کتاب کانام: موعود امم (عالمی )امن کا ضامن
مصنف: شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی
مترجم: غلام قنبر عمرانی
نظرثانی: علامہ سید افتخار حسین النقوی النجفی
زیراہتمام: امام خمینی ٹرسٹ ماڑی انڈس میانوالی پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انتساب
اللہ کی بلند ترین علامت، کلمہ علیائ، وارث علوم انبیائ،تمام اوصیاءکی صفات کے حامل، اولیاءکی آنکھوں کا سکون، حجت معبود، مہدی موعود، روحی وارواح العالمین لہ الفداءکی خدمت اقدس میں۔

اظہاریہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حدیث نبوی ہے جو شخص چاہتا ہے کہ وہ اس حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے کہ اس کا ایمان کامل ہو، اس کا اسلام خوب صورت ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ حضرت حجت صاحب الزمان علیہ السلام المنتظر سے ولایت رکھے۔ (بحوالہ الاربعین لابی الفوراس لحافظ اہل السنة حدیث نمبر۶سے مکیال المکارم ج۱ص۴۲)
رسول اسلام حضرت محمد مصطفی کے بارہویں جانشین اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کی آخری حجت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا موضوع ان دنوں پورے عالم میں زیر بحث ہے اس عنوان پر گذشتہ سالوں میں بہت کچھ مختلف زاویوں سے لکھا گیا ہے اور مسلسل اس موضوع پر لکھا جا رہا ہے ۔
زیر نظر کتاب ”موعود امم“شیخ عباس شیخ الرئیس کرمانی کی تالیف ہے۔ انہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بارے بڑے آسان انداز میں عوامی رجحانات کو مد نظر رکھتے ہوئے مطالب کو بیان کیا ہے، مطالب آسان بھی ہیں عام فہم بھی، پیچیدہ علمی اور تحقیقی بحثوں سے گریز کیا ہے، جو بات کہی ہے باحوالہ کہی ہے ۔انہوں نے امامزمان علیہ السلامہ علیہ السلام سے اپنے عشق اور ولاءکا اظہار ہر بحث کے اختتام پر فارسی کے اشعار سے کیا ہے، ان کی خواہش تھی کہ یہ کتاب اردو زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوجائے اور اسے ذاکرین، واعظین، دینی مدارس کے طلباءاور دانشوروں تک ہدیةً پہنچائی جائے۔
اس سال ماہ ربیع الاول میں بیرون ملک کے دورہ سے واپسی پر قم المقدسہ میں میری ان سے ملاقات حضرت آیت اللہ العظمیٰ وحید خراسانی دام ظلہ العالی کے گھر پر ہوئی جو کہ بہت ہی معلومات افزا تھی، میری ان سے یہ پہلی ملاقات تھی، اس سے پہلے ان سے آشنائی نہ تھی۔ انہوں نے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ بھی میرے لیے ہدیہ کیا۔ بندہ نے ان سے وعدہ کر لیا کہ انشاءاللہ پاکستان واپس جا کر ”موعود امم“ کا اردو میں ترجمہ کر کے اسے شائع کیا جائے گا ۔
چنانچہ سفر سے واپسی پر اس کتاب کے ترجمہ کی بھاری ذمہ داری نوجوان عالم دین جناب غلام قنبرعمرانی کو دی، انہوں نے بڑی محنت اور لگن سے اس کا اردو ترجمہ مکمل کیا اور میں نے بھی اول سے آخر تک اس ترجمہ کو پڑھا جو اصل کتاب کے مطابق پایا اب کتاب اشاعت کے لئے آمادہ و تیار ہے۔
خداوند سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے مصنف اس کے مترجم اور اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھانے والوں کو اجر عظیم دے اور ہم سب کو حضرت بقیة اللہ الاعظم، نور آل محمد، خاتم الاوصیاء علیہ السلام، ولی عصر علیہ السلام، صاحب الزمان علیہ السلام،امام مہدی علیہ السلام کے ناصران اور معاونین سے قرار دے اور ان کی دعائیں ہمارے نصیب ہوں اور اس کتاب کے مندرجات کو مومنین کے لئے حضرت صاحب الزمان علیہ السلام سے ولایت رکھنے اور عشق و محبت کے اظہار کا ذریعہ بنائے۔
محب منتظران امامزمان علیہ السلامہ (عج)

سید افتخار حسین النقوی النجفی
(۲۲۔۱۱۔۵۰۰۲ھ)

