فصل پنجم
میل جول اور ملاقاتیںرابطے اور شرف
رابطے
توسل
دعائے ندبہ کی حقیقت
انفرادی ملاقاتیں
اجتماعی شرف زیارت
امامزمان علیہ السلام(علیہ السلام) کے ساتھ روابط لازم ہیں
ربط کا لغوی معنی ایک چیز کو دوسری چیز سے جوڑنا ہے لیکن یہاں ارتباط امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے مراد مثل ایسے ربط کے ہے جو بدنی خلیوں کا دل سے دل اپنے عمل کے ذریعہ یعنی گردش خون سے خلیوں کو زندگی بخشتا ہے خلیوں کی زندگی دل کی حرکت پر منحصر ہے۔جب دل اپنا کام بندکر دے تو خلیے مر جاتے ہیں اور انسانی موت واقع ہوجاتی ہے ”یاایھاالذین آمنوا صبروا وصابرو رابطوا واتقواللّٰہ لعلکم تفلحون “۔ (آل عمران ۰۸۲)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ مصائب ومشکلات جو تمہیں ہماری راہ میں اٹھانی پڑیں اس پر صبرکرو تحمل کرو سائل نے عرض کی مولا ”صابروا“ سے کیا مراد ہے۔
تو امام نے فرمایا کہ جب تم اپنے اماموں کی دشمنی دیکھو تو بردبار رہو یعنی تقیہ کرو۔
سائل نے پوچھامولا! ”ورابطوا“ سے کیا مراد ہے؟فرمایا! اپنے امام علیہ السلام کے ساتھ ربط میں رہو اور خدا سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاجاﺅ۔ سائل نے پوچھا مولا کیا یہ آیت اسی مطلب کے لیے نازل ہوئی ہے فرمایا ہاں ۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں ”اس آیت میں رابطہ سے مراداپنےزمان علیہ السلامہ کے امام کے ساتھ رابطہ میں رہو مراد ہے اور رابطوا کے باطن میں ممکن ہے اور کئی معانی مخفی ہوں اور وہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی ذات کی طرف اشارہ ہو تاکہ ہم ایک دوسرے کو دوست رکھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مال اور دیگر روابط برقراررکھیں۔ تاکہ ان مقدمات اورتہذیب نفس کی بجاآوری اور مقام ولایت ومحبت کی وجہ ارتباط قلبی باامامزمان علیہ السلام علیہ السلام حاصل ہونے کے بعد مقام اوتاد وابدال حاصل ہو کہ اس نوعیت کی محبت وارتباط باامامزمان علیہ السلام علیہ السلام پر صرف اوتادوابدال اور اولیاءہی فائز ہیں ۔
امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے ارتباط کے راستے
ارتباط با امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے بیان کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کے رابطہ سے کیسے مشرف ہونا چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرخدا چاہے اور مقدر یاوری کرے تو متعدد ذرائع سے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے روابط استوار کیے جاسکتے ہیں۔
۱۔ اضطرار
وہ لوگ جنہوں نے حالت اضطرار اور مشکلات میں سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے توسل کیا تو انہوں نے سرکار کی زیارت بھی کی ملا شیخ اسماعیل نمازی اور اس کے قافلہ نے حضرت کا دیدار کیا کہ جس کا ہم آگے ذکر کریں گے۔
۲۔ ختم وتوسل
مخصوص مقامات اور مخصوص ایام میں حضرت سے متوسل ہونا مثلاً
۱۔چالیس شب جمعہ حضرت امام حسین علیہ السلامکے حرم میں۔ ۲۔چالیس راتیں ہر بدھ کی رات مسجدسہلہ(کوفہ) میں ۔۳۔ہربدھ کی رات متواتر چالیس راتیں مسجد جمکران جانا۔
مسجد جمکران
یہ بات مسجد جمکران بارے مشہور ہے اس کا انہوں نے نتیجہ بھی لیا ہے لیکن جمکران میں بدھ رات خصوصیت کے ساتھ جانا، تو اس بارے کوئی خاص روایت نہیں دیکھی، جب کہ گذشتہزمان علیہ السلاموں میں بہت سارے علماءاور آیات عظام شب جمعہ جمکران مسجد میں مشرف ہوتے رہے ہیں، جن میں مرحوم آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی، آیت اللہ شیخ محمد تقی بافقی، آیت سید محمد تقی خوانساری، مرحوم محمد شاقمی، شامل ہیں۔ (مصنف))
۴۔ تہذیب اور پاکیزگی نفس کے ذریعہ ایک پارسا اور پاکیزہ نفس آدمی دعائے ندبہ پڑھتے ہوئے جب اس جملہ پر پہنچا ”ہل الیک یابن احمد سبیل فتلقیٰ“ کہ اے فرزند احمد کیا کوئی ایسا راستہ ہے کہ جس سے تیری زیارت نصیب ہوجائے توعالم مکاشفہ میں اسے سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں راستہ ہے اور وہ ہے تزکیہ نفس ۔
۵۔ وہ لوگ جنہوں نے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی محبت میں دل کو دنیا سے اٹھالیا اور خاص کر وہ لوگ جنہوں نے دنیا کی ہر چیز کو پیچھے چھوڑ دیا اور اپنا دل سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے سپرد کر دیا ان میں سے کچھ جزیرہ خضرا میں پہنچ گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے اور کبھی کبھی انہیں سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی طرف سے کوئی ذمہ داری بھی سونپ دی جاتی ہے۔
حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ رابطہ کی انواع واقسام ہیں اور کہاجاسکتا ہے کہ کچھ روابط کی اقسام کو مقدمہ اور کمزور روابط کا زینہ قرار دیا جائے اور کچھ روابط محکم ومستقیم اور کامل ہیں۔
وہ امور جو کہ رابطہ کے مقدمات ہیں ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
۱۔ سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام سے شدیدمحبت اور ہمیشہ ان کی یاد میں مگن رہنا۔
۲۔ دینی خدمات اور لوگوں کو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے متعارف کرانا اور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی تعریف وثناءخوانی کرنا بھی ارتباطات کا پیش خیمہ ہیں۔
۳۔ سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی سلامتی کے لیے صدقات دینا سرکار کے حوالہ سے منت و نذر ماننا اور اعمال صالح بجالانا کہ اس کا صلہ سرکار کے لیے ہو۔
۴۔ مختلف دعاﺅں اور زیارات کا پڑھنا جو کہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ منسوب ہیں اور خصوصاً دعائے ندبہ پڑھنا بھی ارتباط کا پیش خیمہ ہے۔
سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ ارتباطات کے ذرائع میں اہم ترین ذریعہ ایسی دعاﺅں اور زیارتوں کا پڑھنا ہے کہ جو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ مخصوص ہیں کتاب مکیال المکارم میں تقریباً ایک سو کے قریب دعاﺅں کا ذکر ہے جو کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ساتھ رابطہ خاص کاذریعہ ہیں ہم یہاں صرف چند خصوصی دعاﺅں کا تذکرہ کریں گے جو کہ مفاتیح الجنان میں تفصیلاً دیکھی جا سکتی ہیں ۔
۱۔ دعائے فرج” یامن تحل بہ عقدالمکارہ“جوکہ بہت زیادہ خوبصورت دعاہے
۲۔ دعائے فَرَج ”یاعماد من لاعمادلہ....“
۳۔ دعائے فَرَج ”الٰہی عظم البلاء....“
۴۔ دعا جو کہ غیبت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کےزمان علیہ السلامہ سے مخصوص ہے ”اللھم عرفنی نفسک“۔
۵۔ دعا برائے سلامتی امامزمان علیہ السلام علیہ السلام”اللھم ادفع عن ولیک وخلیفک وحجتک علی خلقک “ جو کہ مفصل دعا اور بہت عالی شان مضمون کی حامل ہے۔
۶۔ دعا برائے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام جو کہ صلوات ضراب اصفہانی کے نام سے مشہور ہے ”اللھم صل علی محمد سید المرسلین وخاتم النببین وحجة رب العالمین المنتجب فی المیثاق المصطفیٰ فی الظلال....“۔
۷۔ دعائے عہد ”اللھم بلغ مولای صاحب الزمان علیہ السلام....“۔
۸۔ دعانماز استغاثہ۔ ”سلام اللہ الکامل التام“۔
۹۔ زیارت حضرت حجت جو کہ جمعہ کے دن کے لیے ہے ”السلام علیک یاحجة اللہ فی ارضہ“۔
۰۱۔ زیارت آل یٰسین “۔
۱۱۔ دو مشہور و مفصل زیارات جو کہ سامرہ کے مقدس تہہ خانہ میں پڑھی جاتی ہیں
۲۱۔ زیارت صلوات بر حجج طاہرہ ۔
۳۱۔دعائے ندبہ جو کہ بہت عالی شان دعا ہے ہم اس کے بارے میں تفصیلی گفتگو کریں گے۔
(یہ سب دعائیں مفاتیح الجنان میں موجود ہیں)
دعائے ندبہ
سب سے پہلا فرد جس نے دعائے مبارکہ ندبہ کو اپنے مکتوب میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کیا ہے وہ ابوجعفر محمد بن حسین بن سفیان بزوفری ہے جو کہ مورد اعتماد وموثق ہے یہ ابوجعفر نبرو فری شیخ مفید کے اساتذہ سے ہےں دعائے ندبہ کئی عالی شان مضامین کی حامل ہے۔
صاحب کتاب (بادعائی ندبہ درس بگاہ جمعہ) حجة الاسلام علی اکبرمہدی پور اپنی کتاب میں دعائے ندبہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس دعا کے ۴۲۱ جملے روایات کے ساتھ منطبق ہیں ہم اس دعا کے اہم ترین حصوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دعائے ندبہ کے پہلے ۶حصے
۱۔ پہلا حصہ جو کہ جملہ ”الحمدللّٰہ رب العالمین“ سے شروع ہوتا ہے یہ حمد و ستائش پروردگار کے لیے مخصوص ہے اس کی نعمتوں کے عوض اور خصوصاً بزرگ ترین نعمت یعنی انبیاء علیہ السلام ورسل اور کتب کے بھیجنے پر حمدوشکر ہے۔
۲۔ دوسرا حصہ جس میں یہ جملہ ہے کہ ”الی ان انتہیت بالامرالی حبیبک “ اس میں نعمت خاصہ یعنی بعثت رسول اکرم اور ان کے فضائل ومناقب کا بیان ہے۔
۳۔ تیسرا حصہ جس کی عبارت کچھ یوں ہے ”فلما انقفت ایامہ اقام ولیہ علی بن ابی طالب “اس کا شروع امامت کے بارے ہے اور تاریخی واقعہ غدیر خم کی طرف اور مناقب امیرالمومنین علیہ السلام مولائے متقیان کی طرف اشارہ ہے۔
۴۔ چوتھا حصہ اس کی ابتداءاس جملہ سے شروع ہوتی ہے ”ولما قضیٰ نحبہ“ جس میں مصائب آل محمد کا ذکر ہے جو عترت طاہرہ پروارد ہوئے اور آئمہ علیہ السلام کی محرومی کا تذکرہ کرتے ہوئے اشک ہائے حسرت بہانے کا تذکرہ ہے۔
۵۔ پانچواں حصہ جس کی عبارت کچھ یوں ہے کہ ”این بقیة اللہ التی لاتخلومن العترة الہادیہ“ اس میں سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی غیبت کے طولانی ہونے پر اظہار تاسف ہے اور درد ہجر ہے اور اظہار شوق دیدار کیا گیاہے۔
۶۔ چھٹا حصہ ”انت کشاف الکرب والبلوی“ اس میں دعا دیگر حصوں سے ممتاز ہو جاتی ہے اور بارگاہ خداوندی میں دعا کا اختتام ہوتاہے۔
دعائے ندبہ پراعتراضات اور جوابات
دعائے مبارکہ ندبہ کے خوبصورت متن سے اس دعا کی اہمیت مسلم اور واضح ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی کچھ کو تاہ فکر لوگوں نے اس دعا کو اعتراضات کا نشانہ بنایا ہے ہم ان اعتراضات کو بیان کرتے ہیں تاکہ ان کے جوابات دیے جاسکیں ۔
اعتراض اول: حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی ولادت سے پہلے کیسے ان کے لیے دعائے ندبہ آگئی ہے؟ جب کہ دعائے ندبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔
جواب: حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کوئی معمولی فرد اور انسان نہیں ہیں بلکہ اتنی عظمت وفضیلت کے مالک ہیں کہ جس کا تذکرہ انبیاء علیہ السلام ماسلف اور اوصیاء علیہ السلام کرتے رہے ہیں اور بعض انبیاء علیہ السلام واوصیاء علیہ السلام ان کے فراق میں گریہ کرتے رہے ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام حالت گریہ میں آنسو بہاتے ہوئے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے بارے فرماتے ہیں۔ ”سیدی غیبتک نفت رقادی وضیقت عَلَیّ مہادی وابتزت منی راحة فوادی“۔(کتاب الغیبة ص۷۶شیخ طوسی)
اے میرے سردار وسرور تیری غیبت نے میری آنکھوں سے نیند چھین لی ہے اورعرصہ حیات مجھ پرتنگ کردیا ہے اور تیری غیبت نے میرے دل کا آرام وسکون اڑا دیا ہے۔
اعتراض نمبر۲: دعائے ندبہ فرضی اور من گھڑت ہے۔
جواب: دعائے ندبہ جو کہ تمام دعاﺅں میں اثر انگیز دعا ہے اور اس میں جنگ بدر، جنگ حنین،جنگ خیبر، جنگ صفین اور جنگ نہرواں کا تذکرہ بھی ہے اس دعا میں ۸۳ مقامات پر کلمہ ”این“ تحریر ہے جس کا معنی ہے (کہاں ہے؟)یہ کلمہ جبرواستبداد ظالموں اور متکبروں اور مفسدین کی تباہی و بربادی کے لیے آیا ہے جوکوئی بھی دعائے ندبہ پڑھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ انتظار کرے اور وہ منتظر رہے اور اپنے آپ کو سربازی اور قربانی کے لیے آمادہ رکھے اور وہ خود سازی کرے اور منتظر وہ ہے کہ جو اپنی پوری طاقت وقدرت کے ساتھ ظلم وفساد کے ساتھ مبارزہ کرے تو بنابرایں یہ دعا جو کہ انسان کو ہمیشہ حالت انتظار میں رکھتی ہے بھلا کیسے من گھڑت ہوسکتی ہے۔
اعتراض نمبر۳۔ دعائے ندبہ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان صدق کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے یہ کیسے قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟۔
