نويد امن وامان
 
امتحان
غیبت کی ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ اس سے شیعوں کا ایمان خالص ہو گا اور اسکے ذریعہ ان کے عقیدے اور ان کی معرفت کا امتحان مقصود ہے ۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اور دین و شریعت نیز آیات و روایات اور اہل شریعت کی سیرت اس کی بہترین دلیل ہے کہ خدا وند عالم کی ایک سنت جو ہمیشہ قائم ودائم ہے وہ بندگان خدا کا امتحان اور ان کی آزمائش بھی ہے تاکہ اسکے ذریعہ نیک،صالح اور لائق افراد کا انتخاب کیا جا سکے، موت و حیات ،غربت اور مالداری ،صحت اور بیماری، عہدہ اور مقام ،نعمت کا ہونا (وجود) اور نہ ہونا،(فقدان) حالات زمانہ کی گردش، پریشانیا ں اور مشکلا ت،خوشیاں اور مسرتیں یہ سب مومنین کے ایمان میں خلوص، ان کی تربیت،امتحان، ریاضت، ان کے کمالات کا اظہار، ان کی صلاحیتوں، ان کی شخصیت ایمان ،صبر و استقامت اور خدائی احکام کے سامنے انکے درجہ ٴ تسلیم و رضا کو پہچاننے کا ذریعہ ہیں ۔
جیسا کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو وجہوں کی بنا پر حضرت مہدی کی غیبت سب سے اہم امتحان الٰہی ہے(۱)
---------
(۱)ملاحظہ کریں مولف کی کتاب ”منتخب الاثر“ فصل ۲،باب ۲۸ اور ۴۷۔

پہلی وجہ:غیبت کیونکہ بہت طولانی ہوگی اس لئے اکثر لوگ شک و شبہہ کا شکار ہوجائیں گے جبکہ بعض لوگ آپ کی ولادت یا آپ کے زندہ رہنے کے بارے میں شک کریں گے اور صرف مخلص صاحبان معرفت اورتجربہ کار لوگوں کے علاوہ کوئی شخص بھی آپ کی امامت کے عقیدہ پر باقی نہ رہے گا جیسا کہ پیغمبر اکرم کی ایک معروف روایت میں ہے جسے جناب جابر نے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :
ذلک الذی یغیب عن شیعتہ و اٴولیائہ لا یثبت فیھا علی القول بامامتہ الا مَن امتحن اللہ قلبہ للایمان(۱)
وہ اپنے شیعوں اور چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہو جائے گا اور اُس شخص کے علاوہ اس کی امامت کاکوئی قائل نہ رہ جائے جسکے دل کا خداوند عالم نے ایمان کے لئے امتحان لے رکھاہے۔
اور یہ واضح ہے کہ آپ کے موجود ہونے اور آپکی طولانی عمر اور غیبت نیز ظہور کا طولانی انتظار اور غیبت پر ایمان رکھنا یہ سب باتیں پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین کی پیشین گوئیوں اور غیب سے متعلق خبروں پر حسن اعتماد ،قدرت الٰہی پر ایمان اور دینی نظام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی (مقدارکی ) علامت ہے کیونکہ غیبی چیزوں کے بارے میں کامل اور سچا یقین صرف انہیں کو حاصل ہے جو متقی وپرہیزگار اور اہل یقین ہیں اور وسوسے کی تاریکیوں سے نکل کر اطمینان نفس اور عقیدہ میں استقامت اور ثبات قدم کی منزل تک پہونچ چکے ہیں اور ان کے دل ہدایت الٰہیہ سے روشن ومنور ہیں نیز وہ شکوک و شبہات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے اور دینداری اور امامت کے راستے میں ان کے قدموں میں کبھی لغزش پیدا نہیں ہوتی ۔
دوسری وجہ: غیبت کے دور میں پیش آنے والی وہ مشکلات اور ناگوار حوادث اور حالات زمانہ کا الٹ پھیر ہے جو لوگوں کو اس طرح منقلب کر ڈالے گا کہ جسکے بعد ایمان کی حفاظت کرنا بہت
--------
(۱)گذشتہ حوالہ فصل۱باب۸ح۴۔

مشکل مرحلہ ہے اور لوگوں کا ایمان بہت بڑے خطرات سے دو چار ہوگا جیسا کہ امام جعفر صادق نے فرمایا ہے : جو شخص غیبت کے زمانہ میں اپنے دین کا پابند رہنا چاہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے خاردار شاخ پر اسکے کانٹے صاف کرنے کے لئے ہاتھ مارے پھر امام نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرکے اس کی وضاحت کی اور یہ فرمایا: اس صاحب امر کی ایک غیبت ہے لہٰذا ہر بندہٴ خدا پرہیز گاری سے کام لے(اورخدا سے ڈرے )اور اسکے دین سے متمسک (وابستہ)رہے۔
حدیث کی عربی عبارت یہ ہے:
ان لصاحب ھذا الامرغیبة المتمسک فیھا بدینہ کالخارط للقُتَاد ثم قال : ھٰکذا بیدہ ثم قال ان لصاحب ھذا الامرغیبةٌ فلیتق اللّٰہ عبدَہ وَلْیتمسَّک بدینہ۔(۱)
غیبت کے زمانے میں دنیا کی ظاہری آرائشیں اور چمک دمک جتنی زیادہ پر فریب ہونگی لوگوں کے لئے گناہوں ،برائیوں اور حیوانی لذتوں کے امکانات اتنے ہی زیادہ فراہم ہو ں گے ہر طرف لہو و لعب اور ناچ گا نے کا دور دورہ ہوگا ،نا محرم مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھیں گے، آمدنی کے حرام ذرائع عام بات اور قانونی سمجھے جائیں گے، اکثر لوگوں کی آمدنی ناجائز (حرام) راستوں سے ہوگی اور مومن کے لئے تلوار کا ایک وار سہنا ایک حلال درہم حاصل کرنے سے آسان ہوگا لوگوں پر مادیت اور دنیا پرستی کا تسلط ہوگا منصب اور عہدے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں پہونچ جائیں گے جنہیں احکام خدا کی کوئی پرواہ نہ ہوگی کام کاج میں عورتوں کا عمل دخل ہوگا، سود،شراب کی خرید و فروخت اور شراب نوشی، جوا، بے حیائی (بدکاری)کا کھلا چلن ہوگا۔
دیندار اور مومن ،ذلیل و خوار اور بدکار ،بد معاش اور بے دین لوگ بظاہر صاحب عزت بن بیٹھیں گے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرمتروک ہو جائے گا اور اسکے بر عکس نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی کہا
---------
(۱)کمال الدین ج۲ص۱۶ ح ۳۴ ب ۳۴ اور موٴلف کی کتاب منتخب الاثر فصل۲ ب۲۷ج۱۰۔

