نويد امن وامان
 
۲۔اجماع مسلمین
اگر اس اجماع اور اتفاق سے شیعوں کا اجماع مرادہو تو یہ بالکل واضح ہے اور اسے سب ہی جانتے ہیں کہ امام حسن عسکری کے فرزند دلبند حضرت قائم آل محمدکا ظہور شیعہ اثنا عشری مذہب کا اہم حصہ ہے اور اگر اس سے تمام مسلمانوں کا اتفاق مراد ہو تو اسکے ثابت کرنے کے لئے اہل سنت کے ایک صاحب نظر اور نکتہ سنج عالم، معتزلیوں کے علامہ ابن الحدید کا یہی ایک جملہ کافی ہے جو انہوں نے شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر ج۲ ص۵۳۵)میں تحریرکیا ہے :
”قد وقع اتفاق الفریقین من المسلمین اجمعین علی ان الدنیا والتکلیف لا ینقضی الا علیہ“
”دونوں فرقوںسنّی اور شیعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دنیا اور تکلیف شرعی کاخاتمہ نہ ہوگا مگر حضرت پر “یعنی آپ کے ظہور کے بعد۔
اہل سنت کے اور چار معروف علماء کے اقوال کیونکہ آئندہ مضمون میں نقل کئے گئے ہیں لہٰذا انہیں اس مقام پر ذکر نہیں کیا جا رہا ہے انھیں وہیں ملاحظہ فرمائیے۔
جو لوگ تاریخ پر نظر رکھتے ہیں انہیں بخوبی معلوم ہے کہ مصلح منتظر مہدی آل محمد علیہ الصلاة والسلام کے ظہور کے بارے میں تمام مسلمانوں کے درمیان اس حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ پہلی صدی ہجری سے اب تک جس نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے یا جس کی طرف اس دعوے کی نسبت دی گئی ہے سب نے اس کی کھل کر مخالفت کی ہے لیکن خود مسئلہ ظہور کی مخالفت کسی نے نہیں کی کیونکہ یہ بات مسلمانوں کے اجماع اور پیغمبر اکرم کی صریحی روایات کے خلاف تھی بلکہ وہ ان کی مخالفت اور ابطال کے لئے یہ طریقہ اپناتے تھے کہ روایات میں حضرت مہدی کے ظہور سے متعلق جن علامتوں اور نشانیوں کا تذکرہ ہے چونکہ ان مدعیوں کے یہاں ان میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ لوگ جھوٹے ہیں۔
اہل سنت کے چاروں مذاہب کے چار بزرگ علماء یعنی ابن حجرشافعی، ابو السرور احمد بن ضیاء حنفی،محمد بن احمد مالکی،یحییٰ بن محمد حنبلی سے جب اس سلسلہ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اسکا اسی اندازمیں جواب دیا جسکی تفصیل کتاب ”البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان “ باب ۱۳ پر انکے فتووٴں کے ساتھ نقل ہوئی ہے انھوں نے مسئلہ ظہور مہدی کوثابت کرنے کے ساتھ آپ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے یعنی وہ دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے یا حضرت عیسیٰ آپ کی اقتدا کریں گے یا آپ کے دوسرے اوصاف بیان کئے ہیں مختصر یہ کہ یہ ان کا مدلّل، دوٹوک اور قانونی فتویٰ ہے حتیٰ کہ جناب زید کی طرف مہدویت کی جو غلط نسبت دی گئی تھی اس سلسلہ میں بنی امیہ کے شاعر حکیم بن عیاش کلبی نے یوں کہا ہے:
<ولم ا ر مھد یا علی ا لجذع یصلب>(۱)
مجھے کوئی ایسا مہدی نہیں دکھائی دیا جسے سولی دی گئی ہو۔
اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ مہدی جب ظہور کرینگے تو تمام ممالک کو فتح کرینگے اور پوری دنیا میں صرف انہیں کی حکومت ہوگی ، ہر جگہ عدل و انصاف کا رواج ہوگا تو پھر جناب زید جنہیں سولی پر لٹکایا گیا وہ کس طرح مہدی ہو سکتے ہیں؟

