نويد امن وامان
 
ایک مصلح، دنیا جس کی منتظر ہے(۱)
جب دنیا سخت ترین اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہوگی ہر طرف ظلم وتشدد کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے انسانیت کے درمیان سے امن اوربرادری ناپید ہوچکی ہوگی اور سربراہان حکومت اصلاح اور بڑھتے ہوئے فساد کو روکنے سے عاجز ہوں گے، جنگ وجدال، قتل وغارتگری اور اختلافات کے باعث نسل انسانی خطرہ میں پڑ جائے گی، خطرناک ایجادات اور اجتماعی قتل کے اسلحے ترقی کی منزل پر ہوں گے انسانی اقدار دم توڑ چکی ہوں گی اورا ن کی جگہ اخلاقی برائیوں کا دور دورہ ہوگا، کمزور اور چھوٹے ممالک اوراقوام کی حمایت وحفاظت کے نام پر وجود میں آنے والے اداروںسے بھی ضعیف اور مظلوم اقوام مایوس ہوچکی ہوں گی۔
خلاصہ یہ کہ جب ہر طرح کی خباثت، فحشا وفساد اور منکرات کا رواج ہوگا اس وقت کے لئے ایک عظیم مصلح الٰہی کے ظہور کی بشارت مکمل کوائف وخصوصیات کے ساتھ معتبر کتب ومآخذ اور متواتر
روایات میں دی گئی ہے، جس وقت یہ عظیم مصلح الٰہی قیام کرے گا تو نظام کائنات کی اصلاح کرے گا
اوراس کے وجود سے کائنات کو ہر طرح کی بدبختی سے نجات حاصل ہوگی، یہ عظیم مصلح پیغمبر اسلام صلی اللہ
---------
(۱)یہ مقالہ رسالہٴ مکتب اسلام کے شمارہ نمبر ۳ میں ص۶/۱۰پر شائع ہوا ہے ۔