جائے گا گناہ و معصیت اور ظالموں کے کاموں میں شرکت فخر کی بات ہوگی ،امانت کو مال غنیمت اور صدقہ کوگھاٹا سمجھا جائے گا۔
اسلامی آداب اور رسم و رواج کے بجائے کفار کی رسموں کو قانونی حیثیت دی جائے گی اہل حق خانہ نشین ہونگے اور نالائق ایمان سے بے بہرہ لوگوں کو ہر چیز پر اختیار حاصل ہوگا عورتیں انتہائی بے حیائی کے ساتھ تمام اسلامی احکام کو بالائے طاق رکھکر دور جاہلیت کی صورتحال کی طرف پلٹ جائیں گی کفار کے تسلط ،اشرار کی غنڈہ گردی کی وجہ سے مومنین ایسے دباوٴ کا شکار اور اس طرح آزادی سے محروم ہوجائیں گے کہ کسی کے اندر علی الاعلان خدا کانام لینے کی طاقت نہ ہوگی اور ایمان کی حفاظت اتنا سخت مرحلہ ہوگا کہ ایک شخص صبح کو مومن اور مسلمان ہوگا اور رات تک اسلام سے خارج ہوکر کا فر ہو چکا ہوگا ۔
امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : یہ امر (ظہور) تمہارے سامنے نہیں آئے گا مگر ناامیدی کے بعد ۔خدا کی قسم یہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوگا جب تک تم (مومن اور منافق) ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جاوٴ ۔خدا کی قسم یہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوگا جب تک جسے بد قسمت (شقی)ہونا ہے وہ بد بخت اور شقی نہ ہو جائے اور جس کو سعید (خوش قسمت )ہونا ہے وہ خوش قسمت نہ ہو جائے(۱)
ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا : ان کی غیبت کے زمانہ میں ان کی امامت کے عقیدے پر ثابت قدم رہنے والے سرخ سونے سے بھی زیادہ نایاب ہونگے یہ سن کر جناب جابر کھڑے ہوگئے اور عرض کی:
یارسول اللہ! آپ کی اولاد میں سے قائم کے لئے غیبت ہے ؟
---------
(۱)کمال الدین ج۲ب۳۴ص۱۵ح۳۱

آپ نے فرمایا : ہاں میرے پرور دگار کی قسم ایسی غیبت جو ایمان کو خالص کر دے اور کفار کو محو کر دے اے جابر! یہ خدا کے امور میں سے ایک امر (بڑا کام) اور خدا کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جو بندوں کے اوپر پوشیدہ ہے لہٰذا اسمیں شک کرنے سے ڈرتے رہنا کیونکہ خدا وند عالم کے کاموں میں شک کرنا یقیناً کفر ہے(۱)
عبد الرحمٰن بن سلیط کی روایت کے مطابق امام حسین نے فرمایا ہے :
ہمارے درمیان سے بارہ مہدی (ہدایت یافتہ)ہونگے جن میں سب سے پہلے امیرالمومنین علی بن ابی طالب اور آخری میرا نواں فرزندہے وہ امام قائم(عج) ہے جو حق کے ساتھ قیام کرے گا جسکے ذریعہ خدا وند عالم مردہ زمین کو زندگی عطا کرے گا اور اس کے ذریعہ دین کو ظاہر کرے گا اور ہر دین پر فتح عطا کرے گا اگر چہ مشرکین کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو اس کے لئے ایک ایسی غیبت ہے جسمیں کچھ لوگ دین سے منحرف ہو کر مرتد ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اپنے دین پر باقی رہ کر مشکلات کا شکار ہونگے ان سے کہا جائے گا : کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ وعدہ کب پورا ہوگا؟ (قائم کا ظہور کب ہوگا) یاد رکھو! ان کی غیبت میں مشکلات اور دشمنوں کی تکذیب پر صبر کرنے والاپیغمبراکرم کی رکاب میں آپ کے سامنے جہاد کرنے والوں کی طرح ہے(۲)
واضح رہے کہ اس امتحان کی شدت کے بارے میں بہت زیادہ حدیثیں موجود ہیں ملاحظہ فرمائیے ”غیبت نعمانی “ ، ”غیبت“ شیخ طوسی اور شیخ صدوق کی کتاب ”کمال الدین“ اور اس حقیر کی کتاب ”منتخب الاثر“۔
--------
(۱)کمال الدین ج۱ ب۲۶ ص۴۰۴ ح ۷۔
(۲)کمال الدین ج اب ۳۰ ص ۴۳۴ ح ۳۔

