موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
 
فصل دوئم
مہدی علیہ السلام اور مہدویت کے دعویدار

جلوے
ولادت مہدی علیہ السلام
القاب مہدی علیہ السلام
جھوٹے دعویدار


باب اول
حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی ذات کے جلوے

۱۔ ولادت حضرت امام مہدی (علیہ السلام)
حضرت کی ولادت باسعادت جمعہ کی صبح ۵۱شعبان ،۵۵۲ہجری طلوع فجر کے وقت شہر سرمن رائے میں ہوئی۔بعض نے کہا ہے کہ جمعہ کی صبح کو ولادت ہوگی اور بعض نے شب جمعہ لکھا ہے تو اس میں فرق نہیں ہے کیونکہ طلوع فجر کے وقت ولادت باسعادت ہے۔ (اس حصہ میں منتہی الآمال سے استفادہ کیاگیاہے)۔
حکیمہ خاتون روایت کرتی ہیں کہ شب جمعہ تھی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے کہا کہ اے پھوپھی جان! آج کی رات ہمارے ہاں ٹھہر جائیے کیونکہ آج کی رات ایک ایسے فرزند نے متولد ہونا ہے خداوند جس کے ذریعہ زمین کو علم وایمان اور ہدایت کے ساتھ زندہ کرے گابعداس کے کہ وہ کفرو ضلالت کے ذریعہ مر چکی ہوگی۔
میں نے پوچھا کہ وہ فرزند کس سے متولد ہوگا فرمایا نرجس علیہ السلام خاتون سے کیونکہ نرجس علیہ السلام خاتون سے ان کے ہاں تو آثار حمل نہ ہیں؟ حضرت نے تبسم فرمایا اور کہا کہ ان کا حمل مثل حمل مادر موسیٰ علیہ السلام ہے ، رات کا کافی حصہ گزر گیا میری حیرت میں اضافہ ہوتا رہا اس رات میں نے باقی راتوں سے زیادہ نماز و عبادت و تہجد میں صرف کی جب میں نمازوتر تک پہنچی نرجس خاتون نیند سے اٹھیں وضو کیا اور نماز شب کا آغاز کیا صبح کاذب طلوع ہوگئی حمل کی کوئی خبر نہ تھی اچانک امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی کہ پھوپھی جان! اس فرزند کے ظہورکا وقت قریب آگیا ہے۔
پھر حضرت علیہ السلام نے فرمایا: سورئہ قدر کی تلاوت کرو جب میں نے سورئہ قدر کی تلاوت شروع کی تو میں نے سنا کہ فرزند بھی بطن مادر میں سورئہ قدر کی تلاوت کررہا ہے۔
اچانک میرے اور نرجس خاتون علیہ السلام کے درمیان پردہ حائل ہوگیا، جب پردہ ہٹا تومیں نے حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ روبقبلہ ہیں اور حالت سجدہ میں گرے ہوئے ہیں اور زبان پر یہ کلمات جاری ہیں ”اشہدان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ، وان جدی رسول اللہ وان ابی امیرالمومنین علیہ السلاموصیُ رسول اللہ“۔ پھر حضرت علیہ السلامنے ایک ایک امام علیہ السلام کا ذکر فرمایا یہاں تک کہ اپنے مبارک نام تک پہنچے اور فرمایا:”اے اللہ!وعدہ مدد جو تم نے میرے ساتھ فرمایا ہے وہ پورا فرمانا، میری خلافت اور امامت کے امور کو تمام و کامل فرما، میرے انتقام از دشمنان کو ثابت فرمااور زمین کو میرے طفیل عدل و انصاف سے پر فرما“۔ ایک اور روایت میں حکیمہ خاتون سے نقل ہے کہ:”صاحب الامر علیہ السلام کے دائیں بازو پر لکھا ہوا تھا ”جاءالحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا“(اسراءآیت ۱۷)ترجمہ:۔”پس حق آگیا اور باطل نابود ہوگیااور باطل کونابود ہونا ہی تھا“جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں فرزند کو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لے گئی جونہی سرکار حجت کی نگاہ اپنے والد محترم پر پڑی فوراً سلام کیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے انہیں میرے ہاتھوں سے لے لیا اور انہیں اپنے بائیں ہاتھ پر بٹھایا اور داہنا ہاتھ اپنے فرزند کے سر پر پھیرا اور فرمایا: کہ اے بیٹا حکم خدا سے کوئی بات کہہ تو صاحب الامر علیہ السلام حجت نے تعوذ وتسمیہ کے بعد یہ آیت قرآنی تلاوت کی ”نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلہم آئمةً ونجعلہم الوارثین، ونمکن لہم فی الارض ونری فرعون وہامان وجنودہما منہم ماکانوا یحذرون“(سورئہ قصص ۵،۶)

سرکار امامزمان علیہ السلام (علیہ السلام) کے اسم و القاب
قرآن میں ارشاد ہے کہ ”وللّٰہ الاسماءالحسنیٰ“ اللہ کے کئی نیک خوبصورت نام ہیںاسی طرح زمین پر اللہ کے خلیفہ کے لیے کئی خوبصورت اور نیک نام ہیں کیونکہ خلیفہ خدا بھی زمین پر اسماءالٰہی و حسنیٰ کا مظہر ہوتا ہے اور اسم اعظم الٰہی ہوتاہے“۔
بارہویں امام علیہ السلام کے بہت زیادہ القاب ہیں کتاب نجم الثاقب(باب دوم ص۵۵) میں سرکار کے ۲۸۱ نام ولقب تحریر کیے گئے ہیں ہم حضرت قائم علیہ السلام کے کچھ نام والقاب کا تذکرہ کریں گے۔
آپ کا اسم مبارک محمد علیہ السلاماور آپ کی کنیت ابوالقاسم علیہ السلام ہے جو کہ حضوراکرم کا نام اور کنیت ہے۔ جس طرح حضور خاتم الانبیائ ہیں اسی طرح سرکار صاحب الامر علیہ السلام ، خاتم الاوصیاء علیہ السلام ہیں سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام اپنے جد بزرگوار ختم مرتب کے دین و شریعت کااحیاءو اجراءفرمانے والے ہیں آپ خُلق و خَلق میں مکمل شبیہ پیغمبراکرم ہیں خود نبی اکرم کا اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کے بارے فرمان ہے کہ ”المہدی علیہ السلام اشبہ الناس خَلقاً وخُلقًا بی“ میرا مہدی علیہ السلام پوری دنیا میں خَلقُ وخُلق میں میری شبیہ ہے(بحارالانوار ۶۱)

۲۔ بارہویں کے اسماءوالقاب
خداوند نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
”وللّٰہ الاسماءالحسنی “ (سورئہ اعراف آیت۰۸۱)”اللہ کے لئے اسماءحسنیٰ مخصوص ہیں“۔

1۔ مہدی علیہ السلام
روایات میں درج ہے کہ آپ کو مہدی علیہ السلام کہا جائے گا کیونکہ آپ علیہ السلام لوگوں کو ہدایات کریں گے ان امور کی طرف جو پہلے لوگوں سے مخفی ہوں گے ان امور سے پہلے کوئی مطلع نہیں ہوگا آپ کو اللہ کی طرف سے ان امور کی ہدایت وراہنمائی مل چکی ہے کہ جس سے اور کوئی مطلع نہیں ہے آپ تمام اسرار و رموز کے جاننے والے ہیں۔

2۔ بقیة اللہ
آپ اپنے قیام کے وقت جو پہلا جملہ ارشاد فرمائیں گے وہ یہی ہوگا کہ ”بقیة اللّٰہ خیرلکم ان کنتم مومنین“۔ (سورئہ ہودآیت۶۸) روایات میں آیا ہے کہ سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سے ملاقات کے وقت یہی کہا جاتا ہے کہ ”السلام علیک یا بقیة اللّٰہ“ یہاں بقیة اللہ سے اشارہ دیا گیا ہے کہ آپ اوصیاءوانبیاءکی باقیات ہیں۔(النجم الثاقب ص۲۶)

