فصل ششم
امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اور صالحین
خاتم الاوصیاء
عظمت ولی العصر علیہ السلام
محور کائنات
مشابہت با انبیاء علیہ السلام
وارث انبیاء
معجزات
انصاران مہدی علیہ السلام
مقدمہ کے طور پر ذکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک جیسا پیدا نہیں کیا اگرچہ تمام انسان اصل میں توحید کی فطرت رکھتے ہیں لیکن استعداد و صلاحیت کی بنا پر فرق رکھتے ہیں۔
عظمت ولی العصر علیہ السلام
ایسے اعلیٰ ووالا انسان جو کہ اللہ کی مخلوق پر حجت ہیں ایک خاص فضیلت رکھتے ہیں ان با فضیلت شخصیات میں سے ایک سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہیں جو کہ انسان کامل واکمل ہیں اور لامحدود عظمت کے مالک ہیں جوزمان علیہ السلامہ کی عزت وآبرو ہیں جن کی وجہ سے زمین کو امان ہے ہم اس باب میں سرکار کی شخصیت اور کمالات بارے اپنی قدرت مطابق گفتگو کریں گے۔
1۔ کمالات ذاتی
امامزمان علیہ السلام سرکار علیہ السلام اللہ کے آخری نور روح عظیم کے مالک اور عالم علم لدنی ہیں پنج تن پاک علیہ السلام کے بعد ان کی شان سب سے اعلیٰ وبالا ہے روایت میں ہے کہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام خلقت آدم وعالم سے پہلے ملائکہ کے استاد تھے اور انہیں اللہ کی تسبیح کی تعلیم دیتے تھے۔ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نے بطن مادر میں اپنی پھوپھی کو سورئہ قدر پڑھ کر سنائی اور بعداز تلاوت اپنے والد بزرگوار حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہاتھ پر قرآن کریم کی یہ آیت ”ونریدا ن نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم آئمةً ونجلعہم الوارثین “(قصص آیت ۵) پڑھ کر سنائی۔
2۔ کمالات اکتسابی
سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے کمالات اکتسابی کو تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
۱۔کمالات اکتسابی براہ راست
سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نے تمام اوصیاء علیہ السلام کے برابر عبادت اور راہ خدا میں خرچ کیا ہے اور آپ نے مخلوق کی مشکلات میں مدد کی ہے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار نے تقریباً 1150حج ادا کئے ہیں اور آپ علیہ السلام نے تقریباً 70000(سترہزار)بار زیارت امام حسین علیہ السلام اور ہر شب جمعہ اور روزہائے عید دیگر آئمہ علیہ السلام کے مزارات پر زیارات کے لئے گئے۔
۲۔ کمالات اکتسابی غیر مستقیم
وہ عبادات و درود فی سبیل اللہ خرچ نمازیں زیارات حج عمرے و دیگر کارہائے خیر جو مولا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ماننے والے ان کی طرف سے انجام دیتے ہیں یہ مولا علیہ السلام کے لئے کمالات غیر مستقیم ہیں اور آنحضرت علیہ السلام کے کمالات میں ایک اور اضافہ ہیں۔
۳۔ کمالات حاصل از صالحات باقیات
مولا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نے چونکہ پوری دنیا پر حکومت عدل انصاف قائم کرنی ہے اور پوری دنیا سے شرانس و جن وشر شیاطین کونابود کرنا ہے اور دنیا کو قیامت تک راہ مستقیم پر گامزن کرنا ہے بنا برایں سرکار پوری دنیا کی نیکیوں کی جزا میں شریک ہیں جس کی وجہ سے آپ کے درجات اور زیادہ بلند ہوجاتے ہیں اسی بنا پر ہم ایک داستان جس سے عظمت سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام واضح ہوتی ہے بیان کرتے ہیں۔
محورکائنات
مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمیٰ آقائے شیخ وحید خراسانی مدظلہ نے حاجی شیخ محمد جو کہ مرحوم اخوند ملا کاظم خراسانی کے بیٹے تھے سے یہ واقعہ بذات خود سنا اور پھر انہوں نے میرے لیے نقل فرمایا۔ حاجی شیخ محمد فرماتے ہیں کہ میری اور سید احمد کی والدہ بیمار ہوگئیں ہم نے اپنے شہر نجف کے تمام ڈاکٹروں اور اطباءکو دکھایا ہر جگہ لے گئے لیکن بیماری سے افاقہ نہ ہوا اور انہوں نے لاعلاج قرار دے دیا ہمیں کسی نے بتایا کہ ایک عامل روحانی سید ہے جو کہ کبھی کبھی ضریح مقدس امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ دیکھاجاتا ہے اگر تمہیں نظر آئے تو اسے ملنا امید ہے وہ تمہاری مشکل حل کر دے گا ایک دن میں اور میرا بھائی زیارت کے لئے حرم گئے تو وہ سید ہمیں قبر امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ نظر آیا ہم اس کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم حاجت مند ہیں اس نے اشارہ سے کہا کہ حاجت بتانے کی ضرورت نہیں ہے اپنی حاجت دل میں رکھو میرے بھائی نے حاجت دل میں رکھی اس نے تسبیح کے سرے کو پکڑا اور کہا کہ بیماری ہے اور تمہارا مریض ایسا ہے کہ جس کا دنیا میں علاج نہیں ہے اور وہ مریض تین دن بعد فوت ہوجائے گا۔بس ہماری والدہ تین دن بعد فوت ہوگئی ہم سید کے اس جواب سے بہت حیران ہوئے تھے دوبارہ ہم نے ایک سوال دل میں رکھا وہ یہ تھا کہ ہمارے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اس وقت کہاں ہیں ہم نے سید سے اپنی نیت بارے پوچھا کہ ہمارے سوال کا جواب کیا ہے جو سوال دل میں ہے اس نے حسب سابق تسبیح کے سرے کو پکڑا اور کہا کہ اب وہ مکہ میں ہیں پھر تھوڑی دیر بعد مدینہ میں اور پھر فوراً دمشق میں ہےں اور پھرانہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا کہ وہ ہے کہ سورج جس کے گرد چکر لگاتا ہے پھر کہا کہ پوری کائنات کا وہ محور ہے وہ محورعالم امکان ہے میں نے کہا کہ ہاں آپ نے ٹھیک فرمایا میری مراد نیت سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تھے جو کہ واقعاً محورعالم امکان ہیں۔