جواب: دعائے ندبہ میں یہ جملہ آیا ہے کہ”وسئلک لسان صدقٍ فی الآخرین فاجبتہ وجعلت ذلک عَلِیّاً“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداوندکریم سے درخواست کی کہ آنے والےزمان علیہ السلامہ میں مجھے سچی زبان عطا فرما۔ خداوند کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور سچی زبان یعنی (زبان توحید)علی علیہ السلام کو قرار دے کر دعا قبول فرمائی”واجعل لی لسان صدق فی الآخرین“(سورئہ شعراء۴۸)میرے لیے آنے والےزمان علیہ السلامہ میں سچی زبان (لسان صدق ) دے
سورئہ مبارکہ مریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے دو انبیاء علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے لیے فرمایا کہ ”ہم نے اپنی رحمت کے ساتھ ان کو بہرہ مند کیا اور ان کے لیے (حضرت علی علیہ السلام) کو لسان صدق قرار دیا“۔ (سورئہ مریم ۰۵)دعائے ندبہ میں بھی اسی طرح اور اسی انداز سے آیا ہے اور جس طرح قرآن میں لسان صدق کی دعا کو قبول کرتے ہوئے ”علیا“ فرمایا گیا ہے اسی طرح دعائے ندبہ میں بھی علی علیہ السلام کو ہی لسان صدق سے تعبیر کیاگیاہے۔شیخ صدوقؒ نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ”علیاً“ سے مراد علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات ہے اور یہ حدیث کمال الدین وتمام النعمة ۹۳۱سے نقل ہے۔
اسی طرح علی بن ابراہیم نے اپنے باپ اور اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ اس آیت مبارکہ میں لفظ ”علیاً“ سے مراد علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ (تفسیر قمی ج۲ص۱۵)
اور بھی روایات ہیں جن میں ذکر ہے کہ اس آیت مبارکہ میں کلمہ ”علیاً“ سے مراد حضرت امیر المومنین علیہ السلام ہیں تو پس دعائے ندبہ میں لسان صدق کے طورپر امیرالمومنین علیہ السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے (تفسیر برہان ص۵۲۱ج۵ )یہ بالکل روایات کے مطابق ہے اور خلاف واقعات نہیں ہے۔
اعتراض نمبر۴: دعائے ندبہ میں ایک جملہ ذکر ہے کہ ”عرجت بروحہ الی سمائک“ کہ تو نے اس کے روح کو آسمان کی طرف عروج دیا جب کہ پیغمبر گرامی کو معراج جسمانی ہوا ہے یہ جملہ معراج جسمانی کا مخالف ہے؟
جواب: سب سے قدیمی کتاب جس میں دعائے ندبہ کا متن لکھا ہے وہ کتاب المزار الکبیر مولف محدث عالی قدر شیخ ابوعبداللہ محمد بن جعفر مشہدی ہے اس میں یہ جملہ کچھ اس طرح ہے کہ ”عرجت بہ الی سمائک“ کہ تو نے اسے آسمان کی طرف عروج دیا اس کتاب کا قلمی نسخہ جوگیارہویں صدی کے لکھاریوں کا لکھا ہے حضرت آیت اللہ مرعشی کے کتاب خانہ قم میں موجود ہے تو پس اصل متن دعائے ندبہ میں معراج جسمانی کی مخالفت نہ ہے بلکہ معراج جسمانی ثابت ہے دوسری طرف یہ واقعہ بھی اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔مرحوم آیت اللہ حاج میرزا مہدی شیرازی فرماتے ہیں کہ ایک رات میںامامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کے تہہ خانہ میں گیا میں نے دروازہ اندر سے مکمل طورپربند کردیا اور دعا میں مشغول ہوگیا دعائے ندبہ پڑھتے ہوئے جب اس جملہ پر پہنچا ”عرجت بروجہ الی سمائک“ تو اچانک دیکھا کہ ایک شخص میرے پہلو میں بیٹھاہے جب کہ میں نے تہہ خانہ کے دروازہ کومکمل طورپر بندکردیا تھا جب کہ میرے پہلو نشستہ شخص کی وجہ سے پورا تہہ خانہ منور ہوگیا تھا اور روز روشن کی طرح روشنی تھی۔انہوں نے فرمایا کہ یہ جملہ ”عرجت بروحہ الی سمائک“ ہماری طرف سے نہیں ہے بلکہ” عرجت بہ“صحیح ہے اور پھر انہوں نے فرمایا کہ اگر ”بروحہ“ یعنی اگر معراج روحانی تھا تو پھر براق کی کیا ضرورت تھی کیونکہ روح کو تو سواری کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ براق پرسوار ہو کر آسمان کی طرف جائے اس کے بعد میں متوجہ ہوا کہ میرے پاس کلام کرنے والے سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام تھے۔
اور ساتھ ہی دعائے ندبہ کا یہ جملہ کہ ”واوطاتہ، مشارقک ومغاربک“ کہ تو نے اس کے قدم مشارق اور مغارب میں ٹھہرائے یہ جملہ بذات خود معراج جسمانی کی طرف واضح اشارہ ہے۔
اعتراض نمبر۵: مشارق اور مغارب کیاہے؟
جواب: مشارق اور مغارب سے مراد عوالم بالاہیں کہ شب معراج نبی اکرم ان کرہ ہائے آسمانی میں گئے بلکہ آپ نے کئی جہانوں کا سفر کیا اور مشارق اور مغارب کی ابتداءکی سیر کی۔
اعتراض نمبر۶: دعائے ندبہ کا جملہ ”واودعتہ، علم ماکان ومایکون الی انقضاءخلقک “ کہ ہم نے تمام ”ماکان ومایکون “ہرشی کا علم اسے دے دیا ”تاانقصاءمدت“ جب کہ ہر چیز کا علم اللہ کے لیے خاص ہے اور علم غیب مخصوص باخدا ہے؟
جواب: قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ”خدا تمہیں علم غیب سے آگاہ نہیںکرتا مگر یہ ہے جن انبیاء علیہ السلام ورسل کو چاہتا ہے علم غیب عطا کردیتاہے “۔(آل عمران ۹۷۱)
اعتراض نمبر۷: دعائے ندبہ میں ”المودة فی القربیٰ‘ ‘ کی تفسیر آل محمد بشمول امام حسن علیہ السلام و امام حسین علیہ السلام کی گئی ہے جبکہ آیت مبارکہ مودة ”قل لااسئلکم علیہ اجرًاالاالمودة فی القربیٰ“۔
سورئہ شوریٰ میں ہے اور سورہ شوریٰ مکی ہے اور اس وقت امام حسن علیہ السلام وامام حسین علیہ السلام نہیں تھے پس کیسے دعائے ندبہ میں ذی القربیٰ سے مراد آل محمدبشمول امام حسن علیہ السلام وامام حسین علیہ السلام لیا گیاہے؟
جواب: تمام مورخین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ سورئہ شوریٰ مکی ہے مگر اس کی آیت نمبر۳۲ تا۷۲ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں۔
اعتراض نمبر۸: دعائے ندبہ میں تحریر ہے کہ ”ابرضوی اوغیرہا ام ذی طویٰ “ جب کہ رضوی جو کہ مضافات میں ہے یہ جگہ فرقہ کیسانیہ کے لیے مخصوص ہے اور ان کے بقول محمد حنفیہ اس جگہ پڑہیے۔
جواب: محمد حنفیہ کوصرف چند دن عبداللہ بن زہیر کے حکم پر ناحیہ رضوی میں جلا وطن کر کے رکھا گیا تھا اورکوہ رضوی طویٰ فرقہ کیسانیہ کے ساتھ مربوط نہیںہیں۔بلکہ کوہ رضوی ایک جگہ (ینبوع) ایک بہت بڑی آبادی ہے کہ مدینہ سے سات مقامات کے فاصلہ پر ہے یہاں بہت بڑاکھجوروں کا باغ ہے بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت امام مہدی علیہ السلام نے ایک مدت تک کوہ رضوی میں زندگی گزاری علی بن عیسیٰ جوہری جسے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی تھی نے منزل ذی طویٰ میں ایک بہت بڑے مکان میں زیارت کی ہے اور دستر امام علیہ السلام پر دو متضاد غذائیں دودھ اور مچھلی باہم دیکھی اور ان دونوں کے باہم کھانے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا تو حضرت امام مہدی علیہ السلام نے اسے فرمایا کہ کھاﺅ یہ بہشت کی خوراک ہے۔وادی ذی طویٰ حجون کی بالائی طرف ہے قبرستان ابی طالب سے پہلے کہ جوبالائی سمت ہے اور تنعیم سے کچھ پہلے ہے اور اب شہر مکہ میں واقع ہے جوکوئی چاہے کہ مکہ کی نچلی طرف سے داخل مکہ ہو تو اس کے لیے مستحب ہے کہ ذی طویٰ میں غسل کرے اور پھر وارد شہر مکہ ہو۔(النہایة فی غریب الحدیث والاثرج۳ص۷۴۱)
اعتراض نمبر۹: دعائے ندبہ کو چار مخصوص ایام عید فطر، عید قربان، عید غدیر وجمعہ کوکیوں پڑھنا چاہیے؟۔
جواب: ہم چونکہ ان عیدوں کے موقع پر اپنے آقا ومولیٰ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی جگہ اور کرسی خالی دیکھتے ہیں جب کہ دنیا ظلم وجور سے پرہے تو ہم پکارتے اور کہتے ہیں کہ کاش ہمارے مولا و آقا کی حکومت ہوتی اور ہم ان عید کے دنوں میں اپنے آقا کی زیارت سے مشرف ہوتے اور آپ کو عید مبارک کہتے تو اسی بنا پر ہمیں چاہیے کہ فراق و جدائی اہلبیت علیہ السلام اور بالخصوص امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں پکار و فریاد کریں اور اللہ رب العزت سے ان کی تعجیل ظہور کی دعا کریں ۔
باب دوئم
انفرادی ملاقاتیں
۱۔ گل نرگس گل وفا
حجة الاسلام آقائے احمد قاضی زاہدی گلپاہگانی اپنی کتاب شیفتگان مہدی علیہ السلام ج۲ میں تحریر فرماتے ہیں کہ حوزہ علمیہ قم کے دوستوں میں سے ایک دوست جو کہ جنوب مشرقی ایران کے دانشوروں اور محترم علماءمیں شمار ہوتے ہیں اور جنہیں سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے شرف ملاقات اور خوش نصیبی حاصل ہوئی۲۷/۶/۰۳کو یہ واقعہ انہوں نے حضرت آیة العظمیٰ گلپایگانی کے گھر آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی اور آیت اللہ صافی کی موجودگی میں ان کے سامنے شرف یاب ملاقات سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہونے کا بیان فرمایا جس کو سننے کے بعد آیت اللہ العظمیٰ گلپایگانی نے اشک آلود آنکھوں کے ساتھ فرمایا کہ ”رزقنا مثل ذلک“(ہمارا بھی ایسا ہی نصیب ہوتا) واقعہ کچھ اس طرح ہے ہم مشرف با زیارت ہونے والے عالم دین کی اپنی زبانی بیان کرتے ہیں۔
کئی سالوں سے میں اس کی یاد لیے پھرتا تھا ایک مدت سے اس کے ہجر وفراق میں جل رہا تھا اور کئی کئی گھنٹے اس کے عشق میں روتا رہتا تھا جمعہ کی عصر تھی دعائے سمات کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس جملے پر پہنچا کہ جہاں لکھا ہے کہ اپنی حاجت طلب کرو میں نے اللہ رب العزت سے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی زیارت کی درخواست کی اسی رات مجھے خواب میں کہا گیا کہ تو مکہ میں ان کی زیارت کرے گا اس کے بعد حج کے سفر میں مجھے توفیق زیارت ہوئی۔ اس کے بعدوالے سفر میں صبح بیدار ہونے کے وقت اور حرکت کرنے سے پہلے مجھے الہام ہوا کہ ”واعلمواانکم ملاقوہُ وبشرالمومنین“۔ (سورئہ بقرہ آیت نمبر۳۲۲)
اگر اس آیت کا آخری جملہ ”وبشرالمومنین“ نہ ہوتا تو میں اپنی عمر کے آخری لحظہ تک کسی کو اس قضیہ سے آگاہ نہ کرتااس سے مجھے یقین ہوگیا کہ مجھے اس سفر میں انشاءاللہ دیدار نصیب ہوگا اس پورے سفر میں دعائے سریع الاجابتہ دعائے مشلول کے متعدد جملے اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں مسلسل زبان پردھراتا رہا مثلاً ”انی توکلت علی اللہ“(سورئہ ہود آیت۶۵) ”انی وجہت وجہی للذی(سورہ انعام آیت ۹۷) اور” امن یجیب المضطر اذادعاہ ویکشف السوئ(سورہ نمل آیت۲۶) ویجعلکم خلفاءالارض“(سورہ نحل آیت ۰۸)کو میں نے تکرار کیا اور آخری دفعہ میں نے آخر آیت تک تلاوت کی اور پھر دس بار یااللہ کہا اور پھراللہ تعالیٰ کوپنجتن کا واسطہ دیا اور آخر میں ”اللھم ارنی الطلعة الرشیدہ واکحل ناظری بنظرة منی الیہ“۔ (دعائے عہد) پڑھی اور دل وجان سے خلاق عالم سے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے دیدار و زیارت کی التجا کی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ساتویں دن میں نے مکہ میں مقام ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے پوری صحیفہ سجاد یہ کی تلاوت کی اور ناامید ہوکر رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوا مقام سعی عبور کرتے ہوئے میں کچھ دیر کے لیے بیٹھ گیا جب کہ میں مکمل طور پر مایوس اور ناامید تھا کہ اچانک میرے دل میں خوشی کی لہر دوڑی کہ کل نرگس توگُل وفا ہے اور میں بھی تازہ جان ہوگیا میں اٹھا اور اپنی رہائش کی طرف چل پڑا پھر دس ذی الحجہ کی رات کی سحر کے وقت مشعر میں نماز وتر میں مجھے غیبی اشارہ ملا کے روانگی کے وقت میں نے سمجھا کہ مکہ سے روانگی کا اشارہ ہے مگر کچھ نہ ہوا بیت الاحزان اور بقیع میں ہم نے بہت گریہ کیا فریاد کی اور وہی ذکر جس کااشارہ ہوا تھا بار بار زبان پر دہراتا رہا مدینہ میں آخری قیام کے دن میں نے اپنے آپ سے کہا کہ صبح کی نماز مسجد نبوی میں جاﺅں میں جونہی مسجد میں باب النساء(قبلہ کی بائیں جانب کے دروازوںسے ہے)سے داخل ہوا جب کہ تمام لوگ نماز سے فراغت کے بعد بیٹھے تعقیبات صبح پڑھ رہے تھے۔