3۔ حجت
روایات میں ہے”بولاالحجة لساخت الارض باھلھا“ کہ اگر حجت خدا زمین میں نہ ہو تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل جائے گی۔(کافی ج۱ص۹۷۱)
انسان پر خدا کی دوحجتیں
انسان پر اللہ کی طرف سے دوحجتیں ہیں۔ ۱۔حجت باطنی ۲۔حجت ظاہری
حجت باطنی
حجت باطنی سے مراد یہاں انسان کا اپنا عقل ہے کہ یہی عقل اللہ کیطرف سے بنیادی رہنما اور حجت ہے ۔
حجت ظاہری
حجت ظاہری سے مراد انبیاء علیہ السلام ، اوصیاء علیہ السلام و آئمہ معصومین علیہ السلام ہیں (حضرت ختمی مرتبت تمام حجج کے سروروسردار ہیں اور جناب سیدہ زہراء علیہ السلام بھی حجت ہیں) کہ ان کی سنت ان کا قول و فعل ان کی تائی،انسانوںبلکہ کائنات کے لیے حجت خداہے چونکہ معصوم عقل منفصل ہیں اس لیے ان کی حجت پر کوئی دلیل نہیں مانگی جا سکتی ۔(الکافی ج۱ص۹۷۱)سرکار قائم آل محمد کی انگشتری مبارک پر جو نقش کنندہ تھا وہ یہی تھا کہ ”انا الحجة“ میں حجت خدا ہوں اور آپ خطوط کے جواب میں لکھی گئی تحریر کے آخر میں جو دستخط فرماتے تھے وہ ”حجت ابن الحسن علیہ السلام“تھے۔

4۔ خلیفة اللہ
خداوند متعال نے فرشتوں کومخاطب ہو کرفرمایا ”انی جاعل فی الارض خلیفة“ (سورئہ بقرہ آیت ۰۳)
”میں زمین پر اپنا جانشین بنا رہا ہوں“ ۔ یعنی ہمیشہ زمین پر خلیفہ خدا وحجت خدا موجود ہے کہ سب سے پہلے خلیفہ حضرت آدم علیہ السلام اور سب سے آخری جناب قائم مہدی علیہ السلام ہیں۔

5۔ قائم
سرکار امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کا قیام ایک مکمل اور ہمیشہ قائم رہنے والا قیام ہے اسی وجہ سے جناب کے مقدس وجود کو قائم بالخصوص ”یاقائم بامراللّٰہ “ قائم قیام کرنے والے کوکہتے ہیں۔

6۔ منتظر
یعنی وہ کہ جس کا انتظار کیا جا رہا ہے جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ پوری دنیا بلا امتیاز، شیعہ سنی و مسلم و غیر مسلم بلکہ لامذہب بھی ایک ایسے مصلح کے منتظر ہیں جو کہ بشریت کو علمی، سیاسی و اجتماعی تاریکیوں سے نکال کر راہ نجات دے ۔ لہٰذا تمام بشریت آپ کے لیے منتظر ہے ۔

7۔ نور اللہ
سورج کا نورو روشنی زندگی کی بقاءکے لیے ضروری ہے اگر سورج نہ ہو تو زندگی کے اثرات ہی نہ ہوں ، امامزمان علیہ السلام علیہ السلام سرکار بھی تین زاویوں سے نور خدا ہیں۔
الف) حضور نبی اکرم سے سوال کیا گیا کہزمان علیہ السلامہ غیبت مہدی علیہ السلام میں لوگ آپ سے کیسے استفادہ کرینگے جب کہ وہ تو غائب ہونگے حضرت نے جواب میں فرمایا کہ میرا مہدی علیہ السلام مثل اس سورج کے ہے جو بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا ہوتا ہے جب کہ وہ اپنی روشنی پھر بھی پہنچا رہا ہوتا ہے اور زندگی کے اثرات کو بقاءدے رہا ہوتاہے (مہدی علیہ السلام موعود ص۶۴۸نقل از کمال الدین) ازطرف ابن عبداللہ )۔
میرا مہدی علیہ السلام بھی پردہ غیبت سے اپنا نور خلق خدا پر ڈال رہا ہے اور دنیا ان کے نور سے مستفید ہو رہی ہے سرکار قائم علیہ السلام کا نور سورج کی روشنی سے بہت اعلیٰ و برتر ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں تپش و جلاﺅ ہے مگر حضور امامزمان علیہ السلام علیہ السلام کی روشنی ونورمیں ملائمت اور محبت ہی محبت ہے۔
ب) آپ سرکار امام مہدی علیہ السلام نور ہدایت ہیں جس پر قرآن مجید کی آیات گواہ ہیں ”یہدی اللّٰہ لنورہ من یشائ(سورئہ نور آیت ۵۳) واللّٰہ متم نورہ“(سورہ صف آیت۸) یہاں نور سے مراد معنوی اور ہدایت کانورہے۔
ج) سرکار(عج) کا نور نور محسوس ہے یعنی محسوسات سے ہے کیونکہ جو کوئی تاریک رات میں آپ کو دیکھے کہ آپ کے ہرطرف روشنی ونور ہی نور ہے مختلف واقعات میں نقل ہے کہ وہ لوگ جو تاریک اور اندھیری راتوں میں ویرانی میں حضور کی زیارت سے مشرف ہوئے کہتے ہیں کہ بیابان ویرانہ آپ کے نور مقدس کی وجہ سے دن میں بدل جاتاتھا۔اسی لیے دعا کا جملہ ہے۔ ”علیہ جلا بیبُ النور وعلم النور فی طغیاءالدیجور“۔ (روز گار رہائی ج۱ص۸۲۱)
آپ نور کے لباس میں ہیں اور آپ تاریکی شب میں نورانی پرچم ہیں ”السلام علیک یا نور اللّٰہ الذی لایطف ¸“ سلام آپ پر اے نور خدا کہ جو کبھی نہیں بجھتا“۔(مفاتیح الجنان )

8۔ ماءمعین
خداوند کریم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ”قل ارائیتم ان اصبح ماو کم غوراً فمن یاتیکم بمائِ معین“ ۔ (الملک ۰۳)ترجمہ:۔ مجھے بتاﺅ کہ جب تمہارا پانی تم سے چھپ گیا تو کون ہے جو تمہارا مدد گار پانی کو واپس دلائے پانی چونکہ مایہ حیات اور باعث زندگی ہے اس طرح بارہویں سرکار بھی دو زاویوں سے ماءمعین سے ملقب ہیں۔
۱) جب سرکار قائم علیہ السلام کا ظہور ہوگا تو آسمان اور زمینوں سے دریائے رحمت انسانوں کی طرف رواں ہوگا اور بے موسم بارشیں ، دریاﺅں اور نہروں کے جاری ہونے کا سبب بنیں گی اس لیے حضرت صاحب الامر علیہ السلام کی زیارت میں درج ہے ”السلام علیک یا ربیع الانام و نضرة الایام“۔(مفاتیح الجنان زیارت صاحب الزمان علیہ السلام)
ترجمہ:۔”سلام آپ پر اے دنیا جہان کی بہار اےزمان علیہ السلامہ کے خرمن ذخیرہ اور خوشحالی“اس عبارت میں( ربیع لانام) خلائق کو پھولوں اور سبزوں سے تشبیہ دی گئی ہے سرکار کے ظہور سے اس گل وسبزہ میں بہار آجائے گی اورشادابی پھیل جائے گی۔
ب) بوقت ظہور :بوجہ ظہور دل کو زندہ کردیں گے کیونکہ دلوںکی زندگی آب حیات سے زیادہ باازرش ہے لہٰذا زندہ کندہ یعنی آب حیات سے سرکار کو تشبیہ دی گئی۔

9۔ غریم
غریم غرامت سے مشتق ہے اس کے دو معانی ہیں قرض خواہ اور قرض دہندہ۔ یہ قرض لینے اور دینے والے دونوں معانی میں مستعمل ہے۔کیونکہ سرکار قائم علیہ السلام کا ہماری گردنوں پر بہت زیادہ حق ہے اور صاحب کتاب وظیفة الانام نے تقریباً ۰۶ حقوق اپنی کتاب میں درج کیے ہیں جو صاحب الامر علیہ السلام کے ہماری گردنوں پر قرض ہیں مرحوم صدرالاسلام ہمدانی نے بھی اور کتاب مکیال المکارم ج ۱۳ص۶۶۱تاآخر (فارسی ترجمہ) میں بھی سرکار قائم علیہ السلام کے کافی زیادہ تقریباً۰۸ حقوق جو کہ ہماری گردنوں پر ہیں کا تذکرہ کیا گیا ہے اسی پر سرکار قرض خواہ ہیں اور کم سے کم سرکار(عج) کاجو حق ہم پر ہے وہ سہم امام علیہ السلام کی ادائیگی ہے۔
دوسری طرف چونکہ خداوند کریم نے انہیں ہماری فریاد رسی کے لئے اور ہمیں فیض رسانی کے لیے پیدا فرمایا ہے اس بنا پر ہم حضرت سے فیض کے خواہاں ہیں اوریوں حضرت مقروض اور ہم قرض خواہ کہ وہ ہمیں معنوی ومادی لحاظ سے عنایت فرمائیں۔

10۔ مطہرالارض
زمین کو پاک کرنے والا آپ کرُہ ارض کو طول وعرض میں ظاہری نجاسات اور باطنی نجاسات سے مکمل پاک فرمائیں گے آپ کے ظہور کے بعد کچھ نجاستوں کا وجود ختم ہوجائے گا اور انہیں ختم کردیں گے۔ مثلاً سور،کتا،کافر،شراب اور دیگر پلیدوں کو ختم فرمائیں گے۔

