۱۔قرآن کریم اور حضرت مہدی منتظر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ
قرآن کریم کی متعددآیات(۲)کی تفسیر وتاویل حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور
----------
(۱)یہ مقالہ ”مسجد اعظم“قم کے شمارہ ۹۰ ،سال دوم میں ص۲۲/۳۱پر شائع ہوا ہے۔
(۲)”الحجة فیما نزل فی القائم الحجہ“ کے مولف محقق بصیر سید ھاشم بحرانی نے اپنی مذکورہ کتاب میں ایسی آیات کی تعداد سو سے زیادہ بیان کی ہے جن کی تفسیر حضرت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ سے متعلق کی گئی ہے۔
سے کی گئی ہے ذیل میں صرف چند آیات پیش کی جارہی ہیں۔
<لیستخلفنّھم في الارض> (۱)
یا<لیظہرہ علی الدین کلہ>
بہت سے مفسرین جیسے ابن عباس، سعید بن جبیر، اور سدی نے کہا ہے کہ اس وعدہٴ الٰہی کی تکمیل حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے ذریعہ ہوگی(۲)
یا<ولقد کتبنا في الزبور…>(۳)
<الذین یوٴمنون بالغیب>(۴)
<ونرید ان نمنّ علی الذین استُضعفوا في الارض…>(۵)
”واِنہ لعلمٌ للساعة“ اس آیہٴ کریمہ کے سلسلہ میں مقاتل بن سلیمان اور انکے تابع تمام مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۶)
۲۔ ظہور سے متعلق روایات
ظہور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے متعلق بے شمار روایات ہیں ان روایات کی کثرت کو دیکھ کر بااطمینان یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے کسی اسلامی موضوع سے متعلق اتنی روایات شائد ہی ہوں، اتنی کثیر روایات کادسواں حصہ بلکہ ان کے ایک فیصد کو بھی رد کردینا خلاف ایمان
---------
(۱)ینابیع المودة،ص۴۲۶ ، تفسیر غرائب القرآن نیشاپوری۔
(۲) تفسیر فخر، السراج المنیر شربینی، البیان ص۱۰۹، نورالابصارص۱۵۳ باب۲۔
(۳)ینابیع المودة،ص۴۲۵۔
(۴)غرائب القرآن، تفسیر کبیر۔
(۵)شرح ابن ابی الحدید،ج۴ص۳۳۶۔
(۶)اسعاف الراغبین، باب ۲ ص۱۴۱، نورالابصار، باب ۲ ص۱۵۳، ینابیع المودة، ص۱۵۳، البیان، ص۱۰۹۔
اورعقلا کے نزدیک قبول روایت کے معتبر طریقوں کے سراسر منافی ہے مزید یہ کہ ان میں سے بعض روایات میں ایسے قرائن بھی موجود ہیں جن سے ان کے قطعی ہونے کا یقین حاصل ہوجاتا ہے اور ان کے بارے میں کوئی شک وتردد باقی نہیں رہ جاتا۔
