مہدویت نامہ
 

حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل سنت کی نظر میںحصہ دوم
حضرت امام زمانہ(عج) کن کی شبیہ ہیں
سب سے زیادہ روایات میں یہ تحریر ہے کہ حضرت قائم آل محمد(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) گفتارو کردار، شکل و صورت میں حسن و جمال میں حضرت نبی کریم سے شباہت رکھتے ہیں اور خود پیغمبراکرم نے بارہا فرمایا کہ ”مہدی(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) سب سے زیادہ میرے مشابہ ہوں گے“ اور آپعلیہ السلام کی گفتگو کرنے کا انداز.... آپعلیہ السلام کے چلنے کا انداز.... آپعلیہ السلام کی نشست و برخاست کا پیرایہ.... لوگوں سے رابطہ رکھنے کے اطوار.... آپعلیہ السلام کے لباس پہننے کا طریقہ.... سب باتوں میں آپ علیہ السلام آنحضرت کی مشابہت لئے ہوئے ہیں۔
بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت نبی اکرم نے فرمایا کہ مہدی(علیہ السلام)میری اور موسیٰعلیہ السلام بن عمران علیہ السلامکی شباہت ہیں اور بعض روایات میں یہ فرمایا گیا کہ آپعلیہ السلام حضرت امام حسن عسکری(علیہ السلام)کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتے ہیں اور بعض روایات میں یہ بھی وارد ہوا ہے کہ حضرت حجت حق.... اخلاق، ہیبت، رعب و دبدبہ میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کے مشابہ ہیں۔
بہرحال اس سلسلے میں روایات بہت ساری ہیں ان میں سب سے زیادہ آپعلیہ السلام کی حضرت رسول اللہ سے شباہت کا تذکرہ ہے باقی تمام انبیاءعلیہ السلام کی مختلف صفات کی جھلک بھی آپ علیہ السلام میں موجود ہوگی۔اس جگہ ہم یہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے میں جو یہ ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام مختلف ہستیوں سے شباہت رکھتے ہوں گے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ ساری ہستیاں کسی نہ کسی حوالے سے حضور اکرم سے مشابہت رکھتی تھیں اور حضرت امام مہدیعلیہ السلام کلی طور پر رسول اللہسے مشابہت رکھتے ہوں گے تو اس حوالے سے ہر وہ پیغمبر یا امام جن کی رسول اللہ سے شباہت ہے آپ ان کے بھی مشابہ ہوئے۔

حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام)کا حسن و جمال
حسن و جمال کے حوالے سے روایات میں بہت زیادہ ذکر اور مختلف پہلوﺅں سے بیان ہوا ہے، اس کو ہم ترتیب وار بیان کررہے ہیں، جب حسن محبوب کا تذکرہ چھڑ جائے تو اس کے قرب، وصل میں تمام تر تفصیلات بھی کوتاہ نظرآتی ہیں اور چاہنے والے کی تشنگی بدستور رہتی ہے، روایات میں لفظی تذکرہ کچھ یوں ہے کہ
حضرت ولی العصر(علیہ السلام) کا چہرہ اقدس انتہائی خوبصورت ہے.... اب تشبیہ واستعارات کی کمند تو انسانی فکر وہاں ڈالے گی جو حدعقل میں سما سکے اور جہاں ذہن و شعور پر حسن امام علیہ السلامکے جلوہ سے سکتہ چھا جائے، سکوت دم توڑ دے وہاں لفظوں کی تلاش میں سرگرداں ہو کر قلم بھی اس حسن حقیقی میں محو ہو جائے گا....
آپ علیہ السلام کا چہرہ اقدس نور کی مانندہے.... اب اس نور کی مانند کا مفہوم تو وہی سمجھے جو نور آشنا ہو اور اسکی نورانی ماحول پر نظر ہو.... تو جہاں تشبیہ و استعارہ سمجھنے سے بھی عقل انسانی قاصر ہو تو وہاں حسن امام علیہ السلامکےلئے کون سا کلیہ اختیار کیاجائے، اب اس میں آپ یقینا ایک تصور ہی میں گھوم پھر کر واپس لوٹ آئیں گے، روایات میں ”نورس جوان“ کا لفظ لکھا گیا ہے، نیز یہ کہ آپعلیہ السلام کے وجود اقدس سے خوشبو پھوٹ پھوٹ کر بکھرتی ہے، اب موسم بہار جس کے وجود کی خیرات بن کر چار سو پھیل جائے، اسکے لئے خوشبو کا تصور ہمارے اپنے ہاں پائی جانے والی خوشبو ہی تصور کی جائے گی، جو کُن ±تُ کنزاًکے راز کے مظہر ہوں ان کی خوشبو کیا ہو گی ؟۔
آپ علیہ السلام کے پر ہیبت چہرہ اقدس کے بارے میں ہے کہ رعب ودبدبہ والا حسین چہرہ رکھتے ہیں جو جلال و جمال الٰہی کے رکھنے کے باوجود لوگوں کو مسخر کئے ہوئے ہے اور دیکھنے والے اس جلالت نواز حسن الٰہی میں محوہوجاتے ہیں کیونکہ اس پیکر حسن کے علاوہ اتنادلنواز حسن کہیں ہے ہی نہیں!!!۔
اب روایات میں ہے کہ آپعلیہ السلام چاند کے ٹکڑے ہیں، یہ تو صرف ہمیں سمجھانے اور بتانے کے لئے چاند کی تشبیہ دی گئی ہے، ورنہ چاند جن کے بہلانے کے لئے خلق ہوا ہو، چاند کو اگر ان کی زکوٰة نہیں بلکہ خیرات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
روایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلامخود چاند ہیں، اس سے ہمیں یہی تصور مل سکتا ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جس طرح چودہویں کے چاند کی نورانی کرنوں کی بارش سے اندھیرا کافور ہوجاتا ہے آپ علیہ السلام کے وجود مقدس کی برکت سے باطل کے تمام تر اندھیرے بے بس ہیں۔
آپ علیہ السلام کوروشن کوکب دری بھی کہا گیاہے .... اور مثل مشتری کہہ کر پکارا گیا ہے کسی نے کہا کہ شاخ صندل کی مانند حسن کے مالک ہیں، آپ علیہ السلام کو ریحان سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ علیہ السلام کے وجود مقدس کے بارے میں ہے کہ حسن کے حوالے سے کوئی ایسا جسم ہے ہی نہیں۔
روایات میں لکھاہے کہ آپعلیہ السلام خوش پوش، پاکیزہ لباس زیب تن کرنے والے ہیں ، آپعلیہ السلام کی شکل وصورت سے بزرگانہ ہیئت ٹپکتی ہے.... آپ علیہ السلامہر ایک پر احسان کرنے والی پاکیزہ ذات ہیں۔
نیز ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام بہشت والوں کے لئے طاﺅس ہیں یہاں اس مقالہ کے مولف نے فارسی کے اشعار موقع کی مناسبت سے خوب تحریر کئے ہیں کہ

اگرچہ حُسن فروشاں بہ جلوہ آمدہ اند
کسی بہ حسن و ملاحت ہ یار مانرسد
ہزار نقش برآید ز فلک صنع ویکی
بہ دل پذیری نقش نگار ما نرسد

یعنی اگر سارے حسن فروش جمع ہو جائیں اور اپنا حسن دکھانے کے لئے آجائیں تو ہمارے محبوب کے حسن و جمال کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، ہزار نقوش اپنی صنعت کو میدان میں لے آئیں لیکن جو ہمارے محبوب میں دلپذیری ہے وہ کسی میں نہیں۔
معزز قارئین! یہ تمام تر حوالے ہمارے اپنے معاشرے میں موجود لوگوں کو سمجھانے کے لئے دیئے گئے ہیں، چونکہ ہماری ذہنی رسائی انہی تک ہے، ورنہ ان کے حسن و جمال کی تعریف انسانی بس میں ہے ہی نہیں، اس دیئے گئے حلیہ مبارک سے ہم اچھی سی اچھی شئے کو آپ علیہ السلام کی بارگاہ میں صرف اور صرف نسبت ہی کے طورپر پیش کر سکتے ہیں، ورنہ پردہ غیبت میں.... جلالت کانقاب اوڑھ کے (عج).... اک شخص نہیں بلکہ نور کا ایک طور کھڑا ہے۔

