امام زمانہ(عج) کے ظہور سے متعلق
قرآن اور احادیث کی بشارتیں
غیب پر ایمان
<لذین یوٴمنون بالغیب>
جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔بقرہ/۳
تمام نبوّتوں اور مذاہب حقہ کا مرکزی نقطہ اور انبیائے الٰہی کے دین کو دوسرے مذہبوں سے ممتاز کرنے والے عقیدے کا نام ”ایمان بالغیب “ہے۔
انبیائے کرام عالم محسوس یا عالم ظاہر سے عالم معقول یا غیب کے درمیان موجود رابطے کو بیان کرتے ہیں اور اس طریقہٴ کار کے ذریعہ بشریت کو عالم غیب کی تعلیم دیتے ہیں۔
غیب پر ایمان ،یعنی ان چیزوں پر ایمان رکھنا جو ظاہری حواس سے پوشیدہ ہیں چاہے باطنی حواس اور عقل کے ذریعہ ان کا ادراک ممکن ہو(جیسے وجود خدا ،صفات ثبوتیہ و سلبیہ، قیامت،جنت ،دوزخ اور فرشتے وغیرہ )اور چاہے ممکن نہ ہو جیسے خدا کی ذات اورصفات کی اصل حقیقت، ملائکہ اور روح کی حقیقت،اور چاہے یہ ایمان ماضی یا مستقبل کے واقعات و حادثات کے بارے میں کیوں نہ ہو۔
خدا پر ایمان ،ملائکہ پر ایمان ،برزخ پر ایمان ،جنت و جہنم پر ایمان ،یاوحی اور ان تمام چیزوں پر ایمان رکھنا جو انبیائے کرام نے ماضی یا مستقبل کے بارے میں ہمیں بتائی ہیں یہ سب ”غیب پر ایمان “کی قسمیں ہیں ۔
غیب پر ایمان یا توعقلی دلیل کے ذریعہ ثابت ہے یا اسکے بارے میں کوئی نقلی(منقولہ) دلیل ہے، البتہ اگر اس کی دلیل نقلی ہو تو پھر وہ غیب ایسا ہونا چاہئے کہ عقلی دلیلوں کے ذریعہ اسکا وجود محال نہ ہو اور عقل کے نزدیک اسکے وجود کا احتمال پا یا جاتا ہو ۔
جس وقت عقل کسی چیز کے موجود ہونے کی تصدیق کر دے یا اسکے محال ہونے کے بارے میں کوئی دلیل پیش نہ کر سکے تو نقلی (منقولہ) دلائل کے ذریعہ انہیں قبول کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ عقل کے حکم کے مطابق لازم ا ور ضروری ہے ۔
تمام آسمانی مذاہب نے ”غیب پر ایمان“کو نیک اعمال کی قبولیت کی شرط قرار دیا ہے نیز اخلاقیات میں اعتدال اور انسانی فضائل و کمالات کی تکمیل کو اسی سے مربوط جانا ہے اور اصولی طور پر انبیااورآسمانی ہادیوں کی تبلیغ کا اثر انہیں لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے جو عالم غیب اور اس دنیا سے ما ورا ئچیزوں کے موجود ہونے کا احتمال رکھتے ہوں، آخری زمانہ کے مصلح یعنی حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور پر ایمان رکھنا بھی انہیں غیبی باتوں کا حصہ ہے جن کے بارے میں پیغمبر اسلام نے ہمیں مطلع کیا ہے اور ان کی تصدیق واجب ہے ۔
جس طرح پیغمبر اکرم کی باتوں کی حقانیت اور سچائی کے بارے میں کوئی بھی مسلمان شک نہیں کرتا تھا اور سب لوگ اسے قبول کر لیتے تھے اسی طرح آپ کی نبوت کے بارے میں موجودہ دور کے مسلمانوں کا بھی بالکل یہی عقیدہ وایمان ہے ۔
پیغمبر اکرم نے حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور سے زیادہ عجیب وغریب اور حیرت انگیز واقعات کے بارے میں خبر دی ہے جیسے سورج کی چادر کا لپیٹ دیا جانا، دریاوٴں کا پھٹ جانا ،ستاروں کا گر پڑنا اور منتشرہوجانا، پہاڑوں کا حرکت میں آجانا ،آسمانوں کا شگافتہ ہو جانا ،دابة الارض کا خروج یا معاد اور قیامت۔
یہ سب غیب سے متعلق خبریں ہیں اور قرآن مجید میں مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی اور غیب سے متعلق خبریں کثرت سے موجود ہیں اور پیغمبر اکرم کے اوپر وحی نازل ہونے کا ایمان رکھنا ان تمام چیزوں پر ایمان (چاہے وہ اجمالی طور پر ہی کیوں نہ ہو)رکھنے سے الگ نہیں ۔
ایک دن آئے گا کہ جب وہ تمام عجیب و غریب حادثات اور واقعات ضرور رونما ہوں گے جنکے بارے میں پیغمبر اکرم اور قرآن مجید نے ہمیں باخبر کیا ہے، اور اسی طرح جیسا کہ قرآن مجید نے بیان کیا ہے اور پیغمبر اکرم نیز ان کے جانشین (ائمہ)نے ہمیں سینکڑوں روایات کے ذریعہ یہ بشارت دی ہے کہ ایک دن آخری زمانہ کے مصلح حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظہور فرمائیں گے اور اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔
غیب کے بارے میں پیغمبر اکرم اور ائمہ طاہرین نے جو پیشین گوئیاں کی ہیں وہ تواتر کی حد سے کہیں زیادہ ہیں اور تاریخ کی معتبر ترین اور کلیدی کتابیں اس کی بہترین سند ہیں ۔
ہمارے لئے آج پیغمبر اکرم کی بعثت کے ابتدائی دور کے مقابلے میں آنحضرت کی بیان کردہ غیبی خبروں کو قبول کر لینا نہایت آسان ہے کیونکہ اس وقت تک ان کے رونما نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی صداقت و حقانیت کی تائید ممکن نہیں تھی اسی طرح ہم پیغمبر اکرم کے دور کی طرف تاریخ کے جتنے اور اق پلٹتے چلے جائیں گے ،اس بات کوقبول کرنے کے امکانات (وسائل )کم سے کمتر ہوتے چلے جائیں گے لیکن اسکے بر خلاف جتنا آگے کی طرف نظراٹھا کر دیکھیں اور تاریخ اسلام کو شروع سے آخر تک دیکھنا شروع کریں تو ہماری عقل اور ہمارا ضمیر اس کو آسانی کے ساتھ قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور ہمارا ایمان کامل تر ہو جاتا ہے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ بخوبی واضح و روشن ہو گیا کہ پیغمبر اکرم نے وحی الٰہی کی بنا پر مستقبل کے بارے میںپیشین گوئیاں کی تھیں اسی لئے (پیغمبر اکرم کے بعد )جتنازیادہ زمانہ گذررہا ہے اس کی صداقت مزید آشکار ہوتی جا رہی ہے۔
جب آپ اس آیت کی تلاوت کرتے تھے :
<و ان کنتم فی ریب مما نزّلنا علی عبدنا فاٴتوا بسورة من مثلہ و ادعوا شھدائَکم من دون اللہ ان کنتم صادقین فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھاالناس و الحجارة اعدّت للکافرین>(۱)
”اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اسکا جیسا ایک ہی سورہ لے آو ٴ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں سب کو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو ،اور اگر تم ایسا نہ کر سکے اور یقیناً نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جسکا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافرین کے لئے مہیا کیا گیا ہے۔“
اور جب آپ یہ پڑھتے تھے:
<قُل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاٴتوا بمثل ھذا القرآن لا یاٴتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا>(۲)
”آ پ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہو جائیں “۔
جس دن : آنحضرت قرآن مجید کے ایک سو چودہ سوروں کو ایک سو چودہ زندہ و پائندہ معجزوں کے طور پر پیش کر رہے تھے اور لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ تم ،ان میں سے کسی ایک سورے کا جواب بھی نہیں لا سکتے ہو اور جن و انس قرآن کا جواب لانے سے قاصر ہیں ۔
جس دن : پیغمبر اکرم نے مسلمانوں سے فرمایا : تم کلمہٴ توحید کا اقرار کرو اور وحدہ لا شریک خدا کی عبادت کرو تاکہ تمام عرب تمہارے سامنے سر تسلیم خم کردیں اور قیصر و کسریٰ کے خزانوں پر تمہارا قبضہ ہو جائے اور تم ملکوں کو فتح کر لو۔
جس روز: آپ یہ فرما رہے تھے کہ زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی اور مشرق سے لے کر مغرب تک سب کچھ مجھے دکھا دیا گیا اور میرے لئے جو کچھ سمیٹا گیا ہے وہ میری امت کو مل کر رہے گا۔
جس دن: آپ نے مکہ ،بیت المقدس ،یمن ،شام ،عراق،مصراور ایران کے فتح ہونے کی خبر دی تھی اور جس دن آپ مکہ میں مشرکوں سے یہ فرما رہے تھے تمہارے جسم پرانے کنویں میں ڈال دئے جائیں گے۔اور ابوسفیان کے بارے میں یوں مطلع کر دیا تھا کہ یہ جنگ احزاب کا فتنہ برپا کر ے گا۔
-----------
(۱)سورہٴ بقرہ آیت۲۳،۲۴۔
(۲)سورہٴ اسراء آیت ۸۸ ۔
جس دن :آپ حضرت علی کے ہاتھوں خیبرکے فتح ہونے کی خبر دے رہے تھے یاجناب ابوذرۻ کو ان کے مستقبل سے یوں باخبر کر رہے تھے کہ تم تنہا ئی کی زندگی گذاروگے اور دنیا سے تنہا ہی جاوٴ گے۔