حالات سازگار ہونے کا انتظار
غیبت کی ایک مصلحت انسانی صلاحیتوں (اور استعدادوں )کی تکمیل اور ان کو فکری اور ذہنی اعتبار سے آپ کے ظہور کے لئے تیار کرنا ہے کیونکہ آپ کا طریقہٴ کار ظاہری باتوں کی رعایت یاظاہر پر حکم کرنا نہیں ہے بلکہ آپ کا دارومدار حق اور حقیقت کا خیال رکھنا اور اسی کے مطابق حکم کرنا اور اسمیں تقیہ سے پرہیز، دینی معاملات، دوسروں کے حقوق، ناحق لئے جانے والے اموال کی واپسی، حقیقی انصاف قائم کرنا اور تما م اسلامی احکام کو کسی رعایت اور چشم پوشی کے بغیر نافذ کرناہے۔
اسلام دشمن طاقتوں اور اصلاحات کے مخالفین اور عہدہ پرست اہل سیاست نے جتنے نظام بنا رکھے ہیں وہ ان سب کو ختم کر کے ان کی جگہ اسلام کے ان قوانین اور احکام کو زندہ اور نافذ کریں گے جنکو انہوں نے مٹا رکھا ہے اور آپ کے جد اکرم حضرت محمد مصطفیٰ جو دین لیکر آئے تھے اور دنیا کے جاہ طلب اور سر پھرے حاکموں کے ناحق دباوٴ اور مظالم کی بنا پرجس کی کوئی قانونی یا سماجی حیثیت نہیں رہ گئی تھی وہ اسے پھر سے قانونی حیثیت عطا کرےنگے اور پوری کائنات کو اسلام اور قرآن کے پیغامات کی طرف واپس پلٹائیں گے ،صاحبان منصب اور لوگوں کے کاموں کے ذمہ دار افراد سے سختی کے ساتھ پوچھ گچھ ہو گی اور مجرموں نیز گناہگاروں کے لئے کسی قسم کی رعایت یاچھوٹ نہیں ہوگی اور ہر طرف اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی ۔
یہ طے ہے کہ ایسے ہمہ جہت انقلاب اور نظام کے لئے بشر کی علمی،فکری اوراخلاقی ترقی نیز لوگوں کے اندر اس تحریک کو قبول کرنے اور اسے ماننے کی آمادگی اور اس عظیم الشان ہادی کی رہبرانہ (قائدانہ) صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ آپ کے مخصوص اصحاب جو آپ کی مدد میں ثابت قدم اور معرفت وبصیرت کے لحاظ سے کامل ہوں وہ بھی احادیث میں بیان شدہ تعداد کے برابر ہو جائیں، دنیا کی فضا ایسے ظہور کے لئے ہموار ہو جائے اور دنیا کی تمام قومیں اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ اس سے پہلے جتنے بھی نظام حکومت اور سیاسی یا اقتصادی مکاتب فکر سامنے آئے وہ کسی درد کی دوا نہیں ہیں اور حقوق بشر کے لئے قائم کئے جانے والے عالمی ادارے، بڑے بڑے بین الاقوامی اجتماعات اور کانفرنسیں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے ،اب تک جو کچھ بھی اصلاحی اور تعمیری پروگرام بنے ہیں یا آئندہ بنائے جائیں گے ان کے بارے میں مایوسی سب کو اپنی گرفت میں لے لے جیسا کہ روایات میں ہے کہ بے حیائی اور فحاشی اتنی عام ہو جائے کہ جانوروں کی طرح سڑکوں پر کھلے عام مردوں اور عورتوں کو بدکاری میں کوئی شرم محسوس نہ ہو اور شرم وحیاء اور غیرت کا جنازہ نکل جائے۔
جیسا کہ ہمیں دکھائی دے رہا ہے کہ جتنے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں اور جو لائحہ عمل بھی تیار ہوتا ہے وہ سب تہذیب و تمدن کے برخلاف ہے اور اس سے ظلم وستم یا برائیوں کو بڑھا وا ملتا ہے جس سے لوگوں کے اندر پریشانی واضطراب پیدا ہوتا ہے اور روحانی (نفسیاتی) گتھیاں اور الجھ جاتی ہیں ارتداد اور رجعت پسندی میں اضافہ ہوتا ہے اور زیادہ تر جسمانی اور مادی (حیوانی) پہلوؤں پر توجہ کی جاتی ہے اور انسانی اور روحانی اقدار کی کوئی پرواہ نہیں رہتی ہے۔
جب دنیا کا یہ حال ہو جائے اور (انسانیت سے عاری)موجودہ تہذیب و تمدن سے سب عاجز آجائیں اور دنیا پر تاریکی چھا جائے توغیبی عنایتوں کے سائے میں ایک مرد خدا کے بہترین استقلال کا نظارہ آنکھوں کے سامنے ہوگا اندھیرے چھٹ جائیں گے اور تشنگان حق وعدالت کو معرفت و سعادت کے شیریں جام سے سیراب کریں گے اور مردہ انسانوں کے دل میں نئی روح پھونک دینگے:
اعلموا انّ اللہ یحي الارض بعد موتھا۔(۱)
--------
(۱)سورہٴ حدید آیت۱۷۔

یا د رکھو کہ خدا مردہ زمینوں کو زندہ کرنے والا ہے۔
ایسے حالات میں اہل دنیا بے مثال طریقے سے آسمانی منادی کی روحانی آواز کو اپنے دل کی گہرائیوں سے قبول کریں گے کیونکہ اندھیرا جتنا زیادہ ہوتا ہے نور کی روشنی (چمک)اتنی ہی زیادہ عیاں ہوتی ہے اور اسکا اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔
لیکن اگر حالات سازگار نہ ہوں اور حکمت الٰہی کی بنا پر اسمیں جس حد تک تاخیر ہونا چاہئے وہ تاخیر نہ ہو تو پھر اس ظہور کے تمام فائدے کما حقہ حاصل نہیں ہوسکتے، لہٰذا ایک معین مدت تک اس ظہور میں تاخیر ضروری ہے اور جیسے ہی حالات سازگار ہوں اور حکمت الٰہی کے تحت غیبی آواز اسکا اعلان کر دے اس وقت ظہور ہو جائے گا جس کی خبر کسی کو نہیں ہے اورجو شخص بھی ظہور کا وقت معین کرے وہ جھوٹا ہے۔
امام جعفر صادق نے فرمایا ہے : ظہور کا کوئی وقت معین نہیں ہے کیونکہ قیامت کی طرح اسکا علم بھی صرف خدا کو ہے یہاں تک کہ فرمایا : ہمارے مہدی کے ظہور کے لئے کسی نے بھی وقت معین نہیں کیا مگر یہ کہ وہ اپنے کو خدا کے علم میں شریک سمجھے اور یہ دعویٰ کرے کہ خدا نے اسکو اپنے راز (اسرار) بتا دئے ہیں (۱)

کفار کی نسل میں مومنین کی پیدائش
جیسا کہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ خدا وند عالم نے بہت سے مومنین کا نطفہ کفار کے صلبوں میں امانت کے طور پر رکھ دیا لہٰذا امانتوں کا ظاہر ہونا لازمی ہے اب اگر ان امانتوں کے ظاہر ہونے سے پہلے ہی امام قیام کر کے جزیہ کا قانون ختم کردیں اور کفار کو قتل کر ڈالیں تو یہ مقصد پورا نہیں ہو گا اور وہ امانتیں ظاہر نہ ہو پائیں گی۔
--------
(۱)اثبات الہداة ج۷ فصل ۵۵ب۳۲ص۱۵۶ج۴۰۔

کیا کوئی شخص یہ سوچ سکتا تھاکہ حجاج جیسے خونخوار اور جلاد (دشمنان اہلبیت میں اس جیسے سفاک اور درندہ صفت بہت کم لوگ ملتے ہیں)کی نسل میں حسین بن احمد بن حجاج (جو ابن الحجاج کے نام سے مشہور ہیں) جیسا نامور شاعر، مشہور خطیب(سخنور)خاندان پیغمبر کا چاہنے والا اور ان کا شیعہ پیدا ہو جائے گا اور اہلبیت کی مدح میں ایسے لا جواب قصیدے اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں ایسے اشعار کہے گا جس سے شیعہ مذہب کی ترویج ہوگی، ان کے مشہور و معروف قصائد میں اسے ایک مشہور قصیدہ کا مطلع یہ ہے :

