فصل چہارم
جزیرة الخضراء(سرسبز جزیرہ)
مقدس سرزمین
اقامت گاہ
سبز رنگ
وادی امن کا سفر
اقامت گاہ حضرت اما م مہدی (علیہ السلام)
سب سے اہم ترین مسئلہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے حوالہ سے دوران غیبت اقامت گاہ رہائش گاہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ہے دعائے ندبہ میں ہم پڑھتے ہیں ۔
”لیت شعری این استقرت بک النوی، ا برضوی اوغیرھاام ذی الطویٰ“۔
”اے کاش! مجھے پتہ ہوتا کہ آپ علیہ السلام کی اقامت گاہ کہاں ہے؟ آیا آپ کوہ رضوی میں ہیں یا کسی اور جگہ یا ذی طویٰ میں ہیں“۔
روایات اس کی شاہد ہیں کہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام ایک مکمل دنیاوی زندگی رکھتے ہیں آپ کے بیوی بچے بھی ہیں اور ان کے ہمراہ زندگی گزار رہے ہیں۔ہم ان شواہد اور روایات پر مکمل اور جامع بحث کریں گے اور آپ کی اولاد و فرزندان کے حوالہ سے بھی گفتگو کریں گے۔
۳۔ صلوات جو کہ امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی طرف سے ہے اس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں ”اللھم اعطہ فی نفسہ وذریتہ، وشیعتہ“ نیز یہ الفاظ بھی ہیں ”وصل علی ولیک وولاة عہدک والآئمة من ولدہ “۔(مصباح المتہجد شیخ طوسی ۵۶۳)
اے اللہ! درود بھیج اپنے ولی امر پر اور اس کے ولی عہدوں پر اور اس کی اولاد میں سے رہنماﺅں پر اسی طرح زیارت ناحیہ میں ہے کہ ”فداک بروحہ جسدہ ومالہ وولدہ“ (بحارالانوار ج۱۰۱ ص۰۲۳)کہ اگر میں تیرے ساتھ ہوتا اے مولا حسین علیہ السلام تو میں قربان کرتا اپنے روح کو،اپنے جسد کو، اپنے مال اور اولاد کو آپ پر ، یہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا خطاب ہے امام حسین علیہ السلام کے لیے ۔
۲۔ زیارت وداع(مقدس تہہ خانہ میں) ہے کہ صل علی ولیک وولاة عہدک والائمہ علیہ السلام من ولدہ“۔اے اللہ! درود بھیج اپنے ولی اور اپنے ولی عہدوں پر اور اسکی اولاد میں سے پیشواﺅں پر۔ (مفاتیح الجنان )
۳۔ دعائے ندبہ میں ہے ”اللھم صل علی محمد وآل محمد وصل علی محمدجدہ ورسولک السیدالاکبر“۔
”اے اللہ! درود بھیج محمد وآل علیہ السلاممحمد (یعنی مہدی علیہ السلام اور اولاد مہدی علیہ السلام پر درود بھیج امام مہدی علیہ السلام کے جد بزرگوار محمد پر جو تیرا رسول ہے اور سید اکبر ہے)
یہاں محمد وآل علیہ السلام محمد سے مراد امام مہدی علیہ السلام اور اولاد سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام ہے اور” صل علی جدہ محمد“سے مراد سرور کائنات ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی اولاد کثیر ہے جن پر درود بھیجا گیا ہے۔شادی یعنی ازدواج نبی اکرم کی اہم ترین سنت ہے اور کیسے ممکن ہے کہ امام مہدی علیہ السلام نے اپنے جد بزرگوار کی یہ اہم سنت ترک کی ہوئی ہو بلکہ آپ تو اپنے جدبزرگوار کی سنتوں کے زندہ کرنے والے ہیں۔ جو خبر تحقیق وجستجو کے بعد سامنے آتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام او ائل غیبت میں ذی طویٰ جو کہ مدینہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پراور مسجدتنیعم کے قریب واقع ہے،اس میں ساکن رہے اسکے بعد آپ سرزمین رضوی کی طرف نقل مکانی کرگئے جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے البتہ مرکزی شاہراہ سے کئی کلومیٹر دور ہے اس کے بعد آپ لمبی مدت تک طائف کے پہاڑوں میں مقیم رہے علی بن مہزیار نے آپ کی زیارت اسی جگہ سلسلہ کوہ ہائے طائف میں کی تھی اور آخری اور اصل رہائش آپ کی جزیرہ خضرا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی آپ کی کئی منازل ہیں جہاں آپ جاتے اور ٹھہرتے ہیں۔
سبز رنگ کی خوبصورتی
جزیرة خضرا یعنی سبز جزیرہ اصلی رنگوں کی تعداد سات ہے لیکن ضمنی رنگ اور فروعی رنگ بہت زیادہ ہیں لیکن سبز رنگ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ رنگ تمام رنگوں میں سے خوبصورت ترین اور دلکش رنگ ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ رنگ آرام بخش رنگ ہے اسلام میں بھی اس رنگ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
ثلاثہ، یذہبن عن قلب الحزن
الماءوالخضراءوالوجہ الحسن
تین چیزیں ایسی ہیں کہ جو دل سے غم دور کرتی ہیں ،پانی، سبزہ اور خوبصورت چہرہ اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے بہت بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے درختوں کو سبز رنگ دیا ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل کیا اور زمین سرسبز ہوگی جی ہاں! اللہ ہی لطیف اور آگاہ ہے۔(سورئہ حج ۳۴)
سبز درخت اور آگ
”الذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارًا“ ۔ اللہ ہی ہے کہ جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی ہے “۔ (سورئہ یٰسین آیت ۰۸)
جنت میں سبز لباس
”عَالِیَہُم ثیاب سندسٍ خضرواستبرق“۔ ”جنتی ریشمی اور بھاری سبز لباس پہنیں گے“۔(سورئہ انسان آیت ۱۲)
جنت کے سبز تکیے و بستر
”متکین علی رفرفٍ خضرٍوعبقریٍ حسان “۔(سورہ رحمن آیت۶۷)
جنتی لوگ سبز رنگ کے بستروں پرتکیہ کیسے ہوئے ہونگے اور نیکی کے فرش سے استفادہ کریں گے۔
مدھامتان (سورئہ رحمن آیت۴۶)
جنت میں دو بہت زیادہ سبز باغ ہیں کہ بہت زیادہ سبزہ کی وجہ سے سیاہ رنگ کے لگتے ہیں روایات میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے ظاہر ہونے والی آگ سبز رنگ کے درختوں سے نکلی تھی اور مشہور ہے کہ اس آگ کا رنگ بھی سبز تھا۔بعض روایات میں ہے کہ بہشت کے آسمانوں کا رنگ بھی سبز ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ خضر نبی ایسی جگہ بیٹھے تھے کہ جہاں سبزہ وغیرہ نہ تھا آپ کے بیٹھنے کی وجہ سے وہ جگہ سرسبزوشاداب ہوگئی اورسبزہ اگ آیا جس کی وجہ سے آپ کا نام خضر مشہور ہوگیا۔
جزیرہ خضرا ئ
یہ جزیرہ دنیا کا خوبصورت ترین جزیرہ ہے کہ جس کی آب و ہوا اور سبزہ دنیا کے تمام نقاط سے زیادہ اعلیٰ وخوبصورت ہے البتہ آخری تحقیقات کی رو سے کچھ محققین نے جزیرہ خضراءکو برمودا سے تعبیر کیا ہے اور خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہی جزیرہ خضرا ہے اس بنیاد پر ہم اس علاقہ کی جغرافیائی حیثیت کے حوالہ سے گفتگو کریں گے۔