۳۔احادیث اہل سنت
اہل سنت کے بڑے بڑے محدثین جنکے نام اور ان کی کتابوں کی تفصیل اس مقالہ میں اختصار کی بنا پر ذکر کرنا ممکن نہیں ہے انہوں نے حضرت مہدی کے بارے میں صحابہ کے علاوہ بہت
----------
(۱)ابن حجر عسقلانی شافعی نے اپنی کتاب ”الاصابہ ج۱ ،ص۳۹۵ پر” فوائد کواکبی“ سے جو روایت نقل کی ہے اسکے مطابق، یہ حکیم بن عیاش ،امام جعفر صادق کی بد دعا کی وجہ سے بہت ہی عبرتناک حالت میں ہلاک ہوا تھا۔

سے تابعین سے بھی کثرت کے ساتھ روایتیں نقل کی ہیں اور بعض حضرات نے تو اس سلسلہ میں مستقل کتاب بھی تالیف کی ہے جبکہ بہت سے لوگوں نے ان روایتوں کے متواتر(۱)ہونے کی تصریح کی ہے اور ان حضرات کی تحریروں میں اس بات کی تاکید موجود ہے ۔
اس مقالہ کے بعض حصے جیسے صحابہ کے نام یا جن علمائے اہل سنت نے اس سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیں یا جن لوگوں نے روایتوں کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے ان سب کے نام چونکہ اسی کتاب میں آئندہ ذکر کئے جائیں گے لہٰذا انہیں یہاں حذف کیا جا رہا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ : پیغمبر اکرم کی متواتر روایات سے صرف مسئلہ ظہور مہدی ہی حتمی اور قطعی نہیں ہے بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بھی ثابت ہے کہ آپ پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے اور حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہو کر آپ کی اقتدا کرینگے اور آپ پوری دنیا کو فتح کر کے اسمیں قرآنی احکام کوعام کردینگے۔
اسکے علاوہ اہل سنت کے بہت سے علماء و محققین نے اپنے اشعار، قصائد یا اپنی کتابوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں جیسا کہ ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر “ کی تیسری فصل کے پہلے باب میں آنحضرت کی ولادت ،غیبت اور امامت سے متعلق اہل سنت کے ساٹھ علماء کے واضح اعترافات نقل کئے ہیںچنانچہ جو منصف مزاج انسان بھی ان اعترافات کو ملاحظہ کر ے اسکے لئے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا ہے۔

۴۔احادیث شیعہ
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شیعوں نے جو روایتیں نقل کی ہیں وہ سب سے زیادہ معتبر ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم کے دور سے لیکر آج تک انکے درمیان حدیث نویسی کا سلسلہ کبھی بھی منقطع نہیں ہوا اورجو کتابیں پہلی صدی ہجری سے۵۰ہجری تک یا ۵۰ ہجری سے ۱۰۰ ہجری تک لکھی گئیں
------------
(۱)حدیث متواتر : اس حدیث کو کہا جاتا ہے جسکے نقل کرنے والے راوی اتنے افراد ہوں جنکے جھوٹ بولنے اور ساز باز کرنے کا امکان نہ ہو

تھیں انمیں سے بعض آج بھی موجود ہیں جن سے لوگ با قاعدہ استفادہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سب سے پہلی کتاب وہی کتاب ہے جسے رسول اکرم نے املاء فرمایا تھا اور حضرت علی نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا جیساکہ متعدد روایات میں ذکر ہے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام احادیث کو نقل کرتے وقت اس کتاب کو سند کے طور پر پیش کرتے تھے۔
