حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل سنت کی نظر میںحصہ اول
مہدویت نامہ | |||||
حضرت امام مہدی علیہ السلام اہل سنت کی نظر میںحصہ اول
اہل سنت کی کتابوں میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام)
کے متعلق روایات کا تذکرہ
تمہید:
ساری زمین امن کے قیام کے واسطے ایک عالمی مصلح کا ظہور حتمی ہے،اور ایک عادلانہ حکومت روئے زمین پرضرور قائم ہونی ہے اس عقیدہ کا تعلق فقط آسمانی ادیان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا میں جتنے فلسفی، اور اجتماعی مکاتب ہیں جو غیر دینی ہیں، وہ بھی اس بات کے قائل ہیں جیسے مادہ پرستوں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو لے لیں جو تاریخ کا تجزیہ و تحلیل تناضات اورتفادات کے ٹکراﺅ سے کرتے ہیں،وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک یوم موعود ہے جس میں ہر قسم کے تنافضات اورتضادات کا انسانی طبقات میں خاتمہ ہوجائے گا اور پوری انسانیت پر محبت، ہم آہنگی اور امن و سکون غالب آجائے گا۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں ....امام مہدی علیہ السلام شہید باقر الصدر)اسی طرح ہم بہت سارے علماءدین، مفکرین اور دانشوروں کے متعلق جانتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کو یقینی سمجھتے ہیں کہ اس زمین پر ایک دن عدالت کا نفاذ ہوگا، امن کا راج ہو گا، ظلم کا اختتام ہوگا، زمین پر خوشحالی کا دور ہو گا۔ مشہور برطانوی دانشور برٹرنڈ راسیل کا قول ہے کہ ”پورا عالم ایک ایسے اصلاح کنندہ کا منتظر ہے جو سب کو ایک پرچم تلے جمع کر دے اور سب پر ایک ہی آواز موثر ہو، اورسب کا نعرہ ایک ہو“۔ فزکس کے معروف ماہر البرٹ السٹائن کہتے ہیںکہ ” وہ دن جس میں پورے عالم پر امن اور سلامتی کا راج ہو، سب ایک دوسرے سے محبت کریں، آپس میں بھائی بھائی ہوں، تو ایسا ضرور ہوگا، اس میں کوئی عجب نہیں ہے“۔ (بحوالہ: المہدی الموعود و دفع الشبہات عنہ) آئر لینڈ کے مشہور دانشور برنارڈ شرا، ان دونوں بیانات سے زیادہ واضح انداز میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے اور زیادہ باریک بینی سے اس موضوع کو پیش کیا ہے، وہ عالم مصالح کے وجود اور اس کی طولانی عمر کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ ” بلا شک وہ مصلح ایک زندہ انسان، صحت مند جسمانی ہیکل رکھتا ہے اور حیرت انگیز ، غیر معمولی عقلی طاقت کامالک ہے، انتہائی بلند اور اعلیٰ صفات کا مالک انسان ہے، جس تک یہ عام اور معمولی صلاحیتوں والا انسان بڑی جدوجہد اور طویل تگ و دو کے بعد پہنچنے کے قابل ہو سکے، اور یہ کہ اس کی عمر طولانی ہو،تین سو سال سے بھی زائد ہو اور وہ اپنی اس طویل زندگی کے مختلف حالات کو یکجا کرکے ان صلاحیتوںسے استفادہ کر سکے“۔ غرض ان کے نزدیک مصلح انسان تمام انسانوں میں ہر حوالے سے ممتاز ہو اور اپنی طولانی عمر کی وجہ سے تمام انسانوں کی صلاحیتوں کا احاطہ رکھتا ہو“۔(برنارڈ شوے (عباس محمودالعقاد ص۴۲۱،۵۲۱)
آسمانی ادیان میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کا تذکرہ
البتہ آسمانی ادیان میں عالمی مصلح کے ظہور کو ایک حتمی اور یقینی امر قرار دیا گیا ہے اور آسمانی ادیان کی کتابوں میں جو بھی غوطہ ور ہوتا ہے اور ان میں مستقبل کے بارے درج شدہ بشارتوں کا پوری دقت کے ساتھ مطالعہ کرتا ہے تو اس کے واسطے اس نتیجہ تک پہنچنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے وجود مقدس کے اشارات ملتے ہیں اور یہ کہ وہ آخری انسان ہیں جس نے پورے عالم کو امن و سکون دینا ہے عدالت کا نفاذ کرنا ہے، ظلم ختم کرنا ہے، وہ ہی حضرت امام مہدی(علیہ السلام) ہیںاور ان کا اشارہ اسی مہدی(علیہ السلام)کی طرف ہے جس کا اظہار مذہب اہل البیت علیہ السلام میں موجود ہے۔آسمانی ادیان کی کتب میں موجود بشارتوں کے بارے تحقیق کرنے والے اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں۔ (ملاحظہ کریں بشارات عہدین للشیخ ڈاکٹر صادقی) الکتاب المقدس سے العہد القدیم سے متعلق شعیا کی کتاب میں جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں۔ قاضی الساباطی نے ان بشارتوں میں سے ایک بشارت کو لیا ہے اور اس کے بارے بیان کیا ہے کہ یہ بشارت حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے متعلق واضح اور روشن بیان ہے وہ کہتے ہیں ” امامیہ فرقہ والے کہتے ہیں ”بلکہ وہ (مہدی علیہ السلام)محمد بن الحسن علیہ السلام العسکری علیہ السلام ہیں جو ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے امام حسن(علیہ السلام) کے اس حرم سے جن کا نام ”نرجس (سلام اللہ علیہا)“تھا اور سرزمین سرمن رای (سامرہ) شہر میں آپ کی ولادت ہوئی، خلیفہ المعتمد العباسی کا زمانہ تھا، پھر وہ ایک سال (جوبات مکتب اہل البیت علیہ السلام سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپعلیہ السلام کی غیبت امام حسن عسکری (علیہ السلام)کی وفات کے بعدشروع ہوئی جو تقریباً ستر سال رہی یہ پہلی غیبت تھی جسے غیبت صغریٰ کہا جاتا ہے اس کے بعد دوسری غیبت شروع ہوگی جسے غیبت کبریٰ کہا جاتا ہے جو ابھی تک جاری ہے) پھر آپ ظاہر ہوئے، پھر غائب ہو گئے اور یہ ان کی غیبت کبریٰ ہے، اس غیبت سے وہ واپس نہیں آئے مگر یہ کہ جب اللہ چاہے گا تو وہ واپس آئیں گے“۔ ساباطی اس بیان کے بعد لکھتے ہیں: اس لحاظ سے کہ امامیہ فرقہ کا نظریہ کتاب مقدس میں درج شدہ بشارت کے زیادہ قریب تھا اور میرا ہدف اور امت محمدیہ کے نظریات کا دفاع ہے مذہبی تعصب سے جداتھا اس لئے میں نے اس بات کا ذکر کر دیا ہے جس کے امامیہ فرقہ والے قائل ہیں، جو کچھ وہ کہتے ہیں کتاب مقدس میں درج شدہ بعض اشارات اسی کے ساتھ ہم آہنگ ہےں اسی طرح جب ”فخر الاسلام جو کہ نصرانی تھا“علامہ محمد رضا المظفرؒ سے ملتے ہیں اور اسلام قبول کر لیتے ہیں، وہ مذہب اہل بیت علیہ السلام سے خود کو وابستہ کر لیتے ہیں وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے، جس پر علامہ ساباطی اہل سنت کے عالم پہنچے، تو انہوں نے اسلام لانے کے بعد ”انیس الاسلام“ کتاب لکھی، جس میں یہود و نصاریٰ کے نظریات کو رد کیا گیا ہے اس کتاب میں اس نے کتاب مقدس میں بیان شدہ بشارتوں کو بیان کیا اور اس نتیجہ کو لیا کہ یہ سب بشارتیں حضرت امام مہدی (علیہ السلام)بن الامام الحسن العسکری(علیہ السلام ) پر صادق آتی ہیں ۔ جوبات قابل غور ہے ان بشارتوں کے حوالے سے، وہ یہ کہ ان میں عالمی مصلح کے لئے جو اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ مہدی(علیہ السلام) کے علاوہ کسی اور شخصیت پر صادق نہیں آتے اور وہ بھی مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ پرکے علاوہ ان بشارتوں کو کسی بھی اور نظریہ و خیال پر لاگو نہیں کیا جا سکتا ۔