11۔ عدل مشتہر
حضرت امام مہدی علیہ السلام مظہر عدل پروردگار ہیں بعض دعاﺅں میں ذکر ہے” والعدل المشتہر مطہر الارض وناشرالعدل فی الطول والعرض “۔ (مفاتیح الجنان زیارت صاحب الامر)آپ محمدی عدل مشہور ہیں اورزمین کو رذائل سے پاک کرنے والے ہیں اور پوری دنیا میں عدل و انصاف کی فراہمی کرنے والے ہیں۔


باب دوئم
جھوٹے مدعیان مہدی علیہ السلام
زمانہ غیبت کے بعد کئی لوگوں نے امام مہدی علیہ السلام ہونے کا جھوٹادعویٰ کیا اور کئی افراد کے گمراہ ہونے کا باعث بنے جن میں سے ہم یہاں کچھ جھوٹے مدعیاں مہدی کا تذکرہ کریں گے۔

۱۔ جعفر کذاب
جب حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے ہاں جعفر نامی بیٹے کی ولادت ہوئی تو بجائے خوش ہونے کے امام علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر اداسی چھا گئی اہل خانہ سے کسی خاتون نے افسردگی کیوجہ پوچھی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا صبر کرو کئی لوگ اس مولود یعنی جعفر کی وجہ سے گمراہ ہوجائےں گے جب جعفر جوانی کی حدود میں سے داخل ہوا تو شراب وشباب کی محفلیں سجانے لگا حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے دوستوں کو جعفر کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور راہ ورسم رکھنے سے منع فرمادیا اور کہاکہ وہ میری اطاعت سے نکل گیا ہے وہ دین سے اورتعلیمات دین اسلام سے باہر ہوگیا ہے فرمایا ”تجنبواابنی جعفر فانہ بمنزلة نمرود ابن نوح µ الذی قال اللّٰہ یانوح انہ لیس من اہلک انہ عمل غیرصالح“ ۔ (سورئہ ہود ۶۴)(تاریخ سامراءج۲ص۱۵۲)”میرے بیٹے جعفر!سے بچو یہ مثل فرزند نوح کے ہے(بعض جگہوں پر نوح کے بیٹے کا نام کنعان تھا، احتمال دیاجاسکتا ہے کہ اسکے دونام ہوں) جس کے بارے اللہ نے نوح سے فرمایا تھا کہ یہ تم میں سے نہیں کیونکہ اس کا عمل غیر صالح ہے“ حضرت نے جعفر کے معاملہ کو بہت زیادہ بیان کیا اور اسکے قصہ کو بہت تفصیل سے شیعوں کو ذکر فرمایا تاکہ فرزند امام ہونے کے ناطے کوئی اس سے دھوکہ نہ کھائے، جب ایک شخص نے جعفر بارے آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: جعفر علی الاعلان بدکار ہے وہ نافرمان خدا ہے وہ فاجر اور شراب خوارہے۔

جعفر کے غیر شرعی اقدامات
جو بات روایات سے سامنے آتی ہے کہ جعفر نے تین آئمہ معصومین علیہ السلام کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور ان کی مخالفت کرتا رہا اور سرکار قائم کے خلاف اعلانیہ مخالفت اور مبازرہ کرتا رہا اور اس نے آئمہ حق سے تین طرح سے مخالفت جاری رکھی۔

دعویٰ امامت
جعفر نے اپنے بھائی امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا دعویٰ کردیا پہلے تو وہ امام کی تعزیت کے لئے آنے والوںاور افسوس کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنا پھر اس نے امامت کی مبارک بادیں قبول کرنا شروع کردیں اس کے بعد اس نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی نماز جنازہ پڑھانے کی تیاری کی اور اس بارے حکومت وقت کی مکمل حمایت حاصل کی تاکہ وہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی جگہ اپنے آپ کو امام منوائے اورشیعوں کی باگ ڈور اس کے ہاتھ لگ جائے، اس کام کے لئے اسے حکومت وقت کی مکمل تائید حاصل تھی۔

حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام)کے ورثاءسے انکار
جعفر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے دیگر وارثان سے مکمل انکار کرکے اپنے آپ کو واحدوارث ظاہر کیا چنانچہ ہم بعد میں دیکھتے ہیں سرکار امام مہدی علیہ السلام نے کس خوبصورت انداز میں اس سے وراثت بارے مبارزہ کیا

غصب میراث کے لیے حکومت کو تحریک
جب جعفر نے نماز جنازہ کے موقع پر سرکار قائم کے آنے اور نماز جنازہ پڑھانے کے بعد کی صورتحال کو دیکھا تو اس نے حکومت وقت کو دعوت دی کہ وہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی میراث کو اپنے قبضہ میں لے لیں۔ جس کے بعد حکومتی کارندوں نے دوبارہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر پر دھاوا بول دیا اور امام مہدی علیہ السلام کی تلاش میں گھر کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن حضرت قائم علیہ السلام کو تلاش نہ کرسکے جعفر نے تمام اموال امام حسن عسکری علیہ السلام پر حکومتی کارندوں کے ذریعہ قبضہ کرلیا اور اپنے استعمال میں لے لیا اس کے لیے اس نے دو باتوں کا سہارا لیا۔
۱۔ چونکہ سرکار قائم علیہ السلام کی ولادت مخفی تھی اور امام حسن عسکری علیہ السلام کا ظاہراً کوئی بیٹانہ تھا پس جعفر نے اپنے آپ کو امام حسن عسکری علیہ السلام کا جانشین متعارف کرا کے تمام اموال کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور خود کو تنہا وارث کے طور پر تعارف کرایا۔
۲۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد جعفر نے اپنے آپ کو امام کہلوانا شروع کردیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے تمام اموال پر تصرف اپنا شرعی حق سمجھتا رہا جعفر نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے اہل خانہ کو لوازمات زندگی مثلاً خوراک ،لباس و رہائش کے حوالہ سے انتہائی تنگ دستی کا شکار کردیا کوئی بھی ان کے ساتھ اظہار ہمدردی یا محبت نہیں کرسکتا تھا جو کوئی ان کے ساتھ اظہار محبت کرتا حکومت کے نزدیک معتوب ٹھہرتا۔