دوسرے فرقوں کی روایتوں کے مقابلہ میں شیعوں کی روایتوں کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ ان کی روایتیں ائمہ معصومین کے ذریعہ نقل ہوئی ہیں اور یہ حضرات زہدوتقویٰ کا نمونہ ہیں اور ان کی عظمت و فضیلت فریقین کے نزدیک ہر لحاظ سے مسلّم ہے اور ”اہل البیت ادریٰ بما فی البیت “ (یعنی گھر والوں کو اپنے گھر کے حالات بہتر معلوم ہوتے ہیں)کے مطابق ان سے منقول روایتیںفطری طور پر زیادہ محکم اور غلطیوں سے پاک ہیں۔
تیسری اہم وجہ : جسکی بنا پر شیعوں کی روایات سب سے زیادہ معتبر قرار پائی ہیں اور درحقیقت یہی سبب ان کی روایتوں کا بہترین پشت پناہ اور سند بھی ہے وہ حدیث ثقلین ہے جو متواتر بھی ہے یا حدیث سفینہ اورحدیث امان یا ان کے علاوہ اور دوسری روایات ہیں جن میں امت کو اہل بیت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اہل بیت قرآن مجید کے ہم پلہ ہیں اور ان کا قول حجت ہے اور ان کے دامن سے وابستگی گمراہی سے نجات ہے نیز یہ کہ کوئی زمانہ، معصوم امام کے وجود سے خالی نہیں رہ سکتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ائمہ طاہرین سے جو روایتیں نقل ہوئیں ہیں ان میں اعلیٰ درجہ کی صداقت اور اعتبار پایا جاتا ہے کیونکہ ایک طرف تو تمام عقلاء کی سیرت یہی ہے کہ وہ ایک معتبر شخص کی بات کو بخوشی قبول کر لیتے ہیں دوسرے یہ کہ اہل بیت کو پیغمبراکرم سے جس درجہ قربت حاصل تھی اور آنحضرت کے نزدیک ان لوگوں کا جو مرتبہ و مقام تھا وہ صحابہ اور تابعین میں کسی کو بھی حاصل نہیں تھا حتیٰ کہ حدیث ثقلین کے مطابق ان حضرات کا قول اور فعل شرعی حجت اور دلیل ہے اور کیونکہ یہ لوگ معصوم ہیں اور قرآن سے کبھی جدا نہیں ہونگے لہٰذا امت کے لئے ان کی بات ماننا اور ان کی طرف رجوع کرنا واجب ہے ۔
اس مختصر تمہید کے بعد( جسے ہم نے اپنی اُس کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں اہل بیت کی پیروی کے واجب ہونے اور ان سے علم حاصل کرنے کے بارے میں گفتگو کی ہے) باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں قائم آل محمد حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ کے ظہور سے متعلق ان کے عظیم علماء ومحدثین کی کتابوں میں معتبر ترین روایات موجود ہیں جو آغاز ہجرت سے اب تک لکھی گئی ہیں جیسے ان اصل کتابوں کی روایتیں جو حضرت قائم آل محمد کی ولادت سے پہلے تالیف ہوئی ہیں مثلاً حسن بن محبوب (متوفیٰ ۲۲۴ ھ) کی کتاب ”مشیخہ“ یا ”سلیم بن قیس “ (متوفیٰ ۷۰ یا ۹۰ ہجری )کی کتاب ۔
