ساتویں فصل
آستان ظہور
اعمال انتظار
زمانہ ظہور
علامات ظہور
آسمانی آوازیں
باب اول
اعلیٰ وارفع اعمال
فَرَج ، کشادگی اور اس کی اقسام
”واشرقت الارض بنورربھا“۔ (الزمر ۷۶)
ترجمہ:۔ ”زمین اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہوگی“۔
حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب سرکار امامزمان علیہ السلام (علیہ السلام) کا ظہور ہوگا تو زمین اس نور خدا (یعنی امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے نور) سے روشن ومنور ہوجائے گی اور زمین اس کے پاﺅں کے نیچے چلے گی (طیٰ الارض) اور وہ ہے کہ جس کا سایہ نہیں ہوگا۔ (بحوالہ کمال الدین ص۲۷۳)
فَرَجَ
فَرَج کا لغوی معنی کشادگی ہے یعنی تنگی سے باہر آنا فقر وتنگ دستی اور بیماری اور درد مصیبت سے باہر آن
فَرَج کی اقسام
فَرَج کی تین اقسام ہیں ۔۱۔فَرَج انفرادی ۲۔فَرَج اجتماعی ۳۔ فَرَج آل محمد۔
۱۔ فَرَج انفرادی
جب حضرت موسیٰ علیہ السلامنے فرعونیوں سے فرار کیا اور مصر سے مدائن پہنچے تو کہارب انی لما انزلت الی من خیر فقیر (سورئہ قصص۴۲) اے میرا اللہ تو جو کچھ بھیج دے میں نیاز مند اور ضرورت مند ہوں (یعنی بہت بھوکا ہوں تو فوری طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلامکےلئے فَرَج ہوئی اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اسے اپنے گھرد عوت دی اس طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے تنگدستی ، بیماری اور عالم کسمپرسی میں بیابان میں زندگی گذاری تو اپنے پروردگار سے التجاءکی انی مسنی الضر وانت ارحم الراحمین (سورئہ انبیاء علیہ السلام۳۸)
”خداوند سختی نے مجھے گھیر لیا ہے اور تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے“۔
اس التجاءسے ان کے لئے کشادگی و آسانی ظاہرہوئی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس میںنہا کر ایوب علیہ السلام اور ان کی بیوی پھر سے جوان اور صحت مند ہوگئے ۔
حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی /مگر مچھ کے پیٹ میں چلے گئے تو تنگی کی وجہ سے التجا فَرَج کی ”لاالہ الاانت سبحانک انی کنت من الظالمین “۔ (سجدہ انبیاء علیہ السلام۷۸)
”تیرے سوا کوئی معبود نہیں اور توپاک ومنزہ ہے اور میں ستمکاروں سے ہوں “۔
توفوراً اللہ تعالیٰ نے اسے اس تنگی سے فَرَج و کشادگی عطا کی اگر یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں یہ ذکر نہ کرتے تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتے (بحوالہ سورئہ الصفات ۴۴۱)
یہ مذکورہ بالا تمام مثالین فَرَج فردی وشخصی کی تھیں کہ ہمیں بھی جب کوئی تنگی اور ناگواری ہو تو ہمیں خداوند کریم سے التجا فَرَج وکشادگی کرنی چاہیے۔
۲۔ فَرَج اجتماعی
فَرَج اجتماعی کی دو قسمیں ہیں۔ (الف)فَرَج کشادگی شیعیان (ب)فَرَج وکشادگی عمومی
(الف) فَرَج وکشادگی شیعیان
اس بارے بہت زیادہ دعا ہائے فَرَج ذکر ہیں مثلاً دعائے الٰہی غطم البلا.... الخ، ان دعاﺅںکے ذریعہ ہم خداوندمتعال سے تمام شیعوں سے تنگی اور فقروبیماری دورہونے کی دعا کرتے ہیں اور بالخصوص پروردگار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور کے ذریعہ شیعوں کی مشکلات آسان فرمائے۔
(ب) فَرَج اجتماعی وعمومی
حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں تمام جہان کے لئے فَرَج وکشادگی کی التجاءکی ہے قرآن کریم میں ہے کہ ”رب لاتذرعلی الارض من الکافرین دیارًاo انک ان تذرہم یضلوا عبادک ولا یلدوا الافاجِرًا کفارًا “۔ (سورئہ نوح آیت ۷۲،۶۲)
”اے میرے پروردگار زمین پر کوئی کافر باقی نہ رکھ اگر تونے کفار کو ان کے حال پر باقی رکھا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی آئندہ نسل بھی فاسد وفاجر ہوگی“۔
۳۔ فَرَج آل علیہ السلام محمد
بہت زیادہ دعاﺅں میں فَرَج آل علیہ السلاممحمد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ فَرَج آل علیہ السلام محمد کے لئے دعا کریں جس دن سے پیامبراکرم نے رحلت فرمائی اسی دن سے آل علیہ السلام محمد اور ان کے شیعوں پر ظلم وستم کا آغاز ہوگیا مادی اور معنوی دونوں طریقوں سے آل علیہ السلام محمد اور سادات وشیعوں پر ظلم وستم روا رکھے گئے اور بہت زیادہ تعداد اسی بنا پر قتل کی گئی امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور پر نور کے ذریعہ آل محمد پر اب تک روا کیے گئے ظلم سے اور تنگی سے فَرَج وکشادگی حاصل ہوگی اسی لیے کہاجاتا ہے کہ ”اللھم صل علی محمد وآل علیہ السلام محمد وعجل فَرَج آل علیہ السلام محمد“۔ خداوند محمد وآل علیہ السلاممحمد پر درود بھیج اور ان کے لئے کشادگی عطا فرما۔یارب الحسین علیہ السلام بحق الحسین علیہ السلام اشف صدرالحسین علیہ السلام بظہور الحجة“۔ اے پروردگارِ حسین علیہ السلام بحق حسین علیہ السلام امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور کے ذریعہ امام حسین علیہ السلام کے دل کو شفا وسکون عطا فرما، جو یقینا ظہور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے حاصل ہوگا۔
انتظار فَرَج
