نويد امن وامان
 
غیبت کی حکمت اور اس کا فلسفہ
وق--ل رب زدن-ی ع-ل-م-ا(۱)
اور آپ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔
اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں چیزوں کی حقیقت اور واقعیت معلوم ہے اور انھوں نے جو کچھ دیکھا یا سنا یا پہنا اور چکھا ہے یا اسے چھوا ہے اسکے ذریعہ انہیں اس کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے اور شاید اپنی نادانی کی طرف ان کی تھوڑی توجہ بھی نہ ہو ۔
جو کسان یا مالی (باغبان)کھیت اور باغ کے اندر کھیتی یا باغبانی میں مصروف ہے اسکا خیال یہ ہے کہ جن جن چیزوں سے اسکا سرو کار (رابطہ)ہے جیسے زمین مٹی، گھاس پھوس، پانی، بیج، جڑیں، تنا، ڈالی، پتے، کلی، پھل، دانہ، پتھر اور درختوں کی بیماریوں سے وہ نا واقف نہیں ہے اور یہ سب اسکے لئے مجہول نہیں ہیں، ایک معدن کا مزدور بھیڑ ،بکریوں اور گائے بھینس کا چرواہا سب کا یہی خیال ہے کہ انہوں نے کم ازکم اپنے ماتحت چیزوں کو پہچان لیا ہے ۔
جن لوگوں نے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی ہے وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اسی لئے وہ اپنے کو عالم حقائق سمجھتے ہیں ۔
بجلی،معدنیات اورکھیتی باڑی کا ماہر، کھال ،اعصاب ،خون،ہڈی،دماغ وغیرہ کے اسپشلسٹ
----------
(۱)سورہٴ طہ آیت۱۱۴۔

ڈاکٹر، ریاضیات، نجوم، نفسیات، ہستی شناس، علم کیمیا یا دوسرے علوم کے تمام ماہر ین ، اپنے علم و فن سے متعلق تمام چیزوں کوچاہے اچھی طرح پہچان لیں لیکن وہ ان کی حقیقت کو پہچاننے سے عاجز ہیں اور چاہے وہ جتنی مہارت حاصل کر لیں ان چیزوں کے بعض ظاہری آثار اورخاصیتوں کو پہچاننے کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہیں کر سکتے، نیز آئندہ بھی وہ جتنے زیادہ ماہر ہوتے چلے جائیں گے وہ اپنی بتائی ہوئی تعریفوں (اصطلاحوں) کے نقائص اور مشکلات سے اتنا ہی واقف ہوں گے۔
کیونکہ دنیا کے اندر پیچیدہ مسائل کا ایک اتنا طویل سلسلہ ہے کہ اس کی ابتداء و انتہا بشر سے بالکل پوشیدہ ہے اور اس سلسلہ کی ہر منزل اور ہر مرحلے پر اتنے راز اور معمے (گتھیاں)موجود ہیں جن کا صرف تصور ہی انسان کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔
”لیڈی اسٹور“ کا بیان ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اس مقدار میں بولے جسکی حقیقت کو اس نے پہچان لیا ہے تو پوری کائنات کے اوپر ایک گہری خاموشی کی حکومت قائم ہو جائے گی(۱)
ادارہ رو کفلر کے نائب صدر ”وارین ویفر“نے کہا : کیا علم، جہل و نادانی سے جنگ جیت سکتا ہے ؟ جبکہ علم جس سوال کا جواب بھی پیش کر تا ہے اسکے سامنے کئی نئے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں اور مجہولات کوکشف کرنے کے راستے میں وہ جتنا آگے بڑھتا ہے اسے جہل کی تاریکیاں اتنی ہی زیادہ دکھائی دیتی ہیں ،علم بشر کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ احساس کہ اسمیں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کیونکہ جن چیزوں کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل ہوئی ہیں (انکی دریافت کرتے ہیں )اور ان کو نہیں سمجھ پاتے یا انکونہیں پہچانتے ہیں ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔(۲)
--------
(۱) رسالہ:المختار من ریدرزدایجست صفحہ ۳۷/ نومبر۱۹۵۹
(۲)رسالہ ”المختار من ریدر دائجست صفحہ ۱۱۳ /اکتوبر۱۹۵۹