حضرت بقیة (علیہ السلام) کا سن مبارک
روایات میں ہے کہ آپعلیہ السلام ایک جوان رعنا نظرآتے ہیں، دیکھنے والا آپعلیہ السلام کو دیکھ کر مبہوت.... محویت میں غرق ہو جاتا ہے، آپ علیہ السلام کی حیات اقدس اگرچہ اس وقت ۰۸۱،۱ برس ہو چکی ہے مگر آپ علیہ السلام ایک مکمل وجیہ جوان لگتے ہیں۔ انشاءاللہ ہم جلد منظر دیکھیں گے جب آپ علیہ السلامکا ظہور پر نور ہوگا اور آپ کے وجود مقدس کی زیارت سے مشرف ہو سکیں گے” انشاءاللہ“ بہت ساری روایات میں آپ کی حیات اقدس کی مدت بھی تحریر ہے، بعض نے تیس سال لکھی ہے، بعض نے بتیس سال اور بعض نے چالیس سال سے کم تحریر کی ہے، آپ اپنی حیات مقدس کے آخری وقت تک اسی سن میں لگیں گے، آپ علیہ السلام کے وجود مقدس پر قطعاً بڑھاپے کے آثار نہیں ہیں یعنی آپ علیہ السلام کا ظاہری سراپا مندرجہ بالا روایات کے تحت یہی ہوگا۔

حضرت امام عصر(علیہ السلام) کی قدو قامت
روایات میں ہے کہ آپ علیہ السلام ایک متوسط قد کے جوان ہیں.... نہ دراز ہیں.... نہ کوتاہ قد.... بلکہ معتدل اور درمیانہ قد کے ہیں، آپ(عج) کے وجود مبارک کے بارے میں انبیاءعلیہ السلام کے اجساد مبارکہ کی مثالیں بھی دی گئی ہیں، یہ بہت ساری روایات ملتی ہیں آپ علیہ السلام طاقتور لطیف اندام ہیں، آپ علیہ السلام کی رنگت کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام کا رنگ واضح اور درخشاں ہے، آپ علیہ السلام کے رخسارکا رنگ چمکتے ہوئے ستارے کی مثل ہے، آپ علیہ السلام کے ارغوانی چہرے کے حسن کی ملاحت پہ دنیا انگشت بدنداں ہو جائے گی، آپ علیہ السلام کا رنگ عربوں کی روایتی مثل ہوگا اور مائل بہ سرخی ہے، گندم گوں رنگ پہ سرخ پن حاوی ہے.... سنہرہ پن ظاہر ہو رہا ہے،شب زندہ داری کی وجہ سے چہرہ مبارک پہ زردی ظاہر ہے، آپ علیہ السلام کا سر اقدس خوبصورت اور گول ہے اور اس میں ایک خاص نشانی ہے جس سے وہی آگاہ ہیں جو زیارت سے بہرہ ور ہیں.... باقی لغت کے قیافوں میں سرگرداں ہیں، آپ علیہ السلام کے سراقدس حضرت نبی اکرم کے سر اقدس جیسا ہے یعنی بڑا اور گول ہے۔

آپ(علیہ السلام) کے سر اقدس کے موئے مبارک
یہ کاکل مشکیں کہ شب قدر ہو قرباں
زلفوں کے خم و پیچ کے معراج کی راہیں
(صفدرحسین ڈوگر)
آپ علیہ السلام کے موئے مبارکہ انتہائی جاذت نظر اور خوب صورت ہیں، نیز شانوں تک ہیں اور آپ علیہ السلام کے موئے مبارکہ، سیاہ رنگ، مگر سرخی مائل ہیں اور آپ (عج) کی زلفیں کندھوں کی طرف کانوں تک ہیں، نیز یہ بھی روایات میں ملتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے موئے مبارکہ کچھ کچھ گھنگھریالے بھی ہیں، آپ علیہ السلام کے سرمقدس میں گیسو ہیں، ایک روایت میں دوگیسوﺅں کا تذکرہ ہے، سرائیگی زبان میں جنہیں ”لٹیں“ کہا جاتا ہے.... یہ دو گیسوﺅں والی روایات بہت زیادہ ہیں.... نیز آپ علیہ السلام کے سرمقدس میں مانگ ہے اور ایسی مانگ ہے جیسی دو ”واﺅ“ کے درمیان الف ہوتی ہے، چونکہ آپ علیہ السلام کی شباہت حضرت رسول اکرم سے ہے، اس لئے آنحضرت کے گیسو مبارک بھی اسی طرح ذکر ہوئے ہیں۔

حضرت امام زمانہ (علیہ السلام) کا چہرہ مبارک
آپ علیہ السلام کے رخساروں پر گوشت گم ہے اور بڑے لطیف و گداز ہیں، آپ علیہ السلام کے رخسار مبارک پہ خال ایسے ہیں جیسے مشک کا دانہ عنبر پر موجود ہو.... سبحان اللہ.... مولا علیہ السلاماپنے ظہور کے وقت ہمیں زیارت سے نوازیں اور اس قابل بنا دیں کہ دیدار کے قابل ہو سکیں، اس خال کے سلسلے میں بہت ساری روایات ہیں اور ہر راوی نے خال اقدس کی مثال اپنی شعوری انتہاءکے مطابق بیان کی ہے، بعض راویوں نے اسے کوکب دری کہا ہے، بعضوں نے مشک کا دانہ جیسے چاندی پر نظر آئے، ہر شخص نے اپنی معرفت کے مطابق ذہنی رسائی تک تشبیہ دی ہے، آپ علیہ السلام کی پیشانی مبارک پر دونوں آنکھوں کے درمیان سجدوں کا نشان نمایاں ہے۔آپ علیہ السلام کے خال مبارک کی درخشندگی دلکش واضح اور دیدہ زیب ہے۔

اے آفتاب آئینہ دار جمال تو
مشک سیاہ مجمرہ گردان خال تو
آپ علیہ السلام کی پیشانی واضح، کھلی بلند اور روشن ہے، لطیف اور چمکتی ہوئی پیشانی اور کنپٹیاں مبارک واضح اور درخشندہ ہیں، آپ علیہ السلام کی پیشانی کے اوپر کچھ بال عنقا ہیں، پیشانی کے موئے مبارکہ کو
دائیں بائیں کر رکھا ہے اور وہ گیسو بن کر کانوں تک آویزاں ہیں۔

حضرت حجت خدا علیہ السلام کے ابرو مبارک
ابروہیں کہ قوسین شب قدر کھلے ہیں
آپ علیہ السلام کے ابرومبارک، بلند اور کمان دار ہیں اتنے ہوئے کشادہ اور برجستہ ہیں دونوں ابرومبارک ایک دوسرے کے قریب ہیں، درمیانی فاصلہ زیادہ نہیں ہے۔

حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام)کی چشم ہائے مبارکہ
آپ علیہ السلام کی چشمہائے مبارکہ سیاہ ہیں، چمکدار ہیں، اٹھی ہوئی کشادہ اور شفاف ہیں، جذابیت رکھنے والی ہیں، ان میں درخشندگی ہے، آپ علیہ السلام کی چشمہائے مبارکہ باہر کی طرف اٹھی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ معمولی سی اندر کی طرف ہیں، یہی کیفیت حضرت نبی اکرم کی چشمہائے مبارکہ کی بھی کتب میں درج ہیں ۔

حضرت ولی العصر(علیہ السلام)کی بینی مبارک
آپ علیہ السلام کی بینی مبارک لمبی باریک و لطیف اور بلند ہے۔

حضرت صاحب العصر(علیہ السلام) کا دہن اقدس اور لب ہائے مبارکہ
آپ علیہ السلام کا دہن مبارک نہ چھوٹا ہے اور نہ بڑا ہے بلکہ بڑاموزوں اور متوازن ہے اور لب ہائے مبارکہ سرخ عقیق کی مانند ہیں۔

