
|
نويد امن وامان
آیة اللہ صافی گلپایگانی
صبح ولادت
<وَ نُرِیدُ اَن نَمُنَّ عَلیٰ الَّذِینَ اسْتُضعِفُوا فِی الْا ٴَرْضِوَ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَّةً وَ نَجْعَلَھُمُ الْوَٰ رِثِینَ>قصص/۵
اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پراحسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دے دیں ۔
پندرہویں شعبان ۲۵۵ئھ کی مبارک و مسعود صبح طلوع ہونے والی تھی، امام حسن عسکری علیہ السلام کے خانہٴ امامت میں جوش و خروش اور انتظار کی شدت میں اضافہ ہوتاجارہا تھا ،آج ملائکہ کی آمد ورفت دوسرے اوقات کے مقابلہ میں کچھ زیادہ ہی تھی، رحمت الٰہی کی جلوہ نمائی اور خدائی شان و شوکت اور عظمت و جلالت کے انوار کی کرنیں ہر طرف پھوٹ رہی تھیں ۔
آسمان کی بلندیوں پر فرشتوں اور مقرب بارگاہ ملائکہ کے درمیان ابھی سے خاندان نبوت و رسالت کے اس چشم وچراغ کا چرچا ہے جو عنقریب اس دنیا میں قدم رکھنے والا ہے اور جو اپنے پرُ نور چہرے اور محمدی جلال و جمال کے دیدار سے عالمین کی آنکھوں کو روشنی عطا کرے گا ۔
جنت کو سجایا جا رہا تھا تاکہ اہل آسمان کے شایان شان محفل جشن وسرور کا اہتمام کیا جا سکے حوروں کے روح افزا اوردلنشین نغموں سے تمام اہل جنت پر روحانی وجد طاری تھا ،نیمہٴ شعبان کی رات ختم ہونے میں چندلمحے باقی رہ گئے تھے اور یہ بھی اتنے آہستہ آہستہ گذر رہے تھے کہ مجسم انتظار بنے ہوئے لوگوں کے لئے کئی سال کے برابر تھے ۔بالآخر رات اپنی بالکل آخری منزل تک پہونچ گئی منٹ سکنڈوں میں تبدیل ہو گئے اور وہ بھی بہت سست رفتاری سے گذر نے لگے کہ اچانک چاروں طرف ایک تیز روشنی پھیل گئی جو چراغوں کی روشنی سے کہیں زیادہ تھی اس نے سب لوگوں کو ایک نو مولود بچے کی پیدائش کی بشارت دی ،نومولود دنیا میں آیا اور بشریت کے آخری ہادی و رہبر، حضرت ولی اللہ الاعظم نے اپنے جمال پرُ نور سے پوری کائنات کو منور کردیا۔
جناب نرجس خاتون منزل فخر میں تھیں،تکبیر وتہلیل اور تسبیح خدا کے ساتھ مبارکباد اور تبریک و تہنیت کی آوازیں ہر طرف گونج اٹھیں ۔
نو مولود نے اپنے سر کو سجدہ میں رکھ کر خدا کی وحدانیت ،پیغمبر اکرم کی رسالت اور اپنے اجداد طاہرین کی امامت کی گواہی دی ،پھر بہت ہی اچھی اور دلنشین آواز میں اس آیہٴ کریمہ کی تلاوت فرمائی :
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
<و نرید ان نمن علی الذین استُضعفوا فی الارض>
اس بچہ کی پیدائش کے ساتھ خاندان رسالت پر خدائی عنایتوں کی تکمیل ہوگئی۔
جی ہاں ! یہ فخر صرف نبوت و رسالت کے گھرانے سے ہی مخصوص ہے کہ بشریت کو ظلم و ستم سے نجات دینے اور عالمی پیمانے پر اسلامی حکومت قائم کرنے والی شخصیت کا تعلق اسی گھرانے سے ہے ۔
پیغمبر اکرم مسرور و شادماں تھے کہ ان کا فرزند مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ان کی رسالت اور آفاقی پیغام کو جامہٴ عمل پہنائے گا، آپ اپنے خاندان والوں ،خاص طور سے حضرت علی ،جناب فاطمہ حضرت امام حسن اور امام حسین کو یہ خوشخبری د ے رہے تھے کہ مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ وہی شخص ہے کہ جو اپنے بے مثال اور بے نظیر قیام کے ذریعہ شرک کی چولیں ہلا کر رکھ دے گا توحید و وحدانیت کی بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم بنائے گا پوری دنیا پر اس کی حکومت ہوگی اوروہ انھیں حضرات کا فرزند ہے ۔
یہ وہی بے نظیر اور لا جواب وجود ہے جس کے ظہور کی خوشخبری انبیائے الٰہی اور اولیائے کرام نے دی ہے نیز دنیائے بشریت کو اس سے متعلق یہ خوشخبری سنائی ہے کہ وہ اسلام کی حقانیت، عدالت کی برتری، دائمی امن و امان کے قیام اور ظالموں کی بساط کو لپیٹنے کے لئے قیام کرے گا اور اس خبر کے ذریعہ وہ سب کو دنیا کے روشن مستقبل کے بارے میں پر امید بنائے ہوئے ہے۔