جی ہاں جس بشر نے اپنے تجربی اور حسی علوم کے ذریعہ بجلی، بھاپ، لوہا، پانی، مٹی ہوااور ایٹم کو مسخر کر لیا ہے اورآسمانی کرات بھی اس کی رسائی کے دائرے میں ہیں اور اس نے عناصر کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے نئی نئی ایجادات جیسے فون، ریڈیو اور ٹیلیویژن یا کمپیوٹر، بڑے بڑے صنعتی کارخانے اس نے بنائے ہیں اسکے باوجود آج بھی وہ ان چیزوں کی حقیقت جاننے سے قاصر ہے جن سے اسے دن رات سروکار رہتا ہے ۔
اس نے بجلی کی حقیقت ،پانی کی حقیقت ،عناصر کی حقیقت ،درختوں اور معدنوں ،جراثیم اور خلیوں، ایٹم ،الکٹرونوغیرہ کی حقیقتوں کو نہیں پہچانا ہے اور انکے بعض خصوصیات یا چند ظاہری چیزوں کے علاوہ اسے کچھ معلوم نہیںہو پایا اور یہ تمام چیزیں اسکے لئے آج بھی ایک پہیلی (معمہ) اورنہ سمجھ میں آنے والی گتھی بنی ہوئی ہیں ۔
ایک مفکر دانشور کے بقول جو لوگ انسان کی تعریف میں حیوان ناطق اور گھوڑے کی تعریف میں حیوان صاہل(ہنہنانے والا)کہتے ہیں یہ لوگ ان الفاظ سے اس کی اسی طرح شناخت کراتے ہیں اور علمی غرور نے انکے ذہن کے غبار ے میں اتنی ہوا بھر دی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہوںنے انسانوں اور گھوڑوں کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔
لیکن اگر انکے اس غبارے کی ہوا نکل جائے تو ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ اس تعریف کے ذریعہ نہ انہوں نے کسی انسان کوگھوڑے کی حقیقت سے واقف کیا ہے اور نہ خود ہی ان کی حقیقت کو سمجھ پائے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اشیاء کی حقیقت پہچنوانے کے لئے ان تعریفوں کو بیان نہ کیا جائے ۔
یہ انسان اپنے سے قریب ترین اشیاء کی حقیقت کو جاننے سے قاصر ہے کیونکہ اس کی روح سے زیادہ اور کوئی چیز اسکے نزدیک نہیں ہے تو کیا اس نے اپنی زندگی کو پہچان لیا ہے ؟اور کیا وہ روح اور حیات کی حقیقت کی وضاحت کر سکتا ہے ؟
کیا اسے اپنے بہت سارے فطری امور کی معرفت ہے ؟کیا وہ عشق و محبت لذت وصل، ذوق اور شجاعت یا دوسری فطری چیزوں کو سمجھتا ہے ؟
لیکن ان تمام دشواریوں اور جہالتوں کے باوجود کیا انسان صرف اس لئے ان حقیقتوں کا انکار کر سکتا ہے کہ اس کی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے یا اسکے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ ان کروڑوں، اربوں بلکہ ان سے بھی زیادہ مخلوقات اور عجیب وغریب اشیاء کا انکار کر دے جو اس کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور اسے معلوم نہیں ہیں؟ کیا وہ اس عالم ہستی کی ضخیم کتا ب کے کلمات کے معانی ،اسرارو خصوصیات اور اسکے فائدوں کا انکار کر سکتا ہے ؟
کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے فلاں چیز نہیں دیکھی لہٰذا اسکا کوئی وجود نہیں پایا جاتا یا کسی چیز کا راز اوراسکا فائدہ میری سمجھ میں نہیں آیا لہٰذا وہ بے فائدہ ہے اور اسمیں کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے؟
ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا ! اور چاہے انسان کا علم و فن کتنی ہی ترقی کرلے وہ کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرے گا بلکہ علم جتنا آگے بڑھے گا وہ اس قسم کے دعووں سے اتنا ہی دور رہے گا ۔
وہ آسمانی بجلی جس سے انسان ہزاروں سال تک ڈرتا رہا کیا اُس زمانہ میں کہ جب تک اسکے خصوصیات اور فائدوں تک سائنس کی رسائی نہیں ہوئی تھی اور خدا کی اس عظیم طاقت میں اس کی قدرت کا جو اعجازاور نشانیاںموجود ہیں اور نباتات یا حیوانات کے اوپر اسکا کیا اثر ہوتا ہے وہ ان سے آگاہ نہیں ہواتھا تو کیا اسکے اندر یہ منافع موجود نہیں تھے ؟اور کیا اس وقت وہ خدا وند عالم کی ایک عظیم نعمت نہیں تھی؟اور وہ لوگ جو اسے صرف نعمت یا عذاب کا ایک مظہر سمجھتے ہیں کیاوہ نا سمجھی کا شکار نہیں تھے ؟ (۱)
ہر عالم اور دانشور دنیا کی عمارت کو منطق اور صحیح نظر کی بنیاد پر استوار سمجھتا ہے اور ان ظاہری
---------
(۱)بجلی کے عجیب و غریب اہم فوائدکی تفصیلات کے لئے”الصواعق نعمة“ کے عنوان کا مقالہ ملاحظہ فرمائیے جو ماہنامہ رسالہ”بو بیلدرسائینس“ ”المختار من ریدرز دائجست“ شمارہ اکتوبر۱۹۵۹ ءء ص ۱۰۶ پر موجود ہے۔