انتظار کامقصد ہے ہر قسمی فداکاری اور جانثاری کے لئے اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ علیہ السلام کومکمل آمادہ اور تیار رکھنا اپنے آپ علیہ السلام کو تیار کر کے پھر انتظار کرنا کہ سرکار علیہ السلام کب ظہور فرمائیں اور میں ان کے لشکر میں شامل ہو کر اپنی جان نثار کرو۔انتظار ہی درحقیقت ہمارے لیے امید ہے اور ہمارے دلوں کو گرم رکھنے کا ذریعہ ہے انتظار کا الٹ مایوسی ہے اور ناامیدی اور قرآن مجید میں ناامید اورمایوسی سے منع کیا گیا ہے اور ہمیں انتظار کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ انتظار کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی دامن گیر نہ ہو ارشادد ہے ”فانتظروا انی معکم من المنتظرین“۔ (اعراف ۱۹)حضرت امیرالمومنین علیہ السلام جناب رسالتماب سے نقل فرماتے ہیں کہ ”حضور نے فرمایااحب الاعمال امتی انتظار الفرج، میری امت کے محبوب ترین اعمال میں ہے فَرَج وکشادگی کا انتظار کرنا“۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام بھی حضور کے فرمان کو نقل فرماتے ہیں ”افضل اعمال امتی انتظار فَرَج اللہ عزوجل“۔ (عیون اخبارالرضا)کیونکہ انتظار بذات خود امیدوزندگی دل کا باعث ہے اور مایوسی موت ہے اسی بنا پر امام زین العابدین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ”انتظار الفَرَج من اعظم الفرج“ ، کشادگی کا انتظار کرنا بذات خود کشادگی ہے ۔
عصر سے مراد
”والعصر ان الانسان لفی خسر“ (سورةالعصر)”عصر کی قسم انسان خسارہ میں ہے ‘ ‘۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں عصر سے مراد جس کی خداوند کریم نے قسم کھائی ہے عصر ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہے شیخ صدوقؒ نے اپنی سند کے ساتھ اور مفضل بن عمر کی روایت کے ساتھ انہی معصوم علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے سورئہ والعصر کے عصر بارے پوچھا کہ یہ کون سازمان علیہ السلامہ ہے؟ جس کی اللہ نے قسم اٹھائی ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اس عصر سے مراد عصر ظہور قائم علیہ السلام ’انہم یرونہ بعیدًا ونراہ قریبا“(معارج۶،۷) روایات میں ہے کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکارزمان علیہ السلامہ غیبت میں مثل سورج کے ہیں جو بادلوں میں چھپا ہوتا ہے غروب کے وقت جب کہ سورج چھپ رہا ہوتا ہے اور چھپ جاتا ہے تو بھی اس کی شعاعیں دنیا کومنور اور روشن رکھے ہوتی ہیں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بھیزمان علیہ السلامہ کے لیے خورشید عالم ہیں انہوں نے بھیزمان علیہ السلامہ غیبت میں مثل سورج کے آہستہ آہستہ غروب کیا ہے اس خورشید عالم نے غیبت صغریٰ کے ۲۷ سال اپنے چار نائبوں کے ذریعہ اپنے ماننے والوں شیعوں تک اپنی روشنی پہنچائی اور پھر اس کے بعد لمبی غیبت کبریٰ کا آغاز ہوا۔(مہدی علیہ السلام موعود ص۵۴۸)جب سورج کا طلوع ہوتا ہے تو اس کی روشنی طلوع سے پہلے ہی دنیا کوروشن کرتی ہے جسے صبح صادق کہاجاتا ہے صبح صادق کے تمام ہوتے ہی پھر سورج اچانک طلوع ہوجاتا ہے اسی طرح خورشید عالم سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے پہلے زمین پر اور خصوصاًشیعوں کے درمیان کچھ آثار ظہور امام پیدا ہوں گے جن کو ہم آثار ظہور صغریٰ کہتے ہیں ظہور صغریٰ کے بعد ظہورکبریٰ ہوگا۔
ظہور صغریٰ
اب ہم ظہور صغریٰ کے اثبات میں اور اپنے اسزمان علیہ السلامہ کو جس میں ہم ہیں عصر ظہور صغریٰ بارے گفتگو کریں گے۔
۱۔ ایک جیّد عالم دین جو کہ وفات پاچکے ہیں نے فرمایا کہ عصر ظہور صغریٰ کا ۰۴۳۱ ھ ق سے آغاز ہوگا انہوں نے عصر ظہور صغریٰ کی دلیل دی کہ علوم جدید نئے نئے فنون و ایجادات مثلاً ریڈیو ٹیلی فون، جدید ترین وسائل حمل ونقل تیزرفتار ترین وسائل کی ایجاد اور تیل سے پیدا شدہ مصنوعات بذات خود علائم عصر ظہور صغریٰ ہیں اس لیے اسزمان علیہ السلامہ کو عصر ظہور صغریٰ کہاجاسکتا ہے جیسا کہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ ہر نبی کامعجزہ اس نبی کےزمان علیہ السلامہ کے علم وہنر کی مناسبت سے ہوتا رہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کےزمان علیہ السلامہ میں جادوگری کافن بہت رائج تھا جس کی وجہ سے عصائِ موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں کی مصنوعات کو نگل لیا۔حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کےزمان علیہ السلامہ میں علم طب عروج پر تھا بہت بڑی بڑی بیماریوں کے علاج ہوتے تھے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مادرزاداندھوں کو بینا کرکے اور مردوں کو زندہ کر کے اس دور کے ماہرین کے غرور اور ناموری کو توڑاہمارے پیغمبر اسلام کےزمان علیہ السلامہ میں فصاحت وبلاغت اور ادب زوروں پر تھے ہمارے رسول اکرم اپنے ہمراہ قرآن لائے جو فصاحت وبلاغت کا اعلیٰ نمونہ ہے اور اس کی فصاحت کے مقابل تمام فصحا عاجز آگئے چونکہ قرآن فصاحت وبلاغت کا اعلیٰ شاہکار ہے۔جب سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو کرہ ارض کا علم جو27حروف میں سے صرف ۲حرف ہے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ان دوحروف کے مقابل ۵۲ حروف اور اضافہ کرکے علوم و فنون کو مکمل فرمائیں گے اور اس وقت کے علم وادب فن وہنرکے نامور برج ،ان کے علم ودانش کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے، جدیدعلوم کا اس دور میں پیدا ہونا سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور کا پیش خیمہ ومقدمہ ہے اور جدید علوم وقفوں کاظاہر ہونا بذات خود عصر ظہور صغریٰ ہے۔