حضرت خلیفة اللہ (علیہ السلام)کے دندان مبارک
یہ دانت یہ شیرازہ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
آپ علیہ السلام کے اگلے دانت کھلے اور درخشندہ ہیں اور دانتوں میں معمولی سا فاصلہ بھی ہے چمکدار اور روشن ہیں، دہن مبارک سے دندان مبارک کے ذریعے نور پھوٹ پھوٹ کر واضح ہورہا ہے اور حضرت جعفر طیار علیہ السلام کی اولاد کے بارے میں بھی یہی ہے کہ ان کے دندان مبارک اسی طرح تھے جس طرح کہ حضرت حجت خدا علیہ السلام کی ہےں۔

حضرت امام العصر(علیہ السلام) کی ریش مبارک
آپ علیہ السلامکی ریش مبارک بھری ہوئی ہے زیادہ لمبی نہیں ہے۔

حضرت ولی العصر(علیہ السلام) کی گردن مبارک
گردن ہے کہ برفرق ز میں اوج ثریا
آپ علیہ السلام کی گردن مبارک لمبی خوبصورت اور موزوں ہے اور اللہ کی اعلیٰ ترین صنعت ہے ، بہت ہی سفیداور درخشاں آپ علیہ السلامکی گردن کے نیچے ہنسلی پر سونے کی تاریں رواں دواں ہیں۔

حضرت امام عصر(علیہ السلام) کے دوش مبارک
آپ علیہ السلام کے دوش مبارک کی استخوان مقدس بڑی ہیں اور کندھے کشادہ ہیں اور آپ علیہ السلام کے دوش مبارک پر خال ہے، دونوں کندھوں کے درمیان نیچے کی طرف خاتم الاوصیاءعلیہ السلام کی مہر لگی ہوئی ہے.... روایات میں اس علامت کو ”درخت آس“ (یہ درخت انار کے درخت جتنا ہوتا ہے اس کے پتے سبز اور خوشبودار ہوتے ہیں) کے پتے کی مانند بتایا گیا ہے اور یہی تعبیر مبارک حضرت نبی اکرم کے بارے میں بھی بیان کی گئی ہے۔

حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام)کا سینہ مبارک
آپ علیہ السلام کا سینہ کھلا اور کشادہ ہے۔

حضرت وارث زمانہ(علیہ السلام) کی کمر مبارک
آپ علیہ السلام کی کمر پر دو خال ہیں، ایک خال حضرت نبی اکرم کے خال کی مانند ہے اور دوسرا جسم کے رنگ سے مشابہ ہے۔

حضرت حجت خدا (علیہ السلام)کی کلائی مبارک
آپ علیہ السلام کی کلائی لطیف زیبا اور مضبوط ہے اور دائیں کلائی پر یہ لکھا ہو اہے۔
”جاءالحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا“
حق آگیا اور باطل چلا گیا اور باطل جانے ہی والا ہے۔
آپعلیہ السلام حجت الحق (علیہ السلام) کی دست ہائے مبارک و قد م ہائے مبارک
آپ علیہ السلام کے دونوں ہاتھ قوی ہیں، دائیں ہاتھ پر تل ہے بعض نے لکھا ہے کہ آپ کے دونوں ہاتھوں پر لکھا ہوا ہے۔
”بایعوہ فان البیعة للہ ”عزوجل“
یعنی ان کے ہاتھ پر بیعت کرو کہ ان کی بیعت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔آپ علیہ السلام کی انگلیاں دستہائے مبارکہ اور قدم ہائے مبارک بھاری اور قوی ہیں جس طرح طاقتور اور مضبوط افراد کے ہوتے ہیں، حضرت ولی العصر(علیہ السلام) کے ہاتھوں اور بازوﺅں کی درمیانی جگہ ذرا لمبی ہے، آپ علیہ السلام کے قدم ہائے مبارک کے اوپر گوشت کم ہے۔

حضرت ولی العصر(علیہ السلام)کا بطن مبارک
حضرت امام زمانہ(علیہ السلام) کا دل بہت وسیع ہے، انہوں نے یہاں بطن کا معنی دل کیا ہے یعنی آپ علیہ السلام فراخ دل ہیں اور آپ(علیہ السلام) کا سینہ اور پیٹ برابر ہے سینے سے لے کر پیٹ تک بالوں کی ایک لکیر ہے یہی الفاظ حضرت نبی اکرم(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی استعمال ہوئے ہیں، ان بالوں کی ایک لطیف لکیر کے علاوہ آپ علیہ السلام کے سینہ پر کوئی بال نہیں ہے۔

حضرت صاحب الزمان(علیہ السلام) کی ران مبارک
آپ علیہ السلام کی ران مبارک بڑی کشادہ، مضبوط اور قوی ہے، آپ علیہ السلام کی دائیں ران پر ایک خال ہے یعنی آپ علیہ السلامکے جسم کے اعضاءمبارک مضبوط، محکم اور طاقتور ہیں۔

حضرت امام زمانہ(علیہ السلام) کا زانور مبارک
آپکے زانو مبارک تھوڑے اندر کی طرف جھکے ہیں، اسی طرح حضرت نبی اکرم کے زانوﺅں کے بارے میں بھی روایت بیان ہوئی ہے.... عرب و عجم کے شعراءنے آپکے سراپا مبارک پر اپنی اپنی عقیدت کا خراج پیش کیا ہے اور آئندہ بھی ان کے ظہور مبارک تک لکھتے رہیں گے۔جیسا کہ ہم اس مقالے کے آغاز میں دے چکے ہیں کہ یہ مضمون قم المقدسہ ایران سے شائع ہونے والے سہ ماہی جریدہ ”انتظار“ کے دوسرے سال کے شمارہ پنجم کا ہے ص۱۵۱ تا ص۰۹۱ تک ہے اور اسکے تمام حوالہ جات اسکے ص۰۹۱ سے لےکر ص۴۹۱ تک ہیں وہاں سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں ۔

حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے بعض دیگر اوصاف کا تذکرہ
۱۔الجحجاح المجاہد المجتہد۔
حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کی زندگی مسلسل جہاد ہوگی.... اس ضمن میں امام خمینیؒ سے پوچھا گیا کہ آپ کی زندگی کا ٹائم ٹیبل کیا ہے تو جواب دیا کہ میں ۴۱ گھنٹے مسلسل کام کرتا ہوں یعنی آپ علیہ السلام امام زمانہ(علیہ السلام) کی پیروی میں ایسا کرتے تھے ۔تو آپ اس سے خود سوچ لیں کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی عملی زندگی کیسی ہوگی۔
۲۔خاشع للہ کخشوع النسرلجناحہ
امام زمانہ(علیہ السلام) اللہ کے احکام کے معاملے میں اتنی احتیاط کرنے والے ہیں کہ جتنی عقاب اپنے پروں کی حفاظت کرتا ہے۔
۳۔یکون اشد الناس تواضعاًللّٰہ” عزوجل “
امام مہدی علیہ السلامتمام لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے والے ہوں گے۔
۴۔شدید علی العمال رحیم علی المساکین
امام(علیہ السلام) اپنے کارندوں، منیجروں، آفیسروں پر سخت گیر اور کمزور اور غریبوں پر نہایت مہربان ہوں گے۔
۵۔ علیہ کمال موسیٰ وبہاءعیسیٰ وصبرایوب
امام مہدی علیہ السلامکمال موسیٰعلیہ السلام، عیسیٰعلیہ السلام کی سطوت اور ایوب علیہ السلام کے صبر کے مالک ہوں گے۔
۶۔تعرفون المہدی بالسکینة والوقار
تم حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کو ان کے پرسکون اور باوقار ہونے سے پہچان لو گے۔
یعنی امام(علیہ السلام) کا اتنا رعب اور دبدبہ ہوگا کہ اس لئے ہر ایک انہیں دیکھ کر یہ تسلیم کرے گا کہ واقعی یہ ہی امام زمانہ(علیہ السلام) ہیں ۔
۷۔ولایضع حجر علی حجر
حضرت امام مہدی(علیہ السلام) پتھروں کے اوپر پتھر نہیں رکھیں گے یعنی امام مال و دولت جمع نہیں کریں گے۔
۸۔ یحذوفیہا علی مثال الصالحین
حضرت امام مہدی(علیہ السلام) صالحین کی مثال پر چلیں گے یعنی خوشامد پسند، خود ستا، نہیں ہوں گے۔
۹۔ یعتاد مع سمرتہ صفرة من سہر اللیل بابی، من لیلہ یرعی النجوم ساجدا راکعابابی من لایا ¿خذلومة لائم مصباح الدجی بابی القائم بامراللہ۔
حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی رنگت رات بھر جاگنے اور تہجد پڑھنے کی وجہ سے زرد ہو گی....میرے والد ان پر قربان ہوں جس کو ساری رات ستارے کبھی قیام میں دیکھیں گے کبھی رکوع میں کبھی سجدے میں دیکھیں گے.... میرے والد ان پر قربان! جو خدمت دین میں کسی کی ملامت سے نہ ڈریں گے، وہ گمراہی کی تاریکی میں ہدایت کاروشن چراغ ہیں.... میرے والد ان پر قربان ہوں! جو اللہ کے حکم کو قائم کریں گے۔
۰۱۔ فیستشیر المہدی اصحابہ
حضرت امام مہدی(علیہ السلام)اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے والے ہوں گے۔
۱۱۔ ویشترط علی نفسہ لہم ان یمشی حیث یمشون ویلبس کما یلبسون ویرکب کمایرکبون ویکون من حیث یریدون ویرضی بالقلیل۔
حضرت امام مہدی (علیہ السلام)اپنی ذات کے لئے یہ لازم کرنے والے ہوں گے کہ (مشورہ کے بعد) جہاں اصحاب چلیں گے وہ بھی ساتھ چلیں گے جو لباس اصحاب پہنیں گے وہی وہ خود پہنیں گے، جس چیز پر اصحاب سوار ہوں گے اس پر وہ بھی سوار ہوں گے اصحاب جو رائے پاس کریں گے وہ ہی ان کی رائے ہوگی اور امام علیہ السلام قناعت کرنے والے ہوں گے۔

اللہ کے ہاں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا مقام و منزلت
ہم حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کانام مبارک آپ کے اوصاف کو جان چکے ہیں اس باب میں ہم حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی اللہ کے ہاں جو شان اور منزلت ہے اس بارے ذکر کریں گے اللہ کی نمائندگی میں اللہ کی ساری زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنے والی شخصیت آپ علیہ السلام ہی ہیں آپعلیہ السلام اللہ کے خلیفہ ہیں، آپ علیہ السلام ہی مہدی(علیہ السلام) موعود ہیں، جن کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنے سارے نمائندگان کو آگاہ کیا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ سب اپنے اپنے زمانہ میں اللہ کے آخری نمائندہ کا تعارف کروائیں اور ان کی اطاعت سب پر فرض قرار دی گئی اس ضمن میں چند روایات ملاحظہ ہوں۔
۱۔ انس بن مالک سے روایت ہے میں نے حضرت رسول اللہ سے یہ بات سنی کہ آپ نے فرمایا ”ہم عبدالمطلب(علیہ السلام) کی اولادجنتیوں کے سردار ہیں (اس سے مراد) میں خود، حمزہ(علیہ السلام) علی(علیہ السلام) جعفر(علیہ السلام)حسن(علیہ السلام) حسین(علیہ السلام)، مہدی(علیہ السلام) ہیں“۔
(حوالہ جات :سنن ابن ماجة:۲/۸۶۳۱ باب ۴۳ حدیث نمبر ۷۸۰۴، ومستدرک الحاکم ۳/۱۱۲ وتاریخ بغداد:۹/۴۳۴حدیث ۰۵۰۵ ومطالب السو ¿ول:۲/۱۸ باب ۲۱ والبیان: ۱۰۱باب ۳ وذخائرالعقبی: ۵۱ و ۹۸، والریاض النضرة: ۳/۴و۲۸۱فصل ۸وعقد الدرر:۴۹۱، باب ۷وفرائد السمطین:۲/۳۲،باب ۷ حدیث ۰۷۳ومقدمہ ابن خلدون:۸۹۳ باب ۳۵ والفصول المھمة: ۴۸۲ط دارالاضواءفصل ۲۱ وجمع الجوامع: ۱/۱۵۸وصواعق ابن حجر:۰۶۱ باب ۱۱فصل ۱ وف ¸ ص۷۸۱باب ۱۱فصل۲، حدیث ۹۱وبرہان المتق ¸: ۹۸ باب ۲ حدیث ۳ واسعاف الراغبین:۴۲۱وعرف السیوط ¸ ،الحاو ¸:۲/۴۱۲)
۲۔ عبداللہ بن عباس نے نبی اکرم سے یہ حدیث نقل کی ہے” مہدی(علیہ السلام) اہل جنت کے طاﺅوس ہیں“۔
(حوالہ جات: الفردوس ج۴ص۲۲۲البیان ص۸۱۱، باب نمبر۸عقدالارر ۹۱۱ باب ۷۔ العفول ۴۸۲فصل ۲۱، برہان المتقی، ۷۷۱باب ۲۱حدیث۲، کنوز الاقائق : ۲۵۱، نور الابصار: ۷۸۱، ینابیع المودة: ۱۸۱ باب ۵۶)
۳۔ابو ہریرہ نے نبی اکرم سے روایت بیان کیا ہے ”اس امت کے درمیان ایک خلیفہ ہوں گے ان پر ابوبکر اور عمر(دونوں) کو برتری نہ ہوگی یعنی وہ دونوں پر فضیلت رکھتے ہوں گے“۔
(حوالہ جات: ابن ابی شیبہ ج۵۱ص۸۹۱ حدیث ۶۹۴۹۱، الکامل، ابن عدی ج۲ص ۳۳۴۲،عقد الارد: ۹۹۱باب۷ برہان المتقی باب ۲۱ص۲)
۴۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ نے فرمایا”مہدی(علیہ السلام ) خروج کریں گے انکے سر پر ایک گہرے بادل کا ٹکڑاہوگا اس بادل کے اندر ایک منادی موجود ہو گا، جو یہ نداءدے رہا ہوگایہ ہیں مہدی(علیہ السلام) :اللہ کے خلیفہ ہیں،تم سب لوگ ان کی اتباع کرو“۔(حوالہ جات: البیان: ۲۳۱باب ۵۱، عقد الدرر:۳۸۱ باب ۶، فرائد السمطین ج۲ ص۶۱۳ باب ۱۶ حدیث ۶۶۵، ۹۶۵، الفصول المہمہ ۸۹۲ فصل ۲۱،عرف السیوطی، الحاوی ج۲ ص۷۱۲ تاریخ الحمنیس ج۲ص۸۸۲ نور الابصار ۸۸۱ ۔۹۸۱)
۵۔ عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضورپاک نے فرمایا
”مہدی(علیہ السلام) خروج کریں گے، ان سے سر کے اوپر ایک فرشتہ موجود ہوگا جو یہ نداءدے گا، بتحقیق بلاشک و تردید سب آگاہ ہو جاﺅ یہ ہیں مہدی(علیہ السلام) !تم سب لوگ ان کی پیروی و اتباع کرو“۔
(حوالہ جات: تخلیص المتشابہ ج۱ ص۷۱۴، والبیان: ۳۳۱ باب ۶۱وفرائد السمطین ج۲ ص۶۱۳ باب ۱۶ حدیث نمبر ۹۶۵ وعرف السیوطی الحاوی ج۲ ص۷۱۶، والقول المختصر ۹۳، باب ۱ حدیث ۴۲، وبرہان المتقی ۲۷ باب ۱حدیث ۲ وینابیع المودّة ۷۴۴ باب ۸۷)