اگلی صفوں میں بائیں ہاتھ پر میں نے ایک فرد کو دیکھا وہ اپنے رخ کوقبلہ سے دروازہ کی طرف موڑ کر دیکھ رہا تھا میں اس کی مکمل حالت بیان کرسکتا ہوں اس نے مجھے دیوار کے پیچھے سے دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے مجھے اپنی طرف بلایا میں تمام صفوں کو چیرتا ہوا آگے بڑھا اور نگاہیں اسی پر جمالیں تاکہ رش کی وجہ سے دوبارہ گم نہ کربیٹھوں لطف کی بات یہ ہے کہ جب تک میں اس تک نہ پہنچا وہ بھی قبلہ سے رخ ہٹا کر مسلسل مجھ حقیر کودیکھتا رہا ان کے حکم پر میں نے ان سے معانقہ کیا(گلے ملا) اور ان سے سوال کیا کہ آپ کانام کیا ہے انہوں سرکو ہلایامگر جواب نہ دیا میں نے اپنا رخ اس قبلہ مقصود کی طرف رکھا اور اپنی پشت ایک ستون سے لگالی اور ایک قدم کے فاصلے سے اس کا نظارہ کرنے لگا ان کا چہرہ مثل گل گلاب تھا اور ان کے دندان مبارک مثل موتیوں کے تھے ان کی ریش مبارک گھنی اور سیاہ تھی ان کے سر کے بال ریشم کی طرح نرم و ملائم لمبا عربی قمیض زیب کیا ہوا تھا کہ جس کا رنگ ہلکا آسمانی تھا ایسی جگہ تشریف فرماتھے کہ ان کے سامنے فرش کا پتھر نمایاں تھا جس کی وجہ سے انہیں سجدہ گاہ کی ضرورت نہ تھی آپ کے دائیں ہاتھ پر دو آدمی مو دب بیٹھے تھے اور بائیں طرف بھی دو آمی مو دب بیٹھے تھے جن کے لباس اہل یمن کی طرح تھے اس حالت میں کہ ان کے سرمتواضع جھکے تھے اور تعقیبات نماز میں مشغول تھے انہوں نے آخر تک سر اوپر نہیں اٹھایا میں نے اپنے آپ سے کہا کہ سرکار کو قسم دوں تاکہ مجھے اپنا تعارف کردیں پھر مجھے یہ احساس ہوا کہ قسم سے تو ان پر جواب دینا واجب ہوجائے گا اور ممکن ہے تعارف نہ کرانے میں مصلحت ہو اور آپ تعارف نہ کرانا چاہتے ہوں میں انہیں اذیت دینے کا موجب نہ بن جاﺅں لیکن مجھے اس دوران مکمل یقین حاصل تھا کہ میرے سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام تشریف فرما ہیں لیکن پھر بھی اطمینان کی کیفیت نہ تھی پس میں نے ارادہ کیا کہ استدعا کروں تاکہ سرکار تعارف کرائیں۔ میں کچھ آگے بڑھا اور سامنے آکر عرض کی کہ مجھے اپنا تعارف کرائیں جس کے جواب میں انتہائی محبت و شفقت کے ساتھ جناب امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نے جملہ ارشاد فرمایا کہ مجھے جرات نہیں کہ اپنے بارے وہ جملہ دہراﺅں میں آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا اور آپ کی زیارت میں غوطہ زن ہوگیا مجھے خیال آیا کہ میں نے صبح کی نماز ادا کرنی ہے اور ایسی جگہ تلاش کروں جہاں پتھر ظاہر ہو تاکہ وہاں نماز پڑھوں لیکن میں اس بات سے غافل تھا کہ واپس آ کر حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار کو دوبارہ نہ پاﺅں گا اور یہی ہوا۔
۲۔ آقائے ابراہیم صاحبزمان سے ملاقات امامزمان علیہ السلام
مرحوم حجة الاسلام علامہ آیت اللھی نے یہ واقعہ مجھے بیان کیا کہ میں کئی سال تک آیت اللہ حائری کے درس میں قم میں شریک رہا ایک شخص جس کا نام ابراہیم صاحبزمان
تھا آیت اللہ حائری کے درس سے پہلے چند منٹ مجلس پڑھتا (مصائب پڑھتا تھا) چونکہ ہر روز اس کی زبان پر مولا صاحب الزمان علیہ السلام کا نام آتا تھا اس لیے اسے صاحبزمان علیہ السلامی کہا جانے لگا ۔
ایک دن میں نے اسے اکیلا پایا تو کہا کہ تو جو ہمیشہ صاحب الزمان علیہ السلام کا ورد کرتا ہے کیا تمہیں کبھی مولا صاحب الزمان علیہ السلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا یا نہیں تو اس نے کہاہاں ! میرا ایک نوکر تھا جس کا نام شیخ حسن تھا جس کے ہمراہ میں گدھے پر تبلیغ و مسائل بیان کرنے جایا کرتا تھا اور میرا نوکر ہمیشہ میرا حقہ اور تمباکو ہمراہ رکھتا تھا ایک دفعہ مجھے نوکر کے ہمراہ قلھک نامی جگہ پر ایک زنانہ مجلس میں شرکت کرنے اور مسائل بیان کرنے جانا تھا۔
راستہ میں میرے نوکر شیخ حسن نے مجھے کہا کہ آج مجھے حقہ اور تمباکو لانا یاد نہیں رہا میں واپس جاتا ہوں اور لے آتا ہوں میں نے اسے کہا کہ اب لازم نہیں ہے رہنے دو آگے بڑھیں جب ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو صاحب خانہ باہر چلا گیا شیخ حسن دروازہ کے پاس بیٹھ گیا جب کہ میں کمرے میں بیٹھ گیا اچانک میں نے دیکھا کہ ایک خوبرو شخص کمرے میں داخل ہوا، اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا جو اس نے ایک گوشہ میں رکھ دیا اور خود صدر نشین کرسی صدارت پر رونق افروز ہوگیا اور مجھے فرمایا کہ آج تمہارا حقہ نہیں ہے میں نے عرض کی ضرورت نہیں ہے فرمایا کہ حقہ تھیلے میں موجود ہے میں نے شیخ حسن کو آواز دی کہ حقہ لائے تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں خود جاﺅ میں خود گیا اور حقہ لے آیا جو کہ مکمل آمادہ اور تیار تھا اور آگ بھری ہوئی تھی۔ پھر وہ میری طرف متوجہ ہوئے تو ہر روز صاحب الزمان علیہ السلام کو بلاتا ہے بتا تجھے صاحب الزمان علیہ السلام سے کیا کام ہے میں نے عرض کی جب صاحب الزمان علیہ السلام سامنے ہوں گے تو خود انہیں بتادوں گا تو انہں نے کہا کہ فرض کرو صاحب الزمان علیہ السلام تمہارے سامنے ہے میںنے کہا کہ خدا آپ کی زبان مبارک کرے پھر کہا کہ بتاﺅ ان سے کیا کام ہے میں نے کہا میری حاجت ہے اور اپنی حاجت بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ پوری کردی گئی ہے پھر فرمایا کہ پھر کبھی تمہیں یا ہمارے کسی دوست کو کوئی حاجت ہو تو اس ذکر کو سو مرتبہ کہو ذکر یہ تھا کہ ”یامحمد یاعلی علیہ السلام یافاطمہ علیہ السلام یا صاحب الزمان علیہ السلام اغثنی“ میں نے عرض کی کہ مجھے بھول نہ جائے تو پھر فرمایا کہ قلم اور کاغذ اسی تھیلا میں ہے اٹھا کر لکھ لو میں نے پھر شیخ حسن کو آواز دی تو فرمایا کہ اسے مت بلاﺅ ۔ میں خود اٹھا اور حقہ کو میں نے تھیلا میں رکھا کاغذ قلم لیا اور عطا کردہ جملات لکھنے لگا ”یامحمد، یاعلی علیہ السلام ، یافاطمہ علیہ السلام، یا صاحب الزمان علیہ السلام“ جب کلمہ اغثنی لکھنے لگا تو قلم کو روک لیا وہ فرمانے لگے کہ تو اغثنی کی بجائے ”اغیثونی“ لکھنا چاہتا ہے میں نے عرض کی جی ہاں تو فرمایا کہ نہیں ”اغثنی“ ہی لکھ سب کام خود اکیلا مہدی علیہ السلام ہی کرتا ہے باقی بھی کام اسی کے سپرد کردیتے ہیں یہ جملات لکھنے کے بعد میں کاغذ اور قلم تھیلے میں رکھنے گیا رکھ کر واپس پلٹا تو دیکھا کہ آقا تشریف لے جاچکے ہیں فوراً تھیلے کی طرف پلٹا دیکھا کہ تھیلا بھی نہیں ہے میں نے فوراً شیخ حسن کو آواز دی اور پوچھا کہ یہ آقا کون تھے تو اس نے کہا کہ میں نے تو کسی کو نہیں دیکھا البتہ تم دونوں کی گفتگو کی آواز سنتا رہا ہوں۔
۳۔ مکہ میں زیارت امامزمان علیہ السلام
آقائے سیدرحیم ہاشمی کہ روحانی ہیں اور مشہد مقدس میں مقیم ہیں (یہ ایک نیک آدمی ہیں مشہد مقدس ادارہ خیریہ چلاتے ہیں ان کے توسط سے اب تک پانچ سو غیرشادی شدہ جوڑوں کے لئے شادی کا انتظام کروایا، مصنف)انہوں نے مجھے (مصنف کتاب) کو یہ واقعہ اپنے الفاظ کے ساتھ بیان کیاہے۔چالیس سال قبل میں سخت بیمار ہوگیا میرا مال ختم ہوگیا میں نے اپنا رہائشی گھر جو کہ میں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا آدھے حصہ میں میں نے خود رہائش رکھی اور آدھے حصہ کو فروخت کردیا اور شام کے راستے مکہ کی طرف روانہ ہوا اس امید پر کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے ملاقات ہواپنے نہ جاننے والوں کےساتھ وارد مکہ ہوا۔
شب عرفہ
نو ذی الحجہ کی رات اپنے خیمہ سے باہر نکلا تو تین آدمیوں سے ملا انہوں نے مجھ سے کہا کہ کیا تم آمادہ ہو کہ ہمارے ساتھ مل کر دعائے عرفہ پڑھو مجھے بڑی خوشی ہوئی ہم ایک کونہ میں چلے گئے وہ تینوں دعائے عرفہ زبانی پڑھتے رہے اور میں ان کی دعا سے لذت حاصل کرتا رہا۔پھر انہوں نے کہا کہ اگر کل ہمیں ملنا چاہتے ہو تو جبل رحمت کے نزدیک فلاں نقطہ پر آجانا دوسرے دن بوقت ظہر وہاں گیا تو ایک آدمی ان سے آیا ہوا تھا مجھے کہا کہ تشریف رکھو باقی بھی آجاتے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ تمہارا دوپہر کا کھانا کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ پنیراور سبزی میں نے ان سے کہا کہ میرے قافلے میں آج مرغ اور چاول ہیں میں دوپہر کے کھانے کے لیے وہاں نہ رکا عید قربان کے دن میں خیمہ سے باہر نکلا تو پھر ان تینوں کو دیکھا انہوں نے مجھے کہا کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہارا حج قبول ہو تو ہمارے ساتھ آﺅ ہم جو کام کریں تم بھی وہی کرنا میں ان کے ساتھ رمی جمرات کے لیے گیا وہاں سے قربان گاہ ان کے ہمراہ گیا میں نے اپنی قربانی کسی کو دی اس نے اس کو ذبح کردیا میرے پاﺅں اور لباس خون آلودہ ہوگئے لیکن ان تینوں افراد کے ساتھ ایسا نہ ہوا میں نے ان کے ساتھ اپنا سرمنڈوایا اور ان کے ہمراہ شعب ابی طالب میں آئے اس دوران ہم ایک پانی کے حوض کے پاس پہنچے مجھے نہیں معلوم کہ یہ حوض کہاں سے آگیا ہم چاروں اس پانی میں اتر گئے ایک نے میرے بدن پر ہاتھ مارا دوسرے نے میرے کپڑے دھوئے اور اس جگہ ڈالے جہاں خشک ہوجائیں پھر ہم چاروں وہاں سے مسجد حرام کی طرف چلے اور باب السلام سے وارد مسجد ہوئے میں نے ان سے کہا کہ اب تک تم تینوں دعا پڑھتے رہے اب مجھے اجازت دو کہ میں بھی کوئی چیز پڑھوں انہوں نے کہا کہ پڑھو میں نے چہاردہ معصومین علیہ السلام پڑھنے شروع کردیے وہ بھی میرے ساتھ دہرانے لگے یہاں تک کہ میں کہا ”السلام علیک یابقیة اللہ“ میں نے دیکھا کہ ان میں سے دونے میرے ساتھ وہ جملہ دہرایا لیکن ایک خاموش ہوگیا اور پھر کہا ”وعلیکم السلام ورحمة اللہ “میں نے توجہ نہ کی کہ یہ کیا ہے ۔ وہ تینوں مسکرانے لگے میں نے کہا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں کہنے لگے ہمیں ہنسی آگئی تھی ہم اکھٹے طواف کے لیے گئے آقا جو کہ ان دونوں کے آگے تھے اور وہ دونوں میرے دائیں بائیں تھے چونکہ میرا ہاتھ درد کرتا تھا وہ میری حفاظت کررہے تھے کہ کہیں میرا ہاتھ نہ دکھ جائے جب ہم مقام ابراہیم علیہ السلام پر پہنچے تو مجھے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تیری نیابت میں نماز پڑھیں میں نے کہا ٹھیک ہے تو انہوں نے فرمایا کہ پہلے خود پڑھ لو پھر ہم بھی نماز پڑھیں گے پھر ہم صفاءو مروہ کے لیے چلے گئے۔
کوہ صفاپر ان میں سے جو آقا تھے انہوں نے تین دعائیں کیں۔
۱۔ خدایا اس جگہ تیری کنیز حاجرہ علیہ السلام پانی کی تلاش میں سات بار دوڑتی ہوئی آئی اور گئی لیکن اب لوگ اپنے گناہوں کو بخشانے کےلئے دوڑتے ہیں اے اللہ تمام کو اپنی رحمت کا مستحق قرار دے ۔
۲۔ خداوند ہمارے شیعوں کو اپنی عنایت خاص کا مورد قرار دے۔
۳۔ اور آقا نے گریہ کی حالت میں جب کہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے تیسری دعا اپنے لیے کی اور فرمایا ”ربنالا نزع قلوبنا بعد ازہدیتنا وھب لنا من لدنک رحمة انک انت الوہاب“۔(سورہ آل عمران آیت ۸)
پھر ہم نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی شروع کردی جب کہ آقا مسلسل یہی آیت تلاوت کرتے رہے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری رہے سعی کے بعد تقصیر کی اور پھر طواف النساءکیا طواف کے بعد نماز پڑھی پہلے کی طرح انہوں نے میری نیابت میں نماز پڑھی۔ میں نے عرض کی کہ میں نے سنا ہے کہ جو شخص اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دیوار کعبہ سے لگائے تو خدا اس کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے کیا میں یہ کام انجام دوں تو آقا نے فرمایا کہ لازم نہیں ہے کیونکہ جو شیعہ ہو اور اس طرح حج انجام دے تو اس کے گناہ معاف ہیں مجھے دو جگہ پر بڑی حیرانی ہوئی ایک اس وقت جب آقا نے کہا کہ (ہمارے شیعہ) اور دوسرا جب کہا کہ جو ہمارا شیعہ ہو، لیکن میںپھر بھی متوجہ نہ ہوا کہ آقا کون ہیں میں نے ان سے خدا حافظی کی آکر دیوار کعبہ کے ساتھ اپنا شکم مس کیا توبہ واستغفار کیا پھر اپنے خیمہ کی طرف آگیا جو کہ صحرا منیٰ میں تھا میں نے اپنے ہمراہ ساتھیوںسے پوچھا کہ کیا کر چکے ہیں تو انہوں نے کہا کچھ رمی جمرات کر چکے ہیں اور قربان گاہ کی طرف گئے ہیں تو نے کیا کیا ہے میں نے کہا کہ میں تو تمام اعمال صحیح انجام دے چکا ہوں کہنے لگے تو جھوٹ بولتا ہے میں نے جب سارا واقعہ سنایا تو سب کے سب رونے لگ پڑے میں ان کے گریہ سے متوجہ ہوا کہ میں نے اپنے حج کے اعمال امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے ہمراہ انجام دیے ہیں ۔