۲۔ آج سے ۰۸ سال پہلے شرح خواندگی بہت کم تھی اور کرہ ارض پر بہت کم لوگ اہل علم ودانش تھے بلکہ خود شیعوں کی تمام ترتوجہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرف تھی لوگ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے بارے بہت کم ذکر کرتے اورجانتے تھے پھر اس کے بعد آہستہ آہستہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی طرف لوگ زیادہ متوجہ ہونے لگے اور آپ کے مقدس نام پر بہت زیادہ نام رکھے جانے لگے بہت زیادہ اداروں، مسجدوں، عبادت گاہوں، شاہراﺅں کے نام آپ کے مقدس نام”مہدی علیہ السلام“ پر رکھے جانے لگے پھر آپ کے متعلق دعائیں مثلاً دعائے ندبہ، دعائے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام،بہت زیادہ پڑھی جانے لگیں آپ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نہ صرف شیعیان جہان میں زبان زد عام ہوگئے بلکہ تمام دنیا میں بلا امتیاز مذہب ومسلک اس مصلح جہانی کا چرچا عام ہوگیا۔حتیٰ کہ اہل سنت میں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار کا نام مہدی علیہ السلام بہت زیادہ عقیدت وشہرت حاصل کر گیا ہے جس کی ایک مثال سوڈان کے اہل سنت کی ایک جماعت ہے جس کا نام انہوں نے حزب انصار المہدی علیہ السلامرکھا ہے۔
۳۔ اسزمان علیہ السلامہ جدید جسے ہم ”عصر ظہور صغریٰ “کہتے ہیں سے پہلے آ پ کی ولادت کے حوالہ سے کوئی خاص تقریب یا جشن نہیں منایا جاتا تھا لیکن اب لوگ بہت زور وشور اور انتہائی عقیدت و احترام سے بھاری بھرکم اخراجات کرکے بہت ہی عمدہ انداز سے مناتے ہیں آج سیکڑوں نہیں ہزاروں کتب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی ذات کے حوالہ سے منظر عام پر آچکی ہیں(جب کہ اس سے پہلے چند قدیم کتابوں کے امامزمان علیہ السلامہ کے بارے کوئی کتاب میسر نہ تھی)یہ سب اقدامات اس چیز کی دلیل ہیں کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے تمام دنیا کی توجہ آپ کی طرف بہت زیادہ مبذول ہوئی ہے۔
۴۔ چونکہ یہزمان علیہ السلامہزمان علیہ السلامہ ظہور صغریٰ ہے جس کی وجہ سے بہت زیادہ لوگ اسزمان علیہ السلامہ میں آپ علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہورہے ہیں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے دیدار بارے بہت زیادہ واقعات ، کتب چھپ کر منظر پر آچکی ہیں اس سے پہلے جناب کی زیارت بہت کم لوگوں کو ہوتی تھی اور یہ خورشیدِعالم وجود بہت کم لوگوں کو شرف زیارت بخشتے تھے۔
۵۔ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نے عالم خواب میں اور بیداری کی حالت میں بہت زیادہ لوگوں کو اپنے ظہور کے قریب ہونے کی خوشخبری دی ہے بلکہ یہاں تک ہے کہ کچھ افراد کو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نے بیداری کی حالت میں فرمایا کہ فلاں توزندہ ہے اور وہ میرے ظہور سے پہلے نہیں مرے گا۔
۶۔ اکثر علامات ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام” جن کا تذکرہ متعدد کتب میں ہے“ واقع ہوچکی ہےں بعض بزرگ معتقد ہیں کہ صرف پانچ علامات باقی ہیں جن کے ساتھ ہی ظہورامامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکارحتمی ہو جائےگا
علامات ظہور امام علیہ السلام
۱۔ جامع الاخبار میں رسول خدا سے مروی ہے کہ حضور فرماتے ہیں ایسازمان علیہ السلامہ آئے گا کہ لوگوں کا پیٹ ان کا خدا ہوگا ان کی عورتیں ان کا قبلہ ہوں گی اسزمان علیہ السلامے کے لوگوں کے دینار ان کا دین ہوں گے ان کے سازوسامان ان کا شرف وعزت ہوں گے اسلام سوائے نام کے اور قرآن سوائے پڑھنے کے اور کچھ نہیں ہوگا اسزمان علیہ السلامے کی مسجدیں آباد ہوں گی مسجدوں میں رونق ہوگی مگر ان کے دل برباد ہوں گے اور خالی از ہدایت ہوں گے۔(کرامات المہدی)
۲۔ کتاب بشارة الاسلام میں حضور نبی اکرم سے مروی ہے حضرت فرماتے ہیں کہ کیساجانتے ہو ایسےزمان علیہ السلامہ کو جب تمہاری عورتیں تباہ کاراور تمہارے جوان فاسق وبدکار ہوں گے اور تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کرو گے، اصحاب نے عرض کی یارسول اللہ کیا ایسازمان علیہ السلامہ آئے گا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس سے بھی بدتر آئے گا وہ وقت کیا ہوگا جب تم برائی کا حکم دو گے اور نیکی سے روکو گے اصحاب نے عرض کی کیا ایسا بھی ہوگا؟فرمایا اس سے بھی بدتر ہو گا وہ وقت کیسا ہوگا تم نیکی کو برائی اوربدی کو اچھائی جانو گے۔