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) عدل قرآن ہیں
خداوند متعال کا قرآن میں ارشاد ہے کہ ”لوانما فی الارض من شجرةٍ اقلام والبحرنمدہ من بعدہ سبعة ابحرٍا مانفدت کلمات اللّٰہ ان اللّٰہ عزیز حکیم“۔
(سورہ لقمان آیت ۷۲)
”جتنے زمین میں درخت ہیں قلم بن جایں دریااور سات اور دریا مل جائیں توبھی تمام کلمات خدا کا احاطہ نہیں ہوگا بے شک اللہ عزت والا اور حکیم ہے“۔
یحییٰ بن اکثم نے حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا کہ مراد ”کلمات اللہ“ کیا ہے تو مولا امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا کہ ”نحن کلمات اللہ التی تدرک فضائلنا ولا تستعصیٰ“ ہم ہی وہ کلمات خدا ہیں کہ ہمارے فضائل نہ ہی پورے کوئی جان سکتا ہے اور نہ ہی ختم ہوتے ہیں “۔(بحارالانوار ج۱۱، ص۶۰۱)
ہم زیارت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں پڑھتے ہیں ۔ ”السلام علیک یا شریک القرآن“۔
چونکہ قرآن اور حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے درمیان جو ہم آہنگی اور مشترکات ہیں ہم ان میں سے کچھ کا تذکرہ کریں گے ۔
۱۔ حدیث ثقلین میں پیامبر گرامی نے فرمایا کہ ”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی ما ان تمسکتم بھمالن تضلوا ابدا“۔”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسری میری اہل بیت علیہ السلام تاوقتیکہ کہ نے تم ان دونوں سے تمسک رکھا تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے“۔ قرآن اور اہلبیت علیہ السلام سے تمسک (یعنی ہرزمان علیہ السلامہ کے معصوم علیہ السلام کے ساتھ) گمراہی سے بچاتا ہے کیونکہ تمام آئمہ معصومین علیہ السلام قرآن ناطق ہیں۔
۲۔ ”مایعلم تاویلہ، الا اللّٰہ والراسخون فی العلم “۔ (آل عمران آیت ۷)
”تاویل قرآن کو اللہ کے بعد اور ان کے جو علم میں راسخ اور ثابت قدم ہیں اور کوئی نہیں جانتا“۔
۳۔ زیارت جامعہ کبیر میں ہے کہ تراجمةً لوحیہ اہل بیت علیہ السلام اطہار قرآن کا ترجمہ ہیں ۔
۴۔ قرآن اندھیروں سے روشنی کی طرف نکلنے کا وسیلہ ہے اس طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام بھی وسیلہ نور ہیں قرآن میں ہے ”یہدی اللّٰہ لنورہ من یشائ“۔ ( سورئہ نور ۵۳)
”خداوند اپنے نور کے وسیلہ سے جسے چاہتا ہے ہدایت عطا کرتا ہے“۔ اس آیہ مبارکہ میں نور سے مراد حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہیں۔مفاتیح الجنان میں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بارے آیا ہے۔ ”وعَلَم النورِ فی طغیاءالدیجور“ سیاہ رات میں آپ پرچم نور ہیں۔ اسی طرح آیا ہے کہ ”یانور اللّٰہ الذی لایطفیٰ“ اے وہ نور خدا جو کہ کبھی نہیں بجھتا“۔ (مفاتیح الجنان زیارت صاحب الزمان)
۵۔ قرآن مجید میں ہر چیز کا بیان ہے ”تبیاناً لکل شی“(سورہ نحل آیت۹۸) اسی طرح حضرت امام مہدی علیہ السلام بھی ہر چیز کے عالم ہیں ۔
۶۔ جس طرح قرآن مومن کے جسم وجان کے لئے شفاءہے اسی طرح حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بھی مومن کے لئے شفاءہیں۔
۷۔ قرآن کریم کے مطالب سے سوائے معصومین علیہ السلام کے کوئی کامل آگاہی حاصل نہیں کرسکتا اسی طرح سوائے معصومین علیہ السلام کے معرفت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کوبھی کوئی مکمل نہیں حاصل کرسکتا۔مطہرین ہی اس کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ (سورہ واقعہ آیت ۹۷)
۸۔ قرآن اللہ کا زندہ جاوید معجز ہ ہے اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اللہ کی زندہ وباقی حجت ہیں ۔
۹۔ خداوند کریم قرآن کا محافظ ہے ”انا نحن نزلنا الذکروانالہ لحافظون“(سورہ حجرآیت۹) اسی طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بھی محافظت خدا میں ہیں۔ جیسا کہ ہم دعائے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں پڑھتے ہیں ”اللھم کن لولیک الحجة ابن الحسن علیہ السلام.... ولیاً وحافظاً....الخ۔
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی انبیاء علیہ السلام سے مشابہت
حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار انبیاء علیہ السلام سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے ہیں ہم اختصار کے ساتھ ان انبیاء علیہ السلام سے ان کی شباہت کا ذکر کریں گے۔
الف) مشابہت باحضرت نوح (علیہ السلام)
