حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طویل عمر
آپ کی عمر مبارک اگر مزید ہزار برس یا اس سے بھی زیادہ طولانی ہو تو اس میں بھی کسی قسم کے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ طویل عمر کا امکان اور وقوع دونوں مسلم الثبوت ہیں، چاہے ہم طبیعی طو رپر طولانی عمر کو ممکن تسلیم کریں (جیسا کہ یہی صحیح نظریہ ہے) اور چاہے اس امکان کو تسلیم نہ کرتے ہوئے طویل عمر کو خلاف عادت اور معجزہ تسلیم کریں، بہر صورت اگر ہم خدا اور اس کی قدرت پر ایمان ر کھتے ہیں اور انبیاء کی صداقت کا کلمہ پڑھتے ہیں تو حضرت ولی عصر کی طولانی عمر کے بارے میں ذرہ برابر تردد نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت کی عمر مبارک کے بارے میں سینکڑوں روایات پائی جاتی ہیں اور مشیت الٰہی بھی یہی ہے، جو شخص بھی خدا کو قادر مطلق مانتا ہے وہ اس مسئلہ کا بھی معتقد ہوگا اور جو العیاذ باللہ خدا کو عاجز مانتا ہوگا اور عاجزی کو نقص وعیب اور خدا کے صفات سلبیہ میں شمار نہیں کرتا وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ عجز نقص ہے اور ناقص محتاج ہوتا ہے اور محتاج خدا نہیں ہوسکتا۔
اس طویل عمر کے دوران صاحبان ایمان وتقویٰ اور صالحین نے بارہا آپ کی زیارت وملاقات کا شرف حاصل کیا ہے اور پاکیزہ قلب ونظر کے مالک افراد کی آنکھیں آپ کے جمال پر نور کی زیارت سے منور ہوئی ہےں۔
آپ کی حیات مبارک کے بارے میں طویل عمر کے ممکن ہونے یا نہ ہونے کی بحث بے محل ہے اور ہمارے خیال سے آپ کی طول عمر کے مسئلہ میں اس سوال کو بلاوجہ داخل کردیا گیا ہے۔
جو لوگ طول عمر کو عقلی طور پر محال جانتے ہیں اور قائل ہیں کہ عقلا طویل عمر ناممکن ہے یا طبیعی طورپر محال ہے انھیں دلیل پیش کرنا چاہئے نہ کہ ہمیں اس کے باوجود ہم نے ثابت کیا کہ بہت طویل عمر نہ تو عقلی طور پر محال ہے اور نہ ہی ذاتی طور پر محال ہے اور نہ ہی اس کے واقع ہونے سے کوئی محال لازم آتا ہے یعنی فلسفیانہ اصطلاح کے مطابق طول عمر نہ محال عقلی ہے نہ محال ذاتی اور نہ محال وقوعی
ہم پھر یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے مختلف دانشوروں اور مفکروں کے نظریات اور مغربی سائنسدانوں کی تحقیقات و تجربات کے جو نتائج پیش کئے ہیں ان کا مقصد سطحی ذہن رکھنے والے کم علم افراد کو مطمئن کرنا ہے کہ ان باتوں سے انھیں بھی یہ اطمینان حاصل ہوجائے کہ طبیعی طور پر طویل عمر کا امکان، مشرق ومغرب کے تمام دانشوروں اور سائنسدانوں کے درمیان متفق علیہ ہے۔
لیکن جہاں تک امام زمانہ ارواحنا فداہ کی طولانی عمر کا مسئلہ ہے ہم ان چیزوں کے بجائے قدرت خدا اور ارادہٴ الٰہی کو دلیل مانتے ہیں کہ اگر بالفرض طبیعی طور پر طویل عمر ممکن نہ ہو یا خارق العادة ثابت ہو تب بھی آپ کی طویل عمر پر کوئی اعتراض اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے کہ نبوت ِا نبیاء کی تصدیق خارق العادہ امور اور معجزات کو تسلیم کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