یا صاحب القبة البیضاء علی النجف
من زار قبرک و استشفیٰ لدیہ شفیٰ

”اے بلند مقام پر درخشاں قبہ کے مالک جو شخص آپ کی قبر کی زیارت کرے اوراس سے شفا طلب کرے اس نے شفا حاصل کر لی ،،
کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ حضرت امام موسیٰ کاظم کے قاتل ”سندی بن شاہک“کی اولاد میں مشہور شاعر اور دنیائے ادب کے درخشاں ستارے ”کشاجم“ پیدا ہو سکتے ہیں جو حضرت علی اور ان کے گھر والوں کی امامت کے حقیقی جلوہ کی تاثیر کی بنا پر اپنی پوری عمر انہیں کی مدح و ثنا میں گذار دیں گے ۔
مختصر یہ کہ کفار کی پشتوں (نسلوں )میں مومنین کی پیدائش یہ ایک ایسی اہم چیز ہے جسکے لئے ظہور کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے اور ایسے ہی موقع پر ظہور ہو جب کفار کے صلبوں میں کوئی امانت باقی نہ رہ جائے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب نوح کے قصہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی یہ دعا نقل کی ہے:ولا یلدوا الا فاجراً کفاراً۔(۱)
حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کا ظہور بھی ایسے ہی حالات میںہوگا ،اور یہی آیہٴ کریمہ :
لوتزیّلوا لعذّبنا الذین کفروا منھم عذاباً الیما۔(۲)
-------
(۱)” اور فاحر و کافر کے علاوہ کوئی اولاد بھی پیدا نہ کریں“سورہٴ نوح آیت ۲۷۔
(۲) سورہٴ فتح آیت۲۵۔

”اگر یہ لوگ الگ ہو جاتے تو ہم کفار کو درد ناک عذاب میں مبتلا کر دیتے“ کی تفسیر ہے جو متعدد روایات میں ذکر ہوئی ہے جس کو تفسیر برہان، صافی وغیرہ یا احادیث کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے ان روایا ت کا مضمون یہ ہے :
”قائم اس وقت تک ہر گز ظہور نہ کرینگے جب تک خدا کی امانتیں ظاہر نہ ہو جائیں اور جب وہ سب امانتیں سامنے آجائیں گی تو تمام دشمنان خدا کا پتہ چل جائے گا اور آپ ان کو قتل کرڈالیں گے“

محقق طوسی کا قول
فیلسوف مشرق، اسلامی حکماء اور فلاسفہ کے لئے باعث افتخار خواجہ نصیر الدین طوسی نے امامت کے بارے میں ایک فلسفیانہ اور محققانہ رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت اور اس کی طولانی مدت اور مسئلہ غیبت کے امکان کے بارے میں ایک پوری فصل تحریر کی ہے جسکے آخر میں آپ نے یہ لکھا ہے:
”و اما سبب غیبتہ فلا یجو ز ان یکون من اللہ سبحانہ ولا منہ کما عرفت فیکون من المکلفّین وھو الخوف الغالب و عدم التمکین والظہور یجب عند زوال السبب(۱)
”لیکن یہ جائز نہیں ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت خدا کی طرف سے، یاخود آپ کی طرف سے ہو جیسا کہ آپ جان چکے ہیںپس اس کی وجہ خود عوام (لوگ) ہیں کیوں کہ ان کے اوپر
--------
(۱)یہ رسالہ ۱۳۳۵ہء شمسی میں تہران میں طبع ہوا تھا جسمیں یہ جملہ تیسری فصل کے اندر صفحہ ۲۵ پر نقل ہوا ہے۔

خوف کا غلبہ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرناہی اس کا سبب ہے اور جب بھی یہ رکاوٹیں ختم ہوجائیں گی تو ظہور واجب ہوجائے گا “۔
اگر غور و فکر اور دقت نظر سے کام لیا جائے تو اس عظیم عالم نے عقل و حکمت کی روشنی میں اس موضوع کی جو وضاحت اور تحلیل کی ہے یہ سب باتیں ان بعض اسباب کی تائید کرتی ہیں جن پر ہم نے اس مقالہ میں روشنی ڈالی ہے یعنی ”جان کا خطرہ اور عوام کا آپ کی اطاعت نہ کرنا“ اگر یہ اسباب بر طرف ہو جائیں تو آپ کا ظہور یقینی ہے ۔
لہٰذا یہ ہر گز مناسب نہیں ہے کہ لوگ خود غیبت کا سبب بننے کے باوجود اس بارے میں اعتراض کریں اور بالفرض اگر لوگ ان رکاوٹوں کو ختم نہ کریں گے تو آپ خدا وند عالم کی مصلحت اور اس کے ارادہ کے تحت مناسب وقت پر ہر ایک کے اوپر غلبہ حاصل کریں گے اور قرآن مجید کی اس آیہٴ کریمہ :
وعداللّٰہ الذین آمنوا منکم و عملواالصالحات لیستخلفنّھم في الارض کما استخلف الذین من قبلھم و لیمکنن لہم دینھم الذي ارتضیٰ لہم ولیبدّلنھم من بعد خوفھم امناً(۱)
”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے اور ان کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا“
میں مومنین سے جو وعدہ کیا گیا ہے اسے پورا کردے اور آپ ظاہر ہوجائیں اور اگر دنیا کی عمر میں ایک دن سے زیادہ مدت باقی نہ رہ جائے تب بھی اسے اتنا طولانی کردے کہ مہدی کا ظہور ہوجائے اور وہ زمین کو اسی طرح عدل وانصاف سے بھردےں جس طرح و ہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔
----------
(۱)سورہٴ نورآیت۵۷۔

