فصل دہم
حکومت آلمحمد علیہ السلام
خواص حکومت
اولاد امامزمان علیہ السلام
رجعت
رجعت معصومین علیہ السلام
دنیا کا انجام واختتام
پہلا باب
آپ علیہ السلام کی حکومت اور اولاد کے خواص
حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلاماور آپ علیہ السلام کے ملازمین و خدمت گار
حضرت خضر علیہ السلام جن کا تذکرہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سورئہ کہف میں آیا ہے امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے مستقل دوست اور ملازم ہیں حسن بن علی فضال کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے سنا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام نے آب حیات پیا ہے اور وہ زندہ ہیں تاوقتیکہ اسرافیل صور پھونکے گا حضرت خضر علیہ السلام زندہ رہیں گے وہ بوقت صور اسرافیل فوت ہوں گے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت خضر علیہ السلام ہمارے پاس آتے ہیں ہمیں سلام کرتے ہیں ہم اس کی آواز سنتے ہیں لیکن وہ خود نظر نہیں آتے جہاں بھی خضر علیہ السلام کا نام لیا جائے وہ معنوی طور پر آجاتے ہیں، پس تم جب بھی حضرت خضر علیہ السلام کا نام لو تو اس پر سلام کیا کرو وہ ہر سال حج کے موسم میں آتے ہیں حج کے تمام اعمال بجا لاتے ہیں وہ عرفہ میں کھڑے ہوتے ہیں اور مومنین کی دعاﺅں پر آمین کہتے ہیں خداوند کریم اسی خضر علیہ السلام کے ذریعہ ہمارے قائم علیہ السلام کی تنہائی دورکئے ہوئے ہے۔
امامزمان علیہ السلام علیہ السلاماس وقت تنہا نہیں ہیں بلکہ ہر وقت آپ علیہ السلام کی خدمت میں خدمت گار موجود رہتے ہیں جن کا ہم یہاں تذکرہ کریں گے۔(کمال الدین شیخ صدوقؒ جلد ۲ ، ص۰۹۳)
۱۔ اوتاد
اوتاد کا معنی ہے کیل (میخیں) جس طرح ہر خیمہ کی ایک عمود اور چادرکے کیل ہوتے ہیں اور خیمہ کی رسیوں کو ان کیلوں کے ساتھ باندھا جاتا ہے اسی طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلاممثل عمود خیمہ کے ہیں اور چار آدمی خدمتگار بطور کیل آپ علیہ السلام کے حضور حاضر رہتے ہیں جنہیں اوتاد کہاجاتا ہے۔
۲۔ ابدال
یعنی متبادل، سات آدمی ہیں جو کہ پوری دنیا میں امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکی طرف سے مامور ہیں جو لوگوں کی مشکلیں حل کرتے ہیں ۔
۳۔ ہم نشین
۰۳ آدمی جزیرہ خضراءمیں آپ علیہ السلام کے ہمراہ رہتے ہیں جن کی وجہ سے آپ علیہ السلام کی دلجوئی ہوتی رہتی ہے اور تنہائی ختم ہوتی ہے یہ حج کے موقع پر مکہ میں ہوتے ہیں اور ضرورت کے وقت لوگوں کی مشکلات بحکم امامزمان علیہ السلام علیہ السلامحل کرتے ہیں۔ حجة الاسلام آقائے شفتی نے حج کے موقع پر ان تیس افراد کی زیارت کی تھی جب بھی ان تیس افراد میں سے کوئی فوت ہوتا ہے تو اس کی جگہ کسی اور اہل شخص کو شامل کر لیا جاتاہے۔ (اصول کافی جلد۱، ص۰۴۳) (بحارالانوار جلد۳۵، ص۰۲۳)
۴۔ ولی عہد
وہ صلوات جو کہ آپ علیہ السلام کی طرف سے وارد ہوئی ہے وہ اس طرح ہے کہ ”وصل علی ولیک و ولاة عہدہ والآئمہ علیہ السلام من ولدہ ومُدّفِیہ اعمارہم وزدفی آجالہم“ اس طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے تہہ خانہ میں وداع کرتے وقت پڑھاجاتاہے۔(مفاتیح الجنان ، اعمال روز جمعہ)