۳۔ ہوائی جہاز اور جنگی طیاروں کے وجود میں آنے کی پیشین گوئی آقائے عمادزادہ نے اپنی کتاب زندگانی ولی عصر علیہ السلام میں ایک حدیث رسول خدا سے نقل کی ہے حضرت فرماتے ہیں ایکزمان علیہ السلامہ آئے گا تمہارے بیابانوں میں آگ لگ جائے گی جو بغیر شعلہ ہوگی اور سرد ہوگی یہ ٹھنڈی آگ لوگوں کے جان ومال کو کھا جائے گی اور یہ آگ تمام دنیا میں گھومے گی یہ آگ ایک ایسی چیز میں ہوگی جو پرندے کی طرح پرواز کرے گی اس کی پرواز مثل تیز ہوا اور بادل کے ہوگی یہ چیز زمین اور آسمان کے درمیان لوگوں کے سروں پر پرواز کرے گی اس پرواز کرنے والے طیارہ کی آواز اور کڑک مثل بادل اور بجلی کی چمک کی آواز اور کڑک کے ہوگی۔
۴۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں آخریزمان علیہ السلامے میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور قابل احترام جگہوں پر ساز وسرود بجیں گے لیکن انہیں روکنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوگی (کتاب ادیان و مہدویت )
۵۔ ایران میںبغاوت رضا خان(اس نے ۹۹۲۱ہجری شمسی میں قزوین سے قیام کیا) شیخ طوسی نے کتاب غیبت میں جناب محمد بن حنفیہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ بغاوت کیا ہوگی؟اور کیسے ہوگی؟ تو حضرت نے اپنے سرکو ہلایا اور پھر فرمایا یہ بغاوت واقع ہوگی مگر ابھی توزمان علیہ السلامہ نے اپنی سختی کو وارد نہیں کیا اور میرے بھائیوں( اہل ایمان) پر جفا نہیں کی تو پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ بغاوت ابھی واقع ہوحالانکہ اس بادشاہ نے ظلم وستم ابھی نہیں کیا کیسے ظلم وستم ہو جب کہ ابھی تک تو اس زندیق (رضاخان) نے قزوین سے قیام نہیں کیااور اس خطے کے لوگوں کی ناموس کو برباد نہیں کیا ابھی وہ زندیق نہیں آیا کہ علاقہ کے لوگوں کے سروں کو کاٹے ان کے رواجوں کو توڑے ان کی عزت وآبرو کو ان کی شان کو برباد کردے ہر وہ شخص جو اس زندیق سے فرار کرے گا وہ زندیق اسے اپنے چنگل میں لے گا ہر وہ جو اس زندیق سے جنگ کرے گا وہ اسے قتل کردے گا ہر وہ شخص جو اس زندیق سے کنارہ کشی اختیار کرے گا وہ تنگدست ہوجائے گا اور ہر وہ شخص جو اس کی بیعت کرے گا کافر ہو جائے گا یہاں تک کہ لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک گروہ اپنے دین کے ہاتھ سے جانے کی وجہ سے گریہ کرے گا دوسرا گروہ دنیا ہاتھ سے جانے کی وجہ سے گریہ کرے گا۔ (بحوالہ کتاب مہدی موعود۶۸۹) (رضاخان خائن نے ۹۹۲۱ھ میں قزوین سے قیام کیا)
۶۔ کتاب غیبت نعمانی میں ابان بن تغلب سے روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیںاذظہرت رایة الحق لعنہا اہل الشرق والغرب اتدری لِمَ ذلک ، قلت لاقال، للذی یلقی الناس ومن اہل بیتہ قبل خروجہ(کتاب مہدی موعود ۹۲۱۱)
جب حق کا پرچم ظاہر ہوگا تو اہل شرق وغرب اس پر لعنت کریں گے جانتے ہو کیوں؟ میں نے عررض کیا نہیں فرمایا ان سختیوں کی وجہ سے جولوگوں کو ان کے خاندان یعنی سادات کی وجہ سے ان کے ظہور سے قبل ملی ہوں گی۔
۷۔ صعصعہ بن صوحان نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سوال کیا کہ دجال کب خروج کرے گا فرمایا ”جب لوگ نماز کو مار دیں گے، امانت کو ضائع کریں گے، جھوٹ کو حلال جانیں گے سوداور رشوت کو خوش ہو کر لیں گے، بلند وبالا عمارتیںبنائیں گے، دین کو دنیا کے عوض بیچ دیں گے، بے وقوف اور گمراہ لوگوں سے کام لیا جائے گا، عورتوں سے مشورہ لیا جائے گا، اپنے اقرباءسے قطع رحمی ہوگی، اپنی خواہشات ونفس کی پیروی ہوگی، خونریزی اور قتل وغارت گری کو معمول سمجھا جائے گا، حلم وبردباری کو کمزوری سمجھا جائے گا، بے ہودگی اور لغویات کو فخر سمجھاجائے گا، امراءوحکمران فاسق ہوں گے اور وزیر ستم گر ہوں گے ، خیانت کار معروف ہوں گے، قرآن کے قاری فاسق ہوںگے، جھوٹی گواہی فجور بہتان اور گناہ ظاہری ہوگا، دنیا کے حرص میں فاسقوں کی آواز بلند ہوگی۔
۸۔ مجمع نورین اور غیبت ابن عقدہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ حضرت نے فرمایا عجم کے دوگروہوں میں کلمہ عدل پر اختلاف ہوگا جس میں ہزاروں لوگ مارے جائیں گے شیخ طبرسی انکی مخالفت کرینگے اور وہ تختہ دار پر لٹکا دیے جائیں گے بعض لوگ کہتے ہیں کہ کلمہ عدل سے مراد مشروطیت(قاچاریہ بادشاہوں کے آخری دور میں ایران کے اندر جو اصلاحی تحریک چلائی گئی اسے مشروطیت کا عنوان ملا(مترجم)) ہے اور شیخ طبرسی سے مراد شیخ فضل اللہ نوری ہیں جو ۹۲۳۱ قمری میں تختہ دار پر چڑھا دیئے گئے ۔