جزیرہ خضرا کہاں ہے ؟
مثلث برمودا بحراوقیانوس اطلس میںہے اورفلوریدا سے مشرق اور جزائر آنٹیل کے شمال اور جزائربرمودا کے جنوب میں واقع ہے یعنی جزیرہ خضراءکے مغرب میں بحراوقیانوس مشرق میں فلوریڈا شمال میں جزائر آنٹیل اور جنوب میں جزائر برمودا واقع ہیں۔ تین اطراف سے میامی اور سرخوان واقع ہیں اور اس مثلث کا مرکز اور ہیڈکوارٹرز برمودا ہے جو کہ مشہور ہے برمودا مثلث تقریباً ۰۶۳ چھوٹے چھوٹے جزائر پرمشتمل ہے جوکہ تمام جزائر برمودا کے نام سے معروف ہیں ان جزائر کے مرکز اور دارالحکومت کا نام ھاملٹن(Hameltean) ہے۔یہ جزائر بحراوقیانوس کی جنت کے نام سے مشہور ہیں کیونکہ اس کے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر ہیں اور فرحت بخش ہیں ان جزائر میں سے ۰۶ جزیرے آباد ہیں جہاں انسان بستے ہیں اور وہاں کی آبادی تقریباً۰۶ ہزار لوگوں پرمشتمل ہے جب نیویارک میں سخت برفباری ہورہی ہوتی ہے اس وقت برمودا کی تمام زمین کو پھولوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا ہے برمودا سے سردیوں میں بہت زیادہ سبزیاں اور پھول ایالات متحدہ امریکا بھیجے جاتے ہیں جزیرہ خضرا کے حوالہ سے دوواقعات ہم یہاں نقل کریں گے اور معتبر کتب سے جزیرہ خضرا کے بارے گفتگو کریں گے۔(برمودا، جغرافیا جہان ص۵۷۱)
باب دوئم
وادی امن کی طرف سفر
جزیرہ کی طرف جانے کی کئی محققین نے کوشش کی ہے اور ناکام ہوئے ہیں البتہ کچھ لوگوں کو جزیرہ خضرا کا سفر نصیب ہوا ہے ہم دو اہم ترین شخصیات کا ذکر کریں گے جن کو جزیرہ خضرا جانا نصیب ہوا کہ جس کے ذریعہ وہاں کے کچھ حالات کی وضاحت ملی۔
۱۔ علی بن فاضل کا جزیرہ خضراءکا سفر
زین الدین علی بن فاضل مارندرانی ۰۹۶ ہجری میں ایک کشتی میں تبلیغاتی سلسلہ کے لیے عازم سفر ہوا، اس نے سرزمین بربر سے ۳دن بحراوقیانوس کے مرکز میں کشتی رانی کی اور سفر جاری رکھااور کچھ شیعہ نشین جزائر میں وارد ہوااسے اس جزیرہ میں پتہ چلا کہ ایک جزیرہ جوکہ بحراوقیانوس میں بنام جزیرہ خضرا واقع ہے اور وہاں امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی اولاد سکونت پذیر ہے علی بن فاضل تبلیغاتی سلسلہ میں چالیس روز ان شیعہ نشین جزائر میں رہے اس دوران سات کشتیاں جو کہ غذائی اجناس اور دیگر ضروریات سے لدی ہوئی تھیں جزیرہ خضراءسے ان شیعہ جزائر میں آئیں اور کشتی کے تمام ناخداﺅں نے علی بن فاضل کے نام کے حوالہ سے جزائر شیعہ نشین میں آکر دیں ایک کشتی ران نے علی بن فاضل کانام مع ولدیت بیان کیا اور کہا کہ مجھے حکم ہے کہ تجھے اپنے ساتھ جزیرہ خضرا میں لے جاﺅں علی بن فاضل فرماتے ہیں کہ ہم ۶۱ دن مسلسل کشتی پر سفر کرتے رہے اور آخر کار ہم سفید پانی تک پہنچ گئے مجھے کشتی کے ناخدا نے کہا کہ اس جزیرہ کا احاطہ اس سفید پانی نے کیا ہوا ہے کسی مخالف یا دشمن کی کشتی اس پانی داخل نہیں ہوسکتی اور حکم خدا سے غرق ہوجاتی ہے۔