حضرت نوح (علیہ السلام) شیخ الانبیاء علیہ السلام ہیں اور حضرت امام مہدی علیہ السلام شیخ الاوصیاء علیہ السلام ہیں بحارالانوار میں حضرت نوح علیہ السلام کی عمر 2500سال لکھی گئی ہے جب کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اب تک ایک ہزار سال سے زیادہ عمر گذار چکے ہیں طول عمر میں مشابہ نوح( علیہ السلام) ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا ”رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیاراً“۔(سورئہ نوح علیہ السلام ۶۲)
”خدایا زمین پر کسی ایک کافر کو بھی باقی نہ رکھ“۔امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بھی زمین پر کسی ایک کافر کو باقی نہیں چھوڑیں گے حضرت نوح (علیہ السلام)نے 950سال لوگوں کی طرف سے ملنے والی تکالیف وآزار برداشت کیئے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بھی ایک ہزار سال سے زائد عرصہ سے دنیا پر ظلم وجور اور بے انصافیاں دیکھ رہے ہیں”وہ جس نے کشتی حضرت نوح علیہ السلامکوچھوڑا ہلاک ہوا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام بھی کشتی نجات امت ہیں زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں ”من اتیٰکم نجیٰ ومن لم یاتکم ہلک“(مفاتیح الجنان زیارت جامعہ) ہر وہ جو آپ کی طرف آگیا نجات پاگیا اور جو نہ آیا وہ ہلاک ہوگیا۔
ب) مشابہت باحضرت موسیٰ (علیہ السلام)
۱۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت مخفی تھی اسی طرح حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی ولادت بھی عام لوگوں سے مخفی تھی۔
۲۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دوبار غیب ہوئے ایک بار مصر سے مدائن ہجرت کی جو۷۲ سال مہاجر رہے دوسری بار۰۴ رات کے لئے کوہ طور پر گئے ”فتم میقات ربہ اربعین لیلةً“ (سورئہ اعراف ۲۴۱)اسی طرح امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی غیبت بھی دوبار ہے ۔غیبت صغریٰ، غیبت کبریٰ۔
۳۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ رب العزت نے کلام کیا اسی طرح حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے بھی کلام کیا امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے مجھے مہدی امت عطا فرمایا تو دوفرشتے بھیجے جوکہ مہدی علیہ السلام کو پردہ عرش پر لے جائیں وہ لے گئے اور اللہ نے میرے فرزند مہدی (علیہ السلام) سے خطاب کیا کہ خوش آمدید اے میرے برگزیدہ بندے میں نے تجھے اپنے دین کی نصرت کے لئے پیدا کیا ہے اپنی شریعت کے اظہار کے لئے پیدا کیا تومیرا ہدایت یافتہ بندہ ہے مجھے اپنی ذات کی قسم جو تیری اطاعت کرے گا اسے ثواب دوں گا اور جوتیری نافرمانی کرے گا اسے عذاب وعتاب دوں گا۔تیری شفاعت اور ہدایت کی وجہ سے میں اپنے بندوں کو بخش دوں گا تیری مخالفت کی وجہ سے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کروں گا۔
موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس یدبیضا تھا اسی طرح حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے چہرہ مبارک کا نور لوگوں کو سورج کی روشنی سے بے نیاز کردے گا۔
ج) مشابہت باعیسیٰ (علیہ السلام)
۱۔ عیسیٰ (علیہ السلام)مریم علیہ السلام کا بیٹا ہے جو کہ اپنےزمان علیہ السلامہ کی عورتوں کی سردار تھی حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام فرزند زہراء علیہ السلام جو کہ سیدة نساءالعالمین علیہ السلام ہیں۔
۲۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلامنے بوقت ولادت بات کی حضرت مہدی علیہ السلام نے شکم مادر میں سورئہ قدر کی تلاوت کی بوقت ولادت سجدہ کیا اور انگلی کو آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا ”اشہد ان لاالہ الااللہ وحدہُ لاشریک اللہ وان جدی رسول اللہ ان ابی امیرالمومنین وصی رسول اللہ“ اس کے بعد ایک ایک امام علیہ السلام کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ اپنے نام گرامی (مہدی علیہ السلام) تک پہنچے۔ (بحارالانور ج۱۵ صفحہ ۷۲)
د) مشابہت با محمد خاتم الانبیاء
۱۔ دونوں کا نام اور کنیت ایک ہے دونوں کے نام محمد ہیں اور کنیت ابوالقاسم ہے جناب رسالتماب نے فرمایا کہ میرا فرزند مہدی علیہ السلام”اشبہ الناس بی خلقاً وخُلقاً“ (بحارالانوار ج۱۵، ص۲۷)
تمام لوگوں میں خُلق اور شکل وشباہت میں میرے مشاہبہ ہے۔
۲۔ جناب رسالتماب خاتم الانبیاء علیہ السلام ہیں اور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام خاتم الاوصیاء علیہ السلام ہیں۔
حضرت امام مہدی(علیہ السلام) وارث انبیاء علیہ السلام
میراث انبیاء علیہ السلام سے مراد ان کا چھوڑا ہوا مال وترکہ نہیں بلکہ وہ روحانی ترکہ ہے جو انبیاء علیہ السلام سے اوصیاء علیہ السلامکو ملتا ہے تمام انبیاء علیہ السلام کا روحانی ترکہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کو منتقل ہوا ہم اس بارے کچھ وضاحت کریں گے
۱۔ قمیض یوسف (علیہ السلام)