جس دن: جنگ بدر سے پہلے ہی اس جنگ میں قتل ہونے والے کفار کے فوجیوں کے نام بتاکر یہ فرما رہے تھے کہ یہاں فلاں قتل کیا جائے گا اور اس جگہ فلاں قتل ہوگا، چنانچہ جنگ بدر میں جتنے کفار مارے گئے آپ نے ان سب کے نام پہلے ہی بتا دئے تھے ۔
جس دن آپ جناب عمارۻ سے یہ فرما رہے تھے کہ : تمہیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا اور اپنی عزیز ترین اور با عظمت بیٹی جناب فاطمہ زہرا سے یہ فرمایا تھاکہ: میرے اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہوگی اور اپنی ازواج سے یہ فرمایا تھا : تم میں سے کونسی خاتون ہے جس پر حواٴب کے کتے بھونکیں گے اور وہ اونٹ پر سوار ہوگی اس کے آس پاس بہت سارے لوگ قتل کئے جائیں گے اور حضرت عائشہ سے فرمایا تھا :خیال رکھنا کہ تم ہی وہ عورت نہ ہو جانا ! بیہقی کی روایت(۱)کے مطابق ان سے فرمایا : اے حُمیرا اس وقت تمہاراکیا حال ہوگا جب حواٴب کے کتے تم پر بھونکیں گے اور تم اس چیز کا مطالبہ کروگی جس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے !
آپ نے زبیر کو جنگ جمل اور حضرت علی کے خلاف اس کے خروج سے مطلع کیا۔
جس دن: آپ نے حضرت علی اور امام حسن وحسین کی شہادت کااعلان واضح لفظوں میں کر دیا اور جب آپ حضرت علی کے خلاف ناکثین (جنگ جمل) قاسطین (جنگ صفین) مارقین (جنگ نہروان) کے بارے میں مطلع کر رہے تھے اور جنگ نہروان میں ذو الثد یہ خارجی کے
قتل ہونے کی تمام تفصیلات کی پیشین گوئی فرمارہے تھے یا بنی امیہ اور بنی الحکم کے فتنوں اور ان
-----------
(۱)المحاسن والمساوی ج۱ ص۷۶۔
کی حکومت اور اہل عذرا (جناب حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں )کی شہادت کی خبر دے رہے تھے۔(۱)
مسلمانوں کو ان تمام پیشین گوئیوں کا بآسانی یقین ہو جاتا تھا کیونکہ ان کی اطلاع پیغمبر اکرم نے دی تھی اور مسلمان آپ کی رسالت پر ایمان رکھتے تھے اور رسالت و نبوت پر ایمان رکھنے کے معنی یہی ہیں کہ پیغمبر اکرم نے غیب کے بارے میں جو خبریں دی ہیں ان کی سچائی پر ایمان اور اعتماد ہو لیکن اسلام کی تاریخ جوں جوں آگے کی طرف بڑھتی گئی اور تاریخ کے صفحات میں اضافہ ہوتا رہا ان پیشین گوئیوں نے لوگوں کو اپنی طرف اور زیادہ متوجہ کر لیا اور جن لوگوں کے دلوں میں ان سے متعلق کوئی خاص اعتماد نہیں تھا ان کے یقین میں بھی اضافہ ہو گیا اور ان کا ایمان مزید مستحکم اور استوار ہو گیا۔
--------
(۱)غیب کے بارے میں پیغمبر اکرم کی ایک بالکل سچی اور مسلّم خبر سر زمین حجاز سے آگ کا ظاہر ہونا بھی ہے جسکے ظاہر ہونے سے دو تین صدی پہلے تالیف شدہ کتابوں میں اسکا تذکرہ درج تھا اس حدیث میں آپ نے سر زمین حجاز سے ایک ایسی آگ ظاہر ہونے کی پیشین گوئی فرمائی تھی جسکے اثرات بصریٰ اور شام سے دکھائی دینگے آپ کی اس پیشین گوئی کو صحابہ نے نقل کیا ہے اور جو کتابیں تیسری صدی ہجری میں تالیف ہوئی تھیں ان میں اس کا تذکرہ موجود ہے:
جیسے صحیح بخاری (متوفیٰ ۲۵۶)، طبرانی(متوفیٰ ۲۶۱)،مسند احمد بن حنبل (متوفیٰ ۲۴۱)مسند حاکم (متوفیٰ ۴۰۵)، طبرانی(متوفیٰ ۳۶۰) چنانچہ پیغمبر اکرم نے اس آگ کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی تھیں بعینہ بالکل اسی طرح تیسویں جمادی الآخر ۶۵۴ ء ہجری میں یہ آگ مدینہ کے نزدیک ظاہر ہوئی اور کئی دنوں کی مسافت کے فاصلے سے بالکل صاف دکھائی دیتی تھی اور ۵۲،دنوں تک اسی طرح باقی رہی اور اسی سال ۲۷/رجب کو ختم ہوئی (یعنی بخاری و مسلم کے انتقال کے تقریباً چار سو سال بعد )جسکی تفصیل مندرجہ ذیل کتب تاریخ میں درج ہے”سیرت نبویہ“ سیرت حلبیہ کے حاشیہ پر مولفہ سید احمد زینی دحلان ج۳ ص۲۲۳”التذکرہ“ مولفہ:قرطبی ص ۲۵۰ ”الاذاعہ “ ص۸۴ ”الاشاعہ“ ص۳۷ ”تاریخ الخلفاء “ص ۳۰۹ ”صحیح مسلم ج۸ص۱۸۰”صحیح بخاری“ کتاب فتن ج۴ ص۱۴۲ ”وفاء الوفاء “ مولفہ سمہودی ج۱فصل ۱۶ص۱۵۲-۱۳۹،”الفتوحات الاسلامیہ“ ج۲ ص۶۲-۶۷ ”عمدة الاخبار فی تاریخ المدینة المختار ص ۱۲۵-۲۷ا،۱ور”فصل فی ظھورنار الحجاز ۔