حضرت امام مہدی (علیہ السلام) اللہ کے خلیفہ اور خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) اللہ کے خلیفہ اور خاتم الائمہ (علیہم السلام) ہیں
جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ مہدی(علیہ السلام) جو ہیں وہ محمد بن الحسن علیہ السلام العسکری علیہ السلام ہیں اور اللہ کے ہاں ان کی منزلت یہ ہے کہ وہ اللہ کے خلیفہ برحق ہیں، ان کی اطاعت واجب ہے، اب ایک سوال ہے کہ کیا ان کے بعد کوئی اور امام علیہ السلام بھی آئے گا یا وہی آئمہ اہل البیت علیہ السلام سے آخری امام ہیں اور وہ ہی خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں، ان پہ امامت کا سلسلہ ختم ہے جیسا کہ شیعہ بارہ امامی کاعقیدہ ہے اور جس کی وہ انتظار کررہے ہیں، اہل سنت سے جو روایات ملتی ہیں ان میں یہ بات واضح ہے کہ مہدی(علیہ السلام) موعود ہی خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں اور خلفاءمیں آخری خلیفہ ہیں۔
۱۔ ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا” تمہارے چھپے ہوئے (زیر زمین ) خزانہ کہ پاس تین افراد کے درمیان جنگ ہوگی، وہ تینوں حاکم کے بیٹے ہوں گے، پھر یہ خلافت وحکومت ان میں سے کسی ایک کے پاس نہ رہے گی، اس واقعہ کے بعد مشرق کی جانب سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے، وہ ان سب کو قتل کریں گے، ایسی جنگ لڑی جائے گی کہ اس سے پہلے کسی قوم نے ایسی جنگ نہ دیکھی ہوگی“ راوی کہتا ہے: کہ اس کے بعد حضورپاک نے ایک بات ارشاد فرمائی جو مجھے یاد نہیں ہے.... اس کے بعد آپ نے فرمایا”جب تم اسے دیکھو :تو ان کی بیعت کرنا، اگرچہ تمہیں برف کے اوپر گھٹنوں کے بل چل کر ہی کیوں نہ آنا پڑے کیونکہ وہی شخصیت اللہ کے خلیفہ مہدی(علیہ السلام) ہوں گے“۔
(حوالہ جات: البیان :۴۰۱،باب۳، سنن ابن ماجہ ج۲ص۷۶۳۱ حدیث ۴۸۰۴، المستدرک: ج۴ ص۳۶۴، تلخیص المتدرک ض ج۴ ص۴۶۔۳۶۴، مسند احمد بن حنبل: ج۵ ص۷۷۲)
۲۔ حضرت علی ابن ابی طالب(علیہ السلام) فرماتے ہیں ”میں نے حضرت رسول اللہ سے یہ سوال کیا: کیا مہدی(علیہ السلام) ہم اہل بیت(علیہم السلام) سے ہیں یا وہ ہمارے غیر سے ہیں؟ رسول اللہ نے فرمایا”وہ ہم سے ہیں، ہمارے ہی ذریعہ دین کا اختتام ہوگا یعنی آخری دین والے ہم ہی ہیں، جس طرح دین کا آغازہم سے ہوا ہے، ہمارے ذریعہ فتنوں کی گمراہ کرنے والے فتنوں سے نجات پائیں گے، جس طرح انہوں نے شرک کی گمراہی سے ہمارے وسیلہ سے نجات پائی ہے، ہمارے ذریعہ اللہ” تعالیٰ“ دین کے بارے ان کے دلوں میں الفت و وحدت ایجاد فرما دے گا،جب کہ دشمنی کے فتنوں میں سب گھر چکے ہوں گے، جس طرح دلوں کو دین کی محبت و الفت کی رسی میں جوڑ دیا۔
(حوالہ جات:المعجم الاوسط:۱/۶۳۱ حدیث ۷۵۱، والبیان: ۵۲۱ باب ۱۱ وعقد الدرر:۲۹۱ باب۷ ومجمع الزوائد: ۷/۶۱۳۔۷۱۳ ومقدمة ابن خلدون:۶۹۳ باب ۳۵والفصول المہمة:۸۸۲ مع اختلاف یسیر فصل ۲۱ وعرف السیوط ¸، الحاو ¸: ۲/۷۱۲ وجمع الجوامع :۲/۷۶ وصواعق ابن حجر: ۳۶۱، باب ۱۱فصل۱،کنزالعمال: ۴۱/۸۹۵حدیث ۲۸۶۹۳ و برہان المتق ¸: ۱۹باب ۲حدیث ۷و۸ وفرائد فوائد الفکر:۳،باب ۱ونور الابصار:۸۸۱)
۳۔ ابن حجر الحیثمی، المتوفی ۴۷۹ نے تحریر کیا ہے ابو الحسین الآبری نے کہا ہے اخبار اور روایات متواترہ موجود ہیں، راویوں کی کثیر تعداد نے اس معنی کی روایات کو بیان کیا ہے کہ حضرت محمد مصطفی نے فرمایا ”مہدی(علیہ السلام) بھی زمین کو عدالت وانصاف سے بھردیں گے اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کے ہمراہ خروج کریں گے اور دجال کے قتل میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور دجال کا قتل ”باب لُد“ پر ہوگا جوکہ سرزمین فلسطین میں ہے اور مہدی(علیہ السلام) ہی اس امت کی امامت کریں گے اور حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے پیچھے نماز ادا کریں گے “۔ (الصواعق المحرقہ، ابن حجر:۵۶۱طبع مصر)
۴۔ الشیخ الصبان ( تاریخ وفات ۶۰۲۱ھ) نے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم سے متواتر روایات بیان ہوئی ہیں کہ” امام مہدی(علیہ السلام) خروج کریں گے اور امام مہدی(علیہ السلام) آپ علیہ السلام کے اہل بیت سے ہیں اور بلاشک و تردید مہدی(علیہ السلام) ہی زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دیں گے، حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) دجال کے قتل کرنے میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور دجال کاقتل فلسطین کی سرزمین پر مقام ”باب لُد“ میں ہوگا بتحقیق حضرت امام مہدی(علیہ السلام) ان کی امامت فرمائیں گے اور جناب عیسیٰعلیہ السلام آپ علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے“۔
(حوالہ : سعاف الراغبین الصبان ص۰۴۱)
۵۔ ابو سعید کی روایت میں آیا ہے ”زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی (ویران ہوگی) (حضور پاک فرماتے ہیں) میری عترت سے ایک مرد خروج کرے گا جو اس زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا (آباد و خوشحال کردے گا)۔ (حوالہ: مستدرک الحاکم ج۴ ص۸۵۵)