علی بن فاضل فرماتے ہیں کہ میں نے جزیرہ خضرا میں بہت آباد اور خوبصورت سرسبزوشاداب شہردیکھا کہ جس میں انواع واقسام کے باغات اور بڑی عظیم عمارتیں تھیں میں نے وہاں ایک سید بزرگوار کو دیکھا کہ جن کا نام سید شمس الدین ہے اور وہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کے پانچویں پوتے ہیں اور وہاں کے تعلیم وتدریس کے ادارہ کے مسﺅل وانچارج ہیں۔میں نے اٹھارہ دن وہاں قیام کیا اور سید شمس الدین کے حضور کسب فیض کرتا رہا۸۱ دن کے بعد سید شمس الدین کو حکم ملا کہ وہ مجھے واپس بھیج دیں علی بن فاضل نے اپنی کتاب فوائد الشمسہ میں اس واقعہ کو جو ان کے ساتھ پیش آیا انتہائی تفصیل کے ساتھ لکھاہے جو کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر ہے اور خزانہ کتب امیرالمومنین میںموجود ہے۔اس واقعہ کو علامہ مجلسی ؒ نے بحارالانوار میں اور مقدس اردبیلی نے حدیقة الشیعہ میں شیخ حرعاملی نے اثبات الہدیٰ میں اور بحرالعلوم نے اپنی کتاب رجال میں ذکر فرمایا ہے۔قابل توجہ نقطہ یہ ہے کہ اب بھی اس جزیرہ کوسفید پانی نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اور کوئی کشتی اور ہوائی جہاز اس کی دریائی یا فضائی حدود میں داخل نہیں ہوسکا بلکہ داخل ہوتے ہی کشتی غرق ہوجاتی ہے اور ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوجاتا ہے سینکڑوں کشتیاں اور جہاز اس علاقہ میں داخلہ کی وجہ سے غرق اور گم ہوچکے ہیں لیکن یہ تباہی اور غرق ہونا صرف انہی کےلئے ہے جو مخالفت اور جستجو میں ہوتے ہیں مندرجہ بالا واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی کوخود بلایا جائے تو وہ مستثنیٰ شمار ہوں گے۔غرق شدہ کشتیوں اور جہازوں میں اہم ترین کشتی جوکہ جنگی کشتی تھی بنام (اٹلانٹا) کہ ۰۹۲ سواروں سمیت غرق ہوگئی اور ۵۴۹۱ میں ۵ ہوائی جہاز اس خطہ میں گم ہوگئے”مثلث برمودا“ جزیرہ خضرا کے ساتھ اور جزائر جن کے مقدس نام ہیں مثلاً جزیرہ زہراء علیہ السلام، جزیرہ صافیہ، جزیرہ ظلوم وعناطیس وغیرہ واقع ہیں کہ وہاں کے سکونتی تمام کے تمام شیعہ ہیں اور سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی اولاد میں سے ۵ افراد یہاں سکونت پذیر ہیں یعنی ہر جزیر میں ایک فرزند امام سکونت پذیر ہیں اور حکومت چلا رہے ہیں۔(حدیقہ الشیعہ النجم الثاقب)
آیت اللہ شفتی کا جزیرہ خضراءکا سفر
نقل از العبقری الحسان ج۱،۷۲۱ علامہ نہاوندی نے ایک دوست جن کا نام سید احمد ہے سے نقل کیا حجة الاسلام شفتی نے کتاب تحفہ الابرار کی جلد کی اندرونی پشت پر یہ واقع تحریر فرمایا ہے ، جس کا ہم یہاں خلاصہ لکھیں گے علامہ شفتی کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے یہ دعا اور درخواست کی کہ مجھے وہ سفیدسمندر اور جزیرہ خضراءجس میں انکی اولاد ہے دکھائیں اور اس کےلئے میںنے خداوند کریم کو امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کا واسطہ اور قسم دی کہ اگر یہ سارا سلسلہ اور جزیرہ خضراءکا قصہ سچ ہے تو مجھ پر ظاہر فرمائے یہاں تک کہ عید غدیر کی رات جو کہ اتفاقاً شب جمعہ تھی اور رات کی دوتہائی گزر چکی تھی اور میں اپنے گھر کے باغیچہ کے کنارے جوبیدآباد اصفہان میں واقعہ ہے چہل قدمی کررہا تھا کہ میں