انجیل کے مفسرین کا بیان
انجیل کے مفسرین نے”سفرالرﺅیا“ کے فقرہ نمبر1تا17فصل نمبر12 (یو حنا لاہوتی کے مکاشقات) کی تفسیر میں بیان کیا ہے، وہ سب تصریح کرتے ہیں کہ جس شخص کے متعلق ان بشارات میں بیان ہوا ہے اور یہ فقرات جس شخصیت کا بتا رہی ہیں وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے اس لئے ان فقرات کی واضح اور روشن تفسیر،نامعلوم زمانہ کے سپرد ہے جس کا معنی اور مصداق اسی وقت ظاہر ہوگا۔ (بشارت عہدین ص۴۶۲)
علماءاہل سنت کا نظریہ
علماءاہل سنت کی ایک بہت بڑی تعداد نے بھی اپنی تحقیق ابحاث کے نتیجہ میں مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ کو اختیار کیا ہے ۔مشہور عالم دین پروفیسر سعید ایوب کا خیال ہے کہ کتاب مقدس کی ”سفر الرویا“ کے فقرات میں جس شخصیت کی طرف اشارہ ملتا ہے، وہ مذہب اہل البیت علیہ السلام کے نظریہ پر صادق آتا ہے۔ وہ اس بارے کہتے ہیں کہ ”انبیاءعلیہ السلام ماسلف کے اسفار میں جو کچھ درج ہے اس سے مراد مہدی (علیہ السلام) ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے“۔ اس تحریر پر انہوں نے اس طرح مزید تبصرہ کیا ہے ۔ ایک خاتون کا تذکرہ جس کی اولاد سے بارہ مرد ہوں گے ”میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں نے اہل کتاب کی (آسمانی) کتابوں میں اسی طرح سے موجود پایا ہے، اہل کتاب نے حضرت مہدی(علیہ السلام) سے متعلق خبروں کا بھی اسی طرح دقت سے جائزہ لیا ہے جس طرح انہوں نے آپ علیہ السلام کے جد امجد حضرت محمد مصطفی(صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اپنی کتابوں میں موجود خبروں کے بارے کیا تھا ان خبروں میں ایک باعظمت خاتون کا تذکرہ موجود ہے کہ جس کی اولاد سے بارہ مرد ہوں گے ،اس کے بعد ایک اور خاتون کا تذکرہ ہے جس سے آخری مرد کی ولادت ہوگی اور وہ آخری مرد پہلی باعظمت خاتون کی صلب سے ہوگا”السفر“ میں اس طرح ذکر ہوا ہے ”بتحقیق یہ خاتون جو انہیں ہر قسمی خطرات گھیر لیں گے، ان خطرات کی طرف فقط ”التنسین“ سے اشارہ کیا گیا ہے (اورالتنسین (خطرات)اس باعظمت خاتون کے سامنے آکھڑے ہوں گے، وہ اپنے بچے کی خیرچاہے گی یہاں تک کہ وہ اس بچے کو جنم دے دے گی) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حکمران اس پیدا ہونے والے بچے کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں گے، جس وقت اس خاتون پر ہر طرف سے خطرات آن پڑیں گے تو اللہ تعالیٰ اس کے بیٹے کو اٹھالے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا۔ بارکلے ”دواختطف اللہ ولدھا“ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”ان اللہ غیب ھذالطفل“ بتحقیق اللہ تعالیٰ نے اس بچے کو غائب کرلیا“۔ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی بارہ سو دو ماہ عمر کا تذکرہ ”السفر“ میں آیا ہے ”بتحقیق اس بچے کی غیبت ایک ہزاردوسو ساٹھ دن ہوگی“ عبرانی میں اس مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے” وہ عنقریب التنسین (خطرات) کی وجہ سے ایک زمانہ، دو زمانے اور آدھا زمانہ غائب ہوں گے۔ (تفصیل کے لئے دیکھیں بشارات العہدین ص۳۶۲) اس مدت کے بارے اہل کتاب کے اپنے رموز اور بشارات ہیں.... پہلی خاتون کی نسل بارے، بارکلے لکھتے ہیں ”بتحقیق انتہائی سخت اور جھگڑالو دشمن جنگ چھیڑے گاجیسا کہ ”سفر الرﺅیا“ 13/12میں ہے ”التنسین(خطرات) اس عورت پر غضبناک ہوں گے اور وہ خطرات سبب ہوں گے کہ اس خاتون کی باقی نسل کے ساتھ جنگ ہوگی جو اللہ کی وصیتوں (فرامین) کے محافظ ہوں گے“۔ استاد سعید ایوب نے گذشتہ ابحاث پر اس طرح تبصرہ کیا ہے ”یہ ہیں مہدی(علیہ السلام) کے اوصاف جن کا ذکر کتاب مقدس میں ملتا ہے یہ بالکل وہی اوصاف ہیں جنہیں شیعہ امامیہ اثناءعشریہ بیان کرتے ہیں “۔ (المسیح الدجال تالیف سعید ایوب ص۹۷۳،۰۸۳) استاد سعید ایوب نے اپنی بات کو مزیداس بیان سے مستحکم کیا ہے کہ ”کتاب مقدس میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ شیعہ امامیہ کے نظریہ کے مطابق ہے“۔ (بحوالہ اعلام الہدایة قسم الامام المہدی(علیہ السلام))
سابقہ انبیاءعلیہ السلام کی کتابوں سے نتیجہ
سابقہ انبیاءعلیہ السلام کی کتابوں میں بشارتیں جو بیان ہوئی ہیں یہ سب واضح اشارے اس نظریہ کی جانب ہیں کہ جو نظریہ مذہب اہل بیت علیہ السلام کا ہے ۔
علماءاہل سنت کی روایات
اسکے بعدہم ان روایات کی طرف پلٹتے ہیں جو علماءاہل سنت نے اس موعود شخصیت کی ہویت اور خصوصیات کے بارے بیان کی ہیں ہم اس بارے دیکھیں کہ ان روایات میں ایسی عظیم مصلح شخصیت کے ظہور کے حتمی اور یقینی امر ہونے کے بعد اس شخصیت کے متعلق وہ روایات کیا راہنمائی دیتی ہیں، کیا فقط مہدیعلیہ السلام کے عنوان پر اکتفاءکیا گیا ہے یا بعینہ اس شخصیت کے بارے بھی بیان کیا گیا جس نے آکر پورے عالم میں عادلانہ حکومت قائم کرنی ہے۔جواب : یہ بات واضح ہے کہ جو شخص بھی ایک مصلح کے ظہور کا عقیدہ رکھتاہے اور اس کو اس پر یقین کامل ہے لیکن اس کے واسطے یہ بات واضح اور متعین نہیں ہو سکتی کہ وہ مہدی (علیہ السلام) کون ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے اور ایک خارجی اور حقیقی شخصیت کا روپ دھاریں گے ،تو حقیقت میں ایسا خیال اس مہدی (علیہ السلام)کے بارے عقیدہ نہیں کہلاتا جس کے بارے اسلام کہتا ہے کیونکہ وہ مہدی (علیہ السلام) کے عنوان پر ایمان لایا ہے اس کے مضمون اور اس کی خارجی اور حقیقی شخصیت پرایمان نہیں لایایہ بات اسی طرح ہے کہ کوئی شخص نماز کے وجود کا معتقد ہو لیکن اس کے ارکان سے واقف نہ ہو۔ہم یہ جاننے کےلئے کہ امام مہدیعلیہ السلام ایک عنوان نہیں بلکہ ایک حقیقی اور حقوقی شخصیت بھی ہیں اور اس بارے اہل سنت کی روایات کیا کہتی ہیں اور انکے بیانات سے کیا مطلب نکلتا ہے تو ہم ان روایات کوآنے والے صفحات میں چند عناوین کے تحت بیان کریں گے ۔