علیہ و آلہ وسلم کی ذریت اور علی وفاطمہ زہراسلام اللہ علیہماکی اولاد سے ہوگا۔

بے شمار راویوں سے منقول مشہور ومعروف حدیث:
”یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجوراً“ کے مطابق وہ عظیم الشان مصلح، رو ئے زمین پر حق وعدالت کی حکومت کا پرچم لہرائے گا اور چھوٹے بڑے قصبوں، شہروں سے لے کر دیہاتوں تک دنیا کے چپہ چپہ پر نور اسلام جلوہ فگن ہوگا ہر جگہ قرآنی احکام نافذ ہوں گے،ذاتی اغراض ومنافع کی آلائش سے پاک الٰہی قوانین کی حکمرانی ہوگی ہر ادارہ خلق خدا کے آرام وآسائش اور فلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہوگا،بہترین نظام کے تحت عملی واخلاقی کمالات کا سلسلہ شروع ہوگا اور اس طرح عمومی خوشحالی اور سطح زندگی کے معیار پر بہتری کے باعث روئے زمین پر کوئی فقیر نظر نہ آئے گا۔
یہ محض لفاظی یا خوش بیانی نہیں ہے بلکہ ان تمام جزئیات کے بارے میں فریقین نے مسلّم الثبوت روایات کا تذکرہ کیا ہے، جسکی تفصیلات ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ میں بیان کی ہیں۔
روایات کے مطالعہ سے ایسی پیشین گوئیاں بہت عجیب وغریب بلکہ بحد اعجاز نظرآتی ہیں کہ معصومین نے کئی صدی قبل ایسے حالات سے مطلع فرمایا ہے اس سے زیادہ باعث حیرت بات یہ ہے کہ صنعتی ترقی ہو یا اخلاقی انحطاط ہر میدان میں جو کچھ بھی رونما ہورہا ہے ”علائم ظہور“ کے عنوان سے ان تمام امور کا تذکرہ روایات میں موجود ہے۔
قرآن مجید کی متعدد آیات مثلا سورہٴ توبہ، سورہٴ صف یا سورہٴ انبیاء آیت۱۰۵، سورہٴ نورآیت ۵۵ میں خدا کا یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام عالمی دین ہوگا اور حضرت کے ظہور سے اس وعدہ کی تکمیل ہوگی،مصلح منتظر کے ظہور کی بشارت فریقین کی مسلم الثبوت اور قطعی روایات میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرمنے فرمایا :
”کائنات کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ”مہدی موعود“ کا ظہور نہ ہوجائے اگر اس کائنات کی عمر کا صرف ایک دن باقی ہوگا تو خداوندعالم اسی دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ یہ عظیم مصلح اپنے ظہور کے ذریعہ ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے“ ۔
حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے اوصاف وکمالات اور سیرت طیبہ، انداز ہدایت اور طرز حکومت، سے متعلق بھی بے شمار روایات وارد ہوئی ہیں۔ا سی طرح ابتدائے ولادت سے لیکر آپ کے امتیازات وخصوصیات، لوگوں کے ساتھ آپ کے برتاؤ، طول عمر، غیبت کے اسباب اور دور غیبت میں لوگوں کی ذمہ داریوں تک کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں اور ہزار سال سے زائد عرصہ سے بے شمار علماء ومحققین کی کتابوں کا محور ومرکز اور موضوع بحث قرار پائی ہیں، یہ مباحث اتنے وسیع ہوچکے ہیں کہ ان سب کا احاطہ اب کسی بھی محقق کے لئے ممکن نہیں ہے۔
راقم الحروف نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ کی تالیف کے دوران مذکورہ بالا عناوین سے متعلق روایات تلاش کی ہیں ہم تمام روایات تک رسائی کے مدعی تو نہیں ہیں پھر بھی مذکورہ عناوین وموضوعات میں سے اکثر موضوعات سے متعلق روایات کا تواتر ثابت کرنے کی توفیق وسعادت حاصل ہوئی جسے قارئین کرام مذکورہ کتاب میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔
مقصود یہ ہے کہ جو شخص بھی شیعہ وسنی محدثین کی کتب یا جوامع حدیث کی ورق گردانی کرے یہ بات بہ آسانی اس کے علم میں آجائے گی کہ جس مقدار میں حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہسے متعلق احادیث موجود ہیں اس مقدار میں شائد ہی کسی موضوع سے متعلق روایات پائی جاتی ہوں
قطعی طور پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا انکار کرنا اور اس پر ایمان وعقیدہ نہ رکھنا ممکن نہیں ہے، فریقین کے محدثین کرام نے حضرت علیہ السلام کی ولادت سے قبل بھی اپنی کتب میں آپ سے متعلق روایات نقل کی ہیں جس کے بعد کسی بھی مسلمان کے لئے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔
اس بشارت کے پورا ہونے کے لئے عالمی تغیرات، معاشرت کے موجودہ حالات اور مادی ترقی ان افراد کے لئے بھی امیدافزا ہے جو مسائل کو صرف ظاہری اسباب وعلل اور سطحی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں اوراس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آخرکار ایک دن انسانیت حکومت الٰہی کے زیر سایہ پناہ حاصل کرے گی۔
انسان نے اگرچہ قدر تی قوتوں کو مسخر کرلیا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ ایک گھنٹہ سے بھی کم مدت میں روئے زمین کے تمام جانداروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے لیکن اخلاق ومعنویات سے روگرداں اور گریزاں ہے اور اپنی خواہش کی تکمیل اور اپنے اقتدار پسند عزائم کو پورا کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز نہیں آتا اور ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے ایسے میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ انسان آرام سے بیٹھا رہے گا اور جنگ سے پرہیز کرے گا۔
کیا یہی چیزیں اس بات کا سبب نہیں ہوں گی کہ انسانیت کو عالمی انقلاب اور مختلف کوششوں کے باوجود اخلاق وتمدن کی نابودی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہو، خدا اور قیامت کے ایمان کی بنیاد پر انسانیت دونوں ہاتھ پھیلا کر عادل پیشوا کی حکومت کا استقبال کرے۔
ہم ہی نہیں ہر مسلمان اس دن کا انتظار کررہا ہے، ہمیں انسانیت کا مستقبل روشن وتابناک نظرآتا ہے اس لئے نشاط وامید سے لبریز جذبہ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوشاں رہتے ہیںہم بشریت کے آخری نجات دہندہ کی ولادت باسعادت کے پرمسرت موقع پر عالم انسانیت خصوصاً ان حضرات کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں جو مادیت کی تاریکی، ظالموں کے ظلم وستم اور تباہی وفساد سے جاں بلب ہیں۔
”اللھم عجّل فرجہ وسہل مخرجہ واجعلنا من انصارہٖ واعوانہ“
خدایا !امام زمانہ (عج)کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم کو ان کے ناصراور مدد گاروںمیں قرار دے(آمین)