نے ایک بزرگوار سید کو دیکھا جو کہ علماءکے لباس میں تھا اس نے وہ تمام باتیں جو میرے ذہن میں تھیں مجھ سے بیان کردیں اور کہا کہ جو کچھ تم نے جزیرہ خضرا کے بارے سنا ہے وہ صحیح ہے اور پھر مجھ سے پوچھا کہ کیا تم جزیرہ خضرا دیکھنا چاہتے ہو تاکہ تمہارے اور دیگر لوگوں کے لیے عبرت ہو میں نے عرض کی جی ہاں تو اس سید نے فرمایا کہ اپنی آنکھیں بند کرو اور سات بار محمد وآل محمد پر درود پڑھو میں نے وہی کیا جو انہوں نے کہا پھر کہا کہ آنکھیں کھولو میں نے آنکھیں کھولیں تو میں نے ایسا شہر دیکھا کہ جسکے گھروں کا ایک دوسرے سے فاصلہ تھا یعنی متصل نہ تھے اس شہر کے دائیں اور بائیں انتہائی خوبصورت درخت اور پھول تھے اس سید نے کہا کہ ان درختوں کے اختتام پر جاﺅ وہاں ایک مسجد ہے اور اس میں ایک امام جماعت ہے اور وہ امام جماعت سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا ساتواں بیٹا ہے اور اس کانام عبدالرحمن ہے سے ملو میں مسجد کی طرف گیا ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میں نہیں چل رہا بلکہ زمین چل رہی ہے میں نے امام مسجد کو دیکھا جو کہ محراب مسجد میں تشریف فرما تھے انکی شکل مثل چاند کے تھی ان کا چہرہ چمک رہا تھا اس کی پیشانی سے نور نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا۔انہوں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا”مرحبالک“ خوش آمدید ،خداوند کریم نے تیرے اوپر احسان کیا ہے میں نے تمام مشکلات اور اپنے مسائل ان سے بیان کیے انہوں نے نہایت فراوانی سے ان کے جواب دیے، وہ نہایت مہربان تھے اور میرے ذہن کی خبریں دیتے تھے ایک دفعہ میرے ذہن میں خیال آیا کہ مجھے اس وقت بیدآباد اصفہان کی مسجد میں جاکر جمع شدہ لوگوں کو صبح کی جماعت کرانا ہے لوگ میرے منتظرہوں گے میرے ذہن کی کفیت کو وہ امام جماعت جان گئے اور مجھے فرمایا کہ پریشان مت ہو ہم تمہیں ابھی وہاں پہنچا دیتے ہیں تم ان کے ساتھ نماز پڑھو گے۔اس وقت وہی سید جو مجھے لائے تھے ظاہرہوئے میرے قریب آگئے اور فرمایا امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کی برکت سے چلیں؟ میں نے کہاہاں تو کیا دیکھتا ہوں کہ بیدآباد اصفہان کی مسجد میں کھڑا ہوں چونکہ نماز کا وقت تھا لوگ جمع تھے میں نے جماعت کرائی میں نے مڑ کر دیکھا تو اس سید کو وہاں موجود نہ پایا۔
(عرض مترجم:جزیرہ خضراءبارے محترم مصنف کتاب نے جو دلائل اور واقعات تحریر فرمائے ہیں ہم نے ان کا ترجمہ من وعن تحریر کردیا ہے البتہ یہ موضوع علماءو محققین کے درمیان متنازع رہا ہے اور جزیرہ خضراءشدید محل اختلاف ہے کہ آیا جزیرہ خضراءکا وجود ہے یا نہیں اور اس کے بارے لکھے گئے واقعات و داستانیں کہاں تک مبنی برصداقت ہیں اس بارے محققین میں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ قارئین کرام اس بارے مزید تفصیلات جاننے کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی دیگر کتب کی طرف رجوع فرمائیں ۔”واللّہ عالم بالصواب“۔)
ای یوسف گم گشتہ
ای یوسف گم گشتہ محبوب کیجایی؟
ای نور خدائی!