حضرت امام مہدی(علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی امامت فرمائیں گے
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت امام مہدی (علیہ السلام)
کے پیچھے نماز ادا کریں گے
کتب صحاح اور غیر صحاح میں کثیر تعداد میں روایات حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی جن کی شخصیت آپ علیہ السلام کے نسب ، نام، اوصاف کو بیان کر رہی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیا اتنی ساری گواہیوں کے بعد بھی کسی مسلمان کے لئے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے عقیدہ سے متعلق کسی اور دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟! ذات امام علیہ السلام کی اطاعت اور ہر قسمی انحرافات سے بچنے کا انتظام ان شواہد میں موجود ہے، تمام روایات اس بات کی بھی تصدیق کر رہی ہےں کہ نبی عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور حضرت امام مہدی علیہ السلام بن الحسن العسکری علیہ السلام کی امامت میں نماز ادا کریں گے، جیسا کہ شیعہ بارہ امامی کا عقیدہ ہے اہل سنت کی روایات میںبھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے چند روایات ملاحظہ ہوں ۔
۱۔ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ”المصنف“ میں ابن سیرین سے روایت بیان کی ہے‘ ‘ مہدی(علیہ السلام) اس امت سے ہیں اور وہی عیسیٰعلیہ السلام بن مریم (سلام اللہ علیہا) کے امام ہوں گے“۔
(حوالہ :المصنف/ابن ابی شیبہ ج۵۱/۸۹۱/حدیث ۵۹۴۹۱)
۲۔ حافظ ابونعیم نے عبداللہ بن عمر سے روایت بیان کی ہے ”مہدی علیہ السلام پر عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہ السلام اتریں گے اور حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے پیچھے حضرت عیسیٰعلیہ السلام نماز پڑھیں گے“۔
(الحاوی للفتاوی ،اسیوطی ۲/۸۷)
۳۔ یہ جوحدیث ہے کہ” ہم ہی سے وہ شخصیت ہیں جن کے پیچھے عیسیٰعلیہ السلام بن مریم علیہ السلام نماز پڑھیں گے“ اس حدیث کی شرح میں ”المنادی“ نے لکھا ہے، ہم سے مراد حضور پاک کی اہل بیت علیہ السلام ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ بن مریم علیہ السلام آسمان سے اتریں گے، یہ آخری زمانہ میں ہوگا آپ علیہ السلام صبح کی نماز کے وقت دمشق کی شرقی جانب”منارہ بیضاءپر اتریں گے، وہ اس وقت دیکھیں گے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) نماز شروع کرنے والے ہیں، حضرت امام مہدی(علیہ السلام) محسوس کر لیں گے کہ جناب عیسیٰعلیہ السلام تشریف لے آئے ہیں، حضرت امام مہدی(علیہ السلام) پیچھے ہٹیں گے تاکہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آگے بڑھیں، لیکن حضرت عیسیٰعلیہ السلام انہیں آگے کردیں گے اور حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے پیچھے نماز پڑھیں گے اس امت کے واسطے اس شرف اور برتری سے بڑھ کر اور کون ساشرف ہو سکتا ہے ۔ (حوالہ فیض القدیر المناوی ۶/ج۶ ص۷۱)
۴۔ ابن برہان شافعی نے حضرت عیسیٰعلیہ السلام کے نزول سے متعلق اس طرح تحریر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کانزول صبح کی نماز کے وقت ہوگا، آپ حضرت مہدی (علیہ السلام)کے پیچھے نماز پڑھیں گے، جب کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) ان سے یہ گذارش کریں گے کہ اے روح اللہ: آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں تو حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) عرض کریں گے، آپعلیہ السلام آگے بڑھیں یہ نماز آپ علیہ السلام کے لئے کھڑی ہوئی ہے.... آگے چل کر لکھتے ہیں بتحقیق حضرت امام مہدی(علیہ السلام) جناب عیسیٰعلیہ السلام کے ساتھ خروج کریں گے، حضرت عیسیٰعلیہ السلام دجال کے قتل کرنے میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی مدد کریں گے اور یہ روایت بیان ہو چکی ہے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) عترت نبی سے ہیں اور وہ بھی جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی اولاد سے ہیں ۔ (حوالہ: السیدة الحلبیہ ابن برہان الشافعی:ؒ ج۱/۶۲۲۔۷۲۲)
۵۔ فتح الباری شرح بخاری میں اس طرح بیان ہوا ہے ”ابو الحسن الخسعی الآبدی نے مناقب الشافعی میںلکھاہے، روایات متواترہ موجود ہیں کہ امام مہدی(علیہ السلام) اس امت سے ہیں اور یہ کہ عیسیٰعلیہ السلام مہدی(علیہ السلام) کے پیچھے نمازپڑھیں گے اور یہ بات انہوں نے اس حدیث کے جواب میں لکھی ہے جسے ابن ماجہ نے اس سے نقل کیا ہے کہ ”مہدی(علیہ السلام) ‘ ‘ سوائے عیسیٰ(علیہ السلام) کے کوئی اور نہیں ہیں، اس کے بعد الطیب ¸ کی اس بات کا بھی حوالہ بھی دیا ہے جس میں ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام)تمہارا امام ہوگا، وہ آپعلیہ السلام کے دین میں ہوگا، اس نے اس بات کو رد کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)امامت کروائیں گے وہ کہتا ہے.... جو مسلم کے نزدیک ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام)سے کہا جائے گا کہ تم ہمارے لئے نماز پڑھاﺅ تو حضرت عیسیٰعلیہ السلام کہیں گے نہیں، میں نماز نہیں پڑھاتا! کیونکہ ان کے بعض جو ہیں وہ دوسرے بعض پرحاکم ہیں، اس امت کی کرامت اور عزت کی خاطرایسا ہوگا.... اس کے بعد ابن الجوزی سے اس قول کو نقل کیا ہے! اگر عیسیٰعلیہ السلام امام کے عنوان سے آگے بڑھ جائیں تو درحقیقت ایک اشکال پیدا ہو جائے گاکیونکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰعلیہ السلام جب آگے بڑھیں گے تو وہ نائب بن کر یا شرعی طور پر خود ہی امام ہوں گے، ظاہر ہے نائب تب ہوتا ہے جب اصل موجود نہ ہو، اور وہ خود امام ہوں تو یہ اسلامی مسلمات کے خلاف جاتا ہے.... یہی وجہ ہے کہ اس لئے آپ علیہ السلام ماموم بنیں گے تاکہ اشتباہ واقع نہ ہو اور حضورپاک کا جو فرمان ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اس حدیث پر کسی کو بھی اشکال نہ ہو۔ (حوالہ: فتح الباری شرح صحیح البخاری، ابن حجر العسقلانی ج۶ص۳۸۳،۵۸۳)
۶۔ ابن ابی شیبہ نے ابن سیرین سے اس بات کو نقل کیاہے ”مہدی(علیہ السلام)“ اس امت سے ہیں اور آپعلیہ السلام ہی عیسیٰعلیہ السلام بن مریم(سلام اللہ علیہا) کی امامت کرائیں گے۔
(حوالہ المصنف بن ابی شیبہ ۵۱/۸۹۱،حدیث نمبر۵۹۴۹۱)

حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا پرچم
عصر ظہور میں ایک مسلمان کو گمراہی سے بچانے کے واسطے حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے پرچم کی تفصیلات اور آپ کا جو مخصوص شعار اور نعرہ ہوگا اسے بھی بیان کیا گیا ہے تاکہ اس پرچم کی نشانی سے حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کے ظہور کے منتظرین ہدایت پائیں گے۔
عبداللہ بن شریک سے روایت ہے۔
”حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے ساتھ رسول اللہ کا پرچم جو ”المغلبہ“ ہو گا (غالب آنے والا پرچم ) کاش کہ میں اس زمانہ کودرک کرو اور میں اس کی طرف بلا رہاہوں۔
(حوالہ: ابن حماد ص۹۴۲،حدیث۲۷۹، القول المختصرص۰۰۱، باب نمبر۳، برہان المتقی ص۲۵۱،باب۷ ج۴۲،)
۲۔ ابو اسحاق نے نوف البکائی سے روایت نقل کی ہے
”مہدی(علیہ السلام) کے پرچم پر یہ تحریر موجود ہوگی ”البعیة اللہ“....بیعت اللہ کے لئے ہے“
(حوالہ: ابن حماد،۹۴۲،ج۳۷۹، القول المختصر:۱۰۱باب ۳ج۶۳،برہان المتقی ۲۵۱ باب۷ حدیث ۵۲، فرائدفوائدالفکر۸ باب ۴ینابیع المودة۵۳۴باب ۳۷)