عالمی اسلامی معاشرہ(۱)
تمام مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں اورپیغمبر اکرم کی حدیثوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ کا پیغام اور آپ کی رسالت کوئی خصوصی دین اور علاقائی یاملکی سطح کی نبوت و رسالت نہیں تھی کہ جس سے صرف ایک سماج اور معاشرہ یا کسی خاص قوم و ملت یا علاقہ کی ہدایت و رہبری مقصود ہو اور اسلامی قوانین اور قرآنی احکام کسی ایک سماج یا معین ملک علاقہ یا کسی قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہیں ۔

عمومی تبلیغ
بلکہ اسلام کا پیغام پوری دنیا کے لئے ہے اور اسکے قوانین سب لوگوں کے واسطے ہیں اور وہ تمام مردوں،عورتوں ،مالدار ،فقیر ،کالے ،گورے،شہری یا دیہاتی بلکہ ہر طبقہ اور ہر صنف کے لئے ہدایت ہے(۲)
پیغمبر اسلام پوری کائنات کے لئے رحمت اور تمام عالمین کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے
---------
(۱)یہ مقالہ مسجد اعظم کے کتب خانہ کے رسالہ میں شائع ہوا تھا ملاحظہ فرمائیے جلد ۲ شمارہ ۱۱۔
(۲)قرآن کریم کی وہ متعدد آیتیں ملاحظہ فرمائیں جن میں پیغمبر اکرم کی رسالت کے عام ہونے کی صراحت موجود ہے جیسے:وما اٴرسلنٰک الا رحمة للعالمین ۔ان ہو الا ذکر للعالمین ۔قل یا ایھاالناس اني رسول اللہ الیکم جمیعا ً ۔مَن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منہ۔

تھے ان کی رسالت تمام لوگوں کو بری عادتوں اور استعمار وطاغوت کی غلامی سے نجات دلانے ، توحید پر ایمان اور اخلاقی اقدارنیز انسانی حقوق کو ادا کرنے کی دعوت دینے کے لئے تھی ۔
ایک خدا کی عباد ت کی طرف دعوت دینا اور اس حسِین انداز سے تمام لوگوں کی ہدایت کرنا جس سے انکے اندر اتحاد کی فضا قائم ہو جائے ۔ ہر قسم کے فاصلے مٹ جائیں اور دوسروں پر ناحق کسی کو ترجیح دینے کا خاتمہ ہو سکے اور ایک عالمی سماج ، برادری اور ہر لحاظ سے نمونہٴ عمل شہر یا بستی کے قیام کے لئے کوشش کرنا یہ صرف اسلام کا ہی امتیاز ہے ۔
تمام اختلافات کی بنیاد در اصل خدائے وحدہ لاشریک سے منھ موڑنا اور غیر خدا کی عبادت کرنا ہے ۔
مختلف بنیادوں پر حکومتوں کا قیام اور انکے متضاد اور متصادم نظام اور ایک دوسرے کے مخالف قوانین یہ سب توحید کے معنی سے نا واقفیت ،خاص ماحول میں پرورش اور محدود ذہنیت کی بنیاد پر ہیں، اسلام کی عالمی رسالت کے فلسفہ پر توجہ اور عقیدہ ٴ توحید سے یہ بصیرت اور طہارت نظر پیدا ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں اورزبانوں اور ہر طرح کے ضخیم پردوں کے پیچھے سے دنیا کے تمام علاقوں اور تمام لوگوں کو ایک انداز سے دیکھ لے اور اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت قائم ہو جائے ۔