تمام انبیاء کے معجزات خارق العادہ امور ہیں جو حضرات بلا چوں وچرا انبیاء کے معجزات کو تسلیم کرتے ہیں انھیں آپ کی طویل عمر پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ آخر زندہ کو مردہ اور مردہ کو زندہ کرنے، عصا کے اژدہے میں تبدیل ہونے، پہاڑ سے اونٹ کے برآمد ہونے، آسمان سے مائدہ نازل ہونے، گہوارہ میں بچے کے گفتگو کرنے، بغیر باپ کے عیسیٰ کی پیدائش اور طویل عمر میں کیافرق ہے؟ علم وسائنس طویل عمر کے امکان کی تائید کرتی ہے لیکن یہی سائنس بہت سے معجزات کو ناممکن قرار دے کر ان کی تکذیب کرتی ہے تو آخر کیسے ممکن ہے کہ ہم تمام معجزات کو تسلیم کرلیں مگر طویل عمر کا انکار کردیں۔
ہم قائل ہیں کہ چاہے جس چیز کو بنیاد قرار دیاجائے حضرت قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طولانی عمر پر تعجب یا اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور تمام عقلا مل کر بھی حضرت کی طولانی عمر پرا عتراض کے سلسلہ میں کوئی معقول اور قابل قبول دلیل پیش نہیں کرسکتے۔
خدا نے فرمایا ہے، پیغمبر اکرم نے خبر دی ہے، ائمہ معصومین نے بشارتیں دی ہیں کہ حجت عصر، ”امام حسن عسکری کا نور نظر جس کی ولادت باسعادت نیمہٴ شعبان ۲۵۵ھء کی نورانی صبح میں ہوچکی ہے اور جس کے نور جمال سے پوری کائنات منور ہے“ ایک ایسی طویل غیبت کے بعد جس میں لوگ حیرت وتردد میں مبتلا ہوجائیں گے بلکہ اکثر لوگ شک وتردد میں گرفتا ر ہوں گے، ظلم و جور، آلام ومصائب اور گونا گوں مشکلات سے بھری ہوئی دنیا کو اپنے ظہور کے ذریعہ عدل وانصاف سے بھرد ے گا اور پوری دنیا پر اس کی حکومت ہوگی اور ہر جگہ اسلام کے قانون کی بالادستی ہوگی اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں قرآنی تعلیمات کے مطابق عادلانہ نظام قائم ہوگا۔
جب یہ بشارتیں اور خبریں قطعی، مسلم الثبوت اور متواتر ہیں اور خداوندعالم بھی قادر مطلق ہے تو آخر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ آپ کی طویل عمر اور غیبت کے اسباب کے بارے میں شکوک وشبہات شیطانی وسوسے ہیں ، ہم واضح کرچکے ہیں کہ چاہے جس معیار سے دیکھا جائے حضر ت صاحب الزمانعجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی طویل عمر کے بارے میں تعجب کا کوئی مقام نہیں ہے، علم وسائنس، عقل ونقل، قرآن وحدیث، دیگر آسمانی کتب اور قدیم وجدید دانش مندوں کے نظریات سب کے سب ہمارے عقیدہ کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
انسان اور دیگر مخلوقات کی عمر اور استثنائی موارد
عالم خلقت میں مجردات ومادیات کے مختلف انواع وافراد کے درمیان کبھی کبھی ایسے استثنائی افراد(۱) نظر آتے ہیں کہ جو اپنے ہم جنس یا اپنے خاندان کے افراد سے بہت زیادہ مختلف