۴۔ آیت اللہ شیخ محمد طہٰ کو شرف زیارت
سید حسین بحرالعلوم جو کہ سید علی بحرالعلوم کے پوتے ہیں فرماتے ہیں کہ نجف میں ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور مہمانوں اور آنے والوں کا استقبال کر رہا تھا کہ ایک ہندی مسلمان جو کہ عامل اور ریاضت کار تھا وارد ہوا اس نے دعویٰ کیا کہ وہ غیبی سوال کا جواب دے گا وہ سوالات کا جواب کاغذ قلم اور ریاضی کے ذریعہ دیتا تھا۔(یہ شخص شیعہ تھا جس نے بہت ساری ریاضتیں کی ہوئی تھیں جس وجہ سے اس مقام پر پہنچ چکا تھا(مصنف))
میں نے اس سے سوال کیا کہ بتا اس وقت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کہاں ہیں؟۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس ہندی نے جواب دیا کہ وہ شیخ طہٰ کے گھر ہیں میں اور میرے اطراف میں بیٹھے دیگر لوگ فوراً شیخ طہٰ کے گھر کی طرف جلدی سے روانہ ہوئے شیخ طہٰ کے گھر کے قریب ایک شخص کو دیکھا کہ جس نے عراقی لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور بہت باوقار تھا اس کی شکل وصورت سے اس کی ہیبت وقدرت ظاہر تھی ہم شیخ کے گھر داخل ہوئے دیکھا کہ شیخ طہٰ کی آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور مسلسل یہی بات دہرا رہے ہیں کہ میرے ہاتھ آئے اور پھر ہاتھ سے نکل گئے ہم نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ لوگ مجھ سے شرعی مسائل معلوم کرنے اور دیگر معاملات حل کرانے آتے ہیں اور میں فتویٰ دیتا ہوں ایک دن میرے دل میں خیال آیا کہ کیا میرے اعمال اللہ رب العزت رسالتماب اور آئمہ علیہ السلام کے نزدیک مورد قبولیت ہیں یا نہیں میں نے تین سال تک اس سلسلہ میں مولا امیرالمومنین علیہ السلام سے توسل کیا اور درخواست کی کہ اگر اپنے اعمال میں مجھ سے خطا ہوئی ہے تو مجھے آگاہ فرمائیں کچھ راتیں پہلے مجھے عالم خواب میں مولاامیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: کہ جو چیز تم نے مجھ سے طلب کی ہے بہت جلد میرے بیٹے مہدی علیہ السلام کے ذریعہ جواب تم تک پہنچ جائے گا آج میں اپنے گھر اکیلا بیٹھا تھا اگرچہ میں نابینا ہوں مگر مجھے محسوس ہوا کہ کوئی میرے گھر میں داخل ہوا ہے اس نے مجھ پر عراقی لہجہ میں سلام کیا اور مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا میں نے جواب دیا اس نے میرے جواب پر علمی اعتراض کیا میں نے پھر جواب دیا اس نے پھر اعتراض میں نے پھر اس کا جواب دیا تیسری مرتبہ اعتراض کیا میں نے پھر اسے جواب دیا اس نے پھر اعتراض کیا میں نے پھر جواب دیا پھر میرے دل میں خیال آیا کہ کیسے ممکن کہ ایک عراقی اس طرح کے مسائل سے آگاہ ہو تو اچانک اس عراقی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا ”انت مرضی عندنا“ کہ تو ہمارے نزدیک پسندیدہ ہے مجھے عجیب لگا کہ ایک عراقی کیسے ایک مرجع تقلید کو یہ بات کہہ رہا ہے وہ یہ کہہ کر میرے گھر سے باہر چلا گیا تو میں بعد میں متوجہ ہوا کہ یہ تو میرے آقا و مولا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تھے۔ہم نے شیخ طہٰ کو عرض کی کہ ہم اسی لیے آپ کے پاس آئے تھے اور ہم نے سرکار کی زیارت آپ کے گھر کے باہر کی ہے جو کہ عراقی لباس میں تھے۔(نقل از کتاب شیفتگان تلخیص)
۵۔ آیت اللہ عبدالنبی اراکی کو شرف زیارت
حجة الاسلام سید محمدمہدی مرتضوی لنگرودی جو کہ اس دور کے بہترین مصنف اور علماءسے ہیں نے یہ واقعہ مجھے بیان فرمایا کہ ایک روز آیت اللہ عبدالنبی اراکی میرے والد مرحوم سے جو کہ نامور علماءسے تھے ملنے کے لیے ہمارے گھرتشریف لائے سلام و دعا کے بعد میرے والد صاحب کو کہنے لگے کہ تمہیں پتہ ہے کہ ہماری نجف میں آیت اللہ اصفہانی بارے رائے کیا تھی اور ہم ان کی ترویج مرجعیت نہیں کرتے تھے بلکہ ہم اکثر علماءوفضلاءکی محفلوں میں کچھ یوں اظہار خیال کرتے تھے کہ ہم آیت اللہ اصفہانی سے کوئی زیادہ کم مرتبہ نہیں ہیں کہ ان کی مرجعیت کے حوالہ سے ترویج کریں۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ تم آیت اللہ اصفہانی کے بارے میں یہی کہتے تھے اور تمہارا دعویٰ یہی تھا مگر درحقیقت تم مراتب میں ان سے بہت کم تھے بلکہ تمہارا اور ان کاموازنہ کرنا مناسب ہی نہیںہے۔ آیت اللہ اراکی نے کہا کہ آج میں تمہیں آیت اللہ اصفہانی کی عظمت وشخصیت کے بارے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور کچھ یوں گفتگو جاری رکھی کہ ایک دن ہمیں پتہ چلا کہ ہندی ریاضت کار عامل نجف آیا ہے جو کہ بہت خدارسیدہ ہے کئی علماءوفضلا اورطلباءحوزہ علمیہ اس کے دیدار کے لیے جانے لگے۔میں بھی ا س کے دیدار کے لیے گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا دوران ریاضت کوئی ایسا ختم یا ورد وظیفہ تمہارے ہاتھ آیا ہے کہ جس کے ذریعہ سے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں رسائی ہو تو اس نے جواب دیا کہ ہاں میرے پاس ایک تجربہ شدہ ختم ہے میں نے اس سے وہ مجرب ختم حاصل کیا وہ کچھ اس طرح تھا۔پاک وصاف لباس اور بدن کے ساتھ بیابان میں چلے جاﺅ اور ایسی جگہ کا انتخاب کرو جو کہ لوگوں کی آمدو رفت کی جگہ نہ ہوباوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھ جاﺅ اپنے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ لو اور ۵۷ مرتبہ آیت الکرسی کی تلاوت شروع کردو پس ختم آیت الکرسی کے اختتام پر جو بھی پہلا شخص ختم پڑھنے والے کو ملے گا وہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہوں گے، آیت اللہ اراکی فرماتے ہیں کہ میں بیابان میں چلا گیا اور بتائے گئے طریقہ مطابق ختم آیت الکرسی انجام دیا جیسے ہی ختم تمام ہوامیں نے ایک سید کو دیکھا جس کا سبز عمامہ تھا مجھ سے اس نے کہا کہ تمہاری کیا حاجت ہے میں نے فوراً کہا کہ مجھے تم سے حاجت نہیں ہے سید نے کہا کہ تم نے مجھے بلایا ہے میں نے کہا کہ آپ کو اشتباہ ہوا ہے میں نے آپ کو نہیں بلایا تو سید نے کہا کہ مجھے ہر گز اشتباہ نہیں ہے تو نے مجھے بلایا ہے جس کی وجہ سے میں یہاں آیا ہوں ورنہ ہمارے انتظار میں تو بہت لوگ ہیں لیکن تو نے اپنی درخواست میں جلدی کی ہے اس لیے ہم پہلے تمہارے پاس چلے آئے ہیں تاکہ تمہاری حاجت پوری کریں اور پھر یہاں سے کسی اور جگہ جائیں میں نے کہا کہ میرے ذہن میں نہیں آتا کہ مجھے آپ سے کوئی کام ہو آپ جس اور جگہ جانا چاہتے ہیں جا سکتے ہیں جہاں اورلوگ آپ کے خواہشمندہیں آپ ان سے جا کر ملیں میں تو ایک بزرگ و عظیم شخصیت کے انتظار میں ہوں سید کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ مجھ سے دور ہوگئے ابھی چند قدم دور گئے تھے کہ میرے دل میں خیال آیا کہ کیا اس عامل نے نہیں کہا تھا کہ ایسی جگہ جا کر بیٹھنا جہاں آمدورفت نہ ہو تو ایسی جگہ پر ختم کے مکمل ہوتے ہی جو شخص ظاہر ہوگا وہ آقا ومولا ہوں گے یقینا امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام سرکار تھے، میں فوراً ان کے پیچھے ہو لیا لیکن میں نے انہیں جتنا بھی تلاش کیا ان تک نہ پہنچ سکا ناچار میں نے عبا اتاری اور بغل میں دی جوتے اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لیے اور ننگے پاﺅں تیز تیز دوڑ کر آقا کے پیچھے ہو لیا لیکن ان تک نہ پہنچ سکا اگرچہ وہ بہت آہستہ چل رہے تھے تو مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ وہ سید امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہی تھے چونکہ میں بہت زیادہ دوڑا تو تھک گیا میں نے کچھ آرام کیا لیکن میری آنکھیں آقا کی طرف اورجستجو میں تھیں اور تلاش میں تھی کہ آقا کون سے جھونپڑے میں چلے گئے ہیں تاکہ میں کچھ آرام کے بعد اسی جھونپڑے میں چلا جاﺅں میں نے دور سے دیکھا وہ ایک جھونپڑے میں وارد ہوئے میں بھی کچھ دیر بعد اس جھونپڑے کی طرف چلا کچھ دیر چلنے کے بعد اس جھونپڑے تک پہنچ گیا میں نے دروازہ پر دق الباب کیادروازہ پر ایک شخص ظاہر ہوا اور کہا کیا کام ہے میں نے کہا کہ آقا سے ملنا چاہتا ہوں اس نے کہا آقا سے ملنے کے لیے اجازت چاہیے تم ٹھہرو میں تمہارے لیے اجازت طلب کروں وہ چلاگیا اور کچھ دیر بعد واپس آکر کہا کہ آقا نے اجازت دے دی ہے میں جھونپڑے میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ وہی آقا جو مجھے ملے تھے ایک تخت ، چٹائی پر بیٹھے تھے میں نے سلام کیا اور آقا نے جواب دیا میں نے سنا آقا نے فرمایا کہ چٹائی پر بیٹھ جاﺅ میں اطاعت حکم کی اور آقا کے سامنے تخت پر بیٹھ گیا۔ کچھ ججھک کے بعد اپنے مشکلات مسائل ایک ایک کر کے بیان کرنا چاہا میں نے جتنی بھی کوشش کی کوئی ایک مسئلہ بھی مجھے یاد نہ آیا میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد سراٹھایا تو دیکھا کہ آقا میرے منتظر ہیں مجھے شرمندگی ہوئی میں شرمسار ہوکر عرض کی آقا مجھے اجازت دیں انہوں نے فرمایا کہ ماشاءاللہ جاسکتے ہیں میں جھونپڑے سے نکلا ابھی چند قدم چلا تھا کہ مجھے اپنے مسائل ومشکلات تمام یاد آگئے مجھے خیال آیا کہ یہ سب زحمت جو میں نے اٹھائی ہے اوراس جگہ تک پہنچا ہوں لیکن آقا سے کوئی فائدہ نہیں لے سکا مجھے چاہیے کہ دوبارہ جرات کرتے ہوئے جھونپڑے کا دروازہ کھٹکھٹاﺅں آقا کی خدمت میں جاﺅں اور اپنے سوال بیان کروں میں نے جھونپڑے کا دروازہ بجایا، دوبارہ وہی شخص باہر آیا میں نے کہا کہ دوبارہ آقا سے ملنا چاہتا ہوں اس نے کہا کہ آقا نہیں ہیں میں نے کہا کہ جھوٹ نہ بولو میں گھومنے پھرنے نہیں آیا بلکہ مشکلات و مسائل ہیں جن کا آقا سے حل چاہتا ہو اس نے کہا کہ کیسے میری طرف جھوٹ کو نسبت دے رہے ہو۔ استغفار کرو، جھوٹ بولنا تو درکنار اگر میں صرف جھوٹ کا قصد بھی کروں تو مجھے یہاں کیسے ٹھہرایا جا سکتاہے۔ یہ آقا عام شخصیت نہیں ہیں یہ امام والا مقام ہیں مجھے بیس سال ہوگئے ہیں کہ آقا کی نوکری کررہا ہوں آقا نے مجھے کبھی دروازہ کھولنے کی زحمت نہیں دی اگر دروازہ بند ہو تو کبھی دروازہ بند ہونے کے باوجود اندر تشریف لے آتے ہیں کبھی چھت سے اندر آتے ہیں کبھی دیکھتا ہوں تو آقا تخت پر مشغول عبادت ہوتے ہیں اور کبھی اچانک غیب ہوتے ہیں لیکن ان کی صدا مبارک مجھے سنائی دیتی رہتی ہے اور کبھی کبھی تو مستقلاً جھونپڑا چھوڑ دیتے ہیں۔کبھی اچانک تشریف لے آتے ہیں کبھی کبھی تین تین دن تک تشریف نہیں لاتے کبھی کبھی چالیس دن کبھی کبھی دس دن یا مسلسل جھونپڑے میں تشریف فرمارہتے ہیں۔ ان آقا کے کام دیگر لوگوں سے مختلف ہیں میں نے کہا کہ میں نے جھوٹ کو آپ کی طرف نسبت دی جس پر معذرت خواہ ہوں اور استغفار کرتا ہوں مجھے امید ہے کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو معاف کیا تو میں نے کہا کہ میری مشکلات کے حل کے لیے کوئی راہ ہے ! تو اس نے کہا کہ ہاں جب امامزمان علیہ السلام سرکار یہاں تشریف نہ رکھتے ہوں تو ان کے نائب یہاں آکر تشریف فرما ہو جاتے ہیں اور تمام مشکلات کا حل پیدا کرتے ہیں میں نے کہا کہ کیا ممکن ہے کہ میں اس نائب سے مل سکوں اس نے کہا کہ ہاں میں جھونپڑے میں داخل ہوا میں نے دیکھا کہ آقا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی جگہ پر آقائے ابوالحسن اصفہانی تشریف فرما ہیں میں نے سلام کیا اور انہوں نے جواب دیا اور مسکر کر اصفہانی لہجہ میں فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کی الحمدللہ پھر میں نے ایک ایک کر کے اپنے مسائل بیان کرنا شروع کر دیے میں نے جوبھی سوال عرض کیا انہوں نے بلاتامل جواب دیا اور ساتھ حوالہ دیا کہ یہ مسئلہ صاحب جواہر نے فلاں صفحہ پر درج کیا ہے اور فلاں جواب کتاب حدائق میں فلاں صفحہ پر ہے جو صاحب حدائق نے دیا ہے اس مسئلہ کا جواب صاحب ریاض نے فلاں صفحہ پر دیا ہے ان کے تمام جوابات اور حل انتہائی تحقیقی اور مطمئن کرنے والے تھے۔ تمام حل سننے کے بعد میں نے ان کے ہاتھوں کا بوسہ دیا اور اجازت لے کر رخصت ہوا!۔