حقیقی توحید
اسلامی تبلیغ اور پیغام کا ایک اہم ستون، جس پر فلسفہٴ نبوت کا بھی دارو مدار ہے، وہ یہ ہے کہ ہر شریعت کا سرچشمہ اور تمام قوانین اور ہر طرح کے نظام کو بنانے والا، صرف خدا وند متعال ہی ہے، شریعتوں کے قوانین اور احکام سب اسی کی لازوال اور عالم و حکیم ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور لوگوں کو صر ف احکام خدا کے سامنے سرتسلیم خم کر نا چاہے ٴ اورخدا کے علاوہ کسی دوسرے کے احکام کے آگے یا غیر اسلامی قوانین کے سامنے سر جھکانے کا مطلب اسلام کے راستہ سے انحراف ،شرک کی طرف توجہ اور حقیقی توحیدتک نہ پہنچنا ہے (۱)
احکام خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا در حقیقت خدا کے سامنے سر جھکانا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور جن حکومتوں اور قوانین کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کی پابندی کر نا غیر خدا کی عبادت اور ان کی غلامی کو قبول کرنا ہے ۔
جو شخص قانون اور احکام بنانے کو اپنا حق بھی سمجھتا ہو وہ خدا کے مخصوص افعال میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے اور جو شخص کسی دوسرے کے لئے ایسے حق کا اعتراف کرے تو اس نے اسکے خدا ہونے کا اقرارکیا ہے اور اس کی بندگی کو قبول کیا ہے ۔

الٰہی حکومت
اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے اوپر صرف خدا اور احکام خدا کی حکومت رہے، اسی لئے اس نے اس دور میںشرک کی ان تمام قسموں کا مقابلہ کیا جو اُس وقت ایران،روم یا دوسرے علاقوں میں بادشاہوں کے احترام کے نام یا کسی اور دوسری شکل میں رائج تھیں ۔
رہبران اسلام جیسے حضرت علی نے ہر ایک کے لئے یہ واضح کر دیا کہ دور جاہلیت میں روم اور ایران کے اندر جس شاہی ٹھاٹ باٹ کا چلن تھا وہ سب خدا پرستی کی روح کے سراسر مخالف اور مقام انسانیت کی توہین ہے ، حضرت علی علیہ السلام جیساخلیفہٴ مسلمین جنکی ذات اور شخصیت کا ہر پہلو انسانیت کی
----------
(۱)موجودہ دور کے ایک بڑے دانشمند نے اپنی کتاب میں قرآن مجید کی چند آیتیں ذکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالاہے کہ دین ،قوانین، حدود ،شریعت اور فکری و عملی نظام کا نام ہے۔لہٰذا اگر کسی شخص کے پاس قوانین و حدود کی پابندی کے وقت کوئی خدا ئی دلیل ہو تو وہ دین خدا کے دائرہ میں ہے لیکن اگر اسکے سامنے کسی شخص یا حاکم کا حکم معیار ہو تو اسے اسی کا پیرو کہا جائے گا اسی طرح اگر وہ کسی قبیلے کے سردار یا عوام الناس کی رائے کے ماتحت چلے تو اسے انہیں کے دین کا پابند قرار دیا جائے گا۔

عظمت کی علامت ہے وہ بنفس نفیس بہت سارے کام خود کیا کرتے تھے غریبوں کے لئے آٹا، روٹی یا کھجور لے جاتے تھے اور اگر لوگ زمانہ ٴ جاہلیت کی رسموں کے مطابق آپ کے احترام یا آپ کے اعزاز میں کوئی خاص اہتمام کرنا چاہتے تھے تو آپ ان کو سختی سے منع کر دیتے تھے پرانے اور پیوند لگے ہوئے کپڑوں میں ہر جگہ آتے جاتے تھے خود ہی بازار جاتے تھے اور وہاں سے گھر کا لازمی سامان خرید کر خود ہی اپنے گھر پہنچاتے تھے ۔
اولیائے خدا کا یہ اہتمام صرف اس لئے تھا تاکہ کوئی بھی اپنے کو کسی قوم کا حاکم اور لوگوں کی زندگی کا مالک و مختار نہ سمجھے بلکہ سب خدائی حکومت اور اسکے احکام کے دائرہ کے اندر رہیں اور تمام لوگوں کا حاکم اور ہا دی صرف خدا ہی ہو ۔