”وصل علی ولیک وولاة عھدک والآئمہ علیہ السلام من ولدہ“۔
اسی طرح زیارت امامزمان علیہ السلام علیہ السلامجو کہ روز جمعہ کے لئے مخصوص ہے ،میں ہے ”والسلام علی ولاة عہدہ وعلی الائمہ علیہ السلام من ولدہ“ امام رضا علیہ السلام نےزمان علیہ السلامہ غیبت ولی عصر کےلئے جو دعا بیان فرمائی ہے ۔
”اللھم صَلِ علی ولاة عہدہ والائمة من بعدہ.... فانہم معادن کلماتک وارکان توحیدک ودعائم دینک، وولاة امرک وخالصتک بین عبادک وصفوئک من خلقک واولیائک وسلائل اولیائک وصفوة اولاد رسلک والسلام علیہم ورحمة اللہ وبرکاتہ“۔ (بحارالانوار ج۵۹، ص۲۳۳)
پروردگار درود وسلام بھیج اس کے اولیاءعہد (اولاد)پر اور اسکے بعد کے پیشواﺅں کو نازل فرما، جو کہ تیرے کلمات کا خزانہ ہیں تیرے دین کے ستون ہیں، تیرے حکم کے فرماں بردار ہیں، تیری مخلوق میں چنے ہوئے لوگ ہیں ،تیرے اولیاءکا تسلسل ہیں، تیرے منتخب پیغمبر کی اولاد ہیں، سلام اور رحمت اور برکت خدا ہو ان پر۔
اب ہم یہ ر واضح کرنا چاہیں گے کہ یہ ولاة عہد ہیں کون؟
ہمارے نظریہ مطابق ولاة عہد سے مراد جزیرہ خضراءمیں مقیم اولاد امامزمان علیہ السلام علیہ السلامہیں جو کہ یکے بعد دیگرے مشغول ہدایت و خلافت ہیں ان لوگوں میں جو وہاں مقیم ہیں وہ آپ کے وہ فرزندان ہیں کہ جن کو اس دعا میں خزانہ ہائے کلمات خدا اور خزائن علم کہا گیا ہے۔
آپ علیہ السلام کے بعد آئمہ علیہ السلام
بعض دعاﺅں میں ”والآئمہ علیہ السلام من وُلِدِہ“ تحریر ہے سوال یہ ہے کہ آپ کے بعد والے آئمہ علیہ السلام کون ہیں؟
شیخ صدوقؒ نے اپنی کتاب کمال الدین میں ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کی کہ میں نے آپ علیہ السلام کے والد محترم سے سنا ہے انہوں نے فرمایا ہے کہ ”ہمارے مہدی علیہ السلام کے بعد بارہ مہدی ہوں گے تو امام علیہ السلام نے فرمایا میرے والد نے کہا بارہ مہدی ہوں گے، یہ نہیں کہا کہ بارہ(۲۱) امام علیہ السلام اور ہوں گے، وہ بارہ(۲۱) مہدی علیہ السلام ہمارے وہ شیعہ ہیں جو لوگوں کو ہماری دوستی کی دعوت دیں گے اور لوگوں کو ہماری پہچان کرائیں گے بعض روایات میں ۲۱ (بارہ)کی بجائے ۱۱(گیارہ) مہدی کا ذکر کیا گیاہے۔دعاﺅں میں درج ہے کہ ”ولاة عہدہ والآئمہ علیہ السلام من بعدہ“۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ” ولاة عہدہ“ سے مراد امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے فرزندان ہیں جو کہ جزیرة خضراءمیں مقیم ہیں ”والآئمہ من بعدہ“ سے مراد بھی ۲۱(بارہ) افرادہیں جو کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکی اولاد سے ہیں جو کہ یکے بعد دیگرے دنیا میں رشدوہدایت کا ذریعہ ہیں اور علم کے روشن چراغ ہیں جس طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلاماپنے اسم مبارک میں رسول اکرم سے مشابہت رکھتے ہیں اور جس طرح رسول اکرم کے ۲۱(بارہ) جانشین ہیں اسی طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے بھی ۲۱(بارہ) جانشین ہیں جنہیں ”والآئمہ علیہ السلام من بعدہ“ کہا گیاہے۔