جب باہر آیا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ کیا یہ واقعاً سید ابوالحسن اصفہانی ہی تھے یا انکی شکل میں کوئی اور تھا میں تردد میں تھا میںنے اپنے آپ سے کہا کہ میرا تردد تب ختم ہوگا کہ نجف جاﺅں اور سید ابوالحسن اصفہانی کے گھرجاﺅں اور وہی مسائل جا کر ان سے دوبارہ پوچھوں اگر جواب وہی ہوئے اور کوئی کمی بیشی نہ ہوئی تو مجھے یقین ہو جائےگا کہ وہاں یہی سید ابوالحسن اصفہانی ہی تھے جب میں نجف میں آیا اور انکی منزل پر پہنچا ان کے مخصوص کمرے میں وارد ہوا سلام کیا انہوں نے جواب دیا انہوں نے مسکراتے ہوئے اسی انداز میں جیسا جھونپڑے میں تھا مجھ سے میرا حال خالص اصفہانی لہجہ میں پوچھا میں نے جواب دیا اور پھر اپنے مسائل اسی طرح بیان کیے اور انہوں نے جواب دیے اور پھر فرمایا کہ اب مطمئن ہو یا ابھی تردد میں ہو، میں نے کہا کہ اب یقین ہے میں نے انکے ہاتھوں کو بوسہ دیا جب میں انکی خدمت سے جانے لگا تو انہوں نے فرمایا کہ میں قطعاً راضی نہیں ہوں گا کہ میری زندگی میں یہ واقعہ کسی کو نقل کرو ہاں میرے مرنے کے بعد بے شک کرنا
۶۔ ایرانی انجینئر اور اس کی امریکی بیوی کو شرف زیارت
ایک ایرانی جوان جو کہ امریکہ کی یونیورسٹی میں انجینرنگ کررہا تھا ایک مسیحی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا جو کہ طالبہ تھی اس نے اسے شادی کی پیشکش کی ایرانی جوان نے کہا کہ شادی ممکن نہیں ہے کیونکہ میں مسلمان ہوں اور تم عیسائی ہو تو لڑکی نے کہا میں مسلمان ہوجاتی ہوں لڑکے نے کہا کہ ہوس کی وجہ سے اسلام لانااسلام نہیں ہے تولڑکی نے کہا کہ پھر مجھے کیسے مسلمان ہونا چاہیے لڑکے نے کہا کہ پہلے تم اسلام کی معرفت اورپہچان حاصل کرو اگر پسند آئے تو اسلام قبول کر لینا لڑکے نے دو کتابیں قرآن مجید اور نہج البلاغہ جو کہ انگریزی زبان میں تھیں اس لڑکی کو دیں اور کہا کہ ان کا مطالعہ کرو اور اپنا نظریہ مجھے بتاﺅ،لڑکی نے تقریباً دو ماہ تک قرآن اور نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا اور کہا کہ اسلام اچھا دین ہے اور میری عقل سے ہم آہنگ ہے لڑکے نے کہا کہ اسلام صرف عقیدہ کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ کے ساتھ عمل بھی ہے اور پھر اسے نماز کی تعلیم دی اور کہا کہ تم چالیس دن نماز پڑھو اور پردہ کی حفاظت کرو تاکہ تمہاری عادت بن جائے پس لڑکی نے چالیس دن تک دیے گئے دستور مطابق عمل کیا تو ایرانی جوان نے اس لڑکی سے شادی کر لی لڑکے نے کہا کہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس ایران جا کر خدمت کرنا چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ ایران چلو گی لڑکی نے کہا جی ہاں میں جاﺅں گی کچھ مدت بعد جب تعلیم مکمل ہوگئی تو ایران جانے کا وقت آگیالڑکے نے بیوی سے کہا کہ ایام حج نزدیک ہیں بہتر ہوگا کہ یہیں سے ہم حج پر چلے جائیں اور پھر وہاں سے ایران چلے جائیں گے لڑکی نے یہ بات قبول کر لی، واضح رہے کہ ان دونوں میاں بیوی کے درمیان امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے حوالہ سے بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوتا رہا لڑکی کہتی تھی کہ امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی غیبت کا کیا فائدہ ہے؟ امام کو چاہیے کہ وہ حاضر ہو تاکہ اس سے فائدہ حاصل کیا جا سکے لڑکا جواباً کہتا کہ امام دین اور افراد کے پشت پناہ ہیں مگر پردہ کے پیچھے سے اور جب دین کونابود ہونے کا خطرہ ہوگا تو امام ظہور فرمایں گے اور جب کہیں انسان پریشان و مضطر ہو جاتے ہیں تو امام سے متوسل ہوتے ہیں اور مدد چاہتے ہیں تو امام ان کی فریاد پر پہنچتے ہیں۔
وہ ہر ضرورت کے موقعہ پر انسان کی مدد کے لیے آجاتے ہیں دونوں میاں بیوی اعمال حج انجام دیتے رہے رمی جمرات کے موقع پر رش کی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے لڑکی جو کہ عربی اور فارسی نہ جانتی تھی جتنا تلاش کرتی رہی مگر شوہر نہ نظر آیا اور نہ ہی اپنا خیمہ تلاش کر سکی تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئی اور رونے لگی اور اس نے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے مدد طلب کی دوسری طرف اس کا شوہر بھی سخت پریشان اپنے خیمہ کے دروازہ پر مایوسی کی حالت میں کھڑا دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ شاید اب وہ مجھے کبھی نہ ملے کہ اچانک اس کی بیوی ایک شخص کے ساتھ گفتگو کرتی ہوئی آرہی ہے ساتھ آنے والے شخص نے لڑکی کو اس کے شوہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمہارا شوہر ہے اور لڑکی نے بھی دیکھ کر کہا کہ ہاں پس ساتھ آنے والے شخص نے خداحافظی کی اور لڑکی کو شوہر کے پاس پہنچا کر چلا گیا۔ ایرانی انجینئر نے بیوی سے پوچھا کہ تم کیسے پہنچی ہو تو لڑکی نے کہا کہ میں نے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے توسل کیا تو یہ آقا جو مجھے یہاں پہنچانے آئے تھے میرے پاس آگئے میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں مہدی علیہ السلام ہوں اور مجھ سے انگلش میں بات کی اور مجھے سیدھا اپنے خیمہ کی طرف لے آئے ۔
۷۔ نو مسلم خیبری کو شرف زیارت
حجة الاسلام یحیٰ طہرانی نے ثقة الاسلام سید ابوالحسن طالقانی جو کہ میرزا بزرگ کے اصحاب سے تھے سے واقعہ نقل کیا ہے انہیں کی زبانی تحریرہے۔
ہم کچھ دوستوں کے ساتھ کربلا معلی سے واپس سامرالوٹے ظہر کے وقت ہم ایک قصبہ جس کا نام دجیل ہے پہنچے دوپہر کے کھانے اور آرام کے لیے ہم وقت عصر تک رکے رہے۔
شیخ محمد حسن کے ہمراہ ایک سامرہ کے طالب علم کو دیکھا جو دیگر طلبہ کے ساتھ کھانا تیار کرانے میں مصروف تھا وہ طالب علم شیخ کے ساتھ عبرانی زبان میں تورات پڑھنے میں مصروف تھا مجھے تعجب ہوا اور میں نے شیخ محمد حسن سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور اس نے عبرانی زبان کہاں سے سیکھی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ نومسلم ہے پہلے یہودی تھا میں نے اس کے مسلمان ہونے کا واقعہ پوچھا کہ کیسے مسلمان ہوا؟تو خود اس طالب علم نے بتایا کہ میں خیبر کے یہودیوں سے تھا خیبر میں یہود کا ایک بہت بڑا اور پرانا کتاب خانہ ہے اس میں ایک تورات جو قدیم ہے جو کہ چمڑے پر لکھی ہوئی تھی ایک کمرہ میں بند تھی اور اسے تالا لگا کر رکھاجاتا تھا ۔ گذشتگان نے سفارش کی تھی کہ اس کمرے کا تالا کبھی نہ کھولا جائے اور کوئی اس تورات کی تلاوت ومطالعہ نہ کرے اور مشہور کر رکھا تھا کہ جو بھی اس تورات کو دیکھے گا پاگل ہو جائے گا اور بالخصوص جوانوں کو سختی سے منع کیا گیا تھا میں اور میرا بھائی اس چکر میں تھے کہ کسی طرح اس تورات کو دیکھیں ہم اس کمرے کے کلید بردار کے مخصوص کمرے میں گئے اور اس سے گزارش کی کہ وہ ہمارے لیے دروازہ کھول دے اس نے پہلے پہل تو انکار کردیا مگر ہمارے اصرار پر راضی ہو گیا ہم نے اسے کافی رقم کا لالچ دے کر راضی کیا ہم اس کے ساتھ طے شدہ وقت میں وہاں پہنچے اور کمرے میں داخل ہوگئے اور اس تورات کے مطالعہ میں مصروف ہوگئے ایک مخصوص صفحہ نے ہماری توجہ خاص طور پر اپنی طرف مبذول کرالی میں نے اسے بادقت پڑھا ایک صفحہ میں لکھا تھا کہ عربوں سے ایک پیغمبر آخریزمان علیہ السلامہ میں معبوث ہو گا جس کی تمام اوصاف و خصلت نام ونشان نسب وغیرہ بیان کیا گیا تھا اور ساتھ اس نبی کے ۲۱ اوصیاءکے نام اور تعارف بھی لکھا تھامیں نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہمیں ان صفحات کو نقل کر لینا چاہیے اور اس پیغمبر بارے جستجو کریں ہم اس پیغمبر کے پرستار ہوگئے اور ہماری ساری کوشش اس نبی بارے جستجو کرنے اور تلاش میں ہوتی تھی ہمارا علاقہ پسماندہ تھا رفت وآمد کے ذرائع نہ تھے اور غیر ممالک یا شہروں سے ہمارا رابطہ بہت کم تھا۔
آخر کار مدینہ کے کچھ تاجر ہمارے شہر وارد ہوئے ہم نے بہت مخفی طریقہ سے ان میں سے دو آدمیوں سے پتہ چلایا کہ وہ پیغمبر جس کا تورات میں تذکرہ ہے وہ مبعوث ہوچکا ہے اور ہم کو اسلام کی حقانیت کا یقین ہوگیا لیکن ہم میں جرات نہ تھی کہ اس موضوع پر کسی سے گفتگو کریں میں نے اپنے بھائی کے مشورہ سے یہاں سے فرار کا منصوبہ بنا لیا ہم نے سوچا کہ اگر ہم مسلمانوں کے مرکزی شہر مدینہ جائیں تو چونکہ مدینہ ہمارے شہر کے نزدیک ہے یہودی ہمارے لیے مشکلات پیدا کریں گے ہم نے موصل اور بغداد کانام سنا ہواتھا۔ چونکہ انہی دنوں والد فوت ہوا تھا اور اس نے اپنا ایک وصی مقرر کیا ہوا تھا ہم اس وصی کے پاس گئے اس سے دوسواریاں اور کچھ رقم حاصل کی سواریوں پرسوار ہو کر ہم نے عراق کی طرف سفر شروع کردیا جب ہم موصل پہنچے تو ایک سرائے میں گئے رات وہاں بسر کی صبح ہماری سواریوں کو دو آدمیوں نے کافی اصرار کر کے ہم سے خرید لیا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں بغداد جانا چاہیے لیکن دوسری طرف ہم خوفزدہ تھے کیونکہ بغداد میں ہمارا ماموں رہتا تھا اورتجارت کرتا تھا ممکن ہے اسے ہمارے فرار کی خبر ہوچکی ہو بہرحال ہم بغداد آگئے اور ایک کاروان سرائے میں جگہ حاصل کی ایک دن سرائے کا مالک جو کہ بوڑھا آدمی تھا ہمارے کمرے میں آیا ہم نے اسے کہا کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں کسی مسلمان عالم کے پاس لے چل اس نے اپنے اپنے ابرو ہاتھوں سے اٹھاکر دیکھا اور کہا کہ چلیں۔
ہم تین آدمی قاضی بغداد کے گھر پہنچ گئے قاضی نے پہلے توحید بارے گفتگو کی پھر پیامبر اسلام کے بارے بیان کیا اور پھر خلفاءپیغمبر میں سے عبداللہ بن ابی قحافہ (ابوبکر) کا تعارف کرایا میں نے قاضی سے کہا یہ عبداللہ کون ہے اس کا ذکر ہماری تورات میں اوصیاءپیغمبر میں نہیں ہے قاضی نے کہا کہ ابوبکر وہ ہے کہ جس کی بیٹی پیغمبر کی زوجہ ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تورات میں پڑھا کہ وصی پیغمبر وہ ہے کہ پیغمبر کی بیٹی جس کی زوجہ ہوگی۔ میری یہ بات سنتے ہی قاضی کا رنگ بدل گیا اور سخت ناراض ہوگیا اور کہا اس رافضی کو باہر نکال دو۔
مجھے اور میرے بھائی کو انہوں نے دھکے مار کر نکال دیا ہم سرائے میں واپس آگئے سرائے کا مالک بھی ہمارے اس ماجرا سے حیران تھا اور ہم سے بے پروائی یا غفلت نہیں برتتا تھا ہم حیران تھے کہ یہ رافضی کیا ہے رات کو ہم سوگئے صبح ہم نے پھر سرائے کے مالک کو بلایا اور اسے کہا کہ شاید قاضی کو ہماری بات سمجھ نہیں آئی ہمیں پتہ نہیں کہ یہ رافضی کیا ہوتا ہے اس نے کہا کہ جو کچھ قاضی کہتا ہے اسے قبول کرلو ہم نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی ہم نے اسلام کی تلاش میں اپنا گھر شہر اور عزیز و اقارب چھوڑے ہمیں دیگر کوئی غرض و غایت نہیں ہے ہم صرف حقیقت تلاش کرنا چاہتے ہیں اس نے کہا کہ آﺅ دوبارہ قاضی کے پاس چلتے ہیں ہم دوبارہ قاضی کے پاس گئے اور اسے کہا کہ ہم نے اپنا شہر اور گھر چھوڑ دیا ہے اور حقیقت کی تلاش میں ہیں ہم نے پیغمبر اور اس کے اوصیاءکی صفات اور نشانیاں قدیمی نسخہ تورات میں پڑھی ہیں لیکن اس میں عبداللہ ابن ابی قحافہ (ابوبکر) کا تذکرہ نہیں ہے تو قاضی نے کہا کہ اگر ابوبکر کا ذکر نہیں ہے تو پھر کس کا ہے میں نے کہا کہ تورات قدیم میں تو لکھا ہے کہ پیغمبر کا خلیفہ وہ ہوگا جو پیغمبر کا داماد اور چچازاد ہوگا۔ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ قاضی نے اپنے پاﺅں سے جوتا اتار لیا میرے منہ اور سر پر جتنا مارسکتا تھا مارا بڑی مشکل سے میں نے اس سے جان چھڑائی میرا بھائی تو پہلے ہی بھاگ گیا تھا میں بھی زخمی منہ اور سر کے ساتھ بھاگ گیا اور مجھے معلوم نہ تھا کہ کہاں جاﺅں میں دریائے دجلہ کے کنارے پہنچا کمزوری کی وجہ سے بیٹھ گیا مصیبت مسافرت اور خوف کی وجہ سے رونے لگا اچانک ایک نوجوان کو دیکھا جس نے سفید لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور دو خالی کوزے اس کے ہاتھ میں تھے شاید دریا سے پانی بھرنا چاہتا تھا میرے قریب آیا اور بیٹھ گیا جب اس نے میرا منہ سرزخمی دیکھا تو پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ میں نے کہا کہ پردیسی ہوں اور خیبر کے یہود سے ہوں اور پھر اپنا تمام ماجرا اسے سنا دیا تو اس نے کہا کہ کیا میں تمہارے لیے تورات پڑھوں میں نے عرض کیا ہاں!
