موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
 

فصل نہم
آخری حکومت

تحریکیں حکومت کے نام
حکومت الٰہی کا قیام
چھ انوکھے کام
حکومت کی مدت

باب اول
تحریکیں
ارشاد امیرالمومنین علیہ السلام ہے کہ ”افلح من نھض بجنٰاحٍ اواستسلم فا راح“(نہج البلاغہ خطبہ ۵ ص۷۵)
وہ فلاح پاگیا کہ جس نے قیام کیا اپنے پروں کے ساتھ یا پھر تسلیم ہوا تو وہ آسودہ حال ہوگیا نہضت کا لغوی معنی اٹھنا ہے حرکت کرنا جنبش لینا ہے اور اصطلاح میں نہضت کا معنی ہے اپنے سیاسی یا اجتماعی اغراض تک پہنچنے کے لئے قیام کرنا۔
یہاں ہماری بحث دینی تحریکوں اور بالخصوص امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی تحریک بارے ہے۔البتہ اس بحث میں داخل ہونے سے پہلے ہم کچھ اشارہ انبیاء علیہ السلام و اولیاء علیہ السلام کے قیام کی طرف کریں گے۔
۱۔ (بعثت کا معنی اٹھنا ہے جس کا معنی خداوند کی جانب پیغمبر کامبعوث ہونا ہے اگرچہ تمام انبیاءعلیہ السلام اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے۔ لیکن سب انبیاء علیہ السلام صاحب شریعت نہیں ہیں۔ یعنی سب اولوالعزم پیغمبر نہیں ہیں، بعض پیغمبر ایک قبیلہ کے لئے تھے اور بعض ایک علاقہ کے لئے تھے۔ ان کی ذمہ داریاں اولوالعزم پیغمبروں جیسی نہ تھیں(مصنف)) بعثت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کا اپنےزمان علیہ السلامے کے متکبر اور طاغوت (رامس دوئم) فرعون کے خلاف قیام جس کی بنا پر آپ نے اسے اور اس کے لشکر کو برباد و فنا کردیا اور آپ نے اسرائیلی تمدن کی بنیاد رکھی۔
۲۔ طالوت کا سموئیل علیہ السلام نبی کی تائید سے جالوت جیسے طاغوت وسرکش حکمران کے خلاف قیام اور حضرت داﺅد علیہ السلام کی مدد سے اسے قتل کیا اور اپنی حکومت تشکیل دی۔
۳۔ ذوالقرنین (کورش کبیر) جس کا قرآن میں اچھے الفاظ سے تذکرہ کیا گیا ہے انہوں نے ظلم و ستم کے خلاف بلکہ شرک کے خلاف اپنے قیام کے لئے لشکر کشی کی اور سلسلہ ہخا منشیاں کے سردار ٹھہرے ۔
۴۔ اگر چہ رسول کریم مکہ میں پیدا ہوئے اور اعلان رسالت بھی وہیںکیا مگر آپ نے اپنی تحریک کا باقاعدہ آغاز و قیام مدینہ سے کیا آپ نے بہت سی جنگیں لڑیں اور تقریباً اا(گیارہ) سال تک فتح مکہ کے بعد اپنی اسلامی تحریک کو دنیا کی دیگر جہات میں پھیلایا۔(آپ نے مدنی زندگی کے دوران چھوٹے بڑے ۰۷ معرکے دشمنوں کے خلاف لڑے)
۵۔ عثمان بن عفان کے قتل کے بعد لوگوں کی عمومی درخواست اور اصرار پر حکومت حضرت امیرالمومنین علیہ السلام علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلامنے سنبھالی اور اپنے قیام کے لئے راہ ہموار، دیکھ کر آمادہ ہوئے کہ ایک بے نظیر عادلانہ اسلامی حکومت قائم کریں یہی وجہ ہے کہ جب آپ لوگوں سے بیعت لے چکے تو آپ نے فرمایا ”قمت بالامر“ میں نے امر کی بجاآوری کے لیے قیام کیا ہے اور آپ علیہ السلام نے اس وقت مدینہ کے ہر فرد کو تین سونے کے سکے دیئے آپ نے اپنے لئے اور حسنین علیہ السلام شریفین اور باقی بنی ہاشم اور اپنے خواص کے لئے بھی دوسروں کی طرح تین سکے ہی مخصوص کئے ہر ایک صاحب سکہ طلا ہوا۔(نہج البلاغہ خطبہ نمبر۵، ص۷۵)(ترجمہ فیض الاسلام)

امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی عالمی تحریک اور قیام
آپ کی تحریک و قیام کی بنیاد اللہ کے فرمان پر مبنی ہے وہ تحریک مکہ سے شروع ہو گی جس کے آغاز میں ۳۱۳ ،افراد جو کہ سب کے سب برگزیدہ اور شائستہ فرد ہوں گے مدینہ اور عراق کے علاوہ تمام نقاط جہان میں پہنچیں گے اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اپنے طے شدہ طریقہ و پروگرام جو کہ ان کو علم ہے کے مطابق تمام دنیا کو فتح فرمائیں گے اور دجال کے قتل کے بعد تمام دنیا ہمیشہ کے لئے حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اور ان کے خانوادہ عصمت کے زیر اثر ہوجائے گی۔

حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی تحریک کے بنیادی ارکان
آپ کی تحریک کے چار ارکان ہیں
۱۔ رہبر ۲۔ تحریک کے مقصد کا اجراء ۳۔ قانون اور پروگرام ۴۔بجٹ
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بارے وعدہ فرمایا ہے کہ ”وعداللّٰہُ الذین امنوا منکم وعملواالصالحات یستخلفنہم فی الارض“۔ (سورئہ نور ۵۵)
جو لوگ ایمان لائے اور اعمال شائستہ بجالائے اللہ تعالیٰ کا ان سے وعدہ ہے کہ انہیں زمین پر اپنا جانشین و خلیفہ بنائے گا۔ہم اس جگہ اختصار کے ساتھ حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی عالمی حکومت و تحریک کے ارکان بارے بحث کریں گے۔

۱۔ رہبری وقیادت
ہر تحریک کی کامیابی کےلئے رہبر کلیدی حیثیت رکھتا ہے اس عالمی حکومت و تحریک کی رہبری ایک معصوم رہبر کے پاس ہوگی جو علمی کمالات اور معنوی فضائل میں اور اخلاقی امور میں اعلیٰ و والا ہوں گے۔

۲۔ تحریک کے مقاصد کا اجراء
آپ کے اہداف کے جاری کرنے والے، ۳۱۳، اصحاب باوفا اور آہنی عزم جو کہ انتہائی مہذب اور خود سازی میں اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے اور کامل انسان ہوں گے جن کے ذریعے اجرائی کام ہوں گے مثلاً آپ کے لشکر کی کمانڈ منصف وجج اورگورنر یہی لوگ ہوں گے قرآن میں ان لوگوں کے اوصاف کا تذکرہ ہے۔