حضرت امام مہدی (علیہ السلام)کی ولادت بارے
اس بارے کثیر تعداد میں اعتراضات موجود ہیں جنہیں علماءاہل سنت نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے اور بعض محققین نے ان اعتراضات کو یکجا اکٹھا کیا ہے ترتیب وار زمانی مراحل کو اس سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے غیبت صغریٰ ۰۶۲ھ سے غیبت کبریٰ ۹۲۳ھ کے آغاز تک کے زمانہ اور پھر آج تک اس بارے جو اعتراضات کیے گئے ہیں انہیں زمانی ترتیب کے ساتھ درج کیا گیا ہے، ہم اس جگہ نمونہ کے چند حوالے دیتے ہیں، تفصیل کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی تحقیقی اور تفصیلی کتابوں میں رجوع کیا جائے ۔(حوالہ کے لئے دیکھیں کتاب الایما الصیحح، تالیف سید قزوینی۲۔ کتاب الامام المہدی علیہ السلام فی نہج البلاغہ تالیف شیخ مہدی فقیہ ایمانی ۳۔الزام الناصب تالیف شیخ علی حائری ۴۔ کتاب الامام المہدی علیہ السلام تالیف الاستاد علی محمد دخیل ۵۔کتاب دفاع عن الکافی تالیف الثامرالعبیدی اس آخری کتاب میں اہل سنت کی ۸۲۱ شخصیات کا ذکر کیا گیا جنہوں نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، ان شخصیات کے ناموں کوسالوں کی ترتیب سے لکھا گیا ہے۔ پہلی شخصیت جناب ابوبکربن ہارون الرویانی تاریخ وفات۷۰۳ھ ہیں جنہوں نے اپنی مخطوطہ”المسند “ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ آخری شخصیت معاصر (ہم عصر) محقق یونس احمد سامرائی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب سامراءفی ادب القرن الثالث الہجری“ میں اس بات کو بیان کیا ہے اور یہ کتاب ۸۶۹۱ میں بغداد یونیورسٹی کی مدد سے شائع ہوئی ہے ۔ (ملاحظہ کریں دفاع عن الکافی ج۱ ص۸۶۵، ۲۹۵ چھٹی دلیل علماءاہل سنت کے اعتراضات)
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی ولادت بارے
حوالہ نمبر۱:اہل سنت کی کتابوں سے حوالہ جات علامہ ابن الاثیر الجزری عزالدین (تاریخ وفات ۰۳۶) انہوں نے اپنی کتاب الکامل فی التاریح ص۴۷۲،ج۷ پر، ۰۶۲ھ ق کے واقعات میں لکھا ہے، اس سال میں ابو محمد العلوی العسکری کی وفات ہوئی، مذہب امامیہ کے تحت وہ گیارہویں امام ہیں اور وہ ہی محمد کے والد ہیں جن کے بارے مذہب امامیہ والوں کا عقیدہ ہے کہ وہ منتظرہیں۔ حوالہ نمبر ۲: ابن خلکان (تاریخ وفات ۱۸۶) نے اپنی کتاب وفیات الاعیان ج۴ ص۶۷۱، ۲۶۵،ج۴ میں تحریر کیا ہے، ابو القاسم محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام بن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجوادعلیہ السلام (جن کاذکر پہلے ہو چکا) بارہویں امام علیہ السلام ہیں، امامیہ عقیدہ کے مطابق.... جو بارہ آئمہ علیہ السلام کے قائل ہیں۔” الحجة“ کے نام سے مشہور ہیں، ان کی ولادت جمعہ کے دن ۵۱ شعبان ۰۵۵۲ھ میں ہوئی اسکے بعد انہوں نے مشہور مورخ سیاح ابن الازرق الفارقی (تاریخ وفات ۷۷۵ھ ق) کا حوالہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ ”میا فارقین“ میں لکھا ہے کہ مذکورہ” حجت “ 9ربیع الاول ۸۵۲ھ کو پیداہوئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت ۸ شعبان ۶۵۲ھ کو ہوئی ہے اور یہ دوسری روایت زیادہ صحیح ہے ۔ ابن الازرق کے قول پر تبصرہ آپ کی ولادت کے بارے صحیح قول وہی ہے جسے ابن خلکان نے بیان کیا ہے (۵۱ شعبان بروز جمعہ ۵۵۲)اسی تاریخ پر شیعوں کا اتفاق ہے اس بارے انہوں نے صحیح روایات کو بنیاد بنایا ہے اور اس کے ساتھ قدیم علماءکے بیانات کو بطور سند بھی پیش کیا ہے الشیخ الکلینیؒ جو غیبت صغریٰ کے زمانہ میں موجود تھے انہوں نے بغیر کسی اختلافی حوالے کے اسی تاریخ کو بیان کیا ہے، اس تاریخ کے مخالف جو روایات ہیں ان سب پر اس تاریخ کو مقدم کیا ہے آپ نے تحریر کیا ہے آپ علیہ السلام ۵۱شعبان ۵۵۲ھ کو پیدا ہوئے (اصول الکافی ج۱ ص۴۱۵ باب ۵۲۱) شیخ صدوق ؒ (تاریخ وفات ۱۸۳ھ) نے اپنے استاد محمد بن محمد بن عصام الکلینی سے اور انہوں نے محمد بن یعقوب الکلینی سے، انہوں نے علی بن محمد بن بندارسے نقل کیا ہے کہ الصاحب علیہ السلام ۵۱ شعبان ۵۵۲ھ کو پیدا ہوئے ۔ شیخ الکلینی نے اپنے قول کی نسبت علی بن محمد بن بندار سے نہیں دی، اسکی وجہ اس بارے شہرت تھی اور یہ کہ اس تاریخ پرسب کا اتفاق تھا (بہرحال شیعہ امامیہ اثناءعشریہ کے ہاں ۵۱ شعبان ۵۵۲ھ میں آپعلیہ السلام کی ولادت باسعادت کا ہونا حتمی اور یقینی امر ہے اس پر سب کا اتفاق ہے) حوالہ نمبر ۳: الذہبی (تاریخ وفات ۸۴۷ھ ق)نے اپنی تین کتابوں میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کا اعتراف کیا ہے، انہوں نے اپنی کتاب”العبر فی خبر من غیر ج۳ص۱۳“ میں لکھا ہے ۶۵۲ھ محمد بن الحسن بن علی الہادی بن محمد الجواد بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق العلوی الحسینی پیدا ہوئے وہ ہی ابوالقاسم ہیں، رافضہ انہیں الخلف، الحجة، المہدی، المنتظر، صاحب الزمان کا لقب دیتے ہیں اور وہ ہی بارہ اماموں سے آخری ہیں، اس سال میں ان کی ولادت ہوئی ۔ الذہبی نے تاریخ دول الاسلام میں امام حسن العسکری علیہ السلام کے حالات میں تحریر کیا ہے، وہ الحسن بن علی بن محمد بن علی الرضا بن موسیٰ بن جعفر الصادق ہیں، وہ ابو محمد الہاشمی الحسینی ہیں، شیعوں کے آئمہ سے ایک ہیں، شیعہ ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں الحسن العسکری علیہ السلام کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے سامرہ میں زندگی گذاری اور سامرہ کو”عسکر“ کہا جاتاتھا، وہ رافضیوں کے منتظر کے والد ہیں، وہ اللہ کے رضوان میں چلے گئے، ان کی وفات ۸ ربیع الاول ۰۶۲ھ کو ہوئی، اس وقت ان کی عمر ۹۲سال تھی، آپعلیہ السلام اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے ۔ بہر حال آپ کے بیٹے محمد بن الحسن جنہیں رافضی القائم ، الخلف سے پکارتے ہیں تو وہ ۸۵۲ھ میں پیدا ہوئے اور بعض نے کہا ہے ۶۵۲ھ میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے اپنی کتاب سیراعلام النبلاءمیں لکھا ہے۔ المنتظر، الشریف، ابوالقاسمعلیہ السلام محمد بن الحسن العسکریعلیہ السلام بن علی الہادیعلیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام بن علی الرضعلیہ السلام بن موسیٰ الکاظمعلیہ السلام بن جعفر الصادق علیہ السلام بن محمد الباقر علیہ السلامبن زین العابدین علی علیہ السلام بن الحسین علیہ السلامالشہید بن الامام علی علیہ السلام بن ابیطالب علیہ السلام، الحسینی ،ہیں بارہ سرداروں کے خاتم ہیں ۔ ذہبی کی بات پر تبصرہ الذہبی کی رائے حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی ولادت کے متعلق جو تھی اسے ہم نے ان کی کتابوں کے حوالہ سے بیان کر دیا، البتہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے متعلق اس کا عقیدہ اس کے باقی نظریات کی طرح سراب مانند ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ وہ بھی دوسرے افراد کی طرح مہدی (علیہ السلام)کے بارے قائل ہے کہ وہ محمد بن عبد اللہ ہوں گے وہ اپنے اس نظریہ پر اشتباہ اور غلطی پر ہیں کہ مہدی محمد بن عبداللہ ہوں گے لیکن یہ بات ثابت ہوگئی ان کے بیانات سے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلامکے فرزند محمد تھے جیسے شیعہ بارہواں مانتے ہیں۔ حوالہ نمبر ۴: ابن الوردی (تاریخ وفات ۹۴۷ھ) نے المختصر المشہور تاریخ ابن الوردی میں لکھا ہے۔ محمد بن الحسن الخالص ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے۔ (نور الابصار ص۶۸۱) حوالہ نمبر۵: احمد بن حجرالحیثمی الشافعی (تاریخ وفات۴۷۹ھ) نے اپنی کتاب” الصواعق المحرقہ“ کی آخری فصل کے باب ۱۱ میں اس طرح تحریر کیا ہے ”ابو محمد الحسن الخالص،کو ابن خلکان نے عسکری ہی قرار دیا ہے وہ ۲۳۲ھ میں پیدا ہوئے.... اور سامراءمیں وفات پائی، وہ اپنے بابا اور چچا کے پہلو میں دفن ہوئے ،ان کی عمربوقت وفات۸۲ سال تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا، وہ اپنے پیچھے سوائے ابوالقاسم محمد الحجة کے سوا کسی کو نہیں چھوڑ گئے، والد کی وفات کے وقت ان کی عمر پانچ سال تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان میں حکمت و دانائی کو رکھ دیا آپ علیہ السلام کو القائمعلیہ السلام المنتظرکہا جاتا ہے.... کہا جاتا ہے وہ مدینہ میں مستور اورپوشیدہ اور غائب ہوگئے اور کسی کو معلوم نہیں ہو سکا کہ کہاں چلے گئے حوالہ نمبر۶: الشبراوی الشافعی ( تاریخ وفات۱۷۱۱ھ) نے اپنی کتاب ”الاتحاف“ میں حضرت امام مہدی (علیہ السلام) محمد بن الحسن العسکری (علیہ السلام)کی ولادت ،شب ۵۱ شعبان ۵۵۲ھ لکھا ہے (الاتحاف بحب الاشراف ص۸۶) حوالہ نمبر ۷: مومن بن حسن الشبلنجی (تاریخ وفات ۸۰۳۱ھ) نے اپنی کتاب نورالابصار میں حضرت امام المہدی (علیہ السلام)کے نام کا اعتراف کیا ہے اور آپ کے شریف و طاہر نسب کو بیان کیا ہے، آپ کی کنیت اور آپ کے القاب بھی لکھے ہیں، ایک طویل گفتگو کے بعد لکھتے ہیں، امامیہ کے مذہب میں وہی بارہویں امام ہیں اور آخری امام ہیں ۔ حوالہ نمبر۸: خیر الدین الزرکلی (تاریخ وفات ۶۹۳۱ھ) نے اپنی کتاب” الاعلام“ میں امام المہدی المنتظر (علیہ السلام) کے حالات میں لکھا ہے وہ ”محمد بن الحسن العسکری علیہ السلام الخالص بن علی الہادی، ابو القاسم علیہ السلام ہیں، بارہ آئمہ میں آخری ہیں، یہ امامیہ کا مذہب ہے، وہ سامراءمیں پیدا ہوئے جس وقت ان کے والد کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر پانچ سال تھی، ان کی ولادت کی تاریخ بارے کہا گیا ہے کہ وہ ۵۱شعبان کی رات ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے اور آپ کی غیبت ۵۶۲ھ میں ہوئی۔ خیر الدین کے بیان پر تبصرہ غیبت صغریٰ کی ابتداء۰۶۲ھ سے ہے، اس پر تمام شیعہ امامیہ کا اتفاق ہے اور جس کسی نے غیبت کی تاریخ لکھی ہے جہاں تک ہماری معلومات ہیں، سب نے اسی تاریخ کا بتایا ہے شاید جو کچھ” الاعلام“ میں غیبت کے شروع ہونے بارے بیان کیا گیا ہے یہ چھاپنے یا کتابت میں غلطی ہوگئی کیونکہ الزرکلی نے غیبت کی تاریخ درج نہیں کی، عدد کے غلط لکھے جانے کا امکان موجود ہے ۰۶۲ کو ۵۶۲ لکھ دیا ہو۔ ہم نے یہ علماءاہل سنت کے اعترافات سے نمونہ کے چند اقوال اس جگہ بیان کئے ہیں ، ان کے سب اقوال کو اس مختصر کتابچہ میں بیان کرنے کی گنجائش نہ ہے، تفصیلات کےلئے دیکھیں ”المہدی المنتظر فی الفکر الاسلامی“۔
۲۔ بارہویں امام(علیہ السلام) کے نسب اور آپ(علیہ السلام) کے
جو بھی اہل سنت کی کتابوں میں موجود احادیث کا غور سے جائزہ لے گا وہ اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے نسب اور نام بارے سب کا اتفاق ہے ایسی احادیث کثرت کے ساتھ ساتھ جس حقیقت کو تاکید کے ساتھ بیان کر رہی ہیں یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کا نسب رسول اللہ سے جا ملتا ہے اور یہ کہ آپ اہل البیت علیہ السلام سے ہیں، بارہ اماموں سے ہیں، بارہ معصوم آئمہ علیہ السلام کے آخری ہیں اور وہ حضرت محمد بن الحسن العسکری علیہ السلامبن علی الہادی علیہ السلام بن محمد الجواد علیہ السلام بن علی الرضعلیہ السلام، بن موسیٰ الکاظم علیہ السلام بن جعفر الصادق علیہ السلامبن محمد الباقرعلیہ السلام بن علی زین العابدین علیہ السلام بن الحسین علیہ السلام بن فاطمہ علیہ السلام بنت رسول اللہ و بن علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔اور ان کا لقب المہدی علیہ السلام ، المنتظر ہے اور یہ بات اس عقیدہ سے ملتی ہے جو شیعہ امامیہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے بارے لکھتے ہیں، اس بارے نمونہ کے طورپر چند روایات ملاحظہ ہوں۔نام بارے المہدی (علیہ السلام) کنانی ہیں ،ہاشمی ہیں جناب قتادہ سے روایت ہے، وہ کہتاہے میں نے سعید بن المسےب سے سوال کیا کیا المہدی (علیہ السلام) برحق ہیں ؟۔ سعید: جی ہاں!برحق ہیں۔ قنادہ: وہ کن کی نسل سے ہیں؟۔ سعید: کنانہ قبیلہ سے ہیں۔ قنادہ: کنانہ قبیلہ کی کون سی شاخ سے ان کا تعلق ہے؟ سعید: قریش سے۔ قنادہ: قریش کی کون سی شاخ سے ہیں؟ سعید: بنی ہاشم سے ہیں (بحوالہ عقد الداردالباب الاول ص۲۴،۴۴، مستدرک الحاکم ج۴ص۳۵۵، مجمع الزوائد ج۷ص۵۱۱) اس روایت کے مطابق المہدی، کنانی، قرشی، ہاشمی ہیں اور ان کے القاب میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ہر ہاشمی قرشی ہوتا ہے اور ہر قرشی کنانہ سے ہے،کیونکہ قریش سے مراد النضر بن کنانہ ہیں، اس پر تمام علماءانساب کا اتفاق ہے۔