تو اس جوان نے تورات عبرانی زبان میں پڑھنی شروع کردی وہ ایسے پڑھ رہا تھا کہ جیسے وہ قدیمی نسخہ تورات جو چمڑے پر لکھا ہوا تھا اسی جوان کا لکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے ساتھ یہ سب کچھ ہوا ہے اس سفید پوش جوان نے مجھ سے پوچھا کہ بتاﺅ یہود کے کتنے فرقے ہیں میں نے عرض کی بہت زیادہ ہیں تو جوان نے کہا کہ ۱۷ فرقہ ہے اور پوچھا کہ کیا سارے حق پر ہیں میں نے کہا نہیں پھر اس نے پوچھا کہ عیسائی کتنے فرقے ہیں میں نے کہا کہ کئی ہیں فرمایا وہ ۲۷ فرقے ہیں پھر پوچھا کہ سارے حق پر ہیں میں نے عرض کی نہیں پھر اس نے فرمایا کہ اسلام کے بھی ۳۷ فرقے ہیں صرف ایک حق پر ہے تو میں نے عرض کی اسی حق والے فرقہ کا متلاشی ہوں کیا کروں تو اس جوان نے کہا کہ تم اس راستے سے کاظمین چلے جاﺅاور شیخ محمد حسن آل یٰسین کے پاس پہنچو وہ تمہاری حاجت پوری کردے گا پھر اچانک نوجوان میری نظروں سے غائب ہوگیا میں نے بڑاڈھونڈھا مگر کوئی آثار اس کے نہ ملے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ عام لوگوں سے نہ تھا بلکہ ایک غیبی انسان تھا مجھے ہدایت کا یقین ہوگیا میں نے نئی طاقت پیدا کی اور اپنے بھائی کی تلاش میں نکل پڑا آخر اسے تلاش کرلیا اس وجہ سے کہ کاظمین اور شیخ محمد حسن کانام نہ بھول جاﺅں مسلسل زبان پر یہ دو نام لیتا رہا میرے بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ کون سی دعا پڑھ رہے ہو میں نے اسے واقع بتایا وہ بہت خوش ہوا اور ہم کاظمین روانہ ہوئے شیخ آل محمد حسن آل یٰسین کی خدمت میں حاضر ہوئے انہیں تمام واقعہ جوپیش آیا بیان کیا جس کو سن کر شیخ بہت رویا کچھ دیر ہماری آنکھوں کو چومتا رہا اور کہتا رہا کہ تم نے ان آنکھوں سے مولا ولی العصر امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا دیدار کیا ہے ہم کچھ وقت شیخ کے مہمان رہے یہاں تک کہ ہم خبر ملی کہ ہماری گھر سے فرار کی خبر ہمارے ماموں کو بغداد میں کر دی گئی ہے اور ہمارا ماموں ہماری تلاش میں ہے اس بنا پر شیخ محمد حسن نے ہمیں سامرہ بھیج دیا ہم ایک مدت تک سامرہ رہے ہمارے ماموں کو اطلاع ملی اس نے حکومت کو شکایت کی کہ دوجوان اپنے باپ کا مال چوری کرکے سامرہ بھاگ آئے ہیں مرحوم آیت اللہ مرزا بزرگ نے فرمایا کہ تمہارے ماموں نے ہمارے لیے بڑی مشکلات اور زحمات پیدا کی ہیں ڈر ہے کہ وہ تمہیں کوئی صدمہ نہ پہنچائے لہٰذا تم حلہ چلے جاﺅ ہم حلہ آئے اور علم دین حاصل کرنے میں مشغول ہوگئے۔(مصلح حقیقی جہان)
۸۔ تین چِلّے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی جستجو میں
اہل علم سے نقل ہے کہ جوکوئی چالیس روز تک عمل صالح مسلسل بجالائے خلوص کے ساتھ اور اس نیت کے ساتھ کہ مجھے دیدار سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہو تو اسے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا دیدارہوگامثلاً اگر کوئی مالدار مسلسل چالیس رات ۰۴ آدمیوں کو کھانا کھلاے تو اسے دیدار سرکار حاصل ہوگا ایک مال دار شخص نے یہ بات جب ایک عالم سے سنی تو پکاارادہ کر لیا کہ وہ چالیس رات ۰۴ مساکین کو کھانا کھلائے گا اس نے ایسا ہی کیا آخری رات کے کھانے بعد اس ثروت مند کر اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے کھانا مانگا ہے ثروت مند نے کہا کہ اسے کہو کھانا ختم ہوگیا ہے جب کہا گیا تو اس کھانا مانگنے والے شخص نے جواب دیا کہ ایک دیگ میں کچھ کھانا پڑا ہے اسی سے دے دو صاحب طعام کو بتلایا گیا تو اس نے پھر کہا کہ اسے کہو کھانا نہیں ہے وہ کیونکہ چالیس رات مسلسل کھانا دے چکا تھا اور ابھی تک دیدار امام سے محروم تھا اس لیے ناراحت تھا اس لیے غذا مانگنے والا آخر چلاگیا۔
اس ثروت مند نے اسی عالم دین سے دوبارہ رابطہ کیا اور ماجرا بیان کیا تو اس عالم دین نے کہا کہ سب سے آخر میں جس شخص نے غذ اطلب وہ ہی تو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تھے لیکن تم چونکہ تھکے ہوئے تھے لہٰذا غذا کے نہ ہونے کا تم نے جھوٹ بولا اور دیدار حضرت سے محروم ہوگئے لہٰذا اب کوئی ویران مسجد تلاش کرو اور چالیس دن تک اس میں جاروب کشی کرو اور اس میں چراغ جلاﺅ اور صبح کی نماز اسی مسجد میں پڑھو تاکہ تم سرکار کو مل سکو اس صاحب ثروت نے ایسا ہی کیا، چالیسویں دن جب یہ اپنے وقت مقررہ پر مسجد گیا تو دیکھا کہ مسجد کا دروازہ کھلاہوا ہے چراغ جلایا جا چکا ہے جائے نماز بچھ چکا ہے اور کوئی شخص مصروف عبادت ہے صاحب ثروت نے اس شخص سے اظہار ناراضگی کیا کہ تم نے یہ کام کیوں انجام دیا جب کہ یہ کام مجھے انجام دینا تھا جواباً اس شخص نے کہا کہ میں نے یہ کام خدا کے لیے انجام دیاہے۔ صاحب ثروت دوبارہ عالم دین کے پاس آیا اور ماجرا بیان کیا عالم دین نے کہا کہ جو تم سے پہلے مسجد میں موجود تھا وہی تو تمہارے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تھے جس پر تو نے اعتراض کیا بوجہ مغروری نہ جان سکے لہٰذا اب جاﺅ اور نجف کے ایسے محلہ میں جہاں پانی کم ہے لوگوں تک چالیس روز پانی پہنچاﺅ اس صاحب ثروت نے مسلسل اپنا وقت لوگوں تک پانی پہنچا نے میں صرف کرنا شروع کردیا آخری دن یعنی چالیسویں دن جب یہ پانی سیڑھیوں سے اوپر لارہا تھا ایک شخص نے اس سے پانی کی درخواست کی اس ثروت مند نے اسے پانی دینے کی بجائے اسے پانی دکھایا اور کہا کہ جاﺅ خود پی لو تمہیں نظر نہیں آتا اس جواب پر جس شخص نے پانی مانگا تھا مسکرانے لگا تو صاحب ثروت آدمی کے حواس درست ہوئے اور احساس ہوا کہ یہی میرے مقصد و مطلب سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہیں حضرت نے اس کی زحمات کے عوض جو اس نے تین بار اٹھائیں تین بار شرف زیارت بخشا۔
۹۔ جمال اصفہانی سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی خدمت میں
میں نے ایک ایسے بااعتماد اور باوثوق شخص کہ جسے اولیاءخدا سے شمار کیا جا سکتا ہے یہ واقعہ سنا ہے کہ حجة الاسلام سید اسماعیل شفتی اصفہانی اپنے ایک سومعنقدین کے ہمراہ عازم زیارات مقامات عالیہ مکہ مکرمہ ہوئے زیارات کے اختتام پر نجف اشرف میں ایک بوڑھے مرد اور عورت نے کچھ رقم کی تھیلی امانتاًبرائے حفاظت آقائے شفتی کے حوالہ کی آخری رات جس میں طے تھا کہ کل قافلہ شمال عراق کی طرف سے براستہ رمل حجاز کی طرف سفر کرے گا۔ آقائے اسماعیل شفتی حرم امیرالمومنین سے واپس لوٹے اور اپنی ضروریات سفر وغیرہ دیکھنے لگے متوجہ ہوئے کہ ان بوڑھے میاں بیوی کی رقم والی تھیلی موجود نہیں ہے گم ہوگئی ہے۔ پریشان ہو کر مہمان سرا سے باہر نکلے اور مسجد سہلہ کی طرف چل پڑے درمیان راہ میں انہوں نے ایک گھوڑے سوار کو دیکھا کہ جس کے نور سے پورا بیابان روشن ہے اس گھوڑے کے سوار نے فرمایا کہ سید اسماعیل کہاں جارہے ہو میں نے عرض کی مسجد سہلہ کی طرف تاکہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے اپنی حاجت بیان کروں اس گھوڑے سوار نے کہا کہ اپنی حاجت بیان کر میں نے کہا کہ اگر مولا کا دیدار ہو تو ان کو حاجت بیان کروں گا فرمایا کہ فرض کرو میں ہی مہدی علیہ السلام ہوں تو میں نے کہا کہ اگر آپ علیہ السلام مہدی ہیں تو آپ کو میری حاجت کا پتہ ہوگا تو اس وقت اس گھوڑے سوار نورانی جوان نے کہا کہ ان بوڑھے مرد اور عورت کی رقم گم کر بیٹھے میں نے عرض کیا جی ہاں!تو مولانے ہاتھ اصفہان کی طرف اٹھایا اور آواز دے کر کہا ھالو،ھالو اصفہان کے ایک قلی کانام تھا جس کو میں پہچانتا تھا مولا کے سامنے حاضر ہوگیا مولا نے فرمایا ھالو دیکھ تیرا ہمسایہ کیا کہتا ہے میں نے ھالو کی طرف رخ کیا اور اپنا معاملہ بتایا کہ میری امانت والی تھیلی گم ہوگئی ہے میں نے دوبارہ گھڑسوار کی طرف دیکھا تو وہ غائب تھے ھالو نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے مہمان سرا کی طرف لے کر چل پڑا مجھے مہمان سرا والی گلی میں چھوڑ کر کہا کہ صبح بوقت روانگی تیرے پاس امانت والی تھیلی لے آﺅں گا، صبح جب قافلہ عازم حجاز ہوا ھالو راہ میں پہنچ گیا اور وہ رقم مجھے دی اور کہا کہ تم نے گویا مجھے نہیں دیکھا کبھی میری اس ملاقات کا ذکر نہ کرنا میں نے اس سے سوال کیا کہ میں تمہیں کہاں مل سکتا ہوں تو ھالو نے کہا کہ منیٰ میں عید قربان کی ظہر کے وقت میں نے سوچا کہ ھالو مجھے کہاں ملے گا احتمال ہوا کہ شاید مسجدخیف میں ،میں نے اپنی چادر کندھوں سے اتاری اور مسجد خیف کی طرف چل پڑا میں نے مسجد کے نزدیک تقریباً ۰۳ آدمیوں کو لباس احرام میں دیکھا ان سب سے آگے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار تھے اور وہ سب کے سب مسجد کی طرف جارہے تھے ان میں ھالو بھی تھا میں نے ھالو کو اشارہ کیا کہ کہاں جارہے ہو ھالو نے بتایا کہ یہ وہ نفر ہیں جو حج پر خدمت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام میں ہوتے ہیں تاکہ مصیبت زدہ اور پریشان حال حاجیوں کی مدد کریں اب مسجد کی طرف جا رہے ہیں کہ نماز ظہر پڑھیں تم بھی اگر چاہتے ہوتو ہمارے ساتھ آﺅ میں نے بھی ان کی ہمراہی کی اور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے پیچھے نماز باجماعت ادا کی اور میں نے ھالو سے کہا کہ کیا ممکن ہے کہ میں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار کے ہاتھ چوم لوں تو ھالو نے کہا کہ بس یہی کافی ہے اور ہاں اصفہان میں تم ویسے ہی حجة الاسلام ہوگئے اور میں ایک قلی میرے بارے کسی کو کچھ نہ بتانا، اصفہان واپس آکر ملنے والے لوگوں سے جلد فارغ ہونا چاہتا تھا کہ ھالو کے دیدار کے لیے جاﺅں اور اس سے استفادہ کروں مجھے آئے ہوئے تیسرا دن تھا کہ لوگ میرے گھر آئے اور کہا ھالو آپ کو سلام کہتے ہیں اور کہا ہے کہ مجھے آکر حوالہ خاک کرودفن کرو میں نے باکمال افسوس و دکھ ھالو کا جنازہ پڑھااور اسے دفن کیا۔
۰۱۔ شیخ حسن کا امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام سے ملنا