۳۔ آئین و قانون حکومت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام
آپکی عالمی حکومت کا آئین و قانون قرآن کی بنیادپر ہوگا جسکے معانی اور مفاہیم سے امام علیہ السلام آشناءہوں گے اسکے علاوہ تمام آسمانی اور زمینی علوم بارے سب سے زیادہ عالم وبا خبر ہونے کی وجہ سے اور آپ کا خالق کائنات سے مربوط ہونے کی بنا پر تمام بیش آمدہ مشکلات حل ہوتی جائیں گے۔

۴۔ بجٹ
آپ کی عالمی حکومت میں زمین اپنے خزانے آپ پر ظاہر کر دے گی بلکہ باہر نکال دے گی دوسری طرف آسمان سے رحمت خدا اورآسمانی برکات مثل بارش کے برسیں گی اس بارے امیرالمومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ اسزمان علیہ السلامہ میں اگر ایک کسان دس سیر گندم یا چاول کاشت کرئے گا تو وہ اس سے سات سو گنا زیادہ حاصل لے گا مکہ اور مدینہ میں مسلسل کھجوروں کا بصورت باغات بار آور ہونا اور حضرت آدم علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ کی طرح ہر طرف قیمتی سبزوں کا اگ آنا اور زمین و آسمان میں دروازہ ہائے رحمت کاکھل جاناجس کی طرف سورئہ اعراف کی آیت نمبر۸۵۔۷۵ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ خرچ دفاع پر کیاجاتا ہے اس وقت ہر ملک کے بجٹ کا بہت زیادہ حصہ اس شعبہ پر خرچ ہوجاتا ہے آپ علیہ السلام کی حکومت میں یہ بجٹ حذف کرکے عوام کی ترقی اور فلاح پر صرف کیا جائے گا ہمارے اسزمان علیہ السلامہ میں بجٹ کے غلط طور طریقوں اور غلط استعمال کو آپ آکر ختم کر کے صحیح خطوط پر بجٹ تیار کریں گے اور دنیا میں مالی نظام کی تمام خرابیوں کی اصلاح کریں گے جس کی وجہ سے آپ کی عالمی حکومت کا بجٹ ایک مثالی بجٹ ہوگا۔

تحریک امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا دیگر تحریکوں سے فرق
”وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون “۔
” میں نے نہیں پیدا کیا جن اور انس کو مگر عبادت کے لئے“۔
۱۔ آپ کی حکومت ہمہ جہتی ہوگی آپ کی تحریک ، آپ کی حکومت مادی لحاظ اور تعلیم و تعلم کے اعتبار سے،پرورش اور تربیت کے لحاظ سے، عدالت و فیصلہ جات کے لحاظ سے، ان کا انداز حکومت اور روابط مثالی اور منفرد ہوں گے آپ کی حکومت میں علاج و معالجہ کی سہولت وافرمقدار میںہوگی میڈیکل کی سہولیات سب کے لئے یکساں ہوںگی۔
۲۔ آپ کی تحریک اور حکومت معنوی اور روحانی اعتبار سے بھی منفرد ہوگی مذہب حقہ کی ترویج ہوگی، راہ سیروسلوک الی اللہ واضح ہوگا آپ کی حکومت میں لوگوں کا ہدف مال و دولت حاصل کرنا نہیں ہوگا بلکہ ان کا ہدف معنوی کمالات کا حاصل کرنا ہوگا اور روحانی تکامل ان کا مقصد ہوگا لوگ قرب الٰہی حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے آپ کی حکومت میں تمام لوگوں کا مرکز عبادت و خداوند کی رضایت اور تقرب کا حصول ہوگا۔
۳۔ آپ کی حکومت اور تحریک عالمی ہوگی جوپوری کرہ ارض پر محیط ہوگی۔
۴۔ آپکی تحریک پائیدار اور مضبوط ہوگی اور ابدی وہمیشہ رہنے والی ہوگی چونکہ شیطان اور اسکا لشکر اور انسان و جن میں موجود شیاطین سب ختم ہوجائیں گے تمام ظالم حکمرانوں کا خاتمہ ہوگا۔

امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی حکومت کے نام
آپ کی حکومت کے چند نام تحریر کئے گئے ہیں ہم ان میں سے کچھ ناموں کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔ حکومت کریمہ
یعنی آپ کی حکومت کا محور ومرکز کرامت و بزرگی ہوگا جیسے کہ مفاتیح الجنان کی ماہ رمضان میں پڑھی جانے والی دعائے اافتتاح میں درج ہے کہ ”اللھم انانرغب الیک فی دولة کریمة تعز بہاالاسلام واہلہ، وتذل بہا النفاق واہلہ“۔ اے خدایا ہم سب ایک ایسی کریم حکومت کے مشتاق و خواہشمند ہیں کہ جس میں اسلام اور اہل اسلام عزت والے ہوں اور اس حکومت کی وجہ سے منافقین ذلیل وخوار ہوں گے۔(مفاتیح الجنان دعائے افتتاح)
۲۔ حکومت صالحین
یعنی صالح اور باکردار لوگوں کی حکومت قرآن مجید کی سورئہ انبیاء علیہ السلام میں ہے:”ان الارض یرثہا عبادی الصالحون“(انبیاءآیت ۵۰۱)” زمین کے وارث صالح بندگان خدا قرار پائیں گے“۔
۳۔ حکومت مستضعفین
آپ کی حکومت میںضعیف اور کمزور لوگوں کی حکمرانی ہوگی جیسا کہ قرآن مجید کی سورئہ قصص کی آیت نمبر ۵ میں ارشاد ہے ”نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلہم آئمةً ونجعلہم الوارثین“(قصص آیت۵) ”ہم نے ارادہ کیا ہے کہ کمزور اور مستضعف لوگوں کو امام اور رہنما بنایں اور انہیں زمین کا وارث قرار دیں“۔
۴۔ حکومت حق
”للحق دولة وللباطل جولة “کے مصداق حکومت حق کے لئے ہے باطل کی صرف بھاگ ڈورہوتی ہے جن کی حکومت کو دوام ہے، باطل کی حکومت وقتی ہے۔
۵۔ آخری حکومت
آپ کی حکومت کے ناموںمیں سے یہ بہترین نام ہے ارشاد امیرالمومنین علیہ السلام ہے کہ:
”لیس بعد ملکنا ملک لانا اہل العاقبة یقول اللّٰہ عزوجل والعاقبة للمتقین “۔
ہماری حکومت کے بعد کوئی حکومت نہیں ہے کیونکہ ہم اہل عاقبت ہیں اور ارشاد خداوندی ہے کہ عاقبت متقیوں کے لئے ہے اور اسی طرح قرآن میں ہے کہ :
”ان الارض یرثہا من یشاءمن عبادہ والعاقبة للمتقین “ (سورہ اعراف ۶۲۱)
پس بتحقیق جسے وہ چاہے اسے اپنے بندگان سے زمین کاوارث بنائے گا اور عاقبت متقین کے لئے ہے۔ ایک اور روایت میں امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں’دولتنا اٰخِرُالدول ولم یبق اہل بیتٍ لہم دولة الا ملکوا قبلنا وھو قول اللّٰہ ”عزوجل“ والعاقبة للمتقین“۔
ہماری حکومت آخری حکومت ہوگی ہر خاندان کے لئے حکومت ہوگی جو کہ ہم سے پہلے حکومت کریں گے آخری حکومت ہماری ہوگی کیونکہ ارشاد خداوندی ہے کہ عاقبت و انجام متقیوں کے لیے ہے۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
”لِئِلّٰا یقولوا اذٰا را واسیرتنا، اذ ملکنا سرنا مثل سِیرَةِ ہﺅلائِ“۔ (غیبت شیخ طوسی ص ۲۸۲)
ہم سے پہلے تمام گروہ حکومت کرلیں گے لیکن جب آخر میں ہماری حکومت کاانداز دیکھیں گے تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ اگر ہمیں حکومت ملتی تو ہم اسی طرح حکومت کرتے اوران کی (امام مہدی علیہ السلام) روش پر عمل کرتے۔
آخر میں ہم ایک شعر جو کہ آئمہ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے تحریر کرتے ہیں ۔
لِکُلّ اُنَاسٍ دولةً یَرقُبُونھا
وَ دولتُنا فی اَخِرِالدھریظَہ ر
ہر گروہ اور جماعت کے لئے حکومت ہے جس کے وہ منتظر ہیں، ہماری حکومت آخریزمان علیہ السلامہ میں ہوگی اور ظاہر ہوگی اوروہ آخری حکومت ہوگی۔
اب تک تحریر شدہ دلائل جو نقل کیے ہیں وہ سب آیات اورروایات سے ا خذکیے گئے ہیں اب ہم آپ علیہ السلام کی حکومت کے حوالے سے کچھ عقلی دلائل تحریر کرتے ہیں۔
۱۔ عدالت، تمام بشریت کی ضرورت ہے اور ہرانسان عدالت کا محتاج اور غرض مند ہے ۔
۲۔ خداوند کریم نے زمین کو بغیر امام اور انصاف کرنے والے کے نہیں چھوڑ رکھا۔
۳۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ عدالت و انصاف کو قبول کرے اور تمام انسان اس وقت تک انصاف کو قبول نہیں کریں گے جب تک کہ ان کے لئے تمام انصاف کے دروازے بند نہ ہوجائیں اور پھر وہ اللہ سے عدل و انصاف کی فریاد کریں اور انصاف و عدالت سوائے ظہور امام علیہ السلام اور حکومت امام علیہ السلام کے ممکن نہیں ہے۔(غیبت شیخ طوسیؒ، ص۲۸۲)

آخری زمان علیہ السلامہ
آخریزمان علیہ السلامہ سب سے برازمان علیہ السلامہ ہوگا وہزمان علیہ السلامہ نافرمانی اور خودپسندی اور خود سری کازمان علیہ السلامہ ہوگا، وہزمان علیہ السلامہ بشر کی بدبختی کا آخریزمان علیہ السلامہ ہوگا، ظلم وجور سے کرہ ارض پر ہوگاہر طرف افراتفری کا عالم ہوگا، دہشت گردی عام ہوگی، لوگ عدل وانصاف کو ترسیں گے تو پھر خداوند عالم ایک امام عادل و منصف حاکم کو اذن ظہور دے گاتاکہ دنیا پر عدل و انصاف کی حکمرانی قائم کرے ۔
(من لایحضر الفقیہ)

باب دوئم
حکومت الٰہی کا قیام
عدل و انصاف سے زمین کا زندہ ہونا
ارشاد خداوندی ہے کہ : ”اعلموا ان اللّٰہ یحیی الارض بعد موتھا قد بینّالکم الایات لَعَلّکُم تعقلون “۔ (سورئہ حدید ۷۱)
خداوند عالم زمین کو مردہ ہوجانے کے بعد زندہ کرے گا اللہ نے تمہارے لیے اپنی واضح نشانیاں بیان کردی ہیں تاکہ تم سوچ و بچار کرو۔شیخ طوسی اپنی کتاب الغیبتہ میں اپنی سند کے ساتھ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں جو کہ اسی آیت کے ضمن ہے کہ خداوند کریم قائم علیہ السلام آل علیہ السلام محمد کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کرے گا یعنی ظلم و جور کی وجہ سے مردہ زمین کو عدل و انصاف کے ذریعہ زندہ کرے گا۔زمین ظلم وجور سے ویران ہوچکی ہوگی اللہ تعالیٰ اپنے آخری نمائندہ کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گافخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں بھی یحیی الارض بارے یہی تفسیر کی ہے کہ زمین عدل و انصاف کے ذریعہ زندہ ہوگی۔
قرآن مجید میں بائیس (۲۲) مقامات پر کلمہ” اعلموا “استعمال ہوا ہے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بعد میں ذکر ہونے والے مطالب کو خوب سمجھ اور سوچ بچار کرلو جہاں پر عالمی عادلانہ حکومت کے قیام کی بات کی گئی ہے ان آیات میں اعلموا سے بات کی گئی ہے ۔
”وَاَتَّقُو اَللّٰہَ وَآع لَمُوا ا نَّ اللّٰہَ شَدِیدُ ال عِقَابِ“۔ (سورہ بقرہ۶۹۱)
”لوگو! اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب والا ہے“۔
”وَآع لَمُوا ا نَّ اللّٰہَ یَحُولُ بَی نَ اَل مَر ئِ وَقَل بِہِ“۔ (سورہ انفال ۴۲)
”اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آر بن جایا کرتاہے اور بلاشتہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے“۔
”وَآع لَمُوا ا نَّمَا ا م وَالُکُم وَا و لاَ دُکُم فِت نَة µ وَا نَّ اَللّٰہَ عِن دَہُ ا ج ر µ عَظِیم µ“۔(انفال آیت ۸۲)
”اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے“۔
”وَاِن تَوَلَّو ا فَاع لَمُوا ا نَّ اللّٰہَ مَو لاَکُم نِع مَ اَل مَو لَیٰ وَنِع مَ اَلنَّصِیرُ“۔ (انفال آیت ۰۴)
”اور اگر رو گردانی کریں تو یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارا کارساز ہے، وہ بہت اچھا کارساز ہے اور بہت اچھامدد گارہے“۔
”وَآع لَمُوا ا نَّمَا غَنِم تُم مِن شَ ¸ ئٍ فَا نَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِ ¸ وَاَل یَتَامَیٰ وَاَل مَسَاکِینِ وَاَب نِ اَلسَّبِیلِ“۔ (سورہ انفال ۱۴)
”جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو، اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت داروں کا اور یتیموں اور مسکینوں کا اور مسافروں کا“۔
”اَع لَمُوا ا نَّمَا اَل حَیَاةُ اَلدُّن یَا لَعِب µ وَلَہ و µوَزِینَة µ وَتَفَاخُر µ بَی نَکُم وَتَکَاثُر µ فِ ¸ اَل ا م وَالِ وَاَل ا و لاَدِ“۔ (سورہ حدید ۰۲)
”خوب جان رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا زینت اور آپس میں فخر (وغرور) اور مال و اولاد میں ایک کا دوسرے سے اپنے آپ کو زیادہ بتلانا ہے“۔

حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی عالمی حکومت
قرآن مجید کی بہت زیادہ آیات میں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی عالمی حکومت بارے خبر دی گئی ہے اور کافی مفسرین نے اسکی تفسیر بھی اسی حوالے سے کی ہے ہم چند ایک آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱۔ ”وعداللّٰہ الذین اَمنوامنکم وعملو الصالحات لیستَخ لِفَنَّہُم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ولَیمکنن لہم دِینہم الذی ارتضیٰ لہم ولیبدلنہم من بعد خوفِہِم اَم ناً یعبدو نَنَی لایُشِرِکُون بی شیائً ومن کفر بعد ذٰلِکَ فا ولَئَک ہم الفاسقون“۔ (سورئہ نور ۵۵)
خداوند کریم نے تم میں سے ایسے لوگوں کے ساتھ وعدہ کررکھا ہے جو نیک اعمال بجالاتے ہیں اور صاحبان ایمان ہیں کہ انہیں ہر صورت زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا گیا تھا اور ان کے دین کو ہر صورت کامرانی دے گا جو کہ اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور ہر صورت ان کے خوف کو امن میں بدل دے گا تاکہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک نہ بنائیں اور جو کوئی اس کے بعد کافر ہوگیا،اس نے کفران نعمت کیااور میرے دائرہ حکم سے باہر نکل گیا، میری بندگی سے خارج ہوگیا تو ایسے افراد ہی فاسق ہیں کچھ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اس کے ضمن میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ :
۱۔ اس آیت میں وعدہ خلافت خداوندی پوری امت اسلام سے نہیں ہے بلکہ اس امت کے مومنین سے وعدہ ہے جو عمل صالح کرنے والے ہیں اس آیت میں کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان مومنین سے مراد اصحاب پیغمبر ہیں یا خود ذات پیغمبر اور آئمہ اہل بیت علیہ السلام ہیں۔
۲۔ اس آیت میں جو وعدہ خلافت ہے اس خلافت سے مراد ایک صالح معاشرہ اورنیک اجتماع کی تشکیل ہے مومنین میں سے جو زمین کے وارث قرار پائیں جس طرح کہزمان علیہ السلامہ گذشتہ میں گذشتہ امتوں سے مومنین کو وارث زمین بنایا گیا اور وہ وارثان زمین صاحب شان و شوکت اور قدرت،صاحب قوت تھے یہ مناسب نہیں کہ خداوندکریم اپنے باعظمت انبیاء علیہ السلام کرام کےلئے لفظ ”الذین من قبلہم“ استعمال کرے اور پھر اس حکومت سے ان ہی کی حکومت مراد لی جائے بلکہ اس آیت میں ارادہ خلافت الٰہی سے مراد حکومت داﺅد علیہ السلام اور حکومت سلیمان علیہ السلام یا دیگر انبیاء علیہ السلام کرام نہیں ہے جو کہ اپنےزمان علیہ السلاموں میں اپنی امت پر ولایت رکھتے تھے بلکہ اس خلافت سے مراد ایک صالح معاشرہ، اجتماع کی تشکیل ہے اور ایک صالح حکومت کا قیام ہے فقط عالم ولایت مراد نہیں ہے۔
۳۔ جس پسندیدہ دین کے کامیاب وکامران ہونے کا اس آیت میں کہا گیا ہے ایسا دین ہے کہ جسکے اصول میں اختلاف نہیں ہے اور وہ دین اپنے احکام کو جاری کرنے میں سستی نہیں کرتا اور اس دین پر عمل کرنےوالے اس کے فروع پر عمل کرتے ہیں اور ان کے معاشرے میں نفاق نہیں ہے بلکہ اس دین کی وجہ سے ان کے معاشرے میں امن اور آسودگی ہے اور اجتماعی سلامتی ہے۔
۴۔ ”یعبدوننی“ سے مراد ایسا حق عبادت ہے کہ جو مکمل اخلاص کے ساتھ انجام دی جائے جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
مفسرین ایسی تفسیر کے ضمن میں کہتے ہیں کہ حق یہی ہے کہ یہ آیت سوائے اس اجتماع کے جو ظہور امام مہدی علیہ السلام کے بعد امام علیہ السلام کے انصار و اصحاب سے تشکیل پائے گا کسی اور پر منطبق نہیں ہوتی مفسرین کی تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ:
۱۔ اس آیت میں درج خلافت سے مرادپوری امت کی عمومی خلافت نہیں ہے۔
۲۔ اس خلافت سے مرادپیغمبر اورآئمہ علیہ السلامکی خلافت بھی نہیں ہے۔
۳۔ خلافت و جانشینی سے مراد حضرت امام مہدی علیہ السلام اور انکے ۳۱۳، انصار ہیں اس اجتماع کا تذکرہ ہے۔جس نے آخری دور میں موجود ہوتاہے، جو صالحین کا اجتماع ہوگااور اسی دور کی حکومت مراد ہے۔
۴۔ تمکین دین سے مراد دین اسلام کی حکومت اور احکام دین کا رائج ہونا اور حکومت امام مہدی علیہ السلام اور ناصران امام مہدی علیہ السلام ہے۔
۵۔ اس اجتماع میں مکمل سلامتی اور امن ہوگا۔
۶۔ حکومت و خلافت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میںاللہ کی خالص عبادت ہوگی۔
۷۔ کفر سے مراد کفران نعمت ہے فسق سے مراد اللہ کی بندگی کی حدود سے تجاوز ہے۔

امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا عالمی عدل
قسط و عدل ایک ایسی اصطلاح ہے کہ جسکا قرآن مجید میں بہت زیادہ تذکرہ ہے ان آیات میں سے ایک آیت ہے ”انزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط“۔(سورئہ حدید ۵۲)
ہم نے انبیاء علیہ السلام کرام کے ساتھ کتاب اور میزان بھیجا تاکہ لوگوں کو عدل و انصاف پر آمادہ کیا جائے یہ عالمی انصاف و عدل سوائے دست امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام جو کہ انتہائی طاقتور ہاتھ ہے ممکن نہیں ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ ”یملائُ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت جورًا وظلما“۔ (مہدی موعود ص۵۳۱۱)(یہ روایت تقریباً۰۰۳ بار ذکر ہوئی ہے)
حضرت امام مہدی علیہ السلام زمین کو عدل و انصاف سے پر کردیں گے جیسا کہ وہ زمین پہلے ظلم و زیادتی سے پر ہوگی روایات میں حضرت علی علیہ السلام سے وارد ہے کہ ظلم کی تین اقسام ہیں۔
۱۔ وہ ظلم جو خداوند نہیں بخشے گا وہ ظلم شرک ہے ۔ ”ان الشرک مظلم عظیم“۔
۲۔ وہ ظلم جسے خدا معاف نہیں کرے گا وہ دوسروں پر ظلم ہے۔
۳۔ وہ ظلم جسے اللہ معاف فرما دے گا بشرطیکہ انسان توبہ کرے وہ ہے اپنے آپ پر ظلم۔
(مہدی علیہ السلام موعود ص۵۳۱۱)

دوسروں پر ظلم کی اقسام
۱۔ کسی کے مال پر تجاوز وظلم ۲۔ کسی کی جان پر تجاوز وظلم
۳۔ کسی کی ناموس پر زیادتی اور ظلم ۴۔کسی کی حیثیت اور آبرو پر ظلم
زمانہ حکومت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں تینوں اقسام کے ظلم ختم ہوجائیں گے۔
۱۔ ظلم وستم،شرک و کفر کا خاتمہ
قرآن فرماتا ہے کہ ”ہوالذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیُظہَرہُ علی الدین کلّہ ولوکرہ المشرکون“(توبہ آیت۳۳) وہ خدا کہ جس نے بھیجا اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کےساتھ تاکہ غالب کرے دین کو تمام ادیان پر اگرچہ یہ بات مشرکین کوناگوار ہی کیوں نہ ہو
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ”اذخرج القائم علیہ السلام لم یبق کافرا ولا مشرک الا کرہ خروجہ حتی لوکان کافراو امشرک فی بطن صخرة لقالت الصخرة یامومن فی بطنی کافراومشرک فاقتلہ فینحیہ اللّٰہ فیقتلہُ“ ۔(بحارالانوار ج۱۵، ص۰۶)
امام علیہ السلام فرماتے ہیں ”جب ہمارا قائم ظہور کرے گا توکوئی کافر یا مشرک باقی نہیں بچے گامگر یہ کہ قائم کا ظہور اسے ناگوار ہوگا یہاں تک کہ اگر کوئی کافر یا مشرک کسی پتھریلی چٹان کے نیچے چھپا ہوگا تو وہ چٹان مومن سے کہے گی کہ اے مومن میرے نیچے کافر یا مشرک چھپا ہے اسے قتل کردے گاپس وہ مومن اسے قتل کر دے گا۔
دوسروں پر ظلم کا خاتمہ
”فاذا خَرجَ اشرقت ِ الارض بنور رَبّھٰا ووضع میزان لعَدلِ بین الناس فلایَظِل م احدحَد ا“۔ (بحار الانوار ج۲۵ ص۲۲۳)
جب حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا توز مین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوجائے گی وہ مہدی علیہ السلام معیار عدل و انصاف کو لوگوں میں برقرار کرے گا تو اس وقت کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا یہ بات واضح رہے کہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات کے حقوق کی رعایت بھی لازم ہے حتیٰ کہ نباتات وغیرہ کی سلامتی کو بھی مدنظر رکھا جائے گاان کے حقوق کی خلاف ورزی بھی دوسرں پر ظلم ہوگا۔
اپنے اوپر ظلم کا خاتمہ
حضرت رسول اکرم فرماتے ہیں ”یملا قلوبَ عِبَادہ یسعہم عدلہ“۔ نیز آپ کا فرمان ہے ”بہ یمحق اللّٰہ الکذب ویُذہب الزمان الکلب وبہ یُخرج ذُلَّ الّرِقِّ مِن اعناقِکُم “ مہدی علیہ السلام لوگوں کے دلوں کو عبادت کے جذبے سے بھر دے گا، اس کا عدل و انصاف ہر کو شامل ہوگا خداوند کریم اس کے ذریعہ جھوٹ کوزمان علیہ السلامہ سے ختم کر دے گا،مشکل حالات آپ کے ذریعہ ختم ہوجائیں گے طوق ذلت و رسوائی کو آپ کے دور حکومت میں لوگوں کی گردن سے اتار لیا جائے گا۔(شیخ طوسی ص۱۱۱،۴۱۱)(بحارالانوار ج۲۵ ص۲۲۳)

عمومی عدل
جسطرح ظلم کا تذکرہ ہوا ہے مناسب ہے کہ عدل کل الٰہی کا تذکرہ بھی کیا جائے جسکی چار قسمیں ہے
۱۔ تکوین وخلقت میں عدل۔”الذی خَلقَکَ وسُوَّاک“۔ (سورئہ انفطار۸) ”قائماً بالقسط“۔(سورئہ آل عمران ۸۱)
۲۔ عدل در تقدیر۔ ”لاجبرولاتفویض“
۳۔ عدل اور تشریع۔ اس کے سارے قوانین مبنی بر عدل ہیں۔
۴۔ سزا و جزا میں عدل جو کہ ثابت ہے
حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے وزیر اعظم اور وزراء
”واجعل لی وزیرًا من اہلی ہارون اخی“۔ (سورئہ طہٰ ۰۳۔۹۲)
”اے خدایا میری اہل سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر قرار دے“۔
جیسا کہ تمام انبیاء علیہ السلام کے وزیر اور پرچم دار و کمانڈر ہوتے رہے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے آصف برخیا، رسول اکرم کے لئے حضرت علی علیہ السلام، اسی طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے لئے بھی وزیر اور پرچم دار ہیں بعض علماءکے بقول حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ علیہ السلام کے وزیر اعظم ہیں اور بعض کے بقول حضرت شعیب بن صالح علیہ السلام وزیر اعظم ہیں ممکن ہے ہر دو صورتیں صحیح ہوں اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد تک شعیب علیہ السلام بن صالح وزیر رہیں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں تو پھر وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوں ۔امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ۲۱ نقیب ، نمائندے ہیں جن کے ذریعہ تمام امور انجام دیئے جانے ہیں بہتر ہوگا کہ وہ تمام امور جو انجام دیئے جانے ہیں ان کی طرف بھی اجمالی اشارہ کیا جائے۔