المہدی (علیہ السلام) عبدالمطلب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں
ابن ماجہ نے انس بن مالک سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ”ہم عبدالمطلب علیہ السلام کی اولاد جنتیوں کے سردار ہیں، میں، حمزہعلیہ السلام، علی علیہ السلام، جعفر علیہ السلام ، حسن علیہ السلام ، حسین علیہ السلام اور مہدی علیہ السلام“۔(بحوالہ السنن ابن ماجہ ج۲ص۸۶۳۱،حدیث نمبر۷۸۰۴، باب خروج المہدی علیہ السلام ، مستدرک الحاکم ج۳ص۱۱۲، جمع الجوامع للسیوطی ج۱ ص۱۵۸) اس روایت کے مطابق حضرت امام مہدی (علیہ السلام) ، حضرت عبدالمطلب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ۔
المہدی (علیہ السلام) ابوطالب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں
سیف بن عمیر سے روایت ہے وہ کہتا ہے، میں، ابو جعفر المنصور کے پاس تھا اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے مجھ سے کہا اے سیف بن عمیرہ ”یہ بات حتمی ہے کہ آسمان سے ابو طالب علیہ السلام کی اولاد سے ایک مرد کے نام کی نداءآئے گی۔سیف: میں آپ پر قربان جاﺅں اے امیرالمومنین !کیا آپ اس بات کی روایت کرتے ہیں؟ ابو جعفر منصور:جی ہاں! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، کیونکہ میرے ان کانوں نے یہ خبر سنی ہے۔ سیف: اے امیرالمومنین !میں نے تو اس سے پہلے اس قسم کی حدیث کہیں نہیں سنی ۔ ابو جعفر منصور: اے سیف! یہ بات برحق ہے اور سچ ہے اور جب یہ نداءآئے گی تو ہم سب سے پہلے ہوں گے جو اس پر لبیک کہیں گے، بہر حال یہ نداءہمارے چچا کی اولاد سے ایک مرد کے نام کی ہوگی۔ سیف: وہ مرد، اولاد فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے ہوگا؟ منصور: جی ہاں!اے سیف، اگر میں نے یہ بات ابوجعفر محمد بن علی علیہ السلام سے نہ سنی ہوتی اور انہوں نے میرے لئے یہ بیان نہ کیا ہوتا، تو ان کے علاوہ اگر روئے زمین کے سارے لوگ مل کربھی اس حدیث کی روایت کرتے تو میں اسے قبول نہ کرتا لیکن اس حدیث کو بیان کرنے والے محمد بن علی علیہ السلام ہیں (اسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے) (بحوالہ عقد الدررللمقدسی الشافعی الباب نمبر۴ ص۹۴۱، ۰۵۱) یہ روایت تاکید کررہی ہے کہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں ۔ حضرت مہدی (علیہ السلام) اہل البیتعلیہ السلام سے ہیں ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ”قیامت بپا نہیں ہوگی مگر یہ کہ زمین ظلم و جور سے بھر جائے “ اس کے بعد آپ نے فرمایا ”اس حال میں میری عترت اور میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد خروج کرے گا وہ زمین کو عدالت اور انصاف سے بھر دے گا جس طرح زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی “۔ (بحوالہ مسند احمد: ج۳ص۴۲۴ حدیث ۰۲۹۰۱، مسند ابی یعلی ج۲ص۴۷۲حدیث نمبر ۷۸۹، المستدرک ج۴ص۷۷۵، عقد الدرر باب ۱ موارد الظمان ۴۶۴ حدیث نمبر۹۷۸۱، ۰۸۸۱، مقدمہ ابن خلدون ص۰۵۲فصل ۳۵، جمع الجوامع ج۱ص۲۰۹، کنزالعمال ج۴۱ ص۱۷۲ حدیث ۱۹۶۸۳، ینابیع المودة ۳۳۴باب۳۷) اسی طرح کی روایت عبداللہ ابن عباس نے حضرت نبی اکرم سے نقل کی ہے ، ”قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میرے اہل بیت علیہ السلام سے ایک مرد حکومت کرے گا اس کا نام میرے نام جیسا ہوگا“۔ (حوالہ جات: مسند البزاز ج۱ص۱۸۲، مسند احمد: ۱۶۷۳، سنن الترمذی ج۴ص۵۰۵ باب نمبر۲۵، حدیث نمبر۰۳۲۲، المعجم الکبیر ج۰۱ ص۵۳۱ حدیث ۱۲۲۰۱، تاریخ بغداد ج۴ ص۸۸۳، عقد الدرر: ۹۳باب۳، مطالب السﺅول :ج۲ص۱۸، السیان فی اخبار صاحب الزمان ص۱۹ تالیف محمد النوفلی القرشی الکنجی الشافعی، فرائد السمطین ج۲ص۷۲۳ حدیث نمبر۶۷۵ الدرالمنشور ج۶ص۸۵، جمع الجوامع ج۱ص۳۰۹، کنزالعمال ج۴۱ص۱۷۴، حدیث نمبر ۲۹۶۸۳، برہان المتقی ج۰۹ باب نمبر۲ حدیث ۴) حضرت علی (علیہ السلام) نے نبی اکرم سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ”مہدی (علیہ السلام) ہم اہل البیت علیہ السلام سے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے واسطے تمام معاملات کو ایک رات میںدرست کر دے گا“۔ (حوالہ جات کے لئے دیکھیں ابن ابی شیبہ ج۸ص۸۷۶ حدیث نمبر۰۹۱ وفتن ابن حماد: ومسند احمد:ج۱ص۴۸ وتاریخ البخاری ج۱ص۱۷۳، حدیث ۴۹۹، وسنن ابن ماجة:ج۲ ص۷۶۳۱، باب ۴۳حدیث ۵۸۰۴، و مسند ابو یعلی: ج۱ ص۹۵۳حدیث ۵۶۴ وحلیة الاولیائ: ج۳ ص۷۷۱ والکامل لابن عدی:ج۷ ص۳۴۶۲، والفردوس: ج۴ ص۲۲۲ حدیث نمبر۹۱۶۶ والبیان فی اخبار صاحب الزمان ۰۱۱ للکنجی الشافعی وعقد الدرر: ۳۸۱باب ۶ والعلل المتناہیة ج۲ ص۶۵۸۲ حدیث ۲۳۴۱ وفرائد السمطین: ج۲ ص۱۳۳ حدیث ۳۸۵، ومیزان الاعتدال ج۴ ص۹۵۳ حدیث ۴۴۴۹، ومقدمة ابن خلدون ج۱ ص۶۹۳باب ۳۵ وتہذیب التہذیب ج۱۱ ص۲۵۱حدیث ۴۹۲، وعرف السیوطی الحاوی: ج۲ ص۳۱۲ والدر المنثورج۶ ص۸۵ وجمع الجوامع ج۱ ص۹۴۴ والجامع الصغیر ج۲ص۲۷۶، حدیث نمبر ۳۴۲۹ وصواعق ابن حجر ص۳۶۱ باب ۱۱۵ فصل ۱ وکنزالعمال ج۴۱ ص۴۶۲، حدیث ۴۶۶۸۳، وبرہان المتقی ج۷۸ باب ۱ حدیث ۳۴ ومن ص۹۸، باب ۲، حدیث ۱، ومرقاة المفاتیح ج۹ ص۹۴۳، مع اختلاف یسیر وفیض القدیر ج۶ ص۸۷۲، حدیث ۳۴۲۹)
مہدی (علیہ السلام) رسول اللہ کی اولاد سے
عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” زمانہ کے آخر میں میری اولادسے ایک مرد خروج کرے گا اس کا نام میرے نام جیسا ہو گا اور اس کی کنیت میری کنیت جیسی ہو گی، وہ زمین کو عدالت سے بھر دے گا(آباد کر دے گا) جس طرح زمین ظلم سے بھر چکی ہوگی (ویران ہو چکی ہوگی) بس وہی شخص ہی مہدی (علیہ السلام)ہیں“۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں تذکرة الخواص ،ص۳۶۳،عقدالدرر ۳۴باب امنہاج السنہ: ابن تیمیہ ج۴ ص۶۸،۷۸)
مہدی (علیہ السلام) فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی اولاد سے
نبی اکرم کی زوجہ جناب ام سلمہعلیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ!”مہدی (علیہ السلام) کا وجود برحق ہے اور وہ فاطمہ علیہ السلام کی اولاد سے ہو گا“۔ (حوالہ: تاریخ البخاری ج۳ص۴۶۳، المعجم الکبیر ج۳۲ص۷۶۲، حدیث۶۶۵، مستدرک الحاکم ج۴ص۷۷۵) ۲۔جناب ام سلمہ علیہ السلام نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایاکہ ”مہدی علیہ السلام میری عترت سے ہوگا اور وہ فاطمہ علیہ السلامکی اولاد سے ہی ہوگا“۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں: سنن ابی داﺅد ۴/۴۰۱،ح ۴۸۲۴ وسنن ابن ماجة:۲/۸۶۳۱، باب۴۳ح۶۸۰۴،والفردوس: ۴/۷۹۴حدیث نمبر۳۴۹۶ومصابیح البغوی:۳/۲۹۴ باب۳حدیث نمبر۱۱۲۴وجامع الاصول:۵/۳۴۳،ومطالب السﺅل: ۸وعقد الدرر: ۶۳ باب۱ ومیزان الاعتدال: ۲/۷۸ومشکاة المصابیح:۳/۴۲فصل ۲حدیث ۳۵۴۵، وتحفة الاشراف: ۳۱/۸حدیث ۳۵۱۸۱ والجامع الصغیر:۲/۲۸۶حدیث ۱۴۲۹والدر المنشور:۶/۸۵ وجمع الجوامع: ۱/۹۴۴وصواعق ابن حجر:۱۴۱باب۱۱،فصل ۱و،کنزالعمال:۴۱/۳۶۲ حدیث ۲۶۶۸۳ ومرقاة المفاتیح:۹/۰۵۳ واسعاف الراغبین:۵۴۱وفیض القدیر:۶/۷۷۲حدیث ۱۴۲۹، والتاج الجامع للاصول: ۵/۳۴۳)
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حضرت حسین (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں
جناب حذیفہ بن الیمانی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ نے ہم سے خطاب فرمایا اور رسول اللہ نے ہمارے لئے ان حالات کو بیان کیا جو مستقبل میں ہونے والے تھے پھر آپ نے فرمایا ”اگر دنیا کے خاتمہ سے فقط ایک دن باقی رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو طولانی کر دے گا یہاں تک کہ اس دن میں میری اولاد سے ایک مردکو مبعوث کرے گا جس کا نام میرانام ہوگا“ بس سلمان الفارسی نے عرض کیا: یارسول اللہ !آپ کی کونسی اولاد سے ہوگا ؟۔رسول اللہ: میرے اس فرزند سے ہوگا،اور آپ نے قریب بیٹھے اپنے بیٹے حسین علیہ السلام پر ہاتھ مار کر فرمایا: کہ میرے اس بیٹے سے ہوگا ۔ حوالہ:المنار المنیف لابن القیم :۸۴۱،۹۲۳ فصل۰۵، عن الطبرانی فی الاوسط، عقد الدرر:۵۴ من الباب الاول وفیہ: اخرجہ الحافظ ابونعیم فی صفة المہدی ،ذخائر العقبیٰ، المحب الطبری: ۶۳۱ وفیہ :فیحمل ماورد مطلقاً فیما تقدم علی ہذاالمقید، فرائد السمطین ۲/۵۲۳،۵۷۵ باب ۱۶، القول المختصر لاابن حجر۷/۷۳باب ۱،فرائد فوائد الفکر:۲باب۱، السیرة الحلیبة: ۱/۳۹۱، ینابیع المودة: ۳/۳۶باب ۴۹، وہناک احادیث اخری بہذا الخصوص فی مقتل الامام الحسین علیہ السلام للخوارزمی الحنفی: ۱/۶۹۱،وفرائدالسمطین :۲/۰۱۳-۵۱۳الاحادیث ۱۶۵،۹۶۵، وینابیع المودة: ۳/۰۷۱/۲۱۲باب ۳۹وباب ۴۹)
اللہ کا انتخاب
ابی سعید الخدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ مریض ہو گئے اور اس بیماری میں آپ پر نقاہت طاری ہوگئی آپ کے پاس جناب فاطمہ(سلام اللہ علیہا) عیادت کے لئے تشریف لے آئیں، تو اس وقت میں رسول اللہکی دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا پس جب جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا)نے رسول اللہ کی حالت دیکھی اور آپ کی کمزوری کا آپ کو احساس ہوا ،تو جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) بے اختیار رو دیں اور آپعلیہ السلام کے آنسو جاری ہو گئے، تو اس وقت رسول اللہ نے فرمایا” اے فاطمہ علیہ السلام ! آپعلیہ السلام کو کون سی بات رلا رہی ہے؟ کیا آپعلیہ السلام کو معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے زمین پر آگہی کے لئے نظر ڈالی اور اس پوری زمین سے آپ کے بابا کو چن لیا اور انہیں نبی مبعوث کیا، پھر زمین پر نظر ڈالی اور اس سے تیرے شوہر کا انتخاب کرلیا، پھر مجھے وحی کردی اور میں نے تیرا نکاح ان سے کردیا اور انہیں میںنے اپنا وصی بنا دیا،کیا آپ علیہ السلام اس بات سے باخبر نہیں کہ اللہ کی کرامت آپ علیہ السلام پر ہے، یہ کہ تیرے بابا نے ایسے شخص سے تیرا رشتہ جوڑدیا جو ان سب میں علم کے لحاظ سے زیادہ ہیں، حلم و حوصلہ مندی میں سب سے زیادہ ہیں اور صلح و سلامتی قائم کرنے میں سب سے آگے، ہیں فاطمہ(سلام اللہ علیہا)یہ بات سن کر مسکرائیں اور خوش ہو گئیں۔رسول اللہ نے آپ کو مزید خیر اور فضیلت کی خبردی، تمام وہ فضیلتیں جو اللہ تعالیٰ نے محمدوآل محمد کو عطا فرمائیںہیں۔رسول اللہ :اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا)! علی(علیہ السلام) کے لئے آٹھ منقبتیں ہیں، اللہ پر ایمان، اللہ کے رسولوں پر ایمان، حکمت و دانائی، تیری جیسی زوجہ ان کے واسطے، دو سبطین حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام ان کے واسطے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ان کی خاصیت۔ اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا) : ہم اہل بیت علیہ السلام جو ہیں ہمیں چھ فضیلتیں عطاءہوئی ہیں اولین اور آخرین میں یہ فضیلتیں اور خوبیاں کسی کو نصیب نہ ہوئیں۔ نہ پہلے والوں نے ان کو پایا نہ بعد میں کوئی ایک بھی فضیلت ان میں سے پائے گا ہمارا نبی خیر الانبیاءاور وہ آپ علیہ السلام کے باپ ہیں ، ہمارا وصی خیر الاوصیاءعلیہ السلام اور وہ آپ علیہ السلام کے شوہر ہیں، ہمارا شہید خیر الشہداءعلیہ السلام اوروہ تیرے باپ کے چچا حمزہ(علیہ السلام) ہیں، اس امت کے سبطین ہم سے ہیں اور وہ دونوں تیرے بیٹے ہیں اور اس امت کے مہدی(علیہ السلام) ہم سے ہیں جن کے پیچھے عیسیٰ(علیہ السلام) نماز ادا کریں گے، پھرحضرت امام حسین(علیہ السلام) کے کاندھوں پر ہاتھ مار کر فرمایا! اس کی اولاد سے اس امت کے مہدی (علیہ السلام)ہوں گے ۔(حوالہ کے لئے: البیان ص۰۲۱، باب الفصول المہمہ ص۶۸۲، دارالاضواء،فصل نمبر ۲۱ ینابیع المودة ص۰۹۴، ۳۹۴، باب نمبر۴۹ تھوڑے سے اختلاف سے )
حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کی والدہ کا نام
اور آپ(علیہ السلام) کا حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)کی اولاد سے ہونامشہور اہل لغت مفسر ابن خشاب سے بیان ہوا ہے، وہ کہتا ہے: مجھے ابوالقاسم طاہر بن ہارون بن موسیٰ الکاظم نے اپنے باباسے یہ بات نقل فرمائی اور اپنے دادا سے بھی اسی بات کو نقل کیا کہ میرے سردار جعفر بن محمد(علیہ السلام) نے مجھ سے فرمایا”الخلف الصالح میری اولادسے ہیں اور وہ ہی مہدی(علیہ السلام) ہیں، ان کا نام محمد ہے، ان کی کنیت ابوالقاسم علیہ السلام ہے ،وہ آخری زمانہ میں خروج فرمائیںگے “۔ انکی والدہ کو نرجس(سلام اللہ علیہا) کہا جاتا ہوگا، انکے سر پر ایک بادل ہوگا جو انہیں سورج کی گرمی سے محفوظ رکھے گا، وہ بادل اس جانب جائےگا جس طرف وہ تشریف لے جائیں گے اور اس بادل سے مسلسل یہ اعلان ہوتا جائے گا اور وہ فصیح اور واضح زبان میں کہہ رہا ہو گا لوگو!یہ مہدی(علیہ السلام) ہیں تم سب لوگ ان کی پیروی کرو“۔ (بحوالہ ینابیع المودة ص۱۹۴ حافظ ابونعیم الاصفہانی کی کتاب الاربعین سے اس بات کو نقل کیاہے)
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) حضرت امام رضا (علیہ السلام)کی اولاد سے
جناب حسن بن خالد سے روایت ہے، وہ کہتا ہے مجھ سے حضرت علی بن موسیٰ الرضا(علیہ السلام) نے فرمایا! ”اس کا کوئی دین نہیں ہے جو گناہوں سے خود کونہیں بچاتا تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ کرامت والا وہی ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہوگا“۔یعنی تم میں سے جو سب سے زیادہ تقویٰ کے بارے آگاہ ہو اور تقویٰ پر عمل کرتا ہو پھر آپعلیہ السلام نے فرمایا ”میری اولاد سے چوتھے جو کہ سیدة الاماء(کنیزوں کی سردار)کے سردار کے بیٹے ہوں گے ان ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ زمین کو ظلم اور جور سے پاک و طاہر کردے گا( حوالہ :ینابیع المودة ص۸۴۴،۹۸۴کتاب فرائدالسمطین سے نقل کیاہے)
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے والد کانام اور ان کا حلیہ مبارک
الرویانی، الطبرانی اور ان کے علاوہ دوسرے مورخین اور محدثین نے اس بات کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے”مہدی(علیہ السلام) میری اولاد سے ہیں ،ان کا چہرہ دمکتے چمکتے ستارے کی مانند ہوگا، ان کا رنگ عربی ہوگا، ان کا قدوقامت اسرائیلی مردوں جیسا طویل ہوگا، وہ زمین کو عدالت کے نفاذ سے آباد کردیں گے جس طرح زمین ظلم وجور کے نظام سے ویران و برباد ہو چکی ہوگی، زمین اور آسمان والے ان کی زمین پر قائم خلافت اور حکومت سے خوش ہوں گے ۔
حلیہ مبارک بارے مزید بیان
آپعلیہ السلام کے حلیہ مبارک کے متعلق مزید اس طرح بیان ہوا ہے، آپ جوان ہوں گے، آپ علیہ السلام کی دونوں آنکھیں سرمئی رنگ کی ہوں گی، آپ علیہ السلام کے دونوں جاحب باریک ہوں گے، آپ علیہ السلام کی ناک مبارک اوپر اٹھی طویل ہوگی گھنی داڑھی ہوگی، آپ علیہ السلام کے دائیں رخسار پر خال (تل)ہوگا۔شیخ قطب الغوث، میرے سردار جناب مح ¸ الدین ابن العزبی نے اپنی کتاب الفتوحات میں لکھا ہے یہ بات جان لو کہ حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا خروج یقینی ہے لیکن وہ خروج نہیں کریں گے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی، تب وہ آئیں گے اور زمین کو عدالت اور انصاف کے نفاذ سے بھر دیں گے، وہ رسول اللہ کی عترت سے ہیں فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی اولاد سے ہیں، ان کے جد امجد حسین بن علی بن ابی طالب(علیہ السلام) ہیں اوران کے والد امام الحسن العسکری علیہ السلام بن الامام علی النقی علیہ السلام ہیں، وہ الامام محمد التقی بن الامام علی رضعلیہ السلام بن الامام موسیٰ الکاظم علیہ السلام ابن الامام جعفر الصادقعلیہ السلام ابن الامام محمد الباقرعلیہ السلامبن الامام زین العابدین علی بن الحسین علیہ السلام بن علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں، ان کانام رسول اللہ کا نام ہے، رکن اور مقام کے درمیان مسلمان ان کے ہاتھ پربیعت کریں گے، خلقت میں رسول اللہ سے شباہت رکھتے ہوں گے اخلاق بھی رسول اللہوالا ہوگا، تمام انسانوں میں کوفہ والے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت ہوں گے ،مال کو مساوی تقسیم کریں گے،خضر آپ علیہ السلام کے آگے آگے چلیں گے۔
حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کے اوصاف حضرت ولی العصر(علیہ السلام) حجت علیہ السلامخدا صاحب الزمان علیہ السلام کا حلیہ مبارک ہمارے اس مقالے کا عنوان ہے ”جمال یار“ یہ مقالہ جوادجعفری نے تحریر کیا ہے یہ سہ ماہ جریدے ”انتظار“ کے دوسرے سال کے پانچویں شمارے میں قم المقدسہ ایران سے شائع ہوا ہے یہ مضمون حضرت امام زمانہ(علیہ السلام)کی معرفت کے حوالے سے ہے اور ہر زمانے کے امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنا اس زمانے کے لوگوں پر واجب ہے یہ معرفت امام زمانہ(علیہ السلام) کا مسئلہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت نبی کریم نے اپنی آغاز رسالت ہی میں اپنی امت سے کہہ دیاتھا کہ ”جس شخص نے اپنے زمانے کے امام علیہ السلامکی معرفت حاصل نہ کی وہ جہالت اور کفر کی موت مر گیا“۔ حضرت پیغمبر اور ان کے بعد ان کے جانشین آئمہ طاہرین علیہ السلام نے لوگوں کے عقل و فہم اور شعور کو سامنے رکھ کر امام زمانہ(علیہ السلام) کی شناخت اور معرفت کے حوالے سے مختلف احادیث ارشاد فرمائیں جو مختلف کتب میں موجود ہیں ان میں عقلی دلائل بھی موجود ہیں، قرآنی استدلال بھی ہیں اور روایات بھی ہیں.... سابقہ انبیاءعلیہ السلام کے حوالے بھی ہیں.... البتہ ان میں سے ہر شخص اپنے علم اور شعور و آگاہی کے ذریعے ہی اپنے ظرف کے مطابق اخذ کرتا ہے.... بہر حال امام زمانہ(علیہ السلام) کی معرفت ہر حال میں معاشرے کے تمام طبقات پر لازم اور واجب ہے، حضرت نبی اکرم اور آئمہ معصومین علیہ السلام نے معاشرے کے تمام طبقوں کو مدنظر رکھ کر احادیث بیان فرمائی ہیں اور یہ سادہ سے سادہ اور دقیق سے دقیق نہج پر ہر طبقہ کے لئے موجود ہیں۔ زیر نظر مقالہ حضرت امام زمانہ(علیہ السلام) کے حوالے سے ہے اور ظاہر ہے ان کی معرفت اور پہچان ایک خاص اہمیت کی حامل ہے.... اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے جتنے امام علیہ السلامرہے، ہر زندہ امام علیہ السلامنے اپنے بعد میں آنے والے امام علیہ السلام کی معرفت کروائی.... اور امام علیہ السلام کی زندگی میں ہی آئندہ امام علیہ السلام کا تعارف ہو جاتا تھا.... لیکن اس وقت جس امام علیہ السلام کی ہم رعیت ہیں، امام زمانہ(علیہ السلام) کی ولادت ہی سے آپعلیہ السلام کا سلسلہ مخفی تھا، کیونکہ یہ آپعلیہ السلام کی حفاظت کے حوالے سے ساراالٰہی انتظام تھا، لہٰذا ان کی پہچان اور معرفت کروانے کے لئے عہدرسالت ہی سے اس کا اہتمام کیا گیا اور حضوراکرم نے نہ فقط یہ بتایا کہ فلاں میرے بارہویں جانشین ہیںم بلکہ اپنے بارہ جانشینوں کے اسماءمبارکہ، ان کے حلیہ ہائے مبارکہ، ان کے خدوخال اور خصوصیات تک کو ذکرکیااور موجودہ امام علیہ السلام کی غیبت کے بارے میں بھی بڑی تفصیل سے بیان کیا اور یہ تذکرے فقط شیعہ کتب میں ہی نہیں غیر شیعہ کتب میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے جیسا کہ آپ اس کتابچہ میں ملاحظہ فرما رہے ہیں.... بلکہ یہ کہنے میں بھی سو فیصدہم حق بجانب ہیں کہ آخری پیغمبراکرم کے آخری وصی علیہ السلامکا تعارف سابقہ آسمانی کتابوں میں اور سابقہ انبیاءعلیہ السلام سے، جو ان کے اوصیاءکے کلمات نقل ہوئے ہیں یا سابقہ امتوں کے جوواقعات نقل ہوئے ہیں، ان میں بھی یہ تذکرے موجود ہیں.... اور ابھی بہت سارے ادیان جو انحرافی شکل میں اس دنیا میں موجود ہیں حتیٰ کہ ہندو ازم ،بدھ مت کو بھی لے لیں، تو ان کے ہاں بھی اےک عالمی مصلح کا تصور موجود ہے اور ہر جہت میں ےہ واضح ہے ....اس مقالے میں ہم حضرت ولی العصر(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کے وجود مبارک اور آپ کے خدوخال کے بارے میں جان سکےں گے اور ہم ےہ سب کچھ اس لےے کتابچہ میں دے رہے ہیںتاکہ جو مومنےن انتہائی سادہ قسم کے ہیں اور علمی بحثوں سے ان کا سروکار نہیں ہے وہ بھی اپنے وقت کے امام علیہ السلام کی شخصےت اور وجود مبارک کے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں، حضرت امام زمانہ(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کی ظاہری پانچ صفات ہمارے مدنظر ہیں جو عام لوگوں کے لےے ہیں، جن کےلئے اپنے زمانے کے امام علیہ السلام کی پہچان کا بہترےن راستہ یہی ہے دوسری بات ےہ ہے کہ جو عقلی اور نقلی رواےات اور قرآنی دلائل سے کسی بات تک نہیںپہنچ سکتے ان کے لےے ےہ حتمی اور دو ٹوک رائے بھی ہے ۔ اور اہل علم کے لےے بھی اےک جمالےاتی تذکرہ موجود ہے، نیز جو امامت علیہ السلام کے جھوٹے دعوےدار ہیں کہ ان کے دعوﺅں کو جھٹلانے کے لےے بھی ےہ دلائل موثر ہیں ۔
مہدويت اےک عنوان و نظرےہ ہی نہیں بلکہ اےک مخصوص شخصےت ہیں
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مہدويت علیہ السلام اےک نظرےہ اور عنوان ہے اور ےہ کسی اےک خاص شخص کے حوالے سے نہیں ہے ....ےہ بیان ان کی بات کی بھی رد ہے کہ مہدی(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) صرف اےک نظرےہ اور عنوان ہی نہیں ہے بلکہ وہ اےک حقیقی وواقعی شخصےت ہیں ....وہ ایک معنوی اور تصوراتی چےز نہیں بلکہ اےک حقےقی اور واقعی شخصےت کا نام مہدیعلیہ السلام ہے ....نےز عاشقان امام علیہ السلام کے لےے اپنے امام علیہ السلام کے مقدس وجود کو محسوس اور مشاہدہ کرنے کے لےے ےہ اوصاف موثرترےن ذرےعہ ہیں ۔اس مقالے میں بحث کی جو روش اختیار کی گئی ہے کہ مختلف افراد جو حضرت نبی اکرم اور آئمہ طاہرین (علیہم السلام)کے تشریف لائے تو آپ(علیہم السلام) حضرات نے اپنے اس فرزند کی ایک ہی صفت کو مختلف پیرائے اور لفظوں میں بیان کیا ہے۔ ہم نے اس بحث میں اس حوالے سے ملنے والی تمام روایات کو نقل کیا ہے اگر چہ وہ روایات ایک دوسرے سے مشابہت بھی رکھتی ہیں، مگر تھوڑی سی لفظی تبدیلی کے ساتھ راوی مختلف ہیں.... مفہوم ایک ہی ہے، ایک اور بات یہ ہے کہ بنیادی طورپر مصادر و مدارک و اسفاءکے تمام تفصیلی حوالے مہیا کئے گئے ہیں بالخصوص دوکتب اکمال الدین اور غیبت نعمانی.... ان کے فارسی تراجم کو سامنے رکھ کر اس کا سادہ اور سلیس اردو ترجمہ کیا ہے ، حضرت ولی العصر(علیہ السلام)کے وجود مبارک کے اعضائے مقدسہ کی تعریف و توصیف میں جوچیز کلی طورپر بیان ہوئی ہے وہ پانچ عناوین کے تحت ہے۔ ۱۔ حضرت امام زمانہ (عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) کن کی شبیہ ہیں۔ ۲۔ حضرت حجت(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) خدا کا حسن و جمال ۔ ۳۔ حضرت صاحب الزمان (عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کا سن مبارک۔ ۴۔ حضرت ولی العصر(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف )کاقدو قامت ۔ ۵۔ حضرت بقیة اللہ(عج اللہ تعالیٰ فرجہ الشرےف ) کے رخسار مبارک۔ اب ہم ان تمام عناوین پر فرداًفرداً روایات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ عربی میں تو ایک بات کئی کئی پیرائے سے بیان ہوئی ہے اس کے مقابلے میں اردو زبان کا دامن تنگ نظر آنے لگتا ہے کیونکہ عربی ادب کی فصاحب کے سامنے.... اردو ادب میں ہمیں محدود الفاظ ہی ملیں گے، یہاں ہم وہ مشترکہ باتیں بیان کریں گے جو تمام روایات میں ذکرہوئی ہیں اور اپنے معزز قارئین کے استفادہ کے لئے تمام حوالوں کو تحریر کررہے ہیں تاکہ وہ حسب ضرورت ان کتابوں سے رجوع کرکے مزید تفصیلات جان سکیں |