۹۔ کتاب ناسخ التواریخ میں درج ہے کہ جناب عمر بن خطاب کے فارس فتح کرنے کے بعد ابوموسیٰ اشعری فاتح فارس جو کہ فتح خراسان کے لئے آگے بڑھنا چاہتا تھاجناب عمر، ابوموسیٰ اشعری کو خط لکھنے میں مشغول تھا حضرت امیرالمومنین بھی وہاں تشریف فرماتھے آپ نے جناب عمر کو فتح خراسان سے منع کیا اور ڈرایا اور طالقان کی بڑی تعریف کی اور فرمایا کہ وہاں اللہ کے خزانے بہت ہیں جو کہ مال ودولت نہیں بلکہ ایسے دانشور مردوں کے روپ میںہیں جو کہ خدا کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے پہچاننے کا حق ہے اور یہ لوگ آخریزمان علیہ السلامہ میں قائم آل محمد کے خدمتگار ہوں گے، البتہ آخریزمان علیہ السلامہ میں شہر ہرات پر پرندے (طیارے) بمباری کریں گے اور اس شہر کے لوگوں کو برباد کردیں گے اور شہر ترمد کو طاعون کی بیماری اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور اس شہر کے لوگ فنا اور نابود ہوں گے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آخریزمان علیہ السلامہ میں ۳ملین لوگ مشرق اور مغرب میں قتل ہوجائیں گے بعض لوگ دوسرے بعض کو قتل کریں گے اور یہی روایت اس آیت مبارکہ کی تاویل ہے ۔ ”فما زالت تلک دعواہم حتی جعلنا ہم حصیداً خامدین“۔ (سورئہ انبیاء۵۱)”پس ان کا یہی دعویٰ اور بات تھی اسی پر وہ قائم تھے کہ ہم نے انہیں مردہ قرار دے دیا“۔(مہدی علیہ السلامموعود۹۲۲۱)
قرآن اور دنیا کی دیگر پیشین گوئیاں
قرآن جو کہ اللہ کا کلام ہے اس میں آنے والےزمان علیہ السلامہ بارے بہت زیادہ پیشینگوئیاں ہیں اس میں یہ آیت بھی ہے کہ ”فَھَلَ ینتظرون اِلَّا مثل اَیَّام الذین خلوامن قبلھم قل فانتظِروا انِی معکم من المنتظرین“۔ (سورئہ یونس ۲۰۱)یہ آیہ مبارکہ بعض تفسیروں کے مطابق آنے والے باغی اقوام کے بارے ہے اور آنے والی بلاﺅں اور جنگ عظیم بارے ہے۔
تیسری جنگ عظیم
واقعہ آرماگدون غرب اور ظہور امام علیہ السلام سے قبل کی آمادگی اور یونانی نظریہ کے مطابق آخری اور حتمی جنگ جو حق اور باطل کے درمیان ہوگی اور جو شام، اردون، لبنان، فلسطین اور اسرائیل کے مناطق کے درمیان بہت بڑی جنگ ہوگی جو عہد جدید یوحنا کے سولہ نمبر باب میں درج ہے جسکی وجہ سے انسان کی موجودہ زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔صیحیحہ میّسر میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہے امام فرماتے ہیں ”اے میّسر!اس جگہ سے قرقیسا کتنا فاصلہ ہے میں نے عرض کی نزدیک ہے فرات کے کنارے آپ نے فرمایا اس خطہ میں ایک عجیب واقعہ ہوگا کہ جب سے خداوند نے زمین اور آسمانوں کوپیدا کیا ہے ایسا واقعہ نہیں ہوا اور جب تک آسمان ہے ایسا واقعہ پھرنہ ہوگا۔
عجیب دستر خوان
ایک ایسا دستر خوان کہ جس سے زمین کے درندے اور آسمان کے پرندے اپنا پیٹ بھریں گے یعنی بہت زیادہ قتل وکشتار ہوگا اور اسی طرح کی روایات حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے اور دیگر آئمہ (علیہم السلام) سے مروی ہیں مذکورہ بالا روایت کی روشنی میں اور یوحنّا کی پیشینگوئیوں کے مطابق اس واقعہ عظیم کو ہم تیسری جنگ عظیم کہہ سکتے ہیں اور وہ اسی علاقہ میں ہوگی روایات کی زبانی یہ واقعہ سفیانی سے مربوط ہے اور عیسائی اس واقعہ کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، اس واقعہ کا وقوع پذیر ہونا حتمی ہے البتہ کسی روایت میں پہلی دوسری یا تیسری جنگ عظیم کا نام نہیں لیا گیالیکن بہت زیادہ احادیث میں بہت سارے لوگوں کے اجتماعی قتل وکشتار کاذکر ہے۔ کتاب قرب الاسناد ابن عیسیٰ میں حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے روایت ہے جسے بزنطی نے نقل کیا ہے :”قال قدام ھذالامر قتل بیوح قلت وما البیوح قال دائم لایفتر“ (بحارالانوارج۲۵ص۲۸۱) امام فرماتے ہیں اس امر یعنی ظہور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے پہلے قتل یبوح ہوگاراوی نے سوال کیا کہ مولا یہ یبوح کیا ہے فرمایا ایسی جنگ کہ جو رکے گی نہیں۔ امیرالمومنین علیہ السلام سے روایت ہے حضرت نے فرمایا کہ ظہور مہدی علیہ السلام تب تک نہیں ہوگا جب تک ایک تہائی لوگ قتل نہ ہوجائیں گے اور ایک تہائی طبعی موت نہ مرجائیں گے اور ایک تہائی صرف باقی بچیں گے (بحوالہ کتاب عقدالدرر وصحیح بخاری)حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے دو طرح کی موت آئے گی سرخ اور سفید موت اور ہر سات افراد میں سے پانچ آدمی مرجائیں گے ۔ سرخ موت سے مراد قتل ہے اور سفید موت سے مراد مرگ طاعون ہے۔ (بحوالہ کمال الدین)
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے ظہور کی تین اہم نشانیاں
وہ لوگ جو ظہور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے موضوع پر مطالعہ رکھتے ہیں اور اس اہم ترین امر بارے تحقیق کرتے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اکثر علامات ظہور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ظاہر ہوچکی ہیں ہم یہاں ان علامات میں سے صرف تین علامتوں کا تذکرہ کریں گے۔
۱۔ دنیا کا ظلم سے پُرہو جانا
پیغمبر اسلام فرماتے ہیںلولم یبق من الدنیا الایوم واحدلطول اللّٰہ ذلک الیوم حتیٰ یلی رجلاً من عترتی اسمہ اسمی یملا الارض عدلاً وقسطاًکماملئت ظلماًوجوراً اگر دنیا کی عمر میں سے صرف ایک دن باقی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کردے۔
یہاں تک کہ میرے اہل بیت سے ایک مرد حکومت کرے گا جس کانام میرے نام پر ہوگا وہ زمین کو عدل وانصاف سے پر کردے گا جسطرح زمین پہلے ظلم وجور سے پر ہوگی(مجمع البیان جلد۷ صفحہ ۷۶۲)