دو قمیضیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت یعقوب علیہ السلام کی ملیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے وہ قمیض حضرت یوسف علیہ السلام کو دے دی جس کی طرف قرآن میں اشارہ ہے۔ ”اذہبوا بقمیصی ہٰذا فالقَوہُ علی وجہ ابی یات بصیرا“۔ (سورئہ یوسف علیہ السلام۳۹)حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا بھائیوں سے کہ یہ میری قمیض لے جاﺅ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر لگاﺅ اس کی بصارت لوٹ آئے گی۔
۲۔ عصائے موسیٰ (علیہ السلام)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا جو کہ آس کی لکڑی سے بنا ہوا تھا اور جبرائیل علیہ السلام اسے خاص طور پر حضرت شعیب علیہ السلام کے لئے لائے تھے وہ حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دے دیا وہ ہمیشہ تازہ رہا اور رہے گا وہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے پاس ہے۔
۳۔ سنگ موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پتھر
قرآن مجید میں اس پتھر کا ذکر ہے کہ ۲۱ پانی کے چشمے اس سے ابل پڑے تھے۔
۴۔ حضرت سلیمان(علیہ السلام) بن داﺅد(علیہ السلام) کی انگوٹھی
۵۔ پرچم
وہ پرچم جو جبرئیل علیہ السلام جنگ بدر میں جناب رسالتماب کےلئے لائے تھے یہ پرچم جہاں بھی کھلتا وہاں فتح ہوتی جناب رسول اکرم نے جنگ بدر میں اس پرچم کو کھولا تو مسلمانوں کو فتح ونصرت نصیب ہوئی یہ پرچم جنگ جمل میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس تھا اور امیرنے کھولا اور پھر فرمایا کہ یہ پرچم اب دوبارہ کبھی نہیں کھلے گا صرف حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اسے کھولیں گے اور تمام کفار اور ظالموں پر فتح پائیں گے۔
۶۔ قمیض جناب رسالتماب
ایک قول کی بنا پر پیغمبراکرم کی ایک قمیض تھی جو حضورنے جنگ احد میں زیب تن کر رکھی تھی جب حضور جنگ احد میں زخمی ہوئے تو آپ کے دندان مبارک سے بہنے والا خون اس قمیض پر گرا ایک روایت میں ہے کہ جناب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے وہ قمیں اپنے ایک صحابی کو دکھائی تھی جو ان کے پاس بطور تبرک تھی جو سلسلہ وار سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تک پہنچی۔
۷۔ عمامہ جناب رسول اکرم( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم)
جناب رسول خدا کا عمامہ سفید رنگ کا تھا اور اس عمامہ کا نام سحاب تھا ۔
۸۔ جفر احمد ۹۔ جفر ابیض ۰۱۔جامعہ یہ آخری تین حضور پاک سے میراث میں ملی ہیں ان کے علاوہ اور چیزیں بھی میراث میں آپ کے پاس ہیںجیسے مصحف فاطمہ علیہ السلامذوالفقار علی علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کی قمیض یہ سب تبرکات بطور میراث امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تک پہنچے ۔
حضرت امامزمان علیہ السلام (علیہ السلام) اور معجزات انبیاء علیہ السلام
محقق اردبیلی حدیقہ الشیعہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل فرماتے ہیں مولا جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں سات آدمی میرے فرزند مہدی علیہ السلام سے معجزہ طلب کریں گے۔
۱۔ ایک آدمی حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے حضرت الیاس علیہ السلام نبی کا معجزہ طلب کرے گا، حضرت اس کے جواب میں یہ آیت تلاوت فرمائیں گے ”ومن یتوکل علی اللّٰہ فھوحسبہ“(سورہ طلاق آیت۳) اس کے بعد آپ دریائے دجلہ کے پانی پر چلتے ہوئے دوسرے کنارے چلے جائیں گے تو وہ شخص کہے گا کہ یہ جادوگری ہے حضرت دریا کے پانی کو حکم دیں گے کہ اس شخص کو گرفتار کرے پانی اس شخص کو دبوچ لے گا وہ سات دن تک دریا میں زندہ جکڑا رہے گا اور کہتا رہے گا کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا انکار کرے۔
۲۔ ایک اصفہان کا رہنے والا حضرت سے معجزہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی درخواست کرے گا حضرت حکم دیں گے کہ بہت بڑی آگ جلائی جائے اور حضرت یہ آیت قرآن تلاوت فرمائیں گے”فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شی والیہ ترجعون“(سورہ یٰسین آیت ۳۸) اس کے بعد آگ میں داخل ہوجائیں گے آگ ان کے لئے ٹھنڈی ہوجائے گی جب کہ اس کے شعلے نکل رہے ہوں گے حضرت کو نہیں جلائے گی وہ شخص اس معجزہ کے بعد بھی منکر امامت رہے گا حضرت آگ کو حکم دیں گے کہ اسے جلادے آگ اسے جلادے گی۔
۳۔ فارس کا ایک شخص جب حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ہاتھ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا دیکھے گا تو آپ سے معجزہ کا تقاضا کرے گا تو حضرت یہ آیہ مبارکہ تلاوت فرمائیں گے ”فالقی عصا فاذا ہی ثعبان مبین “ (اعراف ۷۰۱)توعصا اژدھا بن جائے لیکن وہ شخص کہے گا کہ یہ جادو ہے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے حکم سے وہ اژدہا اس شخص کو نگل جائے گا اسطرح کہ اس شخص کا سر گردن اژدھا کے منہ سے باہر ہونگے ۔