ان روایات میں احادیث ”عالیة السند“ اور ایسی احادیث بکثرت ہیں جن کے راوی موثق وممدوح ہیں، تاریخ، رجال اور حدیث کی کتابوں کے سرسری مطالعہ سے یہ بات بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے کہ راویوں کے درمیان ان روایات کی بہت شہرت تھی، اور راویان کرام ان روایات کے مضامین ومطالب کے سلسلہ میںصحابہ اور تابعین سے توضیح وتشریح کے طالب رہتے تھے اورا ن کے مضامین کو مسلم الثبوت اور حتمی الوقوع سمجھتے تھے بعض اصحاب جیسے کہ ”حذیفہ بن یمان“ کو ان روایات کے بارے میں مہارت تامّہ حاصل تھی۔
۳۔ تواتر روایات
اہل سنت کے حفاظ ومحدثین کی کثیر تعداد مثلا صبان نے اسعاف الراغبین (باب ۲ ص۱۴۰مطبوعہ مصر ۱۳۱۲) شبلی نے نورا لابصار (ص۱۵۵ مطبوعہ مصر ۱۳۱۲)، شیخ عبدالحق نے لمعات میں بحوالہ حاشیہ سنن ترمذی (ص۴۶ج ۲مطبوعہ دہلی) ابی الحسین آبری بحوالہ صواعق (ص۹۹ مطبوعہ مصر) ابن حجر، سید احمد بن سید زینی دحلان مفتی شافعیہ نے فتوحات الاسلامیہ (ج۲ص۲۱۱ مطبوعہ مصر) حافظ نے فتح الباری، شوکانی نے التوضیح میںبحوالہ غایة الماٴمول (ص۳۸۲ج۵) گنجی شافعی نے ”البیان“ (باب ۱۱) شیخ منصور علی ناصف نے غایة المامول، استاد احمد محمد صدیق نے ”ابراز الوھم المکنون“، ابوالطیب نے ”الاذاعة“ ابوالحسن سحری اور عبدالوھاب عبداللطیف استاد دانش کدہٴ شریعت نے حاشیہ ”صواعق“ میں صراحت کے ساتھ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہکے اوصاف وعلائم کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کے ”متواتر“ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
علامہ شوکانی نے تو اِن روایات کے تواتر کے سلسلہ میں ”التوضیح في تواتر ما جاء فيالمنتظروالدجال والمسیح“ کے نام سے ایک مکمل کتاب تالیف فرمائی ہے، محمد بن جعفر الکتانی اپنی کتاب ”نظم المتناثر“ میں فرماتے ہیں ”الاحادیث الواردة في المھدي المنتظر متواترة“ ”مہدی منتظر کے سلسلہ میں وارد احادیث متواتر ہیں۔“
شیخ محمد زاہدکوثری اپنی کتاب ”نظرة عابرة“ میں تحریر کرتے ہیں ”واما تواتر اٴحادیث المہدي والدجال والمسیح فلیس بموضع ریب عند اہل العلم بالحدیث“ مہدی، دجال، مسیح کے متعلق احادیث کا تواترعلماء علم حدیث کے نزدیک شک و شبہ سے بالا تر ہے۔
واسنوی ”مناقب شافعیہ“ میں فرماتے ہیں ”ظہور مہدی اور آپ کے اہلبیت پیغمبر ہونے سے متعلق روایات متواتر ہیں۔“
۴۔چند اصحاب کے اسماء جن سے اہل سنت نے ان روایات کو نقل کیا ہے:
۱۔حضرت علی ، ۲۔حضرت امام حسن ، ۳۔حضرت امام حسین ، ۴۔حضرت فاطمہ، ۵۔ ام الموٴمنین عائشہ، ۶۔عبداللہ بن مسعود، ۷۔عبداللہ بن عباس، ۸۔عبداللہ بن عمر، ۹۔عبداللہ بن عمرو، ۱۰۔سلمان فارسی، ۱۱۔ابوایوب انصاری، ۱۲۔ابوعلی الہلالی، ۱۳۔جابر بن عبداللہ انصاری، ۱۴۔جابر بن سمرہ، ۱۵۔ثوبان، ۱۶۔ابوسعید الخدری، ۱۷۔عبدالرحمن بن عوف، ۱۸۔ابوسلمیٰ، ۱۹۔ابوہریرہ، ۲۰۔انس بن مالک، ۲۱۔عوف بن مالک، ۲۲۔حذیفہ بن الیمان، ۲۳۔ابولیلیٰ الانصاری، ۲۴۔جابر بن ماجد صدفی، ۲۵۔عدی بن حاتم، ۲۶۔طلحہ بن عبیداللہ، ۲۷۔قرة بن ایاس مزنی، ۲۸۔عبداللہ بن الحارث بن جزء، ۲۹۔ابوامامہ، ۳۰۔عمروبن العاص، ۳۱۔عمار بن یاسر، ۳۲۔ابوالطفیل، ۳۳۔ام سلمہ، ۳۴۔اویس ثقفی (۱)
-------
(۱)غالباً صحیح نام ”اوس“ ہے جو کہ متعدد اصحاب کا نام تھا جیسے اوس بن حذیفہ، اوس بن ابی اوس ثقفی، اوس بن اوس ثقفی، اوس بن عوف ثقفی لیکن ”بدائع الظہور“ میں نزول حضرت عیسیٰ اور ان کے حضرت مہدی کی اقتدا سے متعلق حدیث میں اسی (اویس) نام کی تصریح ہے۔ قال اویس الثقفی :سمعت رسول اللہ ۔
۵۔ مشہور علماء اہلسنت اوران کی وہ کتب جن میں ظہور سے متعلق احادیث
موجود ہیں:
۱۔مسند احمد، ۲۔سنن ترمذی۔ ۳ و ۴، کنزالعمال ومنتخب کنز العمال علی متقی ہندی مکی، ۵۔سنن ابن ماجہ، ۶۔سنن ابی داوٴد، ۷۔صحیح مسلم، ۸۔صحیح بخاری، ۹۔ینابیع المودة قندوزی، ۱۰۔مودة القربی ہمدانی، ۱۱۔فرائد السمطین حموینی شافعی، ۱۲و ۱۳۔مناقب ومقتل خوارزمی، ۱۴۔اربعین حافظ ابی الفوارس، ۱۵۔مصابیح السنة بغوی، ۱۶۔التاج الجامع للاصول شیخ منصور علی ناصف، ۱۷۔صواعق ابن حجر، ۱۸۔جواہر العقدین شریف سمہودی، ۱۹۔سنن بیہقی، ۲۰۔الجامع الصغیر سیوطی، ۲۱۔جامع الاصول ابن اثیر، ۲۲۔تیسیر الوصول ابن الدیبع شیبانی، ۲۳۔المستدرک حاکم، ۲۴۔معجم کبیر طبرانی، ۲۵۔معجم اوسط طبرانی، ۲۶۔معجم صغیر طبرانی، ۲۷۔الدر المنثور سیوطی، ۲۸۔نورالابصار شبلنجی، ۲۹۔اسعاف الراغبین صبان، ۳۰۔مطالب السوٴل محمد بن طلحہ شافعی، ۳۱۔تاریخ اصفہان ابن مندہ، ۳۲ و۳۳۔تاریخ اصفہان وحلیة الاولیاء حافظ ابی نعیم، ۳۴۔تفسیر ثعلبی، ۳۵۔عرایس ثعلبی، ۳۶۔فردوس الاخبار دیلمی، ۳۷۔ذخائر العقبی محب الدین طبری، ۳۸۔تذکرة الخواص سبط ابن الجوزی، ۳۹۔فوائد الاخبار ابی بکر الاسکاف، ۴۰۔شرح ابن ابی الحدید، ۴۱۔غرائب نیشاپوری، ۴۲۔تفسیر فخر رازی، ۴۳۔نظرة عابرة کوثری، ۴۴۔البیان والتبیین جاحظ، ۴۵۔الفتن نعیم تابعی، ۴۶۔عوالی ابن حاتم، ۴۷تلخیص خطیب، ۴۸۔بدایع الزھور محمد بن احمد حنفی، ۴۹۔الفصول المھمة ابن صباغ مالکی، ۵۰۔تاریخ ابن عساکر، ۵۱۔السیرة الحلبیة علی بن برھان الدین حلبی، ۵۲۔سنن ابی عمرو الدانی، ۵۳۔سنن نسائی، ۵۴۔الجمع بین الصحیحین عبدری، ۵۵۔فضائل الصحابہ قرطبی، ۵۶۔تہذیب الآثار طبری، ۵۷۔