ایک گروہ کی قم سے سامرہ آمد
ایک گروہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زیارت اور مال امام و دوسری امانتیں آپ تک پہنچانے کےلئے قم سے عازم سامرہ ہوا۔جب یہ گروہ سامرہ پہنچا تو انہیں پتہ چلا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام شہید ہوگئے ہیں وہ حضرت کے جانشین کی تلاش کرنے لگے کچھ لوگوں نے انہیں جعفر کا تعارف بطور جانشین امام کرایا وہ جعفر کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جعفر دریائے دجلہ میں ایک کشتی پرسوار ہو کر مشغول شراب نوشی ہے اور اسکے ساتھ کئی اور ساتھی بھی ہیں جعفر جب گھر واپس آیا تو یہ گروہ گھر پر جعفر سے ملنے آیا اور انہوں نے کہا ہم قم سے آئے ہیں ہمارے پاس قم کے شیعوں کی طرف سے دی گئی رقم کی تھیلیاں ہیں جو کہ سربمہر ہیں اور سابقہ طریقہ کچھ اس طرح ہے کہ خود امام بتاتا ہے کہ تھیلی میں کتنے سکے ہیں، ان پر کیا نقش ہے اور یہ تھیلی کس نے بھیجی ہے اگرتو امام کا جانشین ہے تو وہی خصوصیات اور نشانیاں بتا اورہم سے یہ امانتیں اپنی تحویل میں لے۔جعفر نے کہا کہ میں علم غیب نہیں جانتا اور تم بھی جھوٹ بولتے ہو کہ میرابھائی حسن عسکری علیہ السلام غیب جانتا تھا اور ان سے کہا کہ امانتیں مجھے دے دو انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے اموال کے وکیل ہیں ہمارا شرعی وظیفہ ہے کہ رسم قدیم کے مطابق ہم امانتیں اس کے حق دار کو تحویل دیں ورنہ ان کے بھیجنے والوں کو لوٹائیں گے۔جعفر معتمدعباسی خلیفہ وقت کے پاس گیا اور قم سے آنے والے گروہ کی شکایت کی جعفر اور اس گروہ کو دربار طلب کرایا گیا دونوں طرف کی باتیں سننے کے بعد معتمد نے کہا کہ وکیل موکل کے اذن کے ساتھ ہی حق تصرف رکھتا ہے اس نے گروہ کو حق دیاکہ وہ امانتیں واپس لے جائیں اس گروہ نے معتمد سے درخواست کی کہ ایک مامور متعین کردیاجائے تاکہ وہ اس مامور کی نگرانی میں شہر سامرہ سے باہر جائیں جب وہ شہر سے باہر نکلے تو ایک شخص ان سے ملا اور کہاکہ اپنے مولا کی خدمت میں چلو،انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ تو اس شخص نے کہا میں غلام، امام حسن عسکری علیہ السلام ہوں اور تمہیں انکے گھر تک راہنمائی کرنے آیا ہوں وہ لوگ اس شخص کےساتھ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر پہنچے انہوں نے وہاں سرکار قائم کی زیارت کی جو کہ سبز لباس میں ملبوس چمکتے ہوئے چہرے کےساتھ ایک تخت پر تشریف فرماتھے انہوں نے سلام کیا حضرت نے جواب دیا اور پھر ان کی رقومات کی تعداد نقش اور بھیجنے والوں کے بارے تمام تفصیلات سے انہیں آگاہ فرمایا، انہیں ان کے جانوروں تک سے آگاہ فرمایا، اس گروہ نے خوشی کی وجہ سے سجدہ شکر ادا کیا اور تمام اموال حضرت کے سپرد کیے حضرت نے انکے سوالات کے جوابات بیان فرمائے اور فرمایا کہ میں تمہارے لیے اپنے افراد میں سے ایک نمائندہ مقرر کرتاہوں آئندہ ہماری بجائے اموال وغیرہ اسی کی تحویل میں دے دیا کرو اور اس کے ذریعہ مجھ تک رسائی حاصل کیا کرو پھر وہ گروہ حضرت سے رخصت ہوا یہ واقعہ آغاز غیبت صغریٰ کا ہے جس کا دورانیہ ۰۷ سال تک تھا۔
جعفر کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کا امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر اہل قم کے گروہ سے ملاقات اور اموال کی تحویل کا پتہ چل گیا اس نے یہ خبرمعتمدکو دے دی حکومتی کارندوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے گھر دوبارہ دھاوا بول دیا امام علیہ السلام کے گھر میں جو کچھ تھا اسے اپنے قبضہ میں لیا اور سرکار قائم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ بی بی نرجس علیہ السلام خاتون کو گرفتار کرلیاگیاحکومت وقت اور عدالت نے بی بی نرجس علیہ السلام خاتون کو مورد الزام ٹھہرایا اورسخت تکلیف میں رکھا اور کہا کہ وہ اپنے بیٹے کو حکومتی تحویل میں دے بی بی نرجس علیہ السلام نے تمام واقعہ سے اظہار لاعلمی کیا اور کہا کہ کیسا بیٹا جب کہ میں نے ابھی تک کسی بچے کو نہیں جنا اور میں تو ابھی حاملہ ہوں جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ بی بی کو وزیر اعظم حکومت اور قاضی ابن شوراب کے گھر خواتین کی نگرانی میں رکھا گیا تاکہ ولادت مولود یہیں ہو لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔(منتہی الامال میں ہے کہ غیبت صغریٰ ۴۷سال ہے)۔

جعفرکا انجام
(جعفر کے انجام بارے بحث ”المہدی من المہدالی الظہور“سے لی گئی ہے)
محدثین جعفر کذاب کی توبہ بارے اختلاف رکھتے ہیں جو جعفر کی توبہ کرنے بارے نظریہ رکھتے ہیں ان کے پاس کوئی بھی دلیل نہیں ہے کہ جس سے توبہ جعفرثابت ہو سوائے سرکار امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کے اس جواب کے جوانہوں اسحاق بن یعقوب کے سوال کے جواب میں محمدبن عثمان کوفرمایا وہ جملہ یہ ہے ”واما سبیل عمی جعفرو ولدہ سبیل اخوةیوسف“۔ کہ میرے چچا جعفر اور اس کے بیٹوں کا راستہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں والا راستہ ہے اس جملہ سے برادران یوسف علیہ السلام کی خطا ظاہر ہوتی ہے لیکن بردران یوسف علیہ السلام کا تذکرہ کچھ یوں بھی ہے کہ”یاابانااستغغفرلنا ذنوبنا اناکنا خاطئنِ“۔(سورئہ یوسف ۷۹)
اے ہمارے باپ ہمارے لیے استغفار کر ہمارے گناہوں پر کہ ہم خطاکار ہیں اور جواب میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا ”سوف استغفرلکم ربی “۔(سورئہ یوسف آیت۸۹)” میں تمہارے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا“۔یہاں امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام کے جواب سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ چونکہ برادران یوسف علیہ السلام کی توبہ قبول ہو گئی تھی جعفر اور اس کے بیٹوں کا راستہ بھی برادران یوسف علیہ السلام کی طرح ہے جب کہ یہ توقیع مکمل مطابقت نہ رکھتی ہے کیونکہ برادران یوسف علیہ السلام نے درخواست استغفار کی تھی جب کہ جعفر نے تفاضائے عفووبخشش نہیں کیا۔(اگرچہ اس توقیع کا شیخ صدوقؒ نے کمال دین میں حوالہ نقل کیا ہے اگرچہ شیخ صدوقؒ ثقہ وبااعتماد ہیں لیکن اوپر جودلائل بیان ہوئے ہیں ان کی روشنی میں ایسی توقیع کا صحیح ہونا ثابت نہیں)۔
آقائے سید محمدصدرجوکہ کتاب زندگانی حضرت مہدی علیہ السلام کے مصنف ہیں اس توقیع بارے تحریر کرتے ہیں کہ یہ توقیع محمد بن عثمان نائب ”دوئم امامزمان علیہ السلام علیہ السلام“ کی طرف سے ہے لیکن اس کی تاریخ معلوم نہیں ہے ہم اس توقیع کو عقل وعدل کے ترازو میں جانچنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ صورتحال واضح ہوسکے اگر اس جملہ امام سے مراد، راہ برادران یوسف علیہ السلام ۔ اشارہ توبہ کی طرف ہے تو دوسری طرف حضرت امام علی نقی علیہ السلام کا فرمانا کہ جعفر کا راستہ نمروداور پسرنوح علیہ السلام کا راستہ ہے یہ دونوں فرمان آپس میں ٹکراتے نظر آتے ہیں کیونکہ پسرنوح مجسمہ فساد تھا اور آئمہ علیہ السلام نے جعفر کی پیدائش سے پہلے اس کی بدکاریوں بارے خبریں دی تھیں ان پیشینگوئیوں کے ہوتے ہوئے اسے جعفرتواب کے عنوان سے کیسے پکاریں؟ اگر جعفر نے توبہ کرنی تھی اور اس کی توبہ قبول ہونی تھی تو پھر آئمہ معصومین علیہ السلام نے اس کی بدکاریوں کا تذکرہ کیوں کیا لوگوں کو اس کے برے اعمال کا تعارف کیوں کرایا جب کہ اس کا سرانجام توبہ ہونا تھا لہٰذا دوسرا سب سے بڑا ظلم یعنی دعویٰ امامت کیا جو کہ ناقابل معافی وبخشش ہے قرآن کہتا ہے ”فمن افتریٰ علی اللّٰہ کذبا“ (سورئہ انعام ۱۲) ”خداوندکریم پر جھوٹ باندھنے سے بڑا اور کیا ظلم ہے؟۔جعفر کذاب نے ایک نہیں تین آئمہ علیہ السلام کو اذیت دی ہے اور وہ تین آئمہ علیہ السلام کی تکالیف کا موجب بنا ہے ۔
۱۔حضرت امام علی نقی علیہ السلام ۲۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ۳۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام
جس کسی نے ایک معصوم علیہ السلام کو ناراض کیا وہ ناقابل بخشش ہے اور کجا کہ تین آئمہ معصومین علیہ السلام کی ناراضگی اس نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کو سخت اذیت دی ان کی میراث غصب کی آپ کی والدہ گرامی بی بی نرجس علیہ السلام کو سخت تکالیف میں مبتلا کیا اسی جعفر کی وجہ سے امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام اور ان کے ماننے والوں کو اذیت ہوئی قرآن کی رو سے نبی کے قرابت داروں کے گناہ بانسبت دوسروں کے دوبرابرسزارکھتے ہیں اور اسی طرح ان کی نیکی کی جزا بھی دوسروں کی نیکی کے دوبرابرہے.... جعفر بھی فرزند امام تھے، اس کی برائی بھی یقینا دو برابر ہوگی توکہا جاسکتا ہے کہ جس نے اتنا ظلم کیا ہو اس کی توبہ کیسے قبول ہوسکتی ہے قرآن اسی طرح کے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :”ختم اللّٰہ علی قلوبہم وعلی سمعہم وعلی ابصارہم غشاوة“ ۔ (سورہ بقرہ آیت۷)
ترجمہ:۔ ”انکے دلوں اور انکے کانوں اور انکی آنکھوں پرمہر لگ چکی ہیں یہ قابل ہدایت نہیں “۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ” کذلک یطبع اللہ علی کُلِّ قلبٍ متکبرجبار “۔(سورئہ غافر آیت ۵۳)”خدا نے ہر متکبر اور جابر کے دل پر مہر لگادی ہے“۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ جعفر کذاب نے توبہ کی تھی تو یہ اس چیز کی دلیل تونہیں کہ اس کی توبہ قبول ہوگئی ہے کتنے لوگ ہیں جو توبہ کرتے ہیں مگر ہم ان کی توبہ کی قبولیت بارے کچھ نہیں کہہ سکتے آیات و روایات کی رو سے چار افراد کی توبہ قبول نہ ہوسکے گی۔ان میں سے ایک وہ ہے جو خلق خدا کوگمراہ کرے اوراسے غلط راستہ دکھائے ۔جعفر کذاب نے آئمہ علیہ السلام حق سے لوگوں کو گمراہ کر کے غلط راستہ پرلگادیا۔ بعض روایات و آیات کی روشنی میں اس کی توبہ قبول نہیں ہوسکتی۔
جن چار گروہوں کی توبہ قبول نہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔ جو عذاب دیکھ کر توبہ کرے جیسے فرعون نے کیا۔ (سورہ غافر آیت۵۸)
۲۔ جوشخص حالت احتضار میںہو، سب پردے آنکھوں سے ہٹ جائیں۔
۳۔ جس کسی نے کسی اور شخص کو گمراہ کیا ہو اور وہ مرچکا ہوجب کہ ایسا شخص اب اس کی صحیح راہنمائی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مرچکا ہوتاہے۔
۴۔ جس کسی نے پیغمبر یامعصوم (نمائندہ خدا) کوشہید کیاہو۔
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے پیغمبراکرم سے سوال کیا کہ میں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور کچھ لوگ میرے پیروکاربن گئے تھے تو میری توبہ کیسی ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا: کہ جن لوگوں کو تونے گمراہ کیا ہے ان کو دوبارہ سیدھے راستے پر لے آجو ان گمراہ ہونے والوں میںسے مرگئے ہیں ان کو دوبارہ زندہ کر اور پھر انہیں ہدایت کر اس کے علاوہ جعفر کذاب دو آیت قرآن کا مصداق ٹھہرتا ہے ”الا لعنة اللّٰہ علی الظالمین“۔(سورئہ ہود آیت۸۱)” الذین یصدّ ون عن سبیل اللّٰہ یبغونھاعوجا“۔(سورئہ اعراف آیت۵۴)
انہیں دو آیات کی رو سے اسے جعفر کذاب کا لقب دیاجاسکتا ہے اور ان ہی کاموں کی وجہ سے لوگوں میں وہ کذاب کے نام سے مشہورہوا۔
(عرض مترجم: قارئین محترم ہم نے جعفر بارے مصنف کتاب کی تحریر میں کسی قسمی کمی بیشی کئے بغیر من و عن ترجمہ کردیا ہے جو کہ مصنف کی ذاتی تحقیق ہے البتہ بعض علماءکی تحقیق اور اس موضوع پر لکھی گئی قدیم کتب سے جعفر کی توبہ ثابت ہے اور یہی رائے مبنی بر حقائق ہے البتہ مزید تحقیق کے لئے قدیم کتب ، غیبت شیخ طوسی، غیبت نعمانی، اکمال الدین کی طرف رجوع کیا جا سکتاہے۔)