چیزوں کو حقائق کا خزانہ قرار دیتا ہے اور اسے یہ کائنات ایک ایسا مدرسہ دکھائی دیتی ہے جس میںوہ علم و حکمت حاصل کرے وہ اس کے خصوصیات لوازم اور اجزاء کے بارے میں گفتگو کرنے سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اسکے یہی معمے اور اسرار اس کے لئے پر لطف چیز یں ہیں نیز پوری زندگی تعلیم اور تحقیق (انکشافات) کے میدان میں بسر کرنے کے بعد اسکے اندر حیرت اور استعجاب کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس کی علمی زندگی کی سب سے (با لذت)لذیذ اور پر کیف چیز ہے جس لذت سے کسی چیز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ،وہ دنیا کو ریاضی اور علم ہندسہ کے اس پیجیدہ سوال کی طرح سمجھتا ہے جسکا حل کرنا بظاہر آسان ہے لیکن جب اسے حل کرنا چاہیں تو اسمیں جتنا آگے بڑھتے جائیں اس کی پیچیدگی اور گہرائی میں اتنا ہی اضافہ ہو تاجاتا ہے ۔
ایک مفکر اور فلسفی کے لئے یہ لمحات بڑے حسین اور پر کیف ہوتے ہیں اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی حیرت میں اور اضافہ ہوتا رہے اور وہ اس منزل تک پہونچ جائے کہ اسکویہ دکھائی دینے لگے کہ اس کی آنکھ ان تمام مجہولات (پوشیدہ چیزوں کو)دیکھنے والے آلات سے مسلح نہیں ہے اور پھر معرفت و بصیرت کے ساتھ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کرے:
ولو انّ ما فيالا رض من شجرة اقلام و البحر یمدّہ من بعدہ سبعة ابحر ما نفدت کلمات اللہ۔(۱)
”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہیں ہیں “۔
اور وہ یہ کہتا ہو ا دکھائی دے:

مجلس تمام گشت و بہ آخر رسید عمر
ما ہم چنان در اول وصف تو ماندہ ایم

مجلس ختم ہو گئی اور عمر تمام ہو گئی مگر ہم تیری توصیف کی شروعات میں ہی رکے رہ گئے ہیں۔
-------
(۱)سورہٴ لقمان آیت۲۷

اسکے با وجود انسان ہر علمی میدان میں اپنی تمام تحقیقات نیز محنتوں اور مشقتوں سے اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی حکمت ،منطق ،مقصد،ارادہ،قدرت اور اسکے علم سے واقف ہوتا ہے اور اسے بخوبی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بے نظمی نہیں ہے اور دنیا کی کسی مخلوق کو فضول یا بے فائدہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
یہ انسانی عاجزی (ناتوانی)اور اس کی فہم و شناخت کے مختلف طریقوں کی ایک مختصر سی جھلک تھی ، اور یہی اس کی عقل و خرد کی عجیب و غریب قدرت و طاقت کی دلیل بھی ہے ۔
ان خصوصیات کے بعد اگر وہ عالم تشریع یا عالم تکوین میں (کشف)ظاہر ہونے والی کسی بھی چیز کا فلسفہ نہ سمجھ پائے اور اس کی تاویل یا تشریح نہ کر سکے یا اس کی تعریف و توصیف کرتے وقت اسے الفاظ کا دامن (دائرہ)تنگ دکھائی دے تو وہ اسکے فائدہ کا انکار نہیں کر سکتا ۔
دنیائے حقیقت و معانی اور بشری علوم اور معلومات کی مثال ایسی ہے جیسے الفاظ اور معانی کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، الفاظ کی دنیا چاہے جتنی وسیع اور کشادہ کیوں نہ ہو جائے پھر بھی وہ اپنے اندر تمام معانی کو نہیں سمیٹ سکتی ،کیونکہ زبانیں اور انکے الفاظ یا کلمات کی تعداد محدود ہے جبکہ معانی اور اشیاء (چیزیں)نا محدود ہیں اور یہ طے ہے کہ محدود چیز، نا محدود چیز کا احاطہ نہیں کر سکتی جیسا کہ ایک عربی شاعر نے کہا ہے:

وان قمیصا ً خیط من نسج تسعة
و عشرین حرفا عن معالیہ قاصر

ایک قمیص اگرچہ ۹ دھاگوں سے بنائی گئی ہے مگر بیس حروف بھی اس کے فضائل بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔
اس حقیقت کو سب سے بہترین اور اچھے طریقہ سے قرآن مجید نے اس آیت میں بیان کیا ہے :
<قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربي لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربيولو جئنا بمثلہ مدد ا>(۱)
”آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمات کے لئے سمندر بھی روشنائی بن جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہو جائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے آئیں “
قرآن مجید نے آج سے چودہ صدی پہلے اس آیت میں کائنات کی مخلوقات کی عظمت اور ان کی بے شمار تعداد کو نہایت حسین انداز میں بیان کر دیا ہے جس کا علمی استحکام اور اعجاز سامنے آتا رہتا ہے اسکے علاوہ معصومین کی احادیث میں بھی اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے مثلا ً اس وقت جبکہ انسان صرف تھوڑے سے ستاروں کو ہی پہچانتا تھا تو اس وقت کسی چیز کی کثرت میں مبالغہ کرنے کے لئے بارش کے قطروں ،ریت کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی مثال دیا کرتا تھا ۔
انسانی فہم و شعور اس دنیا کی حقیقتوں کو درک کرنے سے کتنا قاصر ہے اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے:
یا بن آدم لو اکل قلبک طائر لم یشبعہ و بصرک لو وضع علیہ خرت ابرة لغطاہ ترید ان تعرف بھا ملکوت السموات والارض۔(۲)
اے فرزند آدم ! اگر تیرا دل ایک پرندہ کھالے تو اس سے اسکا پیٹ نہیںبھر سکتا اور اگر تیری آنکھ کے اوپر ایک سوئی کی نوک رکھ دی جائے تو وہ اسے ڈھک لے گی اور پھر تو یہ چاہتا ہے کہ اسکے ذریعہ ملکوت آسمان و زمین کو پہچان لے ۔
اس تمہید کے بعد جو لوگ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت کے راز اور آپ کے پوشیدہ رہنے کا فلسفہ معلوم کرنا چاہتے ہیں ہم ان سے یہ کہیں گے :
آپ دریافت کیجئے اور غور و فکر سے کام لیجئے تحقیق اور جستجو فرمائیے ہمیں آپ کے تحقیق کرنے
یا آپ کے دریافت کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہو گا،پوچھئیے اور تلاش میں لگے رہئے کیونکہ اگر آپ اس
---------
(۱)سورہٴ لقمان آیت۲۷۔
(۲)حق الیقین ج ۱ص ۴۶۔

غیبت کی اصل وجہ اور اسکے حقیقی اسرار تک نہ بھی پہنچ سکے تو کم از کم اس کی بعض حکمتوں اور دوسری متعلقہ چیزوں سے تو آگاہ ہو جائیں گے، اور عین ممکن ہے کہ آپ اپنی اس جستجو کے ذریعہ کچھ نئی معلومات حاصل کر لیں ،لیکن اگر ان سوالات اور اس جستجو سے آپ کا مقصد صرف اعتراض کرنا ہے اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ غیبت کی وجہ معلوم نہ ہونے اور اسے سمجھنے سے اپنی عقل کے عاجز ہونے کوآپ اس کے نہ ہونے کی دلیل قرار دے دیں تو پھر آپ عقل و خرد سے بہت دور ہو چکے ہیں اور اس سے آپ کسی کے ایمان اور عقیدے کو کھوٹا ثابت نہیں کر سکتے ہیں ۔
کسی چیز کو نہ پانا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا کیا آپ کی نظر میں صرف یہی ایک چیز پوشیدہ اور نا معلوم ہے ؟ کیا آپ نے دنیا کی تمام موجودات کی خلقت کے راز کشف کر لئے ہیں ؟ دنیا کے اجزاء اور اسکے ظاہر و باطن کے بارے میں انسان کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں کیا آپ نے ان سب کا جواب تلاش کر لیا ہے ؟
کیونکہ ان کا راز آپ کو معلوم نہیں ہے تو کیا آپ انہیں بے فائدہ سمجھتے ہیں؟
کیا انکے فائدہ مند یا نقصا ن دہ ہونے کا معیار ہماری اور آپ کی عقل یاشعور ہے ؟
یا ایسا نہیں ہے بلکہ ان اسباب اور ان حکمتوں تک نہ پہنچ پانے کو آپ اپنی فکر و شعور اور استعداد کی نا توانی (کمزوری)کی دلیل قرار دیتے ہیں ؟
آپ کا یہ نظریہ ہے کہ اگر آپ کی عقل دوسرے آلات سے مسلح ہوتی اور ارسال و ترسیل (رابطے) کے موجودہ وسائل کے بجائے آپ کے پاس اس سے زیادہ پیش رفتہ وسائل (آلات)ہوتے تو دنیا کے اور بہت سارے اسرار معلوم ہوسکتے تھے ؟
اگر ایک دانشور، ان سوالات کا جواب دینا چاہے تو وہ یقیناً اپنی کمزوری کا ہی اعلان کرے گا اور ہر روز جو پوشیدہ (نا معلوم )چیزیں سامنے آرہی ہیں ان ہی پر نظر رکھنے کے بعد کسی چیز کے نہ جاننے کو اسکے موجود نہ ہونے کی دلیل نہ بنائے گا، اور اس دنیا کی ہر چیز میں بے شمار عجیب و غریب اسرار کا قائل ہونے کے بعد یہ کہتا دکھائی دے گا :