یہ ایسی روایات ہیں کہ ان میں سے صرف ایک روایت ہی امام زمانہ کی امامت کو یقینی طور پر ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری کے اکلوتے بیٹے ہیں ،وہ روایات جن میں ایسی پیشین گوئیاں بھی ہیں جو اب تک سچ ثابت ہو چکی ہیں اور وہ اولیائے خدا کا معجزہ سمجھی جاتی ہیں اور انہیں ان کی غیب سے متعلق خبر شمار کیا جاتا ہے ۔وہ روایتیں جن میں اس ظہور کے خصوصیات ،شرائط اور اس کی علامتیں واضح طور پر بیان کی گئی ہیں ان روایتوں کی تعداد تواتر سے کہیں زیادہ ہے اور ان کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنا صرف اسی کے لئے ممکن ہے جسکا مطالعہ بہت وسیع ہو اور وہ اس فن میں واقعاً صاحب نظر ہو ۔
قارئین محترم یہ مشکل صرف زبانی دعویٰ نہیں بلکہ بالکل سچ اور حقیقت پر مبنی ہے جسکی بہترین دلیل حدیث کے اہم مجموعوں کے علاوہ بڑے بڑے شیعہ محدثین کی وہ سینکڑوں کتابیں بھی ہیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔
جیسے تیسری صدی ہجری کے بزرگ عالم عیسیٰ بن مہران مستعطف کی تالیف ”المھدی “، فضل بن شاذان کی کتاب ”قائم و غیبت “، تیسری صدی ہجری کے جلیل القدر عالم عبد اللہ بن جعفر حمیری کی تالیف ”غیبت“،یا کتاب ”غیب وذکرالقائم “ موٴلفہ ابن اخی طاہر(متوفیٰ۳۵۸ھ)، محمد بن قاسم بغداد ی معاصر ابن ہمام (متوفیٰ ۳۳۳ھ) کی کتاب ”غیبت“، شیخ کلینی کے ماموں علان رازی کلینی کی تالیف ”اخبار القائم “یا ”اخبار المھدی“مولفہ جلودی (متوفیٰ ۳۳۲ھ)، چوتھی صدی ہجری کے ایک بڑے عالم نعمانی کی ”کتاب غیبت“، حسن بن حمزہ مرعشی (متوفیٰ ۳۵۸ھ)کی تالیف ”غیبت“یا” دلائل خروج القائم“ مولفہ ابن علی حسن بن محمد بصری، (تیسری صدی ہجری کے عالم)احمد بن رمیح المروزی یا کتاب ”ذکر القائم من آل محمد“ قدیم محدث ابی علی احمد بن محمد جرجانی کی تالیف” اخبار القائم “ یا”الشفاء والجلاء“ مولفہ احمد بن علی رازی” ترتیب الدولہ“مولفہ احمد بن حسین مہرانی، ”کمال الدین “ ، ”کتاب غیبت کبیر“تالیف شیخ صدوق(متوفیٰ ۳۸۱ھ)، ابن جنید کی کتاب”غیبت“ (متوفیٰ۳۸۱ھ)، ”کتاب غیبت“مولفہ شیخ مفید(متوفیٰ ۴۱۳ھ)، سید مرتضیٰ (متوفیٰ ۴۳۶)کی کتاب غیبت، شیخ طوسی(متوفیٰ ۴۶۰)کی کتاب ”غیبت“۔ سید مرتضیٰ کے ہم عصر اسعد آبادی کی تالیف” تاج الشرفی ،کتا ب ما نزل من القرآن فی صاحب الزمان“ موٴلفہ عبداللہ عیاش (متوفیٰ ۴۰۱) ”فرج کبیر“،موٴلفہ محمد بن ھبت اللہ طرابلسی (شاگرد شیخ طوسی ) اسی طرح” برکات القائم“ ،تکمیل الدین، بغیة الطالب ،تبصرة الاولیاء ،کفایة المہدی ،اخبار القائم ،اخبار ظہور المہدی الحجة البالغ ،تثبیت الاقران ،حجة الخصام ،الدر المقصود ،اثبات الحجة ،اتمام الحجة ،اثبات وجود القائم ،مولد القائم،الحجة فی ما نزل فی الحجہ ،الذخیر ة فی المحشر ،السلطان المفرج عن الایمان،سرود اہل الایمان، جنی الجنتین ،بحار الانوار کی تیرھویں جلد ،غیبتِ عوالم کے علاوہ ایسی اور بھی سینکڑو ں کتابیں ہیں جن کی فہرست اور موٴلفین کے نام تحریر کرنے سے یہ گفتگو کافی طویل ہو جائے گی۔
ان متواتر روایات کی روشنی میں اس مقام پر ہم حضرت مہدی کے بعض اوصاف اور ان کی بعض علامتیں ایک فہرست کی شکل میں پیش کر رہے ہیں جن کی وضاحت کسی دوسرے موقع پر پیش کی جائے گی۔(۱)
آخر میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ امام عصر کے موجود ہونے کے بارے میں اور بھی عقلی و نقلی دلیلیں موجود ہیں جن کوہم اس مقام پر بیان نہیں کر رہے ہیں۔