واضح رہے کہ یہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے بارہ جانشین اور آئمہ علیہ السلام میں فرق ہے، امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے جانشینوں کے لئے لفظ امام علیہ السلام کا استعمال ان کے تقویٰ اور کامل انسان ہونے کی بنا پر ہوا ہے جب کہ حقیقی امام معصوم بارہ ہی ہیں جو رسول اللہ کے بارہ خلفاءہیں امامزمان علیہ السلام علیہ السلاماگرچہ خود زندہ وموجود ہیں لیکن ان کے جانشین جزیرة الخضراءمیں موجود ہیں ۔
(اصول کافی ص۰۴۳)(بحارالانوارج۳۵،ج۲۵)(جنة الماوی ص۰۲۳)(مفاتیح الجنان، زیارات امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلامودعائیں)
رجعت کا معنی
رجعت کا لغوی معنی پلٹنا ہے اور اصطلاح میں رجعت کا معنی ہے موت کے بعد اور حشر سے پہلے دنیا میں زندہ ہو کر واپس آنا۔قرآن مجید میں ہے” ویوم یحشر من کل امةٍ فوجا ممن یکذب بایٰتِنٰا فہم یوزعون“ (سورئہ نمل ۳۸)
وہ دن کہ جس دن ہم ہر امت سے ایک گروہ کو واپس دنیا میں پلٹائیں گے جنہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا پھر ان سے باز پر س ہوگی۔
اس آیت مبارکہ میں مردہ کو زندہ کرنے کا کہا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ زندہ کرنا روز قیامت سے پہلے ہے کیونکہ اس روز تو سب زندہ ہوں گے لیکن یہاں ایک گروہ کے زندہ کرنے کا تذکرہ ہے اس زندگی سے مراد رجعت ہے اور قیامت سے پہلے زندہ کرنا رجعت کہلاتا ہے اور یہ شیعہ مسلمہ عقائد سے ہے۔شیخ صدوقؒ فرماتے ہیں رجعت مخصوص ہے خالص مومن کے لیے یا خالص کافر کے لئے درمیانی طبقہ کے لئے رجعت نہیں ہوگی۔مومنوں اور کافروں کی ایک تعداد دنیا میں رجعت کرے گی وہ اپنے اصلی بدن اور روح و قلب کے ساتھ پلٹیں گے ہر قسم کے کافر رجعت نہیں کریں گے ان کے بارے علامہ مجلسیؒ بحارالانوار کی جلد نمبر۳۱ کے صفحہ نمبر۸۹۱ میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس کو اس آیت کے ساتھ منطبق کرتے ہیں کہ ”حرام علی قریةٍ اہلکنا ہا انہم لایرجعون“ ۔(سورئہ انبیاء علیہ السلام ۵۹)
”حرام ہے اس شہر کا واپس پلٹنا جس کو ہم نے ہلاک کیا“۔
یعنی وہ کفار جو بوجہ عذاب ہلاک ہوئےزمان علیہ السلامہ رجعت میں وہ واپس نہیں آئیں گے بلکہ وہ بروز قیامت زندہ ہوں گے۔مومنوں اور کافروں کی رجعت کی وجہ یہ ہے کہ مومن کوزمان علیہ السلامہ رجعت میں اس لئے زندہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے آپ کو مکمل وکامل کرسکیں اورمومنوں سے کئے ہوئے اللہ کے وعدے پورے ہو سکیں گے جو کہ دنیا بارے تھے اور مومنین اس کو اسی دنیا میں دیکھ سکیں۔
کافروں کوزمان علیہ السلامہ رجعت میں واپس زندہ اس لیے کیا جائے گا کہ انہیں دینی اقدار کا انہوں نے انکار کیا تھا اور دین داروں سے انکا اختلاف تھا تاکہ انہیں اس کی سزا دی جائے اور انہیں ذلت و خواری کا مزہ اسی دنیا میںچکھایا جائے تاکہ کفار کو ذلیل و خوار دیکھ کر مومنوں کے دل کو خوشی حاصل ہو
رجعت گذشتہ امتوں میں
قرآن مجید میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ میں ایک شخص قتل ہوگیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس مقتول کو زندہ کیا تاکہ مقتول خود اپنے قاتل کی نشان دہی کرے اس مقتول کا نام عامیل تھا ۔