این است گمانم کہ تو رنجیدہ زمایی؟
گفتی کہ نیایی
ہستیم مقرّ ہمہ تفصیر و خطایی
کانون عطایی
بردار نقاب از رخ وکن صلح وصفایی
بی چون و چرایی!
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
آفاق جہان یکسرہ تاریک چو شب شد
گیتی بہ تعب شد
دلھا ہمہ بر ضدّ ھم امواج غضب شد
شیطان بہ طرب شد
یک عدّہ در این معرکہ حمّال حطب شد
ہر ظلم سبب شد
ہر دیو در این بادیہ اصلاح طلب شد
ای وای عجب شد!
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
نیکان ہمہ نو مید بہ یک گوشہ خزیدند
اندوہ خریدند
اشرار فرومایہ زبیغولہ دویدند
اَبَر طعمہ پریدند
بیچارہ ضعیفان زتعب جامہ دریدند
فریاد کشیدند
ہر جا کہ دویدند جوابی نشنیدند
جز مکر ندیدند
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
ای شاہ! بیا قافلہ گم کردہ رہ خویش
نِی راہ پس وپیش
در بحر ضلالت ہمہ افتادہ بہ تشویش
از مالک و درویش
آدم ہمہ یک آدم و راہش نہ زیک بیش
از تفرقہ دلریش
یا را ی تو اصلاح شود مغز کژ اندیش
دنیاہمہ یک کیش
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
ای مہر جہانتاب! تو دریاب امم را!
بردار ظُلَم را!
بشکن بہ دو بازوی قوی جملہ صنم را!
دینار و درم را
بالا ببرای نابغہ افکار و ہم را!
تقوا و کرم را
کن رہبری اقوام عرب تابہ عجم را!
این کشور جم را
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
بالای سرت پرچم ((البیعة للّٰہ))
نام تو در افواہ
آن ھالہ احباب تو، یاران دل آگاہ
بر گرد تو ای ماہ!
کن دست ہمہ اہل ستم یکسرہ کوتاہ!
و آن دشمن بدخواہ
از خاور و از باختر این ملّت گمراہ
آور ہمہ در راہ!
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
آیا کہ شود چہرہ زیبای تو بینم؟
سیمای توبینم؟
در ظلمت کفر آن ید بیضای تو بینم؟
ہیجای توبینم؟
باشد کہ نمیرم و تجلاّی توبینم؟
اعطای تو بینم؟
باعین (حقیقت) سر سودای تو بینم؟
کالای تو بینم؟
ای مہدی موعود امم! نور ہدایت! جانم بہ فدایت
(دیوان گنجینہ گوھر)
شکر ایزد کہ دل منوّر شد
در بساط شہود دلبر شد
”یَا ا یُّھَاَاَلَّذِینَ آمَنُوا اَص بِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاَتَّقُوا اَللّٰہَ لَعَلَّکُم تَف لِحُونَ“۔
”اے ایمان والو! تم ثابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو“۔(آل عمران ۰۰۲)
|