پیش لفظ ازمصنف
ہر کس بہ زبانی صفت وحمد تو گوید
بلبل بہ غزل خوانی وقمری بہ ترانہ
(کشکول شیخ بھائی)
.... شیعہ ایک عالمی مصلح اور انسانیت کے لئے امن کے داعی مجسمہ عدالت، ایک آئیڈئیل انسانی معاشرہ قائم کرنے والی ہستی کے وجود کو ایک مسلمہ حقیقت کے طور پر پہچانتے اور عقیدہ رکھتے ہیں۔
لیکن یہ عقیدہ تنہا شیعہ سے مخصوص نہیں بلکہ عالمی مصلح کا عقیدہ شیعوں کے علاوہ دیگر مذاہب وملل و فرقوں میں بھی موجود ہے جسے
٭ اہل سنت کے تمام فرقے (البتہ ابن خلدون جیسے منکر وجود مہدی علیہ السلامہزاروں میں چند ہیں جن کا کوئی مقام نہیں) یا تو آپ کے وجود ذی جود کے عقیدت مند ہیں یا انہیں وہ غیبت میں جانتے ہیں یا یہ کہ مہدی متولد ہوں گے اور پھر ظہور فرمائیں گے۔
٭ سابقہ ادیان، یہودی، عیسائی باقی آسمانی کتابوں کے پیروکار یہاں تک کہ زرتشنی مذہب (مجوسی) بھی قائل ہیں اور ان کی کتابوں میں حضرت کانام ان کے اوصاف کے ساتھ ہے
٭ قدیم مذاہب کے پیروکار جیسے ہندو، بدھ مت ، برہمن اور سکھ وغیرہ کہ انہوں نے یہ عقیدہ اپنی کتابوں سے لیاہے۔
٭ مادہ پرست، سوشلسٹ، کمیونسٹ(ایسے مکاتب جو خدا کے وجود کے منکر ہیں)وہ بھی اس بات کی انتظار میں ہیں کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ پورا انسانی معاشرہ امن کی مثال بن جائے گا زمین پر خوشحالی و ہریالی ہوگی، محرومیت کا خاتمہ ہوگا،ہر ایک کو اس کا حق ملے گا، انہوں نے اپنی علمی تحقیقات میں ایک آئیڈیل معاشرہ کے قیام کی خبر دی ہے۔اس مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لئے انہوں نے کتابیں تحریر کی ہیں اور اپنی تحقیقی کتابوں میں انہوں نے ایک حصہ منجی بشریت کے عنوان پر مخصوص کیا ہے اور ایسے مصلح عالم کی خصوصیات کو درج کیاہے۔ اس تناظر میں موعود عالم کے بارے مختلف پہلوﺅں میں ایک وسیع وعریض بحث کی ضرورت ہے۔
اس بات کو اذہان میں بٹھانے کے واسطے ذیل میں ایک مثال پیش کرتاہوں۔
فرض کریں ایک گھر کامالک یا ایک دفتر کاایڈمنسٹریٹر اس جگہ سے غائب ہے جس وجہ سے اس مقام پر کم وبیش بدنظمی اور بدانتظامی نظر آتی ہے۔
(الف) کچھ لوگ اس صورتحال کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا عقل یہ کہتا ہے کہ اگر اس گھر کا مالک موجود ہوتا اوراس دفتر کا منتظم غائب نہ ہوتا تو یہ بدانتظامی اور بدنظمی موجود نہ ہوتی ، اس لحاظ سے وہ ایک لائق مدیر اور منتظم کے منتظر ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیںجو فلسفی مکاتب سے وابستہ ہیں (اور دنیا میں بدامنی، بدانتظامی، بے عدالتی کاخاتمہ ایک منتظم کی آمد میں دیکھتے ہیں)
(ب) کچھ وہ ہیں جو اس منتظم اور مالک کے اوصاف کے بارے کچھ معلومات رکھتے ہیں یہ وہ ہیں جو سابقہ آسمانی کتابوں کے قائل ہیں۔
(ج) کچھ وہ ہیں جو اس منتظم کا نام جانتے ہیں اور ان کی کچھ خصوصیات سے بھی آگاہ ہیں جیسے اہل سنت۔
(د) کچھ وہ ہیں جو ان کانام، ان کے القاب، ان کی خصوصیات سے واقف ہیں اور ایسے منتظم کی ولادت کے بارے بھی معلومات رکھتے ہیں اور اس کے پروگرام سے مکمل آگاہ ہیں، یہ حضرات اس کی آمد کے صحیح وقت سے واقف نہیں ۔ جیسے شیعہ حضرات۔
اسی قسم کے مہدی امم کے بارے نظریات و خیالات اور اعتقادات نے مجھے اس بات پر آمادہ کیا کہ میں آپکی ہستی کے ایسے گوشوں کے بارے قلم اٹھاﺅں جو ابھی تک تشنہ ہیں اور اس طرح میں نے موعود امم کی ذات سے متعلق کتاب تحریرکی، جس کی دس فصلیں ہیں اور پچیس ابواب ہیں اس کتاب کانام موعود امم رکھا ہے تاکہ یہ کتاب سب کے لئے مفید اور موثر ہومجھے امید ہے کہ میری یہ کوشش و کاوش درگاہ احدیت میں قبول ہوگی اور حضرت ولی عصر علیہ السلام کی بارگاہ میں شرفیابی کا ذریعہ بنے گی۔
٭٭٭٭٭
چو در آیینہ رخسار ماہ او تَجَلَّی اللّٰہ
بر این روی در خشان، آفرینش گفت: صَلَّی اللّٰہ

”قُل فَان تَظِرُوا اِنَّی مَعَکُم مِنَ اَل مُنتَظِرِینَ“۔(سورہ یونس آیت ۲۰۱)
”تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ یقینا انتظار کرتا ہوں“۔