برنارڈ نے انجام دیا ہے جس کا چرچا ہر طرف سنائی دیتا ہے(۲)
دوسرے انسان کے بدن میں ایک انسان کے کسی عضو کی پیوندکاری کا مطلب ہے کہ خراب اور بے کار عضو نکال کر اس کی جگہ دوسرا صحیح عضو لگا دیا جائے اور اگر متعدد مرتبہ اس کا امکان ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ موت کو ٹالا جاسکتا ہے، عین ممکن ہے کہ مستقبل میں مزید بہتر اور آسان امکانات فراہم ہوجائیں۔
--------
(۱)اطلاعات، شمارہ۱۲۱۴۳، مجلہ دانشمند، شمارہ۶۴/۶۵۔
(۲) یہ اس وقت کی بات ہے جب فاضل مصنف نے یہ مقالہ تحریر فرمایا تھا آج کل تو اعضا کی پیوندکاری میڈیکل سائنس کے روزمرہ کے معمولات کا حصہ ہے۔ (مترجم)

علمی میدان سے اتنی وضاحتیں اور شہادتیں پیش کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ”امام زمانہ حضرت ولی عصر ارواحنافداہ “کی طول عمر او رغیبت کے تسلسل سے متعلق شیعوں کا عقیدہ وایمان، عقل، علم وسائنس اور عالم خلقت وطبیعت پر حکم فرما قوانین کے عین مطابق ہے۔
جب حیات ابدی انسان کے اختیار میں ہوسکتی ہے تو کیا خداوندعالم کے لئے اپنے ولی خاص کو بہت طولانی عمر عطا کرنا مشکل ہے؟
جو کام انسان کے دائرہ قدرت میں ہے کیا وہ کام خالق انسان کے دائرہٴ قدرت میں نہ ہوگا؟
کیا طویل عمر کے حالات وشرائط حضرت ولی عصرکے لئے فراہم کئے نہیں جاسکتے ہیں؟