(سورئہ بقرہ ۷۶تا۱۷)
ایک اور قرآنی قصہ میں ہے کہ حضرت عُزیرکی نظر ایک بوسیدہ انسانی ہڈی پر پڑی وہ متعجب ہوئے کہ خدا کیسے انہیں زندہ کرے گا اللہ نے عزیر اوران کے گدھے کو ایک سوسال تک موت سے ہمکنار رکھا سو سال بعد عزیر کو زندہ کیا تاکہ وہ اپنے گدھے کو زندہ ہوتا دیکھ سکے اس طرح رب العزت نے اسے معاد جسمانی کا عملی مشاہدہ کرایا کہ میں کس طرح مردوں کو زندہ کروں گاامامزمان علیہ السلام علیہ السلامکی زیارت میں درج ہے کہ وان یجعل لی کرةً فی ظہورک ورجعةً فی ایامک لابَل غَ من طاعتکَ مرادی اشفِیَ من اعدائِکَ فوادی ۔(مفاتیح الجنان اذن دخول سرداب)
خداوند مجھے لوٹائے آپ کے ظہور کے وقت اور مجھے رجعت دے آپ علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ میں اگر میں مرجاﺅںتودوبارہ اسی دنیا میں زندہ ہوکرمیں آپ کی فرمان برداری کرکے اپنے مقصود و مطلوب تک پہنچ سکوں اور آپ علیہ السلام کے دشمنوں کو ذلیل و خوار دیکھ کر میرے دل کو شفا ملے۔
بعض روایات میں ہے کہ اصحاب کہف جو کہ تعداد میں سات تھے وہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکےزمان علیہ السلامہ ظہور میں رجعت کریں گے اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکی مدد و نصرت کریں گے۔
چھٹے امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام” العجب ثم العجب بین جمادی ورجب“
بارے فرماتے ہیں کہ ماہ جمادی الثانی اور رجب میں ۴۲(چوبیس) بارشیں ہوں گی اورزمان علیہ السلامہ ظہور امام علیہ السلام میں کچھ مردے زندہ ہوجائیں گے یعنی انہیں رجعت حاصل ہوگی ۔(بحارالانوار جلد۳۵ ص۹۵)
دعائے عہد میں ہے ”خداوند اگر امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے ظہور کازمان علیہ السلامہ ہمیں حاصل نہ ہوا اور ہم پہلے مرگئے تو اسزمان علیہ السلامہ ظہور میں ہمیں قبروں سے نکالنا تاکہ ہم اپنے امام کی مدد کے لئے جائیں۔
اس دعا اور دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ صدق دل سے امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کے منتظر ہیں اور انتظارکرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں ان کوزمان علیہ السلامہ ظہور امام میں دوبارہ زندہ کیاجائے گا تاکہ ناصران امام علیہ السلام میں شامل ہوسکیں اور یہی رجعت ہے۔
رجعت معصومین ”علیہم السلام“
رجعت حضرت امام حسین علیہ السلام
جیسا کہ پہلے عرض کی جا چکا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی رجعت بارے بالتواتر روایات و احادیث موجود ہیں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت مطلقہ میں ہے ”وَاُش ہِدُاللّٰہ وملائِکَتُہُ وانبیاءہُ ورسلہُ اَنَّی بکم مومن وبایابکم موقن “۔ میں اللہ اور اس کے انبیاء علیہ السلام ورسل کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ پر اور آپ کی رجعت پر ایمان رکھتا ہوں ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ کیا رجعت حق ہے؟تو آپ علیہ السلام نے جواب دیا جی ہاں!