ملاحظہ فرمائیں کیا دنیا ابھی ظلم وجور سے پر نہیں ہوئی؟ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ دنیا اس وقت ظلم وجور سے پر ہوگئی تھی جب مغلوں نے ایشیا پرحملہ کیا اورجب دوسری جنگ عظیم لگی تھی لیکن مغلوں کا حملہ یا جنگ ایشیا میں واقع ہوئی صرف ایشیا پُر ازظلم ہوا جب کہ باقی دنیا نہیں ہوئی تھی اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں پوری دنیا شامل نہیں ہوئی اور زمین کا کچھ حصہ ظلم سے پر ہوا جیسا کہ روایات کے حوالہ سے بیان کیا جا چکا ہے کہ ایسی جنگ وارد ہوگی کہ جس کی وجہ سے پوری دنیا کے 1/3لوگ ختم ہوجائیں گے اور شاید یہ واقعہ ایک ایسی جنگ ہو جسے تیسری جنگ عظیم کہا جائے گا اور اس کی وجہ سے پوری دنیا ظلم سے پُر ہو جائے گی۔
۲۔ مہذب و تربیت یافتہ افراد کا پیدا ہونا
علامات ظہور امام مہدی (علیہ السلام) سے ایک اہم ترین علامات ۳۱۳ مہذب وباتربیت افراد کا پوری دنیا میں پیدا ہونا ہے امام علیہ السلام کے ظہور میں تاخیر سے پتا چلتا ہے کہ ایسے افراد ابھی جمع نہیں ہوئے
۳۔ مصلح عالم کی آرزﺅ
ابھی تک عمومی طور پر پوری دنیا کے لوگوں کی طرف سے ظہور مصلح عالم کی خواہش کی درخواست کی صورت پیدا نہیں ہوئی اگرچہ اس کی نشانیاں ظاہر ہونا شروع ہوگئی ہیں کچھ عرصہ سے لوگ علماءوروحانیونِ اسلام اور علماءمسیحیت سے بے زار نظر آرہے ہیں اور ان کا جھکاﺅ دانشوروں اور سائنسدانوں کی طرف رہا ہے لیکن سائنس دانوں کی طرف سے مہلک ترین ایٹمی وجراثیمی ہتھیار تیار کرنے کی وجہ سے ان سائنسدانوں اور دانشوروں سے مایوس ہوکر لوگوں نے اپنی توجہ مختلف بین الاقوامی انجمنوں کی طرف کر لی اب لوگ متوجہ ہیں کہ جن اغراض ومقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے بین الاقوامی انجمنوں کی طرف رجوع کیا تھا وہ اغراض و مقاصد پورے کرنا ان انجمنوں کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ انجمنیں شاید دس (10)فیصد بھی توقعات پوری نہ کرسکیں اب لوگ مایوس ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ لوگ متوقع تیسری جنگ عظیم کی وجہ سے ابھی سے پریشان ہیں اور لوگوں نے اس پریشانی کی وجہ سے اب اللہ رب العزت کی طرف رجوع کر لیا ہے اور خدا سے ایک ایسے اصلاح کندہ (مصلح) کی طلب رکھتے ہیں جو ان کو مایوسیوں سے نکالے اور ان کی پریشانیاں ختم کرے اور خداوند اپنے وعدہ کے مطابق کہ ”اَمَن یجیبُ المضَطَّر اذا دَعَاہُ ویکشف السوئ“۔ (سورئہ نمل ۲۶)ضرور مصلح بھیجے گا تاکہ سوال کرنے والوں کا اضطراب ختم ہو اور اللہ ضرور ایک مصلح جو درحقیقت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہیں کا ظہور فرمائے گا۔
آسمانی آوازیں
حضور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور کی نشانیوں میں سے ایک نشانی آسمانی آوازوں کا آنا ہے ایسی روایات جن میں ان آوازوں کا ذکر ہے ان میں متعدد آوازوں کا تذکرہ ہے بعض روایات میں ۹ آوازوں کا ذکر ہے ان ۹ آوازوں میں سے ایک آواز شیطان کی ہوگی ہم ان آوازوں کے بارے میں تفصیلاً ذکر کرتے ہیں۔
ماہ رجب میں تین آسمانی آوازیں
حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک مفصل حدیث ہے جس میں حضرت فرماتے ہیں کہ ”ماہ رجب میں تین آوازیں آسمان سے سنائی دیں گی ۔
پہلی آواز
اَلَا لَعنة اللّٰہ علی الظالمین آگاہ رہو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
دوسری آواز
”اَزِفَتِ ال ازفةُ یامعشرالمومنین“ قیامت نزدیک ہے اے مومنوں کے گروہ۔
تیسری آواز
خداوند نے فلاں( مہدی علیہ السلام) کو بھیجا ہے اس کی پیروی کرو۔
چوتھی آواز
۳۲ ماہ رمضان المبارک کو ایک آواز آئے گی جس میں قائم علیہ السلام آل علیہ السلام محمد اور ان کے والد گرامی کا نام ہوگا اس نداءکا تواتر کے ساتھ ذکر ہے اسے (صیحہ آسمانی) آسمانی پکار بھی کہتے ہیں اور یہ علامت حتمی علامت ظہور امام علیہ السلام ہے۔
پانچویں آواز
خبردار حق علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام اور اس کے شیعوں کے ساتھ ہے یہ آواز آسمانوں سے سنائی دے گی اس آواز کے دوسرے دن ایک آواز وہ بھی آسمان سے آئے گی کہ حق فلاں اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ ہے کیونکہ وہ مظلومیت کی حالت میں قتل ہوا ہے اٹھو اور اس کے خون کا انتقام لو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ منادی آسمان سے صبح کے وقت نداءدے گا کہ حق علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام اور اس کے شیعوں کے ساتھ ہے اور یہ آواز ہر ایک کو اس کی مادری زبان میں سنائی دے گی پھر اسی دن عصر کے وقت شیطان نداءدے گا کہ حق فلاں اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ ہے اہل باطل اس ندا کو سن کر مترد ہوجائیں گے۔
چھٹی آوازبوقت ظہور امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام
روایت میں ہے کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام مکہ میں داخل ہوں گے اور خانہ کعبہ کے ساتھ ظاہر ہوں گے جس وقت سورج طلوع ہوگا ایک منادی سورج کے سامنے سے صدا کرے گا کہ پوری زمین و آسمان کے رہنے والے اس آواز کو سنیں گے وہ آواز یہ ہوگی کہ خبردار! یہ مہدی علیہ السلام آل علیہ السلام محمد ہے اسے اس کے جدِ بزرگوار ختمی مرتبت کی کنیت سے پکارو اور اسے اس کے نسب سے اس طرح پکارو۔ بن حسن علیہ السلام عسکری علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن محمد علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن موسیٰ علیہ السلام بن جعفر علیہ السلام بن محمد علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام منادی اس طرح آپ علیہ السلام کا نسب بیان کرے گا کہ تمام شرق و غرب اسے سنے گا۔
ساتویں آواز
سب سے پہلے جو آپ علیہ السلام کی بیعت کرے گا وہ جبرئیل علیہ السلام ہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک قدم بیت اللہ پر رکھے گا اور ایک قدم بیت المقدس پر رکھے گا اور بلند آواز کے ساتھ یہ کہے گا کہ جسے پوری دنیا سنے گا ”اتی امر اللّٰہ ولا تستعجلُوہُ“ اللہ کا حکم آگیا ہے تم اس میں جلدی نہ کرو۔
خروجِ حسنی
ایک حسنی جوان جو کہ اہل خراسان سے ہوگا اور اس کا نام بعض جگہ محمد علی ذکرہے، اولاد امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے ہوگا اور خالی ہاتھ کالے پرچموں کے ساتھ مشہد مقدس سے خروج کرے گا اس کے لشکر کے آگے آگے شعیب بن صالح ہوگا یہ حسنی سید ایران فتح کرنے کے بعد یاکم از کم تہران ، قم، اصفہان وغیرہ فتح کرنے کے بعد وارد عراق ہوگا جب وہ وارد عراق ہوگا تو سفیانی کوفہ میں بہت زیادہ خون ریزی کر چکا ہوگا اور بہت ساری عورتوں کو قیدی بنا چکا ہوگا۔ یہ حسنی سید ان قیدی عورتوں کو سفیانی کی قید سے آزاد کرائے گا وہاں پہ لشکر حسنی اور لشکر یمانی باہم مل جائیں گے اور دونوں مل کر سفیانی کے لشکر سے جنگ کریں گے بہت زیادہ قتل و کشتار ہوگی آخر سفیانی شکست کھائے گا اس دوران امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ سے عراق پہنچ جائیں گے تو یہ حسنی سید آپ سے معجزہ دکھانے کی درخواست کرے گا آپ علیہ السلام معجزہ ظاہر کریں گے حسنی سید اور اس کا لشکر امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو جائیں گے۔
خروجِ سفیانی
امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی ظہور کی علامات میں سے اہم اور حتمی علامت سفیانی کا خروج ہے جس کا نام عثمان بن عنبسہ ہوگا اور وہ اموی نسل سے ہوگا وہ مسلک اباحی سے ہوگا یعنی اس کی روش کمیونسٹوں کی طرح ہوگی بہت تنگ دل اور سفاک ہوگا اس کا اور اس کے ہمرائیوں کا دل بغض آل محمد سے پر ہوگا سفیانی ایک بلا و مصیبت ہے مشرق وسطیٰ یعنی سوریہ،عراق، مدینہ اور اس کے اطراف کے لئے وہ وادی یابس جو کہ دمشق کے نواح میں ہے وہاں سے خروج کرے گا وہ دمشق کو فتح کرے گا اس وقت حمص، حلب، اردن، فلسطین اور یہود اس کی پیروی کریں گے سفیانی کو اطلاع ملے گی کہ امام مہدی علیہ السلام مدینہ میں ظاہر ہیں وہ ایک لاکھ بیس ہزار کا لشکر مدینہ کی طرف بھیجے گا اور خود سفیانی ایک لاکھ تیس ہزار کے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف جائے گا، نجف کے قریب جا کر ۰۶ ہزار افراد کو نجف و کوفہ کی طرف روانہ کر دے گا اس دوران ۵ ہزار سرباز بغداد سے روانہ ہوں گے کوفہ کی طرف، تاکہ سفیانی کے لشکر سے جنگ کریں یہا ںبہت زیادہ قتل و غارتگری ہوگی سفیانی کو فتح ہوگی وہ کچھ وقت کوفہ میں رہے گا اور بہت زیادہ مظالم کرے گا۔ جب سفیانی کا لشکر مدینہ کی طرف چلے گا تو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام خفیہ طریقہ سے مکہ کی طرف چلے جائیں گے سفیانی کالشکروارد مدینہ ہو کر وہاں بہت زیادہ ظلم و ستم کرے گا اور پھراس کا لشکر مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوگا تاکہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے جنگ کرے جب لشکر سفیانی سرزمین بیدائ،جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے پہنچے گا تو جبرئیل علیہ السلام اپنا پر زمین پر مارے گا تو تمام کا تمام لشکر اپنی سواریوںسمیت زمین مین دھنس جائے گا صرف دو افراد اس لشکر کے بچیںگے جو دو افراد باقی بچیں گے ان میں سے ایک کو جبرئیل علیہ السلام شام بھیج دے گا تاکہ سفیانی کو اس کے لشکر کی تباہی کی خبر دے اور دوسرے فرد کو اس حالت میں کہ اس کا چہرہ پُشت کی طرف ہوگا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں مکہ کی طرف بھیجے گا تاکہ سفیانی کے لشکر کی بربادی کی اطلاع آپ تک پہنچائے وہ شخص امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں جا کر توبہ کرےگا اور سرکار علیہ السلام اس کا چہرہ پھر درست سمت کردیں گے۔
سفیانی کا انجام