ہوتے ہیں چوں کہ ہم عموماً ایک ہی طرح کی چیزوں کو دیکھنے کے عا دی ہیں لہٰذا ان استثنا ئی چیزوں کا فر ق خاص طو ر سے جبکہ وہ بہت زیا دہ ہو ہمیں بہت حیرت انگیز لگتا ہے۔ چاہے یہ فرق اور فاصلہ طول یا عرض یا حجم ووزن کے لحاظ سے ہو یا معنوی خصوصیات کے اعتبار سے یا کسی اور جہت یا قانون کے تحت پہچان لیں یا اسکا سبب ہمیں معلوم نہ ہو، بہرحال اس طرح کے استثنائی افراد کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آسمانوں، ستاروں اور کرہٴ افلاک سے لے کر ایٹم کے ذرہ تک جہاں دیکھئے استثنائی کیفیات نظر آتے ہیں یعنی ایسے موجودات دکھائی دیتے ہیں کہ جن میں اپنے ہم نوع افراد کی بہ نسبت کوئی استثنائی خصوصیت ہے جس کی بنا پر وہ توجہ کو اپنی طرف مبذول کرلیتے ہیں۔
----------
(۱) یہاں استثنائی موارد سے مراد یہ نہیں ہے کہ ایسے استثنائی افراد کسی قاعدہ وقانون کے تحت نہیں آتے کہ جیسے عوام الناس بغیر کسی سبب یا مصلحت کے کسی بھی فرق وامتیاز کو استثناء کہہ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ استثنائی افراد بھی اپنے مخصوص قوانین اور سنن الٰہیہ کے تحت ظاہر ہوتے ہیں اور انھیں استثنائی اس لحاظ سے کہاجاتا ہے کہ وہ شاذونادر ہی دکھائی دیتے ہیں اوران سے بہت کم سابقہ پڑتا ہے۔ ہمارے لحاظ سے کسی ستارہ کا طلوع یا فضا کی تبدیلی ایک استثنائی اور عدیم النظیر چیز ہوسکتی ہے لیکن جو افراد علم افلاک کے ماہر ہیں اور ستاروں او رکہکشاؤں کی حرکت پر نظر رکھتے ہیں ان کے لئے یہ کوئی عجوبی چیز نہیں ہے بلکہ ان کے خیال میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور دنیا کی لاکھوں سال عمر کے دوران بارہا ایسا ہوچکا ہے۔
کرات میں استثناء
آپ کبھی علم افلاک کے ماہرین علمائے علم ہیئت (Astronomy)کہ جو اربوں ستاروں، شمسی نظاموں، کہکشاؤں، ستاروں کے درمیان فاصلوں، ان کی مسافت وحجم اور قطر کے بارے میں وسیع معلومات کے مالک ہیں ان سے دریافت کیجئے کہ کواکب وسیارات، افلاک وکرات کے بارے میں آپ حضرات کوجن حتمی نظریات کا علم ہے کیا ان میں بھی کوئی استثناء نظر آتا ہے؟کیا کبھی آپ ایسی صورت حال سے دوچار ہوئے ہیں جو آپ کے خزانہٴ علم میں موجودنظریات کے تحت نہیں آتی، ان حضرات سے ضرور دریافت کیجئے تاکہ آپ کو ”اثبات“ میں جواب ملے اور ایسے حضرات یہ اعتراف کرتے نظرآئیں کہ ہاں یہاں بھی استثنائی مواقع اور افراد پائے جاتے ہیں۔