سائل نے پوچھا کہ سب سے پہلے رجعت کسے حاصل ہوگی؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا حضرت امام حسین علیہ السلام کو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی وفات کے بعد حکومت حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس ہوگی حضرت امام حسین علیہ السلام ہی امام مہدی علیہ السلام کو غسل کفن اور حنوط کریں گے اور پھر انہیں اپنی قبر میں خود دفن کریں گے پھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے قرآن کی آیت ”ثم رددنا لکم الکرة“۔ (سورئہ اسراء۶)پڑھی کہ پھر تمہیں ہم رجعت دیں گے اور فرمایا کہ یہ آیت حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے ہے امام حسین علیہ السلام اپنے ۰۷ اصحاب کے ساتھ رجعت فرمائیں گے ۔(مفاتیح الجنان زیارت جامع کبیر)(بحارالانوار ج۳۵، ص۳۰۱)
رجعت امیرالمومنین علیہ السلام
روایات اور زیارت ناحیہ کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام بھی رجعت فرمائیں گے جابر جعفی امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم امام مہدی علیہ السلام کی وفات کے بعد ہم اہلبیت سے ایک شخص پوری دنیا پر۹۰۳سال حکومت کرے گا، جابر نے عرض کیا ایسا کب ہوگا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہمارے قائم علیہ السلام کے بعد جابر نے عرض کیا قائم کتنا عرصہ دنیا میں رہیں گے امام نے فرمایا ۹۱ سال اس دوران (منتصر) یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے اور اپنے انصار کے خون کا حساب لینے کےلئے دنیا میں آجائیں گے اور پھر حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام رجعت فرمائیں گے اور حکومت کریں گے۔(بحارالانوار جلد ۳۵، ص۰۰۱)
(البتہ محققین نے حضرت امام مہدی علیہ السلامکی حکومت کی مدت کے بارے تمام روایات کی روشنی میں یہ رائے قائم کی ہے کہ آپ کی حکومت کا تسلسل قیام قیامت تک رہے گا(مترجم))
رجعت حضرت رسول اکرم
زیارت جامعہ میں درج ہے ”یحشر فی زمر تکم ویکر فی رجعتکم “ میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ جب آپ علیہ السلام رجعت فرمائیں تو میں بھی آپ کے ہمراہ اسی دنیا میں لوٹایاجاﺅں اسی زیارت میں ہے کہ ”مصدق برجعتکم “ میں آپ کی رجعت کی تصدیق کرتاہوں ”یکر فی رجعتکم یملک فی دولتکم “ خدا مجھے بھی رجعت دے تاکہ میں آئمہ علیہ السلام کی رجعت کےزمان علیہ السلامہ میں ان کے ساتھ شام ہو سکوں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آیت مبارکہ ”یوم کان مقدارہ خمسین الف سنتة“ (سورئہ معارج ۴) کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ یہ پیغمبر اسلام کی رجعت کی طرف اشارہ ہے بعد از رجعت، رسول اکرم کی حکومت و سلطنت ۰۵ ہزار سال ہوگی امیرالمومنین علیہ السلام ۴۴ ہزار سال حکومت کریں گے اورایک روایت میں جناب سلمان حضرت رسول خدا سے نقل فرماتے ہیں کہ میںنے ”ثم رددنا لکم الکرة علیہم“ بارے آپ سے پوچھا کہ کیایہ آپ کےزمان علیہ السلامہ میں ہوگا ۔تو آپ نے فرمایا ”ہاں! اللہ کی قسم اسزمان علیہ السلامہ میں (زمانہ رجعت) میں علی علیہ السلام وفاطمہ علیہ السلام حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اور ۹ امام از اولاد حسین علیہ السلام جو کہ سارے کے سارے میری اہلبیت علیہ السلام کے مظلوم ہیں ،ایک جگہ جمع ہوجائیں گے اس وقت شیطان اور اس کا لشکر مومنین حقیقی اور اصلی کافر سب حاضر کئے جائیں گے مومنین تمام کفار سے قصاص لیں گے اور آپ علیہ السلام نے فرمایا ہم آیت قرآن ”ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض“ کا مصداق ہیں ۔
روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم بھی آئمہ معصومین علیہ السلام کے ساتھ رجعت فرمائیں گے امیرالمومنین علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی رجعت تکراری ہے۔(مہدی علیہ السلامموعود ص۷۳۲۱)
دنیا کا آخری انجام
بعض لوگوںنے آیات و روایات کے حوالہ سے یہ اشارہ دیا ہے کہ آل علیہ السلام محمد کی رجعت کے بعد دنیا تباہ و برباد ہوجائے گی اور یہ دنیا والے ایک بار پھر فاسد اور بے عمل وبدکردار ہوجائیں گے لیکن ہم اس خیال کو درست نہیں سمجھتے ہیں اس بارے چند گذارشات ملاحظہ ہوں۔
۱۔ کہا جاتا ہے کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا اور اس کے بعد باب تو بہ بند ہوجائے گا اس سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ جس دن سورج مغرب سے طلوع کرے گا وہ دنیا کا آخری دن ہوگا حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ دن امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے ظہور کا دن ہوگا اور اس دن باب توبہ صرف کافروں کے لئے بند ہوجائے گا جیسا کہ قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے کہ:
”قل یوم الفتح لاینفع الذین کفرواایمانہم ولاہم ینظرون فاعرض عنہم وانتظر انہم منتظرون“۔ (سورئہ حم سجدہ ۰۳)
”کہہ دو کہ فتح کے دن کافروں کو ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا ان کی طرف نظر رحمت نہیں ہوگی پس ان سے روگردانی کرو اور انتظار کرو بے شک وہ بھی انتظار کررہے ہیں “۔
بعض تفاسیر میں ہے کہ اب تک ایسا روز فتح نہیں آیا ہے کہ جس کے بعد کسی کا ایمان قابل قبول نہ ہوگا اور کہا گیا ہے کہ روز فتح وہ ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا یہ طلوع از مغرب ہی روز فتح کی نشانی ہے۔
حضرت پیغمبر اکرم نے فرمایا: کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اور اس رات کا سورج مغرب سے طلوع ہوگا لوگ اس کے بعد ۰۴ سال تک آسودہ اور خوش حال زندگی بسر کریں گے ان چالیس سالوں میں کوئی بیمار نہ ہوگا اور نہ ہی کوئی فوت ہوگا۔
اس حدیث مبارکہ سے دو نقاط واضح ہوتے ہیں۔
۱۔ روز فتح وہ دن ہے جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔
۲۔ وہ روز فتح ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکا دن ہے نہ کہ وہ روز فتح دنیا کے اختتام کا دن ہے۔
وہ روز فتح جس کا آیت میں ذکر ہے وہ روز ظہور امام علیہ السلام ہے جو کہ فتح اعظم اورفتح اسلام کا دن ہے۔
دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں!
”این صاحب یوم الفتح وناشر رایة الہدی“۔” کہاں ہے وہ جو فتح کے دن کا مالک ہے جو پرچم اسلام لہرانے والاہے“۔
قرآن مجید میں ہے ۔ یوم یاتی بعض آیا ت ربک لاینفع نفسا ایمانہالم تکن امنت من قبل اوکسبت فی ایمانہا خیرًا قل انتظر وا واِنَّا منتظرون (سورئہ انعام ۸۵۱)
جس دن اللہ کی بعض نشانیاں آگئیں اس دن پھر ایمان لانا کسی کو فائدہ نہیں دے گا جو پہلے ایمان نہیں لا چکے ہوں گے یاایمان سے سعادت حاصل نہیں کرسکیں ہوں گے۔
زیارات آل یٰسین میں یہ جملہ درج ہے۔
”واِنَّ رجعتکم حق لاریب فیہ“ (مفاتیح الجنان زیارت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام)
بے شک آپ کی رجعت حق ہے اور اس میں شک نہیں ہے یہ اشارہ ہے اہل بیت علیہ السلام کی رجعت کی طرف بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ کلمہ ”ساعت“ سے مراد فقط قیامت ہے حالانکہ حدیث میں ہے ”یقوم الساعة علی شرارالناس یفسدون کمایفسدالبہائم“۔