ظہور سے صدیوں قبل ولادت کا سبب اور امام غائب کا فائدہ
سوال: ظہور سے صدیوں قبل امام علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوچکی ہے اورآپ طویل عمر کے بعد ظہور فرمائیں گے آخر اس کی مصلحت کیا ہے؟
کیا خداوندعالم میں اتنی قدرت نہیں ہے کہ وہ ظہور سے چالیس سال قبل ایسے باصلاحیت اور ایسی اہم ذمہ داری کے لئے شائستہ فرد کو خلق فرمادے؟
آخر ظہور اور قیام سے سینکڑوں سال قبل آپ کی پیدائش کا کیا فائدہ ہے اور ان تمام باتوں سے قطع نظر، غائب اور مخفی امام سے کیا حاصل ہے؟ کیا ایسے امام کا وجود وعدم مساوی نہیں ہے؟
جواب: یہ سوال درحقیقت ”فلسفہٴ غیبت“کے بارے میںہی ہے اس سے الگ کوئی جدید سوال نہیں ہے ہرچند گزشتہ مقالات میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جاچکا ہے پھر بھی یہاں اس سوال کے مختلف جوابات پیش کئے جارہے ہیں۔
پہلاجواب: وجود امام کے فائدہ کو صرف ظہور، آخرزمانہ میں قیام اور ظاہر بہ ظاہر امور تک محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ وجود امام کا ایک فائدہ مخلوق کی تباہی سے حفاظت، دین وشریعت کی فضا اور خدا کی حجت کا اہتمام بھی ہے،جیسا کہ اس سلسلہ میں معتبر روایات پائی جاتی ہیں یہ روایات ہماری کتب میں بھی مذکور ہیں اور برادران اہل سنت نے بھی انھیں نقل کیا ہے مثلا بارہ اماموںسے متعلق روایات سے بھی اس بات کا استفادہ ہوتا ہے، متعدد روایات کے مطابق زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی چنانچہ روایات کے مطابق امیرالمومنین حضرت علی نے فرمایا:
”اللھم بلیٰ لا تخلو الارض من قائمٍ للّٰہ بحجة اما ظاہراً مشہوراً اوخائفا مغمورالئلا تبطل حجج اللّٰہ وبیناتہ“(۱)
”خدا یا! بے شک زمین حجت الٰہی اور قیام کرنے والے سے خالی نہیں ہوسکتی چاہے وہ ظاہر وآشکار ہو یا خائف ومخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہین تمام نہ ہونے پائیں۔“
اس عالم ہستی میں امام کی وہی حیثیت ہے جو کہ بدن انسانی میں قلب یاروح کی ہوتی ہے کہ حکم الٰہی سے یہی روح تمام اعضاء وجوارح کے باہمی رابطہ کی ذمہ دار ہے اور اسی کے تعلق وتصرف سے جسم کی بقا وابستہ ہے۔ ”انسان کامل“ اور ”ولی“ یعنی امام بھی باذن الٰہی تمام مخلوقات کے لئے اسی مقام و منزلت کا حامل ہوتا ہے،اسی طرح وجود امام کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ روایات کے بموجب لوگوں کے درمیان مومن کا وجود خیروبرکت اور نزول رحمت کا سبب ہوتا ہے اور اس کے باعث پروردگار کی خصوصی عنایات عطا ہوتی ہیں اور بے شمار بلائیں دفع ہوتی ہیں اگر ایک عام مومن کے وجود کے اتنے برکات وفوائد ہیں تو ”امام“ اور ”ولی اللہ الاعظم “ کے وجود اقدس کے فوائد وبرکات کتنے زیادہ ہوں گے!
باالفاظ دیگر امام اور حجت خدا واسطہٴ فیض الٰہی ہے،خدا اور بندگان خدا کے درمیان واسطہ ہے، جن برکات وفیوض الٰہیہ کو براہ راست حاصل کرنے کی صلاحیت لوگوں میں نہیں پائی جاتی ہے امام ان فیوض وبرکات کو خدا سے لے کر بندوں تک پہنچانے کا ذریعہ و وسیلہ ہے، لہٰذا حضرت کی طولانی عمراور ظہور سے صدیوں قبل آپ کی ولادت کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس طویل مدت میں بھی بندگان خدا الطاف الٰہیہ سے محروم نہ رہیں اور وجود امام کے جو برکات ہیں وہ مسلسل لوگوں تک پہنچتے رہیں۔
----------
(۱)نہج البلاغہ صبحی صالح، ص۴۹۷ کلام ۱۴۷۔

دوسرا جواب: امور میں ظاہر بہ ظاہر مداخلت اور تصرف نہ کرنے کے ذمہ دار امام علیہ السلام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جوآپ کی رہبری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور مخالفت پر کمربستہ ہیں جیسا کہ آپ کے آباء واجداد طاہرین کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر آمادہ ہوتے تو حضرت ظاہر ہی رہتے، محقق طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”تحرید الاعتقاد“ میں یہی جواب تحریر فرمایاہے:
”وجودہ لطف وتصرفہ لطف آخر وعدمہ مِنّا“(۱)
”امام کا وجود بھی لطف (اطاعت ومصالح سے نزدیک اور معاصی ومفاسد سے دور کرنے والا) ہے اور امام کاتصرف ایک الگ لطف ہے اور ان کا ظاہر نہ ہونا ہماری وجہ سے ہے۔“
خلاصہٴ کلام یہ کہ امام کا وجود لطف اور بندگان خدا پر اتمام حجت کا سبب ہے اور اگر اس طویل مدت میں ولایت وہدایت کا سلسلہ منقطع ہوجائے تو لوگوں کو خدا کے خلاف دلیل حاصل ہوجائے گی، اپنے دیگر صفات کمالیہ مثلا رحمانیت، رحیمیت، ربوبیت کے مانند امام کی خلقت اور ہدایت کے لئے آپ کی تعیین کے ذریعہ خداوندعالم نے تربیت وہدایت کی نعمت کو بھی منزل کمال تک پہنچا دیا ہے کہ ارشاد خداوندی ہے:
”الیوم اکملت لکم دینکم“(۲)
اب اگر لوگ اس عظیم نعمت سے بہرہ مندنہ ہوں اورآفتاب ہدایت کی شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو اس سے امام کے وجود پر اعتراض نہیں ہوسکتا جیسا کہ اگر لوگ دوسری نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دیں یا مزید برآں ان کا غلط استعمال کریں تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ انھیں خلق کیوں کیا گیا؟ کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کررہے ہیں تو ان کا فائدہ کیا ہے؟ ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ بلکہ ایسے موقع پر تو یہ کہا جانا چاہئے کہ جب فیاض خدا نے اپنے بے پایاں فیض کے باعث ان
--------
(۱)تجرید الاعتقاد، بحث امامت۔
(۲)”آج میں نے آپ کے لیے آپ کے دین کو کا مل کر دیا“۔سورہٴ مائدہ آیت ۳۔