المتفق والمفترق خطیب، ۵۸۔تاریخ ابن الجوزی، ۵۹۔الملاحم ابن منادی، ۶۰۔فوائد ابی نعیم، ۶۱۔اسد الغابہ ابن اثیر، ۶۲۔الاعلام بحکم عیسیٰ علیہ السلام سیوطی، ۶۳۔الفتن ابی یحییٰ، ۶۴۔کنوز الحقائق منادی، ۶۵۔الفتن سلیلی، ۶۶۔عقیدة اہل الاسلام غماری، ۶۷۔صحیح ابن حبان، ۶۸۔مسند رویانی، ۶۹۔مناقب ابن المغازلی، ۷۰۔مقاتل الطالبیین ابی الفرج اصبہانی، ۷۱۔الاتحاف بحبّ الاشراف شبراوی شافعی، ۷۲۔غایة الماٴمول منصور علی ناصف، ۷۳۔شرح سیرة الرسول عبدالرحمن حنفی سھیلی، ۷۴۔غریب الحدیث ابن قتیبہ، ۷۵۔سنن ابی عمرو المقری، ۷۶۔التذکرہ عبدالوہاب شعرانی، ۷۷۔الاشاعة برزنجی مدنی، ۷۸۔الاذاعة سید محمد صدیق حسن، ۷۹۔الاستیعاب ابن عبدالبر، ۸۰۔مسند ابی عوانہ، ۸۱۔مجمع الزوائد ہیثمی، ۸۲۔لوامع الانوار البھیة سفارینی حنبلی، ۸۳۔الھدیة الندیة سید مصطفی البکری، ۸۴۔حجج الکرامة سید محمد صدیق، ۸۵۔ابراز الوھم المکنون سید محمد صدیق، ۸۶۔مسند ابی یعلی، ۸۷۔افراد دارقطنی، ۸۸۔المصنف بیہقی، ۸۹۔الحربیات ابی الحسن الحربی، ۹۰۔نظم المتناثر من الحدیث المتواتر محمد بن جعفر الکتانی، ۹۱۔التصریح بما تواتر فی نزول المسیح شیخ محمد انور کشمیری، ۹۲۔اقامة البرہان غماری، ۹۳۔المنار ابن القیم، ۹۴۔معجم البلدان یاقوت حموی، ۹۵۔مقالید الکنوز احمد محمد شاکر، ۹۶۔شرح الدیوان میبدی، ۹۷۔مشکاة المصابیح خطیب تبریزی، ۹۸۔مناقب الشافعی محمد بن الحسن الاسنوی، ۹۹۔مسند بزار، ۱۰۰۔دلائل النبوة بیہقی، ۱۰۱۔جمع الجوامع سیوطی، ۱۰۲۔تلخیص المستدرک ذہبی، ۱۰۳۔الفتوح ابن اعثم کوفی، ۱۰۴۔تلخیص المتشابہ خطیب، ۱۰۵۔شرح وردّ السحر ابی عبدالسلام عمر الشبراوی، ۱۰۶۔لوامع العقول کشخانوی اور تقریباًسبھی کتب حدیث وغیرہ۔
۶۔اس موضوع سے متعلق علماء اہل سنت کی کتب:
۱۔ البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، مولفہ عالم شہیر ملا علی متقی (متوفیٰ ۹۷۵ء)۔
۲۔ البیان فی اخبار صاحب الزمان، مولفہ علامہ گنجی شافعی (متوفیٰ ۶۵۸ء)۔
۳۔ عقد الدرر فی اخبار الامام المنتظر، مولفہ شیخ جمال الدین یوسف الدمشقی، ساتویں صدی کے عظیم المرتبت عالم۔
۴۔ مناقب المہدی ،مولفہ حافظ ابی نعیم اصفہانی (متوفیٰ پانچویں صدی ہجری)۔
۵۔ القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر، مولفہ ابن حجر(متوفیٰ ۹۷۴)۔
۶۔ العرف الوردی فی اخبار المہدی، مولفہ عالم شہیر سیوطی (متوفیٰ ۹۱۱)۔
۷۔ مہدی آل الرسول، مولفہ علی بن سلطان محمد الھروی الحنفی نزیل مکہ معظمہ۔