خدواندعالم کی ان عظیم ترین مخلوقات کے درمیان حجم وقطر اور وزن کے لحاظ سے جو فرق پایا جاتا ہے کیا اس کی حد معین ہے؟ یقینی طور پر جواب ملے گا کہ کوئی حد معین نہیں ہے، مثلا ہماری زمین اور ”سدیم المراة المسلسلہ“ کے درمیان حجم وقطر اور وزن کا کتنا فرق ہے اس کا حساب خدا کے علاوہ کوئی نہیں لگا سکتا، اس فرق اور فاصلہ کو کسی حد تک سمجھنے کے لئے پہلے سورج اور ”سدیم المراة المسلسلہ“ کا فرق محسوس کرنے کی کوشش کیجئے، علماء ہیئت کے مطابق ”سدیم المراة المسلسلہ“کے حجم کے مقابل سورج کے حجم کی ایسی ہی ہیئت ہے کہ جیسے دریچہ کے ذریعہ کمرہ میں پہنچنے والی کرن کی ہوتی ہے، یعنی آفتاب کے مقابل جو حیثیت ذرہ کی ہوتی ہے،اپنی تمام تر عظمت کے باوجود وہی حیثیت ”سدیم المراة المسلسلہ“کے مقابل آفتاب کی ہے، اب ذرا زمین کا حساب لگائیے کہ زمین سدیم المراة المسلسلہ سے کتنی چھوٹی ہوگی کیوں کہ سورج زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے جب سورج کا قطر تیرہ لاکھ نوے ہزار کلومیٹر ہے تو سدیم المراة المسلسلہ کا قطر کیا ہوگا؟ اور اتنے عظیم قطر کے ساتھ بھلا اس کا زمین سے موازنہ ہوسکتا ہے؟
ہماری زمین اور سدیم المراة جیسے بلکہ اس سے بھی بڑے کروں (کرات) کے درمیان اختلاف کس بنیا د پر ہے؟ یا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم دو کروں کے درمیان اتنے زیادہ فرق کو تسلیم نہیں کرتے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ اس نظام شمسی میں استثنائی طور پر صرف ہماری زمین یاشائد مریخ پر ہی زندگی پائی جاتی ہے؟ دیگر سیارات پر زندگی کا امکان نہیں ہے،شائد مفقود الحیات سیاروں کی تعداد لاکھوں کروڑوں سے بھی زیادہ ہو۔
ایٹم کی دنیا اور اختلاف عمر
کہا جاتا ہے کہ ایٹم کے مرکز سے کچھ میزن (Meson)جدا ہوتے ہیں انہیں میں سے کچھ ایسے ہیں جن کی عمر سکنڈ کا ہزارواں حصہ ہوتی ہے جب کہ کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی عمر سکنڈ کے دس کروڑ حصوں میں سے ایک حصہ ہوتی ہے یعنی بہت ہی زیادہ کم اور مختصر کل جب اہل دنیا ایٹم کی حقیقت سے بے خبرتھے اگران کے سامنے یہ فرق بیان کیا جاتا تو کیاوہ لوگ اسے قبول کرلیتے؟ ہرگز نہیں لیکن آج یہ فزکس کا مسلمہ ہے(۱)
علم نباتات کی دنیا میں اختلاف اور استثنائ
عالم نباتات میں بھی بے شمار عجیب وغریب استثناآت دکھائی دیتے ہیں، درختوں میں ایسے بہت سے درخت ہیں جو اپنی لمبائی، چوڑائی، سن یا قطر کے باعث لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں مثلا لبنان کا ”ارز“ اور امریکا کے ”ام الاجمہ“ (جنگلات کی ماں) نامی درخت، ”ام الاجمہ“ (۲) امریکا کے سب سے بڑے درختوں میں شمار ہوتا ہے اس کی لمبائی ۳۰۰سے ۴۰۰فٹ کے قریب ہوتی ہے اور
---------
(۱)رسالہ نور دانش،شمارہ۶،سال ۵۔
(۲)”ام الاجمہ“ اس درخت کا عربی نام ہے۔
زمین کے نزدیک اس کے تنے کا قطر تین سو فٹ اور اس کی چھال اٹھارہ انگل موٹی ہے۔
اسکاٹ لینڈ میں پائے جانے والے بعض درختوں کی عمر ایک اندازہ کے مطابق تین سو سال سے زیادہ ہے،ماحولیات کے ایک محقق نے ایک درخت کی عمر کا اندازہ تقریباً پانچ ہزار سال بیان کیا ہے جب کہ یہ درخت اپنی طرح کے درختوں میں سب سے چھوٹا ہے۔