باب سوئم
مہدویت کے دعویدارجھوٹے مدعیان مہدویت
”ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبااوکذب بایٰاتہ“ ۔(سورئہ انعام آیت۱۲)
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مہدویت ایک مسلمہ حقیقت ہے اور بڑی واضح ہے یہ مسئلہ مہدویت بھی مسئلہ توحید و نبوت کی طرح ثابت اور روشن ہے اسی وجہ سے جس طرح دنیا میں کئی جابروں نے خدائی دعویٰ کیا مثلاًفرعون وغیرہ اسی طرح کئی افراد نے نبوت کا دعویٰ بھی کیا ہے مثلاً مسیلمہ کذاب تو بالکل اسی طرح مہدویت بارے بھی کئی لوگوں نے دعویٰ کیا ہے اور اپنے آپ کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے طور پر متعارف کرایا طول تاریخ میں تقریباً کم وبیش ۰۵ افراد نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جن میں سے ۹ افراد نے کافی شہرت پائی ان کا تذکرہ ہم اس باب میں کریں گے۔(مرحوم عماد زادہ نے کتاب ولی عصر میں ۳۵ نام لکھے ہیں اور آقای محمد بہشتی نے اپنی کتاب ادیان ومہدویت میں ۶۴افراد کے نام لکھے ہیں)
چونکہ پیامبراکرم کےزمان علیہ السلامہ ہی سے امام مہدی علیہ السلام بارے روایات و انکشافات ہوتے رہے ہیں اس لیے کچھ ایسے دعویٰ کرنے والے بھی ہیں جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے پہلے ہی دعویٰ مہدویت کیا اور کچھ نےزمان علیہ السلامہ غیبت صغریٰ میں دعویٰ کیا اور کچھ نے غیبت کبریٰ کےزمان علیہ السلامہ میں مہدویت کا دعویٰ کیا۔

دعویٰ مہدویت قبل از ولادت امام مہدی علیہ السلام
۱۔ مختار بن ابوعبیدہ ثقفی
جوکہ امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے والوں میں شامل ہے اس نے ۴۶ ہجری میں امام حسین علیہ السلام کے خون کا انتقام لینے کے لیے قیام کیا مختار پہلے پہل جناب محمد حنفیہ کو امام مانتا تھا اور پھر اس نے مہدویت کا دعویٰ کیا اور آخر میں حقیقی شیعہ آل محمد کے طورپر سامنے آیا۔ امکان یہ ہے کہ اس نے کچھ مخصوص مقاصد حاصل کرنے کے لیے بظاہر جناب محمد حنفیہ کی امامت کا سہارا لیاہے جب کہ محمد بن حنفیہ نے دعویٰ امامت کیا ہی نہیں تھا مختار کا مقصد حکومت وقت سے بظاہر بچنا تھا یازیادہ قریب از حقیقت یہی رائے ہے کہ مختار ثقفی جو کہ خون حسین علیہ السلام کا منتقم تھا، نے کچھ مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے جناب محمد حنفیہ کو امام ظاہر کیا اور پھر خون حسین علیہ السلام کا انتقام لیا جب کہ مختار ثقفیؒ مذہب اہل بیت علیہ السلام کے نزدیک ایک محترم و قابل تحسین شخصیت شمار ہوتی ہے۔
(عرض مترجم:حضرت مختار ثقفیؒ کے بارے یہ کہنا کہ انہوں نے امام مہدی علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا ہمارے نزدیک ثابت نہ ہے۔ مندرجہ بالا تحریر مصنف کتاب کی ذاتی تحقیق ہے جس کا من و عن ترجمہ تحریر کر دیا گیاہے۔)

۲۔ محمد بن عبداللہ مخص
یہ نفس ذکیہ کے نام سے معروف ہوئے اس نے بھی قبل از ولادت حضرت صاحب الامر علیہ السلام دعویٰ مہدویت کیا اس کے پیروکاروں نے ایک حدیث گھڑی کہ جس کی بنیاد پر انہوں نے اسے مہدی موعود کہنا شروع کیا، پیامبر اکرم کا فرمان ہے کہ مہدی علیہ السلام کا نام میرا نام ہوگایعنی محمد اس کے باپ کا نام بھی میرے باپ کے نام پر ہوگا یعنی عبداللہ ہوگا جو کہ نفس ذکیہ کانام ہے محمد اور اس کے والد کانام عبداللہ تھا اسی بنا پر حدیث گھڑ کر اسے مہدی موعود بنادیاگیا۔نفس ذکیہ کے قیام اور قتل ہونے بارے ذکر منتہی الآمال میں درج ہے یہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے پوتے تھے اور ان کازمان علیہ السلامہ امام جعفر صادق علیہ السلام کازمان علیہ السلامہ تھا، احتمال قوی یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے محمدبن عبداللہ نفس ذکیہ کو مہدی متعارف کرایا جب کہ نفس ذکیہ قطعاً اس پر راضی نہ تھے۔(میں جناب مختار اور جناب محمد بن عبداللہ محترم سمجھتا ہوں ”واللہ العالم“ لیکن مہدویت کے جھوٹے دعویداروں میں ان کے نام کتابوں میں درج ہیں تو اس لئے میں نے بھی لکھ دیئے ہیں مصنف)۔