۴۔ آذربائیجان کا ایک باشندہ ایک انسان کی ہڈی لے کر آئے گا اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے کہے گا کہ اگر آپ امام علیہ السلام ہیں تو اس ہڈی سے بات کریں یہ ہڈی آپ سے بات کرے تو وہ ہڈی امام سے بات کرے گی کہ اے معصوم امام میں ایک ہزار سال سے عذاب میں مبتلا ہوں آپ علیہ السلام دعا فرمائیں کہ اللہ میرا یہ عذاب ختم کردے مگر پھر بھی وہ دشمن امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ایمان نہیں لائے گا تو آپ علیہ السلام حکم دیں گے کہ اس شخص کو تختہ دار پر لٹکا دیاجائے تو وہ شخص ایک ہفتہ تک تختہ دار پر لٹکا رہے گا اور کہتا رہے گا کہ یہ منکر معجزہ کی سزا ہے۔
۵۔ عمان کا ایک باشندہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے حضرت داﺅد علیہ السلام کے معجزہ کی درخواست کرے گا آپ علیہ السلام لوہے کو ہاتھ میں لیں گے اور وہ نرم ہوجائے گا مگر پھر بھی وہ منکر امامت رہے گا تو حضرت اسی نرم لوہے کومنکر کی گردن میں لپیٹ دیں گے وہ شخص لوگوں میں دوڑتا پھرے گا اور کہے گا کہ یہ اس شخص کی سزا ہے جو منکر امام علیہ السلام ہو۔
۶۔ اھواز کا ایک شخص امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ہاتھ میں چھری دے گا اور کہے گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اس چھری سے اپنے بیٹے کو ذبح کرو تو حضرت اس چھری کو ستر بار اپنے بیٹے کی گردن پر چلائیں گے مگر وہ چھری کام نہیں کرے گی۔ پھر بھی وہ منکر معجزہ امام علیہ السلام رہے گا حضرت علیہ السلام اس چھری کو زمین میں ماریں گے تووہ چھری اس منکر کی گردن پر چل جائے گی وہ ذبح ہو کر روانہ جہنم ہوجائے گا
۷۔ ایک عربی امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے رسول اکرم کا معجزہ طلب کرے گا سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام شیر کو بلائیں گے شیر حضرت کے پاس آجائے گا اوراپنا سر،زمین پر رکھ دے گا اور امام کی حقانیت کی گواہی دے گا لیکن اس کے باوجود وہ شخص سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی امامت کا منکر رہے گا شیر اس پر حملہ کر دے گا وہ عرب بھاگنے کی کوشش کرے گا لیکن شیر اسے ہلاک کردے گا۔
اللہ کے سپاہی امام علیہ السلام کی خدمت میں
”وللّٰہ جنودالسموٰت والارض“ (سورئہ فتح۶)
”اللہ کے لیے ہیں زمین وآسمان کے لشکر“ جونہی حضرت کو اذن ظہور ملے گا اور حضرت کے شکوہ مند ظہور کا وقت آئے گا تو اللہ کے لشکر جو تین گروہ ہیں ۔ لشکر فرشتگان، لشکر جنات، لشکر انسانی، حضرت کے مدد گار بن کر حاضر ہوںگے۔
لشکرملائک
سب سے پہلے جو فرشتہ حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی بیعت کرے گا وہ جبرئیل علیہ السلام ہو گا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ۳۱۳ فرشتے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی مدد کےلئے آئیں گے راوی نے پوچھا کہ کیا فرشتے پہلے انبیاء علیہ السلام کی مدد کےلئے بھی آتے رہے تھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں فرشتوں کا ایک گروہ حضرت نوح علیہ السلام کےساتھ کشتی میں ایک گروہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کےساتھ اس وقت جب انہیں آگ میں پھینکا جا رہا تھا موجود تھا اور فرشتوں کا ایک گروہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کےساتھ جب وہ دریا کو چیر رہے تھے تھا اسی طرح فرشتوں کا ایک گروہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کےساتھ جب انہیں اوپر لے جایا گیا اسی طرح چار ہزار فرشتے جنہیں مردفین کہاجاتا ہے ہمارے نبی کریم کے ساتھ جنگ بدر میں تھے نیز ۳۱۳ فرشتوں نے پیغمبر اکرم کی مدد کی اسی طرح چار ہزار فرشتے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے تاکہ مدد کریںمگر حضرت امام حسین علیہ السلام نے انہیں اسکی اجازت نہ دی جس کی وجہ سے وہ واپس آسمان کی طرف چلے گئے اور پھر اجازت طلب کی انہیں حرم حضرت امام حسین علیہ السلام میں جانے دیا جائے تاکہ وہ وہاں قیامت تک گریہ کریں ان فرشتوں کا سردار فرشتہ جسکا نام منصور ہے یہ سب حضرت امام حسین علیہ السلام کے زائرین کا استقبال کرتے ہیں جب زائرین وداع کرتے ہیں تو یہ انہیں خداحافظی کہتے ہیں جب کوئی زوار بیمار ہوجائے تو اسکی عیادت کرتے ہیں اگر کوئی زوار مرجائے تو اسکی نماز جنازہ ادا کرتے ہیں اور اسکی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہ فرشتے امام حسین علیہ السلام کے حرم میں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ظہور کے منتظر ہیں روایات کی رو سے وہ تمام فرشتے جو تمام انبیاء علیہ السلام و اوصیا علیہ السلام کے پاس آئے وہ سبکے سب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے۔
لشکر جنات
انسانوں اور جنوں کے نقیب حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں آئیں گے اور اپنی خدمات انجام دیں گے روایات میں ہے کہ جنوں اور انسانوں کے گروہ حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اس کے بعد مومن جنات حضرت کی مدد اور نصرت کریں گے اور ایسے جنات کو جوبدکار ہوں گے انہیں جہنم واصل کریں گے۔