ظہور کے بعدرجعت برپا ہوگی ان شریر لوگوں کے لئے جو کہ فسادی ہیں مثل حیوانوں کے۔
ساعت صرف بمعنی قیامت نہیں ہے بلکہ ساعت بمعنی ظہور اور رجعت بھی ہے مذکورہ حدیث میں ساعت بمعنی آخریزمان علیہ السلامہ ہے جب امامزمان علیہ السلام علیہ السلامقیام فرمائیں گے اور ان لوگوں کے سروں پر قیامت بپا کردیں گے جواشرار اور مفسدہیں اوران کی زندگی حیوانوں جیسی ہے جیسا کہ آج مغربی ممالک میں پارکوں اورکلبوں میں حیوانی زندگی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ روایت میں ہے کہ حضرت علی علیہ السلامزمان علیہ السلامہ رجعت میں تشریف لائیں گے تو آپ علیہ السلام کے ہمراہ عصائے موسیٰ علیہ السلام ہو گا حضرت سلیمان علیہ السلام ابن داﺅد علیہ السلام کی انگوٹھی ہوگی آپ عصائے موسیٰ علیہ السلام کفار کی پیشانی پر لگائیں گے تو وہ لکھاجائے گا” کافر حقاً“(حقیقی کافر)اور مومن کی پیشانی پر انگوٹھی لگائیں گے تو اس پر لکھا جائے گا ”مومن حقًا“ (حقیقی مومن)یہ تبھی ممکن ہے جب رجعت ہو،تاکہ مومنوں اور کافروں کی پیشانی پر یہ لکھا جا سکے۔ حدیث کی رو سے ساعت بمعنی وقت ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلامہے اسی مضمون سے ملتی ہوئی حدیث ہے۔ ”عن اصبغ بن نباتہ عن امیرالمومنین قال سمعتہ یقول یظہر فی آخر الزمان علیہ السلام واقترب الساعتہ وھوشرالازمنة نسوة کاشفاتً عاریات متبرجات µ من الدین داخلات فی الفتن مائلات الی الشہٰواتِ مشرعات اِلَی اللذّاتِ مستحلات µ المحرمات فی جہنم خالدات“۔ (مفاتیح الجنان آداب زیارت)
اصبغ بن نباتہ، امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ مولا نے فرمایا آخریزمان علیہ السلامہ ظہور کے قریب بدترینزمان علیہ السلامہ ہوگا، اسزمان علیہ السلامہ میں ایسی عورتیں ہوں گی جو بے پردہ ہوں گی ،عریان ہوں گی، ظاہری زیب و زینت کریں گی،کھلے عام پھریں گی، فتنوں میں وارد ہوں گی (فتنوں کی ماہر ہوں گی، شہوات اور جنسی لذات کی طرف مائل ہوں گی، جو جنسی لذات ابھارنے کی ماہر ہوں گی، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کریں گی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائیں گے)اس حدیث میں آخریزمان علیہ السلامہ کو بدترینزمان علیہ السلامہ کہا گیا ہے اور ساتھ ہی ساعت کا ذکر ہے چونکہ ظہور امام علیہ السلام اسی بدترینزمان علیہ السلامہ کےساتھ ملتا ہوازمان علیہ السلامہ ہے اور حدیث میں جن حالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہمارے موجودہزمان علیہ السلامہ کے حالات سے ملتے جلتے ہیں جن میں ظہور امام علیہ السلام ہوگا لہٰذا ساعت سے مراد وقت ظہور امام علیہ السلام ہے۔دوسری دلیل آیت مبارکہ قرآن ہے ۔ ”فھل ینظرونَ اِلَّا الساعَةَ ان تاتِہم بغتةً فقد جائَ اشراطُہا“۔ (سورئہ محمد۸۱)وہ وقت جو ان پر اچانک آئے گا کیا وہ اس کے منتظر ہیں کیونکہ اس کی علامات پوری ہو چکی ہیں،یہاں شرط بمعنی علامت ہے اکثر مفسرین نے اس آیت بارے تفسیر میں علامات سے مراد علائم ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلامذکر کیا ہے جن کاحال پیغمبر نے مسلمانوں کو بیان فرما دیا تھا۔(الملاحم والفتن سید ابن طاوﺅس ص۷۹)(مفاتیح الجنان زیارت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام)
صدائے موت
”ماینظرون اِلّا صیحة واحدةً تاخُذُہم وہم یخِصِمُون “۔ (سورئہ یٰس ۹۴)