نعمتوں کو خلق فرماکر لوگوں کے حوالہ کردیا تو لوگ کیوں ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور کیوں کفران نعمت کررہے ہیں؟
تیسرا جواب: ہم یہ بات قطعی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مکمل طریقہ سے اپنے تمام دوستوں اور برگزیدہ اشخاص سے بھی پوشیدہ ہیں اور جہاں مصلحت ہوتی ہے وہاں انھیں برگزیدہ افراد کے واسطہ سے تائید وحمایت کے ذریعہ امور میں مدد نہیں فرماتے۔
چوتھاجواب: یہ طے شدہ ہے کہ زمانہ غیبت میں حضرت لوگوں کی نگاہوں سے پنہاں ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ بھی آپ کی نگاہوں سے اوجھل ہیں بلکہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حج کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ حج بجالاتے ہیں اپنے اجداد کی زیارت کرتے ہیں زائرین وحجاج کے درمیان تشریف فرما ہوتے ہیں، مظلوموں کی فریاد رسی کرتے ہیں بیماروں کی عیادت فرماتے ہیں اور بسا اوقات بہ نفس نفیس لوگوں کی مشکلات برطرف فرماتے ہیں۔
پانچواں جواب: امام کے لئے یہ لازم وضروری نہیں ہے کہ براہ راست اور بلاواسطہ امور میں دخیل ہو بلکہ وہ دوسروں کو بطور خاص یا عام طور پر اپنا نائب مقرر کرسکتا ہے جیسا کہ امیرالمومنین اور دیگر ائمہ دوسرے شہروں کے لئے اپنے نمائندہ معین فرماتے تھے اسی طرح غیبت صغریٰ کے زمانہ میں امام علیہ السلام نے نائب خاص معین فرمائے تھے اور غیبت کبریٰ کے لئے بھی آپ نے معاملات اور اختلافات کے حل ، اجرائے سیاست اور مصالح اسلامی کے تحفظ ونظارت کے لئے احکام کی باریکیوں سے واقف، عادل علماء وفقہاء کو بطور عام منصوب ومعین فرمایا ہے جو آپ کے بعد زمانہٴ غیبت میں ظاہری طور پر حفاظت شریعت کے ذمہ دار اور لوگوں کے لئے مرجع ہیں اور فقہ کی کتب میں مذکور تفصیلات کے مطابق فقہا کو آپ کی نیابت میں ولایت بھی حاصل ہے۔
چھٹا جواب: امام کا محض موجود ہونا ہی بندگان خدا اور سالکان راہ ہدایت کی تقویت قلب وروح کا باعث ہے بہ الفاظ دیگر سالکان راہ خدا کے لئے ایک مرکز اور تکیہ گاہ ہے، یہ صحیح ہے کہ سب کے لئے مرکز اعتماد خدا کی ذات ہے اور ہر ایک اسی کی ذات پر اعتماد کرتا ہے لیکن جنگوں میں پیغمبراسلام کی موجودگی مجاہدوں کی تقویت قلب کا ذریعہ تھی اور آپ کی موجودگی کے تصور سے ہی سپاہیوں کے حوصلے بلند رہتے تھے اورآپکی عدم موجودگی سے بہت فرق پڑتا تھا اس چیز کو امیرالمومنین جیسی شخصیت کے قول کی روشنی میں بہتر طریقہ سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین کا ارشاد ہے:
”کنا اذا احمرّ الباٴس اِتقینا برسول اللہ فلم یکن احدٌ منا اقرب الی العدو منہ“(۱)
”جب شدید جنگ ہوتی تھی تو ہم لوگ رسول خدا کی پناہ میں چلے جاتے تھے کہ آپ سب سے آگے ہوتے تھے اور ہم میں سے کوئی بھی پیغمبر سے زیادہ دشمن سے نزدیک نہیں ہوتا تھا۔“
ہم زندہ امام کے ماننے والے ہیں، امام ہی ہمارا ملجا وماویٰ اور محافظ شریعت ہے یہی تصور قوت قلب اور استحکام روح کا باعث ہے اور سالکین ومجاہدین راہ خدا پر کسی طرح کی مایوسی یا ناامیدی طاری نہیں ہونے پاتی، بلکہ قدم، قدم پرآپکی ذات بابرکت سے استمداد کرتے رہتے ہیں اورہمت وحوصلہ کی درخواست کرتے ہیں، یہ چیز نفسیاتی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے۔
مثل مشہور ہے (مثل برائے مثل ہوتی ہے اس پر اعتراض نہیں کیا جاتا) کہ نادر شاہ افشار نے مورچہ خوار کی جنگ میں ایک فوجی کوپوری شجاعت کے ساتھ جنگ کرتے دیکھا کہ تنہا فوجی دشمنوں کی فوج کو تہہ وبالا کررہا ہے اسے بہت تعجب ہوا، نادرشاہ نے فوجی سے پوچھا: افغانیوں کے حملہ کے وقت تم کہاں تھے؟ (کہ اس وقت ایسی جنگ نہ کی) بہادر فوجی نے جواب دیا میں تو وہیں تھا
(جنگ میں مصروف تھا) مگر آپ نہیں تھے۔
لہٰذا نفسیاتی لحاظ سے بھی تقویت قلب وروح کی خاطرمومنین کے لئے وجود امام جیسی معتبر پناہ گاہ ضروری ہے یہ بھی ایک اہم فائدہ ہے اور ایسے فائدہ کے لئے بھی امام کی تعیین عقلاً وشرعاًحتمی وقطعی طور پر لازم ہے۔
---------
(۱)نہج البلاغہ،ص۲۱۴،حیرت انگیز کلمات ۹۔