سفیانی ایک ایسا ظالم و سفاک شخص ہے کہ وہ بعد از خروج بغداد میں ۰۷ ہزار افراد کو قتل کرے گا تین سو حامل عورتوں کے پیٹ چاک کرے گا وہ ہر اس شخص کو جس کا نام محمد، علی ، علیہ السلام حسن علیہ السلام، حسین علیہ السلام ، ہوگا قتل کر دے گا۔ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام مکہ و مدینہ فتح کرنے کے بعد عراق کی طرف جائیں گے اس دوران سفیانی وادی راملہ جو کہ فلسطین میں ہے وہاں پہنچ جائے گا اور وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام سے تقاضائے ملاقات کرے گا اور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ ملاقات میں مسلمان ہوجائے گااور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی بیعت کرے گا اور پھر اپنے لشکر کے پیچھے جائے گا تواس کے لشکر کے سپاہی اسے کہیں گے کہ تو تو ہمارا کمانڈر تھا تو ہمارا حاکم تھا یہ تو نے کیا کیا پس یہ سن کر وہ دوبارہ بیعت توڑ دے گا اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے دوبارہ آمادہ جنگ ہوجائے گا ان کے درمیان صبح سے جنگ شروع ہوگی اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا لشکر غالب آجائے گا، سفیانی کو گرفتار کر لیا جائے گا اور اس کی گردن اڑا دی جائے گی۔
دجال
دجال دجل سے ہے اور دجل کا معنی ہے فریب دہندہ، دجال اسے کہتے ہیں جو باطل کو حق کی صورت میں ظاہر کرے ، روایات میں ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام سے پہلے ۰۴ دجال آئیں گے یعنی ۰۴ فریب کار آدمی آئیں گے، ان دجالوں کے درمیان ایک بڑا دجال ہے ہم اس کے بارے گفتگو کریں گے کیونکہ ہر نبی نے اپنی امت کو ایسے دجال سے ڈرایا ہے۔
دجال اعظم کی خصوصیات
روایات میں ہے کہ دجال ایک آنکھ والا ہوگا ممکن ہے ایک آنکھ سے مراد دنیا پرست ہو اور آخرت سے اسے کوئی سرو کار نہ ہو۔دجال انتہائی فریب کار جادوگر ہے اور وہ دعویٰ ربوبیت کرے گا ممکن ہے اس سے پہلے دعویٰ نبوت و وصایت کرے اور پھر دعویٰ ربوبیت کرے گا اور دعویٰ ”انا ربکم الاعلی“کرے گا شلمغانی کی طرح جیسے اس نے ابتداءمیںدعویٰ حلول کیا اور پھر دعویٰ ربوبیت کیا۔روایات میں ہے کہ دجال اصفہان کے مضافات سے خروج کرے گا اور یہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے پہلے ظاہر ہوگا، کچھ دیگر روایات میں ہے کہ دجال قحط کے سال میں ظاہر ہوگا اس کے پیروکار گھٹیا اور بے حیثیت اور معاشرہ کے پست ترین افراد ہوں گے۔ لیکن بعض نے لکھا ہے کہ دجال متمدن اور جدید علوم رکھتا ہوگا۔
نفس زکیہ کا قتل
نفس زکیہ یعنی بے گناہ انسان کا قتل وہ حسنی سادات سے ہوگا۔ روایات میں آیا ہے امام کے ظہور سے ۵۱ روز پہلے یعنی ۵۲ ذی الحجہ سے عاشورہ تک ایک شخص بنام نفس زکیہ مکہ میں رکن و مقام کے درمیان شہید ہوگا۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں ! ”قائم علیہ السلام اپنے اصحاب سے کہیں گے کہ اے میرا گروہ اہل مکہ مجھے نہیں چاہتے لیکن میں اتمام حجت کےلئے ایک شخص کو بھیج رہا ہوں پھر آپ اپنے اصحاب میں سے ایک فرد کو کہیں گے کہ جاﺅ اہل مکہ سے کہو میں نمائندہ امام مہدی علیہ السلامہوں، میرے مولا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم خاندان رحمت ہیں، ہم معدن رسالت ہیں، ہم ذریت محمد ہیں، ہم وارثان انبیاء علیہ السلام ہیں، ہم مظلوم ہیں، کئی مصائب اور بلائیں ہم پر اتریں،زمان علیہ السلامہ رسالتماب سے اب تک ہمارا حق غصب کیا گیا ہے، ہم آپ سے مدد کے خواہاںہیں، ہماری مدد کرو۔
جب یہ باتیں نمائندہ امام کریں گے تو دوسری طرف سے ان پر حملہ ہو جائے گا اور وہ نمائندہ رکن و مقام کے درمیان قتل کر دیاجائے گا۔
(مہدی موعود ص۹۷۰۱،۹۲۰۱)،(بحارالانوارج۲۵ ص۲۹۲ ، ۹۸۲،ص۳۵۵)،( اکمال الدین واتمام النعمة ج۲ص۱۷۶)،( الزام الناصب ج۲ص۵۰۳)،( الامام المہدی علیہ السلام من المہدالی الظہورص۸۱۳
سرور بشارت
دہید این بشارت بہ نوع بشر
کہ وقتی نماندہ دگر تا سحر
ہمیشہ جہان نیست تاریک و تار
زمانی زند باز خورشید سر
بشر از چہ رو شد ہماہنگ جہل؟
چرا گشت بی نقشہ و راہبر؟
نہ در روحش از آدمیّت نشان
تنش برلب پرتگاہ خطر
شدہ خاور و باختر قبلہ اش
ندارد خبرز آسمانھا دگر
بہ اُمّ القری نور امّید توست
تواز مکّہ باید شوی بہرہ ور
تورا دادہ یک نقشہ از آسمان
کہ قرآن شدہ نام آن نامور
یکی مصلح آسمانی دھد
ھمان مہدی منجی دادگر
قیامت در آن شب نماید قیام
کہ قائم در آن خانہ گیرد مقر
زہر بیشہ ہر شیر رز مندہ ای
نمودہ بہ عزم جہادی سفر
در آن جوّ آرام بیت الحرام
نجوم سماوات گِرد قمر
در آن محفل نور و عشق و صفا
ہمی می رود اشکہا از بصر
برآن پاکبازان پاکیزہ جان
دھد شرح گمراہی بحر و بر
بہ منشور او سازمان ملل
خجل زادّعای حقوق بشر
چو (نصر µمن اللّٰہ) ہمراہ اوست
مسخّر کند خاور باختر
کند واژگون کاخھای ستم
زند برسر ظلم تیغ شرر
نہد برسر عدل تاج شرف
دھد برہمہ کارگیتی نظر
بہ ہر کاخ وہر کوخ و ہر کنگرہ
بلند است رایات فتح وظفر
تدای اذانِ دل انگیز ما
کند خفتگان جہان راخبر
ہمی نغمہ و صوت قرآن ما
بگیرد بسیط زمین سر بہ سر
تعالیم والای اسلام ما
بہ ہر جاست مُجرا چوحکم قدر
ہمای ہمایون اعزاز ما
ہمی می پرد برہمہ بوم وبر
جہان از کران تاکران موج نور
دہد گلشن آدمیّت ثمر
(حقیقت) نماندہ است تا بشنوی
ندای روان بخش آن منتظر
بہ منشور او سازمان ملل
خجل زادّعای حقوق بشر
”وَ قَاتِلُوھُم حَتَّیٰ لاَ تَکُونَ فِت نَة µ وَیَکُونَ اَلدَّینُ لِلّٰہِ“۔ (سورہ بقرہ ۳۹۱)
”ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے، اگر یہ رک جائیں (تو تم بھی رک جاﺅ) زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے“۔
|