نجف اشرف میں مدرسین میں سے ایک مدرس کے درس کے جلسہ میں طالب علموں کے ساتھ ایک طالب علم بنام شیخ حسن شرکت کرتا تھا جو کہ بہت زیادہ ذہین نہ تھا اور سادہ تھا اس نے ۵۲ سال دروس میں شرکت کی مگر کوئی قابل توجہ پیش رفت نہ کرسکا۔ استاد اور طالب علم اس کی سادگی کی وجہ سے اسے پسند کرتے تھے اور اس سے مذاق کرتے تھے اور کبھی استاد دوران درس یہ کہتے کہ جس کو درس کی سمجھ نہیں آتی وہ شیخ حسن سے پوچھ لے ایک دن استاد نے کہا کہ کئی ایسے لوگ گزرے ہیں کہ انہوں نے مسلسل ۰۴ روز تک نیک عمل برائے دیدار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام انجام دیے اور انہیں دیدار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام نصیب ہوا شیخ حسن نے کہا کہ آج مجھے درس سمجھ آیا ہے اس نے پکا ارادہ کرلیا کہ وہ چالیس روز تک وادی السلام میں مقام امامزمان علیہ السلام علیہ السلام پر جائے گا اور ہروز ایک پارہ قرآن برائے ملاقات امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تلاوت کرے گا اس نے یہ کام ۷۳ یا۸۳ روز انجام دیا ایک دن جب کہ وہ قرآن پڑھنے میں مصروف تھا اس نے دو آدمیوں کو اپنی پشت پیچھے بات کرتے ہوئے سنا اس نے مڑ کر دیکھا تو دو سید آپس میں گفتگو کر رہے تھے شیخ حسن نے انہیں کہا کہ تمہاری گفتگو کی وجہ سے میری توجہ تبدیل ہوگئی ہے وہ دونوں وہاں سے چلے گئے دوسرے دن شیخ حسن مشغول تلاوت تھا کہ پھر دوآدمی وہاں آکر گفتگومیں مصروف ہوگئے شیخ حسن نے دوبارہ انہیں کہا کہ میری توجہ تبدیل ہوجاتی ہے وہ دونوں مسکرانے لگے اور کہا کہ کیا تو امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے ملاقات نہیںکرنا چاہتا شیخ نے کہا کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ آﺅ اکھٹے چلتے ہیں شیخ حسن ان کے ہمراہ چل پڑھا اور نزدیک ہی ایک بڑی چادر کے پاس گئے امامزمان علیہ السلام علیہ السلاماس چادر سے باہر تشریف لائے اور کہا کہ شیخ اگر میری زیارت کرنا چاہتے ہو تو میرے جدبزرگوار امام رضا علیہ السلام کی قبر کے کنارے مشہد آﺅ شیخ حسن تنہا پیدل مشہد کی طرف روانہ ہوگیا جب مشہد پہنچا حرم میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام داخل حرم امام رضا علیہ السلام کی قبر کے سامنے زیارت امین اللہ پڑھنے میں مصروف ہیں پھرفرمایا اے شیخ! اگر مجھ سے ملاقات چاہتے ہو تو میرے جدبزرگوار امام حسین علیہ السلام کی قبر پر آﺅ شیخ حسن بہت صبروتحمل کے ساتھ تکالیف برداشت کر کے کربلا پہنچا تو وہاں دیکھا کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام قبر مولا مظلوم کربلا کے ساتھ کھڑے زیارت امین اللہ پڑھ رہے ہیں۔شیخ کے سلام کے ساتھ ہی انہوں نے فرمایا کہ میری زیارت کرنے کے لیے آئے ہو تو میرے مولا ابوالفضل العبا س علیہ السلام کی قبر پر آﺅ شیخ حسن حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام کی قبر مبارک پر وارد ہوا اور وہاں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کودیکھا انہوں نے فرمایا کہ ہماری زیارت کرنے آئے ہو شیخ حسن نے حضرت امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا دامن پکڑ لیا اور کہا کہ آپ کو اپنے جدامجد کا واسطہ مجھے مزید حیران نہ کریں آقا نے فرمایا کیا چاہتے ہو شیخ حسن نے کہا کہ آپ کو چاہتا ہوں آقانے متعدد بار کہا کہ کیا چاہتے ہو شیخ نے ایک ہی جواب دیا کہ آ پ کو آپ سے چاہتا ہوں آقا نے فرمایا اچھا جاﺅ خداحافظی کرو اور واقعہ اپنے استاد کو بتاﺅ اور پھر میرے پاس آجانا شیخ حسن کو۶ماہ گزر گئے تھے کہ ان کے بارے استاد اور طلبہ کو خبر نہ تھی اچانک شیخ وارد مدرسہ ہوا توشیخ حسن کو دیکھتے ہی سب خوشحال ہوگئے شیخ نے اپنا واقعہ خاص طورپر استاد کو بیان کیا استاد نے کہا کہ میں کس طرح تمہاری بات کو سچ سمجھوں شیخ نے کہا کہ آپ کوئی بات اپنے ذہن میں رکھیں میں آپ کو بتادوں گا استاد نے کئی چیزیں ذہن میں رکھیں شیخ بتلاتا رہا شیخ حسن نے استاد سے کہا کہ دوسری نشانی یہ ہے کہ میں جب اس جگہ سے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی طرف جاﺅں گا تو آپ مجھے جاتا ہوا دیکھیں گے شیخ حسن نے استاد سے خدا حافظی کی اور ہوا میں اڑتا ہوا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی طرف چلاگیا۔(اس ملاقات بارے مجھے تیس سال قبل ایک با اعتماد آدمی نے بیان کیا۔ (مصنف))
باب سوئم
اجتماعی شرف زیارت
۱۔ شیخ اسماعیل غازی اور ان کے قافلہ کو شرف زیارت
۴۱ سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میں نے مکہ جانے کا ارادہ کیا اسزمان علیہ السلامے میں بسیں زائرین کو تہران سے مکہ لے جاتی تھیں اور پھر وہاں سے عراق لے جاتی تھیں مکہ سے واپسی پر عراق آتے ہوئے سینکڑوں بسیں ایک دوسرے کے آگے پیچھے کھڑی ہوجاتی اور ان کی تلاشی ہوتی اور حجاز کی پولیس ان کی نگرانی وچیکنگ کرتی تھی ہماری بس کے دو ڈرائیور تھے ایک محمود آغا اور دوسرا اصغر آغا دونوں کا تعلق تہران سے تھا۔ اس گاڑی میں ۸۱ مسافر تھے اصغر آغا جو کہ گاڑی چلا رہا تھا نے کہا کہ اس دفعہ بھی ہماری گاڑی باقی گاڑیوں کے پیچھے آگئی ہے نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم اڑنے والی مٹی اور دھول کھائیں میں گاڑیوں کی لائن میں سے نکلتا ہوں اور متبادل کچے راستوں سے نکل کر جلدی آگے نکل جاﺅں گا اور قطار کے آگے چلا جاﺅں گااور یوں ہم گرد و غبار کھانے سے بچ جائیں گے میں نے اسے جتنی بھی نصیحت کی اور روکا لیکن اس نے ایک نہ سنی باقی زائرین بھی اسے روکنے میں میرے ساتھ شامل تھے اس نے گاڑی قطار میں سے نکالی اور کچے راستہ پر ڈال دی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے راہ گم کر لیا اور دشت لوت میں جا نکلے میں نے ستاروں کے ذریعہ پتا چلا کہ ہم نے بہت غلط راستہ اختیار کر لیا ہے میں نے اسے کہا کہ گاڑی روکو نماز پڑھیں جب ہم نے نماز پڑھی تو طے یہ ہوا کہ ہم یہیں رات ٹھہریں اور صبح گاڑی کے ٹائروں کے نشانات پر واپس اسی جگہ پلٹ جائیں گے جہاں سے چلے تھے لیکن صبح گاڑی کے ٹائروں کے نشانات بھی نہ ملے جو کہ مٹ گئے تھے چونکہ ریتلی زمین تھی ہوا نے ریت کو جا بجا کر دیا تھا ہم نے طے یہ کیا کہ چاروں اطراف ۰۱یا۰۲ فرسخ سفر کریں تاکہ شاید اس طرح کوئی منزل یا نشان مل جائے لیکن کسی جگہ نہ پہنچ سکے پانی اور گاڑی کا ڈیزل ختم ہوگیا تیسرے دن پانی اور ڈیزل ختم ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئے اور راہ ملنے کی تمام امیدیں دم توڑ گئیں ہم نے کہا کہ اصغر آغا نے ہمیں گم کیا ہے اور اس نے بہت سخت گناہ کیا ہے ہم سب گول دائرہ کی صورت میں اکھٹے ہوئے تاکہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے متوسل ہوں ساتھ ہی میں نے ساتھیوں سے کہا کہ جس قدر طاقت وقدرت باقی ہے ہر کوئی اپنے لیے اس ریگزار میں قبر تیار کرے اور جب بالکل تھک جائے تو اسی قبر میں لیٹ جائے تاکہ ہوا ریت کے ذریعہ ہماری میت چھپا دے اور ہماری لاشیں پرندوں کی دستبرد سے محفوظ رہیں اور حیوان انہیں نقصان نہ پہنچائیں ہر ایک نے اپنے لیے قبر تیار کر لی اور قبروں کے کنارہ بیٹھ گئے اور چہاردہ معصومین علیہ السلام میں سے ایک ایک کے ساتھ متوسل ہوئے بہت زیادہ گریہ کیا اور ان سے مدد مانگی لیکن کوئی حل نہ ہوا کہ اچانک مجھے الہام ہوا کہ ذکر ”یافارس الحجاز ادرکنی “ کو پڑھو ہم نے پڑھا آنسو بہائے میں نے ساتھیوں سے کہا کہ اگر تمہاری زندگیوں میں کوئی خالص عمل ہے جو تم نے انجام دیا ہے تو خداوند متعال کو اس کام کا واسطہ دو کہ وہ ہمیں نجات دے اور پھر یہ کہا کہ میں منت مانوں کہ اگر خدا نے ہمیں نجات دی تو جوکچھ مال ہمارے ساتھ ہے اسے راہ خدا میں دے دیں گے اور باقی عمر لوگوں کی حاجات کو حل کرنے میں گزاریں گے پھر میں تنہا ہی قریبی ٹیلے کے پیچھے چلا گیا وہاں ایک گڑا تھا کسی نے مجھے نہیں دیکھا میں نے خداوند سے بات چیت شروع کردی خدایا ہم یہاں اس جگہ نہیں مرنا چاہتے اگر یہ ہمارے لیے سعادت ہی کیوں نہ ہو ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے وطن میں مریں میں نے کہ اے ہمارے آقا ومولا امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اگر اس بے چارگی اور پیاس کی شدت میں آپ نے ہماری مدد نہ کی تو پھر کب ہماری مدد کریں گے اس حال میں ہم مخلوق سے تمام امیدیں قطع کرچکے ہیں اور خالق سے امیدیں لگائے ہیں۔ ساری عمر اس طرح کی صورتحال مجھے پیش نہیں آئی میں نے آنسو بہاتے ہوئے گریہ وفریاد کی کہ آقا میں اس گروہ کا رہنما ہوں اسی دوران ایک سید عربی سات اونٹوں کے ہمراہ اس بیابان میں ظاہر ہوا اونٹوں پر بار لادا ہوا تھا میں نے سمجھا کہ شاید کوئی مسافر ہیں عربوں میں سے میں انہیں دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ پھولا نہ سماتا تھا وہ سید آقا میری طرف آیا میں نے سلام کیا اور انہوں نے فرمایا ”علیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ“ میں نے اس کے نورانی اور خوبصورت چہرے کوچوما وہ بہت جاذب نظر تھے انہوں نے میری طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ راہ گم کر بیٹھے ہو میں نے عرض کی جی ہاں! انہوں نے فرمایا کہ میں آیاہوں کہ تمہیں راستہ بتاﺅں پھر فرمایا کہ جب سامنے والے دو پہاڑ عبور کرو گے تو دو اور پہاڑ ظاہر ہوں گے جب انہیں عبور کرو گے تو آگے راستہ مل جائے گاتم بائیں ہاتھ پرجانا تم حربہ جو کہ عراق اور عربستان کی سرحد ہے وہاں پہنچ جاﺅ گے پھر فرمایا کہ جو نذرومنت تم نے مانی ہے وہ لازم اجرا نہیں ہے یعنی ضروری نہیں ہے چونکہ تم اس سفر میں کربلا اور نجف جانے کا ارادہ رکھتے ہو جس کی وجہ سے تمہیں رقم کی ضرورت رہے گی اپنے اموال سے بچاﺅ اسے جاکر وطن میں خرچ کرنا اگر تم نے دوران سفر اس منت پر عمل کیا تو سفر میں محتاج سوال ہوجاﺅ گے اور گدائی بھی حرام ہے ہم خود حیران ہوگئے پھر آقا نے فرمایا اپنے دوستوں کو بلاﺅ میں نے ان کو آواز دی وہ سب آگئے انہوں نے سلا م کیا اور آقا کے ہاتھ چومے آقا نے فرمایا کہ گاڑی میں سوا ہو جاﺅ حاج محمد شاہ حسینی نے کہا کہ ہم راہ گم کر چکے ہیں ہماری گاڑی ریت میں دھنس گئی ہے اور مانی گئی نذر سے کچھ آقا کو دیں آقا نے فرمایا کہ وہ منت اس طرح نہیں ہے میں نے آقا کا حکم ان تک پہنچایا آقا نے فرمایا کہ مجھے علم ہے کہ جو رقم تمہارے پاس ہے تمہارے سفر کے لیے کافی ہے اگر کم ہوتی تو میں تمہیں دیتا میں نے محسوس کیا کہ یہ آقا ہم سے رقم نہیں لیں گے تو میں نے سوچا کہ اسے قرآن کی قسم دوں کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ عرب قرآن کا بہت احترام کرتے ہیں اس وقت میری جیب میں جو چھوٹا قرآن تھا وہ باہر نکالا اور کہا آقا آپ کو اس قرآن کی قسم ہمیں حربہ پہنچائیں فرمایا اب جب کہ تم نے قسم دی ہے تو میں تمہیں پہنچاتا ہوں غلطی علی اصغر کی ہے محمود سیٹ پر بیٹھے میں درمیان میں اور تو میرے ساتھ بیٹھ جلدی سوار ہو جاﺅ آقا عربی میں بات کر رہے تھے وہ ہمارے ایک ایک مسافر کے نام سے آگاہ تھے اور مجھے میرے نام سے بلاتے تھے بولے محمود گاڑی اسٹارٹ کرو اور حرکت کرو گاڑی بغیر ڈیزل کے اسٹارٹ ہوگئی جب کہ ہم