”یہ منکرین قیامت صرف ایک چنگھاڑ کے منتظر ہیں جو انہیں اپنی گرفت میں لے لے گی جب کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے“۔ جو بات قابل توجہ ہے وہ اس مسئلہ کا حل ہے کہ سوائے معصومین علیہ السلام ، انبیاء علیہ السلام و اولیاء علیہ السلام کے باقی سب کے سب انسان دومرتبہ موت سے ہمکنار ہوں گے۔
پہلی موت
جسموں کی موت دنیاوی زندگی سے کنارہ اور ارواح کا عالم برزخ کی طرف سفر۔
دوسری موت
ارواح کی موت عالم برزخ میں تاکہ عالم آخرت میں ان کاورود ہو۔ہماری نظر میں پہلی موت (آواز) جس کے ساتھ جسموں کی موت واقع ہوگی جس کے ساتھ تمام مخلوقات زمینی اور آسمانی سوائے چار مقرب ملائکہ، عزرائیل علیہ السلام، میکائیل علیہ السلام، جبرئیل علیہ السلام، اسرافیل علیہ السلام ، کے باقی سب مرجائیں گے اور پھر اس موت کے بعد ارادہ خداوندی کے تحت یہ ملائکہ مقربین بھی بالترتیب موت سے ہمکنار ہوجائیں گے اس چنگاڑ سے مرنے والوں کی ارواح عالم برزخ میں موجود روحوں کے ساتھ مل جائیں گے ۰۶۳ سال تک عالم ارواح باقی رہے گا اس کے بعد ارادہ خداوندی کے تحت ”کل شئی ہالک الاوجہہ“ تمام موجودات بشمول نظام شمسی کرہ ہائے ارض تمام عالم ہلاک وختم ہوجائیں گے صرف وجہ ”رب ذوالجلال“ جوکہ معصومین علیہ السلام ، انبیاء علیہ السلام اور اولیاء علیہ السلام ہیں باقی رہیں گے ، انسان کی یہ دوسری موت پہلی موت سے چالیس سال بعد واقع ہوگی اور پھر بقول قرآن ”ثُمَّ اللّٰہ ینشی النشاة الاخرة“ پھر اللہ دوسری زندگی دے گا جو اخروی زندگی ہوگی‘ (سورئہ عنکبوت ۰۲)
صدائے ِزندگی
قرآن میں ہے کہ :ان کانت اِلّا صیحةً واحدہً فاذاہم جمعیاً لدینا محضرون“۔ (سورئہ یٰس ۳۵)پھر ایک آواز ہوگی جس کے ساتھ اچانک سب کے سب زندہ ہوکر ہمارے سامنے حاضر ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے تحت حضرت اسرافیل علیہ السلام دوبارہ زندہ ہوں گے اور دوبارہ صور پھونکیں گے جس کے ساتھ تمام اہل زمین و آسمان زندہ ہوجائیں گے اور میدان محشر میں حاضری کے لئے تیار ہوجائیں گے اور یہ نظام دنیا سے نظام آخرت کی طرف منتقلی اور تبدیلی ہوگی جس کے ساتھ ہر چیز میں ایک خوشنما تبدیلی آجائے گی۔
(حوالہ جات: مہدی موعود ص۷۳۲، بحارالانوارج۳۵ص۳۰۱،۰۰۱،ص۹۵،۰۶،۷۷،۱۸۔ مفاتیح الجنان دعائے عہد، زیارت جامعہ۔ الملاحم والفتن ابن طاﺅوس ص۷۹۔ معجم احادیث المدی ج۲ص۳۱۱)
یااللّٰہ
خریدار جمال مہدی ماہیم، یااللہ!
نشستہ در کناری چشم بر راہیم، یااللہ!
شود او رابہ جمع ما گذر یایک نظر افتد؟
کرم فرما کہ دست از چارہ کو تاہیم! یااللہ!
ہمہ دیوانہ دیدار این مصداق وجہ اللہ!
ہمہ محتاج دست آن یداللّہیم، یااللہ!
بہ غیر از وصل او مارا امیدی در دو عالم نیست
کہ از ہجران او در نالہ وآہیم، یااللہ!
ا غِث نَا یَا غِیَاثَ اَل مُس تَغِیثِین! ای خدا ای دل!
گرفتار بلای عشق جانکاہیم، یا اللّٰہ!
بدہ آن نجم ہادی منبع نور عوالم را!
نہ از ہستی کہ ما از خود نہ آگا ہیم، یااللہ!
دل ما محو یاد او، زبان ما بہ وصف او
ہمہ در آستانش خاک درگاہیم، یااللہ!
(حقیقت) را چو در بحر ولا یش غوطی ور کر دی
گدای کوی آن سلطان جم جاہیم، یااللہ!
”اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذی صَدَقَنٰا وَعدَہُ وَا َو رَثَنَاالا َر ضَ نَتَبَوَّا مِنَ الجَنَّةِ حَیثُ نَشٰائُ فَنِعمَ اَجرُالعٰامِلین “۔
تمت بالخیر
بعون اللہ تعالیٰ کتاب موعود امم کا ترجمہ ۱۲ جمادی الثانی مطابق ۸۲ جولائی ۵۰۰۲ بروز جمعرات
بوقت ۴ بجے سہ پہرجامعہ سیدہ خدیجة الکبریٰ علیہ السلام پکی شاہ مردان ضلع میانوالی میں مکمل ہوا
یکی از منتظرین قنبر عمرانی عفی عنہ
|