رسالت کے زمانہ کے فصحاء و بلغا ء قرآن مجیدکے کسی سورے کا جواب لانے سے قاصر رہے اور آج قرآن مجید کو نازل ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ گذرچکا ہے اور ان چودہ صدیوں کے دوران ایک سے ایک مشہور ادیب، سخنور، اور صاحبان فصاحت و بلاغت دانشوروں کو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور آج بھی اسلام کے مخالف بے شمار عیسائی ،یہودی نیز عربی زبان کے دوسرے ماہر ادباء اور اہل قلم موجود ہیں لیکن ان تمام لوگوں کے درمیان ایک شخص بھی قرآن مجید کے ایک سورے کا جواب پیش نہیں کر سکا جس سے قرآن مجید کے اعجاز اور پیغمبر اکرم کی پیشین گوئیوں کی صداقت آشکار ہو گئی کیونکہ اگر ان کے لئے ممکن ہوتا تو یہ اپنی حد درجہ اسلام دشمنی اور تعصب کی وجہ سے اب تک قرآن کے جیسی سینکڑوں کتابیں لکھ چکے ہوتے ۔ یہی نہیں بلکہ اگر یہ انکے بس کی بات ہوتی تو مشرق ومغرب کی تمام استعماری اور اسلام دشمن طاقتیں خاص طور سے عیسائی اپنی تمام تبلیغی مشینریوں کو اسی کے لئے وقف کر دیتے اور اسکے لئے عالمی مقابلے رکھے جاتے اور اس پر کروڑوں کے انعامات کا اعلان بھی کیا جاتا ۔
غزوہٴ بدر پیش آگیا اور پیغمبر اکرم نے جن لوگوں کا نام بتایا تھا وہ سب قتل کر دئے گئے اور انکے جنازوں کوکنویں میں ڈال دیا گیا ابو سفیان نے جنگ احزاب کا فتنہ بر پا کیا ،پیغمبر اکرم نے مکہ کو فتح کر لیا ،خیبر حضرت علی کے ہاتھوں فتح ہوا،جناب ابوذرۻ نے ربذہ میں حالت تنہائی میں انتقال کیا ،جناب عمارۻ کو معاویہ کی فوج نے شہید کیا ،جناب حجر بن عدیۻ اور ان کے ساتھیوں کو دمشق کے نزدیک ،عذرا کے مقام پر شہید کر دیا گیا پیغمبر اکرم کے بعد آپ کے اہل بیت کی جوشخصیت سب سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہوئی وہ جناب فاطمہ زہرا ہی تھیں،امیر المومنین امام حسن اور امام حسین کو بالکل اسی طرح شہید کیا گیا جس کی تفصیل پیغمبراکرم پہلے ہی بتا چکے تھے ،حضرت علی نے ناکثین ،مارقین، قاسطین یعنی اہل جمل وصفین اور نہروان سے جنگ کی اور ذو الثد یہ جنگ نہروان میں مارا گیا، ام المومنین عائشہ نے جنگ جمل کی سر براہی کی ، اور حواٴب کے کتے ان کے اوپر بھونکتے رہے اور انہوں نے ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتروا دئے ،بنی امیہ اور بنی الحکم حکومت پر قابض ہو کر لوگوں کے سروں پر سوار ہو گئے اور جیسا کہ پیغمبراکرم نے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا اسلام کو انکے ہاتھوں بہت ہی برے دن دیکھنا پڑے۔
یہ غیبی خبریں اور ان کے جیسی نہ جانے کتنی غیبی خبریں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سچ ثابت ہوئیں اسکے علاوہ آنحضرت کے وصی اور جانشین یعنی حضرت علی یادوسرے ائمہ معصومین نے اسی قسم کی جو سینکڑوں پیشین گوئیاں کی تھیں وہ سب بالکل صحیح ثابت ہوئیں۔
اس تمہید کے بعد ہم باآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ معتبر ترین تاریخی شواہد کی بنیاد پر پیغمبر اکرم کی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں پیشین گوئیاں بالکل صحیح ثابت ہوئیں، اور اگر ایک عام آدمی انکا دسواں حصہ ہی نہیں بلکہ ایک فیصد کے بارے میں ایسی اطلاع دیتا تو ہمیں اس کی کسی بھی پیشین گوئی کے بارے میں ذرہ برابر شک نہ ہوتا اور ہم اس پر بھی یقین کر لیتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ آخری زمانہ میں اس امت کو جن دشوار حالات اور شدید امتحانات سے گذرنا ہے اور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد ان کا خاتمہ ہوگا ان تمام باتوں سے متعلق آنحضرت کی پیشین گوئیوں کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا رہیں ۔