ادارہ جاتی امور
۱۔ تعلیم وتزکیہ
تمام تر تربیت کا دارومدار تزکیہ پر ہے گھر سے لے کر معاشرہ تک تمام امور میں تزکیہ اولین شرط تربیت ہے۔ آج ناقص تعلیم و تربیت کی وجہ سے جھوٹ ، رشوت، خیانت، تجاوز، جنایت نے معاشرہ کے تمام پیروجوان حتیٰ کہ بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی حکومت میں تمام امور میں تربیت کا حکم جاری کیا جائے گا اور ان تعلیمات و تربیتی اصولوں کی روشنی میں عورت اپنے گھر میں بیٹھ کردینی احکامات بارے اس قدر مطلع ہوگی اور عمل کرے گی جیساایک مجتہد جامع الشرائط مطلع ہوتاہے۔
۲۔ بیت المال
نہ صرف یہ کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی حکومت میں بیت المال سے سُوئِ استفادہ نہیں ہوگااور اس کا غلط استعمال نہ ہوگا بلکہ تمام لوگوں میں بیت المال مساوی تقسیم ہوگا حکومت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں لوگوں کو ایک ماہ میں دوبار تنخواہ دی جائے گی اور سال میں دو بار بونس بھی دیا جائے گا۔
۳۔ امن عامہ کی صورتحال
تین چیزیں بدامنی کا باعث ہوتی ہیں۔
۱۔ فقرو محرومیت جو کہ چوری ، خیانت، رشوت اور فساد کا موجب بنتی ہے۔
۲۔ بے ایمانی یا ایمان کی کمزوری بدامنی کا باعث ہوتی ہے ۔
۳۔ صحیح قانون اور انصاف کی عدم فراہمی ایڈمنسٹریشن کی کمزوری، عدم تدبر اور موجودہ روش سیاست بھی بدامنی کا موجب بنتی ہیں۔
امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی حکومت کی برقراری سے پورے عالم میں عدل و انصاف کی حکمرانی ہوجائے گی۔
۱۔ تمام لوگ آسودہ زندگی بسر کریں گے اور آپ کی حکومت میں محتاجی ختم ہوجائے گی۔
۲۔ شیطان اور دیگر شریر لوگ قتل کر دیئے جائیں گے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایمان محکم جاگزین ہوجائے گا حرص و طمع کو جڑ سے اکھاڑ دیاجائے گا جس کی وجہ سے آپ کی حکومت میں مکمل امن اور سکون ہوگا اور امن عامہ کاکوئی مسئلہ نہ ہوگا۔
۳۔ صحیح قوانین اور انصاف وعدل کی صحیح اور جلد فراہمی لائق اور بابصیرت ایڈمنسٹریشن اور تدبیر و پرہیز گاری کی وجہ سے کسی قسمی بدامنی پیدا نہیں ہوگی نہ ہی عمداً بدامنی ہوگی اور نہ ہی سہواً بد امنی ہوگی۔امن ہی امن ہوگا،سکون ہی سکون ہوگا،خوشحالی ہوگی۔قرآن مجید ”القو ¸ الامین“ کا نقطہ استعمال کیا گیا ہے۔ (سورہ نمل ۹۳)
۴۔ قضاوت حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام
۱۔ حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہمارے موجود ہ قوانین کے مطابق فیصلے نہیں فرمائیں گے کیونکہ آج کل دنیا میں لاکھوں قانون اور طریقہ ہای قضاوت وعدالت موجود ہیں جن میں سے اکثر قوانین خلاف عقل و خلاف قوانین آسمانی ہیں، مثلاً آج ہم جنس پرستی اور لواطت وغیرہ تک کے لئے قانون سازی کر کے اس قبیح عمل تک کو جائز قرار دے دیا گیا ہے، اسی طرح سود کو قانونی تحفظ مل چکا ہے حالانکہ یہ سب کچھ قوانین الٰہی کے خلاف ہیں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اپنے دور حکومت میں ہر اس قانون کو ختم کردیں گے جو خلاف قرآن ہوگا آپ کا ہر حکم قرآن کے مطابق ہوگا آپ ہر حکم قرآن سے لیں گے یا آپ کو بذریعہ الہام راہنمائی حاصل ہوگی۔
۲۔ آپ لوگوں کے باطن سے آگاہ ہوں گے اور فیصلہ بھی لوگوں کے باطن سے آگاہی کی بنیاد پر کریں گے آپ قسم وغیرہ پر فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ لوگوں کے دلوں میں موجود حقائق جان کر فیصلہ کریں گے حالانکہ نبی اکرم ظاہری اسباب و قسم وغیرہ کی بنیاد پر فیصلہ فرماتے تھے۔البتہ آپ کے آخری خلیفہ کو اللہ کی طرف سے یہ اذن مل جائے گا کہ وہ اپنے علم کی بنیاد پر فیصلے سنائیں۔
امامزمان علیہ السلام علیہ السلام باطن پر عمل کریں گے آپ باطن کو جان لیں گے آپ علیہ السلام حضرت داﺅد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرح فیصلہ کریں گے آپ علیہ السلام فیصلہ میں کسی گواہ اور دلیل کے محتاج نہیں ہوں گے۔
۳۔ آپ علیہ السلام خود مظلوم کو تلاش کریں گے اور اس کے پیچھے جائیں گے ضروری نہیں کے متاثرین آپ علیہ السلام کے پاس آئیں تو آپ علیہ السلام تب فیصلہ کریں بلکہ آپ علیہ السلام خود مظلومین اور متاثرین کی دادرسی کے لئے ان تک پہنچیں گے کیونکہ آپ علیہ السلام کی ذمہ داری ہے کہ دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں آپ ایسے مظلوموں تک خود پہنچیں گے جن کی آواز کوئی نہیں سنتا یا وہ جرات اظہار نہیں رکھتے آپ علیہ السلام انہیں ان کا حق دلائیں گے آپ کے مقرر کئے ہوئے حاکم جو کہ پوری دنیا میں ہوں گے جب انہیں کوئی مشکل پیش آئے گی تو وہ اپنی ہتھیلی کی طرف دیکھیں گے ان پر حکم حقیقی اورصحیح وضعیت ظاہر ہوجائے گی جس کی بنیادپر وہ عدالت لگائیں گے اور فیصلہ کریں گے خلاصہ یہ کہ آپ کے مقرر کردہ حاکموں کو ہر وقت آپ علیہ السلام کی سرپرستی و راہنمائی حاصل ہوگی۔

آپ علیہ السلام کے دور حکومت میں اجتماعی زندگی
آپ علیہ السلام کے دور پر نور میں فقر و تنگدستی ختم ہو جائے گی جہالت نابود ہو جائے گی، ہر قسمی ظلم و ستم ختم ہوجائے گا اسلامی احکامات ہر ایک پر واضح ہو جائیں گے اور احکام قرآن پوری دنیا میں پھیل جائیں گے پورا عالم بشرتین گواہیوں کے پرچم تلے اکھٹا ہو جائے گا۔
(مہدی علیہ السلام موعود ص۹۰۱۱) (بحارالانوار ج۲۵ ص۶۱۳)