پشہ چون داند این باغ از کی است
کو بہاران زاد و مرگش دودی است

خود چو باشد پیش نور مستقر
کرو فرو اختیار بو البشر

پیہ پارہ آلت بینای او
گوشت پارہ آلت گویای او

مسمع او از دو قطعہ استخوان
مدرکش دو قطرہ خون یعنی جنان

کرمکی و از قذر آکندہ ای
طمطراقی در جہان افکندہ ای

اگر مچھر کو یہ پتہ چل جائے کہ یہ باغ کس کا ہے؟بہا ر میں پیدا ہوا اور دھواں اس کی موت ہے۔اس کیخود جب نور کے سامنے ابو البشر کا کرّ وفرّ اور اختیار آتا ہے۔چربی کا ایک ٹکڑا اس کے دیکھنے کا آلہ (آنکھ)ہے گوشت کا ایک لوتھڑا (زبان)بولنے کا آلہ ہے ،اس کا کان دو ہڈیوں سے بنا ہے ،تیری ابتدا منی کے دو قطرے ہیں ،ایک کیڑا وہ بھی گندگی سے لت پت اورتونے پوری دنیا میں ہنگامہ مچا رکھا ہے ۔
لہٰذا غیبت کے فلسفہ کو جاننے کے اتنا پیچھے نہ پڑیں اور اس کے بارے میں سوال پر سوال نہ کریں غیبت ایک طے شدہ چیز (امر)ہے جو عالم وجود میں آ چکی ہے غیبت کا راز معلوم ہو سکے یا نہ معلوم ہو سکے غیبت شروع ہو چکی ہے اور آپ کا نہ جاننا ہر گز اس کی نفی اور اسکے باطل ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا ۔
ہمیں قضا و قدر کا یقین ہے اور ہم قرآن و اہلبیت کی ہدایت یا فلسفی معلومات اور براہین سے اسکے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہی ہیں ،لیکن کیا کوئی ایسا ہے جو قضا و قدر کے بارے میں سب کچھ بتا سکے ؟ اسی لئے اسکے بارے میں زیادہ سوچنے اور غور و فکر کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
واد مظلم فلا تسلکوہ۔ ”یہ ایک تاریک وادی ہے لہٰذا اس میں گھسنے (چلنے) کی کوشش نہ کرو اور اس میں طلب (علم و معرفت)کے گھوڑے نہ دوڑاوٴ کہ تھک کر چور چور ہو جاوٴگے ۔