کیلی فورنیا میں ”کاج“ (چیڑ)کا ایک درخت ہے جس کی لمبائی تین سو فٹ اور قطر تقریباً تیس فٹ ہے اس کی عمر چھ ہزار سال ہے۔
ان سب سے زیادہ تعجب خیز (بحر اوقیانوس) دریائے اٹلانٹک کے جزیرہ ”تنزیف“ میں واقع شہر ”اورتاوا“ کا ”عندم“ نامی درخت ہے،(۱) اس درخت کا قطر اتنا ہے کہ اگر دس افراد ہاتھ پھیلا کر انگلیوں سے انگلیاں ملاکر کھڑے ہوجائیں تب بھی اس کے تنے کا مکمل احاطہ نہیں کرسکتے ہیں، ”الآیات البینات“ کے مصنف فرماتے ہیں کہ مذکورہ جزیرہ کے انکشاف کو آج( ۱۸۸۲ءء میں) ۴۸۲ سال گزر چکے ہیں اور عندم کا یہ عظیم تناور درخت اس وقت بھی ایسا ہی تھا اور اس میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی، عندم کی قسم کے دوسرے چھوٹے درختوں کو دیکھ کر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نشوء نما کی رفتار بہت سست ہوتی ہے لہٰذا صرف خدا کو ہی معلوم ہے کہ یہ درخت کتنی صدیوں پرانا ہے۔
علم نباتات کا ایک ماہر اس درخت کی عمر کے بارے میں عاجزی کا اعلان کرتے ہوئے کہتاہے کہ : ”فکر بشری اس راز کو سمجھنے سے قاصر ہے اور اس درخت کی عمر کے بارے میں اندازہ بھی نہیں لگاسکتی میرے خیال میں اتنا طے شدہ اور مسلّم ہے کہ خلقت بشر کے پہلے سے اس درخت کی نشوء نما کا سلسلہ جاری تھا اور طویل عمر گزارنے کے بعد آج یہ درخت اس تن وتوش اور قدوقامت کا ہوا ہے۔“
”الآیات البینات“ کے مصنف فرماتے ہیں: ”اس سے زیادہ عجیب وغریب بات یہ ہے کہ
------------
(۱)عندم کے درخت کو”دم الاخوین“اور”دم الثعبان“اور فارسی میں ”خون سیاوش“ یا ”خون شیاوشان“ بھی کہا جاتا ہے۔ بظاہر عربی میں صحیح تلفظ ”عُندُم“ ہے۔
علم نباتات کے ماہرین عندم کو درختوں میں شمار نہیں کرتے بلکہ اس کا شمار ایسے پودوں (گھاس پھوس) میں ہوتا ہے جن کی جڑ پیاز کی طرح ہوتی ہے جیسے کہ سنبل ونرگس کی جڑیں اب ذرا ان حقائق کے پیش نظر اس درخت کے خالق علیم وقدیر کی قدرت کا اندازہ لگائیے کہ ہر اگنے والی شئے کے اندر اس کے اسرار حکمت کا خزانہ پوشیدہ ہے(۱)
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بعض درخت ”گوشت خور ہوتے ہیں، جو پرندوں، حیوانوں اور بسا اوقات انسان کو شکار کرلیتے ہیں؟
نباتات کی دنیا میں دریاؤں میں پائے جانے والے ان ”ژلاتین“ جیلٴن کا شمار بھی گھاس میں ہوتا ہے جو ”کلوروفل“ (Chlorophyll) کو جذب کرتے ہیں اور جن کی عمر ایک سکینڈ سے بھی کم ہوتی ہے۔
استوائی علاقہ میں ایسے درخت بھی پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر انھیں پانی میسر ہوتا رہے تو قیامت تک سرسبزوشاداب رہیں گے اور ان میں برگ و بار او رشاخیں نکلتی رہیں گی۔ (۲)
”لامباردیا“ میں ایک درخت ہے جس کی اونچائی ۱۲۰ فٹ اور قطر ۲۳ فٹ ہے اور اس کی عمر دوہزار سال سے زیادہ ہے، ”بریبورن کینٹ“ میں ایک درخت ہے جس کی عمر کا اندازہ تقریباً تین ہزار سال لگایا جاتا ہے اسی طرح ”تکودیم“ اور ”شیشیوم“ نامی قسم کے درخت بھی ہیں جن کی عمر کا اندازہ چھ ہزار سال ہے۔(۳)