اصحاب امامزمان علیہ السلام (علیہ السلام)
اصحاب حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی تعداد ۳۱۳ہے جو پیغمبراسلام کے اصحاب کی تعداد کے برابر ہے جو جنگ بدر میں تھے قرآن مجید کی کافی آیات میں ان اصحاب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا تذکرہ ہے ہم ان آیات سے صرف پانچ آیات کا تذکرہ کریں گے جن سے ان بندگان صالح کا ذکر ہے۔
۱۔ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکران الارض یرثھا عبادی الصالحون “۔ (سورئہ انبیاء۵۰۱)
ترجمہ:۔ ”ہم نے تورات کے بعد زبور میں لکھا ہے کہ ہم نیک اور صالح بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے“۔ روایات میں ہے کہ ان صالح بندگان سے مراد اصحاب حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہیں مزامیرداﺅد میں بھی آیا ہے کہ ہم نیک بندوںکو زمین کا وارث بنائیں گے۔
۲۔”ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاً کانہم بنیان مرصوص“۔
(سورئہ صف آیت نمبر۱۴۱)
ترجمہ:۔ ”اللہ ایسے لوگوں کو دوست رکھتا ہے کہ وہ راہ خدا میں ایسے جم کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار اس آیت مبارکہ میں اصحاب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا تذکرہ تین صفات کے حوالہ سے کیا گیا ہے۔
۱۔جہاد کرنے والے ہیں۔۲۔خلوص نیت رکھتے ہیں ۔۳۔آپس میں بہت زیادہ متحد رہیں۔
۳۔”یاایہا الذین آمنوامن یرتدمنکم عن دینہ فسوف یاتی اللّٰہ بقوم یحبہم ویحبونہ اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین یجاہدون فی سبیل اللّٰہ ولا یخافون لومةَ لائم ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاءواللّٰہ واسع علیم (سورئہ مائدہ ۳۵)
”اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے منحرف ہوگیا تو خدا اس کی جگہ ایک ایسا گروہ لے آئے گا جو اللہ کو دوست رکھتے ہوں گے اور اللہ انہیں دوست رکھتا ہوگا وہ مومنوں کے سامنے عاجزی کریں گے اور کافروں کے مقابل سرفراز ہوں گے وہ راہ خدا میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے یہ خالصتاً فضل خدا ہے جسے چاہے دے اور خداوند صاحب وسعت اور جاننے والا ہے“۔ اس آیہ مبارکہ میں اصحاب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کو جو خصوصیات بیان کی گئی ہیں وہ کچھ اس طرح ہے۔
(الف) وہ جو محبوب خدا ہیں۔ (ب) خدا سے محبت کرتے ہیں ۔ (ج) مومنوں کے لیے متواضع ہیں۔ (د) کافروں کے مقابل سرفراز ہیں۔ (ھ) کوشش و جدوجہد کرنے والے ہوں گے۔ (ل) ملامت سے نہیں ڈرتے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس آیت میں بیان شدہ صفات اصحاب رسول اکرم یا اصحاب امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ خاص ہیںتو ان کے جواب میں کہیں گے اس آیت کی ابتداءمیں ہے کہ ”من یرتد منکم عن دینہ(سورہ بقرہ آیت۸۴۱) اس آیت سے یہ بات سمجھ سے آتی ہے ایسے اصحاب کی آمد سے پہلے مرتدین کا گروہ پیدا ہوگازمان علیہ السلامہ رسول اورزمان علیہ السلامہ مولا علی علیہ السلام میں ایسا گروہ پیدا نہیں ہواتھا، دوسرا اس آیت میں ہے کہ قوم آئے گی یعنی یہ اصحابزمان علیہ السلام پیغمبراسلام میں نہیں تھے انہیں ابھی آنا ہے۔
۴۔ ”واستبقواالخیرات این ماتکونوایات بکم اللّٰہ جمیعاً“۔(سورئہ بقرہ۸۴۱)
اس آیہ مبارکہ میں اصحاب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ نیکی میں سبقت لیتے ہیں۔
۵۔ ”ولئن اخرنا عنہم العذاب الی امةً معدودة لیقولن مایحسبہ الایوم یاتیہم لیس مصروفاً عنہم وحاق بہم ماکانوابہ یستہزو ن“۔ (سورئہ ہود۸)
”اگرایک گنے چنے گروہ کے آنے تک ہم اپنا عذاب ان لوگوں سے موخر رکھیں تو یہ کہتے ہیں کہ کس چیز نے عذاب کو روکا ہوا ہے خبردار جس دن اس گروہ کے ذریعہ تم پرعذاب آیا تو پھر وہ عذاب ہٹنے والا نہیں ہے اور وہ لوگ جو مذاق کرتے ہیں انہیں یہ عذاب اپنی گرفت میں لے گا“۔
بعض مفسرین نے امت معدودہ سے مراد مختصرزمان علیہ السلامہ لیا ہے اور بعض نے اس سے مراد چھوٹا سا گروہ لیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں اس امت معدودہ سے مراد مختصر گروہ ہے اور واللہ یہ اصحاب قائم علیہ السلام ہی ہیں۔جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے اصحاب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ۳۱۳ نفر ہیں جو کہ سب کے سب اولیاء علیہ السلام اللہ ہیں میری نظر میںامام کے اصحاب چند گروہوں میں تقسیم ہیں ۔
۱۔ نقباء
ان ۳۱۳ میں سے ۲۱آدمی بہت اعلیٰ رتبے پر فائز ہیں کہ انہیں نقیب کہاجاتا ہے نقباءکو صدیقین بھی کہتے ہیں جو کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے پاس ہمہ وقت حاضر ہیں ایک روایت میں ہے کہ شعیب بن صالح سمرقندی ان میں شامل ہیں اورتیرہویں فردہیں اور حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے وزیر ہیں۔