غیبت صغریٰ کا سلسلہ کیوں باقی نہ رہا؟
بعض اذہان میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر غیبت صغریٰ کا خاتمہ کیوں ہوگیا؟ اگر غیبت صغریٰ کا سلسلہ چلتا رہتا اور امام پوری غیبت کے دوران امور کی نگرانی اور عوام الناس کی ہدایت کے لئے نائب خاص مقرر فرماتے رہتے تو کیا حرج تھا؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام کی غیبت سے متعلق طریقہ کار کا تعین خداوندعالم نے فرمایا ہے اور امام کی ذمہ داری اسی معینہ طریقہ ٴ کار کو اختیار کرنا ہے۔،جب دلائل کے ذریعہ امامت کا اثبات ہوچکا ہے تو اس کے بعد نظام اور طریقہٴ کار کے بارے میں کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی، امام بھی حکم الٰہی اور روش خدواندی کا مطیع ہوتا ہے، کسی شئے کی علت یا سبب دریافت کرنا درحقیقت تسلیم وبندگی اور عبودیت کے منافی ہے، گذشتہ مقالات سے یہ بات بخوبی واضح ہوچکی ہے کہ غیبت سے متعلق تمام سوالات واعتراضات ایک ہی طرح کے ہیں اور ان میں کوئی سوال ایسا نہیں ہے کہ اگر اس کا جواب معلوم نہ ہوسکے تو کوئی بہت بڑی خرابی لازم آئے گی۔
بہرحال اگر مزید معرفت اور حصول بصیرت کے لئے ایسا سوال کیا جاتا ہے تو اس کے جواب کے لئے ہمیں اس سوال کو دو سوالوں میں تقسیم کرنا ہوگا:
۱۔کیوں امام کےلئے دو غیبتیںرکھی گئیں اور ابتدا ہی سے غیبت کبریٰ کا سلسلہ کیوں شروع نہ ہوا؟
۲۔غیبت صغریٰ کے آغاز اور نواب خاص کی تعیین کے بعد یہ سلسلہ کیوں ختم ہوگیا؟ اگر غیبت صغریٰ کا سلسلہ ہی جاری رہتا تو کیاقباحت تھی؟

پہلے سوال کا جواب
۱۔غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ کا مقدمہ تھی اور غیبت صغریٰ کے ذریعہ ہی غیبت کبریٰ کے مقدمات فراہم کئے گئے ابتداء میں لوگوں کے لئے غیبت نامانوس چیز تھی ان کے ذہن غیبت کے تصور سے ناواقف تھے، اگرچہ امام علی نقی وامام حسن عسکری کے دور میں کبھی کبھی ایسے نمونے نظرآتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگوار ذہنوں کو غیبت سے مانوس کرنے کے لئے کچھ وقت کے لئے نظروں سے اوجھل ہوجاتے تھے لیکن مکمل غیبت کبھی سامنے نہ آسکی ایسے میں اگر اچانک پہلی ہی منزل میں غیبت کبریٰ اختیار کرلی جاتی تو لوگوں کی حیرت واستعجاب بلکہ وحشت وانکار کا باعث اور انحراف و گمراہی کے اسباب کی موجب ہوتی، امام سے اچانک مکمل رابطہ قطع ہوجانا (جیسا کہ غیبت کبریٰ میں ہوا ہے) اکثر افراد کے لئے سخت دشوار اور تکلیف دہ ہوتا۔
اسی لئے تقریبا ۷۰/سال تک نواب خاص کے ذریعہ لوگوں کا رابطہ امام کے ساتھ قائم رہا اور مومنین نوابین خاص کے ذریعہ اپنے مسائل ومشکلات امام زمانہ کی خدمت میں پیش کرکے ان کاجواب حاصل کرتے تھے، امام کی جانب سے توقیعات لوگوں تک پہنچتی تھیں،بہت سے خوش نصیب افراد کو آپ کی خدمت میں شرفیابی کا موقع ملا اور اس طرح دھیرے دھیرے لوگ غیبت سے مانوس ہوتے رہے۔
۲۔ابتدا میں نواب خاص کے ذریعہ رابطہ اور بہت سے افراد کا آپ کی زیارت سے شرفیاب ہونا آپ کی ولادت اور حیات طیبہ کے اثبات کے لئے مفید بلکہ لازم اور ضروری تھا، اگر آپ کے معاملات مکمل طور پر پوشیدہ رکھے جاتے کہ کسی کو بھی آپ کی ولادت تک کا علم نہ ہوتا تو اس سے فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچتا لوگ آپ کے وجود اقدس کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے اسی لئے امام حسن عسکری کی حیات طیبہ میں اور غیبت صغریٰ کے دوران بھی بہت سے مخصوص افراد کو آپ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا اورحضرت کے دست مبارک سے معجزات ظاہر ہونے کے باعث ایسے خوش نصیب افراد کا ایمان اور مستحکم ہو گیا۔

دوسرے سوال کا جواب
۱۔غیبت صغریٰ کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اصل طریقہٴ کار غیبت کبریٰ ہی تھا اور غیبت صغریٰ تو صرف مقدمہ کے طور پر اختیار کی گئی تھی تاکہ ذہن مانوس ہوجائیں اور غیبت کبریٰ کے مقدمات فراہم ہوجائیں۔
۲۔اگر یہ مسلم ہو کہ نائب خاص کا حکم نافذ نہ ہوگا اسے قدرت ظاہری حاصل نہ ہوگی اور وہ مکمل طریقہ سے امور میں مداخلت نہ کرسکے گا بلکہ دیگر طاقتیں اور حکام وقت اپنی تمام تر توجہات اسی کی طرف مرکوز کرکے اس کے کام میں رکاو ٹ ڈالتے رہیں گے اس کے ساتھ ٹکراؤ جاری رہے گا تو ایسی صورت میں اقتدار کی ہوس رکھنے والے موقع پرست افراد بھی نیابت خاصہ کا دعویٰ کرکے گمراہی کے اسباب فراہم کردیں گے جیسا کہ غیبت صغریٰ کی مختصر مدت میں ہی دیکھنے میں آیا کہ نہ معلوم کتنے افراد نیابت خاصہ کے دعوے دار ہوگئے، یہ چیز بذات خود ایک مفسدہ ہے جس کا دور کرنا ضروری ہے کہ اس مفسدہ کو دور کرنے کی مصلحت، نائب خاص کی تعیین سے اگر زیادہ نہ بھی ہو تو کم بھی نہیں ہے۔
خلاصہٴ کلام یہ کہ غیبت کے ابتدائی دور کے مصالح سے قطع نظر،نیابت خاصہ کا تسلسل اور ایسے نائبین خاص جن کے اختیارات محدود ہوں ،اورنفاذ حکم کی کوئی صورت نہ ہو اور حکام وقت کے زیر اثر تقیہ کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں تو ایسے نائبین خاص کی تعیین میں عقلی طور پر کوئی لازمی مصلحت نہیں ہے بلکہ اس میں مفسدہ کے امکانات زیادہ ہیں۔
”واللّٰہ اعلم بمصالح الاٴمور وَلا یُسئَلُ عَمّا یَفعلُ وَھُم یُسئَلونَ وَلا یَفعلُ وَلاةُ اَمرہ الاّ بِمَا اَمَرھُمُ اللّہ تعالیٰ بِہ فَانَّھُم عِبادُہُ الْمُکرمُونَ لَا یَسبِقُونَہ بِالْقَول وَھم بِاَمْرہِ یَعمَلونَ۔“
اور اللہ تمام امور کی مصلحتوں کو بہتر جانتا ہے ا ور اس سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ ہر ایک کا حساب لینے والا ہے اور اس کے والیان امرصرف وہی کرتے ہیں جو اللہ نے انہیںحکم دیا ہے بیشک وہ اس کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام پر برابر عمل کرتے رہتے ہیں۔