در این وادی مران زنھار زنھار
کہ در اول قدم گردی گرفتار

شکار کس نہ شد عنقا بدوران
چرا دام افکنی ای مرد نادان

اس وادی میں طائر فکر کو پرواز نہ کر نے دو کہ پہلے ہی قدم پر جال میں گرفتار ہو جاوٴ ،عنقا (سیمرغ)پرندہ کو کوئی شکار نہ کر سکا ،اے نادان تو کیوں جال بچھا رہا ہے(۱)
یہ جگہ صرف تسلیم و رضا اور ایمان کا مقام ہے لیکن بالکل بے دلیل ایمان بھی نہیں اور نہ ہی ایسا ایمان جس میں سو فیصد تسلیم و رضا ہو بلکہ یہ ایسا ایمان ہے جسکا سر چشمہ انسانی عقل اور اس کی فطرت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وحی کی زبان ،قرآن مجیدکی آیتوں ،متواتر حدیثوں،معجزوں اور مخصوص لوگوں کی سیرت اور انکے مکاشفات نے بھی اس کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے ۔
مختصر یہ کہ غیبت کے اسرار کے بارے میں جو کچھ کہا جائے اس میں اکثر وبیشتر کا تعلق اسکے فوائد و اثرات سے ہے اور اس کی اصل وجہ ہمارے لئے مجہول ہی ہے۔
اُن حدیثوں کے یہی معنی ہیں جن میں یہ آیا ہے کہ غیبت کاراز ظہور کے بعد ہی آشکار ہوگا جس طرح درختوں کی خلقت کا راز پھل ظاہر ہونے سے پہلے معلوم نہیں ہو پاتا اور بارش کی حکمت اس وقت تک نہیں معلوم ہوتی جب تک زمین زندہ نہ ہو جائے ،سبزہ نہ لہلہانے لگے ، باغ و بوستان اور گل وگلشن پر تازگی نہ آجائے ۔
شیخ صدوق نے اپنی کتاب” کمال الدین“ اور ”علل الشرائع“ میں اپنی سند کے ساتھ عبد اللہ بن فضل ہاشمی سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ سنا ہے :
آپ نے فرمایا” صاحب الامر کے لئے یقیناایک غیبت ہو گی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں
--------
(۱) یہ دونوں شعر موٴلف کے والد کے گنج دانش یا صد پندسے نقل کئے گئے ہیں۔

ہے کہ اس دوران ہر اہل باطل شک وشبہہ میں مبتلا ہو جائے گا “میں نے عرض کی : میری جان آپ پر قربان !ایسا کیوں ہے ؟
فرمایا : اُس وجہ سے ،جس کو ظاہر کرنے کی ہمیں اجازت نہیں ہے ۔
میں نے عرض کی : ان کی غیبت کی حکمت کیا ہے؟
فرمایا : وہی حکمت ہے جو ان سے پہلے خدا کی حجتوں کے غائب ہونے کی حکمت تھی۔
یقیناً غیبت کی حکمت اسی وقت ظاہر ہوگی جب انکا ظہور ہو جائے گا بالکل اسی طرح جیسے حضرت خضر کے کام یعنی کشتی میں سوراخ کرنے ،لڑکے کو جان سے مار دینے اور دیوار بنا دینے کا راز جناب موسیٰ علیٰ نبینا و آلہ و علیہ السلام کو اسی وقت معلوم ہو پایا جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہونے لگے ۔
اے فرزندِ فضل یہ غیبت، خداکے امور میں سے ایک امر، اسرار الٰہیہ میں سے ایک راز اور خدا کے علم غیب کا ایک حصہ ہے ،اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ خدا وند عالم حکیم ہے اور ہم نے یہ گواہی دی ہے کہ اسکا ہر قول و فعل حکمت کے مطابق ہے چاہے اسکا راز ہم سے پوشیدہ ہی کیوں نہ ہو(۱)
اس کے با وجود ہم یہاں پر غیبت کے بعض فوائد اور منافع کی وضاحت آئندہ چند صفحوںمیں پیش کریں گے جو عقلی اور سماجی (عرفی)اعتبار سے بالکل صحیح اور معقول ہیں اور روایات نیز اسلامی دانشمندوں اورمفکروں کے اقوال اور تحریروں میں انکا تذکرہ موجود ہے ۔

قتل ہونے کا خوف
< واٴوحینا الیٰ اٴم موسیٰ ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فاٴلقیہ في الْیَمِّ و
لا تخافيولاتحزنيانا رادّوہ الیک و جاعلوہ من المرسلینّ >(۲)
----------
(۱)منتخب الاثر موٴلفہ:مصنف،باب۲۸فصل۲ حدیث ۱۔
(۲)سورہٴ قصص آیت۷۔

اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنے بچے کودودھ پلاوٴ اوراس کے بعد اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اوربالکل ڈرو نہیں اورپریشان نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اوراسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں ۔
< ففررت منکم لما خفتکم فوھب لی ربی حکما و جعلنی من المرسلین >(۱)
شیخ کلینی اور شیخ طوسی نے ”اصول کافی“ اور ”غیبت “ میں اپنی سند کے ذریعہ جناب زرارہ سے روایت نقل کی ہے کہ اما م جعفر صادق نے فرمایا ہے : ” قائم کے لئے قیام کرنے سے پہلے ایک غیبت ہے“میں نے عرض کی: کس لئے ؟ فرمایا: اس لئے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے۔
جیسا کہ اس حدیث اور دوسری حدیثوں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کی ایک وجہ قتل ہونے کا خوف بھی ہے اور جس طرح اس خوف کا رابطہ غیبت کے شروع ہونے سے ہے اسی طرح اس کے باقی رہنے سے بھی اسکا تعلق ہے (غیبت کی شروعات اور اس کی بقا دونوں سے ہی اسکا تعلق ہے)
قتل کے خوف اور جان کی حفاظت ناممکن ہونے کی وجہ سے غیبت شروع ہوئی یہ ایک مسلم الثبوت بات ہے جسکی وضاحت تاریخ کی معتبر کتابوں کے اندر درج ہے ،کیونکہ بنی عباس کے حکمرانوں نے یہ سن رکھا تھا اور انہیں یہ بخوبی معلوم تھا کہ پیغمبر اکرم کے خاندان میں امیر المومنین اور جناب فاطمہ زہرا کی نسل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جس کے ذریعہ ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ بچہ امام حسن عسکری کا فرزند ہوگا ،لہٰذا انہوں نے اسے قتل کرنے کی ٹھان لی اور فرعون نے جناب موسیٰ کو قتل کرنے کے لئے جو طریقہٴ کار اپنایا تھا انہوں نے بھی بالکل وہی کام کیا، آپ کی ولادت کی اطلاع حاصل کرنے کے لئے جاسوس چھوڑ دئے اور پھر آپ کی پیدائش کے بعد بھی اس کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح آپ کو گرفتار کر لیں لیکن خداوند عالم نے آپ کی حفاظت
---------
(۱) پھر میں نے تم لوگوں کے خوف سے گریز اختیار کیا تو میرے رب نے مجھے نبوت عطا فرمائی اورمجھے اپنے نمائندوں میں قراردیا۔سورہٴ شعرا آیت۲۱۔

فرمائی اور آپ کے دشمنوں کو مایوس کر دیا اسی دوران ملک کے اندر بڑے پیمانے پر خانہ جنگی اور ”صاحب زنج“ کے انقلاب یا دوسری شورشوں کی وجہ سے بنی عباس نے بظاہر اس مسئلے کو ترک کر دیا،جیسا کہ سرداب مقدس کے قدیم دروازہ سے معلوم ہوتاہے۔
جو دروازہ بیش قیمت آثار قدیمہ میں شامل ہے اور بنی عباس کے عالم اور ایک بڑے شہنشاہ ’الناصردین اللہ “ کے دور کی یادگار ہے، اس دروازے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بادشاہ آپ کی ولادت اورغیبت کا ایمان رکھتا تھا اور اسماعیل ہرقلی کا واقعہ جو کشف الغمہ میں صحیح روایات میں نقل ہوا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغداد کے ”مدرسہٴ مستنصریہ“ کا بانی خلیفہ ”المستنصر باللہ“ بھی حضرت کے بارے میں ایمان رکھتا تھا چنانچہ اس نے اسماعیل کو ایک ہزار دینار پیش کر کے امام کی بارگاہ میں عقیدت کا اظہار کرنا چاہا مگر اسماعیل نے امام کے حکم کی بنا پر انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تو اس بات پر شدید ملال اور افسوس ہونے کی وجہ سے خلیفہ رو دیا۔
مختصر یہ کہ غیبت کی شروعات میں آپ کی جان کو خطرہ لاحق تھا اور اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کے دور کے حکام آپ کی طرف سے مسلسل تشویش کا شکار تھے اور وہ آپ کے وجود کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور اگر انکے بس کی بات ہوتی تو وہ آپ کوفوراً شہید کر دیتے اس لئے آپ کی ولادت ان سے اسی طرح مخفی رہی جس طرح جناب موسیٰ علی نبینا و آلہ علیہ السلام کی ولادت فرعونیوں پر ظاہر نہیں ہو پائی تھی اور ولادت کے بعد بھی آپ ان کی نظروں سے پوشیدہ رہے اوروہ تمام کوششوں کے با وجود آپ کو تلاش کرنے میں ناکام رہے۔
آپ کی غیبت کے جاری رہنے سے آپ کی جان کو لاحق خطرہ کا تعلق یہ ہے کہ اگرچہ خدا وند عالم اس بات پر ہر لحاظ سے قدرت رکھتا ہے کہ وہ جب کبھی چاہے اپنی قوت وطاقت کے سہارے آپ کو اس دنیا میں ظاہر کر دے اور اسباب و حالات فراہم ہونے سے پہلے ہی پوری دنیا کو آپ کے تسلط اور اختیار میں دے دے لیکن چونکہ خداوند عالم نے اس دنیا کا نظام اسباب ومسببات کے قاعدہ و قانون کے تحت بنایا ہے لہٰذا جب تک آپ کے ظہور کے اسباب فراہم نہ ہو جائیں گے آپ کے ظہور میں تاخیر ہوتی رہے گی اور اگر بالفرض حالات سازگار ہونے سے پہلے ہی ظہور ہو جائے تو آپ کی جان کو بہر حال خطرہ لاحق رہے گا۔
جیسا کہ اگر پیغمبر اکرم اپنی بعثت کے آغاز میں ہی جہاد کا اعلان کردیتے تو یہ جلدی کا اقدام ہو تا لیکن جب اس کا مناسب موقع آگیا تو آپ کے لئے دفاع اور جہاد کا حکم آگیا اور خدائی امداد بھی نازل ہونے لگی جسکی بنا پر اسلام نے کافی پیش رفت کی ۔
سوال :امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ اپنے آباء واجداد کی طرح کیوں ظاہر نہیں ہوتے تاکہ یا تو کامیاب و کامران ہوجائیں اور یا راہ خدا میں شہید کر دئے جائیں ۔
جواب:آپ کا ظہور خدا کے نور کو مکمل کرنے اورانبیاء و صالحین کی تبلیغ کو منزل مقصود تک پہونچانے اور پرچم اسلام و توحید کے زیر سایہ عدل و انصاف اور امن وآشتی اور قرآن مجید کے احکام کو نافذ کرنے کے لئے ہے۔
واضح رہے کہ جس کی نظر اتنے مقاصد کے اوپر ہواسکے لئے ضروری ہے کہ وہ ان حالات میں قیام کرے جب اس کی فتح اورکامیابی کا سو فیصد یقین ہو اور (جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے) حکمت الٰہی کی بنا پر غیبی امداد اور نصرت الٰہی نازل ہونے کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہونے پائے لیکن اگر اسکے لئے کوئی ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے ظہور کا یہ مقصد حاصل نہ ہو سکے تو یہ ظہور کی حکمت کے خلاف ہے(اس سے نقض غرض لازم آتا ہے )اور اس صورت میں بشریت کو وعدہ ٴ الٰہی پورا ہونے تک دوبارہ انتظار کرنا پڑے گا ۔