۲۔ گواہان
حضرت کے اصحاب کے دوسرے گروہ جن کی تعداد ۰۷ ہے انہیں گواہان (شہدائ) کہتے ہیں روایات میں ہے کہ یہ روزانہ بادل پر سوار ہو کر ہوا کے ذریعہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوتے ہیں ان میں جو بھی کسی شہر کے اوپر سے گذرتا ہے تو ایک منادی ندا دیتا ہے کہ یہ فلاں بن فلاں ہے اس شخص کا نام لیتاہے ۔
۳۔ صالحین
امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے اصحاب کا تیسرا گروہ جن کی تعداد۰۳۲ ہے وہ صلحاکے نام سے بلائے جاتے ہیں وہ طی الارض کے ذریعہ ظاہراً اور رات کو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں جاتے ہیں۔
معتبر روایات کی رو سے حضرت کے یہ اصحاب جیش غضب (غصے والالشکر) کہلاتے ہیں کیونکہ ان میں سے ہر شخص چالیس مردوں کے برابر طاقت رکھتا ہے یہ لوگ رکن ومقام کے درمیان بیعت کریں گے حضرت کے ۰۰۳ اصحاب جو کہ ان بارہ افراد کے علاوہ ہیں جو مرکز میں ہیں اور ایک وزیر کے علاوہ ہیں لشکر کی کمان امامت اور حکومت کے امور چلاتے ہیں کرہ ارض کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان چاروں حصوں کو انہی اصحاب کے ذریعہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام چلاتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام ایک مفصل روایت میں فرماتے ہیں کہ ۳۱۳ مرد اور ۰۵ عورتیں بھی ان کے ساتھ ہیں جو ان ۳۱۳ افراد کے علاوہ ہیں جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ وہ بادل کے ٹکڑوں کی مانند موسم حج کے علاوہ مکہ معظمہ میں جمع ہوتے ہیں جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔ ”این ماتکونواا یات بکم اللّٰہ جمیعاً ان اللّٰہ علی کل شی قدیر“۔ ترجمہ۔”تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں لے آئے گا اللہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ یہ پچاس عورتیں جن کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ اما مزمان علیہ السلام علیہ السلام کی اصحابیات سے ہیں اور بلندوبالا مرتبہ کی مالک ہیں اور صاحب کرامت خواتین ہیں۔(مہدی علیہ السلام موعود ص۳۳۱۱)
۰۵ خواتین کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ تیرہ خاص خواتین کا ذکر آئے گا۔ کتاب الفتن تالیف ابن حماد میں ۰۰۷۷یا۰۰۸۷خواتین امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں ہیں رسول اللہ سے حدیث میں آیاہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے حضرت مہدی علیہ السلام کے پاس ۰۰۸ مرد اور ۰۰۴عورتیں ہوں گی
ناصران حضرت امام مہدی (علیہ السلام)
اصحاب اور انصار کے درمیان فرق ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے حضرت کے اصحاب ۳۱۳ ہیں اور انصار وہ ہیں جو باکردار مومنین مکہ میں آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ علیہ السلام کی مدد کے لئے شامل ہوں گے ان انصار میں سب سے اہم ترین انصار جو کہ تعداد میں دس ہزار ہیں اور انہیں حلقہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے جب تک یہ دس ہزار نفر مکہ میں جمع نہیں ہوں گے حضرت قیام نہیں فرمائیں گے ایک اور روایت میں ہے کہ ۶۳ ہزار نفر مدینہ سے بصورت انصار امام اور ۲۱ ہزار نفر انصار حسنی عراق سے بصورت انصارسرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے آملیں گے اور یہ تعداد بتدریج دیگر انصار مہدی علیہ السلام کے الحاق سے بڑھتی چلی جائے گی۔
انصارِ رجعت
شیخ مفید نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے ۷۲ افراد اور سات افراد جو کہ اصحاب کہف ہیں انہیں اور حضرت یوشع بن نون جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وصی ہیں ان کو اور حضرت سلمان فارسی ، ابوذر، ابودجانہ انصاری، مقداد، مالک اشتر کو بھی انصار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے قرار دیا ہے جو اس وقت مختلف شہروں کے حاکم ہوں گے ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مسلسل چالیس جمعہ دعائے عہد (اللھم رب النور العظیم) کو پڑھے تو وہ انصاران امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں سے ہوگا اگر وہ ظہور امام سے پہلے فوت ہوگیا تو بوقت ظہور اسے قبر سے نکالا جائے گاتاکہ وہ امام کے انصاران میں شامل ہوسکے۔
۱۔ صیانہ ماشطہ
دختر فرعون کا بناﺅ سنگار کرنے والی خاتون،حزقیل مومن آل فرعون کی بیوی جس کی داستان طویل ہے جس کا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ذکر فرمایا مختصر یہ ہے کہ جب اس نے فرعون کی خدائی سے انکار کیا تو پہلے اس کے چار بیٹوں کو اور پھر خود اسے جلتے تنور میں جھونک دیا گیا انہیں زندہ کر کے انصار مہدی علیہ السلام میں شامل کیا جائے گا۔
۲۔ ام ایمن
جناب رسالتماب کے والد گرامی حضرت عبداللہ علیہ السلام کی کنیز جو بعد میں حضور کی کنیز اور جناب سیدہ زہراء علیہ السلام کی کنیز رہی جسکا تاریخ میں تفصیلی ذکر ہے وہ زندہ کی جائیں گی تاکہ انصار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں شامل ہوں ۔