سامرہ کا مقدس سرداب
مغرض دشمنان اہل بیت اور مخالفین شیعہ کی جانب سے شیعوں پر لگائے جانے والی ناروا تہمتوں میں یہ افتراء بھی شامل ہے کہ شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیہ السلام نے سامرہ کے سرداب (تہہ خانہ) سے غیبت اختیار کی ہے آپ اسی سرداب میں ہیں اور اسی سرداب میں ظاہر ہوں گے!! ہر رات شیعہ اس تہہ خانہ کے دروازہ پر جمع ہوتے ہیں اور جب ستارے خوب چمکنے لگتے ہیں تو اپنے اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور پھر اگلے روز جمع ہوجاتے ہیں!!!
ایسے بے بنیاد اور جھوٹے اتہامات کی تکذیب کے لئے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، جو چیز عیاں ہے اسے بیان کرنے سے کیا حاصل ، ہر شخص واقف ہے کہ ایسی تہمتیں ابن خلدون اور ابن حجر جیسے افراد کے ذہن کی ایجاد ہیں جنھوں نے شیعہ دشمنی، اہل بیت سے انحراف، بنی امیہ اوردشمنان خاندان رسالت سے قلبی رجحان کے باعث ایسی خرافات جعل کی ہیں ایسے مصنفین بلکہ ان کے بعد آج تک پیدا ہونے والے افراد شیعہ کتب ومنابع سے شیعہ عقائد ونظریات حاصل کرنے کے بجائے اپنی طرف سے جھوٹی باتیں گڑھ لیتے ہیں یا سابقین کے افترا اور جعلی باتوں کو نقل کرتے ہیں اور انھیں جھوٹی و فرضی باتوں کوشیعہ عقائد کے بارے میں تحقیقی کارنامہ سمجھ کر بخیال خود، شیعی عقائد کے بارے میں معرفت حاصل کرلیتے ہیں اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہتے ہیں۔
کتنی تعجب خیز بات ہے کہ جس قوم کے ہزاروں عظیم الشان مصنفین نے اپنے عقائد ونظریات مکمل صراحت ووضاحت کے ساتھ اپنی تالیفات میں تحریر کئے ہوں اس قوم کی طرف ایسی چیز کی نسبت دی جائے جس کا احتمال بھی کسی مصنف نے نہ دیا ہو۔
امامت اور دیگر عقائد کے بارے میں علم کلام واعتقادات کی کتب میں شیعی نظریات محفوظ وموجود ہیں اور غیبت کے سلسلہ میں ائمہ ہدیٰ کے دور سے آج تک جتنی کتب بھی تحریر کی گئی ہیں ان میں غیبت سے متعلق تمام جزئیات مرقوم ہیں اور کسی معمولی سے معمولی کتاب میںبھی اس ناروا تہمت کا کوئی ذکر نہیںہے۔
”امام سامرہ کے سرداب میں مخفی ہیں“ اس کا کوئی قائل نہیں ہے بلکہ شیعہ کتب میں موجود روایات اور غیبت صغریٰ وکبریٰ کے دور میں حضرت سے منسوب معجزات وکرامات اور شرف زیارت حاصل کرنے والے افراد کے واقعات اس جھوٹے الزام کی تردید وتکذیب کرتے ہیں۔
بے شک سامرہ میں ایک سرداب ہے شیعہ حضرات وہاںزیارت کے لئے جاتے ہیں، خداکی عبادت کرتے ہیں دعائیںمانگتے ہیں لیکن اس بنا پر نہیں کہ وہاں امام پوشیدہ ہیں یا آپ اسی مقام پر قیام فرماہیں، بلکہ اس عبادت اورزیارت واحترام کی وجہ یہ ہے کہ یہ سرداب مقدس بلکہ اس کے اطراف کے مقامات، اورا س کے قرب وجوار کی جگہ دراصل ائمہ معصومین کے بیت الشرف اور امام علیہ السلام کی جائے ولادت ہے اس سرزمین پر بے شمار معجزات رونما ہوئے ہیں۔
انسان جب اس مقدس سرزمین پر قدم رکھتا ہے تو اس عہد کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور مومن تصورات کی دنیا میں ان مقامات سے امام زمانہ(عج) آپ کے پدربزرگوار اور جد امجد کے ارتباط میں کھوجاتا ہے کہ یہی وہ مقامات ہیں جہاں ان ذوات مقدسہ کی رفت وآمد رہتی تھی اور یہ حضرات وہاں خدا کی عبادت میں مشغول رہتے تھے انھیں مقامات میں وہ سرداب بھی شامل ہے، یہ مقامات دور ائمہ میں بھی محبان اہلبیت کا مرکز تھے اور آج بھی۔ شیعیان اہلبیت کی نگاہ میں ایسے مقامات اور گھرانے محترم ہیں اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ مقدس گھروں کے لئے خداوندعالم قرآن مجید میں فرماتا ہے:
” فی بیوت اٴذن ا للّٰہ ان تُرفع ویُذکر فیہااسمہ یسبح لہ فیہا بالغد و والآصال“
ان گھروں میں ،جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے کہ ان کی بلندی کا اعتراف کیا جائے اور ان میں اسکے نام کا ذکر کیا
جائے کہ ان گھروں میں صبح وشام اس کی تسبیح کرنے والے ہیں۔(۱)
صرف سرداب ہی نہیں بلکہ وہ دیگر مقامات کہ جن پرحضرت کے مبارک قدم پہنچے تھے وہ بھی محبان اہلبیت کی نگاہ میں لائق احترام ہیں۔ (جیسے مسجد جمکران)(۲)
---------
(۱) سورہٴ نورآیت۳۶
(۲) ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ ص۳۷۱ تا ص۳۷۳ میں اس موضوع کو تحریر کیا ہے اسی طرح محدث نوری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”کشف الاستار“ میں اوردیگر مولفین نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