حضرت امام مہدی(علیہ السلام) عطاءو بخشش خوشحالی کادور
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی عطاءو بخشش
اس بات میں شک نہیں ہے عدالت اپنی تمام ترشکلوں کے ساتھ حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کی قیادت میں مشخص ہوگی، آسمان اور زمین اپنی ساری برکتیں انڈیل دیں گے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ جو دیاگیا وہ پورا ہوگا اور یہ وہی مثالی حکومت ہوگی جس کی سب کو انتظار تھی، اس میں انسان ہر لحاظ سے خوشحال ہوگا، امن ہوگا، ظلم ہوگانہ فساد و غربت ہوگی نہ افلاس، ان حقائق کو درج ذیل روایات میں ملاحظہ کریں ۔
درج ذیل روایات کچھ مزید حقائق کوبیان کررہی ہیںجو کہ اہل سنت کی کتب سے ماخوذ ہیں۔
۱۔ ابو سعید الخدری نبی اکرم سے حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ”مہدی (علیہ السلام) کے زمانہ میں میری امت آسودہ حال ہوگی، اتنی خوشحالی کہ اس سے قبل اس طرح کی خوشحالی انہیں نصیب نہ ہوئی ہوگی، آسمان ان پر مسلسل نعمتیں بھیجے گا،زمین کسی بھی انگوری کو نہ چھوڑے گی، مگر یہ کہ اسے باہر نکال دے گی اور مال کے ڈھیر لگ جائیں گے، ایک آدمی کھڑا ہو کر سوال کرے گا یا مہدی(علیہ السلام) مجھے دیں! تو مہدی(علیہ السلام) اس سے کہیں گے جو چاہتے ہواٹھالو“۔(حوالہ جات: ابن حماد،۳۵۲حدیث ۲۹۹،البیان:۵۴۱باب۳۲، عقد الورد:۵۲۲ باب۸ الفصول المہمہ ۸۲۲،۲۲،فصل ۲۱،نور الابصار:۹۸۱باب ۲)
۲۔ ابو سعید الخدری سے ہے، رسول اللہ نے فرمایا: ”میری امت میں مہدی(علیہ السلام) ہوں گے، اگر تھوڑی مدت کے لئے تو سات سال ،وگرنہ نو، ان کے زمانہ میں میری امت اس قدر خوشحال اور آسودہ ہوگی کہ اس قسم کی خوشحالی اس سے پہلے نہ دیکھی ہوگی، زمین اپنی غذائیں اگل دے گی اور کچھ بھی ان سے روکے گی نہیں ، اس دور میں مال کے ڈھیر لگ جائیں گے پس ایک آدمی کھڑے ہو کر مہدی(علیہ السلام) سے مانگے گا، مہدی(علیہ السلام) اس سے کہیں گے جو چاہتے ہو لے لو‘ ‘
(حوالہ سنن ابن ماجہ ج۲ص۶۶۳۱،۱۶۳۱، حدیث نمبر۳۸۔۴، مستدرک الحاکم ج۴، برہان المتقی ۱۸،باب۱،ص۲۸ باب۱ حدیث ۶۲)
۳۔ ابو سعید الخدری نے رسول اللہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کہ” بتحقیق
میری امت میں مہدی(علیہ السلام) ہوں گے، وہ خروج کریں گے، وہ پانچ یاسات یانو سال زندگی کریں گے (بلاشک وتردید سالوں میں رواں کی طرف سے ہے) ابو سعید کہتا ہے ہم نے دریافت کیا، ان اعداد سے کیامرادہے ؟آپ نے فرمایا ”اس سے سال مراد ہیں، مہدی(علیہ السلام) کے پاس آدمی آئے گا اور وہ کہے گا اے مہدی(علیہ السلام) مجھے عطاءکرو، مجھے عطاءکر دو آپ نے فرمایا: اس شخص کے واسطے کپڑا بچھا دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گاجو چاہتے ہو تم لے لو“۔
(حوالہ جات :سنن الترمذی:۴/۹۳۴ باب ۳۵ حدیث ۲۳۲۲و البیان:۷۰۱ باب ۶ والعلل المتناہیة:۲/۸۵۸ حدیث ۰۴۴۱ ومشکاة المصابیح: ۳/۴۲فصل ۲حدیث ۵۵۴۵ ومقدمة ابن خلدون:۳۹۳فصل ۳۵ وعرف السیوط ¸، الحاو ¸:۲/۵۱۲ وصواعق ابن حجر:۴۶۱ باب۱۱ فصل۱وکنزالعمال:۴۱/۲۶۲حدیث ۴۵۶۸۳ ومرقاة المفاتیح: ۹/۲۵۳ومشارق الانوار:۴۱۱ فصل۲ وتحفة الاحوذ ¸:۶/۴۰۴حدیث ۳۳۳۲والتاج الجامع للاصول:۵/۲۴۳۳۴۳)
۴۔جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول اللہ سے حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا”آخری زمانہ میں خلیفہ ہوگا اس کے پاس ڈھیروں مال آئے گا کہ اسے شمار نہیں کیا جا سکے گا“۔
(حوالہ: مصابیح السنہ ج۳ص۸۸۴، حدیث ۹۹۱۴، مصنف عبدالرزاق ج۱۱ ص۱۷۲ حدیث ۰۷۷۰۲ باب المہدی علیہ السلام اسے الکافی کی ج۱ص۶۶۲سے لیاہے)
۵۔ مسلم نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ”آخری زمانہ میں خلیفہ ہوگا وہ مال کی تقسیم کرے گا اور مال کو شمار تک نہ کرے گا“
(صحیح مسلم بشرح النووی ج۸۱ص۹۳)

حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے معجزات اور کرامات
جب یہ طے ہے کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) آئمہ معصومین علیہ السلامسے ہی ایک جیسا کہ شیعہ بارہ امامی کاعقیدہ ہے، تو ضروری ہے کہ اس امام کےلئے بھی اللہ تعالیٰ کی خصوصی ،ہوںہرقسمی علم کے مالک ہو، معجزہ دکھانے پر قادر ہوں تاکہ ضرورت پڑنے پر اپنی خلافت اور امامت پردلیل پیش کر سکیں اور خودکو نمائندہ الٰہی ثابت کرنے میں صاحب معجزہ ہوں، جب کہ آپ کے آباءواجداد کے ہاتھوں بوقت ضرورت اسی قسم کے معجزات اور خارق عادت قانون عمومی واقعات ظاہر ہوئے تھے اس حقیقت کی طرف درج ذیل روایات راہنمائی کرتی ہیں ۔
۱۔حضرت علی علیہ السلامبن ابی طالبعلیہ السلام سے روایت ہے کہ آپنے فرمایا کہ ”حضرت امام مہدیعلیہ السلام پرندے کو اشارہ کریں گے وہ آپعلیہ السلام کے ہاتھ پر آجائے گا،آپعلیہ السلام زمین کے ٹکڑے پر ایک خشک ٹہنی لگائیں گے تو وہ فوراً سرسبز ہو جائے گی ، اس کے پتے نکل آئیں گے“۔ (برہان المتقی ج۶۷حدیث ۴۱)
۲۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام)سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ”تین پرچم باہمی اختلاف کریں گے“۔
۱۔مغرب میں ایک پرچم۔ ۲۔ایک پرچم جزیرة میں ۔۳۔ایک پرچم شام میں،
ایک سال تک ان کے درمیان جنگ و فتنہ رہے گا۔پھر آپ علیہ السلام نے سفیانی کا خروج اور اس کے مظالم کو بیان کیا، اسکے بعد آپعلیہ السلام نے حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے خروج رکن اور مقام کے درمیان لوگوں کا آپعلیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنا اور دیگر امور کو بیان کیا ہے، اس کے بعد آپعلیہ السلام نے فرمایا کہ ”لشکر لے کر نکلیں گے، وادی القریٰ سے امن و سکون اور آرام سے چلیں گے، اسی حال میں ان کے ابن عم بارہ ہزار کا لشکر لے کر فارس سے انکے ساتھ آ ملے گا (وہ حسنی ہوں گے) وہ آکر کہیں گے اے ابن عم میں زیادہ حق رکھتا ہوں، آپ اس لشکر کی کمان مجھے دے دیں، میں ابن الحسن ہوں، اور میں ہی مہدی ہوں حضرت مہدی ان کے جواب میں کہیں گے کہ نہیں!میں مہدی(علیہ السلام) ہوں، بس حسنی سید انکے جواب میں کہیں گے تو کیا آپکے پاس کوئی دلیل و نشانی اس دعویٰ پر ہے تاکہ میں آپ کی بیعت کرلوں پس مہدی(علیہ السلام) پرندے کی طرف اشارہ کردیں گے، وہ آپ علیہ السلام کے ہاتھ پر آجائے گا خشک ٹہنی زمین میں گاڑھیں گے وہ سرسبز درخت ہو جائے گی، یہ دیکھ کر حسنی کہے گا کہ یابن العم یہ امامت و خلافت آپ کے لئے ہے “۔ (البرھان المتقی ج۶۷ باب۱ حدیث ۵۱)