۸۔ فوائد الفکر فی ظہور المہدی المنتظر، مولفہ شیخ مرعی۔
۹۔ المشرب الوردی فی مذہب المہدی، مولفہ عالم شہیر علی القاری۔
۱۰۔ فرائد فوائد الفکر فی الامام المہدی المنتظر، مولفہ المقدسی۔
۱۱۔ منظومة القطر الشھدی فی اوصاف المہدی، نظم شہاب الدین احمد خلیجی حلوانی شافعی۔
۱۲۔ العطر الوردی بشرح قطر الشہدی، مولفہ بلیسی۔
۱۳۔ تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان، مولفہ ابن کمال پاشا حنفی (متوفیٰ ۹۴۰)۔
۱۴۔ ارشاد المستھدی فی نقل بعض الاحادیث والآثار الواردة فی شاٴن الامام المہدی، مولفہ محمد علی حسین البکری المدنی۔
۱۵۔ احادیث المہدی واخبار المہدی، مولفہ ابی بکر بن خثیمہ۔
۱۶۔ الاحادیث القاضیہ بخروج المہدی، مولفہ محمد بن اسماعیل امیرالیمانی (متوفیٰ ۷۵۱)۔
۱۷۔ الہدیة الندیہ فیما جاء فی فضل الذات المہدیة، مولفہ ابی المعارف قطب الدین مصطفی بن کمال الدین علی بن عبدالقادر البکری الدمشقی الحنفی (متوفیٰ ۱۱۶۲)۔
۱۸۔ الجواب المقنع المحرر فی الرد علی من طغی وتبحر بدعوی انہ عیسیٰ اٴو المہدی المنتظر، مولفہ شیخ محمد حبیب اللہ بن مایابی الجکنی الشنقیطی المدنی۔
۱۹۔ النظم الواضح المبین، مولفہ شیخ عبدالقادر بن محمد سالم۔
۲۰۔ احوال صاحب الزمان، مولفہ شیخ سعد الدین حموی۔
۲۱۔ اربعین حدیث فی المہدی، مولفہ ابی العلاء ہمدانی (بحوالہٴ ذخائر العقبی، ص۱۳۶)
۲۲۔ تحدیق النظر فی اخبار المہدی المنتظر، مولفہ محمد بن عبدالعزیز بن مانع (مقدمہ ینابیع المودة)۔
۲۳۔ تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخرالزمان ، مولفہ علی متقی (متوفیٰ ۹۷۵)۔
۲۴۔ الرد علی من حکم وقضی ان المہدی جاء ومضی، مولفہ ملا علی قاری (متوفیٰ ۱۰۱۴)
۲۵۔ ”رسالة فی المہدی“ کتابخانہ اسعد افندی سلیمانیہ ترکی میں موجود رسالہ شمارہ ۳۷۵۸۔
۲۶۔ علامات المہدی، مولفہ سیوطی۔
۲۷۔ کتاب المہدی، مولفہ ابی داوٴد (یہ کتاب، سنن ابی داوٴد کی کتابوںمیں سے ہے اورمتعدد بار شائع ہوچکی ہے۔
۲۸۔ المہدی، مولفہ شمس الدین ابن القیم الجوزیة (متوفیٰ ۷۵۱)۔
۲۹۔ المہدی الی ماورد فی المہدی، مولفہ شمس الدین محمد بن طولون۔
۳۰۔ النجم الثاقب فی بیان ان المہدی من اولاد علی بن ابی طالب، ۷۸ صفحہ مکتبہ لالہ لی سلیمانیہ میں کتاب اندراج نمبر۶۷۹ پرموجود ہے۔
۳۱۔ الھدیة المہدویة، مولفہ ابوالرجاء محمد ہندی۔
۳۲۔ الفواصم عن الفتن القواصم، اس کتاب میں مولف نے صرف امام مہدی کے حالات تشریح وتوضیح کے ساتھ جمع کئے ہیں۔ (السیرہ الحلبیة، ص۲۲۷، ج۱)
|