توحید کی گواہی ،نبوت کی گواہی اور ولایت کی گواہی
آپ علیہ السلام کے دور حکومت میں زندگی اپنے تمام معنوی پہلوﺅں کے ساتھ پورے عروج پر ہوگی حضرت ایسی شادیوں کو جو جبر و اکراہ کے ذریعہ کرائی گئی ہوں گی اور بے جوڑ و غیر مناسب شادیوں کو فسخ کردیں گے۔ آج کل پوری دنیا میں بجٹ کا اکثریتی حصہ دفاع اور فوجی سازوسامان پر خرچ ہورہا ہے، آپ کے دور حکومت میں جنگ وجدال نہ ہونے کی وجہ سے یہ تمام بجٹ رفاہ عامہ پر صرف ہو گا روایات میں درج ہے کہ اکیلی عورت عراق سے شام زیورات سے لدی ہوئی بیابان اور سرسبز و شاداب صحراﺅں میں سفر کرے گی لیکن کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا ایک اور روایت میں ہے کہ بھیڑ اور بھیڑیا ، گائے اور شیر آدمی اور سانپ و اژدھا ایک دوسرے کے ساتھ باہم زندگی بسر کریں گے اور ایک دوسرے سے مکمل محفوظ ہوں گے یہاں تک کہ چوہے کسی بوری یا تھیلی کونہیں کاٹیں گے، جزیہ ساقط ہوجائے گا، صلیب ٹوٹ جائے گی، تمام کرہ ارض پر خنزیر مار دیئے جائیں گے(بحارالانوار جلد۱۵، ص۱۶)(مہدی موعود ص۹۰۱۱بحارالانوارج۲ص۶۱۳،ص۲۱، ص۱۲۳،عصر ظہور ص۰۷۳)

آپ کے دور میں چھ عجیب کام
آپ علیہ السلام کے دور حکومت میں چھ عجیب و غریب کام انجام دیئے جائیں گے ۔
۱۔ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام لوگوں کے عقل کی سطح کو بلند کر دیں گے لوگوں میں عقلی شعور بڑھ جائے گا اور لوگ مکمل عاقل بن جائیں گے۔
۲۔ علم میں اضافہ کردیاجائے گا اور موجودہ علم سے کئی گناعلم و دانش میں اضافہ ہو جائے گا
۳۔ عدل بہت زیادہ ہو جائے گا عدل و انصاف اپنے عروج پر پہنچ جائیں گے۔
۴۔ آسمانوں اور زمینوں کے درمیان موجودپردے ہٹا دیے جائیں گے آسمانوں اور زمینوں میں موجود لوگوں اور دیگر مخلوقات کے درمیان آپس میں رابطے برقرار ہو جائیں گے۔
۵۔ معنویت کے دریچے کھول دیے جائیں گے انسان اور فرشتوں کے درمیان رابطہ ہو گا لوگ مُردوں سے رابطہ کر سکیں گے۔
۶۔ چالیس سال تک کوئی بیمار بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی فوت ہو گا ۔(کمال الدین باب ۷۵، جلد ۲، ص۵۷۶) (مہدی علیہ السلام موعود ص۵۱۱۱)(بحارالانوار ج۲۵ ص۶۳۳) (بحارالانوار ج۲۵ ص۱۲۳) (عصر ظہور ص۰۷۳)(الملاحم والفتن سید ابن طاﺅس ص۷۹)

امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی مدت حکومت
آپ علیہ السلام کی حکومت کی مدت بارے مختلف روایات ہیں جن کی رو سے آپ کی حکومت کی مدت آٹھ سال، انیس سال، بیس سال، چالیس سال ، ستر سال، تین سو نو سال ذکر ہے ۔ لیکن میری نظر میں (مصنف) چالیس سال کی مدت عقل و نقل دونوں کی رو سے مناسب تر ہے البتہ از لحاظ عقل یہ مراد ہو سکتا ہے کہ ایک لمبی انتظار، ایک ایسے دور حکومت کے لئے جس کی مدت صرف ۷ یا ۹۱ یا ۰۲ سال ہونا مناسب نہیںہے لیکن بالحاظ نقل امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا خطبہ جو کہ آخر کتاب میں ذکر ہے دو خطبوں میں آپ کی حکومت کی مدت کی طرف ۰۴ سال کا اشارہ کیا گیا ہے کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی مدت حکومت چالیس سال ہوگی۔
جناب رسول اکرم فرماتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول ہوگا اور انہوں نے دجال کو قتل کر دیا تو ایسی صبح آئے گی جس کا سورج مغرب سے طلوع ہوگا اس چالیس سال میں نہ کوئی بیمار ہوگا اور نہ ہی کوئی فوت ہوگا اس فرمان نبوی سے اشارہ ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی حکومت کی مدت چالیس سال ہوگی۔ارطاة کہتا ہے کہ ہمیں جو خبر ملی ہے اس کی رو سے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی حکومت چالیس سال ہوگی آپ علیہ السلام چالیس سال پس از ظہور زندہ رہیں گے اور پھر آپ علیہ السلام کا انتقال طبعی موت سے ہوگا۔آپ کے شہید ہونے بارے صرف ایک کتاب الزام الناصب میں ذکر ہے اس کے علاوہ کسی اور کتاب میں آپ کی شہادت بارے ذکر نہیں بلکہ طبعی موت کا ذکر ہے۔
یزدیؒ نے الزام الناصب میں یہ روایت یوں نقل کی ہے کہ جب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی حکومت کے ۶۷ سال پورے ہوگئے اور آپ علیہ السلام کا وقت موت قریب آیا تو بنی تمیم کی ایک عورت آپ علیہ السلام کو شہید کرے گی جس کا نام سعیدہ ہوگا اس کی مردوں کی طرح داڑھی ہوگی آپ راستہ سے گذررہے ہوں گے تو وہ عورت اپنے گھر کی چھت سے آپ پر پتھر کا بھاری برتن گرائے گی جس سے آپ کی شہادت واقع ہو گی جب آپ علیہ السلام کا انتقال ہوگا تو امام حسین علیہ السلام آپ علیہ السلام کی تجہیز وتکفین کریں گے۔
مرحوم علامہ قزوینی جو کہ کتاب”مھدی من المھدالی الظہور“ کے مصنف ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آقائے یزدی نے جو امام کی شہادت کا ذکر ایک عالم دین کے کہنے پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے اے کا ش وہ اس عالم دین کا نام بھی ذکر کر دیتے۔(عیون اخبارالرضا جلد۲، ص۶۵۲)

امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی طبعی موت
میرے نزدیک (مصنف)امامزمان علیہ السلامہ کے قتل ہونے کے بارے ہمارے پا س دلیل نہیں ہے امامزمان علیہ السلام ہمارے باقی آئمہ علیہم السلام سے مستشنیٰ اور منفرد ہیں آپ کی وفات طبعی موت سے ہو گی جب کہ باقی سب کے سب شہید ہوئے۔امامزمان علیہ السلامہ چالیس سال بعد از ظہور دنیا سے انتقال کر جائینگے۔ امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کے شہید نہ ہونے کے بارے ہمارے پاس کچھ دلائل ہیں جنکا ہم تذکرہ کرتے ہیں۔
1۔ اگر یہ کہیں کہ آپ کی موت قتل سے ہو گی تو پھر نقص غرض لازم آتا ہے یعنی آپ کے قیام و ظہور کی غرض ظلم و جور کا خاتمہ ہے پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ خود ظلم کا شکار ہوں اس کا مطلب ہے آپ نعوذ بااللہ ظلم ختم نہ کر سکے۔
2۔ امامزمان علیہ السلامہ باطن سے آگا ہ ہیں دلوں کے بھید جانتے ہیں لوگوںکی نیتوں سے آگاہ ہیں کیسے ممکن ہے کہ ان کے بارے قتل کا ارادہ یا نیت کی جائے۔
3۔ آپ کے قتل ہونےکے بارے کوئی معتبر مدرک اور روایت نہیں ہے۔
4۔ مشہور مضمون جو کہ رسول خدا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ، امام رضا علیہ السلام و دیگر آئمہ سے مروی ہے کہ ”مَا مِنَّا اِلَّا مسموم ومقتول“ ہم میں سے کوئی زہر سے شہید ہو گا تو کوئی شمشیر و خنجر سے اس روایت کی صحت کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ امامزمان علیہ السلامہ کی ولادت اور آپ کی وفات اس قانون سے مستشنیٰ ہے
5۔ جب شیطان اور تمام مفسد قتل کر دئے جائیں گے ظلم و جور کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا تو کیسے ممکن ہے کہ ایسا ظالم موجود ہو جو آپ کو شہید کرے۔
6۔ جس عورت کی طرف آپ کے قتل کو منسوب کیا گیا ہے قتل کی وجہ یعنی وجہ عناد کا ذکر نہیں ہے۔لہٰذا یہ بات کہ حضرت امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلامکو کوئی بدبخت عورت شہید کرے یہ بات درست نہیںہے۔

امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام
ومن قتل مظلوما فقد جعلنا لولیہ سلطانا فلا یسرف فی القتل انہ، کان منصورا“۔( سورہ اسرائیل ۳۳)
جو کوئی نا حق قتل کر دیا گیا ہم اس کے وارث و ولی کو سلطنت دیں گے کہ وہ انتقام میں زیادتی نہیں کرے گاوہ ہماری طرف سے مدد شدہ ہے روایات میں ہے کہ اس آیت میں مظلوم سے مراد امام حسین علیہ السلام ہیںاور ان کے خون کے وارث امامزمان علیہ السلام(عج) ہیں۔
ہم یہاں امامزمان علیہ السلام علیہ السلامکے امام حسین علیہ السلامسے ارتباط بارے کچھ توضیح دیں گے۔
1۔ زیارت ناحیہ میں ہے کہ امامزمان علیہ السلام صبح و شام امام حسین پر گریہ فرماتے ہیں
2۔ امامزمان علیہ السلام کا ظہور اور قیام بھی روز عاشورہ ہو گا۔
3۔ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے خون کے انتقام لینے والے ہیں۔منتقم خون حسین!امام حسین کے روضہ مبارک کے گنبد پر نصب سرخ پرچم کی تنصیب اسی انتقام کی طرف اشارہ ہے کہ انتقام ابھی باقی ہے۔اسی لئے دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں این الطالب بدم المقتول بکربلا کہاں ہے خون حسین کا حساب لینے والا۔
اسی لئے جب آپ کا ظہور ہو گا تو آپکے نعروں میں سے ایک نعرہ یہ ہو گا کہ یا لثارات الحسین علیہ السلام
4۔ چہاردہ معصومین علیہ السلام میں پنجتن پاک علیہ السلام کے بعد امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا مرتبہ و رتبہ بالا تر ہے امام حسین علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کا مقام بلند ہے۔
5۔ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اپنی وفات کے وقت زمام حکومت اپنے جدبزرگ امام حسین علیہ السلام کو دے جائیں گے جو کہ بذریعہ رجعت تشریف لاچکے ہوں گے۔
6۔ حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام ہی آپ کو غسل و کفن دیں گے اور آپ علیہ السلام کواپنی قبر میں اتار دیں گے۔ (بحارالانوار ج۳۵ ص۳۰۱)(تفسیر نورالثقلین جلد۳، ص۳۶۱)

زیباتراز زیبا
صورتگر گھلھا منم

زیباتر از زیبا منم
گر بنگری کونین را

آن ا حسن ال حُس نیٰ منم
دریای ہستی یک صدف

آن لو لو لا لا منم
خورشید آفاق وجود

ای چشم نابینا!منم
گر طالب دنیاستی

دنیا و مافیہا منم
گر عاشقی فردوس را

آن جنّة الما وی منم
گر والہ ای اللّٰہ را

مرآت آن یکتا منم
مجلای اللّٰہ الصمد

وان جملہ اسما منم
آن نور موسای کلیم

درسینہ سینا منم
آرندہ عیسی زچرخ

در آن شب یلدا منم
معراج راگر ببنگری

مصداق (ا َوا دنیٰ) منم
گر بشنوی آیات وحی

معانی (مَا ا و حَیٰ) منم
رہ گم مکن سوی من آی

آن مشعل دنیا منم
بعد از خداوند جہان

آن مقصد ا علامنم
در تنگنای زندگی

ملجایِ پا برجا منم
آن دیدہ بان خاکیان

از صفحہ خضرا منم
بر کرسی و لوح و قلم

بر سدرہ و طوبیٰ منم
آن نور چشمان رسول

وان گلشن زہرا منم
گنجینہ عشق و وفا

مہدیّ بی ہمتا منم
نور (حقیقت) را نگر

تنہا منم ، تنہا منم
(دیوان ”گنجینہ گوھر“)
تشکیل شد بعد از قرونی دولت قرآن
باطل سر آمد دورہ اش، دوران احمد شد

”وَیَو مَ نَح شُرُ مِن کُلَّ ا مَّةٍ فَو جاًمِّمَّن یُکَذِّبُ بِآیٰتِنَافَہُم یُو زَعُو نَ“۔
”اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کر لائیں گے پھر وہ سب کے سب الگ کر دیئے جائیں گے“۔(سورہ نمل ۳۸)