ہم اپنے قارئین کرام کی مزید توجہ کے لئے اس بات کو دوبارہ بیان کر رہے ہیں کہ غیب سے متعلق آنحضرت کی پیشین گوئیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو شخص بھی صحیح و سالم فکراور عقل کی دولت سے بہرہ مند ہے اسکے لئے ان میں شک کرنا محال ہے اور جو شخص بھی اسلامی تاریخ سے واقفیت رکھنے یا اسکا مطالعہ کرنے والا ہے وہ خودبخود اس کی تصدیق کرے گا۔
ان تمام دلیلوں کے ہوتے ہوئے ہم حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے بارے میں کیسے شک و شبہ کر سکتے ہیں جبکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین نے اس سلسلہ میں بےحد تاکید فرمائی ہے اور متواتر روایات سے ہمیں اس کا بخوبی یقین ہوجاتاہے۔
آپ کے ظہور پر ایمان، آنحضرت کی نبوت ،غیب کے بارے میں آپ کی پیشین گوئیوں کی صحت اور سچائی کا لازمہ ہے اور ان سے ہر گز جدا نہیں ہے۔
جن مسلمانوں نے بعثت کے آغاز میں ان واقعات کو سچ ہوتے نہیں دیکھا تھا اسکے با وجود انھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی باتوں میں شک نہیں ہوتا تھا تو پھر ہم ان میں سے بہت سی خبروں کی سچائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے یا قابل اطمینان لوگوں سے ان کے سچ ہونے کی خبر سننے کے بعد ان میں کیوں شک کرتے ہیں ؟ حتی کہ معاویہ اور عمرو عاص جیسے لوگ بھی ان باتوں کی حقانیت اور سچائی کا انکار نہیں کر سکتے تھے تو پھر اب جبکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے معصوم جانشینوں کی پیشین گوئیوں کے علاوہ ہمارے پاس اتنے مستحکم اور مضبوط شواہد اور قرائن موجود ہیں تو کیا ہم ان پر ایمان اور یقین نہ رکھیں ؟پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشین گوئیوں کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور کے مسلمانوں کو جناب عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ اور آخری زمانہ کے فتنوں کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا اور سب کو یقین تھا کہ یہ خبریں سو فیصدی سچ ہیں اس کے بعد جب حالات گذرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی ہر پیشین گوئی اپنے صحیح وقت پر سچ ثابت ہو چکی ہے تو اب مستقبل کے بارے میں جوپیشین گوئیاں باقی رہ گئی ہیں ان کے بارے میں بھی کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔
اگر کوئی شخص آج آپ کو یہ اطلاع دے کہ کل فلاں صاحب، فلاں شہر سے جن کے یہ خصوصیات ہیں ،یہاں آئےں گے اور ایک مہینہ بعد اس قسم کے دس آدمی آئیں گے اور پانچ مہینے کے بعدپانچ سو آدمی آئیں گے اور ایک سال بعد ایک ہزار لوگ آئیں گے اور دو سال بعد اس شہر میں انقلاب آجائے گا اور حکومت بدل جائے گی یا بیس سال کے بعد وہاں جنگ ہو گی، پچاس سال کے بعد وہاں کا حاکم قتل کر دیا جائے گا اور سو سال کے بعد …اور دو سوسال کے بعد…
آپ چاہے ان تمام خبروں کی تصدیق نہ کریں مگر آپ ان کی تکذیب بھی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ انکی تصدیق یا تکذیب کے تمام احتمالی راستے آپ کے اوپر بندہیں لہٰذا آپ کل تک انتظار کرینگے چنانچہ اگر پہلا شخص انہیں علامتوں اور خصوصیات کے ساتھ آگیا تو آپ کو اس سے حیرت ضرور ہوگی مگر اس کی بقیہ خبروں پر اعتماد میں اضافہ ہو جائے گا ۔
ایک مہینہ بعد وہ دس آدمی بھی آگئے اب اس کی باتوں پر آپ کو مکمل یقین اور اطمینان ہو جائے گا تیسری خبر سچ ثابت ہونے کے بعد آپ کا یقین بالکل پختہ ہوجائے گا۔
چوتھی اور پانچویں خبر کے سچ ثابت ہونے کے بعد اگر کوئی شخص انکی صداقت کا انکار کرے اور انہیں نا ممکن سمجھے تو آپ اس کو شکی مزاج قرار دیدیں گے۔
چنانچہ جتنی پیشین گوئیاں صحیح ہوتی جائیں گی چھٹی،ساتویں،آٹھویں اور نویں پیشین گوئی کے بارے میں آپ کے یقین و اطمینان اور ایمان میں اتنا ہی استحکا م پیدا ہو جائے گا ۔