البتہ مختصر یہ کہ وہ تمام عقلی و نقلی دلیلیں جو امامت عامہ پر دلالت کرتی ہیں یا یہ ثابت کرتی ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک امام معصوم کا موجود ہونا ضروری ہے، ہر امام کی معرفت واجب ہے اور کبھی بھی زمین حجت سے خالی نہیں رہ سکتی کیونکہ ”لو بقیت الارض بغیر حجة لساخت باھلھا “ اگر زمین حجت خدا سے خالی ہو جائے تو وہ تمام اہل زمین کو اپنے اندر دھنسا لے گی ،یہی سب دلیلیں حضرت صاحب الزمان کے وجود اور آپ کی امامت کی مستحکم دلیلیں ہےں اور امام عصر ارواحنافداہ کے وجود کے اثبات اور پردہٴ غیبت میں آپ کے زندہ رہنے پر استدلال و بر ہان قائم کرنے کے لئے یہی دلیلیں بہترین سند ہیں۔
-----------
(۱)چونکہ یہ تمام اوصاف ”امام مہدی کے اوصاف اور امتیازات “نامی فصل میں بیان کئے جائےں گے لہٰذا انہیں اس جگہ سے حذف کر دیا گیا ہے ،قارئین کرام ص۸۰کا مطالعہ فرمائیں۔

بارہ امام
ہمیں معلوم ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے بعداسلامی امت کی دینی اور سیاسی رہبری و قیادت ایک خدائی منصب ہے اور پیغمبراکرم نے اس کے لئے حکم خدا سے ایک لا ئق اور اہل شخص کو معین کیا اور جس طرح پیغمبر اکرم امت کی دینی ،سیاسی روحانی اور انتظامی قیادت کے ذمہ دار تھے، امام بھی جو کہ پیغمبر اکرم کا جانشین اور خلیفہ ہے، امت کا قائد و رہبر ہے ۔
البتہ ان دونوں کے درمیان صرف اتنا سا فرق ہے کہ پیغمبر پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر دین و شریعت کو عالم غیب سے حاصل کرکے اسے اپنی قوم تک پہونچاتا ہے لیکن امام شریعت و کتاب لیکر نہیں آتا ہے ، اسکے پاس عہدہ ٴ نبوت نہیں ہوتا بلکہ وہ پیغمبر اکرم کی کتاب و سنت کے ذریعہ امت کی ہدایت کرتا ہے۔
یہ طے ہے کہ یہ طریقہٴ کار عدل و انصا ف ،عقل ومنطق اور حق کے عین مطابق ہے اور اسکے علاوہ امت کی رہبری و قیادت کے جتنے طریقے اور راستے ہیں ان میں یہی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق ہے کیونکہ جس شخص کو بھی پیغمبر اکرم خدا وند عالم کے حکم سے امت کا رہبر و ہادی بنائیں گے اسمیں رہبری کی تمام صلاحیتیں موجود ہوں گی اور وہی امامت و ہدایت کے لئے بہترہوگا جیسا کہ مشرقی اور مغربی فلاسفہ کے لئے قابل فخر اور عظیم فلسفی شیخ الرئیس ابو علی سینا نے کہا ہے: ”والاستخلاف بالنص اصوب فان ذالک لا یودیٰ الی التشعب والتشاغب والاختلاف “یعنی نص کے ذریعہ خلیفہ کا انتخاب ہی سب سے زیادہ درست بات ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی پارٹی بازی ، فتنہ و فساد اور اختلاف کا امکان نہیں ہے ۔
مسلمانوں کی ایسی دینی اورسیاسی رہبری وقیادت کہ ان کے رہبر کا ہر قول وفعل ہر ایک کے لئے حجت اور لوگوں کے تمام دینی اور دنیاوی امور پر حاکم ہو یہ ایک بہت نازک اور بلند مقام و مرتبہ ہے اور اس سے بڑا عہدہ کوئی اور نہیں ہو سکتا لہٰذا اگر اس کے انتخاب میں ذرہ برابر کوتاہی ہو جائے تو اسکے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اور پھر انبیاء کی بعثت کا کوئی فائدہ باقی نہیں رہ جائے گا۔