مدعیان مہدویت بعد از ولادت حضرت امام مہدی (علیہ السلام)
کچھ لوگوں نے حضرت صاحب الامر علیہ السلام کی ولادت کے بعد سرکار کی غیبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دعویٰ مہدویت کیا جن کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں ہم کچھ کا ذکر کریں گے۔

۱۔ ابومحمد عبداللہ مہدی
یہ آغاز میں انتہائی متقی و پارسا تھا مکتفیٰ عباسی کےزمان علیہ السلامہ میں زندگی کی ، اس نے افریقہ میں یہودکے ساتھ سازش کی اور کئی جنگیں لڑیں اس نے ۰۷۲ ھ میں اپنے مبلغ کو مغربی ممالک کی طرف بھیجا اور اس نے یمن میں امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اس نے اپنا لقب القائم رکھا اور اپنے سکّہ پر حجة اللہ کندہ کروایا اپنے آپ کو مہدی موعود اور امیرالمومنین کہلوایا اس نے افریقہ میں اپنے بہت سے پیروکار پیدا کرلیے اور ۴۴۳ ہجر میں وفات پائی۔

۲۔ محمد بن تومرت (ابا عبداللہ مغربی)
اس کی پیدائش ۵۸۴ھ میں ہوئی اور اس نے ۲۲۵ھ کو دعویٰ مہدویت کیا اس نے کئی اہم جنگیں لڑیں اور ۴۲۵ھ میں وفات پائی اس کی وفات کے بعد عبدالمومن اس کا جانشین بنا ۔ وہ بھی ۲۵۵ھ کو دنیا سے چلا گیا عبدالمومن کے بعد اس کا جانشین یوسف بناجس نے یورپ کے ساتھ جنگ کی اور فتح حاصل کی ۰۸۵ھ کو دنیا سے رخصت ہوا (ادیان مہدویت از ابن خلکان وابن اثیر)

۳۔ مہدی (یامہتدی)سوڈانی
یہ ۷۴۸۱ءمیں پیدا ہوا یہ ۱۸۸۱میں صوفیوں کے ساتھ مربوط ہوا اسی سال اس نے قیام کیا سخت جنگ کے بعد اس نے دعویٰ مہدویت کیا اس نے سوڈان پر حملہ کر کے سب سے پہلے خرطوم (دارالحکومت) کو اپنے قبضہ میں لیا پھر آہستہ آہستہ پورے سوڈان پر اپنی گرفت مضبوط کی اس نے اپنے چار جانشین مقرر کیے جوکہ ایک کے بعد ایک اس کا جانشین تھا۔

۴۔ غلام احمد قادیانی
اس نے ماضی قریب میں خروج کیا اور دعویٰ مہدویت کیا اس نے تمام اقوام عالم میں اعلان کیا کہ میں وہی ہوں جس کا تم سب کو انتظار ہے اس نے عیسائیوں کو کہا کہ میں مسیح عیسیٰ ہوں یہودیوں کو کہا کہ میں آخری نبی ہوں، اس کی بہت ساری کتابیں موجود ہیں۔

۵۔ مرزا طاہر حکاک اصفہانی
یہ سید کاظم رشتی کے شاگردوں سے ہے یہ اصفہان سے تہران اور پھر وہاں سے اسلامبول چلا گیا اسلامبول کی مسجد ریا صوفیہ کے ساتھ تحریروحکایت میں مشغول ہوگیا اور اپنے آپ کو ناصح العالم کے لقب سے ملقب کرنے لگ گیا اس نے ایک خط ناصرالدین شاہ کو لکھا جسکی عبارت نورچشم عزیزم ناصرالدین مرزا تھی اور ایک خط اس نے سلطان عبدالمجید ثانی کو ترکی زبان میں تحریر کیا جس میں اسے بھی عزیز اور برخوردار لکھا کہ میں تمام انبیاء علیہ السلام کی طرف سے منتخب کیا گیاہوں کہ بشر کو وعظ و نصیحت کروں اس نے دعویٰ مہدویت کے بعد بہت زیادہ پیروکار پیدا کر لیے اور وہ ۰۵۳۱ھ میں قتل ہوگیا۔

۶۔ سید محمد مشہدی
یہ اصل مشہد سے تھا اس نے ہندوستان میں سلطان ہند فرخ کےزمان علیہ السلامہ میں دعویٰ مہدویت کیا سلطان ہندفرخ سیر نے اس کی بیعت کرلی اور ایک نیا مذہب خفشانی کے نام سے ایجاد کیا اس نے دعویٰ نبوت اور وحی بھی کیا اس نے دعویٰ کیا کہ میں سیدہ زہراء علیہ السلام کا سقط شدہ محسن ہوں اس نے ایک نماز ایجاد کی جو چھ اطراف منہ کر کے پڑھی جاتی تھی اوپر، نیچے، شمال ، جنوب، مشرق، مغرب اوراپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ تمام جہات کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اس کی ایک کتاب بھی بنام مہمل بافی مثل مہمل بافی مرزا محمد علی باب کے ہے۔ اس کے پیروکاران کی مختلف عیدیں ہیں ان کی اہم ترین عید ۷۱ ذی الحجہ بنام عیدالجشن ہے اس کی مشہور ترین کتاب (قوزہ مقدس) ہے۔

۷۔ سیدعلی محمد باب
یہ یکم محرم ۵۳۲۱ھ کو شیراز میں پیدا ہوا۔ اس کے باپ کا نام سید محمدرضا اور اس کی والدہ کا نام فاطمہ بیگم تھا بچپن میں اس کا والد فوت ہو گیا یہ اپنے ماموں کی زیر کفالت پلتا رہا جب سید علی ۸سال کا ہوا تو شیخ عابد کے پاس تحصیل علم کے لیے چلا گیا ۷۱ سال کی عمر میں اپنے ماموں کے ساتھ تجارت کی غرض سے بوشہر چلا آیا اور وہاں ۵سال مقیم رہا ان پانچ سالوں میں اس نے کوئی خاص تجارت نہیں کی بلکہ مکان کی چھت پر ذکر و دعا میں مصروف رہتا اسی وجہ سے اسے سید ذکر بھی کہا جاتا تھا ۲۲ سال کی عمر میں بوشہر سے شیراز واپس آگیا اس کے بعد وہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوگیا وہ دوسال کربلا معلےٰ میں سید کاظم رشتی کے درس میں شریک رہا۔