گیہوں کے ایک دانہ سے سات سو دانوں سے زیادہ کبھی نہیں سنا گیا لیکن اِدھر اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ”بوشہر“ کے گاؤں ”کرہ بند“ کے ایک کھیت میں ایک دانہ سے چار ہزار سے
--------
(۱)پیک ایران شمارہ ۱۱۵۲۔
(۲)نوردانش، شمارہ۶، سال۵ ۔
(۳)اللهوالعلم الحدیث، ص۹۶۔
زائد دانوں کی پیداوار ہوئی جس کے باعث ماہرین زراعت بھی حیرت میں پڑگئے،جب کہ ایک دانہ سے اوسط پیداوار چالیس دانے ہے۔
حیوانات کی دنیا میں اختلاف
مختلف انواع کے حیوانات کی اوسط عمر کے بارے میں علم الحیوان کے ماہرین کی جانب سے جو اعداد وشمار پیش کئے جاتے ہیں ان سے حیوانات کی اوسط عمر کا علم بخوبی ہوجاتا ہے لیکن ان کے درمیان بھی کم و زیادہ فاصلہ کی صورت حال عجیب وغریب ہے، فرق اور اختلاف کے ساتھ ساتھ ہر نوع کے افراد کے درمیان استثنائی افراد بھی بہت نظر آتے ہیں، ایسی خبریں اکثر وبیشتر اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں اگر ان خبروں کو جمع کیا جائے تو ایک مفصل اور قابل توجہ کتاب تیار ہوجائے۔
روس کی جمہوریہ ”یا کوتسک“ میں قطب شمال کے نزدیک دانشوروں کو ایک گھونگا، ملا ہے جو کئی ہزار سال یعنی ماقبل تاریخ سے اب تک زندہ ہے۔(۱)
شمالی یورپ کے بحراعظم اطلس میں ایسی مچھلیاں دیکھی گئی ہیں جن کی عمر کے بارے میں تیس لاکھ سال کا اندازہ لگایا گیا ہے، اسی طرح سانپوں کی عمر کئی ہزار سال بتائی جاتی ہے جب کہ بعض ایسے رینگنے والے جانور بھی ہیں جن کی عمر چند لمحات سے زیادہ نہیں ہوتی (۲)
کیا آپ کو معلوم ہے کہ رانی مکھی کی عمر شہد کی مکھیوں کے مقابلہ میں چار سو گنا زیادہ ہوتی ہے؟
عالم انسان میں استثنائ
انسانوں کے درمیان بھی فرق، امتیاز اور اختلاف کا قانون حاکم ہے، اگر یہ قانون نہ ہوتا تو
--------
(۱)روزنامہ اطلاعات، شمارہ ۹۷۷۔
(۲) نوردانش، شمارہ۶ سال۵۔
افراد کا پہچاننا ممکن نہ ہوتا، خداوندعالم نے اس اختلاف کو اپنی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے اعلان ہوتا ہے:
”ومن آیاتہاختلاف السنتکم والوانکم“(۱)
اللہ کی نشانیوں میں سے تمہارے رنگوں اور زبانوں کا اختلاف بھی ہے۔
لوگوں کے درمیان اتنا زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اپنی کثرت کے باعث یہ اختلاف اکثر افراد کی نگاہوں سے اوجھل ہے، عموماً لوگ شکل وقیافہ کے ذریعہ ہی افراد کو پہچانتے ہیں لیکن آج انسان نے ترقی کے باعث جو وسائل ایجاد کئے ہیں ان کے سہارے انسانوں کو خون، ہڈیوں،اور انگلیوں کے نشانات کے ذریعہ بھی پہچانا جاسکتا ہے(۲)
عمر، قد، رنگ، بدن کی ساخت، قوت عقل وفکر، احساسات وغیرہ کے لحاظ سے نادرالوجود افراد مل جاتے ہیں مثلا ایک شخص کا دل داہنی طرف تھا، کوئی شخص اپنے قدوقامت یا وزن کے لحاظ سے اربوں انسانوں کے درمیان اپنی مثال آپ ہوتاہے۔