سابقہ بیانات کا خلاصہ اور نتیجہ
سابقہ ابحاث سے یہ نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔
۱۔ ایک عالمی مصلح کا خروج حتمی اور یقینی ہے اور یہ بات فقط آسمانی ادیان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ غیر دینی، فکری اور فلسفی مکاتب میں بھی یہ نظریہ موجود ہے۔
۲۔ یہودیوں اورمسیحی عہدوں کی کتب میں اس مصلح کی فقط بشارت ہی نہیں بلکہ بیان آیا ہے کہ وہ مصلح مہدی(علیہ السلام) ہوں گے اور اسکا تعلق آخری پیغمبر کی اولاد سے ہے اور وہ جناب فاطمہعلیہ السلام بنت رسول اللہ کی نسل سے ہوں گے۔
۳۔ اسلامی مذاہب کے علماءنے اپنے مسلکی اختلافات کے باوجود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی ولادت ہوچکی ہے اور وہ ۰۶۲ھ سے لے کر آج تک اس قسم کے اعتراضات کا سلسلہ جاری ہے۔
۴۔مسلمانوں کی بنیادی کتب میں حضرت امام مہدیعلیہ السلام کے بارے جو روایات موجود ہیں اس سب سے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ حضرت رسول اکرم سے تواتر کےساتھ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا نظریہ ثابت ہے، اس میں ذرا برابر شک کی گنجائش نہیں ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں اس بات کا تواتر اجمالی طور پر ثات ہے۔(حوالہ ابزاز الوھم المکنون ص۷۳۴)
اور کثیر تعداد میں محدثین نے اسے نقل کیا ہے۔
استاد محمد علی دخیل نے اپنی کتاب ”الامام المہدی (علیہ السلام)“کے ص۹۵۲، ۵۶۳ میں اہل سنت کی تیس کتابوں سے اس تواتر کو نقل کیا ہے ۔
۵۔ جن مشہور علماءاہل سنت نے حضرت امام مہدی(علیہ السلام)سے متعلق احادیث کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے ان میں سے چند مشاہدے درج ذیل ہیں ۔
خالترمذی، المتوفی ۷۹۲ھ: سنن الترمذی ج۴
خ حافظ ابوجعفر العقیلی، المتوفی ۲۲۳ھ: الضعفاءالکبیر ج۳
خ الحاکم نیشاپوری، المتوفی ۵۔۴: مستدرک الحاکم ج۴
خ الامام البیہقی، المتوفی ۸۵۴ھ: الاعتقاد والہدایة الی سبیل الرشاد ص۷۲۱
خ الامام البضوی، المتوفی ۰۱۵: مصابیح السنة ص۲۹۴،۳۹۴
خ ابن الاثیر، المتوفی ۶۰۶ھ : النہایة فی غریب الحدیث والاثر ج۵
خ القرطبی المالکی، المتوفی ۱۷۶ھ: التذکرة باب ماجاءفی المہدی
خ ابن تیمیہ، المتوفی ۸۲۷ھ: منہاج السنہ ج۴ص۱۱۲
خ الحافظ الذہبی، المتوفی ۸۴۷: تلخیص المستدرک ج۴
خ الکنجی الشافعی، المتوفی ۸۵۶ھ: البیان فی اخبار صاحب الزمان ص۰۵
خ الحافظ ابن القیم، المتوفی ۱۵۷ھ: المنار المنیف، متعدد صفحات پر
۶۔ علماءاہل سنت کی ایک بڑی جماعت نے حضرت امام مہدی علیہ السلامکے بارے واردہ احادیث کے متواتر ہونے کو بیان کیاہے، ان علماءمیں سے چند کے نام حسب ذیل ہیں ۔
خ البربہاری، المتوفی ۹۲۳ھ: الاحتجاج بالاثر علی من انکر المہدی علیہ السلام
خ محمد بن الحسن الابری الشافعی، المتوفی ۳۶۳ھ: اسے القرطبی مالکی نے نقل کیاہے:
التذکرة ج۱: المزنی فی تہذیب الکمال ج۵۲۔
خ الحافظ المتفق جمال الدین المزنی، المتوفی ۲۴۷ھ: المزنی فی تہذیت الکمال،
خ ابن القیم، المتوفی ۱۵۷ھ: التذکرہ ج۱
خ ابن الحجر العسقلانی، المتوفی ۲۵۷ھ: المنار اطنیف ۵۳۱
مزید برآں جو بات حضرت امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے احادیث کے تواتر کو تقویت دیتی ہے وہ احادیثیںجو آپ کے نسب کابیان، آپعلیہ السلام کانام، آپعلیہ السلام کے القاب، آپعلیہ السلام کے شمائل، آپعلیہ السلام کے اوصاف، آپعلیہ السلام کے ماں وباپ کا نام ہے۔
۷۔جو احادیث مطلق اور عام طور پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ذکر کرتی ہیں، انہیں دیگر احادیث کو سامنے رکھ کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بعینہ شخصیت کا تعارف آسانی سے ہوسکتا ہے جیسے
الف: مہدی(علیہ السلام) اولاد عبدالمطلب (علیہ السلام)سے
ب: مہدی(علیہ السلام) ابو طالب(علیہ السلام)بن عبدالمطلب(علیہ السلام)کی اولاد سے
ج: مہدی(علیہ السلام) اہل بیت(علیہم السلام) سے
د: مہدی (علیہ السلام) رسول اللہ کی اولاد سے
ھ: مہدی(علیہ السلام) فاطمة الزہرائ(سلام اللہ علیہا) بنت رسول اللہ کی اولاد سے
د: مہدی(علیہ السلام) حسین (علیہ السلام) بن فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی اولاد سے
ز: مہدی(علیہ السلام) امام جعفر صادقعلیہ السلام بن محمد بن علی بن الحسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے
ح: مہدی(علیہ السلام)امام علی رضعلیہ السلامبن موسیٰعلیہ السلام بن جعفرصادق(علیہ السلام) کی اولاد سے
۸۔یہ بات بھی ثابت ہے کہ مہدی(علیہ السلام)اللہ کے خلیفہ ہیں، خاتم الائمہ علیہ السلام ہیں، حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آپ علیہ السلام کے پیچھے نمازپڑھیں گے۔یہ سب احادیث امام مہدی(علیہ السلام) کو معین و مشخص کررہی ہیں،یہ مہدیعلیہ السلام موعود امام خلائق ہوں گے، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، رسول اللہ کے بارہویں جانشین ہوں گے، امام معصوم علیہ السلام ہوں گے اور محمد بن الحسن العسکریعلیہ السلام بن علی الہادیعلیہ السلام بن محمد النقی علیہ السلام بن علی الرضا علیہ السلام بن موسیٰ الکاظم علیہ السلامبن جعفر الصادقعلیہ السلام بن محمد الباقرعلیہ السلام بن علی زین العابدین علیہ السلامبن حسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام( بنت رسول اللہ بن عبداللہ علیہ السلام بن عبدالمطلب علیہ السلام، حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام بن عبدالمطلب علیہ السلام) ہیں۔
۹۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ امام مہدی(علیہ السلام) پندرہ شعبان ۵۵۲ھ ق سامرا میں پیدا ہوئے اور اسی میں زندہ ہیں، اسی زمین پر موجود ہیں، ان کی انتظار کی جاری ہے، ان کے ذریعہ اللہ اپنی زمین پر اپنے نظام کا مکمل نفاذ کرے گا۔
۰۱۔ احادیث میں حضرت امام مہدی(علیہ السلام)کی بدنی خصوصیات تک کو بیان کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی شخصی کسی پر مشتبہ نہ ہواور مفاد پرست ٹولہ اپنی شخصی اور ذاتی اغراض کے تحت اس عنوان سے غلط فائدہ نہ اٹھائیں۔