اب ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جو پیغمبر صادق و مصدق ہیں اور انکی نبوت متعدد معجزات اور دوسری عقلی دلیلوں کے ذریعہ ثابت ہے،وہ پیغمبر جن کی سینکڑوں پیشین گوئیاں اب تک صحیح ثابت ہو چکی ہیں اور ان سب کو سنی اور شیعوں کی معتبر کتابوں نے نقل کیا ہے نیز یہ کہ ان بزرگوں نے ہمیں یہ خبر دی ہے کہ” اگر دنیا کی عمر ایک دن سے زیادہ بھی باقی نہ رہے توبھی خدا وند عالم اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا کہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظہور فرما کر دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی“ ۔
اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے اس ظہور کی علامتوں کو بھی بیان فرمایا ہے۔
اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ پیغمبر اکرم اور انکے جانشینوں کی پیشین گوئی سچ نہیں ہے یا اسے اس میں شک ہو تو پھر وہ پیغمبر اکرم کی نبوت کی گواہی اور اسکے ثبوت کے لئے اتنے معجزات اور علمی دلیلوں کے اقرار کرنے کا کیا جواب دے سکتا ہے؟
پیغمبر اکرم اور دوسرے انبیاء کی نبوت پر ایمان کا کیا جواز پیش کرے گا؟ کیونکہ دوسرے انبیاء نے بھی آخری زمانہ کے مصلح کے بارے میں بشارتیں دی ہیں۔
ان تمام پیشین گوئیوں کا کیا جواب دے گا جو پیغمبر اکرم نے کی تھیں اورگذشتہ چودہ سوسال کے اندر ان میں سے بہت ساری پیشین گوئیاں صحیح ثابت ہو چکی ہیں؟
اب اگر وہ یہ بہانہ بنائے کہ پیغمبر اکرم نے ایسی کوئی بشارت نہیں دی تھی تو ہم اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے شیعہ اور سنی کتب خانوں میں لے جائیں گے اور یہ کہیں گے کہ ذرا ان کتابوں کو ملاحظہ کرو جو ایک ہزار سال پہلے سے آج تک لکھی گئی ہیں، اب ذرا آپ بھی ملاحظہ کریں کہ اس بشارت کا تذکرہ کتنی روایتوں میں ہے اور ان کی تعداد کتنی ہے؟
کیا چند معتبر روایات آپ کے اطمینان کے لئے کافی ہیں ؟
ہمارا اور آپ کا مزاج تو یہ ہے کہ اکثر تاریخی واقعات کو صرف ایک مورخ کے نقل کردینے سے مان لیتے ہیں یا دنیا کے اہم واقعات کو صرف ایک نامہ نگار کے کہنے پر قبول کر لیتے ہیں تو اس بات کو قبول کر نے کے لئے آپ کو کتنی صحیح اور معتبر روایات کی ضرورت ہے جن کے بعد آپ کو اسکا یقین ہو سکے؟اگر آپ واقعا ً منصف مزاج ہوں گے تو کہیں گے کہ صرف ایک معتبر حدیث ہی کافی ہے اور اگر تھوڑے بہت شکی مزاج یا احتیاطی قسم کی طبیعت رکھتے ہو نگے تو کہیں گے کہ اگر دو تین حدیثیں ہوں تو مزید اطمینان پیدا ہو جائے گا۔
ہم جواب دینگے :کہ اس موضوع کی ہزاروں معتبر احادیث ہیں جو حدیث ،تاریخ،اوررجال کی سینکڑوں کتابوں میں موجود ہیں۔
مذکورہ گفتگو کے بعد اس سلسلہ میں کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہ جاتا کہ پیغمبر اکرم اور ائمہٴ معصومین علیہم السلام کی احادیث اور پیشین گوئیوں کے عین مطابق آخری زمانہ میں جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو مصلح منتظر مہدی موعود جو اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینگے ان کا ظہور یقینی بات ہے اور اسمیں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔
مصلح عالم
جن چیزوں کے بارے میں تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق اور اجماع ہے، ان میں آخری زمانہ میں اہلبیت پیغمبر کے درمیان سے قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کاظہور بھی شامل ہے اور اس نظریہ کے تمام قائلین ایک ساتھ مل کر ایک ایسے عالمی انقلاب اورمصلح کے ظہور کا انتظار کر رہے ہیں جو خدا وند عالم پر ایمان اور اسلامی احکام کی بنیادوں پر دنیا کے نظام کو چلائے گا اور ہر طرف عدالت قائم کرے گا، دنیا کو ظالموں کے خونخوار پنجوں سے نجات عطا کرے گا اور اسلامی پرچم کو پوری دنیا میں بلند کر دے گا ۔