اگر روحانی واخلاقی عادات واطوار اور صفات کے لحاظ سے دیکھیں تو کوئی سخاوت میں حاتم طائی نظر آتا ہے تو کوئی کنجوسی میں ضرب المثل بن جاتا ہے، فکر ودماغ کے لحاظ سے بھی کوئی نابغہٴ عصر ہوتا ہے تو کوئی اتنا ذہین کہ مشکل سے مشکل فلسفی وریاضی مسائل کا حل کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا، اور کوئی اتنا کندذہن اور غبی ہوتا ہے کہ سامنے کی بات بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتی اور دو، دو چار جیسے جوڑ بھی اس کے لئے مشکل ہوتے ہیں، تاریخ میں جتنے بھی نابغہ اور نامور ہستیاں گزری ہیںوہ کوئی الگ مخلوق نہیں تھیں بلکہ ایسی فاتح عالم ہستیاں بھی انسان ہی تھے مگر عام انسانوں سے ان کا مرتبہ ذرا بلند تھا۔
---------
(۱) سورہٴ روم، آیت۲۲۔
(۲)آج کل D.N.A. بھی قطعی شناخت کا ذریعہ بن گیا ہے۔ (مترجم)
خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ عالم خلقت میں استثنائی صورت حال کا ہر جگہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ہاں کبھی اس کا سبب ہمیں معلوم ہوجاتا ہے اور کبھی معلوم نہیں ہوپاتااور کبھی یہ صورت اچانک رونما ہوتی ہے۔
اب ہم ان لوگوں سے جو امام زمانہ کی طویل عمر کو بعید تصور کرتے ہیں، یا سرے سے اس کے منکر ہیں یہ دریافت کرتے ہیں:
آخر آپ انکار کیوں کررہے ہیں کیا مخلوقات کے درمیان آپ کو استثناآت نظر نہیں آتے؟ کیا طویل عمر انھیں استثناآت کا حصہ نہیں ہے؟
آخر کیوں ہم کروڑوں، ایٹم، نباتات وحیوانات کی دنیا میں عمر یا دیگر کسی اور لحاظ سے استثنائی صورت حال کوتو تسلیم کرلیتے ہیں لیکن امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کہ جوولی ٴخدا بھی ہیں ان کے بارے میںطولانی عمر کے استثناء کو تسلیم نہیں کرتے؟
اگر کوئی شخص مومن وموحد نہ بھی ہو تب بھی اسے عالم طبیعت میں بکھرے ہوئے بے شمار نمونوں کو دیکھ کر کسی شخص کی طویل عمر کے انکار کا حق نہیں ہے، اور اگرہم معرفت خدا رکھتے ہیں اس کی قدرت اور انبیاء کرام کی خبروں پر ایمان لاتے ہیں تو پھر حضرت کے طول عمر کے انکار کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟۔
کیا خدا اس بات پر قادر نہیں ہے؟ کیا خدا کسی انسان کو ہزاروں سال تک زندہ نہیں رکھ سکتا؟آپ تو طویل عمر سے بھی زیادہ عجیب وغریب اور استثنائی باتوں کو تسلیم کرتے ہیں مثلا عصا کا اژدھے میں تبدیل ہونا، بغیر باپ کے جناب عیسیٰ کی ولادت تو آخر فرزند پیغمبر کی طویل عمر کو تسلیم کیوں نہیں کرتے؟
کیا کرات، ایٹم، نباتات، حیوانات کا خدا یا جناب عیسیٰ کو بغیر باپ کے پیدا کرنے والا خدا کوئی اور ہے اور امام زمانہ کا خدا کوئی اورہے؟ ہرگز نہیں آپ ہی نہیں کوئی بھی شخص اس سوال کا منفی جواب نہیں دے سکتا ہے کہ اس سے خدا کی قدرت پر حرف آتا ہے۔
|