۳۔سمیہ جناب عمار کی والدہ
سمیہ جنہیں انتہائی اذیتیں دے کر ابوجہل نے سینے میں نیزہ مار کر شہید کردیا یہ بھی بوقت ظہور امام علیہ السلام دوبارہ زندہ کی جائیں گی تاکہ نصرت امام کریں۔
۴۔حبّابہ
حبابہ جو حضرت علی علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ میں تھیں اس نے امیر علیہ السلام سے امامت کی نشانی طلب کی تھی حضرت نے اس سے پتھر کا ایک ٹکڑالیا اس پر مہر لگائی اور اسے واپس دے دیا اور فرمایا کہ جو کوئی یہ کام کرے گا امام ہوگا اسی طرح امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسا کیا اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے بھی ایسا ہی کیا وہ حبابہ بھی بذریعہ رجعت نصرت امام علیہ السلام میں ہوں گی۔
۵۔ قنوائ
قنواءجو کہ رشید حجری کی بیٹی تھی دوبارہ زندہ کی جائیں گی تاکہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کو اپنے باپ کی شہادت کا واقعہ سنائیں۔
۶۔ ام خالد احمسیّہ
ام خالداحمسیّہ بھی بذریعہ رجعت نصرت امام میں ہوں گی۔
۷۔ ام خالد جہنیہ
(بحوالہ منتہی الامال ص۷۶۷الفتن ابن حماد)
زمین اور اس کے وارث
ولقد کتبنا فی الذبور من بعدالذکران الارض یرثھا عبادی الصالحون“۔ (النساء۵)
ترجمہ:۔ ”ہم نے تورات کے بعد زبور میں لکھا کہ ہم صالح بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے“۔
وراثت اور اس کی اقسام
۱۔ ارث صفاتی
وہ وراثت جو اولاد کو ماں باپ یا اباءاجداد سے بصورت صفات جسمانی یا صفات روحانی حاصل ہوں جس کے بارے کافی آیات اور روایات درج ہیں ۔
۲۔ ارث مادی
وہ ورثہ جو مال یا جائیداد دنیا کی صورت میں فوت ہوجانے والے سے وارث کو حاصل ہو۔
۳۔ تیسری وراثت
ایسی وراثت جو والدین کے اعمال کی وجہ سے حاصل ہو جیسا کہ آیت قرآن ہے۔
”واما الجدار فکان لغلامین یمین فی المدینہ وکان تحتہ، کنزلہماوکان ابوھما صالحاً“۔(سورئہ کہف آیت۲۸)
”اور بہرحال دیوار،ان دویتیم لڑکوں کی تھی اس شہر میں اس دیوار کے نیچے خزانہ تھا جو ان کے لئے اپنے باپ کی طرف سے تھا ان کا باپ صالح مرد تھا“۔ مفہوم آیت یہ ہے کہ ان کے باپ کی نیکوکاری کی وجہ سے ارادہ خداوند یہ قرار پایا کہ یہ خزانہ جو دیوار کے نیچے ہے ان لڑکوں کو ملے اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام نے دیوار کو گرا کر دوبارہ بنایا تاکہ خزانہ ان بچوں کے جوان ہونے تک محفوظ رہے چونکہ ان لڑکوں کا والد صالح تھا ارادہ خدا ان لڑکوں کے لیے یہ قرار پایا کہ باپ کی نیکی کے اثرات لڑکوں کو ملےں اگر اسی طرح والد بدکار ہوتا تو اس کے اثرات بھی اولاد تک پہنچے ۔یہ وراثت انہیں باپ کی نیکوکاری کی وجہ سے ملی۔
”ولیخش الذین لوترکوامن خلفہم ذریتً ضعافاً خافواعلیہم“۔ (سورئہ نسائ۹)
ترجمہ:۔ ”جولوگ اپنے پیچھے ناتواں اور ضعیف اولاد چھوڑیں وہ خوف رکھیں کہ ان کی اولاد ان کے بارے کیا کرے گی“۔جی ہاں! جو لوگ اپنی اولاد کے آئندہ کے لئے فکر مند ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ان کے لیے سوچیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ یتیم ہو کر اپنے بزرگوں کے برے کردار کی وجہ سے وہی راہ اپنا لیں یہ آیت ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو یتیم بچوں پر ستم کرتے ہیں کہ آئندہ ان کے اس ستم کی وجہ سے ان کی یتیم اولاد پر بھی ستم ہوگا۔
۴۔ چوتھی وراثت
وہ وراثت جو خداوند کریم اپنے نیک وصالح بندوں کو عطا فرماتا ہے جسکی طرف ابتداءمیں آیت مبارکہ کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے خداوند کا ارادہ ہے کہ وہ بادشاہی و تمام وسائل اپنے نیک بندوں کو عطا کرے گا۔
درود حضرت امام مہدی علیہ السلام
برآن چہرہ ماہِ مہدی درود
برآن قلب آگاہ مہدی درود
درودی برآن لعل خندان او
نہ از من، زاللّٰہ مہدی درود
برآن قلب امکان، امامزمان علیہ السلام
برآن عزّت وجاہ مہدی درود
برآن عشق سوزان وچشم پراشک
برآن سینہ و آہ مہدی درود
بر آن کوہ (رَضوی) کہ دارد مقام
بر آن بزم و خرگاہ مہدی درود
بر آن وادی اقدس (زی طُوی)
بہ دربان درگاہ مہدی درود
بر آنان کہ بر گرد او دایمند
بر آن جمع ہمراہ مہدی درود
بر آن صفَّ سرباز جانباز او
بر آن ہالہ ماہ مہدی درود
برآن سیصد و سیزدہ یاورش
صفِ عشق دلخواہ مہدی درود
بر آنان کہ آن شاہ را دیدہاند
برآن چشم بر راہ مہدی درود
برآنان کہ از عشق او سوختند
برآن عشق جانکاہ مہدی درود
(حقیقت) درود تو را پاسخی است
تورامی دہد شاہ مہدی، درود
(دیوان ”انوار ولایت“ اثر نگارندہ)
می رسد از رہ بشیر و پیر ہن
می کند ما را بہ کویش منتقل
”وَلَمَّا فَصَلَتِ اَل عِیرُ قَالَ ا بُوھُم اِنَّ ¸ لَا جِدُ رِیحَ یُوسُفَ لَو لاَ ا ن تُفَنَّدُونِ“۔
”جب یہ قافلہ جدا ہوا تو ان کے والد نے کہا کہ مجھے تو یوسف علیہ السلام کی خوشبو آرہی ہے اگر تم مجھے سٹھیایا ہوا قرار نہ دو“۔(سورہ یوسف آیت ۴۹)
|