سب لوگوں کی آنکھیں اسی کی طرف لگی ہوئی ہیں اور سب لوگ انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں کہ پیغمبر اکرم کی اولاد میں سے ایک محترم شخصیت قیام کرکے توحید ،اسلامی برادری اور مساوات کو نئے سرے سے زندگی عطا کردے، بشریت کو سکون و اطمینان کی نعمت سے بہرہ مند کرے، تفرقہ و جدائی اور محرومی وناکامی سے نجات عطا کرے ۔
یہ ایک الٰہی وعدہ ہے جو ہر گز جھوٹا نہیں ہو سکتا، دنیا اس روشن و تابناک دور کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ،زمانہ کی رفتار ،سورج کی گردش بشریت کو ہرلمحہ اس دن سے نزدیک تر کر رہے ہےں ۔
حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور اور پوری دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے ایمان سے متعلق قرآن مجید کی متعدد آیات ،متواتر روایات،اور مستحکم ترین اجماعات کو بہترین دلیل اور سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، لہٰذا جو مسلمان بھی قرآن کریم اور پیغمبر اکرم کی نبوت کا یقین رکھتا ہے اسکے لئے اس ظہور پر مکمل یقین اور ایمان رکھنا ضروری ہے۔
اگر چہ اس مضمون میں ان باتوں کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں ہے لہٰذا اپنے محترم قارئین کی مزید توجہ کے لئے ان چار عنوانات: ۱۔آیات قرآن، ۲۔اجماع واتفاق مسلمین، ۳۔روایات اہل سنت، ۴۔روایات شیعہ، کے ذیل میں ہم ان کی مختصر وضاحت پیش کریں گے۔
۱۔قرآن مجید کی آیتیں
خدا وند عالم نے قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں ان باتوں کا وعدہ فرمایا ہے کہ پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی، دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور تما م مذاہب پر اس کا غلبہ ہوگا، (صالح اور لائق حضرات حکومت کریں گے) ان میں سے بعض آیتیں یہ ہیں:
<و قاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنة و یکون الدین کلہ للّٰہ>(۱)
اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف اللہ کے لئے رہ جائے۔
<ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ>(۲)
وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کردے۔
<یریدون ان یطفئوا نور اللّٰہ باٴفواھھم و یاٴبیٰ اللّٰہ الا ان یُتمّ نورہ>(۳)
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اسکے علاوہ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے نور کو تمام(اور کامل) کر دے۔
---------
(۱)سورہٴ انفال آیت۳۹۔
(۲)سورہٴ توبہ آیت۳۳ وسورہٴ فتح آیت ۲۸۔
(۳)سورہٴ توبہ آیت۳۲۔
<یریدون لیطفئوا نور اللّٰہ باٴفواھھم واللّٰہ مُتمّ نورہ>(۱)
یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے۔
<و یرید اللہ ان یُحق الحق بکلماتہ و یقطع دابر الکافرین>(۲)
اور اللہ اپنے کلمات کے ذریعہ حق کو ثابت کرنا چاہتا ہے اور کفار کے سلسلہ کو قطع کردینا چاہتا ہے۔
<و قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا>(۳)
اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فنا ہو گیا کہ باطل بہر حال فنا ہونے والاہے۔
<ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عباديالصالحون>(۴)
اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔
<و عد اللّٰہ الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّھم فی الارض>(۵)
اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان اور عمل صالح بجالانے والوںسے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایاہے۔
<ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انھم لھم المنصورون و ان جندنا لھم الغالبون>(۶)
اور ہمارے پیغامبربندوں سے ہماری بات پہلے ہی طے ہو چکی ہے کہ انکی مدد بہرحال کی جائیگی اور ہمارا لشکر بہر حال غالب آنے والا ہے۔
<انّا لننصر رسلنا والذین آمنوا فی الحیاة الدنیا>(۷)
بیشک ہم اپنے رسول اور ایمان لانے والوں کی زندگانی دنیامیں بھی مدد کرتے ہیں۔
----------
(۱)سورہٴ صف آیت۸۔
(۲)سورہٴ انفال آیت۷۔
(۳)سورہٴ اسراء آیت۸۱۔