مادی علوم اور صنعت کے میدان میں اگر چہ دنیا نے بیحد ترقی کی ہے اور آج فضا پر انسان کا تسلط ہے اور اسے اپنی طاقت وقدرت پر ناز ہے لیکن بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ وہ انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی بلکہ تہذیب و تمدن اوراخلاقی اعتبار سے وہ الٹے پاوٴں جاہلیت کی طرف واپس ہی چلی جار ہی ہے۔
خوف و ہراس اور دہشت نے ہر ایک کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا ہے اسی لئے تمام ممالک کے بجٹ کا اکثر حصہ مہلک اور تباہ کن اسلحوں کی خریداری میں خرچ ہوتا ہے ۔
اخلاقی برائیوں ،فحاشی اور شہوت پرستی نے ہر مرد و عورت کو دم بخود کر رکھا ہے اور انہیں ذلت وپستی کی گھاٹی میں کھینچے لئے جا رہی ہیں، ریڈیو ،ٹیلیویژن اور اخبارات و رسائل ان کو اور ہوا دیتے رہتے ہیں۔
دینی احکام اور مذہبی رسومات کی پابندی میں کمی آتی جا رہی ہے اور مشرکانہ عادتیں یعنی لوگوں اور قوموں کو غلام بنانے اور انسان کی آزادی کو سلب کرنے کے بدترین طریقے مختلف شکلوں میں رائج ہوتے چلے جا رہے ہیں اور انکی بنیادیں ہر روز مزید مستحکم ہو تی جا رہی ہیں ،اس دور کا ترقی یافتہ کہا جانے والا انسان اپنے جیسے بے جان اور بے روح مجسموں کے سامنے جھکتا ہوا اور دعا کرتا ہوانظر آتا ہے جس سے وہ اپنی فکری پستی اور عقلی انحطاط کا اعلان کررہا ہے اور اس خدائی آواز :
<ما ھٰذہ التماثیل التی انتم لھا عاکفون >(۱)کی طرف توجہ نہیں دیتامادی دنیا کے بڑے بڑے لیڈر کسی بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور بڑے سے بڑے جرم اور ظلم و ستم کو اپنے لئے باعث ذلت نہیں سمجھتے مختصر یہ کہ انسانیت تہذیب وتمدن سے عاری ہوتی جارہی ہے۔
اس دنیا میں صرف ایک امید کی کرن ہے جس کی وجہ سے بشر کا سرور و نشاط باقی ہے اوروہ
----------
(۱) ”یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے گرد تم حلقہ باندھے ہوئے ہو ؟“ سورہٴ انبیاء،آیت۵۲۔
اس سے یہ امید باندھے ہوئے ہے کہ وہ ہمیشہ اسی طرح محرومی ونابودی، حیوانیت کی پستیوں اور طاقتور طبقہ کے مظالم کا شکار نہیں رہے گا اور اسکا انجام جہنم یا بدبختی نہیں ہے ،اسے ان مایوسیوں سے انبیاء اور ائمہ کی صرف وہی بشارتیں محفوظ رکھتی ہیں جنہوں نے ہر ایک کو دنیا کے روشن مستقبل کا یقین دلایا ہے اور انکے دلوں کو امید کے نور سے منور رکھا ہے۔
سب لوگ بڑے اعتماد اور جوش و ولولہ سے لبریز دل کے ساتھ انتظار کررہے ہیں اسکا انتظار جو اس دنیا کے سر پر منڈلانے والی ظلم و ستم کی کالی گھٹاوٴں کو دور کر دے گا اور پوری کائنات میں سچی بھائی چارگی اور آزادی کو رواج دے گا اور خداکے بلند مرتبہ احکام و قوانین کو نافذ کر کے انسانیت کی ارفع و اعلیٰ منزل مقصود کی طرف بشریت کی رہنمائی کرے گا۔
شیعہ اور اس ظہور کا ایمان رکھنے والے حضرات پندرہویں شعبان کی رات (شب براٴت)میں خوشیاں مناتے ہیں ،ہر طرف محفل مسرت کا اہتمام کیا جاتا ہے، چراغاں ہوتا ہے، سڑکوں ،بازاروں، دکانوں اور گھروں کو سجایا جاتا ہے ، سب خوشی میں ڈوبے رہتے ہیں ، اس طرح یہ لوگ عالمی عدل و انصاف اور امن و آشتی سے اپنے لگاوٴ کا اعلان کر کے اپنے پر امید اور ہمت نہ ہارنے والے عزم و حوصلے کا اظہار کرتے ہیں ۔
اے ولی عصر اے مہدی موعود عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ؛
آپ کے شیعہ اور آپ کے چاہنے والے تمام لوگوں کو صرف اس بات کی آرزو اور اس گھڑی کا انتطار ہے جب ان کی اور تمام دنیا والوں کی سعادت و خوش بختی کی صبح نمودار ہو اور آپ کے قیام کے ذریعہ انکے تمام دردوں کا علاج ہو جائے اور محرومی ،ناکامی اور بے چارگی کے تمام راستے بند ہو جائیں اور پوری کائنات کے اندر صرف اورصرف توحیدو عدالت اور اسلامی صلح کا پرچم سربلند نظر آئے ۔
وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز>(۱)
”اور اللہ کے لئے یہ بات کوئی مشکل نہیں ہے ۔“
--------
(۱)سورہٴ ابراہیم آیت۲۰
|
|