سید علی محمد کی دعوت آغاز میں اور آخر میں
(اس بحث کو کتاب جمال ابہی اور تاریخ جامعہ بہائیت سے لیاگیاہے)
۹۵۲۱ھ میں سید کاظم رشتی جو کہ شیخ احمداحسائی بانی فرقہ شیخیہ کا شاگرد تھا فوت ہوگیا اس نے اپنے کسی جانشین کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی مقرر کیا بلکہ اپنے پیروکاروں پر چھوڑگیا کہ اس کے بعد کچھ پیروکارحاج عبداللہ محمد کریم خانی کرمانی کے پاس جمع ہوگئے جوکہ کاظم رشتی کا شاگرد تھا اور اسے بطور رکن رابع چن لیا۰۶۲۱ھ میں سید علی محمد نے ملاحسن بشرویہ کی مدد سے خود کو رکن رابع اور سید کاظم رشتی کا جانشین متعارف کرایاآخرکار وہ باب امام غائب کہلانا شروع ہوگیا اور سید کاظم رشتی کے شاگردان وپیروکار سید علی محمد باب سے منسلک ہوگئے۔یہ بات درست معلوم نہیں کہ سید علی محمد باب اپنی دعوت کے آغاز سے ہی دعویٰ مہدویت کی خواہش اور ادعیٰ رسالت کی آرزو رکھتا تھا بلکہ بعد میں اسے یہ خیال آیا آخر کار اس نے خود کو قائم مہدی اور آخر کاررب اور خدا کہلوایا ۔
جس وقت سید علی محمد نے شیراز میں دعویٰ نیابت خاصہ کیا تو فرقہ شخیہ کے ۸۱ افراد کے ایک گروہ نے اسکی دعوت قبول کی اور اٹھارہ افراد کو اسی نے حروف ح ¸ کا نام دیا سید علی محمد اور اسکے پیروکاروں سے اہل شیراز نفرت کرنے لگے جسکی بنا پر اس نے فیصلہ کیا کہ انہیں شیراز سے باہر چلے جانا چاہیے ۰۶۲۱ھ میں اپنے ماموں کےساتھ عازم حجاز ہوا اس نے ملا حسن بشرویہ ای کونامہ بھیجااور کہا کہ تم سیاہ پرچموں کے ساتھ مشہد سے نجف آجانا اور وہ خود مکہ سے خروج کر کے نجف آجائے گا اس کام سے اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ ان روایات کو اپنے اوپر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ جس میں کہا گیا ہے کہ جب امام مہدی علیہ السلام مکہ میں ظاہر ہوں گے تو خراسان سے سیاہ پرچموں کے ساتھ گروہ خروج کرے گا۔
سید علی محمد مکہ میں لوگوں کی کثرت سے خوف زدہ ہوگیا اور اس نے نجف جانے کا ارادہ بدل دیا اور ایران کی طرف چل پڑا اور دریائی راستہ سے داخل بوشہر ہوا اور پھروہاں سے شیراز چلاآیا حاکم شیراز نے اسے گرفتار کر لیا اور زندان میں بند کردیا حاکم شیراز نے علماءکی ایک محفل کا اہتمام کیا جنہوں نے علی محمد سے سوال وجواب کیے سید علی محمد اس علماءکی محفل میں رسوا ہوا طے پایا کہ اسے تنبیہہ کی جائے اس نے مسجد وکیل شیراز میں منبر پر اپنے الفاظ واپس لینے اور توبہ کرنے کا اعلان کیا لیکن علی محمد نے جب شیراز کے حالات نامساعد دیکھے تو معتمد الدولہ جو والی اصفہان تھا جس سے اس کی خفیہ دوستی اور روابط تھے اور وہ بیمار بھی تھا علی محمد نے شیراز سے اصفہان کی طرف فرار کیا ۔
اصفہان کے قریب جا کر اس نے ایک خط والی اصفہان کو اپنی آمد بارے لکھا معتمداصفہانی نے اس کے استقبال کے لیے کچھ لوگ اصفہان سے باہر بھیجے اسے امام جمعہ کی رہائش گاہ پر ٹھہرایا گیا اور ۰۴ روز تک اسے وہاں مہمان رکھا گیا اور اس کی خاطر مدارت کی گئی۔
والی اصفہان نے اس کی عزت وتکریم کے لیے علماءاصفہان کا اجلاس طلب کیا اور علماءاصفہان سے درخواست کی کہ اجلاس میں شرکت کریں مگر صرف چار علماءنے اس اجلاس میں شرکت کی ان چار علماءمیں سے ایک نے سید علی محمد باب سے پوچھا کہ تو مقلد ہے یا مجتہد تو علی محمد نے سخت لہجے میں جواب دیامیں باب ہوں نائب خاص اما م مہدی ہوں ، پیغمبرہوں اور مقام ربوبیت پر فائز ہوں یہ تم مجھ سے کیسی باتیں پوچھ رہے ہو۔اور بھی علماءنے کچھ سوال کیے جب بھی علماءنے اس سے کوئی دلیل چاہی تو جواب میں اس نے مہمل جملے بولنے شروع کردیے کہ جن کا کوئی مفہوم نہیں تھا۔ مثلاً ”ھواللّٰہ من لہ لبھی والبیہوت یامن الجل والجیلوت یامن لہ اللکمل الکلموت یامن العظم و فالعظموت “وغیرہ۔ (تاریخ جامع بہائیت باب کے محاکمہ کو۱۱ محرم ۲۶۲۱ھ لکھاہے)۔
سید علی محمد باب کو والی اصفہان کی مکمل سرپرستی وحمایت حاصل رہی چھ ماہ بعد والی اصفہان فوت ہوگیا علماءاصفہان نے بعد والے والی سے علی محمد کی شکایت کی والی نے تمام معاملہ تہران لکھ کر بھیج دیا تہران سے جواب آیا کہ اسے تہران بھیج دو اسطرح علی محمد عازم تہران ہوا اور تہران میں کلین کے مقام پر ۰۴ روز قید رہا جو کہ تہران کے نزدیک ہے وہاں سے اسے ماکو کے قلعہ میں بھیج دیا گیا وہاں کم وبیش ایک سال قید رہا اس کے بعد اسے قلعہ چہریق میں تین ماہ قید رکھا گیا وہاں سے تبریرلے جایاگیا۔(تاریخ جامع بہائیت میں ہے باب شعیان ۳۶۲۱ سے ج۱۔۴۶۲۱تک ماکو میں تھے)
محمد شاہ اور اس کے وزیر آقاسی کو علی محمد کی تبریر موجودگی سے احساس خطر ہوا محمد شاہ نے ولی عہد ناصرالدین کوحکم دیا کہ وہ علماءکو جمع کرے تاکہ سید علی محمد کا معاملہ ان کے سامنے رکھا جائے اور اس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے علی محمد کو چہریق کے قیدخانہ سے باہر لایا گیا اور مجلس علماءمیں حاضر کیا گیا۔ ملامحمدمامقانی اور نظام العلماءاور دیگر کچھ علماءوہاں موجود تھے انہوں نے سید علی محمد سے کئی سوال کیے جن میں سے اہم سوالات اور ان کے جوابات کا ہم تذکر کریں گے۔(میرے خیال میں شاہ اور آقاسی سے اشتباہ ہو اگر وہ باپ کو لوگوں میں آزاد چھوڑتے اور لوگ اس کی یادہ گوئیاں اور بے ہودہباتوں کو سن لیتے تو اس سے خود ہی نفرت کرتے۔ مصنف)
سوال نظام العلمائ: باب کا کیا معنی ہے؟
جواب سید علی محمد: کچھ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد”انا مدینة العلم وعلی بابھا“۔
نظام العلمائ: کیا توباب مدینة العلم ہے؟
سید علی محمد: ہاں میں باب مدینة العلم اور علی ہوں۔
نظام العلمائ: پیغمبرحکیم کا قول ہے کہ علم کی دواقسام ہیں علم ادیان علم ابدان اور پھر طب سے سوال کیا؟۔
علی محمد: میں نے علم طب نہیں پڑھا۔
اس پر ولی عہد ناصرالدین نے کہا کہ اس طرح کا جواب تیرے دعویٰ کے منافی ہے۔
نظام العلماءنے علم اصول سے سوال کیا تو سید علی محمد نے جو جواب دیا اس کی رو سے خدا کا مرکب ہونا اور تعددخدا لازم آتا تھا۔ مجبوراً اسے کہنا پڑا کہ میں نے حکمت نہیں پڑھی۔نظام العلماءنے اس سے علم صرف سے سوال کیا تو اس نے جواب دیا کہ میں صرف بھول چکا ہوں ،نظام العلماءنے نحو سے سوال پوچھا تو سید محمد علی نے جواباً کہا کہ میرے علم میں نہیں ہے۔نظام العلماءنے سوال کیا کہ اگر کسی کو دوران نماز دوسری اور تیسری رکعت بارے شک ہوجائے تو کیا کرے۔
سید علی محمدنے جواب دیا کہ اسے دوسری رکعت سمجھے۔
نظام العلماءنے سخت لہجے میں کہا کہ اے بے دین توں تو شکیات نماز بھی نہیں جانتا اور دعویٰ ربوبیت کرتا ہے تو فوراً کہنے لگا تیسری رکعت سمجھے ۔
پھر نظام العلماءنے کہا محمد شاہ جوڑوں کا مریض ہے اپنی کرامت دکھا کہ اسے شفامل جائے اس پر ولی عہدناصرالدین نے باب سے کہا کہ اگر تم اپنی کرامت کے ذریعہ نظام العلماءکو پھر سے جوان کردو تو میں اپنی ولی عہدی تمہیں دے دوں گا تو علی محمد باب نے کہا کہ یہ میرے بس میں نہیں ہے۔ آخر میں علی محمد باب نے کہا کہ میں وہ ہوں کہ جسکی تم لوگوں نے ہزار سال انتظار کی ہے۔
نظام العلماءنے کہا کہ ہم تو اس کے منتظر ہیں کہ جس کے والد کانام حسن علیہ السلام اور والدہ نرجس علیہ السلام خاتون اور اس کی جائے پیدائش سامرہ ہومحفل علماءبرخاست ہوئی اور ناصرالدین نے اسے درے مارنے کا حکم صادر کیا اور ایک پرہجوم محفل میں اسے درے مارے گئے، درے کھانے کے بعد اس نے توبہ کی تو علماءنے کہا کہ تو، توبہ نامہ لکھ کردے جس پر اس نے توبہ نامہ لکھ کر دیا جس کی تصویر ایڈورڈ براﺅن میں چھپی ہوئی ہے اور وہ توبہ نامہ مخزن کتابخانہ مجلس میں موجود ہے۔ (تاریخ جامع بہائیت ص۰۷۱ ، یہ توبہ نامہ سال ۵۱۳۱ھ مجلس ملی کی عمارت میں آویزاں رہی ہے بعد میں یہ توبہ نامہ غائب کردیاگیا)۔آخر کار محمد شاہ کی موت کے بعد ناصرالدین جانشین بنا تو صدر اعظم امیرکبیر نے ہرروز کسی نہ کسی جگہ علی محمد باب کے خلاف احتجاج اور شورشرابہ کی وجہ سے علی محمد باب کے قتل کا حکم صادر کیا اس وقت جب کہ وہ ۱۳ سال کا تھا تبریز کے قید خانہ سے باہر لایا گیا اور تختہ دار پر لٹا کر تیراندازی کر کے قتل کردیا گیا۔ یہ واقعہ ۸۲ شعبان ۶۶۲۱ھ میں پیش آیا۔
۸۔ مرزا حسین علی بہا
باب اور بہا کانام بہت زیادہ ملتاجلتا ہے اور ان دونوں کے پیروکار بابیان اور بھائیان کے احکام اور ان کادستوروآئین اس حد تک ملتاجلتا ہے کہ اس کی علیحدہ علیحدہ شناخت بہت مشکل ہے اور باب کے ذکر کے ساتھے ہی مناسب ہے کہ بھا کا ذکر بھی کردیاجائے حسین علی بہاءنے دعویٰ مہدویت نہیں کیا بلکہ اس نے اس سے بھی بڑا دعویٰ کیا مرزا حسین علی بہا ۳۳۲۱ھ یعنی مرزا علی محمد باب کی پیدائش سے دوسال پہلے تہران میں پیدا ہوا اس نے ادبیات اور مقدمات کی تعلیم تہران میں حاصل کی اور دو سال تک کردستان کے شہر سلیمانیہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔کواکب الدریّہ میں تحریر ہے کہ حسین علی بہا ۸۲ سال کی عمر میں باب پر ایمان لایا بابیوں نے ۱۶۲۱ تا۷۶۲۱ بہت زیادہ فتنے بپا کیے( مثلاً فتنہ قلعہ طبرسی کہ ملاحسین بشرویہ وہاں اس میں ۰۷ افراد سمیت دوران محاصرہ قتل ہوا زنجان میں بھی بہت زیادہ تعداد میں لوگ قتل ہوئے اسی طرح رنجان کا فتنہ بھی ہے)۔پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ ۰۶۲۱ ھ میں علی محمد باب کوپھانسی دی گئی ۷۶۲۱ھ میں باب کے پیروکاروں نے ناصرالدین شاہ پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں ناصرالدین شاہ بال بال بچ نکلنے میں کامیاب ہوا جس کے بعد ناصرالدین شاہ کے حکم پر بابیوں کے ۰۴ افراد کو گرفتار کرایا گیا اس واقعہ میں حسین علی بہا نے روس کے سفارت خانہ میں پناہ لے لی آخر کار ایک عدالتی فیصلہ کی رو سے روس کی حمایت کی وجہ سے ایران بدر کردیاگیا حسین علی بہا ۱۱ سال تک عراق میں گھومتا رہا خطرات کی صورت میں چھپ جایا کرتا تھا کبھی کسی موقعہ پر اپنے آپکو ”من یظہراللّٰہ“ کہتا اور علی محمد باب کے بارے کہتا کہ وہ میری خوشخبری دینے والا تھا اس نے ۱۱سال تک ہمیشہ اپنے آپکو مروج تعلیمات باب قرار دیا اس بنیاد پر اس نے ایک کتاب لکھی بنام القان جو کہ بابیت کے آئین وطرفداری پر مبنی ہے ۔۰۷۲۱ھ میں بہا، نے اپنے پیروکاروں سمیت بغداد سے حرکت کی اور ۲۱ دن باغ حبیسبیہ کے باہر قیام کیا بہا،نے باقاعدہ اپنی دعوت کا یہاں سے آغاز کیا اس سے پہلے وہ اعلانیہ دعوت نہیں دیتا تھا اس لیے بہائیوں نے ان ۲۱ دنوں کو ایام رضوان قرار دیا۔ سلطنت عثمانی اور حکومت ایران کے باہمی فیصلہ کی رو سے بہا ءکو عراق سے جلا وطن کر کے اسلامبول بھیج دیا گیا جہاں اس نے ۶ماہ قیام کیا اور پھر وہاں سے ادرن منتقل ہوگیا ادرن میں ہی بہانے اپنے باخبرپیغمبرہونے کا اعلان کیا اور اپنے قلمی نسخہ ”جمال ابہی“ میں لکھا کہ عیسیٰ آسمان سے آگیا ہے اور کہا کہ میں وہی ہوں جس کی باب نے خوشخبری دی تھی بہاءکی بہت بڑی خواہش تھی کہ اپنے آپ کو ”من یظہرہ اللّٰہ“ کے طور پر متعارف کرائے لیکن چونکہ باب نے اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیا تھا کہ ”من یظہرہ اللہ“ سے پہلے ”المستغاث“ آئے گا(یہ لفظ حروف ابجد کے اعتبار سے۲۴۶۱بنتے ہیں) اور وہ ابھی اصلاب اور ارحام میں ہوگا جس کی وجہ سے اس نے مادہ منویہ کو پاک قرار دیا دوسری طرف اس دعویٰ کی راہ میں خود بہاءکا بھائی مرزا یحییٰ صبح ازل مانع تھا بہا حیران تھا کہ کیا کرے آخر کار اس نے اعلان ”من یظہرہ اللّٰہ“ کردیا اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے طور پر بے سروپاءباتیں کیں اور مرزا یحیٰ کی وصیتوں کو جعلی قرار دیا جس کی بنا پر ان دونوں بھائیوں کے پیروکاروں میں سخت جھگڑا شروع ہوگیا جس کی وجہ سے حکومت عثمانی نے ۵۷۲۱ھ میں حسین علی بہا کو ۳۷۱ افراد کے ہمراہ عکاءاور میرزا ٰیحیٰ کو ۰۳ افراد کے ہمراہ نکال دیا گیا اور قبرص بھیج دیا اس جلا وطنی سے لے کر ۹۰۳۱ ھ تک ۴۳ سال اس نے عکائ(یہ اسرائیل کا ایک شہرہے) میں الوہیت کا دعویٰ کیے رکھا،تمام انبیاءاور رسولوں نے شرک کے خلاف جنگ لڑی اولوالعزم پیغمبروں نے بتوں کوتوڑنے کا اقدام کیا اور بت پرستی کا مقابلہ کیا ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کے خلاف موسی علیہ السلامٰ نے فرعون کے خلاف، جو کہ ہردو ربوبیت کے دعویدار تھے یہ جنگ لڑی حیرانگی اس امر پہ ہے کہ باب اور بہاد نے پہلے نبوت اور رسالت کا دعویٰ کیاپھر ربوبیت کا اور آخر میں الہ بن بیٹھا۔ (مصنف) آہستہ آہستہ وہ کئی باغات اور محلات کا مالک بن گیا، وہ کچھ لوگوں کے نزدیک معلم اخلاق اور کچھ کے ہاں نماز جمعہ پڑھنے والا اور کچھ لوگوں کے عقیدہ کے مطابق رجعت حسینی قرار پایا اور کچھ مریدوں کے عقیدہ مطابق عیسیٰ آسمان سے آگیا ہے قرار دیا گیا اور کچھ خاص معتقد مریدوں نے اسے خداوند قہار قرار دیا آخر کار ۹۰۳۱ ھ کو ۶۷ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگیا۔