گردن پر کسی کی بیعت نہ ہونا
امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی ایک خصوصیت اور پہچان یہ ہے کہ آپ کی گردن پر کسی بھی ظالم و جابر اور ستمگر حاکم کی بیعت نہیں ہے اور آپ نے تقیہ میں بھی کسی کی بیعت نہیں کی آپ اس شان سے ظاہر ہونگے کہ کسی بھی طرح کے عادل یا فاسق و فاجر حاکم کے سامنے آپ کبھی بھی نہیں جھکے اور ظاہری طورپر بھی ان کی حکومتوں کی تائید نہیں کی، آپ خدا وند عالم کے ان اسماء ”العادل “ ،”الغالب “ ، ”الحاکم “ کے سب سے کامل مظہر ہیں ،روایات کے مطابق ایک ایسی شخصیت اسی لائق ہے کہ خداوندعالم کے علاوہ کسی اور کے ما تحت نہ رہے اور فاسق و فاجر حاکموں کی تائید کرنے سے دور رہے (چاہے وہ تائید تقیہ کی حالت میں کیوں نہ ہو )جیسا کہ بکثرت روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تقیہ پر عمل نہ کریں گے اور حق کو آشکار کرکے باطل کو صفحہٴ ہستی سے محو کر دیں گے۔
مختصر یہ کہ غیبت کی ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ ظہور کاوقت آنے سے پہلے اور ظہور کرنے کے لئے مامور ہونے سے پہلے آپ اپنے اجداد طاہرین کی طرح (چاہے تقیہ ہی کی حالت میں سہی)اپنے دور کے حاکموں کی بیعت کرنے پر مجبور نہیں ہونگے اسی لئے جب آپ ظہور کرینگے تو آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی اور آپ نے خدا کے علاوہ کسی کی حکومت کو قبول نہ کیا ہوگا۔
یہ سبب ”کمال الدین “باب۴۸باب علت غیبت ”عیون“ اور ”علل الشرائع“ جیسی کتابوں کے علاوہ دوسری کتابوں کے اندر متعدد احادیث میں مذکور ہے ان میں سے ایک ہشام بن سالم کی روایت بھی ہے جسمیں امام جعفر صادق نے فرمایا ہے:
”یقوم القائم و لیس فی عنقہ بیعة لاحد“
جب قائم (آل محمد )قیام کریں گے تو ان کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی۔
حسن بن فضال سے روایت ہے کہ جب امام نے یہ خبر دی کہ امام حسن عسکری کی وفات کے بعد غیبت ہوگی تو انہوں نے سوال کیا کس لئے ؟
امام رضا نے فرمایا تاکہ جب وہ تلوار لیکر قیام کریں تو ان کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو۔