(۴)سورہٴ انبیاء آیت۱۰۵۔
(۵)سورہٴ نور آیت۵۵۔ (۶)سورہٴ صافات آیت۱۷۱۔۱۷۳۔
(۷)سورہٴ غافر آیت۵۱۔
<کتب اللہ لا غلبن اناورسلی ان اللہ قويّ عزیز>(۱)
اللہ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آنے والے ہیں بے شک اللہ صاحب قوت اور صاحب عزت ہے
انکے علاوہ دوسری آیتیں بھی ہیں جنکی تاویل حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے وقت سامنے آئے گی وہ سب بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام تمام مذاہب پر غالب آجائے گا اور اہل حق، باطل پرستوں پر غلبہ حاصل کر لیں گے یاانبیائے الٰہی کا تسلط اور نور خدا کا تمام و کامل ہونا حتمی ہے ،ان سب آیتوں کے معنی ابھی مکمل طریقے سے ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور یہ آیتیں آخری زمانے میں انکے عملی ہونے کی بشارت دے رہی ہیں ۔
خدا وند عالم نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنے پیغمبروں کی ضرور مدد کرے گا اور ان کو غلبہ عطا کرے گا اور یہ طے ہے کہ اس غلبہ اور مدد کا تعلق صرف آخرت ہی سے نہیں ہے کیونکہ اس نے خود ارشاد فرمایا ہے:
<فی الحیاة الدنیا>
دنیاوی زندگی میں۔
دوسرے یہ کہ اس سے یہ مراد بھی نہیں ہے کہ انبیاء کرام اپنی اقوام کے اوپر اپنے زمانہ میں غلبہ حاصل کر لیں گے اور انکے مشن کو ترقی ہوگی کیونکہ بہت سارے انبیاء کی تبلیغ کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ بہت سے انبیاء کو قتل بھی کر دیا گیا ۔
اس مدد اور غلبہ سے انکے مقصد اور پیغام کی مدد اور اسکا غلبہ مراد ہے اور ان آیتوں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نصرت کسی خاص رتبہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر طرح کی(مطلق) نصرت مراد ہے ۔
یہی نور کو تمام کرنے کے معنی بھی ہیں کہ جو لوگ خدا کے نور کو بجھانا چاہیں گے اور اسلام کی
--------
(۱)سورہٴ مجادلہ آیت۲۱۔
پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کریں گے انکے مقابلہ میں خدا وند عالم اپنے نور کو کامل کر دے گا اسکے معنی بھی یہی ہیں کہ خدا وند عالم دین کو ترقی عطا کرے گا اسلام کی سرحدیں بڑھتی چلی جائیں گی اور یہ نور اس وقت مکمل ہوگا جب اسلام پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔
زمین پر مومنین کی جا نشینی اور اس پر ان کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ پوری زمین کے مالک و مختار بن جائیں گے بلکہ یہ موقع صرف امام زمانہ اور ان کے ساتھیوں کو ملے گا۔
باطل کے اوپر ہر لحاظ سے حق کے غلبہ کے بھی یہی معنی ہیں کہ ہر اعتبار سے حق، باطل پر کامیاب و کامران ہو جائے گا اور اگر یہ کہا جائے کہ حجت و برہان کے ذریعہ غالب ہوگا اور ظاہر میں غالب نہ ہوگا تو اسے ہر لحاظ سے غلبہ نہیں کہا جائے گا جبکہ ان آیتوں سے ہر طرح کا تسلط سمجھ میں آتا ہے۔
لیکن یہ آیت:
<لیظھرہ علی الدین کلہ>
تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے۔
اسلام کے غالب ہو جانے کے بارے میں واضح دلیل ہے۔
ان آیتوں کی تائید اُن روایتوں سے بھی ہوتی ہے جو رسول اکرم سے اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں جیسے آپ نے فرمایا:
<لیدخلن ھذا الدین علی مَن دخل علیہ اللیل>
جہاں کہیں بھی رات داخل ہوتی ہے یہ دین وہاں ضرورپہنچے گا۔
اس حدیث میں آپ نے”علی ما دخل علیہ اللیل “فرمایا ہے اور ”علی ما دخل علیہ الیوم او الشمس“نہیں فرمایا اسکا راز شائد یہ ہو کہ اسمیں دین کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جہاں رات ہوتی ہے وہاں سورج ضرور پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کے روشن و منور سورج کی کرنیں پوری دنیا میں پھیل جائےں گی اور کفر و ضلالت کی تاریکی کا اسی طرح خاتمہ ہو جائے گا جس طرح سورج ،رات کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
|