شام یلدای ما
خدا! ای خداوند اعلای ما!

نگہدار دلہای شیدای ما
بہ عشق تو گر سو ختیم از ازل

بجز تو نباشد تمنّای ما
بسوزان دل ما از این بیشتر

از آن آتشین جام صھبای ما
بہ دریای توحید خود غرق کن

ہمہ روح و جسم و سراپای ما
در این آب و آتش در این نور وناز

کسی نشنود جز تو آوای ما
خدایا! بہ موسای صحرای عشق

بہ آن ساقی بادہ پیمای ما
الٰہی! بہ آن یوسف گمشدہ

کہ بردہ است باخویش دلہای ما
بہ چشمان جادو، بہ خال رخش

بہ لعلِ لبِ آن مسیحای ما
بدہ مہدی ما بہ ما ای خدا!

بہ پایان رسان شام یلدای ما

(دیوان”انوار ولایت“)

خدایا! صبر تاکی؟! انتظار آسمان تاکی؟!
خداوندا! دعا تا کی؟! تو بردار این معمارا !

”فَلاَ ا ق سِمُ بِاَل خُنَّسِoاَل جَوَارِ اَل کُنَّسِoوَاَللَّی لِ اِذَا عَس عَسَoوَاَلصُّب حِ اِذَاتَنَفَّسَ“۔
”مجھے ان ستاروں کی قسم جو چلتے چلتے پیچھے ہٹ جاتے اور غائب ہوجاتے ہیں۔ اور رات کی قسم جب ختم ہونے کو آئے اور صبح کی قسم جب روشن ہوجائے “۔(تکویر:۵۱۔۸۱)