اس طرف متوجہ نہ تھے گاڑی تیزی سے ریت پر دوڑنے لگی ان دو پہاڑوں کو جو آقا نے کہے تھے عبور کیا اور آقا نے فرمایا کہ وہ سامنے دو پہاڑ ہیں ان کے وسط سے گزرنا ہے اچانک آقا نے آسمان کی طرف نگاہ کی اور فرمایا کہ ”اب ظہر کا اول وقت ہے محمود سے کہو کہ رک جائے تاکہ نماز پڑھیں دوبارہ سوار ہوں اور گاڑی میں دوپہر کا کھانا کھایاجائے تاکہ مغرب سے پہلے ہم اپنے مقصد تک پہنچ جائیں جب ہم گاڑی سے اترے تو آقا نے فرمایا کہ پانی تو تمہارے پاس نہیں ہے میں نے عرض کی نہیں تو انہوں نے فرمایا! اس جھاڑی کو دیکھ رہے ہو وہ جھاڑی خار داری تھی اور بمشکل ایک عصا جتنی بلند تھی وہاں جھاڑی کے پاس جاﺅ اور وہاں پانی ہے ، جی بھر کے پیو اور اپنی مشکیں پر کر لو وضو کر لو اور نماز پڑھو اور فرمایا کہ میں وضو سے ہوں میں نماز پڑھتا ہوں جب ہم اس جھاڑی کے پاس گئے تو ہم نے دیکھا کہ بہترین صاف پانی ہے ہم نے وضو کیا اپنے مشکیزے پر کیئے یہ پانی بہت زیادہ صاف اور شفاف تھا اور اس کی گہرائی ایک یا ڈیڑھ فٹ سے زیادہ نہ تھی جب کہ سعودی عرب میں کنویں کی گہرائی بہت زیادہ ہو تو تب پانی ملتا ہے نماز سے فراغت کے بعد ہم دوبارہ گاڑی میں سوار ہوئے میں نے کچھ خشک میوہ جات اٹھائے کہ کھاﺅں میں نے کہا کہ وہ کھائیں مگر انہوں نے نہ کھائے انہوں نے گاڑی چلتے وقت اپنی انگلی سے اشارہ کیا مگر کوئی بات نہ کی میں نے عرض کی کہ سعودی بادشاہ ہر حاجی سے ہزار تومان لیتا ہے مگر ایک اچھا راستہ نہیں بناتا کہ کوئی راہ گم نہ کرے تو آقا نے فرمایا کہ وہ کلب ابن کلب (کتاب ہے اور کتے کا بچہ ہے) وہ تمہیں یعنی شیعوں کو دیکھنا برداشت نہیں کرتے کجا کہ وہ تمہارے لیے راہ بنوایں میں نے راہ میں آقا سے کہا کہ ایران میں انگور اور ہندوانہ بہت سستا ہے جب کہ یہاں عربستان میں بہت مہنگا ہے تو آقا نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ہماری برکات سے ہے اور کبھی فرماتے یہ ہم آئمہ علیہ السلام کی برکت کی وجہ سے ہے ہمارے درمیان سلسلہ گفتگو چونکہ جاری تھا اور سب اس طرف بالکل متوجہ نہ تھے کہ یہ آقا سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہیں آقا نے ہمدان مشہد اور کرمانشاہ کی تعریف کی اور کچھ علماءکرام کی جن میں ملا علی ہمدانی، شیخ حسین خراسانی شامل تھے (شیخ حسین خراسانی سے آیت اللہ خراسان مراد ہیں جو کہ زندہ ہیں)تعریف کی اور فرمایا کہ ہماری عنایات و برکات ان کو حاصل ہیں اور مرحوم سید ابوالحسن کی تعریف کی اور مجھے فرمایا کہ تمہارے حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور مجھے جو پریشانیاں تھیں ان کی بابت مجھے تسلی دی میں نے وہ روٹی جو شاہرود میں تیار کی تھی آقا کو دی جو انہوں نے لے لی اور میں نے انہیں کھاتے ہوئے نہیں دیکھا میں نے عرض کی کہ ایران کے راستے بہت آباد ہیں یہاں آدمی راہ گم نہیں کرسکتا تو آقا نے فرمایا کہ یہ سب ہم اہلبیت علیہ السلام کی برکت سے ہے ہم مغرب کے وقت حربہ سرحدی قصبہ پہنچنے اور پھر بصرہ پہنچ گئے وہاں اترے اور میں نے کہا کہ ہر آدمی اپنے کام میں مصروف ہوجائے میں نے آقا کو عرض کی کہ وہ آج رات ہمارے مہمان ہوں تو آقانے فرمایا کہ تو نے مجھے قرآن کی قسم دی تھی میں نے تمہاری بات مانی اور قبول کی مجھے بہت زیادہ کام ہیں میں تم سے خداحافظی کروں گا اورتمہیں خداوند کریم کے سپرد کرتا ہوں اور وہ منت جو تم نے مانی ہے فی الحال ادا نہ کرنا جب تم وطن پہنچ جاﺅ تو پھر ادا کرنا ظہر سے تین گھنٹے پہلے سے لے کر مغرب تک تقریباً 8گھنٹے آقا کی خدمت میںرہا گرمیوں کا موسم تھا۔ ہم نے بہت اصرار کیا کہ آپ ابھی تشریف رکھیں لیکن آقا نے قبول نہ کیا اسی دوران جب کہ وہ مجھ سے محو گفتگو تھے کہ اچانک غائب ہوگئے میں نے آنسو بہاتے ہوئے فریاد کی اور ان کے پیچھے بھاگا میں اور میرے ساتھی بھی آنسو بہاتے ہوئے فریاد کرنے لگے ہماری آہ و بکاسن کر حکومتی اہلکار آگئے اور پوچھا کہ کیا ہے کیا کوئی فوت ہوگیا ہے کہ تم لوگ گریہ کر رہے ہو ہم نے کہا کہ نہیں ہم راستہ گم کر بیٹھے تھے اب منزل پر پہنچنے کی وجہ سے خوشی سے ہم آنسووں پر قابو نہ پاسکے ان حضرت کے بائیں پہلو میں ایک چھوٹی تلوار اور ان کے دائیں پہلو کے ساتھ ایک بڑی تلوار جس کی لمبائی تقریباً ایک میٹر ہوگی بھی بندھی ہوئی تھی اور ایک کمربند کے ذریعے دونوں تلواروں کو آپس میں جوڑا گیا تھا ان حضرت کے ابرومثل کمان کے خم دار تھے انہوں نے عربوں کی طرح کا لباس پہنا ہوا تھا عربوں کی طرح کا رومال ان کے سر پر تھا ہمارا ڈرائیور اصغر اپنے سر کو پیٹنے میں مصروف تھا اور کہتا تھا کہ میری غلطی تھی جس کی وجہ سے ہم راستہ بھول گئے مگر شکر خدا ہے کہ اس وجہ سے سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا دیدار نصیب ہوا ایک اور ساتھی نے کہا کہ وہ ہمارا نام کیسے جانتے تھے۔ (یہ واقعہ اختصار کے ساتھ شیخ اسماعیل کی کیسٹ سے لیا گیا ہے جو اس وقت زندہ ہیں)۔
۲۔ چالیس افراد امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی جستجو میں
نجف کے چالیس کارکنوں نے ارادہ کیا کہ وہ چالیس بدھ کی راتیں مسلسل مسجد سہلہ جائیں گے تاکہ شاید سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا دیدار نصیب ہو جائے انہوں نے اپنا عمل شروع کر دیا چالیسویں رات ان میں سے دو آدمی باقی افراد کے سامان وغیرہ کی حفاظت کے لئے مسجد سہلہ میں رک گئے اور باقی مسجد کوفہ چلے گئے اچانک ایک عربی ان دو افراد کے پاس آیا اس کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا اس نے ان دو افراد سے کہا کہ یہ تھیلا تمہارے پاس میری امانت رہے میں واپس آکر لے لوں گا ان دو افراد نے وہ تھیلا قبول کر لیا جب وہ عربی چلا گیا تو انہوں نے تھیلے کو اٹھا کر دیکھا تو وہ کافی وزنی تھا ایسا لگتا تھا کہ اس میں سکے ہیں ان دونوں نے سوچا کہ ہمارے ساتھی واپس آجائیں تو ان سے مشورہ کریں گے اگر وہ راضی ہوگئے تو یہ سب کے درمیان برابر بانٹ لیں گے اور اس عربی کی امانت سے مکر جائیں گے جب ساتھی آگئے تو انہوں نے سکے تقسیم کرنے پر آمادگی ظاہری کردی اسی دوران وہ عرب واپس آگیا اس نے اپنے تھیلے کا تقاضا کیا تو انہوں نے کہا کہ کیسا تھیلا ہمارے پاس کوئی تھیلا نہ ہے اس نے آیت قرآن کی تلاوت کی کہ ” ان اللّٰہ یامرکم ان تو دوالامانات الی اہلہا“(سورہ نساءآیت ۸۵) اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کو واپس کردو اس کے بعد عرب نے دوبارہ آیت قرآن پڑھی مگر وہ لوگ آمادہ نہ ہوئے تمام گفت وشنید بے سود ثابت ہوئی نوبت تکرار تک آگئی کہ اچانک وہ عرب نظروں سے غائب ہوگیا تو تمام لوگوں کو سمجھ آئی کہ وہ ہمارے امامزمان علیہ السلام علیہ السلام تھے وہ سب کے سب رونے لگے انہوں نے جب تھیلے کا منہ کھولا تو وہ کوڑے کرکٹ سے بھرا ہوا تھا۔” خسرالدنیا والاخرة“۔ (سورہ حج آیت ۱۱)
۳۔ برزخ میں سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی عنایت ومہربانی
مرحوم شریف رازی نقل کرتے ہیں کہ میں حضرت آیة اللہ العظمیٰ میلانی کے پاس تھا کہ انہوں نے فرمایا کہ ”دو بھائی جو کہ سید تھے اور تبریز سے تھے ایک ان میں سے روحانی تھا اور دوسرا بازاری دونوں صاحب استطاعت تھے دونوں کے لئے مکہ مکرمہ جانا ممکن تھا جو بھائی غیر روحانی تھا یعنی بازاری تھا نے مکہ جانے کا ارادہ کیا دوسرا بھائی جو رووحانی تھا اور محرم قریب تھا اس نے محرم میں مجالس کے لئے وعدہ کیا ہوا تھا اس لیے اس نے حج کا پروگرام اگلے سال تک موخر کر دیا لیکن اسے موت نے مہلت نہ دی اور وہ تین ماہ بعد فوت ہوگیا اور دوسرا بھائی جو مکہ کے لئے گیا ہوا تھا وہ بھی واپس آگیا اپنے بھائی کی آخرت کے لئے ہمیشہ فکر مند رہتا تھاکیونکہ وہ حج ادا کیے بغیر فوت ہوگیا تھا ایک رات اس نے عالم خواب میں اپنے روحانی بھائی کو دیکھا کہ وہ ایک خوبصورت باغ میں سکونت پذیر ہے اس نے تعجب کرتے ہوئے پوچھا کہ تم یہاں باغ میں کیسے آئے ہوتو روحانی نے جواب دیا کہ پس ازموت جب مجھے حساب کے لئے لے گئے اور حج نہ کرنے کی وجہ سے مجھے ایک انتہائی اندھیرے اور وحشت ناک مکان میں لے گئے جہاں بہت زیادہ بدبو تھی میں تنگی کی وجہ سے اپنی ماں سیدہ زہراء علیہ السلام سے متوسل ہوا اور میں نے عرض کی بی بی علیہ السلاممیں نے ایک عمر آپ علیہ السلام کے بیٹے حضرت امام مظلوم حسین علیہ السلام کی مظلومیت بیان کی ہے مجھے اس تنگی سے نجات دلوائیے۔ فرشتے مجھے سیدہ علیہ السلام کے پاس لے گئے سیدہ علیہ السلام نے مولائے متقیان امیرالمومنین علیہ السلام سے میری بخشش کی درخواست کی مولا علی علیہ السلام نے فرمایا اے دختر پیغمبر اس شخص نے کئی مرتبہ مجالس میں دوران مجلس لوگوں سے کہا کہ وہ شخص جس پر حج واجب ہو اور وہ نہ کرے تو بوقت موت اسے کہا جاتا ہے کہ بے شک وہ یہودی ہے نصرانی ہے اور یہ خود ترک حج کا مرتکب ہوا ہے میں اس کے بارے کیا کروں بی بی علیہ السلام نے کہا اے علی علیہ السلام اس کی بخشش کی کوی سبیل نکالو۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا کہ اس کی بخشش کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے بیٹے مہدی علیہ السلام سے کہو کہ اس سید کی نیابت میں حج ادا کرے تاکہ خدا اسے بخش دے میری ماں زہراء علیہ السلام نے ایسا ہی کیا اور امام مہدی علیہ السلام نے میری نیابت میں حج مقبول کرلیا اور مجھے نجات مل گئی جس کے بعد مجھے ان خوبصورت باغات میں لایا گیا۔ (کرامات صالحین)
فراق تاکی؟!
گفتم کہ: (روی خوبت از من چرانہان است؟)
گفتا: (توخود حجابی، ورنہ رخم عیان است)
گفتم کہ :(از کہ پرسم، جانا! نشان کویت؟)
گفتا: (نشان چہ پرسی؟ آن کوی بی نشان است)
گفتم: (مراغم تو، خوشتر ز شادمانی)
گفتا کہ :(در رہ ما، غم نیز شادمان است!)
گفتم کہ: (سوخت جانم از آتش نہانم)
گفت: (آن کہ سوخت، او راکی نالہ یافغان است؟)
گفتم: (فراق تاکی؟) گفتا کہ:(تاتوہستی)
گفتم: (نَفَس ہمین است؟) گفتا: (سخن ہمان است)
گفتم کہ: (حاجتی ہست) گفتا: (بخواہ ازما!)
گفتم: (غمم بیفزا!) گفتا کہ :(رایگان است)
گفتم: (ز(فیض) بپذیر این نیم جان کہ داراد!)
گفتا: (نگاہ دارش! غمخانہ تو جان است)
(کلیّات اشعار فیض کاشانی ص۱۸)
چون فرا آیدزمان علیہ السلام متّقین
صالحین گردند ورّاث زمین
”وَلَقَد کَتَب نَا فِ ¸ اَلزَّبُورِ مِن بَع دِ اَلذَّک رِا نَّ اَل ا ر ضَ یَرِثُہَا عِبَادِ ¸َ اَالصَّالِحُونَ“۔
”ہم زبور میں پندو نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے (ہی) ہوں گے“۔(سورہ انبیاء۵۰۱)
|